خلافت کے زیر سایہ عالمگیر وحدت کا قیام

تقریر جلسہ سالانہ برطانیہ 2018ء

مولانا عطاءالمجیب راشد، امام بیت الفضل لندن

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا

ابتدائیہ:

’’ خلافت کے زیرِ سایہ عالمگیر وحدت کا قیام‘‘

یہ ہے وہ موضوع جس پر مجھے آپ سے کچھ عرض کرنا ہے۔

خلافت کا مضمون جماعت احمدیہ کے لئے رگِ جان کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النور کی آیت نمبر 56 میں خلافت کے بابرکت انعام کے حوالہ سے مسلمانوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ اے مسلمانو!   تم میں سےجو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گاجیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایااور ان کے لئے دین کو، جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ، ضرورتمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کرینگے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گےاور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح کی دو شرائط سے مشروط، امتِ مسلمہ سے خلافت کے قیام کا حتمی وعدہ فرمایا ہے۔ نبیوں کی آمد کا مقصد دنیا میں توحید کا قیام ہوتا ہےاور خلافت ِ حقہ کی بھی یہی نشانی رکھی گئی ہے کہ اس کا بنیادی اور آخری مقصد توحید اور وحدت کا قیام ہے اور یہی بات میری تقریرکا مرکزی نکتہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔

وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (آلِ عمران آیت 104)

کہ اے مومنو ! اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ نہ کرو۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت اور وحدت کا ذریعہ حبل اللہ کی صورت میں اتارا ہے۔ حبل اللہ سے مراد دینِ اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کا مقدس وجود بھی ہے اور مسیح پاک ؑ کا وجود بھی جن کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ساری دنیا کے لئے مبعوث کیا گیا ۔ پھر اس سے مراد خلافت احمدیہ بھی ہے جس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق ہماری ترقی ، وحدت اور نجات کا وسیلہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور پکڑے رکھنا ہمارا فرض ہے۔

خلافت۔ عالمگیر وحدت کا پیغام:

حضرات ! تقریر کے عنوان میں عالمگیر وحدت کا لفظ استعمال ہوا ہےجو گہری حکمت اور صداقت پر مبنی ہے۔ اس کے مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔وحدت کا مضمون اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں واحد و یگانہ ہے۔ کوئی اس کا ہمسر نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا واحد خالق و مالک ہے ۔ اس کی صفت رب العالمین اسکے اعلیٰ مقام کی نشان دہی کرتی ہے ۔ پھر اس نے جو کتاب ِ ہدایت قرآن شریف کی صورت میں دنیا کو عطا فرمائی وہ ساری دنیا کے لئے ، ہر اسود و احمر کے لئے ایک عالمگیر کتاب ِ ہدایت ہے جیسا کہ فرمایا کہ یہ ھدی ً للناس ( البقرہ آیت 186) ہے۔ ہمارے پیارے آقا ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیّن کا منصب عطا فرمایا ہے ۔ اس میں اکملیت ، افضلیت اور عالمگیر یت کا مضمون پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ آپ یہ اعلانِ عام فرما دیں کہ

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا(الاعراف 159)

کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ یہ عالمگیر نبوت کا ایسا عظیم الشان اعلان ہے جس میں کوئی نبی بھی آپ کا ہمسر نہیں ۔ آپ ؐ کے وصال کے بعد تائیدالٰہی سے جو خلافتِ راشدہ قائم ہوئی اس کا دائرہ بھی عالمگیر تھا اور ہر خلیفۂ راشد کو خلیفۃ الرسول کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ عالمگیر پیغامِ نبوت عالمگیر سلسلۂ خلافت کے ذریعہ ممکن حد تک اکنافِ عالم میں پھیلتا چلا گیا اور جب دورِ آخَرین میں اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ اشاعت ِ دینِ اسلام کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو آنحضرت ﷺ کے امتی اور ظلی نبی ہونے کے لحاظ سے آپؑ کا دائرہ کار بھی سب دنیا پر محیط تھا اور آپؑ نے حقیقی اسلام کا پیغام ساری دنیا میں پھیلایا۔اپنی بعثت کا دائرہ بیان کرتے ہوئے خود آپ ؑنے فرمایا:

’’ اب اللہ تعالیٰ کا یہی ارادہ ہے کہ تمام قوموں کو جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ایک بنا دے‘‘ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 76)

آپ نے مزید فرمایا :

’’ خدا تعالیٰ چاپتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ،اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا‘‘ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307)

آپؑ نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ جماعت کی ترقی اور عالمگیر وسعت اور وحدت کا سلسلہ آپؑ کی وفات کے بعد بھی جاری رہے گا۔ آپؑ نے لکھا کہ خدا تعالیٰ کا مجھ سے وعدہ ہے کہ

’’ وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا ۔ کچھ میرے ہاتھ سے اورکچھ میرے بعد‘‘ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304)

آپؑ کے وصال کے بعد جب خدائی وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ میں قدرتِ ثانیہ کا ظہور ہوا اور خلافت راشدہ احمدیہ کا قیام ہوا تو اس حوالہ سے حقیقی اسلام کی فیضان رسانی کاسلسلہ عالمگیر انداز میں جاری ہوگیا ۔ عالمگیریت کا مضمون ہر زمانہ کے وسائل اور ذرائع ابلاغ پر منحصر ہوتا ہے اور ہر دم وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ اس دورِ آخرین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ سوشل میڈیا اور باہم رابطہ کے وسائل کی ہمہ گیر وسعت کی وجہ سے ساری دنیا ایک مٹھی میں سمٹ کر GLOBAL VILLAGEکی صورت اختیار کرچکی ہے ۔ قرآنی پیشگوئی وَاِذَا النَّفُوسُ زُوِّجَتْ   (سورۃ التکویر8) کا کامل ظہور ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے ۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے :

’’ اِس زمانہ کے لئے ایسے سامان میسر آگئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں‘‘ (چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76)

پس یہ مبارَک دورِ خلافتِ خامسہ جس میں موجود ہونے کی سعادت ہم سب کو حاصل ہے ۔ اِس دور میں جس کثرت اور وسعت سے اسلام کی اشاعت اکنافِ عالم میں ہورہی ہے وہ ہر لحاظ سے بے مثل اور یکتا ہے اور خلافت کے عالمگیر فیضان کے زیرِ سایہ وحدت کا مضمون اتنی وسعت سے جلوہ گر ہے کہ گذشتہ تاریخ میں اس کی مثال نظر نہیں آتی۔

امن اور اتحاد کی عالمگیر مہم

سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور مذہبی سربراہا ن کو الگ الگ نہایت مؤثر خطوط لکھ کر امن و سلامتی کی خاطر متحد ہو کر کام کرنے کی دعوت تھی۔ اور پھر دنیا کے قریباً سب بڑے بڑے ملکوں کا دورہ کرکے سربراہان سے براہِ راست گفتگو میں بھی یہی پیغام دیا۔ ان سفروں میں حضورانور ایّدہ اللہ نے برطانیہ، جرمنی، امریکہ ، یورپین یونین،نیوزی لینڈ، اورکینیڈاوغیرہ کے حکومتی ایوانوں میں متعدد بار نہایت مؤثر انداز میں خطاب فرمایا۔ ان خطابات کی پریس میں خوب تشہیر ہوئی۔ لندن میں گزشتہ پندرہ سال سے ایک امن کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس میں حضور انور کے پرشوکت خطاب کو جو عالمگیر وحدت کے پیغام پر مشتمل ہوتا ہے غیر معمولی توجہ سے سنا جاتا ہے۔ ہر سال دنیا میں امن کے لئے بے لوث خدمات بجالانے والی شخصیت کو امن ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے ۔ امن کی راہوں کی نشاندہی کرنے کےساتھ ساتھ باہم محبت و احترام اور انسانیت کی خدمت کے لئے متحد ہونے کا پیغام بھی دیا جاتا ہے۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے یہ بھرپور کوششیں عالمگیر وحدت کے قیام کی راہوں کو ہموار کرنے کی نہایت اعلیٰ اور مؤثر مثال ہیں۔

امن کی عالمگیر دعوت سے دلوں کی تسخیر

حضرات! حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے ساری دنیا میں امن کے پیغام کی اشاعت اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں اسلام کے عافیت بخش پیغام کی منادی کی ہے اس کا اتنا گہرا تاثر قائم ہوا ہے کہ اب اِن ملکوں میں حضور انور کو امن کے سفیر کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے سربراہان میں یہ فکری وحدت پختہ تر ہوتی جارہی ہے کہ اگر دنیا میں واقعی امن قائم کیا جاسکتا ہے تو اُن نظریات کو اپنانے سے ہی ممکن ہے جو حقیقی اسلام پیش کرتا ہےاور جن کی منادی حضرت امام جماعت احمدیہ کی زبان سے ہو رہی ہے ۔ سربراہان مملکت اور دنیا کے دانشوروں پر یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن ترہوتی جارہی ہے اور اب تو وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم عمائدین کے اعترافات کا باب بہت وسیع ہے ۔ ان میں سے ایک مثال پیش کرتا ہوں جو اس بات پر شاہدِ ناطق ہے کہ خلیفۂ وقت کی زبانِ مبارک سے بیان کردہ نظریات دنیا کے دلوں کو فتح کرتے چلے جارہے ہیں۔

2012 میں حضور انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا ۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطاب میں شمولیت کے لئے آئے تھے، موصوف انٹرفیتھ انٹرنیشنل کے نمائندہ اورایک رفاہی تنظیم Feed a Familyکے بانی صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں ۔ انہوں نے کہا:

’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادوکا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اِس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دِنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا ۔ اب حضور کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقط ٔنظر کو کلیتہً تبدیل کر دیا ہے۔‘‘ (بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈامئی 2018 صفحہ 20)

یہ ایک مثال ہے سینکڑوں مثالوں میں سے ۔ جن سے پتہ لگتا ہے کہ آج خلافت احمدیہ دنیا کو صحیح اسلامی نظر یات عطا کر کے ایک نظریاتی انقلاب پید ا کررہی ہے۔ خلافت کی برکت سے دلوں میں ایک وحدت اور یگانگت پیدا ہوتی جارہی ہے!

’’ہر قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی ‘‘

آج سے 129 سال قبل قادیان کی ایک چھوٹی سی بستی سےجس کے بارہ میں کیا خوب کہا گیا کہ

کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

ہاں اسی گمنام سی بستی سے ایک آواز اٹھی تھی جس کے بارہ میں خدائے قادروقیوم نے فرمایا کہ ’’ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ یہ آواز کیا تھی ۔ایک چھوٹا سا بیج تھا جو خدائی اذن سے بویا گیا اور بڑھتے بڑھتے ایک عالمگیر شجرۂ طیبہ بن گیااور ہر آن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ احمدیت کا یہ مقدس شجر آج دنیا کے 212 ملکوں پر سایہ فِگن ہے۔ احمدیت ایک روحانی چشمہ کا نام ہےجس کے بارہ میں بانیٔ جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر فرمایا تھا کہ

’’ ہر قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی‘‘ ( الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409)

اے سننے والو سنواور غور سے سنو کہ یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پوری ہوچکی ہے اس روحانی چشمہ کا فیضان دن بدن بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی بابرکت زندگی میں ہی احمدیت کے شجر طیبہ کو شیریں پھل لگنے شروع ہوگئے اور مختلف مذاہب کے حق پرست لوگوں نے آسمانی آواز پر لبیک کہا ۔ ہندوستان اور بیرونی ممالک میں مختلف قومیتوں اور نسلوں کے افراد احمدیت کے دامن سے وابستہ ہوئےاور پھر جب آپ کے وصال کے بعد خلافت احمدیہ کا آغاز ہوا تو ہر دورِ خلافت میں یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ آسمان ِ احمدیت روشن ستاروں سے سجنے لگااور اکنافِ عالَم میں خلافت کی برکت سے یہ کہکشاں روشن تر ہونے لگی۔ ملک ملک مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے فداکار اور جانثار خدامِ احمدیت کی ایک لمبی فہرست ہے جو خلافتِ حقہ اسلامیہ احمدیہ کے ذریعہ احمدیت کی آغوش میں آئے اور احمدیت کے نور سے منور ہوکر امتِ واحدہ کا دلکش نظارہ پیش کرتے رہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری اور ترقی پذیر ہے۔ کیا ہی پرلطف نظارہ ہماری نظروں کے سامنے آتا ہےجب ایک طرف بلاد عربیہ میں السید منیر الحصنی ، طہٰ قزق، مصطفے ٰ ثابت اور حلمی الشافعی جیسے صلحاءُ العرب نظر آتے ہیں اور مغربی دنیا میں بشیر احمد آرچرڈ ۔عبدالسلام میڈسن ۔ سوینڈ ہینسن۔ عبدالہادی کیوسی ۔ ناصر احمد سکرونر اور ہدایت اللہ ہُبش جیسے ممتاز خدامِ دین پر نظر پڑتی ہے۔ روس میں راویل بخارائیو ، چین میں محمد عثمان چاؤ ، افریقن ممالک میں عبدالوہاب بن آدم ، اسمٰعیل بی کے آڈو ، عمری عبیدی اور سر ایف ایم سنگھاٹے جیسے وجودوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے دینی خدمات کے ساتھ ملک و قوم کی بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ خدام ِ دین اور بزرگوں کی یہ چند مثالیں ہیں جنہوں نے خلافت کے زیر سایہ بے لوث خدمات سرانجام دے کر عالمگیر وحدت کے انمٹ نقوش اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔

عالمگیر وحدت کا ایک نمونہ۔ جلسہ سالانہ

عالمگیر وحدت کی ایک خوبصورت مثال جماعت احمدیہ کا عالمگیر جلسہ سالانہ ہے جس کا آغاز 1891میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے قادیان میں ہوا۔ پُرسوز دعاؤں سے جاری ہونے والا یہ جلسہ سالانہ اب ایک عالمگیر شجرۂ طیبہ بن چکا ہے اور ہر سال اکنافِ عالم میں یہ جلسے بڑے اہتمام سے منعقد ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ عالمگیرکا مرکزی جلسہ سالانہ ہر سال برطانیہ میں منعقد ہوتا ہے جو بلاشبہ خلافت کے زیرسایہ عالمگیر وحدت کا ایک فقید المثال روحانی اجتماع ہے جس میں دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک سے عشاقِ اسلام پروانہ وار شامل ہوتے ہیں ۔ خلیفہ وقت کی بابرکت شمولیت اور پر معارف خطابات کی برکت سے یہ تین دن رات ایسا روحانی ماحول پیدا کر دیتے ہیں جو شاملین ِجلسہ کو روحانی سکون اور سرور عطا کرتا ہے ۔ جو ایک دفعہ اس جلسہ میں شامل ہوجاتا ہے وہ بار بار آنے کی تمنا اور عزم لیکر واپس لوٹتا ہے۔ اس جلسہ سالانہ میں غیر از جماعت اور غیر مسلم معزز مہمان بھی اکنافِ عالم سے آتے ہیں اور برملا اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ اس روحانی جلسہ میں شا مل ہو کر تو ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں۔پُرامن اسلام کی زندہ تصویر دیکھ کر اور بالخصوص حضور انور کے پرمعارف خطابات سن کر اور حضور انور سے ملاقات کا شرف پاکر تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ہے۔ مختلف رنگ و نسل اور قومیتوں کے لوگ اجنبیوں کی طرح آتے ہیں اور محبت بھرے جذباتِ اخوّت سے،ایک بار پھر واپس آنے کا عزم لے کر ، بھیگی آنکھوں کے ساتھ ،واپس جاتے ہیں ۔ بلا شبہ یہ روحانی جلسہ جس میں آپ سب اس وقت شامل ہیں اور جو برطانیہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا سالانہ جلسہ ہے، خلافت کے زیر سایہ عالمگیر اخوّت اور وحدت کا بے مثال نمونہ ہےحضرت مسیح پاک علیہ السلام نے بھی جلسہ کا یہی مقصد بیان فرمایا کہ یہ جلسہ ’’تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کے لئے‘‘ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 341) ۔

ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑا کے دیکھئے آپ کو ہر رنگ ونسل کے اور دنیا کی مختلف زبانیں بولنے والے ہزاروں افراد نظر آئیں گےجو عالمگیر خلافت احمدیہ کے سایہ تلے آکر آپس میں اس طرح گلے ملتے ہیں جیسے دو بھائی آپس میں بغل گیر ہوتے ہیں۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس محبت وپیار کی فضا اور باہم اخوّت اور وحدت کی مثال دنیا میں ڈھونڈے سے نہیں مل سکتی ہے۔ لاریب آج بکھری اور ٹوٹی ہوئی انسانیت کو اکٹھا کرنے والی یہی خلافت احمدیہ ہے۔ ساری انسانیت کو ایک وحدت کی لڑی میں پرونے والی یہی واحد روحانی طاقت ہے!

عالمگیر وحدت کا ایمان افروز نمونہ۔ عالمی بیعت

خلافت کے سایہ میں جماعت احمدیہ ساری دنیا میں وحدت ِ انسانیت کی علمبردار جماعت ہے۔ اس کا ایک دلربا نظارہ ہر سال جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ پر عالمی بیعت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس بیعت میں دنیا کے ساتوں براعظموں کا ایک ایک نمائیندہ وقت کے روحانی امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے دستِ مبارک کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور باقی سارے احباب اگلے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر خلیفۂ وقت کے ساتھ ایک جسمانی رابطہ قائم کرتے ہیں اور پھر بیعت کے الفاظ اردو اور انگریزی میں دہراتے ہیں جبکہ دنیا کی متعدد زبانوں میں بیک وقت ان الفاظ کا ترجمہ دہرایا جاتا ہے۔ اس ساری کاروائی کی بازگشت ساری دنیا میں گونجتی ہے ۔ سینکڑوں ممالک میں ، ہررنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد بیک وقت جماعت احمدیہ عالمگیر میں داخل ہو کر وحدتِ اقوامِ عالَم کا ایسا روح پرور نظارہ پیش کرتے ہیں جو ساری دنیا میں اپنی نوعیت کا عدیم المثال نمونہ ہے ۔ خلافت کے سایہ میں عالمگیر وحدت کا کارواں آگے سے آگے بڑھتا جارہا ہے!

ابتلاؤں میں وحدت کی بقاء

ابتلاء اور مصائب الٰہی جماعتوں پر بھی آتے ہیں لیکن الٰہی جماعتوں پر ان کا اثر دنیاوی جماعتوں سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ الٰہی جماعتیں اپنے ایمان میں مستحکم اور ابتلاؤں کے سامنے ثابت قدم رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ وعدہ دیا ہوا ہے کہ وَلَیُبَدِّ لَنَّھم مِنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنا   (سورۃ النور آیت 56) کہ اللہ تعالیٰ ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا۔ جماعت احمدیہ کی ساری تاریخ اس وعدہ الٰہی پر شاہد ِناطق ہے۔ خلافت کے ہر دور میں عظیم الشان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مخالفتوں کے طوفان بھی اٹھتے رہے، سخت مشکل مراحل آتے رہے لیکن ہر موقعہ پر ساری کی ساری جماعت خلافت کے سایہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ثابت قدم اور متحد رہی اور مِن حیث الجماعت ، ہر ابتلاء کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکرابھری۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا ایک ایک باب اس بات پر گواہ ہے کہ ہر ابتلاء جماعت کے لئے مزید استحکام اور ترقی کی نوید بن کرآیا۔ یہ سب کچھ محض اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم ہونے والی اس جماعت کے سر پر خلافت احمدیہ کا تاج سجایا گیا ہے ۔ خلیفۂ وقت کا مقناطیسی وجود ہر مشکل گھڑی میں سایہ ٔ رحمت بن کر ان کو متحد رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوا۔ خلافت کے سایہ میں وحدت، اتحاد اور ترقی کے نظارے جماعت احمدیہ کو نصیب ہیں اور باقی دنیا اس سے محرو م ہے!

ایک عالَم جل رہا ہے دھوپ میں بے سائباں               شکر ہے مولیٰ ! ہمیں یہ سایہ ٔ رحمت ملا

وحدت کا عالمگیر ذریعہ ۔MTA

ایک وقت وہ تھاجب ساری دنیا میں جماعت کے پاس اپنا کوئی نشریاتی نظام نہ تھا۔ نہ ریڈیو تھا نہ TV۔ کسی ریڈیو پر چند منٹوں کا وقت لینا بھی مشکل ہوتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیاکہ اللہ تعالیٰ نے گویا چھپر پھاڑ کر MTAکا عظیم عالمگیر تحفہ کچھ اس انداز میں اچانک مہیا کردیا کہ کسی کو بھی اس کی توقع نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا:

اسمعو صوت السماء جاءالمسیح جاء المسیح

کہ آسمان کی آواز سنوجو یہ اعلان کر رہی ہے کہ مسیح آگیا ۔ مسیح کا ظہور ہوگیا۔ آپ کا یہ اعلان ان آسمانی نشانوں سے متعلق تھا جو پے درپےظاہر ہوکر آپ کی سچائی کا اعلان کررہے تھے لیکن دیکھو کہ خدائے ذوالمِنَن نے کس طرح اس بات کو لفظاً اور معناً بھی حقیقت بنا دیا کہ آج سارے عالَمِ اسلام میں صرف ایک جماعت احمدیہ ہے جس کا اپنا ایک مستقل ٹیلی ویژن ہےجو 24 گھنٹے دنیا کی 27 زبانوں میں اسلام و احمدیت کا پیغام نشر کر رہا ہے۔ آج دنیا میں کسی اور مذہب کا کوئی ایسا نشریاتی ادارہ نہیں جس کی آواز بیک وقت ساری دنیا کے چپہ چپہ میں سنائی دیتی ہو اور ساری دنیا کو وحدت کا پیغام دیا جاتا ہو۔

اے دنیا کے بسنے والو ! اے جزائر کے رہنے والو! اے جنگلات کے باسیو! اٹھو ! اپنے ٹیلی ویژن ONکرکے اس آسمانی آواز کو سنو جو آج تمہارے گھروں میں پہنچ چکی ہے۔اورتمہیں سرکار دوعالَم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا پیغام دے رہا ہے ۔ ہاں یہ وہی آواز ہے جو ایک زمانہ میں قادیان سے اٹھی تھی اور اب دیکھو کہ کس شان کے ساتھ اس کی صدائے دلنواز اور اس کی گونج سارے عالم میں سنائی دے رہی ہے۔

گر نہیں عرشِ معلّٰی سے یہ ٹکراتی تو پھر

سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں

MTAکے ذریعہ عالمگیر وحدت کا کام دو طرح سے ہورہا ہے۔ اس کے پروگراموں کے ذریعہ روحانی، علمی اور تربیتی وحدت کے نظارے اول طور پر جماعت احمدیہ میں نظر آتے ہیں۔ جو آواز خلیفۂ وقت کے مبارک ہونٹوں سے نکلتی ہے وہی آواز اکنافِ عالم میں پھیلے ہوئے کروڑوں احمدیوں کے دلوں کی صدابن جاتی ہے۔ جمعہ کا دن آتا ہے تو ساری دنیا کے احمدی گوش بر آواز ِآقا ہو جاتے ہیں۔ ہر خطبۂ جمعہ روحانیت کا ایک نیا جام لےکر آتا ہے جو دلوں میں علم و عرفان اور ایمان و یقین کے بیج بوتا چلا جاتا ہے۔ اس آواز کا اعجاز دیکھو کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کے دلوں کے زنگ دھلتے چلے جاتے ہیں اور ایمان و یقین اور اطاعت کی کھیتیاں لہرانے لگتی ہیں۔خطبہ جمعہ سن کر دنیا بھر کے احمدی اپنی سمتیں درست کرتے ہیں۔ عالمگیر وحدت کے اس اعجاز کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی!

پھرامام وقت کے خطبات اور دیگر پروگراموں سے صرف احمدی ہی فیض نہیں اٹھاتے بلکہ غیر از جماعت اور غیر مسلم حضرات بھی اس فیض ِعام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک غیر احمدی ملّا کا واقعہ سن لیجئے ۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ہندوستان کے ایک مبلغ نے مجھے بتایا کہ ان کے علاقہ کے ایک ملاں کے کان میں امامِ وقت کے خطبہ کی آواز پڑی تو انہیں بہت اچھا لگا۔ اتنی ہمت تو نہ تھی کہ کھلے بندوں خطبات سے استفادہ کرتے۔ انہوں نے ہر جمعہ کو اپنے کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے بند کرکے MTAپر خطبہ سننا شروع کیا۔ اتنا پسند آیا کہ نوٹس بھی لینے لگے اور اگلے جمعہ کے دن انہی نوٹس کی بنیاد پر اپنا خطبہ بیان کرنے لگے۔ دو تین ہفتوں کے بعد ان کا ایک مقتدی آیا اور کہنے لگا کہ مولانا! پہلے تو آپ کے خطبات بہت سادہ ہوتے تھے لیکن اب ان خطبات میں روحانیت کی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں پر اثر کرتی ہیں ۔ اس کی وجہ کیاہے ؟ ملاں نے کہاکہ میں اس کایہ تبصرہ سن کرخوش توبہت ہوا لیکن اصل وجہ بتانے کی جرأت نہ کر سکا!

یہ تو ایک مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ MTAسے استفادہ کرنے والے غیر احمدی اور غیر مسلم حضرات میں سے سعید فطرت لو گ اس نورِ معرفت کو پاکر بکثرت احمدیت میں داخل ہورہے ہیں اور اس طرح ان ممالک میں بھی احمدیت کا فیض پھیل رہا ہے جہاں کھلے بندوں تبلیغ کی اجازت نہیں۔

ایمان افروز جلوے

خلافت کے زیرِ سایہ عالمگیر وحدت اور تائید الٰہی کے ایمان افروز نظارے ہر آن اور ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں ۔ ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں۔

خلافتِ خامسہ کا آغاز ہوتے ہی وحدت کاکیا دلفریب نظارہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کو دکھایا کہ خلیفہ منتخب ہونے کے بعد، حضورانور ایّدہ اللہ کے پہلے ارشاد کی تعمیل میں سارا عالَمِ احمدیت فوراً بیٹھ گیا حتی کہ سات سمندر پار کے احمدی بھی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔ پھر خلافت جوبلی کے جلسہ میں ایک فرمان پر سارا عالَمِ احمدیت کھڑا ہوگیا۔ جب حضورانور ایّدہ اللہ نے خلافت سے وفاداری ، اطاعت اور قربانی کا عہد لیاتو یوں لگتا تھا کہ سارا عالَمِ احمدیت سمٹ کر حضور انور کی مٹھی میں آگیاہے!

حضورانور غانا گئے تو دنیا نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضور انور لوائے احمدیت بلند فرما رہے تھے اور ساتھ ہی صدر مملکت اپنے ملک کا جھنڈا بلند کر رہے تھے۔ ایسا نظارہ کینیڈا کی سب سے بڑی مسجد کے افتتاح کے موقع پربھی دیکھنے میں آیا ۔ حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایااور ملک کے وزیر اعظم نے کینیڈا کا جھنڈا بلند کیا۔

ایک وقت تھا کہ جماعت کے مبلغین تبلیغ کے لئے کسی ملک میں جاتے تو انہیں جیل میں ڈال دیا جاتا اور اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ خلیفہ ٔ وقت دورہ پر جاتے ہیں تو کئی ممالک میں انہیں سرکاری طور پر خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔ حکومت کے کارندے اپنے شہروں کی چابیاں خلفاء کی خدمت میں پیش کرنا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ مختلف سربراہان مملکت حضورانور ایّدہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر ملکی معاملات میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور دعا کی بھی درخواست کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس کی تائید و نصرت کا ہر روز ایک نیا باب کھلتا چلا جاتا ہے!

یہ پذیرائی ، یہ عزت ، یہ مقبولیت اور عالمگیر وحدت کے روح پرور نظارے ہم جس کثرت سے دیکھ رہے ہیں یہ سب اس خدائے ذوالجلال کی دین ہے جو ہر عزت و عظمت کا سرچشمہ ہے۔ دنیا کی نظر میں خلیفہ ٔ وقت کے پاس نہ کو ئی تاج ہے اور نہ کوئی تخت، نہ کوئی حکومت۔ لیکن دیکھو! کہ وہ خدائی تائید و نصرت کی برکت سے ‘عالمگیر وحدت کا زندہ نشان بن کر’ اکنافِ عالم میں اپنوں اور غیروں کے دلوں پر حکومت کر رہا ہے ۔ کیا یہ قدرت الٰہی کا کرشمہ نہیں کہ یہ بظاہر بے تاج لیکن روحانی بادشاہ آج کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے ۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

خلافت احمدیہ کے زیر سایہ ۔ وحدت ہی وحدت

آج امتِ مسلمہ اپنی بد قسمتی سے ذہنی ، فکری اور نظریاتی لحاظ سے انتشار اور افتراق کا شکار ہوچکی ہے۔ اس بھیانک پس منظر میں جماعت احمدیہ کی ایک واحد مثال ہے جو اپنے سربراہ کے ہاتھ پر متحد اور منظم ہےاور سربراہ بھی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کامنصب عطا کیا ہے۔ وہی خدا اس کی مدد کرتا ہے اس کی راہنمائی کرتا ہے اور نعمتِ خلافت کی برکت سے جماعت احمدیہ میں ہر پہلو سے وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے۔ اختصار کے ساتھ چند مثالیں پیش کرتا ہوں ۔

  • جماعت احمدیہ ایک خلیفہ ٔ وقت کی قیادت اور راہنمائی میں چلنے والی جماعت ہے ۔ خلافت کی برکت سے جماعت کے اندر نظریاتی اور فکری وحدت کے ساتھ ساتھ عملی وحدت بھی پائی جاتی ہے ۔ جس طرف خلیفۂ وقت کی نگاہ اٹھتی ہے یا کسی جانب ہلکا سابھی اشارہ ہوتا ہے، سارے احمدیوں کا رخ فوری طور پر اسی طرف ہوجاتا ہے۔ اسی وحدت میں جماعت احمدیہ کی عظمت اور ترقی کا راز مضمر ہے۔
  • جماعت کے اندر نظریاتی اور فکری وحدت کے قیام کے لئے ایک جامع نظام جاری ہے۔ ساری دنیا میں مذہبی تعلیم و تربیت کے لئے 13 جامعات قائم ہیں جہاں ایک جیسا نصابِ تعلیم جاری ہے جس سے عالمگیر وحدت پیدا ہوتی ہے۔
  • دینی امور میں راہنمائی کے لئے اِفتاء کا نظام جاری ہے جو خلیفۂ وقت کی نگرانی اور راہنمائی میں کام کرتا ہے اور نظریاتی وحدت کو قائم رکھتا ہے۔
  • جماعت کے اندر ذیلی تنظیموں کا نظام بھی خلیفہ ٔ وقت کی راہنمائی میں کام کرتا ہے اور باہم کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔
  • خلافت کے زیرسایہ ہر ملک میں مجلسِ مشاورت کا نظام بھی جاری ہے ۔ یہ نظام بھی جماعت کی وحدت اور نظریات و خیالات کی یکسانیت کو فروغ دیتا ہے۔
  • رمضان اور عیدین کے موقعہ پر عام مسلمانوں میں اختلاف ایک معمول بن گیا ہے لیکن خلافت کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ کے اندر اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مطالع کے اختلاف سے مختلف ممالک میں الگ الگ تاریخیں ہو سکتی ہیں مگر سب کا فیصلہ ایک متفقہ اصول کے تابع ہوتا ہے۔
  • خلیفۂ وقت کا خطبہ جمعہ ساری جماعت کی یکساں اور بروقت راہنمائی کا ذریعہ ہے اس طرح ساری جماعت میں ایک نظریاتی اور فکری وحدت پیدا ہوتی ہے۔ جماعت احمدیہ کے علاوہ یہ نعمت کسی اور جماعت کو نصیب نہیں ۔
  • خلافت احمدیہ میں خلیفۂ وقت کا وجود مرکزی محور کی حیثیت رکھتا ہے اور سارا نظام خلیفہ وقت کے اشارہ پر متحرک ہوتا ہے اور ساری جماعت یک جان ہوکر ایک سمت میں حرکت کرتی ہے ۔ اس اتحاد اور وحدت کی برکت سے غیر معمولی قوت اور شوکت نصیب ہوتی ہے۔
  • ساری دنیا میں جماعت کے اصول و قواعد یکساں ہیں ۔ اس وجہ سے ہر جگہ یکساں طرز عمل نظر آتا جو وحدت کا شاہکار ہے۔

الغرض خلافت کے زیر سایہ وحدت ہی وحدت نظر آتی ہے!

دورِ خلافت خامسہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت خامسہ کے بارہ میں کیا فرمایا ہے یہ اہم حوالہ خاص توجہ سے سننے کے لائق ہے۔آپ فرماتے ہیں:

’’یہ دور…..انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کی ترقی اور فتوحات کا دور ہے ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے ایسے باب کھلے ہیں اور کھل رہے ہیں کہ ہر آنے والا دن جماعت کی فتوحات کے دن قریب دکھا رہا ہے۔ میں تو جب اپنا جائزہ لیتا ہوں تو شرمسار ہوتا ہوں ۔ میں تو ایک عاجز ، ناکارہ ، نااہل ، پُر معصیت انسان ہوں ۔ مجھے نہیں پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی مجھے اس مقام پر فائز کرنے کی کیا حکمت تھی ۔ لیکن میں یہ بات علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس دور کو اپنی بے انتہا تائیدو نصرت سے نوازتا ہوا ترقی کی شاہراہوں پر بڑھاتا چلا جائے گا ۔ انشاء اللہ ۔ اور کوئی نہیں جو اس دور میں احمدیت کی ترقی کو روک سکے اور نہ ہی آئندہ کبھی یہ ترقی رکنے والی ہے ۔ خلفاء کا سلسلہ چلتا رہے گا اور احمدیت کاقدم آگے سے آگے انشاء اللہ بڑھتا رہے گا۔‘‘ (خطاب 27 مئی 2008 ۔ الفضل انٹر نیشنل 25 جولائی 2008 صفحہ 11)

اختتامیہ:

خلافت کے زیرسایہ جماعت احمدیہ کی وحدت اور اکنافِ عالم میں روز افزوں ترقیات کو دیکھ کر آج دشمنانِ احمدیت لرزہ براندام ہیں۔ حسد کی آگ میں جلتے ہوئے، مختلف ممالک میں مخالفت اور ظلم وستم کے طوفان اٹھ رہے ہیں ۔ ہم خدائی دعووں پر کامل یقین رکھنے والے ہیں ۔ ہمارے پیارے امام کو اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ عطا فرمایا ہے کہ   اِنی مَعَکَ یا مسرور ۔ پس خدائی معیت اور نصرت کاسایہ ہمارے سر پر ہے اور کامیابی ہمارا مقدر ہے۔ صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اطاعت اور وحدت کا بے مثل نمونہ بنتے ہوئے ان سب دعووں کو سچ کر دکھائیں جو ہم ہر بار تجدید بیعت کے وقت کرتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر ایک ، ہر بار یہ کہتا ہے اور سینکڑوں بار کہتا آیا ہے کہ اے میرے آقا! میں آپ کے ہر حکم پر ، آپ کے ہر اشارہ پر، آپ کی ہر خواہش پر سو جان سے قربان۔ آپ مجھے جو بھی ارشاد فرمائیں گے۔ جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اور اپنے عہدِ بیعت کی ایک ایک بات کو عمل کی دنیا میں سچ کر دکھاؤں گا!

پس اے احمدیت کے جانثارو! اور خلافت احمدیہ کے پروانو! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے سارے عہدو پیمان واقعی سچ کر دکھائیں۔ ہمارے اسلاف نے وحدت اور قربانی کے جو نمونے دکھائے ان کو پھر تازہ کریں کہ ہم بھی تو اطاعت اور وفا کے دعووں میں ان سے پیچھے نہیں ۔ دیکھو! ہمارا محبوب آقا ، مسیحِ محمدی کا خلیفہ ، اس دورمیں حقیقی اسلام کا سالارِ اعظم اور اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ، جس کے دستِ مبارک پر ہم نے سب کچھ قربان کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ وہ کتنے پیار سے ہمیں دعوت ِ عمل دے رہا ہے ۔ آؤ ! خلافت سے وفا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آؤ! اور آج اس مجلس سے یہ سچا عزم لے کر اٹھو کہ ہم خلافتِ احمدیہ کی حفاظت اور استحکام کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے ، خلیفۂ وقت کے دست و بازو اور ادنٰی چاکر بن کر ہمیشہ اس کی ہر آواز پر سچے دل سے لبیک کہیں گے۔ ہمیشہ گوش برآوازِ آقا رہیں گے!

اور آئیے ہم سب مل کر عرض کریں کہ اے ہمارے محبوب آقا! آپ نیکی کی جس جس راہ کی طرف بھی ہمیں بلائیں گے ہم دیوانہ وار آپ کے اشاروں پر اپنی جان، مال، وقت اور عزت، آبرو ہر چیز قربان کر دیں گے۔ ہماری زندگی اور ہماری موت خلافت کے قدموں میں ہوگی اور ہم میں سے ایک ایک فرد خدا کوگواہ بناکر آج اپنے اس عزم کو پھر سے تازہ کرتا ہے کہ ہم آپ کے مبارک الفاظ کو اپنے سینوں میں جگہ دیں گے ۔ ان کو عمل کے سانچوں میں ڈھالیں گےاور آپ کی ہر ہدایت پر اس طرح والہانہ لبیک کہیں گے کہ اطاعت کے پیکر ، فرشتے بھی اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں !۔ اے خدا ! تو ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے اس عاجزانہ عزم کو پورا کرسکیں اور زندگی کے آخری سانس تک وفا کے ساتھ اس وعدہ کو نبھاتے چلے جائیں۔ آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین