دورہء جرمنی ١٢مئی تا ٢٤ مئی ١٩٩٩ء کے دوران منعقد ہونے والی مختلف مجالس سوال و جواب کی مختصر جھلکیاں

رپورٹ : صادق محمد طاہر جرمنی +ابولبیب برطانیہ

سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت جماعت احمدیہ جرمنی کی درخواست کو قبول فرماتے ہوئے ۱۲ مئی تا ۲۴ مئی جرمنی کا دورہ فرمایا۔ حضوررحمہ اللہ ۱۲؍مئی کو صبح آٹھ بجے مسجد فضل لندن سے روانہ ہوکر شام سات بجے مسجد نور فرینکفرٹ میں ورود فرما ہوئے جہاں متعدد احباب اپنے پیارے امام کے استقبال کی سعادت حاصل کرنے کے لئے چشم براہ تھے۔

اطفال الاحمدیہ کے ساتھ مجلس سوال وجواب (۱۵مئی ۱۹۹۹ء بروز ہفتہ)

۱۵مئی بروز ہفتہ سیدنا حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ تعالیٰ صبح دس بجے مسجد نور فرینکفرٹ سے خدام الاحمدیہ کے مقام اجتماع باد کروئزناخ کے لئے روانہ ہوئے جہاں گیارہ بج کر دس منٹ پر اطفال الاحمدیہ کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی جس میں متعدد بچوں نے حضور انور سے مختلف سوالات کئے۔ چند ایک اہم سوالات مع جوابات خلاصۃً اپنی ذمہ داری پر ہدیۂ قارئین ہیں۔

* ایک بچے نے سوال کیا کہ اصلی بائبل کہاں ہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ عیسائیوں نے بائبل کو بدل ڈالا ہے تو اصل بائبل پھر کہاں سے ملے گی۔ اصل بائبل کا سراغ لگانا ہو تو اس کا صرف ایک طریق ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم نے بائبل کے صرف وہی حصے بیان کئے ہیں جو تبدیل نہیں ہوئے۔ اس سے باہر تو اختلافات کا ایک جھگڑا ہے۔ قرآن کریم نے بائبل کا جو ورشن(Version) پیش کیا ہے وہ ایک دوسرے سے سو فیصدی متفق ہے۔

* ایک طفل نے کہا کہ غیراحمدی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے اس سوال پر صدر صاحب خدام الاحمدیہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے بچوں کو ابھی تک یہ بھی نہیں بتایا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب میں اس کا بکثرت ذکر موجود ہے۔ پھر میری مجالس سوال و جواب ہوتی ہیں۔ یہ سوال ایسا ہے جو بارہا آ چکا ہے اور اس کا میں مختلف پہلوؤں سے بائبل سے، قرآن مجید سے اور عقل و دانش کے حوالہ سے جواب دے چکا ہوں۔ یہ صدر صاحب کی ذمہ داری ہے اور وہ اس کے لئے جوابدہ ہیں کہ وہ بچوں کو ان باتوں سے آگاہ کریں ا ور ان کے ذہن نشین کرائیں۔

* سوال کیا گیا کہ ہمارے سکول میں ہر سال پوری کلاس سیر کے لئے جاتی ہے، کیا ہم اس میں جا سکتے ہیں؟۔

حضور انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اس میں احمدی بچوں کے لئے صرف ایک خطرہ ہوگا کہ وہ بچوں کو غیراسلامی ماحول میں چلائیں تو بعض دفعہ ان کی گندی روایات بھی بیچ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے میں احتیاط کا کہا کرتا ہوں۔ علاوہ ازیں ایک سکول میں کئی احمدی بچے ہوں تو ان کا حفاظتی پروگرام یہ ہے کہ وہ سارے اکٹھے رہیں اور اس کے نتیجہ میں انہیں خدا کے فضل سے غیروں سے دفاع کا ایک ذریعہ مل جاتا ہے۔

* ناروے میں جہاں چھ مہینے دن رہتا ہے تو وہاں لوگ نماز کس طرح پڑھتے ہیں؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے اس کا بارہا جواب دیا ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے پہلے ہی اس کا حل بیان فرما دیا ہے اور یہ بھی اسلام کی صداقت کی عظیم دلیل ہے۔ جس زمانہ میں عرب میں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ دن رات چوبیس گھنٹے کے علاوہ بھی ہو سکتا ہے حضور اکرم ﷺ کو یہ خبر دی گئی کہ دجال کے زمانہ میں چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہو جائے گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ساری زمین پر ایسا ہوگا بلکہ یہ مراد تھی کہ اس زمانہ میں لوگوں کے علم میں یہ بات آ جائے گی کہ زمین کے انتہائی شمال میں ایک رات چھ مہینے کی اور ایک دن چھ مہینے کا چڑھتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایسا ہوگا تو صحابہ میں سے کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! ہم پر ایک دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں تو کیا ایسے وقت میں ہم چھ مہینے میں صرف پانچ نمازیں پڑھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں تمہارا جو معمول کا دن ہے چوبیس گھنٹے کا اس کے مطابق خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں اور تہجد تجویز فرمائی ہیں۔ اسی طرح ہر چوبیس گھنٹے میں اس لمبے دن اور رات میں بھی تمہارا معمول ہونا چاہئے۔ چنانچہ اسی حل پر ہم عملدرآمد کرتے ہیں۔

* ایک طفل نے پوچھا کہ اگر کوئی غیراحمدی کسی غیراحمدی کو احمدی سمجھ کر مار دے تو کیا وہ شھید سمجھا جائے گا؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ کو یہ بڑا پیچیدہ سوال سوجھا ہے۔ حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ جہاں تک اس شخص کی جوابدہی کا تعلق ہے جہاں تک میرا ظاہری علم ہے خدا تعالیٰ اسے شہید شمار نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا دین جو تھا وہ وقت کے امام کی تکذیب اور انکار تھا۔ جہاں تک مارنے والے کا تعلق ہے تو اس نے تو جہنّم اپنے لئے مول لے لی جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔ حضور نے فرمایا یہ ہمارا ظاہری فیصلہ ہے۔ اصل فیصلہ اللہ نے کرنا ہے جو دلوں کا حال جانتا ہے۔ اصل فیصلہ مرنے کے بعد ہوگا۔ ہم صرف اندازہ پیش کر سکتے ہیں مگر اللہ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے گا اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔

* ایک بچے نے دریافت کیا کہ حضرت محمدﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیا لگتے تھے؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت محمدﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی باپ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سارا سلسلہ حضرت محمد رسول اللہ کے سلسلہ کی ایک جاری شاخ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ رسول اللہ کا نور از سرِ نو جاری ہوا ہے۔ جیسے رات کے وقت چاند، سورج کی نمائندگی کرتا ہے بالکل اسی طرح مسیح موعودؑ اس دور میں کوئی نئی روشنی نہیں لائے بلکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی روشنی کو نئے سرے سے پیش کر رہے ہیں۔

* آنحضرت ﷺ کے خلفاء کو خلفاء راشدین کیوں کہتے ہیں؟

حضور نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کے فضل سے صحیح راستے پر قائم تھے۔ پہلے چار خلفاء کے متعلق ہم قطعیت سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا وہی رستہ تھا جو رسول اللہ نے بتایا تھا جو قرآن کے عین مطابق تھا۔

* کیا جرمنی میں واقفین نو بچوں کے لئے اپنا سکول قائم ہو سکتا ہے؟

حضور نے فرمایا کہ یہ مشکل ہے۔ کیونکہ الگ سکول قائم کرنے کی صورت میں سب دیگر مضامین بھی شامل کرنے ہوں گے۔ اس کے اخراجات بہت زیادہ ہیں جو ہم afford نہیں کر سکتے۔ حضور نے فرمایا کہ اس لئے عام سکولوں میں داخل ہوں وہاں سے تعلیم حاصل کریں۔ جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق ہے تو ان کی دینی تعلیم کو تقویت دینے کے لئے مختلف نظام جاری ہیں اور وقف نو کی طرف سے رسالے بھی بنائے گئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت جرمنی اگر ان ساری سہولتوں سے استفادہ کرے تو جہاں تک ممکن ہے ہم ان ذمہ داریوں سے احسن طریق پر سبکدوش ہو سکتے ہیں۔

* ایک سوال یہ کیا گیا کہ حج کرنے والوں کے سروں پر ٹوپی کیوں نہیں ہوتی؟

حضوررحمہ اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اس لئے کہ حج پیدائش کا منظر پیش کرتا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے نہیں علم کہ کوئی بچہ پیدا ہوا ہو اور ٹوپی اس کے سر پر ہو۔ حضور نے فرمایا کہ حج میں ایک نئی روحانی پیدائش کی خوشخبری ہے جس میں انسان اپنے پہلے سارے گند الگ کر دیتا ہے اور خدا کے ہاں نئی پیدائش شروع کرتا ہے۔ یہ وہ تصویر کشی ہے جس کی وجہ سے آپ وہاں سروں پر ٹوپیاں نہیں رکھتے۔

* ایک بچے نے دریافت کیا کہ کیا ہم سوئمنگ پول جا سکتے ہیں؟

حضور نے فرمایا کہ اگر آپ تیرنے کے وقت اسلامی ذمہ داریاں سامنے رکھیں تو ٹھیک ہے مگر کوئی مسلمان ننگے بدن تیر نہیں سکتا۔ اگر کسی جگہ سکول میں لازم ہو کہ آپ نے ننگے بدن تیرنا ہے تو آپ ہرگز وہاں نہ جائیں۔

* اس سوال کے جواب میں کہ رسول کریم ﷺ پر قرآن نازل ہوا تو اسے کیسے اکٹھا کیا گیا اور پوری دنیا میں کس طرح پھیلا؟

حضور انوررحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم کو محفوظ کرنے کی مختلف صورتیں تھیں۔ بعض دفعہ چمڑوں پر لکھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں کاغذ کی ایک قسم دستیاب تھی اس کاغذ پر بھی قرآن لکھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں ساتھ ساتھ حافظ قرآن تیار ہو رہے تھے جو اسے زبانی حفظ کر رہے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ ذمہ داری لگادی کہ وہ تمام حفاظ کی گواہیاں لے کر قرا ء ت کے اختلافات کو دور کریں اور مختلف تحریروں کا موازنہ کریں اور پھر ایک قرآن کی شکل جاری کریں اسے مصحف عثمان کہا جاتا ہے۔ چنانچہ آجکل جو ہمارے پاس قرآن کریم ہے یہ مصحف عثمان کے مطابق ہے۔

* جب دو مسلمان ممالک آپس میں جنگ کریں تو کیا مرنے والے شہید ہوں گے؟۔

حضور نے فرمایا کہ دو مسلمان ممالک اگر وہ سچے مسلمان ہوں تو ایک دوسرے پر حملہ کیوں کریں۔ اگر سیاسی اختلافات ہوں تو وہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق بیٹھ کر بات چیت سے اسے حل کر سکتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ شہید وہ ہوتے ہیں جو خدا کی راہ میں لڑتے ہوئے مارے جائیں اور ان کا قصور اس کے سوا کوئی نہ ہو کہ وہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے مارے جائیں۔ حضور نے فرمایا کہ جن دو ممالک کی آپ باتیں کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے پر صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے تو حملہ نہیں کر رہے۔

* اس سوال کے جواب میں کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد کوئی نبی آ سکتا ہے؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ زمانہ حضرت محمد رسول اللہ کا زمانہ ہے اور قیامت تک آپ کا زمانہ جاری ہے۔ پس اگر کوئی شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں اس امّت کا نبی ہوں تو اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالوں سے اپنی سچائی ثابت کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق تو قطعیت سے یہ ثابت ہو چکا ہے۔ بعد میں کوئی آئے تو بے شک آئے مگر کب آئے، کس طرح خدا اتارے، یہ خدا کا کام ہے۔ لیکن چونکہ امّت محمدیہ میں آئے گا اس لئے آنے والے کا فرض ہے کہ قرآن و حدیث سے اپنی سچائی ثابت کرے۔

* ایک بچے نے کہا کہ حضور دعا کریں کہ میں مربی بن جاؤں۔

حضوررحمہ اللہ نے اس کے اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ مربی بننے کے لئے اپنی تربیت خود کرو۔ مربیوں کو جو مشکلات پیش آتی ہیں ان پر بھی نظر کرو۔ عزم، دعا اور صبر کے ساتھ کوشش کرو۔ میری دعا بھی آپ کے ساتھ ہے۔

* ایک اور طفل نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی وقف کی ہے حضور کوئی کام بتائیں؟

حضور نے فرمایا کام تو واقفین زندگی کے لئے بے شمار بتا چکا ہوں۔ دراصل غور سے میرے خطبات و خطابات کو سنا کریں۔ ان میں ایک واقف زندگی کے لئے تمام لائحہ عمل موجود ہے۔ احمدیت کا خادم بننا ہے یہ خلاصہ ہے۔ جس طرح بھی بہترین خدمت دین اسلام و احمدیت کی ہو سکے تو کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔

* ایک مسلم ملک کی غیرمسلم ملک سے جنگ ہو جائے تو کیا مسلم ملک اس غیرمسلم ملک کی زمین پر قبضہ کر سکتا ہے؟

حضوررحمہ اللہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اوّل تو کسی مسلم ملک کو جنگ میں پہل کرنی ہی نہیں چاہئے۔ اسے اس کی اجازت ہی نہیں۔ اگر دوسرے نے اس پر حملہ کیا ہے تو ظاہر ہے کہ مسلم ملک کی زمین چھیننے کے لئے حملہ کیا ہے۔ جس طرح وہ اگر مسلم ملک کی زمین چھین لیتے تو اپنی ہی سمجھتے اسی طرح اگر مسلم ملک ان کی کوشش کو ناکام بنادے اور ان کی زمین چھین لے تو یہ ان کی ہی سمجھنی چاہئے۔ لیکن اس زمانہ میں یو۔این۔او کے تابع بڑی قوموں نے کسی ملک کا جو جغرافیہ بنادیا ہے وہ اسے قائم رکھتے ہیں اور یہ اخلاقی قانون نہیں چلتا۔

* ایک بچے نے کہا کہ اللہ سب سے طاقتور ہے تو اسے فرشتے بنانے کی کیا ضرورت ہے؟

حضور نے فرمایا کہ اللہ کی طاقت کے اظہار میں فرشتوں کا پیدا کرنا بھی شامل ہے، انسانوں کا پیدا کرنا بھی شامل ہے، کائنات کا پیدا کرنا بھی شامل ہے،یہ سب اللہ تعالیٰ کی طاقت کے مظہر ہیں۔

سوالات کے اختتام پر اطفال کا نظم خوانی کا مقابلہ ہوا۔ حضوررحمہ اللہ تعالیٰ از راہ شفقت اس موقعہ پر سٹیج پر رونق افروز رہے۔ مختلف بچوں نے اپنی خوبصورت مترنّم آوازوں میں آنحضرت ﷺ کی مدح اور اسلام کی خوبیوں اور نیک نصائح پر مشتمل خوش الحانی سے نئی نئی طرزوں میں منظوم کلام پیش کیا۔ یہ پاکیزہ کلام دلوں میں ایک عجیب روحانی کیفیت پیدا کرنے والا تھا۔ مقابلہ کے آخر پر ججز نے نمایاں پوزیشن لینے والے اطفال کے ناموں کا اعلان کیا۔ حضور نے از راہ شفقت ان سب بچوں کو شرف مصافحہ بخشا اور انہیں محبت اور دعاؤں سے نوازا۔

مجلس عرفان(۱۵ مئی ۱۹۹۹ء)

۱۵؍مئی کو ہی ۲۰۔۴ پر نماز ظہر و عصر کے بعد مقام اجتماع میں مجلس عرفان کا آغاز ہوا۔ یہ مجلس اردو میں منعقد ہوئی۔ چند ایک اہم سوالات مع مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیۂ قارئین ہیں۔

* کیا اسلام کی رو سے ایک عورت نکاح پڑھا سکتی ہے؟

حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جہاں تک سنّت نبوی کا تعلق ہے مجھے ایک بھی واقعہ یاد نہیں کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کسی عورت نے نکاح پڑھایا ہو۔

* انسان کے مرنے پر روح تو خدا کے حضور حاضر ہو جاتی ہے تو میّت کو غسل دینے سے کیا اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ زندہ جسم کی صفائی کرتے ہیں۔ صفائی خداتعالیٰ کو پسند ہے اس لئے زندہ کی صفائی ہو یا مردہ کی، صفائی ضروری ہے۔ حضور نے فرمایا کہ عموماً پاک بدن کی روح بھی پاک و صاف ہی ہوتی ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ آگے بڑھاتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی بدن کو پاک و صاف کرو۔

* ایک دوست نے سوال کیا کہ جب زمین میں اللہ تعالیٰ کی توحید قائم ہو جائے گی تو کیا پھر بھی انسانوں کی تخلیق کا سلسلہ جاری رہے گا؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ جاری رہے گا تو اس کی صفات بھی جاری رہیں گی اور اس کی صفات میں تخلیق بھی ایک صفت ہے۔

* ایک اور سوال کے جواب میں حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی احمدی کو نظام جماعت کی خلاف ورزی کی بنا پر اخراج کی سزا ملی ہو اور وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے ہوئے مرتا ہے اور ارتداد اختیار نہیں کرتا تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا احمدیوں پر فرض ہے۔

* اس سوال کے جواب میں کہ ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟

حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ڈاڑھی رکھنا سنت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سنّت جاری فرمائی اور یہ سنّت پہلے انبیاء میں بھی تھی اور اللہ نے مرد اور عورت میں ایک فرق بھی رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کوڈاڑھی دی اور عورت کو نہیں دی۔ عورت کے ڈاڑھی ہو تو وہ شرم محسوس کرتی ہے۔ مرد کے دارھی ہو تو اسے اس بات کو اپنے لئے عزت متصور کرنا چاہئے۔ حضور نے فرمایا کہ آجکل مغرب میں بھی ڈاڑھی کا رواج عام ہو رہا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ ڈاڑھی کا رواج احمدیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اور بھی عام ہوتا چلا جائے گا۔

* ایک بچے نے پوچھا کہ ہم قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز کیوں پڑھتے ہیں؟

حضور نے فرمایا اس لئے کہ تا سب مسلمانوں میں یکجہتی اور اتحاد پیدا ہو۔ وہ ایک ہاتھ پر اٹھیں ا ور بیٹھیں۔ اس میں پیغام یہی ہے کہ تم امت واحدہ بن کر رہنا۔

* ایک دوست نے کہا کہ حضور نے بوسنیا سے متعلق جو نظم کہی تھی اس میں ایک مصرعہ یہ تھا کہ ’’جس جس نے اجاڑا تجھے ہو جائے گا برباد‘‘ ، آج کل یوگوسلاویہ سے جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان حالات پر یہ مصرعہ صادق آ رہا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ آجکل یوگوسلاویہ سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں نہ صرف اس دعا بلکہ دوسری دعائیں جو احمدیوں نے کیں اور مسلسل کر رہے ہیں ان سب کا حصہ ہے۔

کوسووا کے تعلق میں نیٹو کے یوگوسلاویہ پر حملوں کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ نیٹو والے کوسوون کی جو مدد کر رہے ہیں اس میں ان کے مخفی ارادے بھی ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ کوسوون کی مدد کے لئے یہ ممکن تھا کہ آغاز میں ہی جب ابھی بمبارمنٹ شروع نہیں ہوئی تھی تو روس اور چین سے جیسے یہ پیسے دے کر معاہدے کرا لیتے ہیں یہ معاہدہ بھی یو این او کے توسط سے کرالیتے کہ وہاں اقوام متحدہ کی امن فوج ہو تو کسی بمبارمنٹ کی نوبت ہی نہ آتی کیونکہ اگر یوگوسلاویہ کی فوج ان پر حملہ کرتی تو وہ سب دنیا کو اپنا دشمن بنالیتے۔ اس موقعہ کو انہوں نے ہاتھ سے گنوادیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے۔ یہ دانشمندی کی کمی ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔ حضور نے فرمایا کہ میرے نزدیک تو یہ قومیں بہت گہری سوچ بچار سے کام لیتی ہیں۔ انہیں غیر دانشمند نہیں کہا جاسکتا۔ اس لئے میرے نزدیک اس کا ایک اور نتیجہ ہے۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ بظاہر دنیا سے تیسری عالمی جنگ کا امکان ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ روس کے سب سے بڑے مددگار یوگوسلاویہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا اس دوران یورپ کے دل میں بسنے والے جو مسلمان ہیں وہ ساتھ ساتھ کمزور بھی ہوتے جائیں گے۔ ان کی پرانی پالیسی ہے کہ یورپ کے دل میں مضبوط اسلامی سلطنت یعنی اسلام کے نام پر سلطنت قائم نہ ہونے پائے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح انتہا پسند مسلمان یہاں پناہ لے کر یورپ میں بیٹھ کر اپنی کارروائیاں کریں گے۔ یہ ان کا جائز خطرہ ہے۔چنانچہ پہلے بوسنیا میں ایسا کیا گیا اور اب کوسووا میں تاکہ اگر مسلمانوں کی حکومت قائم بھی ہو تو اسے یقین ہو کہ ہم مغرب کے سہارے چل رہے ہیں اور پھر وہ مغرب سے بے وفائی نہیں کرسکیں گے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کوسووا کے حالات کیسے ٹھیک ہو سکتے ہیں، حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ سوائے اس کے کہ مسلسل سارے احمدی دعائیں کریں ان حالات کا بظاہر ٹھیک ہونا نظر نہیں آتا۔

* حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک شعر:

اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگےمیں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار
کی تشریح دریافت کی گئی تو اس کے جواب میں حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ روحانی فتوحات ہونے کا وعدہ ہے اور یہ وعدہ ہے کہ سب دنیا میں داؤد کی حکومت قائم ہوگی اسی لئے یہود ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ باوجودیکہ حضرت داؤد کو نبی نہیں کہتے پھر بھی ان کی مسلسل ساری دنیا میں یہ کوشش جاری ہے کہ ہم جو داؤد کے نمائندہ ہیں ہماری سب دنیا میں حکومت ہو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر ان کی امیدوں پر پانی پھیر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو داؤد ؑ کا نمونہ بنایا ہے۔ پس اگر کُل عالَم پر کوئی حکومت قائم ہوگی تو جماعت احمدیہ کی ہوگی۔

* ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا کسی فوت شدہ پر سورۃ یٰسین پڑھی جاسکتی ہے؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ سورۃ یٰسین زندگی میں مرتے وقت پڑھی جاتی ہے۔ مرنے کے بعد پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس سورۃ میں ایسے دعائیہ کلمات ہیں جن سے روح کے اطمینان پاکر امن و سکون میں داخل ہونے کا ذکر ہے۔ اس میں سب کی طرف سے دعا بھی شامل ہو جاتی ہے۔

* ایک سوال یہ کیا گیا کہ آنحضرت ﷺ کے خلفاء راشدین کی مستقبل کے متعلق کوئی پیشگوئیاں کیوں تاریخ میں محفوظ نہیں ہیں؟

حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں خلفاء کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مسلسل پوری ہوتی رہی ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ صحابہ کو بھی الہامات ہوتے تھے مگر وہ اپنے الہامات کو اپنے تک محدود رکھتے تھے تاکہ قرآنی وحی کے ساتھ کوئی اشتباہ نہ ہو جائے۔ عموماً خلفاء کا طریق یہی تھا کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی حفاظت کی خاطر وہ اپنے الہامات کو اپنے تک محدود رکھا کرتے تھے۔

* لوگ حج میں سفید کپڑا اور اَن سلا کپڑا کیوں پہنتے ہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئے حضوررحمہ اللہ نے فرمایا کہ کفن بھی سفید ہوتا ہے اور اَن سلا ہوتا ہے۔ وہی حال حج کا ہے گویا انسان خدا کے حضور مر گیا اور جس طرح مُردہ کو جسے کفن میں لپیٹ کر دفناتے ہیں اللہ تعالیٰ نئی زندگی عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح ہم یہ امید رکھتے ہوئے حج میں خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں کہ ہم نے تیری خاطر خود ایک موت قبول کی ہے پس تُو ہمیں ایک نئی زندگی عطا فرما۔

اس کے علاوہ بھی کئی اور دلچسپ سوال ہوئے۔ قریباً ۳۵۔۵ بجے یہ مجلس عرفان ختم ہوئی۔ اس کے آخر پر خدام الاحمدیہ کا نظم کا فائنل مقابلہ ہوا۔ اس دوران حضور انوررحمہ اللہ از راہِ شفقت سٹیج پر تشریف فرما رہے اور تمام نظمیں سنیں۔ بعد ازاں حضوررحمہ اللہ نے نومبایع خدام کو شرف مصافحہ عطا فرمایا اور پھر واپس مسجد نور فرینکفرٹ تشریف لے گئے۔

طلباء کے ساتھ مجلس سوال وجواب ۱۶مئی بروز ہفتہ

۱۶مئی بروز اتوارقریباً ۱۱بجے قبل دوپہر طلباء کی حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ کے ساتھ مجلس سوال وجواب منعقدہوئی۔ یہ مجلس بھی بہت دلچسپ رہی اوراحمدی طلباء نے اپنے پیارے امام رحمہ اللہ سے مختلف امور سے متعلق رہنمائی حاصل کی اور آپ کے جوابات سے مستفیض ہوئے۔ چند ایک اہم سوالات مع مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر ہدیۂ قارئین ہیں:۔

* ۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) کوکس حد تک کمپیوٹر میں منتقل کیا جا سکتاہے؟

حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کوئی مصنوعی ذہانت خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ذہانت سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ بنیادی حقیقت یاد رہے تو پھرمصنوعی ذہانت جتنے چاہے کام دکھائے انسان اس سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔

*۔۔۔ کیا اسلامی شریعت کے لحاظ سے Shares لینے جائز ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ Sharesتو اکثر دھوکہ بازی ہے ۔اسلامی اقتصادی نظام کے لحاظ سے تو وہ نظام جو سودپرمبنی ہو اس کے بچے بھی سودی پیدا ہوتے ہیں۔ موجودہ مانیٹری سسٹم اکثر Shares کے ذریعہ روپیہ کو چندہاتھ میں اکٹھا کرتے ہیں۔ احمدیوں کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو Shares کے کاروبار سے بالکل الگ ہوں۔

*۔۔۔کوسوا کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیایہ جنگ تیسری جنگ کا سبب بن سکتی ہے اور جماعت احمدیہ اس بارہ میں کیاکرسکتی ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوسوا کی جنگ تیسری جنگ کا سبب بن سکتی ہے۔ جماعت احمدیہ دو قسم کے کام کرسکتی ہے جو کر بھی رہی ہے ۔ ایک تو ان کے دانشوروں کومتنبہ کرناہے کہ دیکھو ایسی حرکتیں نہ کرو جو تیسری جنگ پرمنتج ہو سکتی ہیں۔ یہ انتباہ ہے جو میں بھی کرتا رہتاہوں۔حضور نے فرمایا کہ یہ کوشش کی بات ہے لیکن قرآن کریم کی پیشگوئیوں سے قطعیت کے ساتھ ظاہر ہوتاہے کہ تیسری جنگ تو ہونی ہی ہے ۔ ہمیں اپنی کوشش کا نیک ثواب تو مل جاتاہے لیکن اس کا نتیجہ وہ نہیں نکلے گا کیونکہ اس جنگ کے بغیر اسلام کی طرف یہ متوجہ ہو ہی نہیں سکتے۔

حضور نے فرمایا کہ کوسوا کے جو حالات ہیں سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس جنگ پرمنتج ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ بعید نہیں کہ اس جنگ کے نتیجہ میں جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اس کے نتیجہ میں روس اور چین ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو جائیں جو اس سے پہلے نہیں تھے۔ پھر کوریا کے ساتھ مل کر ایسی طاقت بن سکتے ہیں جو بہت بڑی ایٹمی طاقت رکھتی ہے۔ پھر یہ خطرہ ہے کہ کسی غلطی کی وجہ سے ایٹمی جنگ شروع ہو جائے ۔ اگروہ شروع ہو جائے تو پھر ساری دنیا ہی اس خوفناک جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گی ۔ اگر ایساہوتواحمدیوں کے لئے تو ایک ہی اعجاز ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر میں ہے کہ :

آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیں گےجو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
اس وقت جو اللہ تعالیٰ سے سچا پیار رکھتے ہیں وہی بچائے جائیں گے۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیاگیا کہ وہ لوگ جو سفروں پررہتے ہیں وہ اگر پوری نماز پڑھ لیں تو کیا انہیں زیادہ ثواب نہیں ملے گا؟

حضور نے فرمایا کہ بنیادی نیکی یہ ہے کہ خدا کی خاطر جو بھی وہ تعلیم دیتاہے اسے قبول کیا جائے ۔ اگر وہ سہولت دیتاہے تو اس سہولت کا انکار کرنا نیکی نہیں ہے اس لئے مسئلہ سمجھنا چاہئے۔

*۔۔۔ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا جماعت کے آفیشل کام ہم E-Mail کے ذریعے کر سکتے ہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس بارہ میں میں متعلقہ محکمہ کوہدایت دے چکاہوں۔ میرے نزدیک اس کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے۔ یہ سب نئے نظام امریکن انٹیلی جینس کے پیدا کردہ ہیں اور انہی کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس ذریعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ جن کو پکڑنا چاہتے ہیں ان کے متعلق مواد تیاررکھتے ہیں۔یہ توا للہ کا فضل ہے کہ جماعت کا کوئی خفیہ نظام ہے ہی نہیں لیکن کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ان کی نظروں میں آتے رہیں۔ جماعت کوتو خطرہ نہیں مگر انفرادی طورپر ایسا خطرہ ہے کہ بعض بیوقوف ایسی حرکت کر جائیں جس سے جماعت کے لئے مشکلات پیش آئیں۔ یہ وہ خطرہ ہے جس پر میری نظررہتی ہے ۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ آنکھیں بند کر کے نماز پڑھناکیوں مکروہ ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے سائل سے دریافت کیا جب آپ کے سامنے کوئی آئے اور آنکھیں بند کر کے آپ سے باتیں کرے تو آپ کو کیا لگے گا ۔ اور جو آنکھیں بند کر کے باتیں کرے اس کے اندر اس کے دل میں کیا گزررہاہے ،یہ بھی پتہ نہیں لگتا۔ اس لئے رسول اللہﷺ نے خدا کے دربار میں آنکھیں بند کر کے باتیں کرنے سے منع فرمایا اور فرمایاکہ ا س طرح اللہ کے سامنے عرض حال کیا کرو کہ گویا خدا سامنے ہے اور تم اسے دیکھتے ہو۔ اس کے سامنے باشعور رہو اور یہ حکمت ہے جس کےپیش نظر آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ سائنس نئی نئی ایجادیں کررہی ہے ۔ کیا ان کا کوئی کنارہ بھی ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایاکہ ایجادات کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا اور جتنی زیادہ ایجادات ہوں اتنی تیزی سے مزید ایجادات ہوتی ہیں کیونکہ سارے سائنسی میدان ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایجادا ت اتنی تیزی سے ہوتی ہیں کہ انسان کا دماغ چکرا جاتاہے اور ہونابھی یہی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں جو رازپنہاں ہیں ان کاکوئی کنارہ نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ لامتناہی ہے۔ حضور نے بتایاکہ ان ایجادات سے یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ گویا انسان نے سب کچھ حاصل کر لیاہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ راز پہلے ہی سے تخلیق میں موجود نہ ہوں تو انسان انہیں حاصل کرہی نہیں سکتا۔

*۔۔۔ایک دوست نے کہا کہ سائنس دان کوشش کررہے ہیں کہ انسان کو موت سے بچایاجائے۔

حضور نے فرمایا یہ ناممکن ہے ۔ انسان موت سے بچ سکتا ہی نہیں۔ کسی کی زندگی لمبی تو ہو سکتی ہے مگر اس حد تک جس حد تک اس کی شاکلۃ میں ہے۔ یعنی ہر انسان کے اندرزیادہ سے زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی ایک گنجائش ہے اس سے آگے وہ جا ہی نہیں سکتا۔ حضور نے فرمایا کہ جو چیز بنائی جائے اس کی ایک ابتدائی عمر ہے۔ اگر بہت احتیاط کی جائے تو وہ اپنی انتہائی عمر تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق انسان اپنی زندگی گزارے تو وہ اپنی انتہائی عمرکو پہنچ سکتا ہے۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ کائنات میں جو بھی طاقتیں کارفرما ہیں کیا ان کو اللہ کا نام دے سکتے ہیں؟

حضور نے فرمایا نہیں۔ یہ طاقتیں خدا کی پیدا کردہ ہیں اور مخلوق ہیں۔ مخلوق کو خالق کا نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔

*۔۔۔خدا تعالیٰ دنیا میں جنگیں کیوں ہونے دیتاہے؟

حضور نے فرمایاجو اللہ کی بات نہیں مانیں گے وہ توضرور لڑیں گے۔ حضور نے فرمایا کہ ماں باپ بچوں کو کہتے ہیں کہ نہ لڑو اور اچھے بچے بنو۔ اگر وہ کہنا نہ مانیں تواس کی ذمہ داری ان پر تو نہیں آتی۔ دنیا میں اکثر لوگ خدا کی بات نہیں مانتے تو پھر وہ جو کچھ کرتے ہیں ا س کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی ہجرت کے بعد ان کے فلسطین واپس نہ آنے میں کیا حکمت تھی؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطین کے دو یہودی قبائل انہیں ردّ کر چکے تھے اور دس قبائل ایسے باقی تھے جن کے مقدر میں انہیں قبول کرنا تھا۔ دوسرے ایک دفعہ جب کوئی قوم کسی نبی کو ردّ کر دے تو پھروہ واپس اس وقت تک اس قوم میں نہیں آتا جب تک وہ فتح کے ساتھ واپس نہ آئے۔ حضرت مسیحؑ کو اس لئے موقعہ نہیں ملا کہ آپ کے خلاف فیصلہ ہو چکا تھا اور اگر دوبارہ آتے تو ان یہودیوں نے آپ کو پھر صلیب پر لٹکا دیناتھا۔

*۔۔۔سقراط کو بعض لوگ نبی کہتے ہیں جبکہ انہوں نے زہر کا پیالہ پی کر خودکشی کی ؟

حضورنے فرمایا کہ حضرت سقراط نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ میں خود کشی کاہرگز قائل نہیں مگرجب قانون مجبور کرتاہے اور اس نے موت کا یہ ذریعہ تجویز کر دیا ہوتو ا س سے بھاگ نہیں سکتا۔ یہ وجہ ہے کہ ا س کے باوجود انہوں نے زہر کا پیالہ پیا۔ جب دشمن نے ان کے لئے یہ ہتھیار تجویز کیا تو جو بھی ذمہ داری ہے وہ وقت کی حکومت کی ہے نہ کہ سقراط کی۔یہ پُر لطف مجلس کم و بیش ایک گھنٹہ تک جاری رہی ۔

Rudesheim میں جرمن افراد کے ساتھ ۔ مجلس سوال وجواب(۱۸مئی ۱۹۹۹ء)

فرینکفورٹ سے مغرب کی جانب قریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ایک پرفضا مقامRudesheimمیں شام ساڑھے چھ بجے جرمن افراد کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب کا پروگرام تھا ۔ چنانچہ حضر ت امیرالمومنین رحمہ اللہ عین وقت پرہال میں تشریف لائے ۔ تلاوت قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ کے بعد علاقہ کے چیئرمین مسٹر کلاؤس فریچ (Mr. Klaus Frietsch) نے حضورانور کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اپنے تمام علاقہ کی جانب سے حضرت مرزا طاہر احمد کی خدمت میں دلی طور پر خوش آمدید کہتاہوں ۔ انہوں نے اپنے علاقہ کی آبادی اور غیرملکیوں کی تعداد اور علاقہ کے تعارف پرمشتمل تفصیلات بیان کیں اور کہا کہ جماعت احمدیہ ہمارے علاقہ میں ایک معروف جماعت ہے ۔

اس موقعہ پر محترم ہدایت اللہ ھبش صاحب نے ترجمانی کے فرائض انجام دئے ۔ چنانچہ انہوں نے اس استقبالیہ ایڈریس اور مہمانوں کی طرف سے کئے گئے سوالات کا ترجمہ بھی کیا جو کہ قبل ازیں تحریری طور پر حاصل کئے جا چکے تھے۔ حضور انور رحمہ اللہ نے ان سوالات کے جوابات دئے جن کے ترجمہ کی سعاد ت مکرم ہدایت اللہ ھبش صاحب کو حاصل رہی۔ان کی معاونت کے لئے مکرم نویدحمید صاحب بھی سٹیج پر موجود تھے۔ ان میں سے بعض سوالات اور ان کے جوابات کا خلاصہ ازیادعلم و عرفان کی خاطر اپنی ذمہ داری پر پیش ہے :۔

*۔۔۔پہلا سوال یہ تھاکہ اسلام میں بہت سے تشدد پسند(Militant)گروپ کیوں ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام میں کوئی Militantگرو پ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسلام ، بانی ٔ اسلام حضرت محمد مصطفیﷺاور آپ کے صحابہ اور قرآن کریم سے شروع ہوا اور قرآن سے ہم کسی جنگجوئی (Militancy)کا کوئی رجحان نہیں پاتے۔ اس مذہب کو اسلام کا نام دیا گیا جس کا مطلب ہی امن اور Submission ہے ۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ تمام لوگوں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا اور خدا کے ساتھ امن میں ہونا ۔یعنی اس کی مرضی کے تابع رہنااور اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا کیونکہ اسی صورت میں حقیقی امن ممکن ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ تشدد پسندی کا رجحان رکھنے والے دراصل اسلام کے دشمن ہیں اور وہ اسلام کے اور دشمنوں سے بھی زیادہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔

*۔۔۔عرب اور افریقن ممالک کے مسلمانوں میں کون سے بڑے بڑے فرق ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام میں کوئی اختلافات یافرق نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام خدا تعالیٰ کی وحدانیت کاقائل ہے۔ اگر آپ خدا کی توحید پرایمان لاتے ہیں تو تمام بنی نوع انسان کا اتحاد بھی لازم ہے ۔ آپ کو جو فرق دکھائی دیتے ہیں یہ اسلام کی تفہیم میں فرق کی وجہ سے ہیں۔ مختلف ممالک کے مسلمان دوسروں سے فرق رکھتے ہیں اور آپس میں لڑتے بھی ہیں ۔ فی الحقیقت اسلام کسی قسم کے اختلافات کی اجاز ت نہیں دیتا ۔ حضور نے فرمایا کہ احمدیوں کے اسلام میں کسی قسم کے اختلاف یا بنیادی فرق کی کوئی گنجائش نہیں اور ہم اس کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ ہم ایک سو پچاس سے زائد ممالک میں پھیل چکے ہیں ۔ ان میں ایشیا کے ممالک بھی ہیں اور یورپ کے بھی لیکن اپنے اندر کوئی فرق یا اختلاف نہیں دیکھتے ، یہی حقیقی اسلام ہے ۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ عورتوں کامقام کیا آپ کے ملک میں اور افریقہ میں ایک ہی جیساہے؟

حضور انور نے فرمایا کہ عورتوں کامقام ساری دنیا میں ایک ہی جیسا ہونا چاہئے۔ عورت ایک عالمی حیثیت رکھتی ہے جیسے مرد عالمی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن شاید سوال اس لئے پوچھا گیاہے کہ مختلف ممالک میں عورتوں سے سلوک مختلف ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ دراصل ان ممالک میں عورتوں سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ اسلامی نہیں بلکہ روایتی ہے مثلاً بعض افریقن ممالک میں عورتیں نیم برہنہ ہوتی ہیں اور بعض ممالک میں اوپر سے نیچے تک اس طرح بدن ڈھانپتی ہیں گویاوہ ایک خیمہ ہوں۔ اسے اسلام کیسے قرار دیا جا سکتاہے ۔ اسلام تو عالمی مذہب ہے اور سیرالیون ہو یا گھانا یاگیمبیا یا کوئی اورملک ہر جگہ اسلام ایک جیسا ہونا چاہئے۔

*۔۔۔ایک سوال یہ تھا کہ کیا جرمنی میں پناہ حاصل کرنے والوں کویہاں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ ایسی کوئی مشکل جرمنی میں رہنے والے جرمن احمدی باشندوں کو بھی درپیش نہیں آئی۔ یہ آزاد ملک ہے اور ہر شخص اپنے نظریات پر آزادانہ عمل کرسکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جس طرح دوسرے جرمن احمدی آزادانہ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تو وہ پناہ گزین کیوں نہیں کرسکتے۔

*۔۔۔عورتوں کے متعلق ہی ایک سوال یہ ہوا کہ آپ کی جماعت میں عورتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں عورتیں زندگی کے ہر نیک کام میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ و ہ علم کے ہر میدان میں نمایاں پیش رفت کر رہی ہیں۔ آپ یہاں کی احمدی بچیوں کو دیکھیں وہ اپنے اسلامی طرز زندگی پر قائم رہتے ہوئے ہر میدان میں جرمنوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔آپ کا خیال ہے کہ شاید وہ ایک خاص قسم کے پردہ یا برقعہ میں ہونے کی وجہ سے مشکل میں ہونگی۔حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ وہ دنیوی لذتوں کے پیچھے نہ بھاگنے کی وجہ سے اپنی تعلیم زیادہ توجہ اور انہماک سے حاصل کر رہی ہیں ۔ اس لئے بہت سے سکولز اور کالجز میں احمدی طلباء و طالبات جو پاکستان سے آئے ہیں وہ بہت سے جرمن طلباء و طالبات کو تعلیم میں پیچھے چھوڑ رہے ہیں ۔ ایک صحتمندانہ طرز زندگی کا یہ ایک زائد فائدہ ہے جو انہیں حاصل ہے ۔

*۔۔۔اسلامی نام رکھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اسلامی نام عالمی نام ہیں ۔ ہر جرمن نام اسلامی ہے جب تک کہ اس میں شرک یا بت پرستی سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ صرف مشرکانہ نام اسلام میں منع ہیں۔آ پ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں دیکھ سکتے ہیں کہ لاکھوں لوگ مسلمان ہوئے مگر ان کے نام تبدیل نہیں کئے گئے سوائے مشرکانہ ناموں کے ۔ حضور نے فرمایا کہ میرے خیال میں میرے علم کے مطابق تمام جرمن نام مسلم نام ہیں کیونکہ وہ مشرکانہ نہیں ہیں۔

*۔۔۔پاکستان میں اسلام کے نام پرمذہبی اقلیتوں سے سلوک کے بارہ میں ایک سوال پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ جو بھی سیاستدان طاقت میں آتاہے وہ اسلام کو اپنے ذاتی مفاد ات کی خاطر استعمال کرتاہے۔ عملاً وہاں اسلام نہیں ہے ۔ حضور انور رحمہ اللہ نے مثال کے طور پر فرمایا کہ بے نظیر بھٹو اپنے فوت شدہ والد کو شہیدکہتی ہے اور نواز شریف ، ضیاء الحق کو شہید کہتاہے جس نے بینظیر کے والد کو پھانسی چڑھایا تھا۔ سیاستدان صرف اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا وہ واحد اقلیت جو آزادانہ زندگی بسر کرتی ہے وہ احمدیہ جماعت ہے کیونکہ اسے زبردستی اقلیت میں ڈھالا گیاہے اور پھر اقلیت قرا ر دیتے ہوئے اسے تمام بنیاد ی حقوق سے محروم کیا گیا ہے اور ان کے خلاف ہر قسم کے ظلم و ستم روا رکھے گئے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ دنیا میں اقلیت کسی کو اس کی درخواست پر قرار دیا جاتاہے تاکہ ا س طرح سے ان کے مطالبات پر ان کے لئے خصوصی رعایتیں اور حقوق انہیں میسر آ جائیں لیکن پاکستان میں اس کے بالکل برعکس معاملہ ہے ۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کو اس کی مرضی کے خلاف اقلیت قراردیا ہے اور پھر اسے اس کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

*۔۔۔ہومیو پیتھی کے تعلق میں ایک سوال پر حضور نے فرمایا کہ مجھے ہومیو پیتھی سے ۴۰/۵۰ سال سے گہری دلچسپی ہے ۔ ایم ٹی اے پرہومیوپیتھی لیکچر ز بھی دئے ہیں اور کتاب بھی لکھی ہے لیکن ہومیو پیتھی ایک ایسا موضوع ہے جس میں ہمیشہ مزید جستجو اور تحقیق کی گنجائش ہے ۔ میں اپنے آپ کو ہومیو پیتھی کا ایک طالب علم کہہ سکتاہوں۔ کئی ایسی امراض میں جنہیں ڈاکٹرز لا علاج قرار دے چکے تھے مجھے شافی علاج بھی ملے ہیں لیکن یہ انسان کے بس میں نہیں کہ کسی کو شفا دے سکے۔ شافی مطلق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔

*۔۔۔دنیا میں بہت سے مذاہب کیوں ہیں؟

حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ سوال بکثرت پوچھا جاتاہے اور یہ ایک عالمی سوال ہے کہ اگر خدا ایک ہے تو اس نے بہت سے مختلف مذاہب کیوں پیدا کئے۔ حضور نے فرمایا کہ یقینامذہب کے بارہ میں لوگوں کی تفہیم درست نہیں ہے۔ میں نے ایک کتاب لکھی ہے Revelation, Rationality, Knowledge & Truth اس میں تفصیل سے اس بات پر بحث کی گئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آدم ؑ سے لے کر محمد ؐ رسول اللہ تک تمام مذاہب خدا کی توحید اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی تعلیم پرمشتمل ہیں۔ مذہب کے آغاز میں کوئی تفریق نہیں۔ لوگ بعد میں نئے نئے رجحانات پیدا کرکے نئے مذہب یا فرقے پیدا کرتے ہیں۔ میرے نزدیک صرف ایک ہی مذہب ہے جو آدم کی تخلیق سے لے کر جاری ہے اور وہ اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ انسان پورے دل و جان سے اپنے خالق کے حضور سرتسلیم خم کرے۔

*۔۔۔کیافلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدوں کے نتیجہ میں وہاں حقیقی امن ممکن ہے؟

اس بارہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ پہلے بھی امن کے معاہدے ہوتے رہے ہیں مگر دونوں کے درمیان بنیادی اختلافات کے نتیجہ میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ علاوہ ازیں یہود اور مسلمان دونوں میں ایسے انتہاپسند گروہ موجود ہیں جو امن کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایسے گروہ ہیں جن پر نہ ان حکومتوں کا کوئی کنٹرول ہے اور نہ بیرونی حکومتوں کا ۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ مرد اور عورتیں دونوں مسجد میں اکٹھے کیوں نہیں جاتے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا وہ اکٹھے ہی جاتے ہیں مگر اپنی نمازیں الگ الگ جگہوں میں ادا کرتے ہیں ۔ ان کے لئے الگ حصے مقرر ہوتے ہیں تاکہ و ہ اپنی عبادت پوری توجہ اور انہماک سے ادا کرسکیں۔آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو مردوں کے پیچھے کھڑے ہونے کا حکم تھا ۔ اگر اس کے برعکس ہوتا تو مسلم عبادت کے نظام میں ایک تہلکہ بپا ہو جاتا۔

*۔۔۔اسلام میں مرد ایک سے زیادہ شادیاں کیوں کرسکتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ ز نے فرمایا کہ اگرانسانی تاریخ پر نظرڈالیں، خصوصیت سے جنگوں کی تاریخ پر،توہر جنگ میں مرد زیادہ ہلاک ہوئے ہیں اور عورتیں کم۔ ایسے حالات میں اگرمردوں کو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کی اجازت نہ دی جائے تو یہ بات عورتوں کے مفاد کے خلاف ہے کیونکہ جو عورتیں شادی سے محروم ہو جائیں تو وہ معاشرتی نظام میں کئی قسم کی خرابیوں کی ذمہ دار ہو سکتی ہیں۔

حضور نے اس سلسلہ میں جرمنی کی مثال دی۔ اسی طرح امریکہ کی سوسائٹی میں موجود خرابیوں کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا کہ اسلام عورتوں کاخیال رکھتاہے اور خصوصیت سے جنگوں کے بعد ایک سے زائدعورتوں سے شادی کی اجازت کے ذریعہ سوسائٹی کی عفّت کی حفاظت کرتاہے۔

*۔۔۔دنیا میں قیام امن کے لئے جماعت احمدیہ کے کردار کے متعلق ایک سوال پر حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایاکہ ہم ایک عالمی مذہب (یعنی اسلام) کے ذریعہ عالمی امن کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔تمام مذاہب بنیاد میں ایک ہی تھے اس لئے ہم تمام مذاہب کے متبعین کو اس مرکزی نقطہ کی طرف لانے کی کوشش کررہے ہیں جوانہیں خدائے واحد تک لے جانے والا ہو۔

اس مجلس کے اختتام کاوقت چونکہ مہمانوں کو آٹھ بجے شام بتایاگیاتھا لہذا حضورانورنے عین وقت پراختتام کااعلان فرماتے ہوئے مہمانوں کاتوجہ اور دلچسپی کے ساتھ اس پروگرام میں حصہ لینے پرشکریہ ادا کیااورجرمن زبان میں “Auf Wieder Sehen”یعنی ’’خدا حافظ‘‘ کہہ کرمسجد نورفرینکفورٹ کے لئے روانہ ہوئے ۔ اس مجلس میں ۱۱۰جرمن مردوزن مہمان شامل ہوئے۔

لانگن(Langen)میں جرمن مہمانوں کے ساتھ سوا ل و جواب کی نشست (۱۹مئی ۱۹۹۹ء)

۱۹مئی ۱۹۹۹ء کی شام پونے سات بجے حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ فرینکفورٹ سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر لانگن کے سٹی ہال میں تشریف لے گئے جہاں جرمن افرد کے ساتھ ایک مجلس سوال وجواب کا اہتمام کیا گیاتھا۔ تلاوت قرآن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ کے بعد سوالات کا آغاز ہوا۔ محترم ہدایت اللہ ہبش صاحب کے پاس چونکہ تحریری طور پر سوالات جمع ہو چکے تھے لہذا انہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ پچاس سوالات جمع ہوچکے ہیں۔ حضور رحمہ اللہ کی کوشش تھی کہ تمام سوالوں کے جوابات ارشاد فرماویں مگر مقررہ وقت میں صرف چالیس سوالات کے جوابات دئے جا سکے ۔ مجلس کے اختتام پر حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے کوشش تو بہت کی کہ وقت کے اندر تمام سوالات کے جوابات دے دئے جائیں مگروقت اجازت نہیں دیتا۔ اس مجلس میں ۱۵۷جرمن مہمان مردوں اور عورتوں نے شامل ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ کی زیارت کی اور آپ کے ارشادات سے مستفیض ہوئے۔ بعض سوالات اور ان کے جوابات خلاصۃً ہدیہ قارئین ہیں:

*۔۔۔ایک سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جہاں تک بشریت کا تعلق ہے آنحضرت ﷺ دیگر انسانوں کی طرح ایک بشرہی تھے۔ ہاں آپ کویہ امتیاز حاصل تھا کہ آپ دیگر تمام انسانوں سے زیادہ خدا کے قریب ہوئے۔

*۔۔۔جہاد کے متعلق ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے حضور انورنے فرمایا کہ آج جو دنیامیں مذہب اورخدا کے نام پرجنگیں لڑی جارہی ہیں ان میں سے اکثر مقدس جنگیں (Holy Wars)نہیں ہیں۔ وہ دہشت گردی پریقین رکھتے ہیں اوردہشت گردی کے فعل کو مقدس جہاد نہیں کہا جا سکتا ۔

*۔۔۔کیامرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہوگی؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کریم کے مطابق یہ بنیادی اصول ہے کہ اگر خدا ہے تو لازم ہے کہ مرنے کے بعد زندگی ہو۔ یہ ناممکن ہے کہ خدا ہو اور مرنے کے بعد جوابدہی نہ ہو ۔ لیکن اسلام کے مطابق مرنے کے بعد کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوگی۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ آپ کوکیسے علم ہے کہ حضرت مسیح صلیب پرفوت نہیں ہوئے؟

حضور رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ نئے عہد نامہ سے بھی ہم یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہ صلیب پر فوت نہیں ہوئے ۔جب انہیں صلیب پرلٹکایاجانے لگا تو انہوں نے کہا تھا ’’ایلی ایلی لما شبقتانی‘‘۔ اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ اگر انہوں نے خدا سے یہ بشارت نہ پائی ہوتی کہ وہ ان کی حفاظت کرے گا تو وہ یہ فریاد بلند نہ کرتے ۔ اس دعا سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ وہ لوگوں کی خاطر صلیب پر مرنا چاہتے تھے ۔ اگر ایسا ہوتا تو جب انہیں صلیب پر لٹکانے کے لئے لے گئے تھے وہ یہ کہتے کہ خدایا تیرا شکرہے ۔

پھریہ کہ صلیب پر سے اتارنے کے بعد انہیں ایک مرہم لگائی گئی ۔سوال یہ ہے کہ اگر وہ صلیب پر مرچکے تھے تو انہیں مرہم لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔

فوت شدہ آدمی کوئی درد محسوس نہیں کرتا ۔ یوحنا کہتاہے کہ تمام یہودی جب مرتے تھے انہیں مرہم لگائی جاتی تھی مگر تمام محققین کہتے ہیں یوحنا خود یہودی نہیں تھا اگریہودی ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ یہود کا یہ طریق نہیں تھا۔

پھر نئے عہدنامہ سے پتہ چلتاہے کہ صلیب سے اتارے جانے کے چند دن بعد حضرت مسیح حواریوں سے ملے جس کامطلب ہے کہ اس مرہم نے ان پر کام کیا جبکہ وہ زندہ تھے۔ اسی طرح یہ بھی ذکرہے کہ جب وہ رات کو اپنے کچھ حواریوں کے سامنے آئے جبکہ وہ روٹی اور مچھلی کھا رہے تھے تو انہوں نے باقی انسانوں کی طرح جسم اور روح کے تعلق کوواضح کرنے کے لئے کہا کہ تم کیا کھا رہے ہو اور پھر ان سے مچھلی اور روٹی لے کر کھائی جس پروہ حیران ہوئے ۔ ان کا خیال تھا کہ مسیح مرچکے ہیں۔ اس پرانہوں نے کہا کہ میں وہی مسیح ہوں آؤ اور مجھے ہاتھ لگا کر چھو کر دیکھو۔ نئے عہد نامہ کی یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسیح علیہ السلام صلیب کے واقعہ کے بعد بھی زندہ تھے ۔

*۔۔۔مختلف قسم کی میڈیٹیشن (Meditation) کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میڈی ٹیشن ایک بہت اہم مشق ہے جوخدا کے قرب کے حصول کے لئے ایک ذریعہ ہے کیونکہ خدا کوئی مادی چیز نہیں ۔ وہ اپنی صفات سے پہچانا جاتاہے۔ جب آپ اس کی صفات پرباربار اورگہرا غورکرتے ہیں توایک قسم کا اس کا قرب حاصل ہونے لگتاہے ۔ حضور نے فرمایا کہ اگرآپ خدا پر ایمان نہیں رکھتے تو انسان کا اپنی روح کے اندر غورو فکر بھی ایک قسم کا فائدہ رکھتا ہے۔ کئی نبی Contemplation کے ذریعہ نبوت کے مقام تک پہنچے ہیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ غیرمسلم حکومتوں کے تابع رہتے ہوئے اسلامی شریعت پرعمل کس حد تک ممکن ہے ؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہاں جرمنی میں جہاں ایک غیر اسلامی حکومت ہے میں اسلامی شریعت پر عمل پیراہوں اور ملکی قانون کے ساتھ تصادم کے بغیر عمل پیرا ہوں۔

*۔۔۔ایک صاحب کا سوال تھا کہ اگرآپ یہ پرچار کریں گے کہ مسیحؑ صلیب پرفوت نہیں ہوئے تو آپ زیادہ عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بنا سکیں گے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اصل بات سچائی ہے ۔اگر ہم دیانتداری اور سچائی کے ساتھ ایک بات کو تسلیم کرتے ہیں تو اس کا اظہار ضروری ہے ۔ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا اہم نہیں۔ اصل یہ ہے کہ لوگوں کو سچے خدا کی طرف لایا جائے۔

*۔۔۔اسلام میں بنیاد پرستوں (Fundamentalists) کے تعلق میں ایک سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جنہیں آپ بنیاد پرست کہتے ہیں حقیقت میں وہ بنیاد پرست نہیں ۔ اگروہ ہوتے تو آنحضرت ﷺ کے پاک اسوہ پرعمل کرتے لیکن ان لوگوں کی طرز زندگی اس سے بالکل متضاد اورمتصادم ہے۔ اور چونکہ وہ حقیقت میں اس بنیاد ی تعلیم پرعمل پیرا نہیں اس لئے وہ تشدد اور دہشت گردی کی روش کو اپنائے ہوئے ہیں جس کا اسلام اور بانی ٔ اسلام سے کوئی دورکا بھی تعلق نہیں۔حضور نے فرمایا کہ مبینہ اسلامی دنیا کو ان ’’بنیاد پرستوں‘‘ کے ذریعہ کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک امریکہ انہیں ہتھیار فراہم کرتاہے ۔ اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اس قسم کے بنیاد پرست افغانستان میں بھی نہ ہوتے ۔

*۔۔۔کیا کسووا کی جنگ تیسری عالمگیر جنگ پرمنتج ہوگی؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا ایسا ہو بھی سکتاہے اور نہیں بھی۔ ابھی تک تو آزاد دنیا کے مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ و ہ اس طرح حالات سے نباہ کر سکتے ہیں کہ وہ قابو میں رہیں گے لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہوتااوروہ ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں جوان کے قابو سے باہر ہوتی ہیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ کیا ہم سب لوگ اسی خدا کی عبادت مختلف طریقوں سے نہیں کررہے ؟

حضور نے فرمایا کہ ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہم اکثر اپنے تصورات کی عبادت کر رہے ہیں ۔ لوگ اپنے محدود انفرادی تصور کے مطابق خدا کی عبادت کرتے ہیں اور ان کے پیش نظر و ہ عالمی خدا نہیں ہوتاجس کی عبادت ہونی چاہئے ۔

*۔۔۔ہر بچہ بغیر ختنہ کے پیداہوتاہے اور وہ خدا کے ہاں مقبول ہوتا ہے تو پھر ختنہ کی کیا ضرورت ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ختنہ جسمانی صحت میں ممد ہے ۔ طبی تحقیق بتاتی ہے کہ جن کا ختنہ ہوا ان میں Genetical بیماریاں بہت کم ہوتی ہیں۔ جہاں تک عورتوں کے ختنہ کی رسم کاتعلق ہے تو اس کے متعلق حضور نے فرمایا کہ اس کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ۔ افریقہ میں جہاں کہیں یہ رسم تھی ہم نے اس کے خلاف مؤثر آواز اٹھائی اور احمدیوں میں وہاں یہ رسم ہرگز پائی نہیں جاتی۔ عورتوں کے ختنہ کی رسم نہایت ظالمانہ اور درندگی کی مظہرہے۔

*۔۔۔جرمنی میں احمدیت کی مقبولیت کیسی ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کافی اچھی ہے ۔ بہت سے دوسرے یورپین ملکوں سے بہترہے اور یہ بات آپ کی وسعت ذہنی اورمعقولیت پسندی کے لئے ایک Complement ہے ۔

*۔۔۔ہم جنس پرستی(Homosexuality) کے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ پہلی بات تویہ ہے کہ میں کون ہوں کہ کسی کو بتاؤں کہ اسے کیا کرنا چاہئے یا کیا نہیں۔ میں خدا نہیں، مجھے سزا دینے کاحق نہیں۔ جب سدوم اور عمورہ کی بستیاں تباہ ہوئیں تو سوال یہ ہے کہ خدا نے انہیں کیوں سزا دی۔ یقیناًانہوں نے خدا کی سکیم اورمنصوبہ کے خلاف عمل کیا ہوگا جس کی وجہ سے انہیں سزا دی گئی۔ حضور نے فرمایا کہ اگرسب لوگ ہم جنس پرستی پرعمل کرتے تو انسانیت کاخاتمہ ہوجاتا۔ حضور نے مزید فرمایا کہ انسان کی فطرت میں قدرت نے ہم جنس پرستی کو رد کرنے کارجحان رکھاہے۔ خدا تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان تعلقات میں ایک لذت رکھ دی ہے اور اسی لذت کے حصول کے دوران ہی اولاد کا سلسلہ شروع ہوتاہے ۔

ناصرباغ (گروس گیراؤ) میں جرمن مہمانوں کے ساتھ مجلس سوال وجواب (۲۰ مئی ۱۹۹۹ء)

ناصرباغ(گروس گیراؤ) جہاں ایک عرصہ تک جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ ہائے سالانہ اور ذیلی تنظیموں کے اجتماعات اوردیگراہم تقریبات کا انعقاد ہوتارہا ہے ۔ وہاں مسجدبیت الشکور میں جرمن افراد کے ساتھ ایک مجلس سوال وجواب کا انعقاد کیاگیا۔ چنانچہ حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ شام ساڑھے چھ بجے کے قریب مسجد میں تشریف لائے اورکرسی ٔ صدارت پر رونق افروزہونے کے بعد ترجمانی کے فرائض سرانجام دینے والے محترم ہدایت اللہ ھبش صاحب سے دریافت فرمایا کہ کیا نئے سوالات بھی ہیں یا پرانے ہی ہیں؟ تو ھبش صاحب نے جو تحریری طور پر سوالات وصول کر رہے تھے جواباً کہا کہ نئے سوالات بھی ہیں۔ واضح رہے کہ حضور نے اپنے گزشتہ سال کے دورہ میں ناصر باغ میں ہی مجلس سوال وجواب میں اس بات کا اظہار فرمایا تھا کہ نئے لوگ اور نئے سوالات بھی آنے چاہئیں۔ چنانچہ امسال یہ کوشش کی گئی تھی کہ نئے سوالات پیش کئے جائیں۔

تلاوت قرآ ن کریم اور اس کے جرمن ترجمہ کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جن کے جوابات حضور انور رحمہ اللہ نے ارشاد فرمائے۔ حضور انور کے دینی و دنیوی علوم پرمشتمل جوابات سے لوگ بہت متاثر ہوئے یہاں تک کہ بعض مردوزن ایک دوسرے کومسرت سے دیکھ کر تسلی کا اظہار کرتے تھے۔ ان میں سے بعض سوالات اور ان کے جوابات کا خلاصہ احباب کے ازدیاد علم وعرفان کے لئے اپنی ذمہ داری پر پیش خدمت ہے :

*۔۔۔اسلام میں جنت و دوزخ کا کیا تصورہے؟

حضور اید ہ اللہ نے فرمایا کہ حقیقت میں اسلام میں جنت ودوزخ کا تصور بہت منطقی اور معقول ہے ۔ ہر شخص اس دنیا کی زندگی میں ہی اپنی جنت یا جہنم بنا تاہے۔ تمام لوگ جو دوسروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں وہ ایک محبت اور امن کے ماحول میں رہتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو جنت میں جائیں گے۔ وہاں ان کے اس دنیا کے اعمال مختلف شکلوں میں متمثل ہو کر ظاہر ہونگے۔ جب آپ خدا اور اس کے بندوں سے امن اور تسلیم کے ساتھ رہتے ہیں توگویاآپ دودھ اور شہد کی نہروں میں بستے ہیں۔ شہد میں شفا ہے اور دودھ ایک جامع خوراک ہے ۔اگلے جہان میں جو بھی آپ کو ملے گا وہ علامتی(Symbolic) ہوگا لیکن درحقیقت خدا کے قرب کی وجہ سے آپ اس دنیا کی نسبت وہاں زیادہ خوش ہونگے۔ ایسا ہی حال دوزخیوں کا ہے جو لوگوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں وہ کبھی بھی امن کے ساتھ اور خوشی کے ساتھ نہیں رہتے۔ ان کے دلوں میں ایک آگ لگی ہوتی ہے ۔ یہی آگ ہے جوان کے لئے اگلے جہان میں متمثل ہوگی۔

*۔۔۔ایک ضمنی سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ روح انسان کے اندر ایک لطیف چیزہے ۔ یہ انسان کے اندرآخری اتھارٹی ہے۔ جو بھی آپ اچھا یا برا کام کریں اس کا روح پراثر پڑتا ہے۔ روحیں نہ نَر ہیں نہ مادہ ۔ جب یہ روحیں بدن سے آزاد ہوتی ہیں تو انہیں ایک خاص شکل دی جاتی ہے ۔ اِس دنیا میں انسان کا رہن سہن اور طرزعمل اُس روح کی شکل متعین کرتے ہیں۔ جو روحیں اس دنیامیں خدا کی صفات کا رنگ اختیار کرتی ہیں وہ خدا کے ہاں زیادہ حسین ہونگی اور جو کم صفات کو اپنانے والی ہونگی وہ اسی نسبت سے کم حسین ہونگی۔

*۔۔۔کیا آپ کے نزدیک مشرق و مغرب میں اسلام کو غلط طور پر پیش کیا جاتاہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایاکہ بدقسمتی سے اس کی ذمہ داری مسلمانوں پرہی عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ حقیقی اسلام کی تعلیمات اور بانی ٔ اسلام ﷺ کے اسوہ پر عمل نہیں کررہے۔ مغرب ان کی حرکتوں کو اچھالتاہے کہ کیوں نہ اس اسلام کولوگوں کے سامنے پیش کیاجائے جسے مغربی دنیا کبھی قبول نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں اسلام کے متعلق جو بھی منفی پراپیگنڈہ کیاجاتاہے اس کے ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔ اس کی مثال کے طورپر حضور نے فرمایا کہ مثلاً اسلام کے نام پردہشت گردی کرنا، لوگوں کو جبراً اسلام میں داخل کرنا، غیر مسلموں کو اسلامی حکومتوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے عقیدے پر قائم رہنے اور اس پرعمل کرنے سے روکنا ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔

*۔۔۔اگلا سوال یہ تھا کہ آپ کا یعنی جماعت احمدیہ کا دیگر اسلامی تنظیموں سے کیافرق ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم ان تمام باتوں کو رد کرتے ہیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیاہے۔ ہم مذہب کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں ۔ ہر مذہب کوآزاد رہنا چاہئے کہ و ہ اپنے عقائد کا پرچارکرے مگر تلوار اور جبرواکراہ کے ساتھ نہیں بلکہ محبت کے ساتھ اورعقل اور دلائل و براہین کے ساتھ دوسروں کو قائل کیاجائے ۔

*۔۔۔اس سوال کے جواب میں کہ ایک الگ اسلامی جماعت بنانے کی کیاضرورت تھی؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے لئے بہت اہم تھا کہ ہم ان لوگوں سے ممتاز ہوں جن کا ابھی میں نے ذکرکیاہے۔ اگر ہم ایک امتیازی حیثیت نہ رکھیں تو تمام دیگر مسلمانوں کے غلط کاموں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ان جیسا ہی شمار کیاجاتا ۔ مگر جب ہم اپنے تعارف میں ’احمدیہ مسلم جماعت‘ کہتے ہیں تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں اور ہم مذہب میں محبت اور امن کا پرچار کرنے والے ہیں اور صرف احمدیہ نام کی وجہ سے لوگ جان لیتے ہیں کہ ہمارا مؤقف کیا ہے۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ قرآن کو سمجھنا کافی مشکل ہے !

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن کو سمجھنا بہت مشکل ہے یہ بہت گہرے فلسفیانہ اور علمی مضامین پرمشتمل ہے ۔ اس کی فلاسفی تمام کائنات پر حاوی ہے ۔ عام آدمی کے لئے اس کو سمجھنا بہت مشکل ہے ۔ اس پہلوسے گویااس کا عرفان حاصل نہیں کیاجاسکتا لیکن بایں ہمہ یہ دعویٰ کرتاہے کہ یہ ہر شخص کے لئے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کامذہبی قانون بہت واضح اورسادہ ہے اور ہر مسلمان آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ اسے قرآنی احکام کے مطابق کس طرح اپنی زندگی گزارنی چاہئے ۔ تویہ بیک وقت قریب ہونے کے باوجودبہت دور بھی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ قرآ ن مجید کے وسیع مضامین سے متعلق کسی قدر تعارف کے لئے، اگرآپ انگریزی جانتے ہیں،تو میری کتاب “Revelation,Rationality,Knowledge and Truth”سے فائدہ اٹھائیں۔

*۔۔۔آپ عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے لئے کیا کر رہے ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہم ہر قسم کی تعلیم(ایجوکیشن) کے لئے وقف ہیں۔ قرآن مجیدکی تعلیم بھی ایک تعلیم ہے ۔ ہم اپنی عورتوں کو دوطورپر تعلیم دیتے ہیں۔ انہیں مذہبی پہلوؤں سے بھی تعلیم دیتے ہیں اور سیکولر تعلیم میں بھی آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ اگر کوئی غریب عورت محض تعلیم کے لئے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے محروم ہو رہی ہو اور اگر اس میں تعلیمی استعداد ہے توجماعت اس کی مدد کرتی ہے ۔ نہ صرف جرمنی میں بلکہ ساری دنیا میں ایسا ہو رہا ہے ۔ دنیا میں کوئی مذہبی جماعت اپنی عورتوں اور بچوں کی تعلیم کے لئے اتنی کوشش نہیں کر رہی جتناہماری جماعت کررہی ہے۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مکرم امیر صاحب جرمنی نے بتایا ہے کہ جرمنی میں احمدی عورتوں اوربچیوں کا دینی و دنیاوی تعلیم کامعیار لڑکوں اور مردوں سے بہت بلند ہے۔

*۔۔۔ابارشن یعنی اسقاط حمل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگرطبی طورپر ڈاکٹرمریض کو کہے کہ بچہ جو ماں کے رحم میں ہے وہ اتنا مریض ہے کہ وہ ماں کی زندگی کے لئے خطرہ ہو سکتاہے تو اس صورت میں اسلام ابارشن یعنی اسقاط حمل کی اجازت دیتاہے۔

*۔۔۔موسیقی اور اسلام کے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سچا مذہب اپنی ایک موسیقی رکھتاہے۔ یعنی ہر سچا مذہب خدا کے تعلق میں ایک ایسی محبت پیدا کرتاہے جو روح میں موسیقی کی لہریں پیدا کرتی ہے اور روح کو ایک سکون اور طمانیت بخشتی ہے ۔ موسیقی کا مقصد اعصاب کو تسکین اور آرام پہنچانا ہے۔ کہا جاتاہے کہ موسیقی روح کو طمانیت بخشتی ہے مگر یہ بات پرانی ہو چکی ہے ۔ آج کل کا پاپ میوزک اور راک میوزک روح کو تسکین نہیں دیتا بلکہ روح کو اوچھی حرکات(Vulgarity) پرابھارتاہے ۔

حضور نے فرمایا کہ اسلام مسجدوں میں عبادت کے لئے موسیقی سے مدد لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ اگر آپ واقعۃً خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو یہ ایما ن خو د بخود اپنی ذات میں روح کو ایک راحت و تسکین بخشتاہے۔

*۔۔۔اسلام کا سائنس کے متعلق کیا رویہ ہے ؟

اس سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک کو ئی سچا مذہب کسی صورت میں سائنس سے متضاد اور متصادم نہیں ہو سکتا اور یہ دعویٰ نہایت معقول ہے۔ اسکے سوا کوئی دعویٰ ہو ہی نہیں سکتا اور یہ اسلام پر پوری طرح اطلاق پاتاہے ۔ مذہب خدا کا قول ہے اور سائنس خدا کا فعل ۔ تو خدا کا قول اس کے فعل کے خلاف کیسے ہو سکتاہے۔حضور نے فرمایا میرا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ اور ہر نبی کے وقت میں ایسا ہی تھا۔ سائنس اورمذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوئے۔ بعض لوگ جو معجزہ کو غلط سمجھے انہوں نے مذہب اور سائنس میں تصادم دکھایا۔ یہ سب اس دور کی باتیں ہیں جب لوگوں نے مذہب کو غلط طور پرسمجھا ۔ عیسائیت میں بھی ایسا ہی ہوا۔بگڑی ہوئی عیسائیت میں لوگوں نے دیکھا کہ یہ سائنسی حقائق سے متصادم ہے تووہ مذہب سے دور ہوتے گئے۔

حضور نے فرمایا کہ اگرآپ معجزہ کی اصلیت کو سمجھ لیں تو سائنس اور مذہب میں کوئی تضاد دکھائی نہیں دے گا۔ حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کو لوگو ں نے سمجھا کہ گویا وہ قوانین قدرت سے متصادم تھے ۔ حضور نے فرمایا کہ میں ثابت کر سکتاہوں کہ ایساہرگز نہیں تھا۔

*۔۔۔ جرمنی میں جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں پبلک سکولز میں بچوں کو مذہبی تعلیم دینے کے متعلق بحث ہو رہی ہے ۔ آپ کا اس بارہ میں کیا نظریہ ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں اس بات کا سخت مخالف ہوں ۔ اگر حکومت یہ سلسلہ شروع کر دے تو کس مذہب کو وہ تعلیم کے لئے چنے گی اور پھر ایک مذہب کے اندر مختلف فرقوں کے باہم اختلافات ہیں ان میں سے کس کو ترجیح دیں گے ؟ اسلام میں تہتّر فرقے ہیں ۔ اسی طرح عیسائیت اوریہودیت میں بھی بے شمار فرقے ہیں ۔ حضور نے فرمایا میں نے ہمیشہ یہ تجویزدی ہے کہ سکولوں میں صرف اخلاقی تعلیم دی جائے ۔ جب آپ اخلاقی تعلیم کا انتخاب کریں گے تواس میں آپ تمام مذاہب کو متحدو مشترک پائیں گے۔

*۔۔۔خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خدا کو کوئی سمجھ نہیں سکتا کیونکہ خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے اور ہمارے اوراس کے درمیان اتناعظیم فرق ہے کہ ہم اس کا تصور پوری طرح کرہی نہیں سکتے۔

حضور نے مثال کے طور پر فرمایاکہ ایک کیڑا انسان کاتصور کرہی نہیں سکتا ۔ اسی طرح مثلاًایک کمپیوٹر انسان کے تصور کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ کوئی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پا سکتی۔اسی طرح ہم خدا کی کنہہ کہ نہیں پا سکتے ۔ اس سوال کے جواب میں حضور نے ارسطو کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے علم کے مطابق ارسطو ایک عظیم فلاسفر تھا ۔ وہ سمجھ گیاتھا کہ جو کچھ بھی پیدا ہوا ہے وہ اتنا Complex ہے کہ ناممکن ہے کہ یہ از خود وجود میں آیا ہو۔

یہ دلچسپ مجلس قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی جس میں یک صد کے لگ بھگ جرمن مہمانوں نے شرکت کی۔

جرمن مہمانوں کے ساتھ مجلس سوال وجواب (۲۱مئی۱۹۹۹ء)

آ ج سہ پہر حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ کے ساتھ جرمن مہمانوں کی ایک مجلس سوال وجواب منعقدہوئی۔ ذیل میں بعض اہم سوالات و جوابات کا خلاصہ اپنی ذمہ داری پر ہدیۂ قارئین ہے :۔

*۔۔۔اگر اسلام کسی کلچرکو پسند نہیں کرتا تو کیا ایسے کلچر کے تعلق میں والدین کی نافرمانی ہو سکتی ہے ؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کلچر ایک سوشل نظام کا یونیورسل تصور ہے او ر کلچرمسلسل بڑھتا رہتاہے جیسے پھولوں کا گلدستہ ہو اس میں اور پھول شامل کریں تو گلدستہ میں او ر رنگ بھرجاتے ہیں ۔

حضور نے فرمایا لیکن بعض نظریات ایسے ہیں جو بعض مذاہب سے خاص ہیں ۔ مذہبی لحاظ سے بچوں کو صرف کلچرکے اس حصہ میں شمولیت سے باز رہنا چاہئے جس بارہ میں وہ کلچر مذہب سے متصادم ہے۔ اگرماں باپ کا کلچر آزاد ہے اورکسی مذہب کے خلاف نہیں تو اس کلچرمیں رہنے میں کیا حرج ہے۔ اگر وہ کلچر مذہب سے متصادم ہے تو اس بارہ میں ماں باپ کی نافرمانی کا سوال نہیں بلکہ خدا کی نافرمانی کا سوال ہے۔

*۔۔۔کیا آپ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک روز پاکستان میں کثرت سے لوگ احمدیت کوقبول کریں گے ؟

حضور انور فرمایا مجھے یقین ہے کہ خدا کے فضل سے ایک دن احمدیہ جماعت ساری دنیا میں غالب آئے گی پاکستان تو دنیا کا ایک معمولی حصہ ہے۔ مگر اِس وقت آپ کے لئے اُس گھڑی کا تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ ایسا کیونکر ہوگا۔ لیکن ماضی کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں کہ جب مسیح ناصری فلسطین میں تھے تو کتنے لوگوں نے انہیں قبول کیا تھا۔ شاید تیس آدمیوں نے لیکن انجامکار کون غالب آیا۔حضر ت مسیح علیہ السلام غالب آئے اور ان کے مخالف ناکام رہے۔ ابھی یہ یقین کرنا مشکل ہے لیکن ایسا ہوکر رہنے والا ہے۔

*۔۔۔حقیقی امن کے قیام کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امن کے موضوع پرمیں نے کئی بار کہا ہے کہ امن عدل کی بنیادوں پراستوار ہو سکتاہے اورعدل Absolute ہونا چاہئے ۔ عدل ریجنل یا علاقائی نہیں ہو سکتا۔ یہ عالمی ہونا چاہئے۔ دنیا کے سیاستدانوں کو عالمی انصاف کے لئے کوشش کرنا ہوگی لیکن اس سے وہ احتراز کرتے ہیں تو حقیقی امن کیسے قائم ہو سکتاہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نیچے کی منزل تعمیر کئے بغیر اوپر کی منزل بنانے کی کوشش کی جائے ۔

*۔۔۔عورت کے متعلق قرآ ن مجیدکیا کہتاہے اور اسلام میں روزمرہ کی زندگی میں عورت کا کیا کردار ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قرآن مجید ایک حقیقت پر مبنی کتاب ہے ۔ اور خدا کے کلام کوایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ کہتاہے کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حقوق ہیں۔ حضور نے مردوں اور عورتوں میں فطری فرق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ مرد اپنے پیٹ میں بچے نہیں اٹھا سکتے ۔ عالمی سطح پر مردوں اور عورتوں کے کھیلوں کے مقابلے الگ الگ ہوتے ہیں۔ یہ ناانصافی نہیں بلکہ انصاف کے مطابق ہے۔ اسی طرح اسلامی تعلیم عورتوں کے تقاضوں کے مطابق ان کے لئے خصوصی احکاما ت رکھتی ہے ۔ لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے ان کے حقوق میں برابری ہے ۔

حضور نے فرمایا کہ جرمنی میں مقیم احمدی عورتوں کو آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ اگر وہ چاہیں تو اس آزاد ملک میں آزادانہ زندگی کی طرز عمل اختیار کرسکتی ہیں لیکن انہوں نے جو پردہ اختیار کر رکھاہے وہ اپنی مرضی سے ہے اور وہ اس میں خوش ہیں کیونکہ اسلام ان کی اعلیٰ ترقیات میں روک نہیں بنتا۔ اگر وہ چاہیں تو سائنسدان بن سکتی ہیں ، ٹیچر ، ڈاکٹر ، سرجن وغیرہ بن سکتی ہیں۔ زندگی ان کے لئے بہت سے مواقع مہیاکرتی ہے اور اسلام ان کے ان ارفع مقامات تک پہنچنے میں ممد ہے اور کسی صورت میں بھی روک نہیں۔

*۔۔۔جب کوئی مرتاہے تواس کی روح سے کیا ہوتاہے۔ کیاوہ اس دنیا میں رہتی ہے یا کہاں جاتی ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ روح ان چارجہات سے متعلق نہیں جنہیں ہم جانتے ہیں۔ آسمانی یابہشتی روح اس جگہ رہ سکتی ہے جہاں دوسری روحیں ہیں کیونکہ ان کی Dimensions میں فرق ہے ۔ حضور نے فرمایا ا س موضوع پر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘بہت بہتر کتاب ہے۔

*۔۔۔اگرہرچیز خدا کی پیدا کردہ ہے تو وہ گویا خدا کا حصہ ہے ؟

حضور نے فرمایا کہ خالق اور مخلوق ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں ، وہ کبھی ایک نہیں ہو سکتے ۔ مثلاً یہ ہال کسی نے بنایا ہے مگر وہ خود ہال نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ ااس ہال میں اس کے نقوش مرتسم ہیں مگروہ اس سے مختلف ہے ۔ ایک آرٹسٹ جو آرٹ بناتاہے وہ کتنی بھی خوبصورت تصویر بنائے وہ تصویرآرٹسٹ نہیں ہوتی۔

*۔۔۔اس سوال کے جواب میں کہ اسلام مسلمان عورتوں کی غیر مسلموں سے شادی کو Promote نہیں کرتا ۔ حضور نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت خدا کے حکم کے خلاف کسی عیسائی سے شاد ی کرتی ہے تو یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے ۔ میں کون ہوتاہوں جو اس کے معاملہ میں دخل دوں۔ و ہ اپنے لئے جو رستہ چاہے اختیار کرے ۔

*۔۔۔پاکستان میں احمدیوں پرظلم کیوں ہوتے ہیں؟حضور نے فرمایا کہ اس بارہ میں میں آپ کو ایک بنیادی حقیقت کی طرف توجہ دلاتاہوں ۔ جب عقل اور دلیل کے میدان میں لوگ شکست کھاتے ہیں تو پھروہ ظلم و ستم پرآمادہ ہو تے ہیں۔ حضر ت عیسیٰؑ پر ظلم کیوں کئے گئے۔ ان کا پیغام تو یہ تھا کہ کوئی تمہارے ایک گال پرتھپڑ مارے تودوسرا آگے کردو۔ اس سے نرم تعلیم بھی کوئی ہو سکتی تھی؟مگر پھر بھی ان کی مخالفت ہوئی ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان کے مخالف جانتے تھے کہ یہ پیغام غالب آنے والا ہے اور اسی خوف نے انہیں ظلم و ستم پر آمادہ کیا ۔ حضور نے فرمایا ملاں اور سیاسی لوگ جانتے ہیں کہ احمدیت کا پیغام دلیل کے ذریعہ مغلوب نہیں کیا جا سکتا ۔اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ وہ تلوار کے ذریعہ اسے دبا دیں گے ۔ لیکن یہ ناممکن ہے ۔ وہ تاریخ کو للکار رہے ہیں اور تاریخ جیتے گی اور جیت کر رہے گی۔

*۔۔۔اسلام اور عیسائیت میں کیا فرق ہے اور عیسائی عقیدہ میں کیا غلطی ہے ؟

ا س سوا ل کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر عیسائی عقیدہ سے مراد حضرت مسیح ناصری ؑ کا عقیدہ ہے تواس میں کوئی غلطی نہیں ۔ یہ ناممکن ہے کہ ہم ان کے عقیدہ کوغلط کہیں۔ بانی ٔ جماعت احمدیہ نے مسیح زماں ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مسیح اول کے عقیدہ کو غلط کہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ نہایت اہم وقت ہے کہ عیسائی حضرت مسیح ناصری کے پیغام کی طرف واپس لوٹیں اور سینٹ پال کی عیسائیت کو ترک کردیں۔ عیسائی عقیدہ اپنی مبادیات میں اسلام سے مختلف نہیں لیکن تفصیلات میں فرق ہے۔ جیسے ارتقاء میں زندگی نئے مراحل طے کرتی ہے اسی طرح مذہبی ارتقاء میں اسلام آخری نقطۂ عروج ہے ۔

احمدی طالبات اور ناصرات الاحمدیہ کے ساتھ مجلس سوال وجواب (۲۲مئی ۱۹۹۹ء)

آج صبح ساڑھے نوبجے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ایپل ہائم میں ناصرات الاحمدیہ کے ساتھ مجلس سوال و جواب اور نومبایعات کے ساتھ ایک نشست میں شمولیت کی غرض سے مسجد نور فرینکفورٹ سے روانہ ہوئے ۔ ساڑھے دس بجے ناصرات الاحمدیہ کے ساتھ مجلس سوال و جواب شروع ہوئی۔ تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمہ کے بعدسوال وجواب شروع ہوئے۔ چند ایک خاص سوالات اور ان کے مختصر جوابات اپنی ذمہ داری پر پیش ہیں:۔

*۔۔۔کیا احمدی حج کے موقعہ پر غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ احمدی ایسے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ امام کا انکار کرتا ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ؐ کے مقرر کردہ امام کا منکر ہونے کی جرأت کرتاہے وہ امام ہے ہی نہیں۔ وہ محض نام کا امام ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ اس لئے احمدی حج کے موقعہ پر اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔

*۔۔۔ایک لڑکی نے سوال کیا کہ ایک جرمن لڑکی جو مسلمان ہونا چاہتی ہے پوچھتی ہے کہ کیا مسلمان ہونے کے بعد سر ڈھانپنا ضروری ہے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا سر ڈھانپنا تو لازم ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے اس کی تعلیم دی ہے۔ اسلام سے پہلے دوسرے مذاہب میں بھی یہ تعلیم تھی ۔ عیسائیت میں بھی یہی حکم ہے ۔ سرڈھانپنا عورت کے لئے از حد ضروری ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ مردوں کے لئے بھی سر پرٹوپی یا کوئی لباس ہو تو اس سے ذمہ داری کا احساس ہوتاہے۔

*۔۔۔لو گ کہتے ہیں بائبل اورتوراۃ میں بہت تبدیلی ہو چکی ہے ۔ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ قرآن میں تبدیلی نہیں ہوئی؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بائبل کے متعلق ان کے اپنے محققین کا اعتراف ہے کہ ا س میں تبدیلی ہوئی ہے اور ہوتی رہی ہے ۔ یہ تو شک سے بالا بات ہے ۔ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے چونکہ یہ ساتھ ساتھ تحریرمیں بھی آ رہا تھا اور زبانی بھی اسے یاد کیاجارہاتھا ۔ حضرت عثمانؓ نے جب اسے جمع کیا تو تحریر کے علاوہ حفاظ کی زبانی یادداشت سے بھی اسے جمع کیا ۔ حضور نے قدرے تفصیل سے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم ہر قسم کی انسانی دستبرد اور تبدیلیوں سے محفوظ ہے ۔

*۔۔۔ڈراؤنے خوابوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ اطمینان دلایاہے کہ ڈراؤنے خواب اکثر تو نفس کے خواب ہوتے ہیں ۔ انسان کے وہم اور خوف جو دن بھر جاری رہتے ہیں وہی اس میں بھی جاری رہتے ہیں ۔ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی منذر خواب ہوں تو وہ تنبیہ کے طورپر ہوتے ہیں ۔ اس کاعلاج یہ ہے کہ دعا کرو، توبہ کرو ، استغفار کرو ، صدقہ و خیرات کرو تو اس سے بلا کو ٹالا جا سکتاہے ۔

قریباً ایک گھنٹہ تک یہ مجلس سوال وجواب جار ی رہی۔ سوالات وجوابات کا ساتھ ساتھ جرمن زبان میں ترجمہ بھی پیش کیا جاتارہا۔

نومبایعات کے ساتھ نشست

گیارہ بج کر چالیس منٹ پر اسی ہال میں نو احمدی مبایعات کے ساتھ ایک نشست منعقد ہوئی جس میں جرمن، افغانی، بوسنین، البانین بچیوں اور مستورات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کامنظوم کلام اردو میں پڑھ کر سنایا ۔ اگرچہ اردو ان کی زبان نہیں تھی لیکن دل کی گہرائی سے پڑھا جانے والا مامور زمانہ کا پاکیزہ کلام جو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ، آنحضرت ﷺ کی نعت اور اسلام و قرآن مجید کے فضائل پرمشتمل تھا، ایک عجیب وارفتگی پیداکر رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی۔ آپ کے پاکیزہ روحانی کلام کے چشمۂ رواں سے آج ہر قوم سیراب ہو رہی ہے ۔پھر مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں نے حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ کی نظم’’الٰہی مجھے سیدھا رستہ دکھا دے‘‘پڑھی۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ پروگرام بہت اچھا ہے لیکن اسے صحیح طریق پرابھی منظم نہیں کیا جا سکا۔ جنہوں نے بھی نظم پڑھی ہے اللہ کے فضل سے اچھی پڑھی ہے مگر اورمحنت ہوتی تو جو اچھی کلاسیکل آوازیں ہیں ان کی نقل اتار سکتی تھیں۔ یہ خیال بہت اچھا ہے اس سے انشاء اللہ اردوکلاس میں بہت مدد ملے گی۔ آپ کی کیسٹ کو جہاں تک ممکن ہوا اردو کلاس میں سنا کر اس کا ترجمہ بھی بتاؤں گا۔ حضور نے فرمایا کہ لندن واپس جا کراس سے زیادہ قومیت کے بچوں کو منظم کراؤں گا تا کہ کثرت سے مختلف قومیتوں کی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ سناسکیں۔

Hergershallsen میں البانین افراد کے ساتھ مجلس سوال وجواب(۲۲مئی۱۹۹۹ء)

۲۲؍مئی ۱۹۹۹ء بروز ہفتہ مسجد نور فرینکفورٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک مقام Hergershallsen کے سٹی ہال میں البانین افراد کے ساتھ ایک مجلس سوال وجواب کا انعقاد ہوا جس میں سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہمانوں کے سوالات کے جوابات ارشاد فرمائے۔شام ساڑھے چھ بجے تلاوت قرآن کریم اور اس کے البانین ترجمہ کے بعد ایک پاکستانی بچی کے ہمراہ دو البانین بچیوں نے سفید شلوار قمیص میں ملبوس اور سر پر دوپٹہ لئے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرمعارف منظوم کلام ’’حمدوثنا اسی کو جو ذات جاودانی‘‘ سے چند اشعار نہایت ترنم اور خوش الحانی سے پڑھے۔ ان بچیوں کا غیر زبان میں اس محویت سے کلام پڑھنا دلوں پرایک عجیب پرمسرت کیفیت طار ی کر رہا تھا اور سفید پرندوں کی زبانوں پر امام وقت کے کلام کا جاری ہونا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دی جانے والی خوشخبریوں کی صداقت کا حسین ثبوت پیش کر رہا تھا ۔

اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ محترم ڈاکٹر محمد زکریا خان صاحب کے پاس حضور کی تشریف آوری سے قبل بعض حاضرین نے تحریر ی طورپر جمع کروا دئے تھے۔ چنانچہ ان سوالات اور جوابات کا البانین ترجمہ محترم زکریاخان صاحب نے ہی پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ان میں سے چند ایک سوالات اور ان کے جوابات خلاصۃًاحباب کے ازدیاد علم و ایمان کی خاطر اپنی ذمہ داری پر پیش ہیں۔

*۔۔۔بلقان میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے خصوصیت سے بوسنیا اور کسووا میں کیا اس کامقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کومکمل طورپر ختم کر دیا جائے؟

حضور انور رحمہ اللہ نے فرمایاکہ مقصد تو اس سے کچھ ملتاجلتاہی ہے ۔ جہاں تک سربیاکے لیڈرملاسووچ کا تعلق ہے وہ نفسیاتی لحاظ سے شدید بیمار ہے ۔ دس سال پہلے اس نے یہ بیہودہ اعلان کیاتھا کہ مسلمانوں کو مٹا دیا جائے ۔ بدقسمتی سے جو جوابی کارروائی ہو رہی ہے اس کا بھی یہی نتیجہ نکل رہا ہے ۔ حضور نے فرمایاکہ مسلمانوں کوکلیۃً مٹانے کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ابتداء میں شدید نقصان ضرورپہنچا سکتے ہیں جووہ پہنچا رہے ہیں۔

*۔۔۔کسووا کی لڑائی کے متعلق یہ سنا جاتاہے کہ یہ ایک مذہبی لڑائی ہے ۔ آپ کااس بارہ میں کیاخیال ہے ؟

حضور نے فرمایا کہ ایک پہلوسے تویہ بالکل درست ہے جیساکہ میں نے ابھی جواب دیاہے کہ مسلمانوں کے دشمن ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو مٹانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس پہلو سے تو یقیناًیہ مذہبی لڑائی ہے ۔ اور جو مظلوم مقابلہ کر رہے ہیں اور اس راہ میں مارے جارہے ہیں وہ میرے نزدیک شہیدہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبہ پائیں گے۔ لیکن ایک پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بیچارے عملاً اسلام سے بہت دور ہٹ چکے تھے ۔ بوسنیا کے مسلمانوں کا بھی پہلے یہی حال تھا ۔ اس پہلو سے جب انہیں مسلمان سمجھ کر ان پرحملہ کیا گیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلاہے کہ اسلام ان کے اندر بیدار ہو گیا ہے۔ اس پہلوسے نقصان کے اندر فائدہ بھی ہے۔مسلمانوں کے دلوں میں شدید صدمہ ہے کہ بڑی تعداد میں ان کے مسلمان بھائی مارے جا رہے ہیں اور روحانی لحاظ سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اسلام ان کے اندر بیدار ہو رہاہے۔

*۔۔۔کوسووا کی حمایت میں عالمی رائے کیاہے اور بالخصوص اسلامی ممالک کی کیا رائے ہے؟۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا جہاں تک اسلامی ممالک کاتعلق ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کو بھی دکھ ضرور ہے اور تکلیف محسوس کرتے ہونگے۔ جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے ان کی ہمدردیاں سوائے چین اور روس کے لازم ہے کہ کسوون کے ساتھ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اسلامی ممالک نے عملاً و ہ خدمت سرانجام نہیں دی جو ان کو کرنی چاہئے تھی۔ اگر کرتے تو آ ج کے بحران سے بہت پہلے سے کسوون کی اتنی مددکر سکتے تھے کہ وہ ایک بہت عظیم قوم کے طورپرابھر سکتے تھے کہ پھر ان پرحملہ کی جرأت کم ہوتی لیکن ان کی بلا سے جو گزر جائے ، گزر جائے ۔ بعد میں جب لڑائی ہو تو پھر زبانی جمع خرچ کرتے ہیں ۔ معمولی مالی مدد دیتے ہونگے لیکن جیسا کہ خدا نے انہیں دولت سے نوازا ہے اگر اس کا سوواں حصہ بھی اہل کسووا کے لئے خرچ کرتے تو کسوون کی یہ حالت نہ ہوتی۔

*۔۔۔کیا البانین لوگ بلقان میں اپنے بدترین دشمن سے نجات پالیں گے؟

اس سوال کے جواب میں حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھے تو یقین ہے کہ نجات پا لیں گے ۔ سب سے بڑی وجہ اس سے نجات کی یہ ہے کہ چونکہ اسلام کی وجہ سے انہیں نشانہ بنا یا گیاہے اس لئے ساری دنیا میں جماعت احمدیہ روزانہ بلا ناغہ دعا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ظالموں سے نجات دے ۔ اس لئے اس دعا کے نتیجہ میں نجات ملے گی ۔ اسکے بعد وہاں اسلام کی بنیادیں از سرنو رکھی جائیں گی ۔ اللہ کرے کہ وہ وقت جلد آ جائے ۔

*۔۔۔اس سوال کے جواب میں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی شخص وحی و الہام پائے؟

حضور نے فرمایا کہ وحی و الہام کا جاری ہونا قرآن کریم سے قطعی طور پرثابت ہے ۔ اور قرآن کریم جب وحی کو جاری رکھ رہا ہے تو کسی کاحق نہیں ہے کہ وحی کو بند کر دے۔ حضور نے فرمایا کہ خاص طورپر آپ پر جو مظالم ہو رہے ہیں آپ میں سے جو بھی اللہ کی خاطر صبر و استقامت دکھاتاہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی خوشخبری ہے کہ اس پروحی والے فرشتے نازل ہونگے۔ حضور رحمہ اللہ نے آیات کریمہ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا ۔۔۔۔۔۔) (حٰم سجدہ:۳۱۔۳۳) تلاوت کی اور ان کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جو (رَبُّنَا اللّٰہ)کہہ کر پھراس پر قائم ہوجاتے ہیں۔یعنی جس طرح آپ نے جھوٹے رب ملاسووچ کاانکار کر دیا ۔پھرجو صبر کرتے ہوئے اس بات پرقائم رہتے ہیں ان پر خدا کے کلام کے مطابق کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں بولنے والے، باتیں کرنے والے اور وہ کہتے ہیں تم کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کھاؤ۔ ہم تمہارے دوست اور ساتھی ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم تمہارے ساتھ رہیں گے۔ حضور نے فرمایا کہ ان آیات کریمہ سے اور بعض دوسری آیات کریمہ سے وحی کا جاری رہنا قطعی طورپر ثابت ہے لیکن حضرت جبرائیل کا براہ راست اترنا یہ الگ مضمون ہے۔ جبرائیل براہ راست صرف انبیاء پر اترتے ہیں۔ وہ سارے نظام کے سربراہ ہیں اس لئے چھوٹی وحی بھی ان کے تابع آتی ہے۔

حضور انور نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا اس کے علاوہ قرون اولیٰ میں بھی آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد قطعیت سے یہ بات ثابت ہے کہ خلفاء پر وحی اتری اور اس وحی کے کثرت سے گواہ ہیں۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ آپ ایک دفعہ منبرپر خطبہ دے رہے تھے تواچانک مضمون بدل گیا اور آپ نے فرمایا: یَا سَارِیَۃَ الجَبَل ، یَا سَارِیَۃَ الجَبَل ۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک لشکر دور لڑائی میں مصروف تھا تو ان کو متوجہ کرنے کے لئے فرمایا کہ پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ۔ اصل میں دشمن چاہتاتھا کہ پہاڑ کی طرف آگے بڑھ جائیں اس سارے لشکر نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز کو سنا ۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا تو پتہ چلا کہ اس وقت خطبہ میں موجود سارے صحابہ بھی گواہ ہیں۔ پس آنحضرت ﷺ کے بعد بھی وحی کا سلسلہ جاری رہا مگر جبرائیل کے متعلق وہی بات ہے جو میں عرض کرچکا ہوں۔

*۔۔۔ایک سوال محترم ڈاکٹر محمدزکریا خان صاحب کے البانیہ کی امداد کے متعلق سفر کے بارہ میں تھا جس پر حضور انور نے انہیں اس کی تفصیلات بتانے کا ارشاد فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم جو پاکستانی اور البانین افراد پر مشتمل تھی تین دن تک ایک شہر میں رہ کر ان کی ضروریات کا جائز ہ لیتی رہی اوراشیاء ضروریات زندگی فراہم کرتی رہی جس سے مقامی لوگ بہت خوش ہوئے اور اس قدرمتأثر تھے کہ واپسی پراشکبار آنکھوں کے ساتھ جماعت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے الوداع کہا۔

اس ضمن میں حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت جرمنی کی طرف سے مسلسل ایسے وفود جا رہے ہیں جو خالصتاً امدادی ہیں عام شہری ہیں کوئی عالم دین نہیں ہوتا۔ وہ وہاں امداد کرتے ہیں اوراس کا اللہ کے فضل سے اتنا اچھا اثر پڑاہے کہ ایک علاقے کی حکومت کا پیغام ملاہے کہ آپ کاکام نمونے کاکام ہے ۔ آپ کے سب لوگ نظم وضبط میں بھی نمونہ ہیں پس آپ ہمارے سارے کام سنبھال لیں جو پیسہ ہے و ہ جماعت احمدیہ خرچ کرے ۔ چنانچہ تین ماہ کے لئے انہوں نے معاہدہ کیاہے جسے جماعت نے بڑی خوشی سے قبول کیا ہے۔ اگر تین ماہ کے بعد بھی ان کی خواہش ہوگی تو جماعت وہ فرض ادا کرے گی۔

*۔۔۔البانیہ کے اسلامی یونین میں شامل ہونے کی بناء پر حالیہ جنگ میں اسلامی یونین کے کردار کے متعلق ایک استفسار کاجواب دیتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ البانیہ نے اسلامی یونین میں شامل ہوکر اپنی طرف سے اچھا قدم اٹھایا ہے لیکن ان کو کیافائدہ ہواہے ، کچھ بھی نہیں۔کیونکہ یورپ کو البانیہ کی مدد اس پس و پیش میں ڈالتی ہے کہ کہیں البانیہ پر بنیاد پرستوں کا قبضہ نہ ہو جائے ۔ اس لئے البانیہ کا یہ قدم بظاہر ان کے لئے فائدہ مند ہے لیکن عملاً اگر غو ر سے دیکھا جائے تو ان کے لئے نقصان دہ ہے۔ حضور نے فرمایا لیکن شکر کا پہلو یہ ہے کہ اسلامی یونین نے و ہ رسپانس نہیں دکھایا جو انہیں دکھانا چاہئے تھا ۔ اس لئے ہو سکتاہے کہ یورپ کا یہ تأثر ہے کہ خالی یہ مونہہ کی باتیں ہیں اورعملاً اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ جیسا یہ لوگ پہلے ہمارے ہاتھ میں تھے اسی طرح اب بھی رہیں گے ۔

*۔۔۔ان لوگوں کے بارہ میں آپ کی ذاتی رائے کیاہے جو نومولود بچوں کومار کے ان کو جلا دیتے ہیں؟

اس سے متعلق حضور نے فرمایاکہ وہ اپنے لئے جہنم تیار کرتے ہیں ۔ نومولود بچوں کو جلا نا یا بڑوں کو جلانا نتیجہ کے لحاظ سے ایک ہی بات ہے ۔ نومولود کوجلانا زیادہ سخت ظلم دکھائی دیتاہے کیونکہ وہ بیچارہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا ۔ نومولود کو مار کر جلانا یا بڑوں کو مار کر جلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ اپنے لئے جہنم تیار کرتے ہیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیاکہ جنگ کی وجہ سے کوسووا کے البانین ایک لمبے عرصہ تک عبادت نہیں کر سکے کیا اب بھی اللہ ہماری مددکرے گا؟

حضور نے فرمایا کہ جنگ کی وجہ سے عبادت نہ کرسکنے کی بات غلط ہے۔ اگروہ پہلے ہی سے عبادت کرتے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے جنگ کے حالات بدل سکتا تھا ۔ نام کی عبادت اور چیز ہے اور سچ مچ کی خدا کی عبادت کرنا اور بات ہے اور خدا تعالیٰ ہر گز یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی اس کی سچی عبادت کرنے والوں کو ہلاک کر سکے۔ اس کی مثال جنگ بدر کی دیتاہوں۔ باوجودیکہ مسلمان تھوڑے تھے آنحضرت ﷺکی ایک دعا کے نتیجہ میں حالات بدل گئے ۔ وہ دعا کیا تھی کہ اے اللہ! اگر تو نے مسلمانوں کو جنہیں میں نے عبادت کے گُرسکھائے ہیں ان کو اگر تو آج ہلاک ہونے دے تو پھر دنیا میں تیری کبھی عبادت نہیں کی جائے گی۔ یہ اتنی سچی اور گہری دعا تھی کہ خدا نے اپنی ساری قدرت کو استعمال کیا اور ساری کائنات کی ہر چیز کو مسلمانوں کے حق میں کر دیا۔

حضور نے فرمایا کہ کسووا اور البانیہ کے حالات میں مسلمانوں نے عملاًعبادت کھو دی تھی۔ حضور نے فرمایا کہ جنگ کے دنوں میں تو عبادت اور بھی فرض ہو جاتی ہے ۔ رسو ل اللہﷺ نے عین جنگ کے دنوں میں عبادت کی ہے ۔ حضور نے فرمایا کہ میں امید رکھتاہوں کہ ان سب باتوں کو سمجھ کر البانین اور کسوون مسلمان اپنے لئے نئی راہیں تراشیں گے جو ان کو خدا کی طرف لے جاسکیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیا کہ ہم نے کسووا میں اپنے مولویوں سے یہ بات سنی ہے اور اسلامی لٹریچر میں یہ بات پڑھی ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ۔ پھر جماعت احمدیہ نے کیسے اپنے لئے نبی بنایاہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے کوئی نبی نہیں بنایا ۔ نبی تو خداہی بنایا کرتاہے۔ اگر جماعتیں نبی بنائیں تو وہ ناکام ہو جایا کرتے ہیں اور خدا انہیں ذلیل و نامراد کرتاہے۔ اور جسے ہم نے نبی مانا ہے وہ تو دنیا میں ہر جگہ کامیاب ہو رہا ہے اور پھیلتا چلا جا رہاہے۔ اس لئے سوال کو درست کرنا چاہئے کہ اگر آنحضرت ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آنا تو پھر خدا نے نبی کیوں بھیجا ۔حضور رحمہ اللہ نے فرمایا مولویوں نے آپ کو غلط باتیں پڑھائی ہیں کہ آنحضرت ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا ۔حضور نے اجلاس کے آغاز میں تلاوت کردہ آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں بھی میثاق النبیین کا ذکر تھا کہ اگر کوئی ایسا رسول آئے جو میرے بھیجے ہوئے کی باتوں کی تصدیق کرتاہے تو تم اس پر ایمان لانا او ر اس کی مدد کرنا ۔ثابت ہوا کہ امتی نبی آ سکتاہے جو نہ قرآن میں تبدیلی کرے بلکہ اس کی تصدیق کرے اور حضرت محمد ؐرسول اللہ کا غلام اور مطیع ہو ایسانبی آ سکتا ہے ۔ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی کو نبی بنایا مگرامتی نبی بنایا ۔ امّت محمدیہ پر قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا بنایا ۔

حضور نے فرمایا کہ جس میثاق النبیین کا حوالہ دیا گیاہے یہ قرآن کریم میں درج ہے ۔ بعض علماء عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺسے پہلے لوگوں سے میثاق لیا گیاتھا اور مطلب یہ تھا کہ جب رسول اللہ ﷺ آئیں تو ان پر ایمان لانا اوران کی مدد کرنا۔ یہ درست ہے مگر اسی سورۃ الاحزاب میں جس میں آیت خاتم النبیین ہے میثاق النبیین کا بھی ذکر ہے اور یہ ذکر ہے کہ پرانے نبیوں سے بھی میثاق لیا اور مِنْکَ تجھ سے بھی ۔ اگر آپ ﷺکے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آنا تھا جو سو فیصد آپ کا غلام اور مطیع اورامتی ہونا تھا تو اس میثاق کے آنحضور ؐ سے لینے کا کوئی مطلب نہیں تھا جب تک ایسے نبی کے آنے کی قطعی پیشگوئی نہ ہوتی۔

*۔۔۔ایک صاحب نے تحریری طور پر جماعت احمدیہ کے امام یعنی حضرت خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ تعالیٰ کی جرمنی میں آمد پر خوش آمدید کہا اورکوسووا کے مظلومین کی امداد کرنے پر شکریہ ادا کیا تھا جس پر حضور انور نے فرمایا ، جزاک اللہ ۔ یہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کا اظہارہے لیکن جو مدد خدا کی خاطر کی جائے اس کی جزا اللہ تعالیٰ دیتاہے اور جو خدمت کرتاہے وہ شکریہ کی خواہش نہیں رکھتا بلکہ شکریہ اداکرنے پر شرمندگی محسوس کرتاہے کہ جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی وہ نہیں کرسکا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَائً وَّلَا شکُوْراً۔

*۔۔۔ایک البانین مہمان نے کہا کہ ہم کسووا کے البانین اپنے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہم اپنے مسائل کوحل کرنے میں اتنے منہمک رہے کہ ہم حقیقی رنگ میں عبادت نہیں کرسکے۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جن مسائل کے حل کی خاطر آپ نے عبادت سے منہ موڑا ہے ان مسائل کے حل کے لئے پہلے سے زیادہ عبادت کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ رسول اللہﷺ نے توعین جنگ لڑتے ہوئے عبا دت کی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے نمازیں پڑھنے کی راہ میں کوئی روک نہیں۔ نمازیں پہلے سے زیادہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگیں توخدا سے زیادہ مدد نصیب ہوگی۔ آ پ اگر واقعۃً اپنے مقصد سے ہمدردی رکھتے ہیں تو اپنے ماحول اورزیر اثر لوگوں کوعبادت کی طرف بلائیں۔

حضور نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ ہے کہ مشکل کے وقت عبادت کاوقت نہیں ملتا اصل معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ مشکل کے وقت ہی تو انسان کا دماغ عبادت کی طرف جایا کرتاہے۔ یہ انسانی نفسیات کا گہرا گر ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں توجہ دلاتاہے کہ جب کشتی سمندر میں ہو اور طوفان گھیرلے تواس وقت مشرک و دہریہ بھی اللہ کو پکارتا ہے۔اور جب وہ خدا کو بلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بچا بھی لیتاہے لیکن جانتا ہے کہ جب طوفان ہٹ جائیں گے تو پھریہ خدا کو بھول جائیں گے۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے یہ ڈرہے کہ اب جو خدا یاد آیاہے تو اسے بعد میں بھول نہ جائیں۔ جو خدا اب یاد آیاہے اسے مضبوطی سے پکڑ لیں اور اسے کبھی نہ بھولیں۔

*۔۔۔ایک سوال یہ کیا گیاکہ کیا کوئی ایسی اسلامی حکومت دنیا میں موجود ہے جہاں عملاً قرآن کریم کی تعلیمات اختیار کی جاتی ہیں۔اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو وہ کونسی حکومت ہے؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا میرے علم میں کوئی بھی اسلامی سٹیٹ نہیں ہے جہاں عملاً قرآن کی حکومت ہو۔ وہاں سیاستدان کی حکومت ہے یاملاّں کی۔ لیکن لازماً ایک دن اسلامی حکومت قائم ہوگی اور جماعت احمدیہ اسی کے لئے کوشش کر رہی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ اگلے چند سالوں میں اللہ جماعت کو ایک نمونہ کی حکومت قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔وہ کہاں ہوگی؟ اللہ بہتر جانتاہے۔ بظاہر تو افریقہ اس سلسلہ میں آگے نکلا ہوا لگتاہے مگر میں آپ کے حق میں دعا کرتاہوں کہ کیوں نہ البانیہ وہ حکومت بن جائے جہاں قرآن پرمبنی حکومت قائم ہو۔ حضور نے فرمایا کہ آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اگر آپ احمدی ہوجائیں ۔ انشاء اللہ ۔

*۔۔۔کیا یہ ممکن ہے کہ جو کسوون گھر سے بے گھر ہوئے ہیں واپس اپنے گھروں میں جائیں اورکیا وہ دوبارہ امن کے ساتھ رہ سکیں گے ؟

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میرے خیال میں یہ ممکن ہی نہیں بلکہ ضرور ایساہوگا۔ ان کو ضرور واپس لوٹناہے انشا ء اللہ۔ مگر وہ نمونہ اختیار کریں جو آنحضرت ﷺ اور آپ ؐ کے ساتھیوں ؓ نے مکہ سے ہجرت کے نتیجہ میں اختیار کیا تھا اور اس کے نتیجہ میں اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ میں ضرور تجھے مکہ میں واپس لاؤں گا۔ پس آنحضرتﷺ کی سنت موجودہے ۔ اگرآپ کوواقعی وطن سے محبت ہے اور واقعی واپس جاناچاہتے ہیں تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے نمونہ قائم کر دیاہے۔اپنا منہ کسوواکی طرف رکھیں کہ اے خدا ہمیں کسووا کی طرف واپس لے جا ۔ عبادت اوردعائیں کرتے رہیں۔ مجھے امیدہے کہ خدا ضرور لے جائے گا ۔اگر یہ نہ بھی کریں تو مجھے یہ یقین ہے کہ آپ واپس توجائیں گے مگر وہ واپسی بے معنی ہوگی۔ اگرامریکہ یایورپ رہ کر ان کی غیر اسلامی اقدار اپنا لیں تو پھرخواہ وہاں رہیں یاواپس جائیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

*۔۔۔کیوں اسلامی ممالک نے ہمیں ریفیوجی کی حیثیت سے قبول نہیں کیاسوائے ترکی کے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں؟

حضور رحمہ اللہ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ توبڑے افسوس کی بات ہے اور اس کاجواب میں پہلے دے چکا ہوں کہ آپ نے تو اسلام کی خاطراسلامی یونین سے اتحاد کیا مگر آپ کی خاطر وہ اقدام نہیں کر رہے ۔ اسلامی ممالک کو چاہئے تھا کہ اگروہ کھلے دل سے آپ کا استقبال کرتے تو ایسا کرنے سے آپ کو غیرملکوں میں جانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ان کے پاس روپیہ ہے ، وسائل ہیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ ایک پہلو سے یہ اچھا ہی ہوگیا کیونکہ اگر وہاں جاتے تو اسلام کا غلط تصور سیکھتے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے تصور اسلام کے خلاف ایک تصور آپ پر غالب آ جاتا اور مغربی حکومتیں یہ سمجھتیں کہ آپ بنیاد پرست بن کر واپس لوٹے ہیں اور وہ آپ کے خلاف ہوتیں۔ اس لئے بظاہر بُرا ہواہے لیکن فی الحقیقت اچھا ہی ہواہے ۔

حضور نے فرمایا کہ اس سوال کرنے والے کو غلط فہمی ہے کہ ترکی نے بطور مسلمان ملک کے آپ کو قبول کیاہے۔ یہ درست نہیں۔ ترکی یورپ کاحصہ ہے اورنیٹو کاممبر ہے اوراس نے نیٹو کے ممبر کی حیثیت سے آپ کو قبول کیاہے۔ اور ترکی میں توحال یہ ہے کہ اسلام کے نام پروہاں لڑکیوں کو سرپر دوپٹہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اس کے بعدتحریری سوالات چونکہ ختم ہو چکے تھے اور مقررہ وقت سے بھی زائد وقت ہو چکا تھا مگر حضور انورکو جب ڈاکٹر محمدزکریا خان صاحب نے بتایا کہ سوالات ختم ہو چکے ہیں تو حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ہال خالی کرکے فوراً نہیں دینا تو آپ مزید سوالات کرسکتے ہیں ۔ حاضرین کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ حضور انور بھی اس مجلس سے محظوظ ہوتے رہے تھے لہذا حضور کی دعوت پر ایک صاحب نے سوال کیا ۔

*۔۔۔انہوں نے کہا کہ انہیں کچھ عرصہ ترکی میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ وہاں پر ایک جگہ حضور اکرم ﷺ کے جوتے دیکھے ہیں جن کودیکھ کر لوگ شکرانے کے طورپر نوافل پڑھتے ہیں ۔ یہ کہاں تک درست ہے؟

حضور نے فرمایا کہ جہاں تک آنحضرت ﷺ کے لباس یا بالوں یاجوتی کا تعلق ہے اس میں شک نہیں کہ سب سے بڑا خزانہ ترکی میں ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ اصل ہے بھی یا نہیں۔ حضرت امیرالمومنین رحمہ اللہ نے فرمایا کشمیر میں ایک علاقہ ہے جسے حضرت بل شریف کہتے ہیں جہاں حضور اکرم ﷺکے بال کے متعلق کہا جاتاہے کہ اس کی لوگ حفاظت کرتے ہیں اوراس کی حفاظت کی خاطر مسلمانوں نے ہندوفوجوں کے حملہ کے مقابلے میں قربانیاں بھی دی ہیں مگر و ہ بال موٹاہے اور جیساکہ روایات سے پتہ چلتاہے کہ آنحضور ﷺ کے بال ریشم کی طرح نرم تھے ۔حضور نے فرمایا کہ لیکن جو مسلمان اخلاص کے ساتھ اس بات پرشکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول کے لباس اور بال وغیرہ کی زیارت کی انہیں توفیق ملی ہے تو ان کے اس اخلاص کی اللہ انہیں ضرورجزا دے گا۔

حضرت امیر المومنین رحمہ اللہ کی نہایت محبت بھری نصائح اوردلنشین انداز بیان اور آپ کی بابرکت صحبت کا تمام حاضرین پرایک گہرا اثرتھا۔ آپ کی نظریں ان مظلوم مہاجرین کسوون البانین پردعائیں بن کرپڑ رہی تھیں اور ایک عجیب قسم کی سکینت دلوں پراترتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ آپ زیادہ سے زیادہ وقت ان میں گزارناچاہتے تھے ۔ جب تمام سوالات ختم ہوگئے تو حضور نے فرمایاکہ اگرچہ پروگرام میں تویہ شامل نہیں مگرمیری درخواست ہے کہ دعاکریں ۔ دعاکی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی ہے ۔ آپ کے حالات درست ہونے کے لئے میرے دل میں بڑا درد ہے ۔ میں آپ کے لئے بہت دعائیں کرتاہوں۔ اس کے بعد حضور رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر پرسو ز اجتماعی دعا کروائی۔ پھر حالیہ دورہ جرمنی کی اس آخری مجلس سوال وجواب کے اختتام پرتمام حاضرین کو خدا حافظ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کر مسجد نورفرینکفورٹ تشریف لے گئے جہاں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۱۱جون۱۹۹۹ءتا ۱۵جولائی ۱۹۹۹ء)