ربوہ میں جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیوں کے معمار حضرت سیّد میر داؤد احمد صاحب مرحوم

امتیاز احمد راجیکی

بہت بچپن کی بات ہے، کبھی کبھار مسجد مبارک ربوہ میں نماز کا موقع ملتا تو اس کے شمالی کونے میں نوافل میں مشغول ایک انتہائی خوبصورت چہرے پر نظر ٹِک سی جاتی۔ یہ بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ وہ چہرہ اتنا حسین تھا یا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کا انہماک اور استغراق اتنا پُر کشش تھا کہ نگاہیں پلٹ نہ پاتیں۔ ٹکٹکی باندھے چھپ کر چپکے چپکے اسے دیکھتا رہتا جیسے ہمیشہ کے لیے دل کی نگاہوں میں بسا لینے کا ارادہ ہو۔ لیکن اگر کہیں اتفاقاً نظر سے نظر مل جاتی تو کنی کترا کر اس طرح بھاگنے کی کوشش کرتا گویا کوئی ملزم کٹہرے میں کھڑا کیا جانے والا ہو۔ جواباً شاید ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہی کا سامنا ہوتا جو یہ کہہ رہی ہو کہ کب تک بھاگتے رہو گے ــــــــــ آخر ہو تو ہمارے ہی ــــــــــ

اس حسین وجود سے شاید زندگی میں میرا اس سے زیادہ آمنا سامنا نہیں ہوا مگر پھر بھی وہ اس طرح میرے انگ انگ میں سما گیا۔ میرا محسن، میرا مربّی و رہنما بن گیا۔ گویا عملی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے اَن کہے، اَن سنے، اَن دیکھے احسانوں کا مرہونِ منت بن گیا۔

یہ وجود کیا تھا ــــــــــ! ایک گہری گھٹا کی طرح آیا، جھکڑوں کی سی تیزی اور بجلی کی کڑک اور کوند لیے موسلا دھار ابرِ رحمت کی طرح برسا، ان گنت پیاسوں کو سیراب کیا، خشک سالیوں کا علاج کیا اور فوراً ہی چھٹ گیا۔ مطلع صاف کر کے خود بھی یکلخت غروب ہو گیا۔

آج جب جلسہ سالانہ میں اپنی ڈیوٹیوں کی کم و بیش نصف صدی اور امریکہ میں لنگر مسیحِ موعود علیہ السلام کی ربع صدی سے زائد تاریخ کو دیکھتا ہوں تو اس کے تارو پود کے پیچھے وہی حسین چہرہ دکھائی دیتا ہے جس نے جانے انجانے میں ہمارے کردار کی بنیادیں رکھیں، انہیں اپنے خونِ جگر سے سینچا اور صدیوں کے مشن کو چند سالوں میں سمیٹ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔

اس وجود کے عِلم کی وسعت، کردار کی عظمت، انتظام و انصرام کی صلاحیت، اور تفقہ و زہد کی رنگت اتنی ہمہ گیر تھی کہ اس کی سیرت و سوانح لکھنے والے پریشان اور بے بس ہو جاتے ہیں کہ تھوڑی سی مدت میں وہ جتنے کام کر گیا انہیں سمیٹیں کیسے؟ اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ جس اعلیٰ مقام کو پا گیا اس کا ادراک کیسے کریں؟

اس وجود کو خدا تعالیٰ نے جس نسبی اور موروثی عظمتوں سے نوازا اور اسے امام الزماں مسیحِ دوراں علیہ السلام کے خاندان سے پیوند کر کے چار چاند لگائے وہ کوئی سانحی، وارداتی یا حادثاتی وقوعہ نہ تھا اور نہ ہی کسی اکتسابی جدوجہد کا نتیجہ۔ وہ تو خدائے عزّ و جلّ کی ایک ماورائی تقدیر اور عنایت تھی جو نصیب والوں ہی کو ملتی ہے۔ آقا علیہ السلام کے خسر حضرت سیّد میر ناصر نواب رضی اللہ عنہُ کے پوتے، حضرت سیّد میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہُ کے صاحبزادے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی دامادی کے شرف کا تاج پہنے ہوئے یہ وجود ایسا ہی تھا جیسے ایک تیز رفتار برّاق کا سوار آناً فاناً اسرار و اسراء اور سلوک و طریقت کی منزلیں طے کرتا ہوا افق میں پنہاں ہو گیا۔ اس کی پرچھائیوں کا کھوج لگانے والے بس راہ ہی تکتے رہ گئے۔

حضرت سیّد میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی مختصر سی زندگی میں اتنے باب رقم ہو گئے، اتنے قرینے سمٹ گئے، اتنے قصے پنہاں ہو گئے کہ کسی ایک پہلو کا احاطہ کرنا بھی آسان کام دکھائی نہیں دیتا۔ جامعہ احمدیہ کا انتظام و انصرام ہو، حدیث و فقہ کی تدوین ہو۔ دارالمصنفین و دارالافتاء کی ذمہ داریاں ہوں۔ خدام الاحمدیہ کی صدارت کے بوجھ ہوں یا خدمتِ درویشاں کے درد ــــــــــ گویا آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پہاڑوں جیسا بوجھ اٹھائے ہوئے کٹھن مسافتوں کے سفر پر گامزن تھا ــــــــــ اور شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ یہ تیز گام شہسوار جلد از جلد اپنی منزل کو پہنچ جائے۔ اپنی اجلِ مسمّٰی کو پالے۔

میری زندگی حضرت میر صاحب کے احسانوں سے دو طرح فیض یاب ہوئی۔ ایک اجتماعی اور دوسرا ذاتی رنگ میں۔ اجتماعی فیض تو اتنا وسیع و عمیق ہے کہ اس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ہمارے پاس کوئی میزان ہی دکھائی نہیں دیتا۔

قادیان سے آنے کے بعد ربوہ دار الہجرت میں سارا نظم و نسق نئے سرے سے مستحکم کرنے کے لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہُ کی نظرِ کرم جن نوخیز اور نوآموز نوجوانوں پر پڑی حضرت میر داؤد احمد صاحب ان میں سے ایک تھے۔ اپنے پیشرو، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی اور تقلید میں اپنی بے پناہ علمی اور عملی قابلیتوں اور انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر آپ بہت جلد خلیفۂ وقت کی آنکھوں کا تارہ بن گئے۔ خصوصیت سے خلافتِ ثالثہ کے دَور میں بہت سی نئی ذمہ داریوں کے کوہِ گراں آپ کے کندھوں کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے جن میں جلسہ سالانہ اور اس کی ڈیوٹیوں کو از سرِ نو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ایک اہم ذمہ داری تھی۔

اِس وقت تمام دنیا میں جلسہ سالانہ کے عظیم ادارے کے جو کام آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ان خاص فضلوں اور انعاموں کے نتائج ہیں جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ایک نئی شان سے جلوہ افروز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ربِّ کریم نے حضورؒ کے مقرر کردہ خداموں، حضرت میر صاحب اور آپ کے ساتھیوں کی عاجزانہ دعاؤں اور کاوشوں کو قبول کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ اور حضرت چوہدری حمیداللہ صاحب جیسے نائبین سے آپ کو سرفراز فرمایا۔ آپ کی وفات کے بعد بفضلہٖ تعالیٰ حضرت چوہدری حمیداللہ صاحب آپ کی عظیم جانشینی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب کی عمر و صحت اور عزت و مرتبت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ غیر معمولی انوکھا اور منفرد اعزاز صرف جماعت احمدیہ ہی کا طُرّۂ امتیاز ہے کہ ایک شخص ایک جگہ افسر ہوتا ہے تو دوسری جگہ ماتحت۔ اور دونوں کام وہ اسی خوش اسلوبی سے ادا کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی دکھاوا، تکبر، احساسِ برتری یا احساسِ کمتری اس کی ذمہ داریوں کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اپنی اَنا یا خودی کی تسکین نہیں۔

مجھے یاد ہے جب حضرت چوہدری حمیداللہ صاحب تعلیم الاسلام کالج میں پروفیسر تھے تو حضرت صوفی بشارت الرحمٰن صاحب مرحوم وہاں کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے صوفی صاحب چوہدری صاحب سے بالا افسر تھے مگر انہی دنوں جلسہ کے ایام میں چوہدری حمید اللہ صاحب افسر جلسہ سالانہ کے فرائض انجام دیتے اور صوفی صاحب نائب افسر کے طور پر ان کے ماتحت ہوا کرتے تھے۔ یہ خوبی و حسن جماعت احمدیہ ہی میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز اور فضیلت ہے جو صرف جماعت ہی سے وابستہ ہے۔ اور کسی بھی جگہ اس کا پایا جانا امرِ محال ہے۔ اس اطاعت اور نظام کی بنیادیں خلیفۂ وقت کی ہدایات کے مطابق حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم نے جس مضبوطی سے قائم کیں، آج ہم دنیا بھر میں ان پر شاندار عمارتیں کھڑی دیکھتے اور اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔

سن 1983 کے بعد ملکی قوانین اور دباؤ کے تحت ربوہ کو مرکزی جلسہ سالانہ سے محروم کر دیا گیا مگر دنیا بھر میں ہر ملک میں اپنے اپنے جلسے منعقد ہونا شروع ہو گئے جن میں وہی روح اور وہی نظام پایا جاتا ہے جو جلسہ ربوہ کو مرکزیت کی وجہ سے حاصل تھا۔ ہر جگہ ربوہ کے اسی ماحول اور اسی تربیت کے تتبع میں ہم دیکھتے ہیں کہ بچے بڑے، مرد عورتیں ہر ایک اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اور اس رضا کارانہ خدمت کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔ اس کا مظاہرہ لنگر میں تپتی دیگوں کے دامن میں ہو یا باہر جھلستی ہوئی دھوپ، موسلا دھار بارش اور کیچڑ میں ٹریفک کنٹرول کرنے میں۔ ہر کوئی ایک لڑی میں پرویا ہوا، نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلا ہوا شہد کی مکھیوں کی طرح اپنے اپنے فرائض کی بجا آوری میں مگن دکھائی دیتا ہے۔ کوئی کھینچا تانی نہیں، کوئی رسّہ کشی نہیں، کوئی نافرمانی نہیں۔ ایک آواز پر لبیک کہتے، ایک ہاتھ پر اٹھتے، ایک ہاتھ پر بیٹھتے ہوئے اطاعت کے وہ نمونے پیش ہو رہے ہوتے ہیں کہ قرونِ اولیٰ کے صحابہؓ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ سب اس اعلیٰ تربیت کے مظاہر ہیں جنہیں حضرت میر صاحب نے اپنے ماتحتوں اور رضاکاروں میں قائم کیا۔ جامعہ احمدیہ کے پرنسپل ہونے کے باعث آپ کی جلسہ سالانہ کی ذمہ داریاں اس رنگ میں بڑی مربوط اور مستحکم ہو گئیں کہ آپ کے سینکڑوں شاگردوں اور ماتحت اساتذہ میں یہ خصوصیات بدرجۂ اتم راسخ ہو چکی تھیں۔ اور جب وہ میدانِ عمل میں نکلے تو خدمتِ دین اور خدمتِ خلق کے نئے باب رقم ہو گئے، نئی جہتیں استوار ہو گئیں۔

اگرچہ مجھے ذاتی طور پر آپ سے فیضِ علم و عمل پانے کی سعادت نہ ملی مگر آپ کے بے شمار شاگردوں کے ساتھ براہِ راست کام کر کے عملی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی ان گنت باریکیوں کو نہ صرف سمجھنے میں مدد ملی بلکہ انہیں مختلف مواقع پر لاگو کر کے کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

ایک اچھے رہنما اور منتظم کا یہ وصف تو بہر حال مسلّمہ ہے کہ وہ اپنے تابعین اور ماتحتوں کو اپنے رنگ میں اپنی جہت میں لے کر پیچھے چلتا ہے، مگر ایک نرالی دنیا ایسی بھی ہے جہاں کے رہنما اور قائدین اپنے مقلدین کو خود سے بھی آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ایک ایسے بندھن میں باندھ دینا چاہتے ہیں جس سے یہ دنیا ہی نہیں آخرت بھی سنور جائے۔ یہ دنیا صرف احمدیت کی دنیا ہے جس نے ایک زندہ خدا کا تصور پیش کیا اور براہِ راست اپنے مالک سے راہ و رسم اور رابطہ اس مضبوطی سے قائم کرنے پر زور دیا کہ گویا ہر اوّل اور آخر تان اسی پر ٹوٹے۔ ہمارے بزرگوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا ہر رخ اسی سمت موڑ دیا کہ اپنے پروردگار سے ایک ذاتی تعلق کیسے قائم ہو؟ اپنی حاجات کا محور و مرکز صرف اسی کی ذات پاک کس طرح بن جائے؟

آج مغرب کے ظلمت کدے میں رہتے ہوئے جہاں مادیت کی چکا چوند کشش ہر لمحے جسم و روح کو خیرہ کیے دیتی ہے، یہ احساس ایک گونہ اطمینان کا باعث بن جاتا ہے کہ بفضلہٖ تعالیٰ اپنی انفرادی کمزوریوں اور غفلتوں کے باوجود خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل، حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی صداقت پر ایمان اور دعاؤں کی قبولیت پر یقین افراد جماعت میں راسخ ہو چکا ہے۔ ہماری گھُٹّی میں رچ بس گیا ہے۔ مَیں جہاں بھی کسی احمدی کو ملتا ہوں اس کا دوسرا فقرہ یہی ہوتا ہے:

”اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کام سنور گئے۔“ ”اللہ تعالیٰ کے یہ سب انعامات حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے قدموں کی برکت سے ہیں۔“ ”دعاؤں میں یاد رکھنا۔“

مجھے جب بھی حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم کے شاگردوں سے سابقہ پڑا یہی احساس ہر جگہ پایا گیا کہ آپ نے توکّل، یقینِ محکم اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ ساتھ اپنے برتر مقاصد کے لیے سچی محنت اور اعلیٰ درجے کے نظم و ضبط کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ عملاً انہیں اس پر کاربند کر کے چھوڑا۔ آپ کے تربیت یافتہ شاگردوں اور ماتحتوں نے بھی لَو در لَو چراغ سے چراغ جلا کر آپ کے اس فیض کو فی الحقیقت ایک صدقۂ جاریہ کی طرح اپنے دوسرے ساتھیوں اور اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب ہمیں ربوہ کے وہ احباب جو بظاہر کھلنڈرے مزاج کے حامل تھے اور عِلمی میدان میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے عملی طور پر اور خاص طور پر لنگر مسیحِ موعودؑ کی کٹھن ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اور توکّل، یقین اور دعاؤں کا ایک بہترین نمونہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب اس پاک ماحول اور خصوصیت سے ربوہ میں جلسہ کی ڈیوٹیوں کے سلسلے میں اس کے معمارِ خاص حضرت میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی تعلیم و تربیت کے غماز ہیں جنہوں نے ان اداروں اور شعائر کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا۔

جلسہ سالانہ اور لنگر فی الحقیقت سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کے قائم فرمودہ شعائر ہیں جن کے متعلق ایک بار حضورؑ نے اپنے اس احساس اور فکر کا اظہار فرمایا تھا کہ خدا جانے آپؑ کے بعد آنے والے کس طرح ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے اور آپؑ کی امیدوں پر پورا اترنے والے ثابت ہوں گے ــــــــــ مگر آج سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے بصمیمِ قلب آقاؑ کی روح کو طمانیت اور سکینت پہنچانے کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ آپؑ کے غلام ان شعائر کی دل و جان سے قدر کرتے ہوئے قدرتِ ثانیہ کے عَلمبرداروں کی قیادت میں حضورؑ کی رہنمائی اور عطا فرمودہ راہوں پر چلتے ہوئے خدمتِ دین اور خدمتِ خلق کے مقدس مشن کو آگے سے آگے بڑھائے چلے جا رہے ہیں۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

حضرت میر صاحب کے یہ اجتماعی احسانات تو ایک ایسا خزانہ ہے جو تا قیامت نہ ختم ہونے والا اور صدقۂ جاریہ کی طرح ہر دَور میں فیض پہنچانے والا ہے، مگر میری ذاتی زندگی میں آپ کے کردار کا ایک نہایت روشن اور حسین پہلو اور آپ کی تربیت کا ایک انوکھا اور خوبصورت ڈھنگ اس طرح سرایت کر گیا کہ مَیں جب بھی اسے یاد کرتا ہوں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے حضرت میر صاحب اور آپ کے اہل و عیال کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ بظاہر ایک بہت ہی چھوٹا سا معمولی واقعہ ہے لیکن میری روح میں اس گہرائی سے پیوست ہو گیا، میری زندگی کی راہیں متعین کرنے والا اور مشعلِ راہ اصول و ضوابط کا آئینہ دار بن گیا کہ مَیں ہمیشہ کے لیے اس وجود کا مرہون منت اور احسان مند ہو گیا ہوں۔

میرے والد مکرم برکات احمد راجیکی مرحوم (ابن حضرت مولانا غلام رسول راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ) حضرت میر داؤد احمد صاحب کے قریباً ہم عمر اور ہم عصر تھے۔ پرانے دَور کے گورنمنٹ کالج لاہور کے گریجویٹ تھے۔ آپ حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب مرحوم سے تھوڑا جونئیر تھے اور انہیں کی طرح انڈین سول سروس میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فتنۂ احرار کے زمانے میں تحریک فرمائی کہ جماعت کے گریجویٹ نوجوان زندگی وقف کریں تو آپ نے خود کو وقف کر کے آقا کی خدمت میں پیش کر دیا۔

تقسیم ہند کے بعد آپ کو اپنی وفات تک درویشی کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ امورِ عامہ اور امورِ خارجہ کی کٹھن ذمہ داریاں آپ کے سپرد تھیں۔ وہ دَور اتنا پُر آشوب تھا کہ یہاں رہ کر اب ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے۔ احمدی مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان گھرا ہوا تھا اور ہر طرح کے دشمنوں کی شدید مخالفتوں کا نشانہ بنا ہوا تھا۔ ان سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا کہ یہ مسلمان یہاں بچ کیسے گئے۔ ان کا سب کچھ لوٹ مار کی نذر کیوں نہیں ہو گیا۔ اِدھر یہ تین سو تیرہ درویش جان ہتھیلی پر رکھے اپنے آقا علیہ السلام کی یادگاروں اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے تھے۔ میرے والد صاحب کو جماعت کے اثاثوں اور مقدس مقامات کی بازیابی کے لیے ہندوستانی حکومت کی ہر سطح کی انتظامیہ اور افسرانِ بالا حتیٰ کہ وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے بھی ملاقاتیں اور رابطے قائم کرنے پڑتے۔ اس انتہائی دباؤ، مشقت اور نامساعد حالات نے آپ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور 1963 میں صرف پینتالیس سال کی عمر میں دادا جی حضرت مولانا غلام رسول راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کی زندگی ہی میں آپ کی وفات ہو گئی۔ یہ وجود بھی بہت جلد اپنی اجلِ مسمّٰی کو پا گیا۔

آپ کے متروکہ فنڈز وغیرہ نظارتِ خدمتِ درویشاں کے تحت ربوہ منتقل ہوگئے اور براہ راست حضرت میر داؤد احمد صاحب کی کفالت میں آ گئے۔ مَیں چونکہ پہلے ہی سے ربوہ میں اپنے ددھیال میں تھا اس لیے مجھے ان کو استعمال میں لانے کی اُس وقت حاجت پیش نہ آئی تا آنکہ مَیں نے 1970 میں پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔

یہ بھی ایک لحاظ سے دلچسپ اور شاید سبق آموز داستان ہے کہ ایف اے کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ مَیں تعلیم الاسلام کالج میں اپنی پڑھائی جاری رکھتا اور اچھے تعلیمی اور تربیتی ماحول سے استفادہ کرتا، مجھے لاہور جانے کی سوجھی۔ وہاں بھی اگر گورنمنٹ کالج چلا جاتا تو اُس وقت کرکٹ کے کھیل میں جو اٹھان تھی شاید ٹیسٹ کرکٹ یا فرسٹ کلاس تک پہنچ جاتا؛ مگر شومئیِ قسمت میری نظرِ انتخاب پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے چکا چوند گلیمر اور سحر انگیزی کی طرف ہوگئی۔ اور یوں اَن جانے اور اَن چاہے درسگاہوں کے سیاسی اکھاڑے کی نذر ہوگیا۔ اس طرف ورغلانے میں میرے دوست اور ہمسایہ خالد سعید وِرک کا بڑا ہاتھ تھا جو اُس وقت وہاں ارضیات (جیالوجی) میں ایم ایس سی کر رہا تھا۔ اس نے وہاں کی خوبصورت زندگی، شاندار عمارتوں اور زیر تعمیر اولمپکس سائز سوئمنگ پول کی کہانیوں کے جو سبز باغ دکھائے، انہوں نے مجھے فریفتہ کر دیا۔ چنانچہ مَیں نے سفارشیں ڈلوا کر نیو کیمپس میں داخلہ لے لیا۔

یہ دَور ملک کی سیاسی فضا میں بڑا فتنہ خیز دَور تھا۔ مارشل لاء، الیکشن، بھٹو کی کامیابی، مشرقی بنگال کی تحریکِ آزادی اور طرح طرح کی اندرونی و بیرونی سازشیں ہر طرف پنپ رہی تھیں۔ تعلیمی اداروں کا سکون برباد ہو چکا تھا۔ جماعت اسلامی اپنی شکست پر دانت پیس رہی تھی۔ اور انتقاماً درسگاہوں کو اپنی ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بنانے پر تلی ہوئی تھی۔ اس کی ذیلی تنظیم جمعیت طلبائے اسلام بڑی فعال اور منظم تھی اور یونیورسٹیوں کالجوں کی اکثریت کی سٹوڈنٹس یونینز پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کے بالمقابل بائیں بازو کی بھٹو نواز تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن انتشار و افتراق کا شکار تھی۔

پنجاب یونیورسٹی صحیح معنوں میں سیاسی دنگل گاہ بنی ہوئی تھی۔ اس اکھاڑے میں ہر کوئی اترنے کو بے تاب تھا مگر سب کی پیش نہ چلتی تھی۔ بائیں بازو کے سٹوڈنٹس لیڈرز جنہیں ازراہِ تمسخر و حقارت ”سُرخا“ کہا جاتا تھا اپنے بڑے بڑے رہنماؤں کی شکست پر نوحہ خواں تھے۔ راجہ انور ”بڑی جیل سے چھوٹی جیل“ کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ جہانگیر بدر اپنی شکست کے زخم چاٹ رہا تھا اور دوسری طرف جمعیت کا پروردہ جاوید ہاشمی اپنے لاؤ لشکر سمیت سیاسی پرواز کے لیے پر تول رہا تھا۔ وہ ملتان کالج چھوڑ کر نیو کیمپس میں براجمان ہو گیا تھا۔ اتفاق سے ہم دونوں لیاقت ہال ہوسٹل کی دوسری منزل پر چند کمروں کے فاصلے پر تھے۔ وہ جہاں سے گزرتا حوالیوں موالیوں کا ایک جتھا اس کے آگے پیچھے ہوتا۔ روپے پیسے کی ریل پیل اور اثرورسوخ کے افتخار و استکبار میں حقیقتاً پنجاب یونیورسٹی ان وڈیروں اور خانوادوں کی جاگیر بنی ہوئی تھی۔ وہاں ہم جیسے مزدوروں، کسانوں اور ہاریوں کی بھلا کیا جگہ ہوتی؟

مجھے یونیورسٹی کی فیسوں، کتابوں کاپیوں اور ہوسٹل کے کھانے پینے کے اخراجات کے لیے کل ملا کر ایک سو پچاس روپے ماہانہ نظارتِ خدمتِ درویشاں کی جانب سے میرے والد مرحوم کے ترکہ میں سے ملتے تھے۔ ان سب امور کی نگرانی براہِ راست حضرت میر داؤد احمد صاحب کے غایت درجہ حسنِ انتظام کی مرہونِ منت تھی۔ میرے غیر نصابی مشاغل یا اخراجات تو کوئی نہیں تھے مگر اس محدود رقم میں گزارہ بھی بہت مشکل تھا۔ ہوسٹل سے ایک وقت کا کھانا اس کی فیس میں شامل تھا۔ باقی وقتوں کے لیے خود بندوبست کرنا پڑتا؛ چنانچہ کوشش یہی ہوتی کہ اسی میں اتنی شکم پُری کر لی جائے کہ دوسرے دو وقتوں کی بھی حاجت براری کا سامان ہو جائے۔ اس کے علاوہ اگر بھوک بہت ہی نڈھال کر دے تو دو آنے کی گنڈیریاں اور بھنے ہوئے چنوں کو نعمتِ غیر مترقبہ سمجھا جاتا۔

چند ماہ اس حالت میں پیچ و تاب کھانے کے بعد مجبوراً ایک درخواست نظارت خدمتِ درویشاں کو بھجوائی کہ حضور اس عاجز پر رحم کریں اور اس وظیفہ میں کچھ اضافہ فرما دیں۔ کچھ روز بعد ناظر صاحب محترم حضرت میر داؤد احمد صاحب کے اپنے دستخطوں سے جواب آیا جس میں بڑی تفصیل سے ہر شے کے بارے میں استفسار کیا گیا تھا کہ اخراجات کا تجزیہ (بریک ڈاؤن) کیا ہے؟ کتنی رقم یونیورسٹی کی فیس کے طور پر ادا کی جاتی ہے، کتابوں وغیرہ کے اخراجات کتنے ہیں، ہوسٹل کی فیس کیا ہے اور کھانے پینے اور ٹرانسپورٹ پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے؟

نوجوانی کا تیزخون تھا اور شاید مَیں کسی اور بات سے جھلّایا ہوا بھی تھا۔ خط پڑھتے ہی میرا پارہ گرم ہو گیا کہ پیسے میرے باپ کے اور یہ حضرت کون ہیں ٹھیکیدار بن بیٹھے۔ مَیں نے سوچا کہ ٹکا سا جواب دوں۔ چنانچہ کچھ وقت کے بعد مَیں نے جواب دینے کی نیت سے دوبارہ حضرت میر صاحب کا خط پڑھنا شروع کیا۔ خط کا دوبارہ پڑھنا تھا کہ میری کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ تو کلام ہی کچھ اور تھا۔ یہ تو ایک محسن انسان کا خط تھا جو صحیح معنوں میں سچا ہمدرد اور غمخوار تھا۔ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کے مطابق ایک یتیم کی خبرگیری اور کفالت کی ذمہ داریوں کا شفیق باپ کی طرح حق ادا کر رہا تھا۔ مَیں نے وہ خط ایک تبرّک کی طرح ربوہ میں اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے میری ہجرت کے بعد محفوظ نہ رہ سکا مگر میرے دل میں وہ ہمیشہ کے لیے بس گیا۔ ایک انمٹ نقش کی طرح ثبت ہو گیا۔ اب بھی جب کبھی اس کی یاد آتی ہے آنکھیں آنسوؤں سے تر اور دل دعا سے لبریز ہوجاتا ہے۔

مَیں حضرت میر صاحب کے خط کا تحریراً جواب تو نہ دے سکا کیونکہ بعد میں حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ یونیورسٹی کے اس ”تعلیمی“ سلسلے کو جاری نہ رکھ سکا؛ گرچہ ”رِڑتے کھِڑتے“ گریجویشن کرلی اور پھر ”براستہ بٹھنڈہ“ ایم اے کی ڈگری بھی لے لی۔ لیکن اپنے مقدس شہر سے دور بھاگنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ”گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔“ اس کے برعکس میرے وہ ساتھی جنہوں نے ٹِک کر تعلیم الاسلام کالج میں پڑھائی جاری رکھی وہ کہیں سے کہیں پہنچ گئے۔ استاذِ گرامی مکرم و محترم پروفیسر پروازی صاحب کے اردو کلاس کے شاگردوں میں میرا ہم جماعت اور عزیز دوست ڈاکٹر عبدالکریم خالد مادرِ علمی سے وابستہ رہا اور بعد ازاں پی ایچ ڈی کرکے علم و ادب کے افق کی انتہاؤں کو چھو گیا۔ اب مجھے اس کا فیصلہ اور کردار ہمیشہ قابلِ تحسین و افتخار دکھائی دیتا ہے اور خالد سعید کے مشورہ کی لپیٹ میں آنا محض ورغلانا اور پھسلانا لگتا ہے۔

یہ بظاہر ایک سادہ سا واقعہ تھا مگر اس میں حضرت سیّد میر داؤد احمد صاحب مرحوم کا کردار میری زندگی سنوار دینے والا سبق آموز وسیلہ بن گیا۔ خدا تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کے اوصاف و محاسن کے فیض کا سلسلہ تا قیامت جاری رکھے۔ آمین۔