حضرت زیاد بن لبیدؓ

خطبہ جمعہ یکم جون 2018ء

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت زیاد بن لبید تھے۔ ان کی والدہ کا نام عمرہ بنت عبید بن مطروف تھا۔ حضرت زیاد کا ایک بیٹا عبداللہ تھا۔ عقبہ ثانیہ میں ستّر اصحاب کے ساتھ آپ حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ واپس آئے تو انہوں نے آتے ہی اپنے قبیلہ بنو بَیَاضہ کے بت توڑ دئیے جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ اس لئے حضرت زیاد کو مہاجر انصاری کہا جاتا ہے۔ مہاجر بھی ہوئے اور انصاری بھی تھے۔ حضرت زیاد غزوۂ بدر، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302 زیاد بن لبید مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور قبیلہ بنو بیاضہ کے محلہ سے گزرے تو حضرت زیادنے اَھْلًا وَ سَھْلًا کہا اور قیام کے لئے اپنا مکان پیش کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو یہ خود منزل تلاش کر لے گی۔

محرم نو ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و زکوۃ وصول کرنے کے لئے الگ الگ محصلین مقرر فرمائے تو حضرت زیاد کو حضر موت کے علاقے کا محصّل مقرر فرمایا۔ حضرت عمر کے دَور تک آپ اسی خدمت پر مامور رہے۔ اس منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں اکتالیس ہجری میں وفات پائی۔‘‘  (سرورِ کائنات کے پچاس صحابہ از طالب الہاشمی صفحہ 557تا 559 مطبوعہ میٹرو پرنٹرز لاہور 1985ء)

تاریخ میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے دَورخلافت میں جب فتنہ ارتدادنے زور پکڑا اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو اشعث بن قیس الکندی نے بھی ارتداد اختیار کیا۔ حضرت زیاد کو اس کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا گیا۔ جب آپ نے اس پر حملہ کیا تو اس نے قلعہ نَحِیْر میں پناہ لے لی۔ حضرت زیادنے اس کا نہایت سختی سے محاصرہ کیا یہاں تک کہ وہ تنگ آ گیا اور اس نے پیغام بھیجا کہ مجھے اور نو اور آدمیوں کو امان دے دیں تو قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا۔ حضرت زیادنے کہا معاہدہ لکھ کر لے آؤ مَیں اس پر مہر ثبت کر دوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا۔ بعد میں جب معاہدہ دیکھا گیا تو باقی نو آدمیوں کے نام تو لکھے ہوئے تھے مگر اشعث اپنا نام لکھنا بھول گیا تھا۔ چنانچہ اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھجوا دیا گیا۔ (امتاع الاسماع جلد 14 صفحہ 254-255 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)