سال 1997ء پاکستانی دانشوروں اور اخبارات کی نظرمیں

رشید احمد چوہدری، لندن

آفتوں کا سال

۱۹۹۷ء کا سال پاکستان کے لئے آفتوں کا سال ثابت ہوا۔ پچھلے سال کی نسبت جرائم کا گراف بہت بڑھ گیا۔ امسال ۷۲۵ سے زیادہ قتل ہوئے جبکہ گزشتہ سال ۴۸۵ افراد قتل ہوئے تھے۔(نیشن ویکلی۔ ۲؍ جنوری ۹۸ء)

عوام پر بھاری سال

سال ۱۹۹۷ء پاکستانی عوام کے لئے بھاری ثابت ہوا ۔ معیشت کو ۲ کھرب روپے کا نقصا ن ہوا۔ مزید ۱۳ لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے جس سے بے روزگاروں کی تعداد ۷۰ لاکھ سے تجاوز کر گئی۔(نیشن ویکلی۔ ۲؍ جنوری ۹۸ء)

انسانی محرومیوں کا سال

آج پاکستان انسانی محرومیوں کی منہ بولتی تصویر بن چکا ہے جس میں دو تہائی بالغ افراد ناخواندہ ہیں۔۱۷ ملین بچے سکول جانے سے محروم ہیں جبکہ ۱۲ ملین بچے غربت کی وجہ سے فیکٹریوں اور گلیوں میں صرف ۴ روپے روزانہ کی اُجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ جس کے لئے انہیں ۱۲ سے ۱۶ گھنٹے روزانہ محنت کرنی پڑتی ہے۔(ڈاکٹر محبوب الحق،سابق وفاقی وزیر خزانہ۔ بحوالہ نیشن ویکلی ۲؍ جنوری ۹۸ء)

کرپشن اور منافقت کا سال

آج کا پاکستان اسلامی ریاست نہیں ہے۔ یہ ایک پاور سٹیٹ ہے جس میں احترام آدمیت اور سچ کی کوئی قدر نہیں۔ کسی کے حقوق کا خیال نہیں کیا جاتا۔ منافقت اور کرپشن ہمارے خون کا حصہ بن چکے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت شراب پیتی ہے ۔ ہم بطور قوم دوہرے معیار کا شکار ہیں۔ ایک طرف شراب پیتے ہیں اور دوسری طرف اس کی مخالفت کرتے ہیں۔(ڈاکٹر جاوید اقبال ، نیشن ویکلی ۲؍جنوری ۹۸ء)

قتل، اغواء اور گینگ ریپ کا سال

۱۹۹۷ء جرائم کے اعتبار سے بدترین سال ثابت ہوا ہے کیونکہ اسی سال اکتوبر تک دو لاکھ اکسٹھ ہزار ایک سو چار(۲۶۱۱۰۴)ایف آئی آر درج کی گئیں۔ جبکہ ۱۹۹۶ء میں رپورٹ کئے جانے والے جرائم کی تعداد چوبیس ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۲۴۶۶۸) تھی اور ۱۹۹۵ء میں رپورٹ کئے جانے والے جرائم کی تعداد چھبیس ہزار دو صد چوہتر( ۲۶۲۷۴) اور ۱۹۹۴ء میں ان جرائم کی تعدادپچیس ہزار تریسٹھ( ۲۵۰۶۳) تھی۔ ۹۷ء میں اغواء کی چھ سو اکیاون( ۶۵۱) وارداتیں ہوئیں۔

۱۹۹۷ء میں خواتین کے ساتھ زیادتی کی وارداتوں میں ۴۰ فیصد اضافہ ہوا ۔ گینگ ریپ کی وارداتوں میں رواں سال کے دوران اڑھائی گنا اضافہ ہوا۔(رپورٹ عمرا ن یعقوب خان۔ جنگ سنڈے میگزین ۲۱ ؍ دسمبر ۹۷ء)

ڈکیتی کا سال۔ کارچوروں کا سال

۱۹۹۷ء میں ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے ۔ اس سال کو کارچوروں کا سال بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے دوران گاڑی چھیننے کی وارداتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ (عمرا ن یعقوب خان۔ جنگ سنڈ ے میگزین ۲۱؍دسمبر ۹۷ء)

فرقہ واریت کا بدترین سال

سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۷ء فرقہ وار انہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے بدترین سال ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف پنجاب میں گزشتہ د س سالوں میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے باعث ۵۹۴۔ افراد مارے گئے جبکہ ۱۲۰۷۔ واقعات میں ۲۳۶۶۔ افراد زخمی ہوئے۔ (نیوز انٹرنیشنل لاہور،۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء)۔اس کے بالمقابل صرف۱۹۹۷ء میں ۹۷۔واقعات ہوئے جن میں ۲۰۰۔افراد ہلاک اور ۱۷۵۔ زخمی ہوئے اور ۸ مساجد پر حملے کئے گئے۔(جنگ لندن ۲؍ جنوری ۱۹۹۸ء)

منشیات کی سمگلنگ کا سال

اینٹی نارکوٹکس فورس نے ۱۹۹۷ء کے دوران منشیات کے ۱۰۰ سمگلر گرفتار کئے۔ ۲۲۔ افراد کے ۹۷کروڑ کے اثاثے ضبط کر لئے گئے۔ ا ن پر یہ اثاثے منشیات کی سمگلنگ سے بنانے کا الزام ہے۔ اس عرصہ میں فورس نے منشیات کی سمگلنگ کے ۱۷۲ مقدمے درج کئے۔

۱۲۸۰ کلوگرام ہیروئن، ۲۰۳۲ کلو گرام چرس اور ۸۷۲ کلو گرام افیون برآمد ہوئی ۔ ان کی مالیت اربوں روپے تھی۔ (جنگ لندن ۲؍ جنوری ۱۹۹۸ء)

سپورٹس میں ناکامیوں کا سال

۱۹۹۷ء پاکستان سپورٹس کے لحاظ سے ناکامیوں کا سال ثابت ہوا۔(رپورٹ امتیاز سپرا۔ جنگ لندن ۲؍ جنوری ۹۸ء)

مایوسیوں کا سال

۱۹۹۷ء کا سال اقتصادی بدحالی، امن و امان کی مخدوش صورت حال ، اقتدار کے کھیل کا اتار چڑھاؤ اور عدلیہ کا بحران جیسے واقعات عوام کے ذہنوں میں بیم و رجاکی کیفیت پیدا کرتے رہے ۔ گولڈن جوبلی کا یہ سال قوم کے لئے کسی خوشی کا پیغام ثابت نہیں ہوا۔

امن و امان کی مخدوش صورت حال سے اس سال بھی قوم مایوس رہی۔ ملک میں فرقہ وارانہ جھگڑے خصوصاً پنجاب میں جاری رہے۔ اور ۲۹۰ قیمتی انسانی جانیں ان میں ضائع ہو گئیں۔

سندھ میں۴۹۰ سے زیادہ ایسے افراد جا ن سے ہاتھ دھو بیٹھے جن کی موت کا پس منظر سیاسی تھا۔ دہشت گردی کے ان واقعات کے نتیجہ میں کراچی کو دنیا کے پانچویں خطرناک ترین شہر جیسی بدنامی ملی۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی ۳؍جنوری ۱۹۹۸ء تحریر ڈاکٹرملیحہ لودھی)

اقتصادی بدحالی کا سال

ندیم ملک صاحب پاکستان کی اقتصادی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ریونیومیں معتدبہ حد تک کمی، ملکی ایکسپورٹ میں ناکافی بڑھوتی، فارن ایکسچینج کی گرتی ہوئی صورت، انڈسٹریل سیکٹر کی طرف سے مثبت ردعمل کا فقدان، اور پبلک سیکٹر میں قرضوں کی واپسی کے سلسلہ میں بحرا ن کی سی صورت نے پاکستان کی اقتصادیات کو ایک نہ ختم ہونے والے برائی کے چکر میں مبتلا کر رکھا ہے جہاں ہر سیکٹر پورے سسٹم کو سست رفتار بنا رہا ہے اورمستقبل قریب میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔(نیوز انٹرنیشنل لندن ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۷ء)

بحرانوں کا سال

آج پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی ، اقتصادی، معاشی ، آئینی اور عدالتی بحران سے دوچار ہے اور اس بحران کی واحد اورحقیقی وجہ آئین میں پائے جانے والے سقم، ابہام ، اشکال اور امتیازی پن ہے۔ مگر کسی بھی منتخب اسمبلی اور حکمران نے ان آئینی ابہام پر توجہ نہ دی اور اس کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے کہ اس ابہام کی بنیاد پر ہر حکمران نے اپنی مرضی اورمنفعت کی تشریحات حاصل کر کے اپنے عرصہ اقتدار کو طول دیا اور آمریت کو استحکام بخشا۔ (مہارت ویکلی لاہور، ۶؍ جنوری ۹۸ء۔تحریر عبدالقدوس رانا)

۱۹۹۷ء میں پاکستان معاشی ، اقتصادی اور زرعی امور میں برصغیر کے ممالک میں سب سے پیچھے رہ گیا

*۔۔۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں پاکستان علاقہ بھر میں ایک قابل تقلید نمونہ تھا۔ مگر ۱۹۹۷ء میں یہ ملک اکثر معاشی اور ا قتصادی امور میں برصغیر کے دیگر ممالک میں سب سے پیچھے رہ گیا ہے۔ اخبار دی نیوز کے سروے کے مطابق پاکستان کی جی ۔ ڈی۔ پی بڑھوتی کا تناسب گزشتہ سال ۱ء۳ فیصد رہا جبکہ اس کے مقابل پر سری لنکا کا ۸ء۳فیصد اور بنگلہ دیش کا ۷ء۴ فیصد اور بھارت کا ۸ء۶ فیصد رہا۔

*۔۔۔پاکستان کی ایکسپورٹ بجائے بڑھنے کے گزشتہ سال کم ہو گئی جبکہ بھارت کی ایکسپورٹ ۸ء۳۲ بلین ڈالر سے ۹ء۳۵ بلین ڈالر ، سری لنکا کی ۹ء۳ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۳ء۴ بلین ڈالر اور بنگلہ دیش کی ۸ء۳ بلین ڈالر سے بڑھ کر ۴ بلین ڈالر ہو گئی۔

*۔۔۔ پاکستان میں افراط زر کی شرح بھی گزشتہ سال ان ممالک سے زیادہ رہی۔ پاکستان میں اس کی شرح ۳ء۱۰ رہی جبکہ سری لنکا میں۲ء۷ اور بنگلہ دیش میں ۱ء۶ فیصد اور بھارت میں ۵ء۵ فیصد رہی۔

*۔۔۔ سوشل سیکٹر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ سال پاکستان میں نوزایئدہ بچوں کی اموات کا تناسب ۸۸ فی ہزار رہا جو برصغیر کے دیگر ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ تناسب ۸۵ فی ہزار ، بھارت میں ۷۵ فی ہزار اور سری لنکا میں ۱۴ فی ہزار رہا۔

*۔۔۔گزشتہ سال پاکستان میں خواندگی کا تناسب بھی برصغیر کے دیگر ممالک سے کم رہا۔ پاکستان میں خواندگی کا تناسب ۲ء۳۷ فیصد، بنگلہ دیش میں ۶ء۳۸ فیصد اور بھارت میں ۳ء۵۲ فیصد اور سری لنکا میں یہ تناسب ۹۰ فیصد رہا۔

*۔۔۔زرعی سیکٹر میں بھی گزشتہ سال پاکستان ان ممالک میں سب سے پیچھے رہ گیا ۔اس طرح جبکہ پاکستان میں کل زیر کاشت رقبہ کل رقبہ کا ۲۸ فیصد تھا ، بنگلہ دیش میں زیر کاشت رقبہ کل رقبے کا ۷۴ فیصد تھا۔ بھارت میں یہ رقبہ کل رقبے کا ۵۷ فیصد تھا اور سری لنکا میں زیر کاشت رقبہ کل رقبے کا ۲۹ فیصد تھا۔

(دی نیوز انٹرنیشنل لندن۔ ۲۱؍ جنوری ۱۹۹۸ء)

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۳۰؍جنوری ۱۹۹۸ء تا۵؍فروری ۱۹۹۸ء)