سویڈن میں ہر سال عورتوں پر تشدد کے بارہ ہزار واقعات

انور رشید، سویڈن

مغرب کے ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک اور بالخصوص مسلمان ممالک پر اکثر ہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہاں عورتوں پر ظلم ہوتا ہے ۔ظلم کہیں پر بھی ہو وہ ظلم ہی ہے اور قابل مذمت ہے۔ خودان ممالک میں بھی عورتوں پر تشدد کے واقعات کچھ کم نہیں ہیں۔ چنانچہ سویڈن کے اخبار’’ یوتے بوری پوستن‘‘ (Goteborgs Posten)کی بارہ جنوری کی اشاعت میں سویڈن میں عورتوں پر تشدد کے واقعات کے اعدادوشمار شائع ہوئے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بظاہر ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کے دعویدار ، مالی لحاظ سے خوشحال ممالک کی حالت کیسی دردناک اور فکر انگیز ہے۔ اخبار لکھتا ہے:

سویڈن میں تقریباً بارہ ہزار خواتین اپنے قریبی تعلق رکھنے والے یا واقف کار افراد کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئیں اور یہ اعدادوشمار بڑھ رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والی عورتیں اب پولیس کو اطلاع کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ اعدادوشمار میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ تشدد کرنے والا کون ہے لیکن تشدد گھر کی چاردیواری میں اور عورت کا کوئی واقف کار ہی کرتا ہے۔

۱۹۹۶ء میں۱۲۲۱۰ اور ۱۹۹۷ء کے پہلے نو ماہ میں یہ تعداد۸۸۸۸ تھی ا ور انسداد جرائم کے محکمہ کے مطابق یہ تعداد ۱۲۰۰۰ تک پہنچ جائے گی۔

ا ن اعدادوشمار میں وہ خواتین شامل نہیں ہیں جو تشدد کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں کیونکہ وہ مقدمات قتل کے زمرے میں آتے ہیں۔ موت کے منہ میں دھکیلی جانے والی ان عورتوں کے اعدادوشمار درج ذیل ہیں:

۹۴۔۱۹۹۱ء ہر سال ۱۶ سے ۲۴ خواتین اپنے ساتھی کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئیں۔ اور یہ تناسب اسی طرح برقرار ہے۔

۱۹۸۱ء سے قبل خواتین پر تشدد کے واقعات کی بہت کم رپورٹ سامنے آئی لیکن اس کے بعد ہر سال اضافہ ہوتا گیاکیونکہ اس کے بعد زیادہ خواتین ان واقعات کو حکام کے نوٹس میں لانے لگیں۔

(مطبوعہ:لفضل انٹرنیشنل ۶؍مارچ ۱۹۹۸ء تا۱۲؍مارچ ۱۹۹۸ء)