حضرت شجاع بن وہبؓ

خطبہ جمعہ 31؍ اگست 2018ء

وہب بن ربیعہ کے بیٹے تھے۔ ان کی وفات جنگ یمامہ میں ہوئی۔ آپ کو شجاع بن ابی وہب بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کا خاندان بنو عبدشمس کا حلیف تھا۔ آپ طویل القامت پتلے جسم والے اور نہایت گھنے بالوں والے تھے۔ حضرت شجاع کا شمار ان بزرگ صحابہ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتداء ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لبّیک کہا تھا۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ سال بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر مہاجرین حبشہ کے دوسرے قافلہ میں شریک ہو کر حبشہ چلے گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد یہ افواہ سن کر کہ اہل مکہ مسلمان ہو گئے ہیں حضرت شجاع حبشہ سے واپس مکہ آ گئے۔ کچھ مدت بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو آپ بھی اپنے بھائی عُقبہ بن وہب کے ساتھ ارض مکہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ چلے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اوس بن خولی کو حضرت شجاع کا دینی بھائی بنایا تھا۔ مؤاخات جو قائم کی تھی اس میں حضرت شجاع کا بھائی بنایا تھا۔ حضرت شجاع بدر، اُحد، خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل رہے اور چالیس برس سے کچھ زائد عمر پا کر جنگ یمامہ میں شہادت پائی۔ (اسد الغابہ جلد 2صفحہ 370 شجاع بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)، (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 51 شجاع بن وھبؓ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

غزوہ حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر سلاطین عالم کو دعوت اسلام کے خطوط روانہ فرمائے تھے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز منبر پر خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے۔ حمد و ثنا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم میں سے بعض کو شاہان عجم کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔ جو غیر عرب بادشاہ ہیں ان کی طرف بھیجنا چاہتا ہوں۔ تم مجھ سے اختلاف نہ کرنا جیسا بنی اسرائیل نے عیسیٰ سے کیا تھا۔ تو مہاجرین نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے کبھی کچھ اختلاف نہ کریں گے آپ ہمیں بھجوائیے۔ (سیرت ابن کثیر صفحہ 421 باب ذکر بعثہ الیٰ کسریٰ ملک الفرس مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) چنانچہ جن صحابہ کو اس دینی فریضہ کے انجام دینے کی سعادت ملی ان میں حضرت شجاع بن وہب بھی شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاع کو حارث بن ابی شمر غسّانی کی طرف جو دمشق کے قریب مقام غوطہ کا رئیس تھا سفیر بنا کر بھیجا اور بعض کے نزدیک اس کا نام منذر بن حارث بن ابی شمر غسّانی تھا۔ بہرحال آپ نے تبلیغ کا جو خط بھیجا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وسلم) اِلَی الْحَارِثِ ابْنِ اَبِیْ شِمْر۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَصَدَّقَ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ اِلٰی اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ یَبْقٰی لَکَ مُلْکُکَ۔ (شرح زرقانی جلد 5 صفحہ 46 و اما مکاتبتہ علیہ الصلاۃ والسلام الی الملکوک وغیرھم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)، (اصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 3 صفحہ 256 شجاع بن وھب مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حارث بن ابی شمر کی طرف، سلامتی ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اللہ پر ایمان لائے اور تصدیق کرے۔ بیشک میں تم کو اس خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں جو ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی صورت میں تمہاری سلطنت باقی رہے گی۔

حضرت شجاع کہتے ہیں کہ میں خط لے کر روانہ ہوا یہاں تک کہ حارث بن ابی شمر کے محل کے دروازے پر پہنچا وہاں دو تین دن گزر گئے مگر دربار میں رسائی نہیں ہو سکی۔ آخر میں نے وہاں کا جو سیکیورٹی کا انچارج تھا اس سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کی حیثیت سے اس کے پاس آیا ہوں۔ تو اس نے کہا کہ یہ جو رئیس ہے وہ فلاں دن باہر آئیں گے اس سے پہلے تم ان سے کسی طرح نہیں مل سکتے۔ شجاع کہتے ہیں کہ پھر وہی شخص مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق پوچھنے لگا۔ میں اسے تفصیلات بتاتا رہا جس سے اس کے دل پر بہت اثر ہوا اور وہ رونے لگا۔ یعنی وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس علاقے کے بادشاہ یا گورنر یا رئیس کہہ لیں۔ پھر اس نے کہا کہ میں نے انجیل میں پڑھا تھا کہ اس نبی کی بالکل یہی تفصیلات اس میں موجود ہیں۔ مگر میں سمجھتا تھا کہ وہ سرزمین شام میں ظاہر ہوں گے مگر اب معلوم ہوا کہ وہ سر زمین قرظ یعنی یمن کے علاقہ میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ بہرحال میں ان پر ایمان لاتا ہوں۔ وہ جو سیکیورٹی انچارج تھا اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ مجھے حارث بن ابی شمر سے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ ساتھ اس بات کا اظہار بھی کیا کہ علاقے کا رئیس جو ہے وہ مجھے قتل کر دے گا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ پہریدار میری بہت عزت کرنے لگا اور بہتر سے بہتر انداز میں میری میزبانی کرتا۔ وہ مجھے حارث کے متعلق بھی اطلاعات دیتا رہتا اور اس کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتا۔ کہتا کہ حارث بن ابی شمر اصل میں بادشاہ قیصر سے ڈرتا ہے کیونکہ یہ اسی کی حکومت میں تھا۔ آخر ایک دن حارث باہر نکلا اور دربار میں آ کر بیٹھا۔ اس کے سر پر تاج تھا۔ پھر مجھے حاضری کی اجازت ملی۔ میں نے اس کے سامنے پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط اس کے حوالے کیا۔ اس نے وہ خط پڑھا پھر اسے اٹھا کر پھینک دیا اور غضبناک ہو کر کہنے لگا۔ کون ہے جو مجھ سے میری سلطنت چھین سکے۔ میں خود اس کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں چاہے وہ یمن میں ہی کیوں نہ ہو۔ میں وہاں اس کے پاس سزا دینے کے لئے پہنچوں گا۔ لوگ فوجی تیار کریں۔ اس نے اپنی انتظامیہ کو حکم دیا کہ تیار ہو۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ الفاظ کہے کہ میں جنگ کے لئے نکلوں گا اور جو خط لکھا ہے وہ دھمکی دی ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہاری حکومت جاتی رہے گی۔ بہرحال کہتے ہیں اس کے بعد حارث بن ابی شمر رات تک وہیں بیٹھا رہا اور لوگ اس کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ پھر اس نے گھڑ سواروں کو تیاری کا حکم دیا اور مجھ سے کہا کہ اپنے آقا سے یہاں کا سب حال بتا دینا۔ اس کے بعد اس نے قیصر شاہ روم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا سارا واقعہ لکھ کر بھجوایا۔ اپنا ایلچی بھجوایا اور یہی باتیں ساری لکھ کر بھجوائیں کہ اس طرح یہ نمائندہ مجھے اسلام کی تبلیغ کرنے آیا ہے۔ حارث بن ابی شمر کا یہ خط قیصر کے پاس اس وقت پہنچا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ قیصر کو پہنچ گیا تھا۔ قیصر نے حارث کا خط پڑھ کر اسے لکھا کہ اس نبی پر حملے اور پیش قدمی کا خیال چھوڑ دو اور ان سے مت الجھو۔ بہرحال جب قیصر کا یہ جوابی خط حارث کے پاس پہنچا تو اس نے حضرت شجاع کو جو کہ اس وقت تک وہیں ٹھہرے ہوئے تھے بلوایا اور پوچھا کہ تم کب واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ حضرت شجاع نے کہا کل۔ بادشاہ نے اسی وقت آپ کو سو مثقال سونا دلائے جانے کا حکم دیا اور وہ دربان آپ کے پاس آیا۔ وہی جو پہلے سیکیورٹی انچارج تھا ان کے پاس آیا اور اس نے خود کچھ روپیہ اور لباس دیا۔ پھر سیکیورٹی انچارج کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا اور بتانا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا پیروکار بن چکا ہوں۔ حضرت شجاع کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہ حارث کے متعلق سب حال بتایا۔ آپ نے تمام روداد سن کر فرمایا کہ تباہ ہو گیا یعنی اس کی سلطنت تباہ ہو گئی۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے محل کے دربان مُرّی کا سلام پہنچایا اور اس نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ بتلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے سچ کہا۔ سیرۃ الحلبیۃ میں یہ سارا واقعہ بیان ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد 3 صفحہ 357-358 باب ذکر کتابہﷺ الیٰ الحارث بن ابی شمر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تاریخ کی مختلف کتابوں سے لے کر جو باتیں بیان کی ہیں اس میں سے جو چند زائد باتیں ہیں وہ یہ ہیں کہ آپ لکھتے ہیں کہ پانچواں تبلیغی خط ریاست غسان کے فرمانروا حارث بن ابی شمر کے نام لکھا گیا۔ غسان کی ریاست عرب کے ساتھ متصل جانب شمال واقع تھی اور اس کا رئیس قیصر کے ماتحت ہوا کرتا تھا۔ جب حضرت شجاع بن وہب وہاں پہنچے تو حارث اس وقت قیصر کی فتح کے جشن کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ جو شاہ روم تھا اس کی فتح کا جشن تھا اس کے لئے وہاں کا رئیس تیاری کر رہا تھا۔ حارث سے ملنے سے پہلے شجاع بن وہب اس کے دربان یعنی مہتمم ملاقات سے ملے۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ اس نے شجاع کی زبانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر فی الجملہ ان کی تصدیق کی۔ بہرحال چند دن کے انتظار کے بعد وہی واقعہ بیان ہوا کہ شجاع بن وہب کو رئیس غسان کے دربار میں رسائی ہو گئی۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پیش کیا۔ حارث نے خط پڑھ کر غصہ سے پھینک دیا اور نہ صرف غصہ سے پھینک دیا بلکہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے فوجوں کو حملہ کے لئے تیاری کا حکم دیا اور اس دوران اس نے قیصر کو بھی یہ خط بھیجا اور یہ بتایا کہ میں فوج کشی کرنے لگا ہوں تو قیصر نے کہا کہ فوج کشی نہ کرو اور مجھے آ کر دربار کی شرکت کے لئے ایلیاء یعنی بیت المقدس میں ملو۔ قیصر نے اس رئیس کو بلایا۔ بہرحال یہ تو معاملہ ان کا وہیں ختم ہو گیا۔ حدیث اور تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ مدینہ میں ایک عرصہ تک اس بات کا خوف رہا کہ غسانی قبائل مسلمانوں کے خلاف کب حملہ کرتے ہیں۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 828-829) کافی عرصہ تک یہ خوف رہا۔ اس جواب کی وجہ سے جو شمر نے آپؐ کے صحابی کو دیا تھا۔

ماہ ربیع الاول سنہ 8 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ بنو ہوازن کی ایک شاخ بنو عامر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاع کو 24 مجاہدین دے کر ان لوگوں کی سرکوبی پر مامور فرمایا جو مدینہ پہ حملہ کرنے لگے تھے۔ اس وقت بنو عامر کے لوگ مدینہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر اَلسِّیّ جو مکہ اور بصرہ کے درمیان ایک مقام ہے اس پر خیمہ لگائے بیٹھے تھے۔ آپ یعنی حضرت شجاع مجاہدین کے ساتھ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپے رہتے یہاں تک کہ اچانک صبح کے وقت بنوعامر کے سر پر جا پہنچے۔ وہ لوگ مسلمانوں کو اچانک اپنے سر پر دیکھ کر بوکھلا گئے باوجود اس کے کہ وہ حملے کی تیاری کے لئے نکلے تھے اور پوری فوج بنا کے نکلے تھے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت شجاع نے اپنے مجاہدین کو حکم دیا کہ ان کا تعاقب نہ کریں۔ کوئی ضرورت نہیں تعاقب کرنے کی اور مال غنیمت جو ہے اس زمانے کے رواج کے مطابق جو بھی وہ چھوڑ گئے تھے اونٹ اور بکریاں وہ ہانک کر مدینہ لے آئے۔ مال غنیمت کی کثرت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ہر ایک مجاہد کو پندرہ پندرہ اونٹ ملے تھے اور دیگر اسباب و سامان اس کے علاوہ تھا (الطبقات الکبریٰ جلد 2صفحہ313 سریہ شجاع بن وھبؓ الیٰ بنی عامر بالسّی مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء) یعنی کہ وہ حملہ آور جو تھے پوری تیاری کر کے آئے تھے اور جنگ کے سازو سامان سے لیس تھے۔