حضرت صالح شُقرانؓ

خطبہ جمعہ 11؍ مئی 2018ء

ان کا نام صالح تھا اور لقب شُقران تھا اور اسی سے آپ معروف تھے۔ حضرت صالح شُقران حضرت عبداللہ بن عوف کے حبشی نژاد غلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی خدمت گزاری کے لئے پسند فرمایا اور حضرت عبدالرحمن کو قیمت دے کر ان سے خرید لیا اور بعض روایات کے مطابق حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان کو بلا معاوضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کیا تھا۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 392 شقران ؓ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

حضرت صالح شُقران غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ چونکہ اس وقت مملوک تھے آزادنہیں تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حصہ مقرر نہ فرمایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صالح شُقران کو قیدیوں کا نگران مقرر فرمایا۔ حضرت صالح شُقران جن لوگوں کے قیدیوں کی نگرانی کرتے تھے وہ بدلہ میں خود معاوضہ دیتے تھے۔ چنانچہ ان کو مال غنیمت سے زیادہ مال حاصل ہوا۔ (سیرت ابن کثیر باب ذکر عبیدہؑ … صفحہ 750 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)۔ مال غنیمت میں تو حصہ نہیں ملا لیکن اس نگرانی کی وجہ سے مال غنیمت سے زیادہ مال ان کو ملا‘‘۔ ’’غزوۂ بدر کے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد فرما دیا تھا‘‘۔ (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 392 شقران مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

حضرت جعفر بن محمد صادق کہتے ہیں کہ حضرت شُقران اہل صُفّہ میں سے تھے۔ (حلیۃ الاولیاء جلد اوّل صفحہ 348 ذکر اھل الصفۃ مطبوعہ مکتبۃ الایمان المنصورہ 2007ء)۔ ان لوگوں میں سے تھے جو ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر بیٹھے رہتے تھے۔ حضرت شُقران کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل اور تدفین میں بھی شامل تھے۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 284 شقران مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قمیص میں ہی غسل دیا گیا اور آپ کی قبر میں حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت قُثَم بن عباس اور حضرت شُقران اور حضرت اوس بن خَوَلِی داخل ہوئے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 4 صفحہ 84 حدیث 7143 جماع ابواب التکبیر علی الجنائز … الخ مکتبہ الرشد ریاض 2004ء)

حضرت شُقران اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! میں نے ہی قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے مخملی چادر بچھائی تھی۔ (سنن الترمذی کتاب الجنائز باب ما جاء فی الثوب الواحد … الخ حدیث 1047)

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق وہ سرخ رنگ کی مخملی چادر تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز باب جعل القطیفۃ فی القبر حدیث 2241)۔ یہ وہ چادر تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت شُقران بیان کرتے تھے کہ میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا اس کو اوڑھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کو اوڑھتے اور بچھایا بھی کرتے تھے۔ (المنھاج بشرح صحیح مسلم از امام نووی صفحہ 749 کتاب الجنائز باب جعل القطیفۃ فی القبر حدیث 967 مطبوعہ دار ابن حزم 2002ء)

غزوہ مُریسیع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شُقران کو قیدیوں اور اہل مُریسیع کے کیمپوں سے جو مال و متاع اور اسلحہ اور جانور وغیرہ ملے تھے ان پر نگران مقرر فرمایا تھا۔ (امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 316 فصل فی ذکر موالی رسول اللہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)۔ اس لحاظ سے بڑے قابل اعتماد، قابل اعتبار تھے۔ نگرانی کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت شُقران کے صاحبزادے عبدالرحمن بن شُقران کو حضرت ابوموسیٰ اشعری کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ میں تمہاری طرف ایک صالح آدمی عبدالرحمن بن صالح شُقران کو بھیج رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ان کے والد کے مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے اس سے سلوک کرنا۔ (الاصابہ جلد 5 صفحہ 31 عبد الرحمن بن شقران مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 2005ء)

یہ وہ مقام تھا جو اسلام نے غلاموں کو بھی دیا کہ نہ صرف غلامی سے آزاد کیا بلکہ ان کی اولادیں بھی قابل احترام ٹھہریں۔ ایک روایت ہے کہ حضرت شُقران نے مدینہ میں رہائش اختیار کی تھی اور آپ کا ایک گھر بصرہ میں بھی تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں آپ کی وفات ہوئی۔ (الاصابہ جلد 3 صفحہ 285 شقرانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2005ء) (امتاع الاسماع جلد 6 صفحہ 316 فصل فی ذکر موالیٰ رسول اللہﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)