طلاق کی وجوہات پر ایک ماہر نفسیات کی رائے

چوہدری خالد سیف اللہ خان

امریکہ کے ایک ماہر نفسیات ہاورڈ مارک مَین نے لندن کی ایک کانفرنس میں دعویٰ کیاہے کہ وہ شادی سے پہلے ہی ہونے والی بیوی کی بات چیت سن کر اور ان کے حالات دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ شادی نبھانے والی باتیں ان میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں میں تیرہ سال سے یہ کام کر رہا ہوں اور اب تک ۱۳۵ جوڑوں کے متعلق اندازے لگا کر انہیں بتا چکا ہوں ۔ میرے ۹۰ فیصد اندازے درست نکلے ہیں۔

وہ کہتے ہیں طلاق کی بڑی وجہ بات چیت اور تعلقات کا یکسر ختم کر دینا ہوتا ہے(Communication Breakdown)۔ اگر تعلقات جلد بازی اور غصہ میں یکدم توڑے نہ جائیں اور تعلقات بگڑنے کے بعد بھی بول چال جاری رکھیں اور کچھ عرصہ اکٹھے رہتے رہیں تو طلاق ہوتے ہوتے بھی بچ جاتی ہے۔ جب و ہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سمجھنے سے انکار کردیتے ہیں ، اپنی ضد پر اڑ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سننے کے روادار نہیں رہتے تو اس کا نتیجہ طلاق ہوتا ہے۔

دوسری وجہ طلاق کے باہمی احترام کا فقدان ہوتاہے۔ وہ ایک دوسرے کے کردار پرحملہ کرتے ہیں اورہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ ایک فریق دوسرے کو مسلسل نیچا دکھانے اورذلیل کرنے کے درپے رہتاہے۔ اگر ایک نے دوسرے کے ہاتھ سے بیس میٹھی کاشیں کھائی ہوں اور ایک کڑوی آ جائے تو پچھلی بیس کویکسر بھلا کرایک کڑوی کو باربار دہراتا رہے گا اورہمدردی حاصل کرنے کے لئے گھر کے باہر کے افراد کوبھی بتانا شروع کر دے گا( یاکر دے گی)۔ ایسے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کامسئلہ بناکر ڈٹ جاتے ہیں اور ان کے والدین بھی اسے اپنی عزت کا مسئلہ بنا کر صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیتے ہیں۔

طلاق کی ایک وجہ آزاد اور خودمختار رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ ایسے لوگ شادی کے وقت کیا ہوا عہد کہ تنگی اور ترشی میں ایک دوسرے کاساتھ نباہیں گے بھول جاتے ہیں ۔ اور اگر وہ ضروریات زندگی اور بچوں کی پرورش کے لئے ایک دوسرے پر انحصار نہ رکھتے ہوں تو پھر کوئی چھوٹی موٹی بات بھی اگر بڑھ کر طلاق تک پہنچ جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ (ماخوذ از سڈنی ہیرلڈ۹۶۔۱۰۔۲۴)

باتیں تو پروفیسر صاحب نے درست کہی ہیں۔ طلاق کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس کا اصل علاج تو خدا کے حضور جواب دہی کاخوف، جوڑے کے والدین کا اپنے گھریلو حالات اور ان کا بچوں کے سامنے باہمی محبت و شفقت کا نمونہ او ر بچپن میں کی ہوئی ان کی نیک تربیت ہے۔ مگر جب معاشرہ میں مادہ پرستی ، حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی شخصی آزادی ، جنسی بے راہ روی ، انانیت ، لالچ اور بخل کینسر کی طرح پھیل چکا ہو تو سیانوں اور بزرگوں کی باتیں کب مؤثر ہوتی ہیں اور پھر بات بات پر طلاق نہ ہو تو کیا ہو۔اسلام میں طلاق کو حلال چیزوں میں سے خدا کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ قرار دیا گیاہے اور اس میں جلد بازی سے منع کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’’۔۔۔ دراصل قرآن شریف میں غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑی بڑی شرائط لگائی ہیں۔ وقفہ کے بعد تین طلاق کا دینا اور ان کو ایک ہی جگہ رہنا وغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دور ہو کر آپس میں صلح ہو جاوے۔۔۔‘‘۔(ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۲۹۰)