حضرت ظُھَیر بن رَافِعؓ

خطبہ جمعہ 26؍ جولائی 2019ء

حضرت ظُھَیر بن رَافِعؓ  حضرت مظھّر کے بھائی تھے۔حضرت ظُھَیرانصار کے قبیلہ اوس کے خاندان بنو حَارِثَہ بن حارِث سے تعلق رکھتے تھے۔ (السیرۃ النّبویّہ لابن ہشام مَنْ شَھِدَ مِنْ بَنِیْ حَارِثَہْ بِنْ الْحَارِثْ صفحہ 209 مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)

حضرت ظُھَیربن رَافِع کے بیٹے کا نام اُسَیْد تھا جنہیں صحابی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ حضرت ظُھَیر، رافع بن خُدَیْج کے چچا تھے، حضرت رافع کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔ حضرت ظُھَیرکی بیوی کا نام فاطمہ بنت بِشْر تھا جو بنو عَدِی بن غَنَم سے تھیں۔ (اُسدالغابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد3 صفحہ103 ظُہَیْر بِنْ رَافِعْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء) (اُسدالغابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد1 صفحہ243 -244 أُسَيْد بِنْ ظُهَيْردارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء)(الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ 273 اسید بن ظُھَیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت مُظَھِّربن رَافِعْ، حضرت ظُھَیرکے سگے بھائی تھے۔ دونوں بھائیوں کو غزوۂ بدر میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ (اُسدالغابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد5 صفحہ 185 مُظَھِّرْ بِنْ رَافِعْ دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء) (صحیح البخاری کتاب المغازی باب تسمیۃ من سمی من اھل بدر ……)

جو کہتے ہیں کہ نہیں یہاں یہ کہہ رہے ہیں اور اکثر تاریخیں یہ کہتی ہیں کہ دونوں بھائی شامل ہوئے تھے۔ حضرت ظُھَیربیعت عقبہ ثانیہ اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے تھے۔ (اسدالغابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد3 صفحہ 103 ظہیر بن رافع، دارالکتب العلمیہ بیروت 2008ء)

حضرت رافع بن خُدَیج اپنے چچا حضرت ظُھَیربن رافع سے روایت کرتے تھے کہ حضرت ظُھَیرنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لیے فائدہ مند تھی۔ میں نے کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی بجا تھا۔ ظُھَیرنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ آپؐ نے پوچھا تم اپنے کھیتوں کو کیا کرتے ہو۔ میں نے کہا کہ ہم انہیں ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔ زمینیں ہیں جو ہم اس شرط پر ٹھیکے پر دے دیتے ہیں کہ جو نالیوں کے قریب پیداوار ہو وہ ہم لیں گے یعنی جو پانی کے قریب جگہ ہے وہاں اچھی فصل ہو گی وہ ہم لیں گے اور کھجور اور جَو میں چند وسق کے حساب سے لیں گے۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع اڑھائی کلو کے قریب ہوتا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کے فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو۔ تم خود اس میں کاشت کرو یا ان میں کاشت کراؤ یا انہیں خالی رہنے دو۔ حضرت رافعؓ کہتے تھے کہ میں نے کہا میں نے سن لیا اور اب ایسا ہی ہوگا۔ (صحیح بخاری جلد4 کتاب الْحَرْثِ وَ الْمُزَارِعَہْ بَابُ مَا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَاسِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي الزِّرَاعَةِ وَالثَّمَرَةِ۔ حدیث 2339 و مترجم اردو۔ صفحہ334۔ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ) (لغات الحدیث جلدچہارم صفحہ51 ’’وسق‘‘۔ لغات الحدیث جلد دوم صفحہ 113 ’’صاع‘‘)

اس کے بعد ہم خود کاشت کیا کرتے تھے یا ایسے طریقے سے لیتے تھے جہاں حق دار کو اس کا حق بھی مل جائے۔