حضرت عبداللہ بن مظعونؓ

خطبہ جمعہ 16؍ اگست 2019ء

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو جُمَحْ سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام سُخَیْلَہ بنتِ عَنْبَسْ تھا۔ یہ حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قُدَامَہ بن مظعونؓ اور حضرت سَائِب بن مظعونؓ کے بھائی تھے اور یہ سب رشتے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے ماموں تھے۔ کیونکہ حضرت عمرؓ نے ان کی ہمشیرہ زینب بنت مظعون سے شادی کی تھی۔

یزید بن رُوْمَان سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اور حضرت قُدامہ بن مظعونؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں جانے اور اس میں دعوتِ اسلام دینے سے قبل ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ463، من بنی جمح وحلفائھم، دارالکتب العلمیة 2001ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد3 صفحہ201، عمر بن الخطاب، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 2012ء) (اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، جلد 3 صفحہ391، عبد اللہ بن مظعون، دارالکتب العلمیۃ بیروت2008ء) (اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اور ان کے تینوں بھائی حضرت قُدامہ بن مظعونؓ اور حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت سَائِب بن مظعونؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے اور حبشہ میں قیام کے دوران جب انہیں خبر ملی کہ قریش ایمان لے آئے ہیں تب یہ لوگ واپس آ گئے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ241، 267، من ھاجر الی الحبشۃ من بنی جمح، من عاد من بنی جمح، دارالکتب العلمیۃ 2001ء) (اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

مَیں بعض صحابہ کے ذکر میں پہلے بھی حبشہ کی ہجرت کا یہ ذکر کر چکا ہوں کہ مسلمانوں کی تکلیفیں جب انتہا کو پہنچ گئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں اور فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ عادل اور انصاف پسند ہے۔ اس کی حکومت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ اُس زمانے میں حبشہ میں ایک مضبوط عیسائی حکومت قائم تھی اور وہاں کا بادشاہ نجاشی کہلاتا تھا۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر رجب پانچ نبوی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور جب انہوں نے ہجرت کی تو یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ جب وہ مکے سے نکلے ہیں اور جنوب کی طرف سفر کرتے ہوئے جب یہ شَعَیْبَہْ مقام پر پہنچے جو اس زمانے میں عرب کی ایک بندرگاہ تھی تو اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ ان کو ایک تجارتی جہاز مل گیا جو حبشہ کی طرف روانہ ہونے کو بالکل تیار تھا۔ چنانچہ یہ سب امن سے اس میں سوار ہو گئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔ حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو نہایت امن کی زندگی نصیب ہوئی اور خدا خدا کر کے قریش کے مظالم سے چھٹکارا ملا لیکن جیسا کہ بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے اور ان کے ضمن میں پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ خبر سن کے واپس آ گئے تھے۔ مہاجرین کو حبشہ میں گئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک افواہ اڑتی ہوئی ان کو پہنچی کہ تمام قریش مسلمان ہو گئے ہیں اور مکے میں بالکل امن ہو گیا ہے۔ اس خبر کا یہ نتیجہ ہوا کہ اکثر مہاجرین بلا سوچے سمجھے واپس آ گئے۔ جب یہ لوگ مکے کے پاس پہنچے تو پتا لگا کہ یہ خبر تو غلط تھی اور مہاجرین کو حبشہ سے واپس لانے کی کافروں کی ایک کوشش تھی۔ اب ان سب کو بڑی مشکل کا سامنا تھا۔ بہرحال کوئی اَور رستہ نہیں تھا۔ بعض تو رستہ میں سے واپس چلے گئے اور بعض نے مکے میں آکے کسی صاحبِ اثر کی پناہ لے لی لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ قریش کے جو مظالم تھے وہ بڑھتے چلے گئے اور مسلمانوں کے لیے مکے میں کوئی امن کی جگہ نہیں تھی تو اس پر پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہجرت کرو اور پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی خفیہ خفیہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی اور موقع پا کر آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ اور ہجرت کا یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ بالآخر حبشہ میں مہاجرین کی جو تعداد تھی وہ ایک سو تک پہنچ گئی جن میں اٹھارہ عورتیں تھیں باقی مرد تھے۔ تو اس طرح یہ دوسری ہجرت ہوئی۔ بہرحال حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کے متعلق یہی ہے کہ وہ پہلی ہجرت میں واپس آئے تھے لیکن دوبارہ واپس گئے یہ نہیں پتہ۔ یا پھر یہاں سے انہوں نے مدینہ ہجرت کی۔ (ماخوذ از سیرت حضرت خاتم النبیینؐ صفحہ146 تا 149)

بہرحال حضرت عبداللہ بن مظعونؓ جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سہل بن عُبَیداللہ انصاری کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مظعونؓ کی حضرت قُطْبَہ بن عامر کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (عیون الاثر جلد 1 صفحہ 232، ذکر المواخات، دار القلم بیروت 1993ء)

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ اپنے تینوں بھائیوں حضرت عثمان بن مظعونؓ اور حضرت قدامہ بن مظعونؓ اور حضرت سائب بن مظعونؓ کے ہمراہ غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مظعونؓ غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد اور خندق اور دیگر غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مظعونؓ نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں 30؍ ہجری میں بعمر ساٹھ سال وفات پائی تھی۔ (اسدالغابة فی معرفة الصحابة جلد2 صفحہ 399 سائب بن مظعون، دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء3 صفحہ212، 214، عبد اللہ بن مظعون من بنی جُمَحَ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)