حضرت عبدُاللّٰہ بن زَیْد بن ثَعْلَبَہؓ

خطبہ جمعہ 5؍ اپریل 2019ء

حضرت عبدُاللّٰہ بن زَیْد بن ثَعْلَبَہؓ کو عبداللّٰہ بن زید انصاری کہا جاتا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابومحمد تھی۔ والد کا نام حضرت زَیْد بن ثَعْلَبَہؓ تھا اور یہ بھی صحابی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بَنُو جُشَم سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوۂ بدر اور احد اور خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ فتح مکہ کے وقت بَنُو حَارِث بن خَزْرَج کا جھنڈا آپؓ کے پاس تھا۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ اسلام لانے سے قبل عربی لکھنا جانتے تھے جبکہ اس زمانے میں عرب میں کتابت بہت کم تھی۔ بہت کم لوگ ہوتے تھے جو لکھنا جانتے ہوں۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ کی اولاد مدینہ میں قیام پذیر رہی۔ آپؓ کے ایک بیٹے کا نام محمد تھا جو آپؓ کی بیوی سَعْدَۃ بنتِ کُلَیْب سے پیدا ہوئے اور ایک بیٹی ام حُمَیْد تھیں جن کی والدہ اہل یمن سے تھیں۔ آپؓ کے بھائی حُرَیْث بن زیدتھے جو بدری صحابی تھے۔ (اسد الغابۃ جلد3 صفحہ248 عبد اللہ بن زید الانصاری۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء)(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ405-406 عبد اللہ بن زید، حریث بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) اور آپؓ کی ایک بہن کا نام قُرَیْبَہ بنت زَیدؓ تھا، وہ بھی صحابیہ تھیں۔ (الطبقات الکبریٰ جلد8 صفحہ271-272قریبۃ بنت زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)

حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ وہ صحابی ہیں جن کو خواب میں اذان کے الفاظ بتائے گئے اور آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق آگاہ کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ ان الفاظ میں اذان دیں جو حضرت عبداللہ نے خواب میں دیکھے تھے۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجدِ نبویؐ کی تعمیر کے بعد سنہ ایک ہجری کا ہے۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ913 عبد اللہ بن زید۔ دار الجیل بیروت 1992ء)

اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت ابوعُمَیْر بن انس انصاریؓ (انصار میں سے تھے) اپنے چچوں سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے؟ آپؐ کو عرض کیا گیا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا نصب کر دیا جائے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع کر دیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز پسندنہیں آئی۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ سے نرسنگا کا ذکر کیا گیایعنی یہود کے بلانے کے طریق سےجوبلند آواز سے blow کیا جاتا ہے۔ آپؐ نے اس کو بھی پسندنہیں فرمایا کہ یہ یہود کا طریق ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر آپؐ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ نصاریٰ کا طریق ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن زید واپس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کی وجہ سے فکرمند تھے۔ دعا کی تو کہتے ہیں ان کو خواب میں اذان دکھائی گئی۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔ میں نے اس سے پوچھا اے بندہ ٔخدا! تُو اس ناقوس کو بیچے گا۔ اس نے کہا تُو اس سے کیا کرے گا؟ میں نے کہا کہ ہم اس کے ذریعہ سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ اس نے کہا تو کیا میں تمہیں وہ بات بتا دوں جو اس سے بہتر ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ اس نے کہا پھر کہو اور اذان کے الفاظ دہرائے کہ

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لَآ إِلٰہَ أِلَّااللّٰہُ۔

اس کا ترجمہ بھی بچوں کے لیے اور نو مسلموں کے لیےپڑھ دیتا ہوں، فائدہ مند ہوتا ہے۔ اذان ہم روز سنتے ہیں لیکن پھر بھی بعضوں کو مَیں نے دیکھا ہے ترجمہ نہیں آتا۔ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ چار دفعہ کہنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ یہ دو دفعہ کہنا ہے۔ پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ بھی دو دفعہ ہے۔ پھر نماز کی طرف آؤ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ نماز کی طرف آؤ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ پھر دو دفعہ کہنا ہے۔ لَآ إِلٰہَ أِلَّااللّٰہُ۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ الفاظ دہرانے کے بعد وہ شخص مجھ سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور پھر کہا کہ جب تم نماز کھڑی کرو تو یہ کہا کرو۔ پھر تکبیر کے الفاظ دہرائے کہ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ أَشْھَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ۔ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔

اس میں دو ہی الفاظ اذان سے زائد ہیں۔ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ہے کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور پھر وہی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔

پھر کہتے ہیں جب صبح ہوئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو میں نے دیکھا تھا بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینًا اللہ چاہے تو یہ سچی خواب ہے۔ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو تم نے دیکھا تھا وہ بتاتے جاؤ۔ وہ ان الفاظ کے ساتھ اذان دے دے چونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے۔ پس میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں ان کو بتاتا جاتا تھا اور وہ اُس کے مطابق اذان دیتے جاتے تھے۔ راوی کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ اذان سنی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے کہ اس کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ یا رسول اللہ بھیجا ہے! میں نے وہی دیکھا جو اس نے دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب بدء الاذان حدیث498، باب کیف الاذان حدیث499)

ایک دوسری روایت میں اس جگہ یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے پس یہی بات پختہ ہے۔ (جامع الترمذی کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی بدء الاذان حدیث189)

اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیین میں، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخوں سے لے کے بعض باتیں زائد بیان فرمائی ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ

’’ابھی تک نماز کے لیے اعلان یااذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا تو صحابہ عمومًا وقت کااندازہ کرکے خودنماز کے لیے جمع ہوجاتے تھے لیکن یہ صورت کوئی قابل ِاطمینان نہیں تھی۔ مسجدنبویؐ کے تیار ہوجانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طورپرپیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کووقت پر جمع کیا جائے۔ کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی۔ کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی۔ کسی نے کچھ کہا۔ مگر حضرت عمرؓ نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کومقرر کردیاجائے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کردیا کرے کہ نماز کاوقت ہوگیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کوپسند فرمایا (اذان سے پہلے حضرت عمرؓ کی ایک یہ رائے تھی) حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ وہ اس فرض کو اداکیا کریں۔ چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلالؓ بلندآواز سے اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌکہہ کر پکارا کرتے تھے اور لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا ہوتاتویہی آواز دی جاتی، یہی اعلان کیا جاتا۔ اس کے کچھ عرصےکے بعد، (پھر آگے ان کا وہی قصہ ہے کہ) ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید انصاریؓ کوخواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکراپنی اس خواب کاذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کواذان کے طور پریہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبداللہ کو حکم دیا کہ بلالؓ کو یہ الفاظ سکھا دیں۔ لکھتے ہیں کہ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلالؓ نے اِن الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ اِسے سن کر جلدی جلدی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے الفاظ سنے توفرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ271-272)

بشیر بن محمد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ جنہیں اذان رؤیا میں دکھائی گئی تھی انہوں نے اپنا وہ مال صدقہ کیا جس کے علاوہ آپؓ کے پاس کچھ اَور نہیں تھا۔ سارا مال صدقہ کر دیا۔ آپؓ اور آپؓ کا بیٹا اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہی ان کا ذریعہ ٔمعاش تھا۔ پس جو بھی جائیداد تھی آپؓ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ جب انہوں نے یہ مال سپرد کردیا تو اس پر ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! عبداللہ بن زیدؓ نے اپنا مال صدقہ کیا ہے اور وہ اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو بلا کر فرمایا کہ یقیناً اللہ نے تجھ سے تیرا صدقہ قبول کر لیا جو تو نے دیا۔ جو اللہ کےلیے چھوڑ دیاوہ اللہ نے قبول کر لیا۔ البتہ اس کو میراث کے طور پر اپنے والدین کو لوٹا دے۔ اب یہ میراث کے طور پر والدین کو واپس کر دے۔ تو بشیر کہتے ہیں کہ پھر ہم نے اس کو وراثت میں پایایعنی آگے پھر ان کے بچوں نے اس طرح اس میں سے حصہ لیا۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبھانی جلد3 صفحہ149 عبد اللہ بن زید… حدیث4172 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو اپنے ناخن بطور تبرک عطا فرمائے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ کے بیٹے محمدنے بیان کیا کہ ان کے والدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر منٰی کے میدان میں مَنْحَریعنی قربان گاہ میں قربانی کے وقت حاضر تھے اور آپؓ کے ہمراہ انصار میں سے ایک اَور شخص بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیاں تقسیم کیں تو حضرت عبداللہ بن زیدؓ اور ان کے انصاری ساتھی کو کچھ نہ ملا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں اپنے بال اتروائے اور انہیں لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپؐ نے اپنے ناخن کٹوائے اور وہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ اور ان کے انصاری ساتھی کو عطا کر دیے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ406 عبد اللہ بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خدا کی قَسم! یقینًا آپؐ مجھے میری ذات سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینًا آپؐ مجھے میرے اہل سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینًا آپؐ مجھے میری اولاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں گھر میں تھا اور آپؐ کو یاد کر رہا تھا کہ مجھ سے صبر نہ ہوا یہاں تک کہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اب میں آپؐ کو دیکھ رہا ہوں۔ جب مجھے اپنی اور آپؐ کی موت یاد آئی تو میں نے جان لیا کہ جب آپؐ جنت میں داخل ہوں گے تو دیگر انبیاء کے ساتھ آپؐ کا رفع ہو گا اور میں ڈرا کہ جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو آپؐ کو وہاں نہ پاؤں گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کوئی جواب نہ دیایہاں تک کہ جبریل اس آیت کے ساتھ نازل ہوئے وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ (النساء: 70)

کہ اور جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔ (تفسیر ابن کثیرجلد2 صفحہ311 النساء: 69 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

اس آیت کو ہم اس دلیل کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے غیر تشریعی نبوت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے اور آپؐ کی پیروی میں ایک شخص صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ بہرحال نبوت کا مقام چاہے وہ غیر تشریعی نبوت ہی ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں بھی ہے تو ایک بہت اعلیٰ مقام ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور آنے والے مسیح موعود کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نبی اللہ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر الدجال وصفتہ ومامعہ حدیث (2937))

اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں غیر تشریعی نبی مانتے ہیں اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم ِنبوت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ آپؐ کا مقام بڑھتا ہے کہ اب نبوت بھی صرف آپؐ کی غلامی میں ہی مل سکتی ہے اور یہ معنی صرف ہم ہی نہیں کرتے بلکہ پرانے بزرگوں نے بھی کیے ہیں۔ چنانچہ امام راغب نے بھی اس کے یہی معنے کیے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر شرعی نبی آپؐ کی پیروی میں آ سکتے ہیں۔ (تفسیر البحر المحیط جزء3 صفحہ299 النساء: 69 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010)

بہرحال اس آیت کے ضمن میں یہ ذکر میں نے کر دیا تا کہ وضاحت بھی ہو جائے۔

علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ مختلف کتب تفسیر میں یہ واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ثوبانؓ کے متعلق ملتا ہے جبکہ تفسیر یَنْبُوْعُ الْحَیَاۃ میں مقاتل بن سلیمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن زید انصاریؓ تھے جنہوں نے رؤیا میں اذان دیکھی تھی۔ علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو ممکن ہے کہ دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بات کا ذکر کیا ہو اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہو اور یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ایسی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ساتھیوں نے کی تھی۔ (شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃجزء12 صفحہ417-418 خاتمۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

پہلے بیان کردہ واقعہ کے علاوہ تفاسیر میں حضرت ثوبان کا واقعہ اَور الفاظ میں بھی بیان ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ثوبانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی اور آپؐ سے دوری میں زیادہ صبر نہیں کر سکتے تھے۔ ایک روز جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کا رنگ بدلا ہوا تھا اور ان کے چہرے سے حزن کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کس چیز کے باعث تمہارا رنگ بدلا ہوا ہے؟ حضرت ثوبانؓ نے عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! نہ تو مجھے کوئی مرض ہے اور نہ ہی کوئی بیماری ہے ماسوائے اس کے کہ میں آپؐ کو دیکھ نہ سکا۔ یعنی کچھ عرصے سے دیکھا نہیں تھا۔ اس لیے مجھ پر شدید وحشت طاری ہو گئی جب تک کہ آپؐ سے ملاقات نہ ہو گئی۔ اسی طرح جب مجھے آخرت کی یاد آئی تو مجھ پر پھر خوف طاری ہوا کہ میں آپؐ کو نہ دیکھ سکوں گا کیونکہ آپؐ کا تو انبیاء کے ساتھ رفع کیا جائے گا اور اگر میں جنت میں چلا بھی گیا تو میرا مقام وہاں آپؐ کے مقام سے بہت ہی ادنیٰ ہو گا اور اگر میں جنت میں نہ داخل ہو سکا تو پھر میں کبھی بھی آپؐ کو نہ دیکھ سکوں گا۔ (تفسیر البغوی جزء1 صفحہ450 النساء: 69 ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان پاکستان 1425ھ)

علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ اپنے باغ میں کام کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زیدؓ کا پھر دوبارہ ذکر شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ ہے کہ آپؓ کا بیٹا آپ کے پاس آیا اور آپؓ کو خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ اس پر آپؓ نے کہا کہ اَللّٰھُمَّ اَذْھِبْ بَصَرِیْ حَتّٰی لَا اَرٰی بَعْدَ حَبِیْبِیْ مُحَمَّدً اَحَدًا۔ کہ اے اللہ! تو میری نظر کو لے جا یہاں تک کہ میں اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نہ دیکھ پاؤں۔ اس کے بعد، شرح زرقانی میں یہ لکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپؓ کی نظر جاتی رہی اور آپؓ نابینا ہو گئے۔ (شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃجزء9 صفحہ84-85 فی وجوب محبتہ واتباع سنتہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

ان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن زیدؓ کی وفات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے غزوۂ احد کے بعد وفات کا ذکر کیا ہے لیکن اکثر یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور آپؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آخری دور میں 32ہجری میں مدینہ میں ہوئی تھی اور وہ جو نظر والا واقعہ ہے اس سے بھی اگر اس کو صحیح مانا جائے تو یہی لگتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں ہوئی تھی جبکہ اس وقت ان کی عمر 64 سال تھی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمانؓ نے پڑھائی۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 5 صفحہ 266، کتاب الفرائض، حدیث8187، دارالفکر 2001ء) (الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ406 عبد اللہ بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)