عظیم الشان پیشگوئیوں اور تجلیاتِ الہٰی کا مظہر MTA

امتیاز احمد راجیکی

اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ

(حصہ اوّل)

اس مضمون کی تیاری میں سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور خلفائے عظام کے اقوالِ زرِّیں کے علاوہ انفرادی انٹرویوز، ایم -ٹی -اے کے پروگراموں اور سلسلہ کے لٹریچر سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ایک نو دس سالہ معصوم سا خوبصورت بچہ مسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کا خطاب سن رہا تھا۔ امام کے الفاظ تو شاید ابھی اس کی سمجھ سے بالا تر تھے مگر آواز کی پہنچ، ارتعاش اور گونج اس کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے کہ ابّا حضور کے سامنے آج یہ کیا آلہ رکھا ہوا ہے جس میں بولتے ہوئے آپ کی آواز بہت صفائی سے دور تک سنائی دے رہی ہے۔

اس واقعے کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ کسی کے وہم و گمان اور تصور کی پرچھائیاں بھی ان الفاظ اور ان کے اندر پنہاں اسرار و رموز، مفاہیم اور پیشگوئیوں کا ادراک نہ کر سکتی تھیں کہ مدتوں بعد وہی بچہ بڑے وثوق، تیقّن اور تحدی سے خود کو اس اعزاز کا مصداق قرار دیتے ہوئے اس واقعے کو یوں بیان کر رہا ہو گا:

”مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ 7 جنوری 1938 کو لاؤڈ سپیکر لگا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس دن خطبہ جمعہ میں فرمایا: ”اب وہ دن دور نہیں کہ ایک شخص اپنی جگہ بیٹھا ہوا ساری دنیا میں درس و تدریس پر قادر ہو گا۔ ابھی ہمارے حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، ابھی ہمارے پاس کافی سرمایہ نہیں اور ابھی عملی دقتیں بھی ہمارے راستے میں حائل ہیں۔ لیکن اگر یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں اور جس رنگ میں اللہ تعالیٰ ہمیں ترقی دے رہا ہے اور جس سرعت سے ترقی دے رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قریب زمانہ میں ہی یہ تمام دقتیں دور ہو جائیں گی——“

مشکلات اور دقتوں کی یہ داستان اور خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت سے ان کے ازالے کے سامان ــــــــــ یہ تاریخ کا وہ حسین باب ہے جسے رقم کرتے ہوئے دل ربِّ عزّ و جل کی حمد اور شکر سے لبریز ہو جاتا ہے کہ کیا دنیا کے ظاہری اسباب و وسائل کے لحاظ سے یہ کبھی ممکن بھی ہو سکتا تھاــــــــــ؟

تقدیرِ الٰہی، اعجازِ قدسی

ــــــــــ مگر یہ تو ایک ایسی تقدیرِ الٰہی تھی، ایسا اعجازِ قدسی تھا جسے مالکِ کون و مکان نے آقائے دو جہاں ﷺ کے غلامِ صادق مسیحِ آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپؑ کے غلاموں کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا۔ اور وَ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (اورنفوس ملا دئیے جائیں گے، یعنی مختلف النوع افراد و اقوام کا اجتماع و ادغام ہو گا : 81:8) کے تحت وحدتِ انسانی کے ایسے دور میں داخل کرنا تھا جس کی انتہا اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعے اسلام کے تمام ادیان پر غلبے اور توحیدِ کامل کی تکمیل کے سامان پیدا فرمانا تھے۔

اس کے لیے ہندوستان کی محکوم قوم کے ایک گمنام علاقے سے ایک اکیلی آواز اٹھتی ہے جس نے خدائے واحد و یگانہ کی تقدیس و توحید اور رسالت مآب ﷺ کی عظمت و جبروت کے قیام کا بیڑا ایسے وقت میں اٹھایا جب شرک و الحاد اور تثلیث و بت پرستی کے مہیب اندھیرے مادہ پرستی کے جلو میں خیر و ہدایت کے اجالوں کو نگلے چلے جا رہے تھے اور نور و راستی کی تمام راہوں کو تاریک کیے جا رہے تھے۔ وہ آواز اُس ایک مردِ جواں کی تھی جو جری اللہ فی حلل الانبیاء کا روپ دھارے ان طاغوتی طاقتوں کے مقابل پر تنِ تنہا صف آرائی کا عزم باندھے مخالفتوں اور رکاوٹوں کے طوفانوں میں ایک مضبوط چٹان کی طرح سینہ سپر تھا۔ اور دوسری طرف خدائے قدیر و قدوس بھی نہ صرف ”بڑے زور آور حملوں“ سے اس کی سچائی اور فتح کے سامان پیدا فرما رہا تھا بلکہ دشمنوں کے تمام حملے ناکام بنا کر اپنے ”خیر الماکرین“ ہونے کا ثبوت اس طرح دے رہا تھا کہ بد خواہوں کے ہتھکنڈے اور ہتھیار انہیں کے خلاف استعمال ہونے لگے۔

انتشارِ علوم کا دور اور خیر الماکرین کی تدبیریں

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا زمانہ فی الحقیقت یورپ کے صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ انتشارِ علوم اور ایجاداتِ جدیدہ کے لحاظ سے تاریخِ عالَم کا اہم ترین حصہ تھا۔ سائنسی اور تکنیکی اعتبار سے یہ وہ انقلاب آفریں دور تھا جس میں برقی طاقتوں پر تسلط کے بعد میکانکی اور کیمیاوی قوتوں سے استفادہ کر کے ایک طرف لاؤڈ سپیکر، پرنٹنگ پریس، ساکت و متحرک فوٹو گرافی، ریڈیو، وائرلیس، ٹیپ ریکارڈر، ٹائپ رائٹر اور ذرائع ابلاغ کے دیگر بنیادی عناصر کو عوام الناس کے استعمال میں لایا جانے لگا تو دوسری طرف ذرائع نقل و حمل کے طور پر سٹیم انجن، ریلوے، موٹر کاریں اور ہوائی جہازوں کی ابتدا ہوئی۔

یہ انقلاب آفریں دور یہیں پر بس نہیں تھا۔ ان ٹیکنیکل انکشافات اور ایجادات پر مستزاد سماجی، فکری، معاشی اور سیاسی میدان میں بھی نئے نئے فلسفے اور تھیوریاں منظرِ عام پر آنے لگیں۔ یہ آدم سمتھ اور کارل مارکس کے متضاد اقتصادی نظریات ہوں۔

انسانی اعمال کو نفسیاتی خواہشات کا محرک قرار دینے کی فرائیڈ کی فکر ہو یا ڈارون کے ارتقاء کی تھیوری ــــــــــ سبھی عوامل گویا یکجان ہو کر پیدائشِ انسانیت کے حقیقی مقصد ”وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ“ سے ٹکرانے والے اور الحاد و بے دینی کی راہیں متعین کرنے والے تھے۔ بڑے بڑے راسخ العقیدہ مسلمان بھی ان علوم و ایجادات کے بانی مبانی آقاؤں کی چکا چوند کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور احساسِ کمتری کے باعث یا تو تثلیث کو اپنانے پر مجبور ہو گئے یا الحاد و دہریت کی آغوش میں پناہ گزیں ہو گئے۔

اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ

ایسے پُر صعوبت اُفتاں و خیزاں زمانے میں ایک وہی وجود فتح مند جرنیل کے روپ میں میدانِ کرب و بلا اور افتاد و آزما میں ڈٹا ہوا تھا جسے بار گاہِ ایزدی سے حَکم، عدل اور امام قرار دیا گیا تھا اور ”اَلاِمَامُ جُنَّۃٌ“ کے مصداق ایک ایسی ڈھال بنایا گیا تھا جو ہر وار اپنے سینے پر سہتے ہوئے ہر حرب و ضرب میں قیادت و رہنمائی کا فرض بجا لا رہا تھا۔ اور نہایت حکمت اور مہارت سے وہ تمام ہتھیار بھی استعمال کر رہا تھا جو اس دور کے علمی و قلمی جہاد میں وقت کا تقاضا تھے۔ چنانچہ آپؑ نے اس زمانے کے ہر علم اور ایجاد کو اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کیا اور کم فہم اور دین سے بے بہرہ نام نہاد علمائے اسلام کے فتووں کے بر عکس یہ رہنما اصول بیان فرما دیا کہ فی ذاتہٖ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کوئی بھی شے بے فائدہ و بے مقصد نہیں۔ فی الحقیقت اس کا استعمال اسے بھلائی یا برائی پر منتج کرتا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے اِنہی رہنما اصولوں کی بنیاد پر کلامِ الٰہی کی اس عظیم بشارت ”وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بَنُوْرِ رَبِّھَا“ (اور زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اٹھے گی: 39:70) کی صحیح تفہیم اور عملی تعبیر کی جس کے لیے ربِّ کریم نے ”وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ“ (اور جب صحیفے نشر کیے جائیں گے یعنی انتشارِ علوم ہو گا: 81:11 ) اور ”وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتْ“ (اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی یعنی ایجادات و انکشافات کا دور ہو گا: 81:12) کی پیشگوئیوں کے تحت سامان اور وسائل و ذرائع قائم فرما رکھے تھے۔

یُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ

ان میسر وسائل و ذرائع کے استعمال اور اس میں نئی نئی جدتوں اور اختراعات کے بر موقع و بر محل استعمال کے ساتھ ساتھ 12 دسمبر 1902 کو خدا تعالیٰ سے بذریعہ الہام بشارت پا کر سیّدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا:

یُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ(بدر 19 دسمبر 1902) یعنی ”ایک منادی کرنے والا آسمان سے پکارے گا۔“ اور پھر 1897 کے اس الہام کی روشنی میں کہ: ”اَلْاَرْضُ وَ السَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیَ“ (سراجِ منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 83) کے تحت خدا تعالیٰ نئی جہات اور تائیدات کی طرف اشارہ فرما رہا تھا جس کی تشریح کرتے ہوئے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”اس الہام کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسے ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے جو خود اپنی ذات میں ایک تشریح اور تفسیر کے معنے رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی طاقتیں اور خدائی نوشتے تیری تائید کریں گے۔ اس زمین پر تُو اپنی کوشش کر لیکن آسمان سے ایسی ہوائیں چلائی جائیں گی جو تیری مدد گار ثابت ہوں گی۔“

”آسمان کا ساتھ ہونا ایم-ٹی-اے کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایم-ٹی-اے کے ذریعہ کل عالم میں آسمان نے جو گواہیاں دی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس کثرت کے ساتھ وحدت نصیب ہوئی ہے کہ جب ہم اس الہام کو 1897 کی بجائے 1997 میں پڑھتے ہیں تو پھر اس کے معنی ہیں آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں۔ یعنی خدا تعالیٰ کی وہ آسمانی طاقتیں جو ابھی ظہور میں نہیں آئیں وہ بھی تیرے ساتھ ہوں گی جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہیں“ — ”پس اس پہلو سے ہم جب اس سال اس الہام کو پڑھتے ہیں کہ آسمان ہمارے ساتھ ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ آسمان کی متحرک طاقتیں اور ریڈیائی وجود جس کا پہلے علم نہیں تھا اب کلیۃً جماعت احمدیہ کی تائید میں ظاہر ہو چکا ہے اور رونما ہو رہا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں انشاءاللہ تعالیٰ دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو گا اور پہلے سے بڑھ کر ہو گا۔“ (خطبہ جمعہ 25 جولائی 1997 الفضل انٹرنیشنل لندن 12 ستمبر 1997)

کشف میں ہوا میں تیرنا

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک کشف میں ہوا میں تیرنے کا ذکر ہے۔ جس کا استنباط حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ نے بڑے لطیف انداز میں فرمایا ہے:

”آپؑ کا 8 دسمبر 1902 کا کشف ہے:“

”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں ہوا میں تیر رہا ہوں۔ اور ایک گڑھا ہے مثل دائرہ کے گول اور اس قدر بڑا جیسے یہاں سے نواب صاحب کا گھر (مسجد مبارک سے نواب محمد علی خان صاحب‏ ؓ کا گھر)۔ اور مَیں اس پر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر تیر رہا ہوں۔ سیّد محمد احسن صاحب کنارے پر تھے۔ مَیں نے ان سے کہا کہ دیکھ لیجئے کہ عیسیٰ تو پانی پر چلتے تھے اور مَیں ہوا پر تیر رہا ہوں۔

حامد علی میرے ساتھ ہے اور اس گڑھے پر ہم نے کئی پھیرے کیے۔ نہ ہاتھ نہ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں۔ اور بڑی آسانی سے اِدھر اُدھر تیر رہے ہیں۔“ (البدر 12 دسمبر 1902)

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ نے کشف کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ انجیل میں مسیح کے پانی پر چلنے کا ذکر ملتا ہے جو دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کشف تھا۔ اور مراد پانیوں پر حکمرانی اور بحری قوت کی طرف اشارہ تھا جس کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہوئے عیسائیوں نے اسے ظاہر پر محمول کر دیا اور بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا۔ بعینہٖ آپؓ نے حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشف میں فضائی قوت اور ہوائی جہازوں کی اہمیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

با ایں ہمہ اس رؤیا میں گول گڑھے سے سیٹلائیٹ ڈش مراد لینا بعید از قیاس نہیں جس میں تیرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ہلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حامد علی حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خادم تھے۔ اس کشف میں حامد علی سے مراد حضرت علیؓ کا مثیل، مسیحِ محمدی کا چوتھا خلیفہ بھی ہو سکتا ہے جو ہمہ وقت حضورؑ کی خدمت میں کمربستہ ہے اور اس کو حامد اس لیے پکارا گیا ہے کہ وہ کثرت سے حمد کرنے والا اور مسیحِ موعودؑ کے ساتھ تیرنے والا ہے۔

ہواؤں میں تیرنے کے اس مضمون کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے ساتھ باندھ کر یوں بیان کیا ہے:

”اسلام کی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں۔ آپ جو کل چل رہے تھے، آج دوڑ رہے ہیں۔ آپ جو آج دوڑ رہے ہیں ان کو فضا میں اڑنا بھی نصیب ہوا ہے۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ جیسا کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا: اب یہ فیصلہ ہے کہ مسیحِ محمدی کے لیے آسمان کی فضائیں مسخّر کی جائیں گی اور ان تمام مراتب میں جو آسمانی سفروں سے تعلق رکھتے ہیں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے غلاموں کو سب دنیا کی قوموں اور انسانوں پر ایک برتری عطا ہو گی۔“

”پس یہ آسمانی سفر کا آغاز ہوا ہے۔ یہ ایم-ٹی-اے کی لہریں جو تمام دنیا میں آسمان سے اترتی ہیں یہ اس سفر کا آغاز ہے۔ ابھی بہت کچھ ہے جو آگے آنے والا ہے۔ اگلی صدیاں جو کچھ دیکھیں گی آپ یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنی بڑی عظمتوں کی بنیاد ڈالی جا چکی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شکر کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔“ (الفضل انٹرنیشنل 4 جولائی 1997)

مدبّروں کی تدبیر کے بغیر

سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کے روحانی غلبہ کی کیفیات اور ذرائع کا ایک عجیب نظارہ خطبہ الہامیہ (روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 286 تا 289) میں درج ہے جس کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

”مدبروں کی تدبیر کے بغیر تمام چیزیں اوپر سے نیچے آئیں گی؛ گویا مسیح بارش کی طرح فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر آسمان سے اترے گا۔ انسانی تدبیروں اور حیلوں کے بازوؤں پر اس کا ہاتھ نہ ہو گا۔ اور اس کی دعوت اور حجت زمین میں چاروں طرف بہت جلد پھیل جائے گی۔ اس بجلی کی طرح جو ایک سمت میں ظاہر ہو کر ایک دم میں سب طرف چمک جاتی ہے۔ یہی حال اس زمانہ میں واقع ہو گا۔ پس سن لے جس کو دو کان دئیے گئے ہیں۔ اور نور کی اشاعت کے لیے صور پھونکا جائے گا اور سلیم طبائع ہدایت کے لیے پکاریں گی۔ اس وقت مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کے فرقے (مختلف النوع گروہ) خدا کے حکم سے جمع ہو جائیں گے۔“

اس پیشگوئی میں آسمان سے نازل ہونے والی بارش، فرشتوں، بجلی اور چاروں سمتوں کا ذکر قابلِ توجہ ہے؛ کیونکہ یہ سب باتیں اس پیشگوئی میں مشترک ہیں جو مسیح علیہ السلام نے اپنی آمدِ ثانی کے لیے کی تھیں۔

”آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے“

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے ہر ذریعے کو اختیار کرنے اور ذرائع مواصلات و ابلاغ کے ہر وسیلے سے استفادہ کرنے کو ہمہ وقت مستعد رہتے۔ بابائے ایجادات تھامس ایڈیسن (Thomas Edison) اور امریکہ میں نظامِ مواصلات کا بانی مبانی الیگزینڈر گراہم بیل (Alexander Graham Bell) حضورؑ کے ہم عصر تھے۔ 1877 میں ایڈیسن نے آواز ریکارڈ کرنے کا آلہ فونوگراف (Phonograph) ایجاد کیا جسے 1887 میں گراموفون (Gramophone) کے ٹریڈ مارک کے ساتھ رجسٹر کیا گیا۔ 1880 میں گراہم بیل کی وولٹا لیبارٹری (Volta Laboratory) میں کی گئی نئی اصلاحات اور افزائش سے اس ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

انہی دنوں حضرت اقدس علیہ السلام کو ایسے آلے کی ایجاد کی خبر ملی جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہٗ آف مالیر کوٹلہ کے پاس موجود تھا۔ حضورؑ کے ارشاد پر نواب صاحبؓ وہ فونوگراف لے کر قادیان تشریف لائے جہاں 20 نومبر 1901 کو ریکارڈنگ کی بابرکت تقریب منعقد ہوئی۔ آپؑ نے اس موقع پر ایک نظم تحریر فرمائی؎

آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے تلاوت قرآن کریم اور حضورؑ کے نعتیہ کلام: ”عجب نوریست در جانِ محمدؐ                عجب لعلیست در کانِ محمدؐ“ بڑی خوش الحانی سے ریکارڈ کروائے۔ بعد ازاں خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مولانا حکیم نور الدینؓ کی ایک مختصر تقریر جو سورۃ العصر کی تفسیر پر مشتمل تھی ریکارڈ کی گئی (اصحابِ احمد جلد 2 صفحہ 474 تا 476)۔ اللہ تعالیٰ کی کسی حکمت کے ما تحت یہ ریکارڈ شدہ آوازیں محفوظ نہ رہ سکیں۔ مگر حضورِ اقدسؑ کی نظم میں پنہاں ایک گہرا حکمت بھرا پیغام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیا کہ دنیا کی ان میسر سہولتوں اور آسائشوں اور لاف و گزاف میں ڈوب کر کہیں انہیں پیدا کرنے والے مالک سے نہ دور ہو جانا۔ دل اسی سے لگائے رکھنا کہ ”ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں۔“

یہ ابتدا تھی اس نئے مواصلاتی دور کے آغاز کی جس کے نتیجے میں بعد ازاں پچاس کی دہائی سے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آوازِ مبارک محفوظ ہونا شروع ہو گئی۔ 27 دسمبر 1952 کو جلسہ سالانہ پر تعلق باللہ کے موضوع پر اور دسمبر 1953 میں ”سیرِ روحانی“ کی مشہور اور مقبول عام ”نوبت خانے والی“ تقریر ریکارڈ کی گئی۔ ازاں بعد 1960 سے 1965 تک ریکارڈ شدہ تقاریر اور پیغامات مختلف مواقع پر اور خصوصیت سے مستورات کے جلسہ سالانہ پر سنوائے جاتے رہے۔ قبل ازیں 1936 میں جلسہ سالانہ پر پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا گیا جس سے 25 ہزار احباب نے استفادہ کیا۔ اس موقع پر حضورؓ نے فرمایا:

”مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے؛ کیونکہ رسولِ کریم ﷺ نے خبر دی تھی کہ مسیحِ موعود اشاعت کے ذریعے دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا۔ اور قرآنِ کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحِ موعود کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لیے پریس جاری کر دئیے اور پھر آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے۔ اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگا ہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو وہی تمام دنیا کے لوگ سن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔“ (روزنامہ الفضل قادیان 29 دسمبر 1936)

1937 کے جلسہ سالانہ مستورات میں حضرت مصلحِ موعودؓ کی تمام تقاریر بذریعہ لاؤڈ سپیکر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں۔ 7 جنوری 1938 کو مسجد اقصیٰ قادیان میں خطبہ جمعہ کے موقع پر پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہوا۔ 19 فروری 1940 کو اپنے عقائد کے بارے حضرت مصلحِ موعودؓ کی تقریر بمبئی ریڈیو سٹیشن سے پڑھ کر سنائی گئی۔ 25 مئی 1941 کو آپؓ کا عراق کے حالات پر تبصرہ لاہور ریڈیو سٹیشن پر پیش کیا گیا جسے بعد ازاں دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو سٹیشنز سے بھی نشر کیا گیا۔

آقاؑ کی اقتدا میں خلفائے عظام کے اقدامات

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی اقتدا میں آپؑ کے خلفائے عظام نے بھی اشاعتِ اسلام اور اعلائے کلمۃ اللہ کے مشن کو حضورؑ کی عطا فرمودہ ہدایت و رہنمائی کی روشنی میں جاری رکھا۔ حضرت مصلحِ موعودؓ کی بالغ نظر پر مشتمل ارشادات اور توقعات کا ذکر ابتدائے مضمون میں کیا گیا ہے۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا دور بھی اس سفر کو آگے سے آگے بڑھانے اور نئی نئی جہتوں کی تلاش میں بڑھتا رہا۔

آپؒ کی خلافت کے بالکل ابتدائی سالوں میں پاکستان میں ٹیلیویژن آ چکا تھا۔ اس کے پروگراموں اور اس سے متعلقہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے جماعت کے بعض حلقوں میں بڑا فکر مندانہ رد عمل ظاہر ہو رہا تھا کہ گویا یہ فحاشی اور عریانی کے اڈے اب ہر گھر کی زینت بن جائیں گے؛ چنانچہ اس پر احمدی گھروں میں مکمل طور پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ حضور ثالث رحمہ اللہ کی بصیرت اور حکمت پر مبنی بالغ نظر اس نتیجے پر پہنچی کہ اس ذریعۂ ابلاغ سے مستقبل میں احمدیت کی ترقی کے بے شمار مواقع وابستہ دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ اس کے شر کے پہلوؤں سے بچتے ہوئے اس سے استفادہ جاری رکھا جائے۔

ازاں بعد آپؒ نے نئی صدی ہجری کے قیام کی تیاریوں اور احمدیت کی دوسری صدی کے آغاز کے لیے صد سالہ جوبلی فنڈ اور اس کے مفصل پروگراموں کے لیے نئے اداروں اور کمیٹیوں کی تشکیل کی۔

اس زمانے میں جماعت کے مالی وسائل بھی بہت محدود تھے اور پاکستان میں ایک معمولی سا وائرلیس سیٹ رکھنا بھی جرم تھا۔ اس کے لیے لائیسنس کی ضرورت تھی۔ مواصلاتی ذرائع نشر و اشاعت حکومتی کنٹرول میں تھے اور کسی پرائیویٹ ریڈیو یا ٹیلیویژن کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ کافی عرصہ تک یہی تگ و دو جاری رہی کہ کسی افریقہ کے ملک یا یورپ میں ایک ریڈیو سٹیشن قائم کیا جائے جس سے خلیفۂ وقت کی آواز براہِ راست احباب تک پہنچ سکے۔

اس دور میں ریکارڈنگ کی ٹیکنالوجی بڑے بڑے گراموفون اور بھاری بھر کم ڈسک (disc) جسے ”ریکارڈ“ یا پنجابی عرفِ عام میں ”تَوا“ کہا جاتا تھا سے نکل کر ایک جیب میں سما جانے والی پلاسٹک کی رِیل پر محفوظ ٹیپ میں منتقل ہو چکی تھی۔ حضرت خلیفہ ثالثؒ کے خطبات کو ایک منظم طریق پر ان ٹیپوں میں بھرنے اور گھر گھر پہنچانے کا بندوبست جدید ٹیکنالوجی کے دور کی شروعات تھیں۔

مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کے قیام سے پہلے کی تاریخ

مسلم ٹیلیویژن احمدیہ (Muslim Television Ahmadiyya-MTA) کے باقاعدہ قیام اور اس کے متوازی اس دور میں انٹرنیٹ کے فروغ اور جماعت کی سرکاری ویب سائٹ (Official Website) ”الاسلام“ (www.alislam.org) کی تشکیل پر تفصیلی گفتگو سے پہلے مناسب دکھائی دیتا ہے کہ اس دوران میں ہونے والے واقعات کا مختصر ترتیب وار تاریخی ریکارڈ (Chronological Order) پیش کر دیا جائے۔ (بحوالہ الفضل انٹرنیشنل)

دسمبر 1980:  جلسہ سالانہ پر آنے والے غیر ملکی وفود اور مہمانوں کے لیے مختلف زبانوں میں تراجم کا انتظام کیا گیا۔

1984:  لندن سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے خطابات کی کیسٹس ساری دنیا میں بھجوائی جاتی رہیں۔ یہ سلسلہ ایم-ٹی-اے کے آغاز تک جاری رہا۔

یکم جنوری 1985:  ناروے کے سٹیٹ ریڈیو سٹیشن سے جماعت احمدیہ کا مستقل پروگرام نشر ہونا شروع ہوا۔

3 اپریل 1987:  ربوہ میں جماعت احمدیہ پاکستان کی 68ویں مجلسِ شوریٰ کے لیے حضور کا خصوصی ریکارڈ شدہ پیغام سنایا گیا۔

24 مارچ 1989:  احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا خطبہ جمعہ ماریشس اور جرمنی میں بذریعہ ٹیلی فون براہِ راست سنا گیا۔ اس سے پہلے صد سالہ جشنِ تشکر کے موقع پر ریکارڈ شدہ وڈیو پیغام تمام عالم میں مشتہر کیا گیا۔

18 جنوری 1991:  حضور کا خطبہ انگلستان سمیت 6 ممالک میں سنا گیا جن میں جاپان، جرمنی، ماریشس، امریکہ اور ڈنمارک شامل تھے۔

23 جون 1991:  حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا خطبہ عید الاضحیٰ 24 ممالک میں سنا گیا۔

جولائی 1991:  جلسہ سالانہ انگلستان پر امامِ وقت کے خطابات 11 ممالک میں براہِ راست سنے گئے۔ ان کا سات زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔

جولائی 1992:  جلسہ سالانہ انگلستان براہِ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔

10۔ 21 اگست 1992:  حضور کے خطباتِ جمعہ سیٹیلائٹ کے ذریعے یورپ، ایشیا، افریقہ اور آسٹریلیا چار برِّ اعظموں میں نشر ہونا شروع ہو گئے۔

11۔ 7 جنوری 1994:  باقاعدہ مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کی روزانہ سروس کا آغاز ہوا اور یورپ میں تین گھنٹے روزانہ اور ایشیا اور افریقہ میں بارہ گھنٹے کے پروگرام نشر ہونا شروع ہوئے۔

12۔ یکم اپریل 1996:  MTA کی 24 گھنٹے کی روزانہ سروس کا آغاز۔