قابل غور ۔ کتب و رسائل اور اخبارات سے چند اقتباسات

عبدالسمیع خان

اتحاد کی ادائیں

پنجاب کے گورنر شاہد حامد نے ایک انٹرویو کے دوران شیعہ سنی اتحاد کے لئے اپنی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے دونوں فرقوں سے مل کر انہیں سمجھایا کہ اپنے اپنے خیالات پر قائم رہیں مگر ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ دو مرتبہ ہم نے Code of Conduct بنایا۔ اس کے بعد یہ واقعہ بیان کرتے ہیں:

’’یہاں ایک سپاہ صحابہ کے رہنما عطا ء الحق صاحب آئے تھے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے Code of Conduct پر دستخط کئے ہیں اب آپ اپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں اوراس پر عمل کریں گے ۔کہنے لگے عمل کریں گے اور ہم اس کے پابند بھی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سلسلے میں اور بھی پیش رفت ہوتی ہے اگر ہم پریس کو بلا لیں تو کیا سب اعلان کردیں گے کہ ہم سب ایک امت ہیں اور سب مسلمان ہیں ۔وہ میری طرف دیکھنے لگے اور پھر انہوں نے کہا کہ:

’’ آپ اپنی طرف سے اعلان کر دیں ۔ میری طرف سے صرف یہ اعلان ہوگا کہ شیعہ حضرات کو قتل نہیں کرنا چاہئے‘‘۔(ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور۔ نومبر ۹۷ء صفحہ ۳۰،۳۱)

مودودی کا چھوٹا بھائی

عطاء اللہ شاہ بخاری رئیس احرار کے سوانح نگار لکھتے ہیں:

’’مودودی جماعت کی اکثر تحریریں آئین اسلام سے انحراف کرتی ہیں ۔ اسی طرح کی ایک تحریر ’’خطبات مودودی‘‘ میں درج ہے جس سے توہین کعبہ کا پہلو نکلتا ہے۔ جب مولانا احمد علی صاحب لاہوری نے اس تحریر کا محاسبہ کیا تو اس جماعت کے کارکن بے قابو ہو کرجواب کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ اتفاق سے انہی دنوں حضرت امیر شریعت کا اردو اور فاررسی کلام کا مجموعہ ’’سواطع الالہام‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں ایک شعر تھا ؂

زکافِ کعبہ تا کافِ کراچیسراسر کفر و کفر دونَ کفر

اس شعر کی آمد کا پس منظر ۱۹۵۱ء کا وہ زمانہ ہے جب پاکستان کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے درمیان کھینچا تانی اور چپقلش کا سلسلہ جاری تھا۔ حضرت امیر شریعت نے اس غیر آئینی ہاتھا پائی کا ذکر احباب کی محفل میں کرتے ہوئے کہا:

’’ تم ایک پاکستان کو روتے ہو ، باقی مسلمان ممالک کا کیا حال ہے سب کے سب ایک دوسرے سے بدتر ہیں۔ کون سی جگہ ہے جہاں ملعون انگریز نے اپنا کام نہیں کیا۔ اس نے مسلمانوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور آج تو مکہ میں بھی یا امریکہ ہے یا برطانیہ ۔ بہرحال ملوکیت ہے اسلام وہاں بھی نہیں۔ اور میں تو بلاخوف کہتا ہوں کہ کعبہ سے کراچی تک ہر جگہ قانون کفر ہی مسلط ہے۔ کہلاتے تو سب مسلمان ہیں مگر کہیں انگریز کے ٹوڈی اور کہیں نمک حرامانِ محمد(ﷺ) ہیں کہ جس محسن انسانیت کی جوتیوں کے صدقے میں ان عیاشوں کو حکومتیں ملیں عین وقت پر اسی کو فراموش کر بیٹھے (اورپھر اپنے مخصوص جلال آمیز انداز میں مندرجہ بالا شعر پڑھا)۔ اور اس شعر کو خانیوال کے ایک نوزائیدہ وکیل جس کا مودودی جماعت سے تعلق تھا اپنے لیڈر کی تحریر کے جواب میں لکھ کر مولانا احمد علی صاحب کی خدمت میں بھیج دیا کہ مودودی پر تو آپ نے اعتراض کر دیا مگر اس شعر کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ خباثت یہ کی کہ یہ نہیں بتایاکہ یہ شعر کس کا ہے۔

اس تحریر کے جواب میں حضرت لاہوریؒ نے فرمایا کہ ’’یہ بھی کوئی مودودی کا چھوٹا بھائی ہے اور گمراہ ہے ‘‘ حضرت لاہوری کا یہ جواب اور اپنا سوال دونوں روزنامہ ’’کوہستان‘‘ لاہورمیں شائع کرا دئے۔(حیات امیر شریعت صفحہ ۴۲۰ ۔ جانباز مرزا ، ثنائی پریس لاہور۔ طبع اول نومبر ۱۹۶۹ء)

آج کے مسلمان

امیر اسلام ہاشمی کی نظم سے دو بند۔ ؂

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان

اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان

قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو

اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن

*

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن

قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن

سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن

ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآ ن کا مومن

(ماہنامہ حکایت لاہور۔ مارچ ۹۷ء صفحہ ۲۶)

فرشتے اترتے ہیں

حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م۱۲۳۹ھ، ۱۸۲۲ء) فرماتے ہیں کہ:

’’ میں جس زمانے میں دہلی کہنہ میں رہتاتھا کوچہ انبیاء میں ایک سید کے گھر ایک پوربی باندی رہتی تھی جو بالکل جاہلہ تھی اور نماز کی بھی پابند نہ تھی چونکہ وہ عمر رسیدہ ہو گئی تھی اور گھر کے تمام صاحبزادوں پراپنا حق رکھتی تھی۔ اس لئے و ہ لوگ اس کی بڑی خدمت اور دیکھ بھال کرتے تھے جب اس کا آخری وقت ہوا تو وہ ایک آواز پوربی لہجے میں بلند کرتی تھی جس کا مطلب ، مفہوم کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ حکماء و صلحاء کو بلا کر دریافت کیا گیا کچھ نہ معلوم ہوا۔ آخر میرے چچا شاہ اہل اللہ ؒ کے بلانے کی نوبت آئی۔ وہ تشریف لے گئے انہوں نے معلوم کر لیا کہ اس کی زبان سے لا تخافی لا تحزنی (اے عورت مت خوف کر مت غمگین ہو) نکل رہا ہے ، چچا صاحب نے اس کے تیمارداروں سے فرمایا کہ اس سے دریافت کرو کہ یہ الفاظ کس وجہ سے کہہ رہی ہے۔بڑی کوشش کے بعد اس نے جواب دیا کہ ایک جماعت (فرشتوں کی آئی ہوئی ہے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے ہیں جو میری زبان پر آگئے) ۔پھر آپ نے دریافت کرایا کہ کیا تو ان الفاظ کا مطلب سمجھ رہی ہے؟ اس نے کہا مجھے تو بس اتنا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ جماعت مجھے تسلی دے رہی ہے۔ پھر چچا صاحب نے فرمایا کہ اس سے دریافت کروکس عمل کی وجہ سے یہ تسلی دی جا رہی ہے ؟ اس نے کچھ دیر کے بعد کہا کہ یہ حضرات کہہ رہے ہیں کہ تیرے پاس اوراعمال خیر تونہیں ہیں ، البتہ توایک دن موسم گرما میں گھی لینے کے لئے بازار گئی تھی جب تو نے گھی لا کر گھر میں جوش دیا تو اس میں سے ایک روپیہ نکلا۔ اول توُ نے چاہا کہ اس روپے کو چپکے سے اپنے پاس رکھ لے ، اپنے کام میں لائے اس لئے کہ کسی کو اس راز کی خبر نہ تھی، پھر یہ خیال کر کے کہ حق تعالیٰ تودیکھ رہا ہے تو نے وہ روپیہ دکاندار کو لوٹا دیا ۔ تیرا یہ عمل اللہ کے یہاں پسند ہوا ، اسی کی وجہ سے ہم تجھ کو بشارت دے رہے ہیں‘‘۔(ماہنامہ دارالعلوم جلد ۸ شمارہ ۲ صفحہ ۴۰۔ بحوالہ جواہر پارے از مولانا نعیم الدین مکتبہ قاسمیہ اردو بازار لاہور صفحہ ۱۵۶)

تجدید اسلام اورتجدید نکاح کریں

چوہدری اظہر شاہد فیصل آباد کا سوال:

’’ہمارے گھر کے قریب ایک آدمی فوت ہو گیا۔اس کی نماز جنازہ میں ہم سب لوگ شریک ہوئے اور پھر اپنے اپنے کام سے چلے گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ شخص قادیانی تھا اور اسے ربوہ میں دفن کرنے کے لئے لے گئے۔ کسی مولوی صاحب نے بتایا کہ جس جس آدمی نے اس نماز جنازہ میں شرکت کی ہے وہ اپنے نکاح دوبارہ پڑھوائیں تو معلوم یہ کرنا ہے کہ کیاہمیں بھی دوبارہ نکاح کروانا پڑے گا اورکیا نکاح پر نکاح جائز ہے؟

مفتی محمد حسام اللہ شریفی کا جواب بعنوان ’’کتاب و سنت کی روشنی میں‘‘ :’’ مذکورہ صورت میں احتیاط اسی میں ہے کہ تجدید اسلام اور تجدید نکاح کر لیا جائے اور یہ نکاح پر نکاح نہیں کہلاتا‘‘۔(ہفت روزہ اخبارجہاں، کراچی ، ۲۹؍ دسمبر ۱۹۹۷ء صفحہ ۵۶)

مسلمان دنیا بھر کا جو گناہ مرضی کر لیں اسلام اور نکاح قائم رہتاہے لیکن اگر کلمہ گو احمدی کا جنازہ نیک نیتی سے بھی پڑھ لیں تو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ یہ کونسی کتاب اللہ اور کونسی سنت کاحکم ہے ؟قابل غور بات ہے۔

شیعہ کہ سُنّی

ریاض الرحمان ساغر کے چند اشعار:

مزار قائد اعظم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

مرے اس ملک کے پرچم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

ہم اک دُوجے میں ہیں مدغم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

یہی نعرہ رہے ہر دم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

ہمارا پیار نہ ہو کم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

رہے اپنا سفر پیہم تُو شیعہ ہے کہ سنی ہے

(نوائے وقت لاہور، ۱۶؍ جنوری ۱۹۹۸ء صفحہ ۲)

مولوی کا حُلیہ

’مولوی‘ کے عنوان سے جوش ملیح آبادی کی نظم کے چند شعر:

ہوئی اک مولوی سے کل ملاقات

شبیہ قُبّہ و تصویر منبر

وہی ہونگے جو فردوس بریں میں

خدا کے فضل سے حوروں کے شوہر

جبیں کا داغ اک دبکی ہوئی رات

کمر کا گھیر اک سمٹا سمندر

بتوں کی چاہ میں ہم رشک مجنوں

خدا کے عشق میں وہ دیو پیکر

وضو کے فیض سے شاداب داڑھی

خدا کے خوف سے چہرہ گل تر

(مطبوعہ ہفت روزہ لاہور ،۱۰؍ جنوری ۱۹۹۸ء)

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مارچ، ۲۷؍مارچ ۱۹۹۸ء)