قبولیت دعا کے طریق

حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، المصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍جولائی ۱۹۱۶ء میں تشہد تعوذ و سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیتِ قرآنی کی تلاوت کی

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ  (البقرہ: ۱۸۷)

اور پھر فرمایا :

’’میں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھاکہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرناچاہتاہوں کہ انسان کو دعا کس رنگ اورکس طریق میں کرنی چاہئے جس کے نتیجے میں قبولیت کا وہ زیادہ امیدوار ہو ۔ اوروہ کیا شرائط ہونے چاہئیں جنکے مطابق کی ہوئی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول ہو جائے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ بادشاہ ہے اور ہم اس کی رعایا۔ کسی کی درخواست اور عرضی کوقبول کرنا بادشاہ کا اپنا کام ہے رعایا کانہ یہ فرض ہے نہ کام ہے اور نہ حق ہے کہ بادشاہ یاحاکم ضرور ہی اس کی درخواست کو قبول کرے ۔ اگر وہ ہر بات کو قبول کرے اور ضرور قبول کرے تو گویا وہ نوکر ہوا اور رعایا آقا۔ وہ خادم ہوا اور رعایا مخدوم۔ کیونکہ جوکسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبور ہوتاہے وہ آقا نہیں بلکہ خادم ہوتاہے۔ آقا خادم کی بات ماننے کے لئے مجبور نہیں ہوتا بلکہ مختار ہوتا ہے ۔ اس کے اختیار میں ہوتاہے کہ چاہے تو قبول کرے اس کے لئے وہ مجبور نہیں ہوتا۔ اور چاہے تو رد کر دے اس سے اس پر کوئی الزام نہیں آتا ۔ چونکہ خدا تعالیٰ نہ صر ف آقا ہے او ر ہم خادم بلکہ وہ مالک ہے اور ہم غلام۔ پھر وہ خالق ہے اور ہم مخلوق۔ تو جبکہ خادم اور آقا کا تعلق بھی ایسا نازک ہوتاہے کہ خادم کو کبھی یہ امید نہیں ہو سکتی کہ میرا آقا میری ہر ایک بات کو ضرور ہی مان لے گا تو ایک انسان کس طرح خیال کر سکتاہے کہ اس کی ہرایک بات خدا تعالیٰ کوقبول کر لینی چاہئے ۔ اگر کوئی خادم یہ دعویٰ کرتاہے کہ اس کی ہرایک بات اس کا آقا مان لیتاہے تو اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے ۔خادم کو ہمیشہ خدمت کے مقام پرکھڑارہنا چاہئے اور اپنے رویہ طریق اور خیالات کو اسی حد میں محدود رکھنا چاہئے جو اس کی خادمیت کے مناسب ہے، نہ کہ آقا بننا چاہئے ۔

خدا تعالیٰ ہر دعا قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں ہے

پس کسی کا یہ امید کرنا یا ایسا خیال کرنا کہ اگر میری تمام دعائیں خدا قبول کرے اور کسی کو ردّ نہ کرے تب خدا ،خدا ہو سکتاہے ورنہ نہیں اس طرح کی بات ہے کہ گویا نعوذباللہ وہ انسان خدا ہے اور خدا اس کا بندہ۔ یہ آقا ہے اور وہ خادم۔ یہ مالک ہے اور و ہ غلام۔ کیونکہ جوکسی کی ہر ایک بات ماننے کے لئے مجبور ہو تاہے وہ بندہ اور غلام ہوتاہے نہ کہ منوانے والا خادم اور غلام۔ تو یہ امید کرنا ہی باطل ہے کہ میری تمام کی تمام دعائیں قبول ہو جانی چاہئیں۔ یہ خیال کوئی جاہل سے جاہل اور نادان سے نادان انسان تو کرے ورنہ دانا نہیں کر سکتا۔ گو آج کل کے مسلمانوں میں سے بعض اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں ۔ بعض لوگ جو مجھے دعا کے لئے لکھتے ہیں انہیں جواب دیاجاتا ہے کہ انشاء اللہ دعا کی جائے گی ۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ابھی تک کام نہیں ہوا ، معلوم ہوتاہے آپ نے دعا نہیں کی،اب آپ ضرور دعا کریں۔ ہم لکھتے ہیں ہمارا کام دعا کرنا ہے و ہ کرتے ہیں۔ آگے کام کرنا خدا کے اختیار میں ہے اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ آپ نے یہ کیالکھ دیا۔ آپ تو جو چاہیں خدا سے منوا سکتے ہیں ۔ پس ہمارا یہ کام بھی کروا دیجئے۔ تواس قسم کے خیالات ہیں آج کل کے مسلمانوں کے جو اس جہالت کانتیجہ ہیں جو ان میں پھیلی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کسی کے بزرگ ہونے کے یہ معنی سمجھ رکھے ہیں کہ وہ نعوذباللہ خدا سے بھی بزرگ ہے، جو چاہے کروا سکتاہے۔ حالانکہ بزرگ کے اصل معنے یہ نہیں کہ وہ لوگوں میں سے بزرگ ہے جیسے کہتے ہیں کہ باپ کابزرگ بیٹا یعنی سب سے بڑابیٹا۔ اس کے یہ معنی نہیں ہواکرتے کہ وہ اپنے باپ سے بھی بزرگ ہے۔ بلکہ یہ کہ دوسرے بھائیوں سے بزرگ ہے۔ اسی طرح خدا کے بزرگ کے یہی معنے ہیں کہ اس کی مخلوق سے بزرگ ہے اور خدا اَوروں کی نسبت اس کی دعائیں زیادہ قبول کرتاہے جیسے گورنمنٹ کے اعلیٰ حکام ہوتے ہیں ان کی باتیں دوسروں کی نسبت بہت زیادہ مانی جاتی ہیں۔ مگر یہ نہیں ہوتا کہ گورنمنٹ ان کی سب کی باتیں مان لے۔ تویہ ایک باطل عقیدہ ہے جو پھیلاہواہے کہ خدا کو سب دعائیں قبول کرنی چاہئیں۔

پچھلے جمعہ کے خطبہ میں جومیں نے یہ کہا تھاکہ ایسے طریق بتاؤں گا جن سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس سے شاید کسی کے دل میں یہ بات آئی ہو کہ اگلے جمعہ میں کوئی ایسی ترکیب بتا دی جائے گی جس سے جو چاہیں گے خدا تعالیٰ سے منوا لیں گے اور اب یہ سن کر کہ خدا تعالیٰ ہر ایک دعا قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں ہے اور نہ ہی کسی عقل مند کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ ا س کی تمام دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ کوئی کہہ دے کہ پہاڑ کھودنے سے چوہا ہی نکلاہے یعنی جب کسی بڑی چیز کی امید ہو اور بہت چھوٹی چیزحاصل ہو تویہی کہا جاتاہے ۔ پس اگر کسی نے یہ خیال کیا تھا کہ اگلے جمعہ میں کوئی ایسا طریق بتا دیا جائے گا جس سے جو بات چاہیں گے خدا سے قبول کروا لیں گے تو وہ اپنے دل سے اس کو نکال دے کیونکہ یہ کفرہے او ر یہ بات نہ میرے ذہن میں آئی اور نہ ہی کسی ایسے انسان کے ذہن میں آ سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی عظمت ، جلال اور قدرت سے واقف ہے۔ میرا مدّعا تو یہ تھا کہ ایساطریق بتایا جائے جس سے نسبتاً خدا تعالیٰ زیادہ دعائیں قبول فرما لے۔ یہ ہرگز نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا گُر جانتاہوں یابتا سکتاہوں یا یہ کہ میرا عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان جو چاہے منوا سکتاہے۔

پس میں پہلے اس بات کو صاف کرنا چاہتاہوں کہ میں قطعاً کوئی ایسا گر نہیں جانتا کہ جس سے آقا خادم اور خادم آقا بن جائے ۔ خالق مخلوق ہو جائے اور مخلوق خالق ۔ مالک غلام قرار پا جائے اور غلام مالک۔ کیونکہ آقا ، آقاہی ہے اور غلام ، غلام۔ خدا تعالیٰ ازل سے آقا ہے ،خالق ہے ، مالک ہے ، رازق ہے اور ہمیشہ اسی طرح رہاہے ،اسی طرح رہے گا۔ انسان ہمیشہ سے خادم ، مخلوق اور مملوک رہاہے اوراس کی یہی حالت ہمیشہ رہے گی۔ حتی کہ جنت میں جب اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج پر ہوگا تو بھی یہی حالت ہوگی ۔ تواس قسم کاخیال کفر ہے اور میں ہر گز ہرگز اس کاقائل نہیں ۔ ہاں ایسے رنگ اور طریق ضرور ہیں کہ جن سے انسان اللہ تعالیٰ کوخوش کرکے جہاں تک آقا اور مالک ،خالق اور مخلوق ، مالک اور مملوک کا تعلق ہے اپنی بات منوا سکتاہے ۔جیسے ایک بچہ اپنے باپ سے اور شاگرد اپنے استاد سے منوالیتاہے مگر ایسا کوئی بچہ نہیں ہو سکتا جو باپ سے اپنی ہر بات منوا لے اور ایسا کوئی شاگرد نہیں ہو سکتا جو استاد سے جوچاہے منظور کروا لے ۔ کوئی جاہل اور نادان باپ یااستاد ہر ایک بات مان لے تو یہ ایک الگ بات ہے جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی پٹھان نے اپنے لڑکے کو پڑھانے کے لئے ایک استادرکھا تھا ۔ایک دن استادنے لڑکے کو سبق یاد نہ کرنے پر اسے سخت پیٹنا شروع کر دیا۔ لڑکا تلوار لے کر مارنے پرآمادہ ہوگیا۔ استاد بے چارہ جان بچانے کے لئے بھاگا، وہ اس کے پیچھے دوڑا۔ راستہ میں لڑکے کا باپ مل گیا ۔ استاد صاحب نے سمجھا کہ اب جان بچ جائے گی ۔ اس لئے اس کے پاس جا کر کہنے لگا دیکھئے آپ کا لڑکا مجھے قتل کرنا چاہتاہے، اس کو روکئے۔ اس نے کہا کہ بھاگو مت ٹھہر جاؤ ۔ میرے بیٹے کا یہ پہلا وار خالی نہ جانے پائے۔ تو کوئی بے وقوف ہی ایسا کرسکتاہے نہ کہ عقل مند۔ پس میں جو دعاؤں کے قبول ہونے کا طریق بتاؤں گاوہ ایسا ہی ہوگا کہ جس سے خدا زیادہ دعائیں قبول کر لے گا، نہ ایسا کہ ہر ایک دعاکو قبول کر لے گا۔

پہلا طریق جس سے دعائیں قبول ہوتیں اورکثرت سے خدا تعالیٰ سنتاہے وہ تو اس قسم کا ہے کہ ہر ایک انسان اسے اختیار نہیں کرسکتا ۔بلکہ خاص خاص انسان ہی اس پر چل سکتاہے کیونکہ وہ انسان کے کسب سے متعلق نہیں بلکہ اس کے رتبہ اور مرتبہ سے تعلق رکھتاہے۔ اس مرتبہ کا جو انسان ہوتاہے اس کی نسبت تو میں یہ بھی کہہ سکتاہوں کہ اس کی ہرایک دعاقبول ہو جاتی ہے ۔ ابھی میں نے اس بات سے انکار کیاتھا کہ انسان کی ہرایک دعا قبول نہیں ہوتی ۔ مگراب میں نے کہا ہے کہ اس مرتبہ کے انسان کی ہر ایک دعا قبول ہو جاتی ہے ان دونوں باتوں میں اختلاف پایاجاتاہے لیکن جب میں یہ بتاؤں گا کہ وہ مرتبہ کیاہے تو آپ لو گ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

میں نے اس مرتبہ اور مقام کا نام آلہ یعنی ہتھیار رکھاہواہے۔ جس کے ہاتھ میں ہتھیار ہو وہ اسے جہاں چلائے چلتاہے اوراگرو ہ ہتھیار ضرب نہ لگائے تو اسکا قصور نہیں ہوتابلکہ چلانے والے کاہوتا ہے۔ لیکن کوئی چلانے والا یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ کوئی ہتھیار چلائے اور وہ نہ چلے بلکہ وہ یہی چاہتاہے کہ میں جہاں بھی چلاؤں وہیں چلے۔ اسی طرح انسان پر ایک ایسا وقت آتاہے جبکہ وہ خدا کے ہاتھ میں بطور ہتھیار کے ہو جاتا ہے۔ وہ نہیں کھاتا جب تک کہ خدا اسے نہیں کھلاتا۔ وہ نہیں پیتا جب تک کہ خدا اسے نہیں پلاتا۔ وہ نہیں سنتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سناتا۔ وہ نہیں جاگتا جب تک کہ خدا اسے نہیں جگاتا ۔ وہ نہیں سوتا جب تک کہ خدا اسے نہیں سلاتا۔ غرضیکہ اس کی ہر حرکت اور ہر سکون اللہ تعالیٰ کے لئے اور اسی کے اختیار میں ہوتی ہے ۔ ایسا انسان جو دعا کرتاہے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اس کے کرنے کا حکم ہوتاہے اس لئے کرتاہے۔ اوراس کی دعا کا قبول کر لینا خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف نہیں ہے کیونکہ جودعا مانگی جاتی ہے وہ دراصل خدا ہی نے منگوائی ہوتی ہے۔ پس چونکہ مانگنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہوتاہے اور دینے والا بھی اللہ ہی ۔ اس لئے وہ ضرور قبول ہوجاتی ہے اور ممکن نہیں کہ قبول نہ ہو۔مثال کے طورپر دیکھئے ۔

ُُْْ جب کوئی حاکم اپنے ماتحت کام کرنے والوں کا معائنہ کرنے آتے ہیں تو ماتحت اپنی ضروریات کو ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مثلاً فرض کروایک ڈپٹی کمشنر تحصیل میں آیا۔ اور تحصیلدار نے اپنی ضروریات اس کے سامنے پیش کیں کہ فلاں چیز کی ضرورت ہے، فلاں سامان خریدنا ہے ، فلاں کام کرواناہے، وغیرہ وغیرہ۔ وہ ان میں سے کچھ مان لے گا اور کچھ ردّ کردے گا لیکن کبھی یہ بھی ہوتاہے کہ ڈپٹی کمشنر خود کوئی ضرورت دیکھتاہے اور کہتاہے کہ یہ چیز بھی ہونی چاہئے اسکے لئے تحصیلدار کو کہتاہے کہ اس چیزکی منظوری حاصل کرنے کے لئے رپورٹ کر دو۔ وہ رپورٹ کر دیتاہے۔ اب یہ کبھی نہ ہوگا کہ ڈپٹی کمشنر اس رپورٹ کو ردّ کر دے یا نامنظور کر دے کیونکہ اس کے متعلق وہ خود کہہ گیا تھا کہ کرو ۔اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی زبان پر خود دعا جار ی کرتاہے ۔ پس جب خود کرتاہے تو پھراسے ردّ نہیں کرتا۔ یہ اس بندے کے قرب اور درجہ کے اظہار کے لئے ہوتاہے اور اگروہ کوئی اور دعا کرنے لگے تو خدا تعالیٰ اس کے دل اور دماغ پر ایسا تصرف کر لیتاہے کہ اس کے منہ سے وہ کلمات ہی نہیں نکلتے جو وہ نکالنا چاہتاتھا بلکہ ایسے کلمات نکلتے ہیں جو قبول ہونے والے ہوتے ہیں ۔

تو ایسے انسانوں کے دعا کرنے کے دو طریق ہو تے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام یاکشف یاوحی یا رؤیا کے ذریعہ سے انہیں بتا دیا جاتاہے کہ یہ دعا مانگو۔

دوسرا یہ کہ اگر وہ کوئی ایسی دعا مانگنے کی نیت کرے جو قبول نہ ہونے والی ہو تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا تصرف ہوتاہے کہ ان کی نیت بالکل بدل جاتی اور یہ خواہش ہی بالکل جاتی رہتی ہے کہ دعاکرے۔ پھر جو الفاظ اور جو طریق اس دعا کے کرنے کے لئے اس کے مدّنظر ہوتاہے وہ بھو ل جاتا ہے اور زبان سے خدا کی طرف سے بنے بنائے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں جس سے خود بھی حیران رہ جاتاہے کہ میں کہنا کیاچاہتاتھا اورکہہ کیا رہاہوں۔ اس قسم کی دعا میں وسعت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ، اتنی کہ دو دو گھنٹے گزر جاتے ہیں مگر انسان سمجھتاہے کہ کوئی پانچ چھ منٹ ہوئے ہونگے۔ وقت گزرتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگتا کیونکہ وہ ایسا محو ہوتاہے کہ اس دنیا سے اس کا دل و دماغ بالکل کھنچ جاتاہے ۔ اور صرف خدا ہی خدا اسے نظر آتاہے۔

مگر یہ کوئی ایسا طریق نہیں ہے جس کے متعلق ہر ایک انسان کو کہہ دیا جائے کہ اس طرح کیا کرو۔ کیونکہ یہ مرتبہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا پانا کسی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ پس جبکہ یہ انسانی اختیار میں ہی نہیں تو اس پرعمل کرنا یا کر سکنے کے کیا معنے؟ اس لئے میں یہ طریق بھی نہیں بتاؤں گا بلکہ وہ بتاؤں گا جس میں بندے کااختیار اور تصرف ہو لیکن اس سے یہ نہیں ہوگا کہ ساری کی ساری دعائیں قبول ہو جاتی ہیں بلکہ یہ کہ زیادہ قبول ہوتی ہیں۔

خدا تعالیٰ اسی کی دعا قبول کرتا ہے جو اس کو راضی رکھتاہے

پس سب سے پہلا طریق جو میں بتانا چاہتاہوں وہ اسی آیت میں ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ

میرے بندے جب میری نسبت سوال کریں یعنی کہیں کہ خدا کس طرح دعا قبول کرتاہے تو کہو فَاِنّی قَریْب میں سب سے بہتر مدعا کو پورا کر سکتاہوں کیونکہ میری ایک صفت یہ بھی ہے کہ میں ہر ایک چیز کے قریب ہوں ۔دعا کرنے والے کے بھی اور جس مدعا کے لئے دعا کی جائے اس کے بھی۔

یہاں ایک سوال ہو سکتاتھااور وہ یہ کہ ہر ایک قریب ہونے والا تو فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ایک چپڑاسی بادشاہ کے دربار میں جاتاہے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتا کہ کسی کرسی پر بیٹھ سکے۔ اسی طرح چتر اٹھانے والا وزیر سے بھی زیادہ بادشاہ کے قریب بیٹھا ہوتاہے مگر کیا وہ وزیر کی کرسی پر بیٹھنے کی جرأت کر سکتاہے؟۔ہر گز نہیں ۔تو انسان کے خدا کے نزدیک ہونے سے یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا بھی قبول کر لے گا اور وہ اس وجہ سے فائدہ حاصل کر لے گا۔ اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے ایک ایسا گرُبتا یا ہے جس میں اس سوال کا جواب بھی آ جاتاہے اور جو عام طورپر فطرت انسانی میں کام کرتا نظر آتاہے اوروہ یہ کہ فَلیَستَجِیْبُوْا لِی تم میری ہر ایک بات مان لیاکرو۔ اور جو حکم ہم نے تمہارے لئے بھیجے ہیں ان پرعمل کرو۔ اور اپنے تمام حرکات و سکنات کو شریعت کے ماتحت لے آؤ تو پھر تمہاری دعا میں قبولیت بہت بڑھ جائے گی ۔کیوں؟۔ اس لئے کہ خادم کو انعام اس وقت ملاکرتاہے جبکہ آقا خوش ہوتاہے۔

اگر کوئی خادم اپنے آقا کوناراض کر کے مانگتاہے تو محروم رہتاہے اس طرح کبھی کسی کو انعام نہیں ملاکرتا کیونکہ ناراضگی کا وقت ایسا نہیں ہوتا جبکہ انعام و اکرام دیاجائے ۔ چھوٹے بچوں ہی کو دیکھ لو۔ انہیں کوئی سمجھ نہیں ہوتی لیکن اگر ماں باپ سے کچھ مانگنے آئیں اور انہیں غصہ میں دیکھیں تو چپکے ہو کر الگ بیٹھ جاتے ہیں لیکن جب خوشی میں دیکھتے ہیں توکہتے ہیں کہ یہ چیز لے دو وہ لے دو۔ تو بچے بھی سمجھتے ہیں کہ غصہ میں ہماری بات نہیں مانی جائے گی ۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کوئی بلا وجہ نہیں ہواکرتی ۔اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اس کے احکام کی خلاف ورزی کی جائے ۔ پس دعا میں قبولیت حاصل کرنے کا ایک رنگ یہ ہے کہ انسان اپنے اعما ل پر غورکرے کہ کوئی فعل اس سے شریعت کے خلاف تو نہیں ہوگیا۔ ہر ایک کام جو وہ کرے شریعت کے ماتحت کرے جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو اس کی دعا قبول ہو جائے گی۔ جس طرح ایک محنتی طالب علم جو اچھی طرح سبق یاد کر کے لاتاہو۔استاد کے نزدیک اس کی بات زیادہ مانی جاتی ہے بہ نسبت اس لڑکے کے جو یاد کر کے نہ لاتاہو۔ عام طور پر دیکھا جاتاہے کہ اگر طلباء نے چھٹی لینی ہو تو جو لڑکا لائق ہواسے استاد کے پاس بھیجتے ہیں تاکہ وہ چھٹی مانگے۔ اس کی ایک وجہ ہوتی ہے اور وہ یہ کہ طالب علم سمجھتے ہیں کہ اگرایسے لڑکوں نے چھٹی مانگی جو سکول کا کام اچھی طرح نہیں کرتے تو استاد کہے گا کہ پڑھائی سے بچنے کے لئے چھٹی لیتے ہیں۔اور اگر لائق لڑکے مانگیں گے تو پھرایسا خیال نہیں کیا جائے گا ۔چونکہ استاد پہلے بھی ان پر خوش ہوتاہے اس لئے رخصت دے دے گا۔ خدا تعالیٰ بھی اسی کی دعا قبول کرتاہے جو اس کوراضی رکھتاہے ۔ اس لئے فرمایا فَلیَستَجِیْبُوْا لِی میرے بندوں کو چاہئے کہ اگر وہ اپنی دعاؤں کو قبول کرواناچاہتے ہیں تو میری باتیں مان لیاکریں۔ اگر یہ میرے احکام کو قبول کر یں گے اور ان پر عمل کریں گے تو اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ ان کی دعائیں قبول ہو جائیں گی۔ خدا تعالیٰ نے اپنے آپ کو مومن کاولی قراردیاہے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایاکرتے تھے دوست اسے نہیں کہتے جو ہرایک بات مان لے بلکہ اسے کہتے ہیں جو کچھ مانے اور کچھ منوائے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو مومنوں کاولی فرماتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی باتیں بندہ کی میں مان لیتاہوں اور بہت سی اسے ماننی چاہئیں۔ خدا فرماتاہے کہ جومجھے پکارتاہے میں اس کی دعا قبول کرتاہوں۔ مگر اس کے قبول ہونے کا طریق یہ ہے کہ وہ بھی میری باتیں قبول کرے۔ وہ میرے احکام کو مانے پھر اسے جو تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آئیں گی ان کو میں دورکر وں گا۔ گویاخدا تعالیٰ ایک عہد کرتاہے کہ تم میری باتیں مانومیں تمہاری مانوں گا تو دعاکے قبول ہونے کا یہ پہلا گرُ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتا دیا ہے۔

خدا تعالیٰ بندہ کے یقین پردعا قبول کرتاہے

دوسرا گرُبھی اسی آیت میں ہے اور وہ یہ کہ فرمایا وَلیُومِنُوْا بِی۔ اگرمیرے بندے دعا قبول کروانا چاہتے ہیں تو اس کا دوسرا طریق یہ ہے کہ مجھ پر ایمان بھی لائیں۔ بظاہر معلوم ہوتاہے کہ یہ زائد الفاظ ہیں کیونکہ جوشخص اللہ تعالیٰ کی تمام باتیں مانے گا ضرور ہے کہ وہ ایمان بھی لائے گا اورجو ایمان نہیں لائے گا وہ مانے گا بھی نہیں۔ مثلاً جو نماز پڑھے گا ، روزے رکھے گا، زکوٰۃ دے گا، حج کرے گا وہ یونہی نہیں کریگا اور نہ ہی رسمی طورپر ۔ کیونکہ رسمی طور پر کرنے کی خدا تعالیٰ نے پہلے ہی نفی فرما دی ہے ۔کیونکہ پہلے یہ نہیں فرمایا کہ اگرتم شریعت کے حکموں پرعمل کرو گے تو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔ بلکہ لفظ ہی ایسارکھا ہے جوشریعت پرعمل کرنا بھی ظاہرکر دیتاہے اور رسم کے طور پر عمل کرنے کارد بھی کر دیتاہے۔ یعنی استجابت۔ اس کے معنے ہیں کہ ایک طرف سے آواز آئے اور دوسرا اس کو قبول کرکے اس پرعمل کرے۔ نہ یہ کہ کسی کے اپنے نفس میں رحم اور سخاوت ہے تو وہ بھی اس کامصداق ہوسکے اور نہ ہی رسمی یاعاد ت کے طور پر کوئی کام کرنااس میں داخل ہو سکتاہے کیونکہ خداتعالیٰ نے فرمایا کہ جو میری آواز سنے اور اس پرعمل کرے اس کی دعا قبول ہوگی۔ اس طرح ایک ناقص ایمان والا شخص جو رسمی طورپر شریعت کے احکام پرعمل کرتاہے ۔ یاایک دہریہ جو یونہی لوگوں کے ڈر سے نماز پڑھ لیتاہے داخل نہیں ہو سکتا ۔پھر سوال ہوتاہے کہ وَلیُومِنُوابِی کے فرمانے کا کیا مطلب ہوا۔ جب پہلے سے ہی یہ شرط موجود ہے کہ دعااس وقت قبول ہوتی ہے جبکہ استجابت ہو ۔ اور استجابت اس وقت ہوتی ہے جب ایما ن باللہ ہو۔ تو پھر ایمان لانے کے کیامعنی۔ استجابت جب ایمان لانے کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی تو پہلے ایمان ہونا چاہئے اور بعد میں استجابت۔ نہ کہ پہلے استجابت اور بعد میں ایمان۔ ا س صورت میں ایک ظاہر بین کو اختلاف نظر آتاہے لیکن یہ بات غلط ہے۔

یہاں خدا تعالیٰ پرایمان لانے سے اس کی شریعت پر ایمان لانامراد نہیں ہے بلکہ دعاکے قبول ہونے کا ایک اورگر بتایاہے جس کے نہ سمجھنے سے بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور ان کی دعائیں ردّ کی گئی ہیں۔ وہ گر یہ ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اس بات پرایمان بھی رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتاہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شریعت کے احکام پر بڑی پابندی سے عمل کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں خشیت اللہ بھی ہوتی ہے۔ بڑے خشوع و خضوع سے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دعاکہاں سنی جا سکتی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں ہماری دعا خدا کہاں سنتاہے ۔ اس قسم کا کوئی نہ کوئی خیال شیطان ان کے دل میں ڈا ل دیتاہے جس سے ان کی دعا میں قبولیت نہیں رہتی۔ اس نقص سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس بات پر بھی ایمان رکھو کہ جب تم ہمارے احکام پر اچھی طرح چلو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کر لوں گا۔ جب یہ یقین ہو توپھر دعا قبول ہوتی ہے ۔ لیکن اگر کوئی زبان سے دعا تو کرتاہے لیکن اسے یقین نہیں کہ خدا اس کی دعاکو قبول کرے گا تو کبھی اس کی دعا قبول نہ ہو سکے گی کیونکہ خدا تعالیٰ بندہ کے یقین پر دعا قبول کرتاہے ۔ اگر کسی کو یقین ہی نہ ہو تو لاکھ ماتھا رگڑے کیونکہ جس کو خدا پر امید نہیں ہوتی اس کی دعا وہ نہیں سنتا۔

فرماتاہے لاَ تَایئَسُوْا مِنْ رَّٖوْحِ اللّٰہِ (یوسف:۸۸) اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہو ۔اللہ کی رحمت سے کوئی ناشکرا انسان ہی ناامید ہوتاہے ورنہ جس نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اس قدر نشان دیکھے ہوں جن کو وہ گن بھی نہیں سکتا وہ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کر سکتا کہ میرا فلاں کام خدا نہیں کرے گا اور فلاں دعا قبول نہیں ہوگی۔ خواہ اس کی کیسی ہی خطرناک حالت ہو اور کیسی ہی مشکلات اور مصائب میں گھراہواہو پھر بھی وہ یہی سمجھتااوریقین رکھتاہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اشارہ سے بھی یہ سب کچھ دور ہو سکتاہے اور خدا ضرور دورکرے گا۔ اور اگر اسے دعا کرتے کرتے بیس سال بھی گزر جائیں توبھی یہی یقین رکھتاہے کہ میری دعا ضائع نہیں جائے گی ۔ اوراس وقت تک دعاکرنے سے باز نہیں رہتا جب تک کہ خدا تعالیٰ ہی منع نہ کردے کہ اب یہ دعا مت کرو۔ گو اس کی دعا قبول نہ ہو لیکن آخر کار خدا تعالیٰ کے کلام کا شرف تو حاصل ہو گیا کہ خدا نے فرمادیا کہ اب دعا نہ مانگو ۔ تو جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے اس وقت تک دعا کرنے سے نہیں رکنا چاہئے۔

تھک کر یا مایوس ہو کر دعا کرنا چھوڑ نہ دیں

دعا قبول نہ ہو تو بھی انسان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ دعا کرنا چھوڑ دے ۔ کیونکہ اگر اب قبول نہیں ہوئی تو پھر سہی ، پھرسہی ۔ دیکھو بعض اوقات جب بچہ ماں سے پیسہ مانگتاہے تو اسے نہیں بھی ملتا۔ لیکن اس کے باربار کے اصرار پر مل ہی جاتاہے اسی طرح انسان کو کرناچاہئے۔ اگر ایک دفعہ دعا قبول نہ ہو تو دوسری دفعہ سہی ، دوسری دفعہ نہ ہو تو تیسری دفعہ سہی۔ تیسری دفعہ نہ سہی تو چوتھی دفعہ سہی حتی کہ کبھی تو ہو ہی جائے گی۔ اس لئے مانگنے سے نہیں رکنا چاہئے ۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے تھے کہ دو قسم کے گدا گر ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو دروازے پر آکر مانگنے کے لئے آواز دیتے ہیں توکچھ لئے بغیر نہیں ٹلتے۔ ان کو نرگدا کہتے ہیں اوردوسرے وہ جو آ کر آواز دیتے ہیں اگر کوئی دینے سے انکار کردے تو اگلے دروازے پرچلے جاتے ہیں۔ ا ن کو خر گدا کہتے ہیں۔ آپ ؑ فرماتے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور خرگدا نہیں بننا چاہئے بلکہ نرگدا ہوناچاہئے اوراس وقت تک خداکی درگاہ سے نہیں ہٹنا چاہئے جب تک کچھ مل نہ چکے ۔ اس طرح کرنے سے اگر دعا قبول نہ بھی ہونی ہو تو خداتعالیٰ کسی اور ذریعہ سے یہ نفع پہنچا دیتاہے۔ پس دوسرا گر دعا کے قبول کروانے کا یہ ہے کہ انسان نرگدا بنے نہ کر خر گدا۔ اور سمجھ لے کہ کچھ لے کے ہی ہٹناہے خوا ہ پچاس سال ہی کیوں نہ دعا کرتا رہے یہی یقین رکھے کہ خدامیری دعا ضرور سنے گا۔ یہ خیال بھی اپنے دل میں نہ آنے دے کہ نہیں سنے گا۔ اگرچہ جس کام یا مقصد کے لئے وہ دعاکرتاہو وہ بظاہر ختم شدہ ہی کیوں نہ نظر آئے پھر بھی دعاکرتا ہی جائے ۔

کہتے ہیں ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے ۔ایک دن جبکہ وہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید آ کر پاس بیٹھ گیا ۔ اسوقت ان کو الہام ہوا جو اس مرید کو بھی سنائی دیا لیکن وہ ادب کی خاطر چپکا ہو رہا اور اس کے متعلق کچھ نہ کہا ۔ دوسرے دن پھر جب انہوں نے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہوا جسے اس مرید نے بھی سنا۔ اس دن بھی چپ رہا ۔تیسرے دن پھروہی الہام ہوا اس دن اس سے نہ رہاگیا اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسرا دن ہے کہ میں سنتاہوں ہر روزآپ کو خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا ۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے توپھر آپ کیوں کرتے ہیں۔ جانے دیں۔ انہوں نے کہا ، نادان ! توُ تو صرف تین دن خداکی طرف سے یہ الہام سن کر گھبرا گیاہے اور کہتاہے کہ جانے دو دعا ہی نہ کرو مگر مجھے تیس سال ہوئے ہیں یہی الہام سنتے لیکن میں نہیں گھبرایا ۔ اور نہ ناامید ہواہوں ۔خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اورمیرا کام دعا مانگنا۔ تو خواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کر رہاہوں۔ لکھاہے کہ دوسرے ہی دن الہام ہوا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جس قدردعائیں کی تھی ہم نے سب قبول کر لی ہیں۔ تو اللہ سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے ۔ ناامید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتاہے ۔ جو شخص ناامید ہوتاہے وہ سوچے کہ کون سی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پوری نہیں کی۔ کیسے کیسے فضل اور کیسے کیسے انعام ہوئے اور ہور ہے ہیں۔ پھر آئندہ ناامید ہونے کی کیا وجہ ہے؟

پس دعا مانگنے کا ایک طریق تو یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق کرے۔ کیوں؟۔ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ بھی اُسی بچے کی باتیں مانتے ہیں جو ان کی مانے اور پوری پوری فرمانبرداری کرے ۔ جو ان کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اس کی باتوں کی وہ بھی نہیں کرتے۔ پھر استاد اسی لڑکے کی بات مانتا ہے جو محنتی اور اچھی طرح سبق یاد کرنے والا ہو۔اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے فرمانبردار بندوں کی نافرمان بندوں سے زیادہ مانتاہے۔

پس تم اوّل تو اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق بناؤ اور دوسرے یہ کہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو بلکہ دعا کرتے وقت یہ پختہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعا ضرور سنے گا اور ضرور سنے گا اور اس وقت تک دعا کرتے رہو کہ خدا کی طرف سے یہ حکم نہ آ جائے کہ اب یہ دعا مت مانگو۔ لیکن جب تک خداتعالیٰ یہ کسی کو نہیں کہتا بلکہ یہ کہتاہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتاا س وقت تک ہر گز ہرگز باز نہ رہو۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتا گویا اشارۃً یہ کہنا ہے کہ اے میرے بندے تو مانگتا جا ، میں گو اس وقت قبول نہیں کرتا لیکن کسی وقت ضرور کر لوں گا ۔ورنہ اگر اس کہنے سے یہ مراد نہ ہوتی بلکہ دعا کرنے سے روکناہوتا تو خدا تعالیٰ یہ کہہ سکتا تھا کہ یہ دعا مت مانگ نہ یہ کہ میں نہیں مانوں گا ۔ پس جب تک کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہ ’’یہ دعا مت مانگ، اس کے مانگنے کی میں تمہیں اجاز ت نہیں دیتا‘‘ اس وقت تک نہیں رکنا چاہئے۔ اس طرح توان کو مطلع کیا جاتاہے جنہیں الہام اور کشف کارتبہ حاصل ہوتاہے۔ اور جنہیں یہ نہ ہو ان کو اس بات سے متنفر کر دیا جاتاہے جس کے متعلق وہ دعاکرتے ہیں۔

جن پر الہام اور وحی کا دروازہ کھلاہوتاہے ان کو تو خدا کہہ دیتاہے کہ ایسا مت کرو لیکن جن کے لئے نہیں ہوتا ان کے دل میں نفرت پیدا کردی جاتی ہے اس لئے وہ خود ہی اس دعا کے مانگنے سے باز رہ جاتے ہیں۔ اس کا نام مایوسی نہیں بلکہ ان کا یہ تو یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارا فلاں مقصد پورا کر سکتاہے اور ہمیں فلاں چیز دے سکتاہے ۔لیکن ہم خود ہی اسے نہیں لینا چاہتے ۔ پس اگر کسی کے دل میں دعا مانگتے ہوئے اس چیز سے نفرت پیدا ہو جائے تو اسے بھی دعا کرنا چھوڑ دینا چاہئے ورنہ نہیں رکنا چاہئے خواہ قبولیت میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے ۔ بعض دفعہ دعا کرتے کرتے کچھ ایسے سامان پیدا ہو جاتے ہیں کہ اگر دعا قبول ہو جائے تو اس سے شریعت کا کوئی حکم ٹوٹتا ہے اس سے بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ اس دعا سے باز رہنا چاہئے ۔ خدا تعالیٰ کے دعا کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے یعنی بجائے قول کے خدا تعالیٰ کا فعل سامنے آ جاتاہے اس لئے اس کے کرنے سے رک جانا چاہئے۔ تو دعا کرنے سے رکنے کے تین پہلو ہیں ۔

*۔۔۔ اول یہ کہ الہام یا کشف ہو جائے کہ یہ دعا مت کرو۔ یاہماری طرف سے اس کے کرنے کی اجازت نہیں۔

*۔۔۔ دوم یہ کہ جس مقصد کے حصول کے لئے دعا کی جائے اس سے نفرت پیدا ہو جائے ۔

*۔۔۔سوم یہ کہ جس بات کے لئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات کے ساتھ وابستہ ہو جائے ۔

اگر ان تینوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نہ ہو تو دعا کرنے سے کبھی نہیں رکنا چاہئے ۔ اور کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہ جو مانگنے کا موقعہ دیاہوا ہے اس میں مانگتا ہی جاؤں تا کہ یہ ضائع نہ جائے۔ جب کوئی اس طرح کرے گا تو ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی دعا یا تو قبول کرلے گا یا ان تینوں طریقوں میں سے کسی سے اسے روک دے گا ۔(ان تینوں کے علاوہ ابھی تک اور کوئی روک میری سمجھ میں نہیں آئی) لیکن اگر روک بھی دے تو کیا دعا مانگنے کا یہ تھوڑافائدہ اور نفع ہے کہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ و مخاطبہ کا شرف حاصل ہو گیا۔ اور خدا تعالیٰ نے اسے اس قابل سمجھا کہ مخاطب کرے۔

آج میں دعا کے قبول ہونے کے صر ف یہی دو طریق بتاتاہوں ۔ اور بھی ہیں مگر وقت تنگ ہو رہاہے ۔ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو اگلے جمعہ میں ان کو انشاء اللہ بیان کردوں گا۔

(الفضل ۲۹؍جولائی ۱۹۱۶؁ء ۔بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍ جنوری 1999ء تا 21 جنوری 1999ء)

قسط دوم

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍جولائی ۱۹۱۶؁ء میں تشہد تعوذ و سورۃ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیتِ قرآنی کی تلاوت کی

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ  (البقرہ: ۱۸۷)

اور پھر فرمایا :

’’بہت سی باتیں بظاہر ہلکی اور چھوٹی نظرآتی ہیں اور جن لوگوں نے ان کے فوائد سے محروم رہنا ہوتاہے وہ ان کو بے حقیقت اور معمولی سمجھ کر ان پر سے اندھوں کی طرح گزر جاتے ہیں ۔ لیکن ان پرعمل کرنے سے بہت بڑے اور اعلیٰ درجہ کے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ دیکھو سارے پڑھے لکھے آدمی خط لکھتے ہیں لیکن سب کاخط خوبصورت نہیں ہوتا ۔ لکھنے والی قلم ، سیاہی اور کاغذ ایک ہی طرح کا ہوتاہے ۔ پھرہاتھ بھی ایک ہی ایسا ہوتاہے۔ وہی پانچوں انگلیاں سب کی ہوتی ہیں جو ایک خوشنویس کی ہوتی ہیں۔ ایک ہی طرح کے گوشت ہڈیوں اور نسوں سے بنی ہوتی ہیں ۔ مگر جب ایک لکھتاہے توایسا خوبصورت کہ دیکھنے والے کی طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ دونوں خطوں میں بڑا فرق ہوتاہے اور دونوں کا اپنے اپنے رنگ میں بڑااثر پڑتاہے ۔میں نے دیکھا ہے اعلیٰ اور عمدہ خط کی طرف انسان کی طبیعت خود بخود کھنچتی ہے ۔ گو میرا اپنا خط کوئی ایسا اچھا نہیں ۔ لیکن میری ڈاک میں جو خط اچھے لکھے ہوتے ہیں ان کو میں پہلے پڑھتاہوں تا کہ آسانی سے پڑھ سکوں اور جو مشکل سے پڑھے جاتے ہیں ان کو بعد میں پڑھتا ہوں۔ تو خوبصورت خط کا ایک فوری اثر ہوتاہے۔ لیکن جانتے ہو خط کی خوبصورتی کہاں سے آتی ہے ۔ اگرکہو کہ ہاتھ سے تو ہاتھ تو سب کے ہوتے ہیں ۔ اگر کہو قلم سے تو قلم بھی تو سب کے پاس ہوتی ہے ۔ اگر کہو سیاہی سے تو سیاہی بھی تو ہر ایک رکھتاہے۔ اوراگر کہو کاغذسے تو کاغذ بھی ہر ایک کے پاس ہوتاہے۔ پھر وہ کیا چیزہے جس کی موجودگی دوسرے کے خط کو بدصورت اور بدنما بنا دیتی ہے۔ یہ دراصل ایک معمولی سی حرکت اور خفیف ساپیچ ہوتاہے اگر اس کے متعلق کوئی خوشنویس بتائے تو سننے والا حیران ہو کر کہہ دے گا کہ کیا اس ذرا سی حرکت کے نتیجہ میں ایسااعلیٰ نتیجہ ہو جاتاہے۔ لیکن دراصل بات تو یہی ہے کہ نہایت خفیف سی حرکت کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ بہت خوبصورت خط ہوتاہے اور اسی کی کمی سے بڑا بدصورت نظر آتاہے۔ اس حرکت کو جاننے والے بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے خوشنویس گزرے ہیں ۔ ہندوستان میں ایک خوشنویس تھا جب کوئی فقیر اس کے پاس مانگنے کے لئے آتا اور وہ اس پر مہربان ہوتا تواسے ایک حرف لکھ کے دے دیتا ۔ اس کا ایک حرف آسانی سے ایک روپیہ کو بک جاتا۔ جس طرح آجکل قطعے نمائش کے لئے لگائے جاتے ہیں اسی طرح اس کے ایک ایک حرف کو زینت کے طور پر لوگ لگاتے تھے لیکن اس میں کوئی نئی چیز نہیں تھی ۔ صرف ہاتھ کی حرکت ہی تھی جو اس کے خط کو خوبصورت کردیتی تھی ۔ اس کو اگر وہ بیان کرتا تو ہر ایک اس بات کونہیں سمجھ سکتاتھا کہ اتنی سی معمولی حرکت سے ایسا خوبصورت حرف کس طرح لکھا جاسکتاہے۔ لیکن خوبصورتی کا باعث وہی حرکت تھی۔

تمام پیشوں کا یہی حال ہے ۔ ایک ہی لکڑیاں چیرنے والا آرہ ۔ اور ایک ہی طرح کے سب آدمی ہوتے ہیں مگرایک کی بنائی ہوئی چیز ایسی عمدہ ہوتی ہے کہ انسان اُس کی طرف سے آنکھیں نہیں ہٹانا چاہتا۔ اور دوسرے کی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کر منہ پھیر لیتا ہے اورکہتاہے کہ اس نے تو لکڑی کو ہی خراب کر دیا ہے ۔ ان دونوں کی بنائی ہوئی چیزوں میں اتنا فرق پیدا کرنے والی بھی ایک حرکت ہی ہوتی ہے ۔ جسے اگر بیان کیا جائے تو سننے والا حیران رہ جائے کہ یہ اس بات کا موجب کس طرح ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کھانا پکانے والے ہیں ۔ ایک ایسااعلیٰ درجہ کاپکاتاہے کہ اگرانسان کوبھوک نہ بھی ہو تو بھی دیکھ کر اشتہاء پیدا ہوجاتی ہے۔ اورایک ایسا پکاتاہے کہ اگرسخت بھوک لگی ہوئی ہو تو بھی کھانا دیکھ کر بند ہو جاتی ہے ۔ اگر اس اچھا کھانا پکانے والے سے پوچھا جائے کہ تم نے کس طرح پکایا ہے تو یہ نہیں ہوگا کہ وہ ترکیبوں اور احتیاطوں کے کوئی دو تین صفحے لکھا دے گا بلکہ یہی کہے گا کہ جس طرح سب لوگ پکاتے ہیں اسی طرح میں نے بھی پکایاہے ۔ میں کوئی نئی ترکیب تونہیں جانتا ۔ یا اگر زیادہ کرے گا تو یہ کہہ دے گا کہ نمک مرچ اس طرح ڈالتاہوں ، مسالہ اس طرح بھونتاہوں، آگ اس قدر جلاتاہوں وغیرہ۔ ان باتوں کو سن کر پوچھنے والا سمجھے گا کہ یہ مجھ سے دھوکہ کر رہاہے اور اصل بات نہیں بتاتا۔ اس طرح تو میں پہلے ہی کرتاہوں لیکن اصل اور درست بات وہی ہوتی ہے جو وہ بتا رہا ہوتاہے ۔ یہی حال عمارت بنانے والوں کاہے ۔ یہی علم پڑھانے والوں کاہے ۔ ایک مدرس کی بات بہت کم طالبعلم سمجھتے ہیں ۔ لیکن دوسرے کی ہر ایک سمجھ جاتا ہے ۔ اس کو بیان کرنے کی ایک معمولی مشق ہوتی ہے اسے اگر وہ بیان کرے تولوگ بہت معمولی سمجھیں۔ اسی طرح اورکئی باتوں کو معمولی سمجھا جاتاہے۔ لیکن یہی معمولی باتیں بہت بڑے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا ۔ آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اس کاایک ہی لڑکاتھا ۔ وہ لڑائی پر جانے لگا تو اس نے اپنی ماں کوکہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیزبتائیں جو میں اگر واپس آؤں توتحفہ کے طور پر آپ کے لئے لیتاآؤں۔ اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہوجائیں۔ ماں نے کہا اگر توُ سلامت آ جائے تویہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے۔ لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتائیں۔ ماں نے کہا اچھااگر تم میرے لئے کچھ لانا چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکو لے آنا۔ میں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں۔ اس نے اس کو بہت معمولی بات سمجھ کر کہا کہ کچھ اور بتائیں ۔ لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سب سے زیادہ خوش کر سکتی ہے ۔ خیر وہ چلا گیا ۔ جب وہ روٹی پکاتا تو جان بوجھ کر اسے جلاتا۔ تا جلے ہوئے ٹکڑے زیادہ جمع ہوں۔ روٹی کا اچھا حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا۔ کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تو اس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دئے ۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا ۔ اماں ! میں نے آپ کے کہنے پرعمل تو کیا ہے مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ کیابات تھی ۔ ماں نے کہا اس وقت جب تم گئے تھے اس کا بتانا نامناسب تھا اب میں بتاتی ہوں اوروہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھاناکھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں۔ میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کے لئے اس لئے کہا تھاکہ تم ان ٹکڑوں کے لئے روٹی کو ایسا پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے گی ۔ جلی ہوئی کو رکھ دو گے اور باقی تم کھا لوگے۔ اس سے تمہاری صحت بہت اچھی رہے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

یہ کیا چھوٹی سی بات تھی لیکن درحقیقت اس کے بچے کو بچانے کا موجب ہو گئی ۔ سپاہی چونکہ جلدی جلدی کھانا پکا کر کھاتے ہیں اور اس طرح اکثر کچا رہ جاتاہے اس لئے انہیں پیچش اور محرقہ وغیرہ امراض اکثر لاحق رہتی ہیں۔ اس کی ماں نے ایسی بات بتائی جو بظاہر تو معمولی تھی مگر جب اس نے اس پرعمل کیا تو بہت بڑا فائدہ اٹھایا یعنی اس سے اس کی صحت سلامت رہی۔

یہ میں نے تمہید کیوں بیان کی ہے اس لئے کہ جو کچھ میں نے پچھلے جمعہ کو بیان کیا تھا اور جو آج کرنے لگاہوں وہ بظاہر سننے میں بہت معمولی معلوم ہواہوگا ۔ اگر وہ ایسا ہی معمولی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خوبصورت لکھنے والے ، عمدہ اشیاء بنانے والے ، اعلیٰ کھانا پکانے والے کے ہاتھ کی حرکت ہے۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں وہ کوئی خاص گُر جانتے ہیں حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس بھی وہی گُر ہوتاہے مگر وہ استعمال نہیں کرتے ۔ اس لئے ان کی دعائیں ردّ کی جاتی ہیں۔ اور جو استعمال کرتے ہیں ان کی قبول کی جاتی ہیں۔ پس تم لوگ ان کو معمولی نہ سمجھو وہ گو معمولی نظر آتی ہیں مگر نتائج اعلیٰ رکھتی ہیں ۔ جب تم ان باتوں کو سنو گے جو اَب میں سنانا چاہتاہوں توکہو گے کہ یہ معمولی باتیں ہیں ان کو ہم بھی جانتے ہیں مگر جاننا اور بات ہے اور عمل کرنا اور بات ۔ غیراحمدی کہا کرتے ہیں کہ مرز ا صاحب مسیح موعود ہوکر کیا آئے جس دن سے آئے ہیں اسی دن سے لوگوں پرہلاکت اور تباہی آ رہی ہے۔ ہم کہتے ہیں ان کا آنا ہلاکت اور تباہی سے نہیں بچا سکتا بلکہ اُن کا ماننا بچاتاہے۔ پس ہمیں یہ بتایاجائے کہ کتنوں نے آپ ؑ کو مانا ہے ۔ جب آ پ کو مانتے نہیں تو پھر تباہیوں سے کس طرح بچیں ۔تو کسی بات کا جاننا یا زبانی ماننا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ اس پرعمل نہ کیا جائے ۔

گزشتہ جمعہ میں میں نے دعا کے قبول ہونے کے لئے دو باتیں بتائی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ انسان اپنے اعمال میں پاکیزگی پیدا کرے اور خدا تعالیٰ کے ہر ایک حکم کو بجا لائے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جس سے انسان خوش ہوتا ہے اس کو انعام دیتاہے اسی طرح جس پرخد اتعالیٰ خوش ہوتاہے اسی پرانعام کرتاہے۔ اس طریق کو سن کر بعض لوگ کہہ دیں گے کہ یہ تو ایک بڑی بات ہے ہمیں پہلے اپنے اعمال کی درستی کے لئے ہی دعاکی ضرورت ہے کیونکہ دعا تو تب قبول ہوگی جبکہ اعمال درست ہونگے۔ اور اعما ل اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک کہ خداتعا لیٰ ہماری دستگیر ی نہ کرے اس لئے کوئی ایسی بات بتاؤجس پر عمل کرنے سے ہمارے جیسے کمزور ایمان اور کمزور اعما ل والے انسانوں کی دعائیں بھی قبولیت کا شرف حاصل کر سکیں۔ کیونکہ ہم کو بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ضرورت ہے تا کہ ہمارے اعمال دعا کے ذریعہ درست اور مضبوط ہوں اور ہمیں کامل ایمان حاصل کرنے کی توفیق ملے ۔ اس کے لئے میں آج چند ایسی باتیں بھی بیان کرتاہوں جن کو ہر ابتدائی حالت والا انسا ن عمل میں لا سکتاہے اور گو وہ معمولی نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت بہت بڑی ہیں اور ان سے بڑے بڑے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بات تو وہ ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے بتائی تھی کہ انسان دعا کرتے ہوئے اس بات پرکامل ایمان رکھے کہ میں خدا کے حضور سے کبھی ناامید نہیں ہوں گا اور کبھی تہی دست نہیں پھروں گا۔ لیکن اگر کوئی انسان دعا توکرتاہے مگر اس کادل کہتاہے کہ تیری دعا قبول نہیں ہوگی تو واقعہ میں اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس لئے ہر ایک انسان اس یقین سے دعا مانگے کہ خدا تعالیٰ ضرور سنے گا اور قبول کرے گا۔

خدا کے بندوں کے دکھ دور کریں

دوسری بات یہ ہے کہ ہم انسانوں میں دیکھتے ہیں کہ ان کے جو پیارے ہوتے ہیں ان سے جو نیک سلوک کرتاہے وہ بھی ان کی نظروں میں پیارا معلوم دینے لگ جاتاہے ۔ مثلاً اگر کوئی ایک بچے کو ہلاکت سے بچائے تو اس بچے کے ماں باپ اس کے شکرگزار ہونگے اوراسے یہ نہیں کہیں گے کہ تو نے بچے کو بچایا ہے نہ کہ ہم کو کہ ہم تیرے مشکورہوں۔ تویہ محبت کا تقاضا ہے کہ جو چیز کسی کی محبوب ہوتی ہے تو جب اس کو کوئی فائدہ پہنچائے یا اس کی نسبت کوئی اچھی بات کہے تو محب کے دل میں اس کی بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔

یہی گرُ دعا میں بھی انسان استعما ل کر سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے بہت زیادہ محبت انسانوں سے ہوتی ہے جو بندوں کو بندوں سے ہوتی ہے۔ کیوں؟۔ اس لئے کہ محبت کی بنیاد تعلق پرہوتی ہے ۔ چونکہ بندوں کا ایک دوسرے کے ساتھ ابتداء کے لحاظ سے بھی اور انتہا کے لحاظ سے بھی عارضی تعلق ہوتاہے اس لئے ان کی محبت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو پھر بھی خدا کی محبت سے مقابلہ نہیں کر سکتی ۔کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت دائمی اورہمیشہ کے لئے ہے ۔ ایک جنگ میں آنحضرت ﷺ تشریف رکھتے تھے ۔ کفار کو شکست ہو چکی تھی ۔ صحابہ قیدیوں کو ، مال اسباب کو جمع کر رہے تھے ۔ پکڑ دھکڑ شروع تھی کہ ایک عورت بھاگی بھاگی پھرتی نظر آئی۔وہ جس بچہ کو دیکھتی اسے پکڑ کر پیار کرتی اور پھر دیوانہ وار آگے چل پڑتی۔ اسی طرح چلتے چلتے اسے اپنا بچہ مل گیا جسے اس نے پکڑ کر چھاتی سے لگا لیا اور آرام سے بیٹھ گئی۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کیاتم نے اس عورت کو دیکھااپنے بچہ کی محبت سے کس طرح بیتاب ہو رہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت اور پیار ہے۔ تو خدا تعالیٰ کی محبت انسانوں کی محبت سے بہت زیادہ ہے۔ پس جس طرح اگرکوئی کسی انسان سے محبت کرتاہے تو اس کے مُحِبّ کے دل میں اس کی بھی محبت اورالفت پیداہو جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بندوں پراگر کوئی احسان ،مروت اور رحم کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پررحم کرتاہے۔ تو دعاؤں کی قبولیت کاایک طریق یہ بھی ہے۔ کہ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو اور اس کے لئے دعا کرنی ہو تو اس وقت کسی ایسے انسان کے جو کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں ہو دکھ کو دور کر دیا جائے یا دور کرنے کی کوشش کی جائے۔جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے کسی بندے سے ایسا سلوک کرے گا تو اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ اس کے دکھ کو دور کر دے گا کیونکہ اس نے اس کے ایک بندہ کا دکھ دور کیاتھا، یہ بہت اعلیٰ طریق ہے۔ دعا کرنے سے پہلے کوئی ایسا شخص تلاش کرنا چاہئے جو کسی مصیبت اور تکلیف میں ہو خواہ و ہ تکلیف جانی ہو یا مالی ، عزت کی ہو یا آبرو کی ، کسی قسم کی ہو ۔ تم کوشش کرو کہ دور ہو جائے آگے دور ہو یانہ ہو اس کے تم ذمہ دار نہیں ہو ۔ تم اپنی ہمت اور کوشش کے مطابق زور لگادو۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور جاؤ اور جا کر اپنے مدعا کے لئے دعاکرو۔ اس طریق کی دعا بہت حد تک قبول ہوجائے گی۔ تم خدا تعالیٰ کے کسی بندے کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے جس قدر توجہ کرو گے خدا تعالیٰ تمہاری تکلیف دورکرنے کے لئے اس سے بہت زیادہ توجہ فرمائے گا۔ اور کیا سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کی توجہ بھی بے نتیجہ ہو سکتی ہے؟۔ ہرگز نہیں ۔ ممکن ہے کہ تم جس انسان کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرو اس میں تمہیں کامیابی نہ ہو کیونکہ تم بندے ہو اور کسی بندے کے اختیار میں نہیں کہ جو کچھ کرنا چاہئے اس میں کامیاب بھی ہو جائے ۔ لیکن خدا تعالیٰ کی وہ ذات ہے کہ وہ جس بات کوکرنا چاہے وہ ضرور ہی ہو جاتی ہے ۔ اس لئے تم کبھی یہ خیال مت کرنا کہ چونکہ تمہاری کوشش کامیاب نہیں ہوئی اس لئے خدا تعالیٰ بھی تمہاری دعا قبول نہیں کر ے گا ۔ کیونکہ جب خدا تعالیٰ تمہارا کام کرنے کاارادہ کرے گا تو وہ ضرور ہو جائے گا ۔وہ ہر چیز کا خالق اور مالک ہے ۔ جس طرح چاہتاہے ان سے کام لے لیتا ہے۔ پس تم اس طریق کو ضرور استعمال کرو ۔اس کے علاوہ :

آنحضرتؐ پرکثرت سے درود بھیجیں

تیسرا طریق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس درجہ کو نہ پہنچے ہوں کہ خدا تعالیٰ خود انہیں دعائیں سکھائے اور بتائے کہ یہ دعاکرو اور یہ نہ کرو وہ دعا کرنے سے پہلے کثرت سے آنحضرتﷺ پردرود بھیجیں۔ آنحضرتﷺ وہ انسان ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور تمام بنی نوع انسان سے زیادہ مقبول ہیں۔خواہ و ہ آپؐ سے پہلے گزرے یابعد میں آئے یا آئندہ آئیں گے۔ ہر ایک انسان کی نظر میں اس کا استاد یا اس کے خاندان کا بزرگ بڑا ہوتاہے۔کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کے مر نے پر بڑا واویلا مچا ہوا تھا۔ پاس سے ایک چوہڑا گزر رہا تھا ۔ اس نے کسی کو کہا اتنی بڑی کیا آفت آ گئی ہے کہ سارا شہر پاگل بنا ہوا ہے ۔ اس نے کہا مہاراجہ رنجیت سنگھ مر گیا ہے ۔ یہ سن کر وہ ایک ٹھنڈا سانس کھینچ کر کہنے لگا باپوجی جیسے مر گئے تو رنجیت سنگھ کون تھا جو نہ مرتا۔ گویااس کے نزدیک باپو جی اتنی حیثیت رکھتے تھے کہ رنجیت سنگھ جو اپنے وقت کا بادشاہ تھا کچھ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ اس کے د ل میں وہی جذبہ کام کر رہا تھا جو اپنے بزرگوں کی محبت اور الفت کاہر ایک انسان میں ہوتاہے ۔ مذاہب میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔ دیکھو باوجوداس کے کہ حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰ ؑ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے مگر اس محبت اور الفت نے جو اپنے استاد یا بزرگ سے ہوتی ہے عیسائیوں کو ایسا مجبور کیا کہ انہوں نے ان کو حضرت موسیٰؑ سے بہت زیادہ بڑھا دیا ۔ تو میں نے جو یہ کہا ہے کہ رسول کریم ﷺ اپنے سے پہلے آنے والوں اور اپنے سے بعد میں آنے والوں میں سے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ شان رکھنے والے ہیں۔اُن میں میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو بھی شامل کرلیاہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے موجودہ درجہ میں ہوں یا اس سے بھی بڑے درجہ میں تو بھی آپ آنحضرت ﷺ کے خادم اور غلام ہی کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ آپ کاقرب اور درجہ آنحضرت ﷺ ہی کے طفیل ہے اور آپ ؐ ہی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔

میں نے بتایا ہے کہ حقیقی محبت استثناء کرتی ہے یعنی جس سے تعلق ہو اس کو دوسروں سے بڑھ کر دکھاتی ہے۔ مگر ہم کو جس انسان سے اس زمانہ میں نورملا ہے ہم اس کو مستثنٰی نہیں کرتے اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ سب انسانوں کی نسبت آنحضرت ﷺ کا مقام اعلیٰ و ارفع ہے اور آپ ؐایک ایسے مقام پر ہیں کہ گویا سب سے علیحدہ ہو کر ایک اکیلے نظر آ جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ توحید کے ساتھ آپؐ کانام بھی رکھ دیا ہے۔ ایسے انسان کی نسبت جو درود بھیج کر خدا تعالیٰ سے برکات چاہے خدا تعالیٰ کی رحمت جو ش میں آ کر اس پر فضل کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے۔ (وقت کی کمی کی وجہ سے میں یہ نہیں بیان کر سکتا کہ جو طریق میں بیان کر رہا ہوں ان کو میں نے کس آیت اور کس حدیث سے استدلال کیا ہے مگر اتنا بتا دیتاہوں کہ یہ سب باتیں قرآن کریم اور احادیث سے لی گئی ہیں) تو دعا کے قبول ہونے کے ساتھ درود کا بڑا تعلق ہے۔ وہ انسان جوآنحضرتﷺ پر درود بھیج کر دعا کرتا ہے اس کی ہر ایک ایسے انسان سے بڑھ کر دعا قبول ہوتی ہے جو بغیر درود کے کر ے۔

انعام دینے کا یہ بھی ایک طریق اور رنگ ہوتاہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اوروسیلہ سے دیا جائے ۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑارتبہ عطا کرنے کے لئے اس طریق سے بھی کام لیاہے کہ جو لوگ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے ان کی دعائیں زیادہ قبول ہونگی۔ دنیا میں کونساانسان ہے جسے خدا تعالیٰ کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک کوہے ۔ اسلئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دورہونے اور حاجت کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا۔ اورجب دعا کرے گا تو اگرچہ وہ پہلے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا جو آنحضرت ﷺ کی ترقی درجات کاموجب ہوگا اورا س طرح اسے بھی انعام مل جائے گا ۔ غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر پھردعا کی جائے اور یہ کو ئی ناروا بات نہیں۔ یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتاہے وہ بھی مُحِبّ کامحبوب ہو جاتا ہے۔

کثرت سے خدا تعالیٰ کی حمد کریں

چوتھا گُر یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرے ۔ یہ بھی ایک عام طریق ہے جو اسلام کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتاہے اور فطرت انسانی میں بھی پایا جاتاہے۔ دیکھو فقراء جب کچھ مانگنے آتے ہیں تو جس سے مانگتے ہیں اس کی بڑ ی تعریف کرتے ہیں ۔ کبھی اسے بادشاہ بناتے ہیں ، کبھی اس کی بلند شان ظاہرکرتے ہیں ،کبھی کوئی اور تعریفی کلمات کہتے ہیں ۔ حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اس میں وہ کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔ مگرمانگنے والا اس طرح کرتا ضرورہے۔ اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بڑامحتاج اور سخت حاجتمند بھی ظاہر کرتاہے کیونکہ سمجھتاہے کہ اس طرح کرنے سے میں اپنے مخاطب کو رحم اوربخشش کی طرف متوجہ کر لوں گا اور اللہ تعالیٰ کی تو جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوتی ہے۔ کیونکہ وہی سب خوبیاں اپنے اندررکھتا ہے اور اسی لئے دوسرے لوگوں کی جو تعریف ہوتی ہے وہ سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ سب سچی ہی ہوتی ہے ۔ اسلئے جب کبھی دعا کی ضرورت ہو تو دعاکرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کرلینی چاہئے۔ چنانچہ سورۃ فاتحہ سے ہمیں یہ نکتہ معلوم ہوتاہے ۔ سورۂ فاتحہ وہ سب سے بڑی دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے او ر ہر روز کئی بار پڑھی جاتی ہے۔ اس میں پہلے خدا نے یہی رکھا ہے کہ

اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِیْنَ ۔ اَلرٖحمٰنِ الرٖحِیْمِ مٰلِکِ یَومِ الدّیْن ۔ اِیٖاکَ نَعْبُدُ وَاِیٖاکَ نَسْتَعِیْن ۔اِھْدِنَاالصّراطَ المُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الٖذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیھِم وَلاَالضٖالّیْن فرمایاہے۔اس میں یہی گُر سکھایا گیاہے کہ جب کوئی دعا کرنے لگو تو پہلے کثرت سے خدا تعالیٰ کی حمد کر لو۔ (حمد تمام خوبیوں اور پاکیزیوں کے جمع ہونے اور سب نقصوں اور کمزوریوں سے منزہ سمجھنے کانام ہے ۔ اس لئے تسبیح بھی اس میں شامل ہے اور یہ بھی ایک قسم کی حمد ہوتی ہے )۔ خدا تعالیٰ کی حمد کر کے دعا کرنے سے بہت زیادہ دعا قبول ہوتی ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کرے، اس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرے اور اس کی تعریف بیان کرے اس طرح دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ چونکہ بندہ خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ خدا جو رحمن اوررحیم ، مالک ، خالق، قادر ہے اورجس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آ سکتی۔ اس کی دعا کو قبول کر لیتاہے۔ جب ایک انسان کسی انسان کے سامنے اپنے آپ کو محتاج پیش کرتا اور اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے تو اسے رحم آجاتاہے اور وہ اس کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور جب کوئی انسان اپنی حالتِ زار کو پیش کرے اور اس کی حمد و تعریف بیان کرے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی دعا کو ردّ کر دے ۔ پس جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کر کے کچھ مانگتاہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ محتاج بندہ جوکچھ مانگتاہے وہ اسے دیاجائے ۔ جس طرح آنحضرت ﷺ پردرود بھیجنے سے خداتعالیٰ کی محبت جوش میں آتی ہے اسی طرح حمد کرنے سے اس کی غیرت جو ش میں آ تی ہے ۔ درود پڑھنے سے تو خدا تعالیٰ یہ کہتاہے کہ یہ بندہ چونکہ ہمارے پیارے بندہ کے لئے دعا کرتاہے کہ اس پر فضل کیا جائے اس لئے میں اس پر بھی فضل کرتاہوں اور حمد کرنے کے وقت کہتاہے کہ یہ میرا بندہ جو میری صفات بیان کر رہا ہے میں اس پراپنی صفات ظاہر بھی کر دیتاہوں تا اس کو عملی طور پر معلوم ہو جائے کہ جوکچھ وہ میرے متعلق کہتاہے وہ سب درست ہے ۔ تو حمد خدا تعالیٰ کی سب صفات کو جوش میں لے آتی ہے اور سب صفات جمع ہو کر ایک طرف جھک جاتی ہیں تا کہ اس بندہ کا کام کر دیں۔

دعا سے پہلےاپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کریں

اس کے علاوہ دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دعاکرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو۔ گو ہر ایک دعا کرنے والا نہیں سمجھتا اور نہ محسو س کرتاہے مگر جو محسوس کرتے یا کر سکتے ہیں ان کا تجربہ ہے کہ جب انسان دعا کرتاہے تو اسے خدا تعالیٰ کا ایک قرب حاصل ہو جاتاہے اور اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور کھنچی جاتی ہے گو دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ خدا نظر آ رہا ہے مگر جس طرح خواب میں روح کوجسم سے آزاد کر دیا جاتاہے اسی طرح اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے روح الگ کی جاتی ہے ۔ چونکہ روح کی صفائی جسم کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے اورروح کی ناپاکی جسم کی ناپاکی سے ۔اس لئے اگر جسم ناپاک ہو تو روح پر بھی اس کا نا پاک ہی اثر پڑتاہے اور اگر جسم پاک ہو تو روح پر بھی اس کا پاک ہی اثر پڑتاہے ۔ ایک واقعہ لکھا ہے واللہ اعلم کہاں تک درست ہے،مگر ہے نتیجہ خیز۔ لکھا ہے کہ کسی شہزاد ی نے ایک معمولی شخص سے شادی کر لی ۔ جب وہ دونوں خلوت میں جمع ہوئے تو چونکہ مرد نے کھانا کھا کر ہاتھ نہ دھوئے تھے اس لئے ہاتھوں کی بوُ سے اسے اتنی تکلیف ہوئی کہ اس نے کہا کہ اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ چنانچہ اس کے ہاتھ کاٹ دئے گئے ۔ گوخدا تعالیٰ پرکسی کے گندہ اور ناپاک ہونے کاکوئی اثر نہیں ہو سکتا مگر خدا تعالیٰ ہر ایک گند اورہر ایک ناپاکی کو سخت ناپسند کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عبادتوں کے لئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے ۔ جس طرح وہ شخص جو پیشاب سے بھرے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتاہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ دعائیں جو ایسی حالت میں کی جائیں وہ بھی قبول نہیں ہوتیں۔ بلکہ جب کوئی انسان گندی حالت میں خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو بجائے فائدہ اٹھانے کے وہاں سے نکال دیاجاتاہے ۔ یہی سرّ ہے کہ صوفیاء نے دعائیں کرنے کا لباس الگ بنا رکھا ہوتاہے جسے خوب صاف ستھرا رکھتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں۔ تو دعا کے قبول ہونے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا کر لے۔ جو شخص غریب ہے وہ اس طرح کر سکتاہے کہ ایک الگ جوڑا بنارکھے اور اسے صاف کر لیا کرے۔ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔

علیحدہ جگہ اور خاموش وقت کا انتخاب کریں

پھر دعا کی قبولیت کے لئے ایک اور طریق ہے اور وہ یہ کہ دعا کے لئے ایک ایسا وقت اور جگہ انتخاب کر ے جہاں خاموشی ہو۔ مثلاً اگردن کا وقت ہے تو جنگل میں کسی ایسی جگہ چلاجائے جہاں سمجھے کہ کوئی میرے خیالات میں خلل انداز نہیں ہو سکے گا۔ یا رات کے وقت جبکہ سب لوگ سوئے ہوئے ہوں دعا کرے۔ اس طرح یہ ہوتاہے کہ خیالات پراگندہ نہیں ہونے پاتے۔ جب کسی ایسی جگہ یا ایسے وقت دعا کی جاتی ہے کہ ادھر سے آوازیں آتی رہتی ہیں تو دعا کی طرف خاص توجہ نہیں ہو سکتی۔ اس طرح توجہ کبھی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کبھی کسی طرف۔ چونکہ انسان کی طبیعت میں تجسس کامادہ ہے اس لئے ذرا سی آواز آنے پر جھٹ ادھر متوجہ ہو جاتا ہے تامعلوم کرے کہ کیا ہوا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے وہ لوگ جن کوجلوت سے خلوت میسر نہیں آ سکتی یا آتی ہے مگر بہت تھوڑی دیر کے لئے وہ ایسے وقت دعا کریں جبکہ خاموشی ہو یاایسی جگہ کریں جہاں کسی قسم کا شور نہ ہو۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے آ پ جنگل میں تنہا چلے جایاکرتے تھے ۔ اس بات کاعلم اکثر لوگوں کو نہیں ہے مگر آپ اس راستہ سے جو میاں بشیر احمد کے مکان کے پاس سے گزرتاہے دس بجے کے قریب سیر کو جانے کے علاوہ اکیلے بھی جایا کرتے تھے ۔ ایک دن جو آپ جانے لگے تو میں بھی آ پ کے ساتھ چل پڑا ۔ تھوڑی دیر چلے تو واپس لوٹ آئے اورمسکرا کر فرمانے لگے پہلے تم جانا چاہتے ہو تو ہو آؤ، میں بعد میں جاؤں گا۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ آپ اکیلے جانا چاہتے تھے۔ میں واپس آ گیا ۔غرضیکہ علیحدہ جگہ اور خاموش وقت میں خاص توجہ سے دعا کی جا سکتی ہے ۔ کیونکہ توجہ کے لئے کوئی بیرونی روک نہیں ہوتی اس لئے طبیعت کا زور ایک ہی طرف لگتاہے۔ اور جیسا کہ میں نے کسی گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا جب تمام زور ایک طرف لگتاہے تو اپنے راستہ کی ہر ایک روک کو بہا کر لے جاتاہے۔

اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کریں

پھر ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اور اتنا مطالعہ کرے ، اتنا کرے کہ گویا اس کا نفس مر ہی جائے اور اسے اپنے نفس سے گھِن آنی شروع ہو جائے اور نفس کہہ اٹھے کہ تو بغیر کسی بالا دست ہستی کی مدد اور تائید کے خود کسی کام کا نہیں ہے اورکچھ نہیں کر سکتا ۔ جب نفس کی یہ حالت ہو جائے تو دعا کی جائے ایسی حالت میں جس طرح ایک بے دست و پا بچہ کی ماں باپ خبر گیری کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی کرتاہے۔ ماں باپ کو دیکھو جب بچہ بڑا ہو جاتا ہے تواسے کہتے ہیں خود کھاؤ پیو۔ مگر دودھ پیتے بچے کی ہر ایک ضرورت اوراحتیاج کا انہیں خود خیال اور فکر ہوتاہے۔ خدا تعالیٰ کے حضور بھی انسان کو اپنے نفس کو اسی طرح ڈال دینا چاہئے جس طرح دودھ پیتابچہ ماں باپ کے آگے ہوتاہے۔ لیکن اگر نفس فرعون ہو اور اپنے آپ کو بڑاسمجھتا ہو تو اس کی کوئی بات قبول نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے سب سے پہلے انسان کو چاہئے کہ اپنے نفس کو بالکل گرادے یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اوراس سے دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے انعامات پر نظر کریں

ایک یہ بھی طریق ہے کہ جب انسان دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کے انعاما ت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لے آئے کیونکہ انسان کو خواہش اور امید کام کروایا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کے دیکھنے کے لئے سر سے پاؤں تک خوب غور کرے اور دیکھے کہ اگر میری فلاں چیز نہ ہوتی تو مجھے کس قدر تکلیف اور نقصان ہوتا ۔مثلاً اس طرح نقشہ کھینچے کہ اگر میرے ہاتھ نہ ہوتے اورکوئی دوست مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھاتا تو میں کیا کرتا۔ یا پیاس لگی ہوتی تو پانی کس طر ح پی سکتا۔ پیشاب کرناہوتا توازار بند کس طرح کھولتا اور پھر باندھ سکتا۔ غرضیکہ اسی طرح ہر ایک چیزکو دیکھے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے انعام او ر فضل کا ایسانقشہ کھینچے کہ اس کا رُواں رُواں خدا کی محبت اور الفت سے پر ہو جائے۔ اس وقت اس کے دل پر جوش اور شوق سے امید ایک ایسی لہر مارے گی کہ وہ جو دعا کرے گا وہ قبول ہو جائے گی۔ کیونکہ جب وہ دیکھے گا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بغیر مانگے اور سوال کئے اس قدرانعامات دے رکھے ہیں تو مانگنے سے کیوں نہ دے گا۔ جب اس کو یہ یقین ہو جائے تو جو مانگے گا وہ مل جائے گا۔

اللہ کے غضب سے ڈریں

ایک طریق یہ بھی ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کے انعامات کو نظر کے سامنے لانا چاہئے اسی طرح اس کے غضب کو سامنے لایا جائے۔ اور جس طرح یہ سوچا تھا کہ اگرمیرافلاں عضو نہ ہوتا تو کیاہوتا۔ اسی طرح یہ سوچے کہ یہ انعام جو مجھے دئے گئے ہیں یہ چھین لئے جائیں تو پھر کیا ہو؟۔ اور یہ بھی دیکھے کہ بہت سے لوگ تھے جن پر میری طرح ہی خدا تعالیٰ کے انعام تھے مگران سے چھین لئے گئے۔ اس بات کے لئے تباہ شدہ گھر اورہلاک شدہ بستیاں یا اپنے جسم کا ہی کوئی تباہ شدہ حصہ کافی سبق دے سکتاہے۔ وہ اسے دیکھے اور پھر دعا کرے۔ یہ دعا خوف اور طمع کی دعا ہوگی جس کو قرآن کریم نے بھی بیان کیاہے ۔ ایک طرف اس کے خوف ہوگا اور دوسری طرف طمع۔ یہ دو دیواریں ہونگی جو اسے دنیا سے کاٹ کر اللہ کی طرف مائل کر دیں گی اور اس طرح اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔

اپنی حالت کو چُست بنائیں

پھر جب کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اپنی حالت کو چست بنائے کیونکہ جس طرح نفس مردہ ہو تو اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے ۔ اسی طرح اگرجسم مُردہ ہو تو اس کا اثرنفس پر پڑتاہے۔ جب کوئی سستی کی حالت اختیار کرتاہے تو اس کے نفس پربھی سستی چھا جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز میں قیام ، رکوع، سجدہ وغیرہ جتنی حالتیں رکھی گئی ہیں وہ سب چستی کی رکھی ہیں۔ توجسم کی سستی کا اثر روح پر اور خیالات پر ہوتاہے۔ اس لئے دعا کرنے کے وقت انسان کو چستی کی حالت میں ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ سجدہ میں جائے تو کہنیاں زمین پر گرا دے ۔ مجھے ہمیشہ اس بات کا شوق لگارہتاہے کہ میں شریعت کے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم میں بھی معلوم کروں کہ کیا حکمت ہے ۔ اس وجہ سے میں نے اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ کیوں حکم ہے کہ سجدہ کرتے وقت کہنیاں زمین پر نہ گرائی جائیں نوافل میں کہنیاں گرا کر دیکھا ہے اس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر پہلے بڑے زور سے دعا ہو رہی ہو تو اس طرح کرنے سے رک گئی ہے اور جب کہنیاں اٹھائی ہیں تو پھروہی حالت پیدا ہو گئی ہے جو پہلے تھی۔ تو دعا کرتے وقت چستی ہونی چاہئے اور وہ چستی جو امید کی چستی ہوتی ہے نہ کہ کوئی اور ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ زبان سے دعا زیادہ عمدگی سے نکلتی ہے اور مختلف پیرایوں میں دعا کرنے کی توفیق ملتی ہے ۔

دعاؤں میں تدریج اختیار کریں

پھر ایک طریق یہ بھی ہے کہ جب کسی اہم امر کے متعلق دعا کرنے لگو تو اس سے پہلے چند اور دعائیں کر لواور پھر اصل دعاکرو۔ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے یہ بات رکھی ہے کہ اس کا ہر ایک کام آہستگی سے شروع ہوتاہے اور جب وہ شروع ہو جاتا ہے تو پھر ترقی کرتا جاتاہے۔ گویااس کے کاموں میں تیزی آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہے نہ کہ یکلخت۔ اس لئے بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ انسان کسی مقصد کے لئے دعا کرتاہے لیکن کچھ عرصہ بعد کامیابی نہ دیکھ کر کر نے سے رہ جاتا ہے ۔ وجہ یہ کہ وہ چاہتاہے کہ جلدی دعا قبول ہو جائے حالانکہ وہ جلدی نہیں ہونے والی ہوتی۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ کسی اہم معاملہ کے متعلق دعا کرنے سے پہلے اور دعائیں کی جائیں۔ جب ان کی وجہ سے ان میں تیزی اور چستی پیدا ہو جائے گی اور ا س کے خیالا ت بلند ہو جائیں گے اس وقت اپنے خاص مقصد کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دے۔

پہلے ایسی دعائیں مانگیں جنہیں خدا تعالیٰ ضرور قبول کر لیتاہے

اس کے لئے ایک اور بہتر طریق یہ بھی ہے کہ انسان پہلے ایسی دعائیں مانگے جنہیں خدا تعالیٰ ضرور قبول کر لیتاہے ۔ دفاتر میں جو ہوشیار کلرک ہوتے ہیں وہ اسی طرح کیاکرتے ہیں کہ اگر ان کامنشاء ہو کہ ہمارا افسر فلاں درخواست کونامنظور کرے تواس کے سامنے چار پانچ ایسی درخواستیں پیش کر دیتے ہیں جن کے متعلق انہیں پورا یقین ہو کہ نامنظور کی جائیں گی ۔ جب افسر ان کو نامنظور کر چکتاہے اور خاص طور پر برافروختہ ہوتاہے تو نامنظور کرانے والی کو پیش کر دیتے ہیں اس طرح وہ بھی نامنظور ہو جاتی ہے۔ اورجب کسی درخواست کے متعلق ان کا یہ منشاء ہو کہ منظور ہو جائے توپہلے ان امور کو پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ منظور ہو جاتی ہے اس طرح کام کرنے والے اور ہوشیار کلرک کیا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ بھی نکتہ نواز ہے ۔ افسر کبھی تو جان بوجھ کر بھی کسی نامنظور کرنے والی درخواست کومنظور کر لیتاہے کہ اس نے چونکہ ہمیں خوش کیاہے اس لئے ہم بھی اس کو خوش کردیں۔ لیکن کبھی وہ نادانی سے ایسا کر بیٹھتاہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہی ایسی ہے کہ اس کوکبھی دھوکہ نہیں لگ سکتا۔ اس لئے وہ خوش ہی ہو کر بات قبول کر تاہے ۔ پس کسی خاص معاملہ کے قبول کرانے کے لئے پہلے ایسی دعائیں کرنی چاہئیں جن کو خدا تعالیٰ نے قبول ہی کر لینا ہو۔ مثلاً یہ کہ الٰہی! دین اسلام کی بڑے زور شور سے اشاعت ہو ، تیرا جلال اور قدرت ظاہر ہو، تیرے انبیاء کی عزت اور توقیر بڑھے۔ خدا تعالیٰ کہے گا ایساہی ہو ۔ اس طرح دعائیں کرتے کرتے اپنا مقصد بھی پیش کر دیں کہ الٰہی یہ بات بھی ہو جائے ۔تو دعا قبول کرانے کا ایک یہ بھی طریق ہے ۔ا س طرح کرنے سے تیزی اور چستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے دعا نہایت عمدگی اور خوبی سے کی جا سکتی ہے اور دوسرے سے خدا تعالیٰ خوش ہو جاتاہے اور جب اس کے خوش ہونے کی حالت میں دعا پیش کی جائے گی تو وہ ضرور قبول ہو جائے گی۔

جگہ کا بھی قبولیت دعاسے خاص تعلق ہوتاہے

ایک طریق یہ ہے کہ ایسی جگہ دعا مانگی جائے جو بابرکت ہو کیونکہ جگہ کا بھی قبولیت دعا سے خاص تعلق ہوتاہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ دنیا کی کسی چیز کا کوئی اثر اور کوئی حرکت ایسی نہیں ہوتی جو ضائع جاتی ہو بلکہ ہر ایک چیز کی خفیف سے خفیف حرکت بھی قائم اور محفوظ رہتی ہے ۔ پس جب کسی اچھی چیز سے انسان کا تعلق ہو تاہے تو اس انسان کا خاص اثر اس پر ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے مکہ مدینہ اورمسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا کسی اور جگہ پڑھنے سے بہت زیادہ درجہ بتایاہے۔ کیا وہاں کے پتھر اور گارا کوئی خاص قسم کے ہیں ۔ نہیں ،بلکہ جگہیں برکت والی ہیں۔ اورجو ان میں نماز پڑھتاہے اس پراچھا اثر ہوتاہے۔ یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ انسان سے برکت چلی جاتی ہے ۔قومیں بے برکت ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ اپنی نادانی اور بے وقوفی سے اس دُرِّ بے بہا کو کھو دیتی ہیں ۔ مگر بے جان اشیاء میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت ڈالی جاتی ہے وہ کبھی نہیں جا سکتی اور ہمیشہ کے لئے رہتی ہے (سوائے نہایت خاص وجوہ کے یاخطرناک بداعما لی کے ) اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ‘‘ (الرعد:۱۲) کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم پر احسان اور فضل کرتاہے تو اس وقت تک اس میں تغیر نہیں کرتا اوراسے نہیں ہٹاتاجب تک کہ وہ خود اپنی حالت میں تغیر نہ پیدا کرے۔ تو انسان انپی بداعمالیوں اور بدافعالیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنے اوپر سے بند کر لیتاہے لیکن ایک بے جان چیز ایسا نہیں کر سکتی اس لئے اس پر ہمیشہ کے لئے فضل قائم رہتاہے ۔ دیکھو مدینہ کے لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ایسے ہو گئے ہیں کہ جس طرح وہاں کے لوگوں کی دعائیں آنحضرت ﷺ کے وقت پوری ہوتی تھیں اس طرح آج ان کی نہیں ہوتیں۔ مکہ کے رہنے والوں کی بھی یہی حالت ہے۔ وہاں آج بھی دعائیں قبول ہونے کاویسا ہی اثر ہے جیساکہ پہلے تھا کیونکہ وہاں کی اینٹیں گارااورزمین نہیں بگڑی بلکہ آدمی بگڑ گئے ہیں۔ تو جن جگہوں پر خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو جاتاہے وہ پھرکبھی نہیں رکتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا خزانہ ایساوسیع ہے کہ جس کے خالی ہونے کا کبھی خیال بھی نہیں آ سکتا۔ جن مقامات پر خدا تعالیٰ نے فضل کر دیا ہے پھر ان سے کبھی منفصل نہیں ہوتا۔ اس لئے خاص مقاما ت میں دعا خاص طورپر قبول ہوتی ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ جب دعاکرنے لگے تو ایسے ہی مقام کو چن کر کرے۔ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک مصلّٰی تھا ۔ آپ فرماتے تھے کہ میں جب کبھی اس مصلے پر بیٹھ کر دعاکرتاہوں ۔ خاص طورپر قبول ہوتی ہے۔ تو خاص اشیاء میں خاص برکت کی وجہ سے خاص ہی اثر ہوتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس بات کو پسند فرمایا ہے اور صحابہؓ کرا م نے اس پرعمل کیا ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لئے ایک خاص جگہ معین کر دیتے تھے۔جہاں سوائے عباد ت کے اورکام نہیں کئے جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیت الدّعا بنایا ہوا تھا تو یہ بھی دعا کے قبول ہونے کا ایک طریق ہے ۔

یہ بہت سے طریق میں نے آ پ لوگوں کو بتائے ہیں ۔ دیر ہو گئی ہے ورنہ میں ابھی اور بھی کئی ایک طریق بتا سکتاتھا۔ یہ باتیں گوبظاہر چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر دراصل چھوٹی نہیں ان کو استعمال کر کے دیکھو تو پتہ لگے گا کہ ان سے کتنے کتنے بڑے نتائج نکلتے ہیں ۔ جس طرح ایک ذرا سی کشش بدخط سے خوبصورت خط بنا دیتی ہے اسی طرح یہ باتیں دعا کو قبولیت کے درجہ پر پہنچا دیتی ہیں۔

اس زمانہ میں ہمارے لئے بہت مشکلات کا سامنا ہے ۔ قسم قسم کے مخالف پیدا ہو گئے ہیں اور قسم قسم کے اعتراض اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کے دفعیہ کے لئے ہمیں بہت کوشش اورہمت کی ضرورت ہے۔ اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کون ساطریق کامیابی کاہو سکتاہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور عرض کریں کہ آ پ ہی ہماری مدد کیجئے ۔ پس آپ لوگ اپنے اعتقاد، اپنے اعمال میں خاص اصلاح کرلیں تا تمہارا کھانا پینا چلنا پھرنا سونا جاگنا غرضیکہ ہر سکون اور ہر حرکت اسی کے لئے ہو جائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے خطبہ میں ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اس وقت کی کی ہوئی دعا قبول ہو جاتی ہے۔ پھرجمعہ سے مغرب تک ایسا ہی وقت آتا ہے ۔ پھر رمضان کے آخری عشرہ میں بھی ایساموقعہ آتاہے ۔ خدا کے فضل سے آپ لوگوں کو یہ سب موقعے نصیب ہیں۔ اس لئے خوب دعائیں کرو تا خدا تعالیٰ اس مبارک مہینہ کے طفیل اوراس بابرکت پیغام کے طفیل جو تم دنیا کو پہنچانا چاہتے ہو تمہارے راستے سے سب روکیں دور کر دے او ر تمہیں اس کام کا پورا پورا اہل بنائے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے ۔ (آمین)

(الفضل ۸؍اگست ۱۹۱۶ء ۔ بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍ جنوری 1999ء تا 28 جنوری 1999ء)