قدیم کافرستان میں اسرائیلی عنصر

مظفر احمد چوھدری

کافرستان ماضی قریب میں جلا ل آباد کے قریب سے لے کر چترال تک پھیلے ہوئے ملتے جلتے مذاہب کے پیروکاروں کے قبائل، قوموں اور گروہوں کی آبادیوں کا نام تھا۔ آج صرف کیلاش کافروں کی تین وادیوں کے سوا یہ ہزاروں مربع میل پر پھیلے ہوئے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔

ان کافروں کے تہذیب و تمدن اور رسوم و رواج پر سینکڑوں محققین نے کام کیا ہے اور آج تک یہ کام جاری ہے۔ ایک بات جس پر قریباً ہر محقق متفق ہے وہ یہ ہے کہ ان وادیوں میں آباد قومیں اور قبائل ہزاروں برسوں کے دوران مختلف ناساز گار عوامل کے باعث اپنے وطنوں سے ترک مکانی کر کے ان علاقوں میں آباد ہو تے گئے۔

چند ایک محققین کے سوا جنہوں نے کسی حد تک ایک اسرائیلی عنصر کاوجود ان کافروں میں تسلیم کیاہے کسی نے اس نظرئیے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور بعض واضح اسرائیلی اثرات کو قریب کی اسلامی تہذیب کا مرہون منت قرار دیا ہے۔

میری رائے میں بعض ایسے شواہد موجود ہیں جن پر مزید تحقیق حتمی طور پر اس نظرئے کو ثابت کر سکتی ہے۔ کہ ان مفرور قوموں میں بعض عناصر اسرائیلی ہیں۔

۱۔۔۔۔ لاوی عنصر

کچھ شواہد ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم موسیٰ کا ایک حصہ ان وادیوں میں آج بھی بعض چھوٹے گروہوں کی شکل میں موجود ہے۔ اس بات کو تقویت کافروں اور اسرائیلی لوگوں کی بعض روایات کے اشتراک سے ملتی ہے۔ مثلاً:

(۱)ایلداد ہادانی ایک مشہور شخص گزرا ہے جس نے نویں صدی عیسوی میں قیروان کے لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ وہ گمشدہ قبائل میں سے ایک قبیلے دان کا فرد ہے اور اس نے گمشدہ قبائل کے مقامات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ ’’ بنی وسیٰ‘‘ کے بارے میں اس کے بیان کے بارے میں قیروان کے لوگوں نے اپنے ربّی کو بتایا:

’’ اور اس نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ جب ہیکل تباہ ہو گیاتو اسرائیلی بابل چلے گئے اور کلدانی اٹھے اوربنی موسیٰ سے کہا: ’’ ہمارے لئے صیہون کے گیت گاؤ‘‘بنی موسیٰ اٹھے اور خدا کے آگے گڑگڑائے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں کہ :

’’یہ انگلیاں جن کے ساتھ ہم ہیکل میں ساز بجایا کرتے تھے ا ن انگلیوں سے ہم ناپاک سرزمین پرکیسے ساز بجائیں‘‘۔

ایک بادل آیا اور اُن کو اُ ن کے خیموں اور بھیڑ بکریوں سمیت اور مویشیوں سمیت حویلہ لے آیا ۔ اور رات کے وقت ان کو نیچے اتار دیا۔ مزید برآں اس نے ہم سے کہا:

’’ہمارے باپوں نے ہمیں بتایا کہ ان کے آباء نے اپنے اجداد سے سنا کہ رات کے وقت ایک شور اٹھا اور صبح کو انہوں نے ایک بڑی اور طاقتور فوج دیکھی۔ لیکن وہ ایک ایسے دریا سے گھرے ہوئے تھے جو کہ پتھروں اور گردوغبار کے ساتھ ایک ایسی جگہ پر بہہ رہا تھا جہاں اُس سے قبل کوئی دریا نہیں تھا۔ اور یہ دریا آج تک پتھروں اور گردوغبار کے ساتھ بغیر پانی کے اس زوردا رگڑگڑاہٹ اور شور سے بہتاہے کہ اگر اس کے سامنے لوہے کا پہاڑ نہ آ جاتا تو یہ عظیم شور دور دور تک پھیل جاتا‘‘۔

کافروں میں اس کے بالمقابل یہ روایت ہے:

‘‘ کام( کافروں کا ایک قبیلہ۔ ناقل) کے عمر رسیدہ لوگوں کے نزدیک ’’ مادو گال‘‘ قبیلہ مندرجہ ذیل مخصوص حالات میں وجود میں آیا:

بہت عرصہ ہوا ایک روزکام دیش کے لوگ عالم بالا سے بجلی کے ایک کوندے کے گرنے سے سہم گئے۔ اس کے ساتھ ایک بڑی آواز اور بڑی آگ بھی تھی۔

کچھ عرصہ بعد لوگ اپنے گھروں سے نکلے تو انہوں نے سات آدمی دیکھے ۔اُ ن میں سے دو تو آلات موسیقی بجا رہے تھے جن کی لَے پر دو آدمی ناچ رہے تھے جبکہ باقی تین ’’ اِمرا‘‘ کے حضور مقدس مذہبی امور پوری تندہی سے بجا لا رہے تھے ۔ ان افراد سے ہی جنہوں نے ’’ کاتِروں‘‘ ( ایک کمتر کافر قوم۔ ناقل) کی عورتوں سے شادیاں کیں ۔مادو گال کا تمام تر قبیلہ چلا‘‘۔(“The Kafirs of the HinduKush P: 160-161)

بادل، زور دار گرج چمک ، شور، آلات موسیقی ، آسمان سے اترنا اور مذہبی امور کی انجام دہی وغیرہ جو لاویوں اورآلِ موسیٰ سے مخصوص تھی بتا رہی ہے کہ دونوں روایات ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ روایت دراصل اُس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح غیر معمولی پرخطر حالات میں قوم موسیٰ نے فرار اختیار کیا۔ بعد ازاں اس واقعہ کو داستانی رنگ دے دیا گیا ۔

مالابارمیں سات یہودیوں کی روایت

مالابار کے علاقہ میں یہ روایت ہے کہ مالابا ر کے یہودی ان سات مردوں اور عورتوں کی اولاد ہیں جو ایک ظالم بادشاہ کے ظلم سے بھاگے اور مالابار کے قریب ان کا جہاز غرق ہو گیا اور صرف سات مرد اور عورتیں بچے جن کی نسل سے مالابار کے بنی اسرائیلی ہیں ۔ ان میں سے ایک طبقہ بعدازاں برہمنوں میں داخل ہو گیا۔

کشمیری برہمنوں کی روایت:

مہاراشٹر کے علاقہ میں کشمیری پنڈت برہمنوں کے بارے میں یہ روایت ہے کہ پرانے زمانے میں سفید رنگ کے یہ آدمی ایک طوفان میں بہہ کر ساحل سمندر پر آ لگے تھے۔ (مہاراشٹر کا علاقہ مالابار کے ساتھ ملحق ہے) اوران سے ہی کشمیری برہمنوں کی نسل چلی۔

گلگت کی روایت:

گلگت کی مقامی روایت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے سات (جنّ ۔ ناقل) سرداروں کو گلگت میں قید کیا تھا۔

۲۔۔۔۔پشور

لاوی خاندان میں پشور کا نام عام تھا۔ اور کاہنوں کے ہاں عام ملتا تھا۔ یرمیاہ کے وقت میں پشور بن امّر ہیکل کا سردار کاہن تھا جسے یرمیاہ نے اس کے بداعمال کی وجہ سے خبر دی تھی کہ وہ اور اس کا خاندان اسیرہوکرجلاوطن کئے جائیں گے۔(یرمیاہ باب ۲۰ آیت ۱ تا ۶)

عذرا کی کتاب میں بھی پشور کی اولاد کے ایک حصے کے جلاوطنی سے واپس آنے کا ذکر ہے۔

کاہن خاندانوں میں اس نام کی موجودگی بتاتی ہے کہ اصل میں یہ لفظ بشور سے نکلا ہے یعنی خوشخبری سنانے والا یاپیشگوئی کرنے والا۔ اور اس کا مادہ۔ ب، ش، ر، ہے۔

وہ کاہن جو پیشگوئیاں کرتے تھے بشور کہلاتے تھے بعد میں غالباً یہ عام ذاتی نام کی حیثیت اختیا ر کر گیا۔ تاہم یہ نام صرف لاویوں اورکاہنوں تک محدود تھا۔

کافروں کے مذہبی نظام میں جو مختلف درجوں کے مذہبی پروہتوں پر مشتمل ہے ’’ پشور‘‘ ایک اہم مرتبہ ہے۔

“The Kafirs of Hindukush”کا مصنف یوں اس عہدے کی تعریف کرتاہے: “Pshur, the individual who is supposed to become temporarily inspired during religious ceremonies and on other occasions” (Page 415) “The Pshur is the individual who is supposed to be the subject of temporary inspiration.He has already been referred

to frequently” (Page 416) Snoyپشور کے لئے ٹرانسپریسٹ(Trans-Priest) کی اصطلاح استعمال کرتاہے۔

(Religions of the Hindukush, P.87)

پشورکا طرزعمل جو دیکھنے والوں نے بیان کیاہے وہ مندرجہ ذیل کنعانی طریق سے بہت ملتاجلتا ہے:۔

“The specific refelances and swords until the blood poured over them while they leaped and uttered loud cries”. (1-Kings xviii:28)

کافروں میں پشور کا زیادہ کام اس طرح کی اچھل کود کے بعد قوم کی فتح یا شکست کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا ہوتا تھا۔ ناکامی یا ہزیمت کی صورت میں پشور کو کافی ذلت اٹھانا پڑتی تھی۔

قاسِم

کنعانیوں میں کاہنوں کی ایک قسم قوَسِم کہلاتی تھی۔ایڈلوف لودس لکھتا ہے:

” The passage from Deuteronomy

already alluded to seems to attest the presence among the Canaanites not only of magicians, but also of diviners of various Kinds which it is unfortunately difficult to distinguish the “qosem” who perhaps used arrows, as in the “istiqsam” of the Arabs……….” (Israel from its beginings to the middle of the eighth Century, p.108 -by Adlophe Lods)

بعد میں gosem عبرانیوں اور عربوں کی مذہبی زندگی کا بھی حصہ بن گئے۔

کافرستان کے پارونیوں میں بھی’’قاسم‘‘ سب سے ممتاز ذات کا نام ہے۔ پارون وادی کے تمام سردار اس ذات سے منتخب کئے جاتے تھے۔ یہShtiwe میں رہتے تھے اور اپنا سلسلہ نسب امراء خدا سے ملاتے تھے۔ اور اس وجہ سے اس ذات کے لوگ اپنے علاقے کے لوگوں سے ان کی پیداوار کا دسواں حصہ بھی لیتے تھے۔

یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے بیان کے مطابق دیوتا ایک سفید برّے (Ram) کی صورت میں آیا اور اس نے اس ذات کے جد امجد Kuzum کی بیٹی کو حاملہ کر دیا۔

“……… He assulted her when she was living with her seven brothers in an alpine meadow ……… the relationship seems rather of an affinal nature, with the Kasem clan

behaving as wife-givers to the god.On the other hand, Motamedi heared that the

leader of the villages is considered as the son of this god.(Edelberg La 72:40) (Religions of the Hindukush, by Karl Jetmar P.52)

۲۔ رسوم

(الف)۔۔۔ قربانی کے جانور کے گردے

کافروں میں یہ رسم تھی کہ بعض قسم کی قربانیوں میں جانور کے گرد ے الگ کر دئے جاتے تھے مثلاً باہم دوست بننے کی صورت میں جو جانور قربانی کیا جاتا تھا اس کے گردے الگ کر دئے جاتے تھے۔ یہی رواج اسرائیلیوں میں بھی تھا ۔ چنانچہ گردے اور گردوں کی چربی قربانی کے جانور کے چنیدہ حصے ہوتے تھے جو کہ قربانی کے وقت یہووا کو پیش کئے جاتے تھے۔

ٖ(ب)۔۔۔ پناہ کے شہر

ایک خالص اسرائیلی رواج گزشتہ صدی تک کافروں میں موجود تھا۔ بنی اسرائیل کے لئے تورات میں حکم موجود تھا کہ وہ خونیوں کے لئے پناہ کے شہر الگ بنائیں۔ قانون یہ تھا کہ اگر کسی سے کسی اسرائیلی کا خون ہو جائے تو وہ بھاگ کر پناہ کے لئے اپنے مقرر کردہ شہر میں پناہ لے لے ۔

بالکل یہی تصور کافروں میں بھی موجود تھا۔ رابرٹسن نے اس کی تفصیل یوں لکھی ہے:

Cities of RefugeThe man who has caused the death of a fellow-tribesman at once takes to flight and becomes a “chile” or outcast for his clan will not help him in any way. His house is destroyed and confiscated by the victom’s clan,

and his property seized and distributed.

The village of Metgrom is the largest of several “Cities of refuge”. It is almost entirely peopled by chiles, the descendants of slayers of fellow-tribesmen. I have known one of those people, a wealthy man, who had to avoid the Utahdari clan, go quitely to Ka’mdesh in th evening and hold a secret conference with Utah, the chief of the Utahdari, concerning questions of trade”.(The Kafirs of the Hindu-Kush. p: 441,442)

(ج)۔۔۔ آگر ۔ سبت

فصلوں کی کٹائی کے دوران ہر جمعرات کو کافر چھٹی کرتے تھے جس کا تصور سبت سے بہت ملتا جلتا تھا۔ کافر اس روز کو آگر (Agar) کہتے تھے۔ یہ دراصل عبرانی کلمےAAG / HAG سے نکلتا ہے جس کے معنی ہیں Feast ۔ کافر لوگ اس دن کو بالکل کسی Feast کی طرح مناتے تھے ۔ دعوتیں اور ناچ گانے کی مجالس کے لئے یہ دن مخصوص تھا۔ رابرٹسن لکھتا ہے:

AGAR” …… There is a series of rest-days or Sabbaths, which occur every thursday during the time field-work is in progress. These rest days are called Agars. In 1891 the first Agar was on April 3, the last on’s September 17. They usually began at Kamdesh on a wednesday night, when a fire was lit at the dancing place in honour of Imra, and the people danced and sang to the music of drums and pipes. The duty of lighting the fire for the Agar devolves on ther Urir Jast, and was never neglected, even when the village was in mourning for the death of a warrior, or was depressed by reason of epidemic sickness or similar calamities. I failed to discover anything concerning the origin of these Agars. Their observance may have become a national custom, the origin of which is as difficult to determine as the Sabbaths of other ancient peoples. As Kam people were averse to starting on a journey on the Agar days, and as all the woman left their field-work altogather on these occasion, it is possible that the Agar was originally considered an unlucky.

(د)۔۔۔سوختنی قربانی

اسرائیلیوں کی طرح کافروں میں بھی سوختنی قربانی ملتی جلتی شکل میں رائج رہی ہے۔ اور کیلاش کافروں میں جو چترال میں رہتے ہیں آج بھی کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے۔

پارون

ایلداد پادانی اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ:

’’ بنو زبولون ( ایک اسرائیلی قبیلہ۔ ناقل) پارون کی پہاڑیوں میں آباد ہیں اور رابن کا قبیلہ ( ایک اسرائیلی قبیلہ۔ ناقل) ان کے بالمقابل کو ہ پارون کے عقب میں آبا د ہے‘‘۔

گویا پارون کا پہاڑی علاقہ اسرائیل کے بعض قبائل کا مسکن تھا او ر بعض کو دوسرے قبائل سے جدا کرتا تھا۔ کافرستان میں ایک وادی ہے جسے کافر پرسون اور افغان جو اسرائیل کے گمشدہ قبائل سے ہونے کے مدعی ہیں پارون کہتے ہیں۔ یہ لمغان کے قریب ( جہاں مہتر لامک کی زیارت ہے جسے والد نوح کہا جاتاہے) ہیچ کی وادی کے بالائی حصے پر مشتمل ہے اور کاتی نسل کے کافروں کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ اسی طرح یہ مسلمانوں اورکافروں کے درمیان بھی گویا سرحد تھی۔

پارون کے باشندے کافر قبائل سے الگ ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور سوائے بعض مذہبی رسومات کے ان کی کوئی چیز بھی کافروں سے ملتی جلتی نہیں ۔اسی وجہ سے کافر ایک لحاظ سے ان کوحقیر جانتے ہیں۔

بشگال وادی کے گاتی کافروں کے نزدیک اِمرا(خدا تعالیٰ) نے ایک سنہری مشک میں مکھن کو ہلا کر کافروں کے تین گروہوں کو پیدا کیا اور چوتھی بار مشک میں پانی ڈال کر اسے ہلا کر پارونیوں کو پیدا کیا۔ گویا اس طرح کافراُن کے اپنے میں سے نہ ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

ایک اور کافر روایت کے مطابق شروع میں خدا نے جنّوں کی ایک نسل پیدا کی ۔ جلد ہی اسے ایسا کرنے پر پچھتاوا ہوا اور اس نے اِن کو ختم کر نا چاہا لیکن اتنے قریب زمانے میں اپنے سانس سے پیداکردہ اس مخلوق کا خاتمہ اس کے لئے مشکل ہو گیا لیکن مونی(نبی) نے اس موقع پر اِمرا سے ایک تلوار حاصل کی اور اسے تمام جنوں کو ختم کرنے کا پروانہ مل گیا ۔ تمام جنّ قتل کر دئے گئے لیکن ان میں سے سات بچ گئے جن سے پارون کی نسل چلی ۔

(Kafirs of the Hindu-Kush P:161)

کافروں میں بلاشک وشبہ پارون کا علاقہ مذہبی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔ اِمرا کا بڑا معبد بھی پارون کے گاؤں کُشتکی میں ہے ۔۔۔ بہت سا مواد پارونی لوگوں کی (کافرستان میں۔ ناقل) تسلیم شدہ مذہبی سیادت کی طرف اشارہ کرتاہے۔ دیومالائی کہانیوں کا مرکز بھی اکثر و بیشتر پارون کی وادی ہی ہے۔(Religions of the Hindu-Kush Vol:1 P,32 by Karl Jetmar)

واما کے لوگوں کو اپنی ضیافتوں کے ذریعے اگر عزت کا بلند ترین مرتبہ حاصل کرنا مقصود ہو تو انہیں لازماً پارونیوں کو مدعو کرنا پڑتا ہے۔ (Page 32)

کارل جٹ مار لکھتا ہے :

“How can one satisfactorily reconcile the contempt, coupled with constant accusation of cowardice and combined with relationship to demons on the one hand, with a role as the custodians of a major religious center on the other? Even more confusing is the report given to Buddress (Personally Communicated) that a secret “Language of the god’s ” is in ritual use in Parun. The entire “KAFIR” teritory seems to have encompassed an amphictyony with its main sanctuary in parsun .This might be the reason why Kati-speakers spared the prasun areaduring their expension.

رابرٹسن لکھتا ہے:

’’ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ کام قبیلے میں سے کوئی ایک فرد بھی پرسونی (پارونی۔ ناقل) زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ جس کے متعلق ان کا فیصلہ یہ ہے کہ سوائے بچپن میں یہ زبان سیکھنے کے اسے سیکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ جبکہ دوسری طرف تمام پرسونی بشگال کی زبان روانی سے بولتے ہیں‘‘۔

(The Kafirs of the Hindu-Kush p: 120)

’’Snoy کو Buddruss نے بتایا کہ Shtiwe (پارون کا ایک گاؤں) کے Kasim ذات کے لوگ اپنانسب اِمرا خدا (مارا) سے ملاتے ہیں۔ اور پرسون کے تمام سردار آج بھی اِس ذات (Clan) سے ہوتے ہیں۔ ان کو دیگر گاؤں سے خراج(Tribute) لینے کاحق حاصل ہے۔

(Religions of Hindu-Kush. p: 33)

ا س تمام خطے(کافرستان۔ ناقل) میں پرسون کے مرد اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ یہ کاشتکار ہیں اور زمانہ قبل از اسلام سے ہیں۔ اس کے دیوتاؤ ں کے اپنے مقدس کھیت ہیں جہاں عورتوں کا جانا ممنوع ہے۔ چنانچہ تنہا مرد وں کو انہیں کاشت کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کے (کافروں کے نزدیک۔ ناقل) اس قدر ذلیل کن کاموں (یعنی خود کاشتکاری کرنا جو کافر مردوں کے لئے باعث عار ہے۔ ناقل) کے باعث ہی ان کے ہمسائے ان سے تعصب میں بڑھ گئے ہیں‘‘۔

(Religions of Hindu-Kush. p: 31)

پارونیوں میں مردوں کا کاشتکاری کرنا اور عورتوں کا یہ کام نہ کرنا تبت سے لے کر چترال تک ایک عجیب بات سمجھی جائے گی کیونکہ یہ تمام اقوام سوائے کشمیریوں ، پارونیوں اور پٹھانوں کے زراعت کا کام خود کرنا انتہائی ذلت کاموجب خیال کرتی ہیں۔

’’پرسونی (پارونی ۔ ناقل) لوگوں کے لئے احترام کی کمی شاید اس احساس کے ساتھ مل گئی ہے کہ کسی نہ کسی رنگ میں یہ اجنبی اور uncanny لوگ ہیں۔ اور اس بات نے ان کے ماخذ کے بارے میں داستانوں میں ذریعہ اظہار تلاش کر لیاہے ۔مثلاً کہا جاتا ہے کہ یہ سات دیویوں کی اولاد ہیں جنہیں خدا نے بدروحوں کی ایک عمومی Extermination کے وقت بچا لیا تھا‘‘۔

(Religions of Hindu-Kush. p: 32)

مذہبی اور فوجی طبقات

ایلدا ہادانی ، دان، نفتالی، گاد اور آشر کے قبائل کے بارے میں لکھتا ہے:

’’ چار قبائل دان، نفتالی، جاد اور آشر ایک جگہ پر ہیں۔ اس کا نام قدیم حویلہ ہے جہاں سونا پایا جاتاہے۔ اوران کا ایک قاضی ہے جسے عبدون کہتے ہیں ۔ اور وہ سزائے موت کے چاروں طریق پر عمل کرتے ہیں۔۔۔ جو کوئی بھی بزدل ہوتاہے وہ گاد کے کیمپ میں داخل کر دیا جاتاہے۔۔۔ ان میں سے ہرایک طاقتور آدمی ان کے فوجی کیمپ میں داخل کر لیا جاتاہے۔ اور وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہ جنگ کرنے میں اور دوسرے تورات کے مطالعے میں ۔ یہ چار قبائل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جب یہ جنگ کے لئے جاتے ہیں تومل جل کر نہیں جاتے ۔ دان کے طاقتور مردوں کے لئے تین ماہ مقرر ہیں۔۔۔ جب بادشاہ کو اپنا حصہ ملتا ہے تو وہ اسے علماء کو دے دیتا ہے جو شریعت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اس رسم کی باقیات بھی کاتی کافروں میں ملتی ہیں:

KAFIRISTAN

KATIClearly they were two separate careers, one civil and other military, ……. A closer look will reveal another asect. for the candidate seeking to rise in the None-military hierarchy(…..) the attainment of ritual purityrequired for priesthood was a main condition….. It should be remembered that according to Robertson even boys were permitted candidates. By so doing,they did not win an influential position, but were allowed to act as acolytes for the priests who offered the sacrifices; Consequently religious careers existed side by side with military ones, and former also required costly feasts to legitimiz them. (Religions of

Hindu-Kush. by Karl Jettmar p:33)

اختتامیہ

مندرجہ بالامضمون میرے خیال میں بالائی افغانستان اور چترال میں اسرائیلی اور کنعانی ا ورآرامی عنصر پر تحقیق کے لئے ایک جواز فراہم کر سکتا ہے جو بعد ازاں حضرت مسیح ناصری کی ان علاقوں میں آمد کے بارے میں تحقیق کو آگے بڑھانے کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

کتابیات

(1) …… Karl Jettmar.

The Religions of Hindu-Kush. Vol:1The religion of the Kafirs—The pre Islamic Heritage of Afghan. Nuristan ——–Translator from German Adam Nayyar———Oxford &IBH Publishing Co. Pvt..Ltd. New Delhi, Bombay, Calcutta copyright: 1986- Printed in England by Aris & Phillips Ltd.

(2)….. The Kafirs of the Hindu – Kush

By : Sir George Scott Robertson. —- London—- 1996\ Lawrence & Bullen Ltd. 16 Henrietta Street Covent Garden. London. Printed by Ballantyne Hanson & Co. Ballantyne & Press.

(3)…. Notes on Afghanistan and Baluchistan by Major Henry George Raverty. First edition 1878. new edition. Gosha- e – Adab, Quetta .Pakistan 1976.

(4)…. A short walk in Hindu-Kush . by Eric Newby . London 1961. First edition 1958. Arrow Books London U.K . (5)….. Israel from its beginnings to the Middle of the Eighth Century —- by Adloph Lods 1932 — London . Kegan Paul Trench .Trubner & Co, Ltd. Broadway House 68 – 74 Carter Lane E.C. Printed by: Butler And Tanner Ltd.

(6) ….. Jewish Travellers Newyork 1904. Book of Eldad Ha Dani

۷ ۔۔۔ طبقات ناصری۔ جلد اول، اردو ترجمہ

مصنف منھاج السراج مترجم غلام رسول مہر ۔مرکزی اردو بورڈ ۔ گلبرگ لاہور۔ طبع اول جنوری ۱۹۷۸ء ۔ ناشر اشفاق احمد ۔ طابع : محمد زریں خان۔ زریں آرٹ پریس ۔ ۶۱ ریلوے روڈ لاہور۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍فروری۱۹۹۸ء تا۲۶؍فروری ۱۹۹۸ء)