لغویات سے اعراض (سگریٹ نوشی)

نصیر احمد قمر

گزشتہ کچھ عرصہ سے عالمی پریس اور خصوصیت سے مغربی میڈیا میں (جن میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش ہیں) سگریٹ نوشی کے خلاف خصوصی مہم جاری ہے۔ چنانچہ سگریٹ نوشی کے مضرّات اور انسانی صحت پر اس کے مہلک اثرات سے متعلق تحقیقات کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد سگریٹ اور تمباکو نوشی کے نتیجہ میں لاحق ہونے والی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں اور کروڑہا ڈالرز ایسے مریضوں کے علاج معالجہ پر خرچ کئے جاتے ہیں جو سگریٹ نوشی کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چنانچہ سگریٹ اور تمباکو پر بھاری ٹیکس اور سگریٹ کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ کے علاوہ کئی ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ کسی طرح لوگ سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔ لیکن بایں ہمہ تمباکو کی صنعت پر کوئی برا اثر نہیں پڑا اور لوگ جنہیں سگریٹ نوشی کی عادت ہو چکی ہے وہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔ سگریٹ نوشی بلا شبہ ایک لغو اور بے فائدہ بلکہ مہلک چیز ہے اور خود اپنے ہاتھوں ، اپنی جیب سے رقم خرچ کر کے ہلاکت مول لینے والی بات ہے۔ لیکن صرف یہی تو ایک ایسی چیز نہیں جو انسانی معاشرہ میں مختلف بیماریاں پھیلانے اور اس کے امن و امان کو برباد کرنے کا باعث ہے بلکہ اس کے علاوہ شراب ، جؤا، ہیروئن اور دیگر کئی قسم کی منشیات کے ساتھ ساتھ اور بھی ایسی لغو اور بیہودہ عادات ہیں جو دنیا میں کئی قسم کی ہلاکت خیزیوں کا موجب ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تو اب اس موذی چیز سے چھٹکارا حاصل کرنے کے خواہاں ہیں لیکن نسبتاً غریب اور پسماندہ ممالک جو پہلے ہی اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں وہاں بڑی کثرت سے سگریٹ نوشی کی جاتی ہے اور گویا عملاً روزانہ لاکھوں ڈالر ز نہ صرف نذر آتش کئے جاتے ہیں بلکہ وہ آگ اپنے جسم کے اندر دہکائی جاتی ہے اور اس کا زہریلا دُھواں فضا میں چھوڑکر ماحول کو بھی آلودہ کیاجاتا ہے جس کے نتیجہ میں کئی قسم کے عوارض لاحق ہو کر انسانی صحتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس بدعادت سے متعلق کئی قسم کی اخلاقی اور روحانی کمزوریاں ایسی ہیں جو سوسائٹی میں مزید بے چینی اور انتشار کا موجب بنتی ہیں۔ نامعلوم تیسری دنیا کے ان غریب ممالک کے سربراہوں کو کب یہ توفیق ملے گی کہ وہ اپنے ممالک کے عوام کو تعلیم اور تشہیر اور مناسب قانون سازی کے ذریعہ اتنا شعور بخشیں گے کہ وہ ایسی لغویات سے بچیں اور اپنی اور اپنے ملکوں کی تعمیر و ترقی کے لئے مثبت کردار ادا کریں۔

جہاں تک ایک مومن کا تعلق ہے تو اسے ایسی لغویات ہر گز زیبانہیں کیونکہ ایسی چیزیں اس کی عبادت میں ، انفاق فی سبیل اللہ میں اور حقیقی فلاح کے حصول میں روک بنتی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب ہونے والے مومنوں کی ایک اہم علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں ۔ ایک اچھے مسلمان سے یہ توقع رکھی گئی ہے کہ وہ ان چیزوں سے پرہیز کرے جو بے مقصد اور بے فائدہ ہیں۔ اور اگر کوئی چیز نقصان دہ ہے تو اس سے بچنا تو اور بھی زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ ایک دفعہ مامور زمانہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان چیزوں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جو جواب ارشاد فرمایا وہ بہت پُرحکمت اور متوازن اور مبنی برتعلیمِ شریعتِ اسلام ہے ۔ آپ نے فرمایا:

’’حدیث میں آیا ہے وَمِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْئِ تَرْکُ مَا لَایَعْنِیْہِ۔یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑدی جا وے۔ اسی طرح پر یہ پان، حقّہ، زر دہ (تمباکو) ، ا فیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اوربھی نقصان ان کا بفر ض محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتاہے۔۔۔۔۔۔ عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہار ے سے کبھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضرصحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۹۲)

پھر حضور علیہ السلام اپنی تصنیف کشتی نوح میں جس کا دوسرا نام ’دعوت الایمان ‘ اور تیسرا نام تقویۃ الایمان ہے ، بڑے درد بھرے الفاظ میں فرماتے ہیں:

’’اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں ۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو۔ انسان کو تباہ کرنے والی صرف شراب ہی نہیں بلکہ افیون ، گانجہ، چرس، بھنگ ، تاڑی اور ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لئے عادت کر لیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے ۔ سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہرایک سال ہزارہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کر تے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ‘‘۔ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۰،۷۱)

حضور علیہ السلام کا یہ دردمندانہ خطاب تو دنیا کے تمام عقلمندو ں سے تھا اور ان کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے اور موت کو یاد دلاتے ہوئے ان کی بھلائی کی خاطر تھا۔ مگر مسلمانوں کو خصوصیت سے مخاطب ہوتے ہوئے اور انہیں حضرت رسول اللہﷺ سے تعلق کا واسطہ یاد دلاتے ہوئے فرمایا:

’’اے مسلمانو۔۔۔ تمہارے نبی علیہ السلام تو ہر ایک نشہ سے پاک اور معصوم تھے۔ جیسا کہ وہ فی الحقیقت معصوم ہیں۔ سو تم مسلمان کہلا کر کس کی پیروی کرتے ہو۔ قرآن انجیل کی طرح شراب کو حلال نہیں ٹھہراتا۔ پھر تم کس دستاویز سے شراب کو حلال ٹھہراتے ہو ۔ کیا مرنا نہیں ہے‘‘۔ (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۷۱، حاشیہ)

اس زمانہ میں جبکہ مغربی ممالک میں خصوصیت سے نوجوان لڑکے لڑکیوں اور سکولوں کے طلباء و طالبات کو ٹارگٹ بنا کر ان میں منشیات کے استعمال کو رواج دینے کی کوشش کی جا رہی ہے احمدی مسلمان والدین کا فرض ہے کہ وہ پوری طرح چوکس اور ہشیار ہو کر نہایت بالغ نظری کے ساتھ اپنے بچوں اور بچیوں کو ان مہلک زہروں سے بچانے کے لئے ہرممکن اقدام کریں اور ان کی جسمانی اور روحانی صحت کی حفاظت کے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ تمام ضروری احتیاطیں اور تدابیر اختیار کریں۔ ان احتیاطوں میں سے ایک بنیادی احتیاط یہ ہے کہ انہیں ایسے لوگوں کی بدصحبت سے بچایا جائے ۔ سگریٹ نوشی کے تعلق میں ہی جو تحقیقات سامنے آئی ہیں ان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو اگرچہ خود تو سگریٹ نہیں پیتے لیکن ایسے ماحول میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے جہاں سگریٹ نوشی ہوتی ہے وہ بھی اسی طرح سگریٹ کے زہریلے دھوئیں سے متأثر ہوتے ہیں ۔ اسے Passive Smoking کا نام دیا گیا ہے کہ یہ بھی ایک رنگ کی سگریٹ نوشی ہی ہے۔ سگریٹ کے عادی لوگوں پر دفاتر میں یا پبلک جگہوں میں سگریٹ پینے پر پابندی لگانے سے متعلق قوانین بنائے جا رہے ہیں۔

یہ تحقیقات تو آج ہو رہی ہیں لیکن ہمارے سید و مولا ، رحمۃ للعالمین ﷺ نے ۱۴۰۰سال پہلے ایک نہایت خوبصورت مثال کے ذریعہ ہمیں ایسی جگہوں میں اور ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے نقصانات سے متنبہ فرما دیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مثال میں بھی دھوئیں ہی کا ذکر ہے۔ سگریٹ نوش بھی تو ایک قسم کی بھٹی ہی جھونکتا ہے جس کا دھوأں پاس بیٹھنے والوں کے لئے اذیت اور تکلیف اور بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا :

’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ان دوشخصوں کی طرح ہے جن میں سے ایک کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری اٹھانے والا یا تو تجھے مفت خوشبو دے گا یا تُو اس سے خرید لے گا۔ ورنہ کم از کم تو اس کی خوشبو اور مہک تو سونگھ ہی لے گا۔ اور بھٹی جھونکنے والا یا تیرے کپڑے جلا دے گا یا تو اس سے بدبودار دھواں پائے گا‘‘۔(مسلم کتاب البرّ والصّلۃ)

حضرت اقد س مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’صحبت کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے جو اندر ہی اندر ہوتا چلا جاتاہے۔ اگر کوئی شخص ہر روز کنجریوں کے ہاں جاتا ہے اور پھر کہتاہے کہ کیا میں زنا کرتاہوں ؟۔ اس سے کہناچاہئے کہ ہاں تو کرے گا اور وہ ایک نہ ایک دن اس میں مبتلا ہو جاوے گا کیونکہ صحبت میں تاثیر ہوتی ہے ۔اسی طرح پر جو شراب خانہ میں جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی پرہیز کرے اور کہے کہ میں نہیں پیتا ہوں لیکن ایک دن آئے گا کہ وہ ضرور پئے گا ۔ پس اس سے کبھی بے خبر نہیں رہنا چاہئے کہ صحبت میں بہت بڑی تاثیر ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ۶ صفحہ ۲۴۷)

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۱۰؍اپریل ۱۹۹۸ء تا۱۶؍اپریل ۱۹۹۸ء)