حضرت محمد بن مَسْلَمَہؓ

خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2018ء

پھر حضرت محمد بن مَسْلَمَہ کا ذکر ملتا ہے جو ابتدائی انصاری مسلمانوں میں سے تھے۔ بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے۔ اُحد کی جنگ میں محمد بن مسلمہ بھی تھے جو بڑی ثابت قدمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ایک خصوصیت جو ان کو حاصل تھی وہ یہ ہے کہ ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ان کو اپنی تلوار عطا فرماتے ہوئے فرمایا کہ جب تک مشرکین کے ساتھ تمہاری جنگ ہو اس تلوار کے ساتھ ان سے جنگ کرتے رہنا۔ اور جب ایسا زمانہ آئے کہ مسلمان آپس میں لڑنے لگ جائیں تو یہ تلوار توڑ دینا اور اپنے گھر بیٹھ جانا یہانتک کہ کوئی تم پر حملہ آور ہو یا تمہاری موت آ جائے۔

انہوں نے اس نصیحت پر عمل کیا اور یہ عمل حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد کیا کہ عملاً اس تلوار کو توڑ دیا اور لکڑی کی ایک تلوار بنائی جو میان میں لٹکاتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟ فرمانے لگے کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ رعب قائم رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل بھی میں نے کر لی ہے کہ اب لوہے کی تلوار نہیں رکھنی اور لکڑی کی تلوار کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ بعض صحابہ کہتے تھے کہ اگر کسی پر فتنہ کا اثر نہیں ہوا یعنی وہ فتنہ جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں شروع ہوا تو اس کا اگر کسی پہ اثر نہیں ہوا تو وہ محمد بن مسلمہ تھے۔ انہوں نے فتنوں سے بچنے کے لئے ویرانے میں ڈیرہ ڈال لیا اور فرماتے تھے کہ جب تک فتنے ٹل نہیں جاتے میرا یہی ارادہ ہے کہ میں ویرانوں میں زندگی گزاروں۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 338 تا 340 باب محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جب جنگ کی تو اس لئے کہ مذہب پر حملہ ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مشرکین جو دین کو ختم کرنے کے لئے حملہ کر رہے ہیں ان سے لڑو۔ جب تک مسلمان اس بات پر قائم رہے ان کی طاقت بھی ایسی رہی کہ وہ غالب آتے رہے۔ اور جب آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں، جب منافقین کی باتوں میں آ کر آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے تو بیشک حکومتیں تو چلتی رہیں لیکن وحدت نہیں رہی اور آہستہ آہستہ حکومت بھی کمزور ہوتی گئی۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کےآپس میں جو اختلافات ہیں ان کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ایک دوسری پیشگوئی تھی وہ بھی پوری ہو چکی ہے کہ اندھیرے زمانے کے بعد جب روشنی کا زمانہ آئے، مسیح موعود کا زمانہ آئے تو مسیح موعود کو مان لینا اور جماعت کے ساتھ منسلک ہو جانا کہ اسی میں برکت ہے۔ لیکن اس آنے والے کو نہ مان کر اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اپنے ہی ملکوں میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج غیر مسلم دنیا عملاً مسلمانوں پر حکومت کر رہی ہے۔

حضرت محمد بن مسلمہ کے انتہائی صائب الرائے ہونے اور اطاعت گزار ہونے کے بھی واقعات ملتے ہیں اور اس وجہ سے خلفاء ان پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ خاص طور پر حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ نے انہیں بعض بہت اہم کام دئیے۔ بعض مہمّات سپرد کیں۔ تو بعض دفعہ عُمّال کی جو شکایات آتی تھیں، نظام کی طرف سے جو مختلف کام کرنے والے مقرر تھے، ان کے خلاف جب دوسرے ملکوں سے، دوسری جگہوں سے شکایات آتی تھیں تو حضرت عمرؓ ان کی تحقیق کے لئے محمد بن مسلمہ کو بھیجا کرتے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 3صفحہ 47باب ذکر المصریین و حصر عثمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 107 محمد بن مسلمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)