مسیحی احباب کی نجات اخروی کے لئےخدا کا الہامی نسخہ

سید احمد علی، نائب ناظر اصلاح و ارشاد، ربوہ

مسیحی احباب ٹھنڈے دل سے درج ذیل امور پر غور کریں اگر وہ ’’کتاب مقدس ‘‘ کے مطابق درست اور صحیح ہیں تو اپنی اخروی نجات کی خاطر انہیں قبول کریں۔

اول

(۱)۔۔۔ تورات میں لکھا ہے کہ جب قوم موسیٰ ؑ نے خدا کی آواز سننے سے انکار کر دیا تو خدا نے حضرت موسیٰ ؑ کو فرمایا کہ ’’ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں میں ان کے لئے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہ وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا‘‘۔ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۶ تا ۱۹)

اس پیشگوئی کے حسب ذیل سات امور پر یہود و نصاریٰ کو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (۱) خدا کا کلام اور اس کی آواز سننے سے بنی اسرائیل نے انکار کیا ۔ اس لئے اب ان کے بھائیوں سے مراد بنی اسماعیل ہیں کہ (۲) اب ان میں موسیٰ کی مانند صاحب شریعت (۳) نبی بھیجا جائے گا (۴) خدا اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا یعنی وہ سب وحی و الہام (کلام اللہ) ہوگا (۵) وہ خدا کے الہامی لفظوں میں خدا کا حکم سنائے گا (۶) وہ خد ا کی باتیں خدا کا نا م لے لے کر( یعنی ہر سورہ قرآنی سے پہلے ’’ بسم اللہ الرحمن ا لرحیم‘‘ پڑھ کر سنائے گا)۔ (۷) اس نبی کی ان خدائی باتوں کو جو لوگ خواہ وہ حضرت موسیٰ ؑ اور دوسرے نبیوں کے ماننے والے ہوں نہ سنیں گے تو و ہ خدا کے غضب کے نیچے آئیں گے۔

اب یہودی اور مسیحی اصحاب غو ر کریں کہ اس موسوی پیشگوئی کی تمام شقوں اور شرائط کے مطابق سوائے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اور کون سا نبی آیا ہے؟

دوم

حضرت موسیٰؑ نے اس آنے والے صاحب شریعت نبی کا آنا تکرار سے یوں بیان فرمایا کہ ’’ خداوند سیناء سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا ۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا ۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لئے ایک آتشی شریعت تھی‘‘۔(استثناء بات ۳۳ آیت ۲ ۔ بائبل ۱۹۲۲ ؁ء طبع لاہور)

اس میں درج ذیل امور قابل توجہ ہیں:

(۱) خداوند سے مراد عظیم الشان اور قابل احترا م وجود ہے جیسے حضرت ہاجرہ ؓ اپنے خاوند حضرت ابراہیم ؑ کو ’’خداوند ‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں اور بائبل میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً (پیدائش باب ۲۳ آیت ۱، ۶،۱۱، ۱۵۔ باب ۱۸ آیت ۲، باب ۴۲ آیت ۱۰، باب ۴۴ آیات ۷،۸،۹،۱۶،۱۷،۱۹،۲۰۔ ملاکی نبی باب ۳ آیت ۔ اور متی باب ۲۳ آیت ۳۹)۔

(۲) ’’سیناء‘‘ سے عرب کا علاقہ مراد ہے جیسا کہ لکھا ہے ’’ہاجرہ عرب کا کوہ سینا ء ہے‘‘ (گلتی باب ۴ آیت ۲۵) گویا وہ صاحب شریعت نبی عرب میں ہوگا۔

(۳) ’’ شعیر‘‘ سے بھی عرب کا ملک مراد ہے۔ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۱،۱۲ میں بھی اس عربی نبی کا شعیر سے تعلق بتایا ہے جہاں ہجرت کا اشارہ ہے۔

(۴) ’’کوہ فاران‘‘ میں بھی عرب کے اس علاقہ کی طرف اشارہ ہے جہاں حضرت اسماعیل ؑ آباد رہے ۔ لکھا ہے ’’ اسماعیل۔۔۔ فاران کے بیابان میں رہا‘‘ (پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱)

(۵)’’ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا‘‘،میں زبردست پیشگوئی ہے کہ وہ عظیم الشان صاحب شریعت نبی مثیل موسیٰ اتنا پاک و مطہر وجود ہوگا کہ اس کے ماننے والے بے شمار لوگ مقدس ہوجائیں گے۔ اورکسی اہم موقع پر اس کے ہمراہ دس ہزار مقدسین کا گروہ ہوگا۔ چنانچہ فتح مکہ کے وقت آنحضرت ﷺ کے ہمراہ دس ہزار صحابہ موجود تھے۔(دیکھیں بخاری با ب غزوۃ لفتح)

یہ پیشگوئی اپنی تمام شقوں کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ پوری ہو گئی ا ور آپ کے سوا کسی اورنبی کے ساتھ دس ہزار مقدس لوگ جمع نہیں ہوئے اس لئے عیسائیوں نے ۱۹۳۱ ؁ء میں اردو بائبلوں میں لفظ ’’ دس ہزار‘‘ کا بدل کر ’’لاکھوں‘‘ کر دیا ہے تا کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت نہ ماننی پڑے۔ یہ تحریف بائبل کی بین دلیل ہے۔ مگر اس سے پہلے کی اردو بائبلوں میں اورانگریزی کی پہلی اور بعد کی سب بائبلوں میں ’’ دس ہزار‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔

(۶) ’’آتشی شریعت‘‘ کہہ کر بتایا گیا کہ اس نبی موعود کے منکرین اورمقابلہ کرنے والے لوگوں پرخدا کا غضب نازل ہوگا ۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ اورآپ ؐ کے خلفاء کرام کے زمانہ میں جنگوں میں یہود و نصاریٰ کے بیشمار فوجی مارے گئے اور پیشگوئی پوری ہوئی۔

علاوہ ازیں حضرت موسیٰ ؑ کے بعد آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی اور نبی ’’ شریعت‘‘ لے کر نہیں آیا اور عیسائی تو ’’شریعت ‘‘ کو ’’ لعنت‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ لکھا ہے کہ ’’مسیح ۔۔۔ نے ہمیں شریعت کی لعنت سے چھڑایا‘‘ (گلتی باب ۳ آیت ۱۳)

سو ان تمام موسوی پیشگوئیوں کا مصداق آنحضرت ﷺ کو ماننے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ورنہ حضرت موسیٰ کو جھوٹا ماننا پڑے گا کہ ان کی یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی۔

سوم

حضرت موسیٰ ؑ کے بعد ’’یسعیاہ نبی‘‘ نے بھی اس صاحب شریعت نبی کی آمد کی یاددہانی یہ کہہ کر کرائی اور بتایا کہ وہ شریعت تمام اقوام عالم کی روشنی کا موجب ہوگی:

’’ میری طرف متوجہ ہو اے میرے لوگو! میری طرف کان لگا اے میری امت کیونکہ شریعت مجھ سے صادر ہوگی ۔ میں اپنی شرع کو قوموں کی روشنی کے لئے قائم کرونگا۔ (یسعیاہ باب ۵۱ آیت ۴)۔

چہارم

ان نبیوں کے بعد ’’ ملاکی نبی‘‘ بھی اس موعود نبی اور عہد کے رسول کی طرف یوں متوجہ کرتے ہیں کہ : ’’دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا ا ور خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہاں اپنی ہیکل میں آ موجود ہوگا ۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزومند ہو آئے گا۔ (ملاکی باب ۳ آیت ۱)

گویا ملاکی نبی تک بھی وہ نبی نہ آیا تھا۔

پنجم

’’ انجیل‘‘ سے ظاہر ہے کہ یوحنا اور حضرت مسیح ناصری ؑ تک بھی اس نبی کی انتظار رہی جیسا کہ یوحنا نے لوگوں کو کہا کہ ’’ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیاہ ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیاکہ نہیں‘‘۔(یوحنا باب ۱ آیت ۲۰،۲۱)

ششم

جناب یسوع مسیح تو اس موعود نبی کے اپنے بعد آنے کی پیشگوئی کرتے ہیں کہ: ’’ مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح (حاشیہ بائبل ۱۹۲۲ ؁ء طبع لاہور) ’’ وکیل یا شفیع آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا‘‘۔(یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲،۱۳)

’’میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہوگا کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا‘‘۔ (یوحنا باب ۱۶ آیت ۷، ۸)

یعنی وہ نبی مسیح کے بعد آئے گا۔

میرے پیارے حق کے طلب گار عیسائیو! ان مذکورہ بالا تمام پیشگوئیوں کے عین مطابق قرآن کریم نے آ کر تمام دنیا کے لئے یہ اعلان کیا کہ (ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) ۔ یہ قرآن وہ الہامی کتاب ہے جویقیناًسچائی کی تمام ان راہوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے جو سب سے زیادہ درست ہے۔ گویا حضرت مسیح ناصری ؑ کی فرمودہ انجیل یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲،۱۳ کی پیشگوئی کا موعود مصداق آ گیا ہے ؂

جب کھل گئی سچائی پھر اس کو مان لینا

نیکوں کی ہے یہ خصلت راہ حیا یہی ہے

ہفتم

جناب مسیح ناصری ؑ کے بعد انجیل نویسوں کے زمانہ میں بھی حضرت موسیٰ ؑ وغیرہ کی مذکورہ پیش خبریوں کا شدت سے پورا ہونے کا انتظار تھا۔ جیسا کہ پطرس کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ:

(الف): ۔۔۔’’ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ۔ چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی برپا کرے گا جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا‘‘۔(اعمال باب ۳ آیت ۲۱،۲۲)

یہ عبارت بڑی غور طلب ہے اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس میں حضرت مسیح ؑ کے تمثیلی طور پر ’’آسمان میں‘‘ اس وقت تک رہنے کا ذکر ہے جب تک وہ موعود نبی آ نہ جائے۔ ا ن کے آ جانے کے بعد حضرت مسیح ناصری ایلیاہ نبی کی طرح ’’ نئی پیدائش‘‘ میں کسی اور نام سے دنیا میں آئیں گے جو آپ کا مثیل ہوگا۔

(ب):۔۔۔ پھر لکھا ہے کہ ’’ یہ وہی موسیٰ ہے جس نے بنی اسرائیل سے کہاکہ خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی پیدا کرے گا‘‘۔(اعمال باب ۷ آیت ۳۷)

ہشتم

پھر ان سب کے بعد ’’پولوس‘‘ نے تمام مسیحیوں کو اس موعود اورعظیم الشان نبی کی برتری اور فضیلت کا ذکر کر کے یہ خوشخبری دی کہ : ’’ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت نا تمام ۔ لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتا رہے گا‘‘ (۱،کرنتھیوں باب ۱۳ آیات ۹،۱۰)

عیسائی حضرات ’’پولوس ‘‘ کے ان الفاظ کو باربار غور سے پڑھ کر سمجھیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ موعود شریعت لے کر موسیٰ کی مانند نبی عرب میں آئے گا تو پھر تورات و انجیل وغیرہ سب ’’ناقص‘‘بے کار ہو جائیں گی۔ سو عیسائی حضرات سن لیں کہ ان مذکورہ تمام پیشگوئیوں کا مصداق عربی نبی اسلام مذہب اور قرآن کریم کامل کتاب لے کر آگئے اور خدا کا کھلا یہ اعلان آ پ تک پہنچا یا جا رہا ہے ۔ قرآن کہتاہے:

(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً) (المائدہ : ۴) یعنی آج تمہارے فائدہ اور نجات کے لئے میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت اور احسان کو پورا کر دیا ہے اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے۔ بلکہ تمام مذاہب اور ادیان عالم کے ماننے والوں کو یہ کہہ کر متنبہ اورخبردار کر دیا کہ :(و من یبتغ غیرالاسلام دِینا فلن یقبل منہ)( آل عمران : ۸۶) کہ اب دین اسلام کے بعد جو شخص بھی اسلام کو جو کامل اور قائم رہنے والا دین ہے چھوڑکر کسی بھی اور دین کو اختیار کر ے گا تووہ یاد رکھے کہ وہ دین خدا کی جناب میں ہرگز مقبول نہ ہوگا۔ پس غور کرو اور خوب سوچ لو کہ ؂

ہمیں کچھ کیں نہیں بھائیو نصیحت ہے غریبانہ

کوئی جو پاک دل ہووے دل و جاں اس پہ قرباں ہے

(الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍نومبر ۱۹۹۷ء  تا ۲۰؍نومبر ۱۹۹۷ء)