حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطباء اور ڈاکٹروں کے لئے زریں ہدایات

ملک محمد داؤد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام علم ادیان کے فتح نصیب جرنیل تو تھے ہی ، علم الابدان پر بھی آپ کو پوری دسترس تھی۔بے انتہا دینی مصروفیات کے باوجود جسمانی شفا کا آپ کو کس قدر خیال تھا اس کی ایک جھلک حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں:

’’بعض اوقات دوا پوچھنے والی گنواری عورتیں زور سے دستک دیتی ہیں اور اپنی سادہ اور گنواری زبان میں کہتی ہیں’’مِرْجا جی جرا بوا کھولو تاں‘‘۔ (یعنی مرزا صاحب ذرا دروازہ تو کھولیں۔ ناقل) حضرت اس طرح اٹھتے ہیں جیسے مطاع ذی شان کا حکم آیاہے ۔اور کشادہ پیشانی سے باتیں کرتے اور دوا بتاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں وقت کی قدرپڑھی ہوئی جماعت کو بھی نہیں تو پھر گنوار تو اور بھی وقت کو ضائع کرنے والے ہیں۔ ایک عورت بے معنی بات چیت کرنے لگ گئی اور اپنے گھر کا رونا اور ساس نند کا گلہ شروع کر دیا اور گھنٹہ بھر اسی میں ضائع کر دیا ہے۔ آپ وقار اور تحمل سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ زبان سے یااشارہ سے اس کوکہتے نہیں کہ بس اب جاؤ دوا پوچھ لی اب کیاکام ہے ہمار ا وقت ضائع ہوتاہے ۔وہ خود ہی گھبرا کر کھڑی ہوتی ہے اور مکان کو اپنی ہوا سے پاک کرتی ہے۔ ایک دفعہ بہت سی گنوار عورتیں بچوں کو لے کر دکھانے آئیں۔ اتنے میں اندرسے بھی چند خدمت گار عورتیں شربت شیرہ کے لئے برتن ہاتھوں میں لئے آ نکلیں اور آپ کو دینی ضرورت کے لئے ایک بڑا اہم مضمون لکھنا تھا اور جلد لکھنا تھا۔ میں اتفاقاً جا نکلا ۔ کیا دیکھتا ہوں حضرت کمر بستہ اور مستعد کھڑے ہیں۔جیسے کوئی یورپین اپنی دنیوی ڈیوٹی پر چست اور ہوشیار کھڑا ہوتاہے اور پانچ چھ صندوق کھول رکھے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شیشیوں اور بوتلوں میں سے کسی کو کچھ اور کسی کو کوئی عرق دے رہے ہیں اور کوئی تین گھنٹے تک یہی بازار لگا رہا اور ہسپتال جاری رہا۔فراغت کے بعد میں نے عرض کیا ۔ حضرت یہ تو بڑی زحمت کاکام ہے اور اس طرح بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوجاتاہے۔اللہ اللہ کس نشاط اور طمانیت سے مجھے جواب دیتے ہیں کہ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے ۔ یہ مسکین لوگ ہیں ۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں ۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھاکرتاہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں اور فرمایا یہ بڑے ثواب کاکام ہے ۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہوناچاہئے ‘‘۔ (حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ۔ سیرت مسیح موعود صفحہ ۲۰،۲۱ ۔ مطبع سٹیم پریس قادیان۔ بارسوم ۲۱؍اپریل ۱۹۳۵ء پرنٹر چوہدری اللہ بخش)

ایک عظیم روحانی راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک حاذق طبیب بھی تھے ۔ آپ نے علم ادیان کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ علم الابدان کے بارہ میں بھی ماہرانہ ہدایات و نصائح فرمائی ہیں جس کی ایک جھلک درج ذیل اقتباسات میں پیش کی جارہی ہے۔

خدا کا خانہ خالی رکھو

طاعون اور ہیضہ وغیرہ وباؤں کا ذکر تھا فرمایا :

’’ بدقسمت ہے وہ انسان کہ ان بلاؤں سے بچنے کے واسطے سائنس ، طبعی یاڈاکٹروں وغیرہ کی طرف توجہ کر کے سامان تلاش کرتاہے اور خوش قسمت ہے وہ جو خدا تعالیٰ کی پناہ لیتاہے اور کون ہے جو بجز خدا تعالیٰ کے ان آفات سے پناہ دے سکتاہو؟ اصل میں یہ لوگ جو فلسفی طبع یا سائنس کے دلدادہ ہیں ایسی مشکلات کے وقت ایک قسم کی تسلی اور اطمینان پانے کے واسطے بعض دلائل تلاش کر لیتے ہیں اور اس طرح سے ان وباؤں کے اصل بواعث اور اغراض سے محروم رہ جاتے ہیں اور خداتعالیٰ سے پھر بھی غافل ہی رہتے ہیں۔ہماری جماعت کے ڈاکٹروں سے میں چاہتا ہوں کہ ایسے معاملات میں اپنے ہی علم کو کافی نہ سمجھیں بلکہ خدا کا خانہ بھی خالی رکھیں اور قطعی فیصلے اور یقینی رائے کا اظہار نہ کردیاکریں۔ کیونکہ اکثر ایساتجربہ میں آیاہے کہ بعض ایسے مریض ہیں جن کے حق میں ڈاکٹروں نے متفقہ طور سے قطعی اور یقینی حکم موت کا لگا دیا ہوتاہے ان کے واسطے خدا کچھ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ وہ بچ جاتے ہیں۔ اور بعض ایسے لوگوں کی نسبت جو کہ اچھے بھلے اور بظاہر ڈاکٹروں کے نزدیک ان کی موت کے کوئی آثار نہیں نظر آتے خدا قبل از وقت ان کی موت کی نسبت کسی مومن کو اطلاع دیتاہے۔ اب اگرچہ ڈاکٹروں کے نزدیک اس کا خاتمہ نہیں مگر خدا کے نزدیک اس کاخاتمہ ہوتاہے اور چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آ جاتاہے۔

علم طب یونانیوں سے مسلمانوں کے ہاتھ آیا مگر مسلمان چونکہ موحد اور خدا پرست قوم تھی انہوں نے اسی واسطے اپنے نسخوں پر ھوالشافی لکھنا شروع کر دیا۔ ہم نے اطباء کے حالات پڑھے ہیں۔ علاج الامراض میں مشکل امر تشخیص کو لکھا ہے ۔ پس جو شخص تشخیص مرض میں ہی غلطی کرے گا وہ علاج میں بھی غلطی کرے گا کیونکہ بعض امراض ایسے اَدَق اور باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ پس مسلمان اطباء نے ایسی دقتوں کے واسطے لکھا ہے کہ دعاؤں سے کام لے۔ مریض سے سچی ہمدردی اور اخلاص کی وجہ سے اگر انسان پوری توجہ اور درد دل سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس پرمرض کی اصلیت کھول دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غیب مخفی نہیں۔

پس یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر صرف اپنے علم اور تجربہ کی بنا پر جتنا بڑا دعویٰ کرے گا اتنی ہی بڑی شکست کھائے گا ۔مسلمانوں کو توحید کا فخر ہے ۔ توحید سے مراد صرف زبانی توحید کااقرار نہیں بلکہ اصل یہ ہے کہ عملی رنگ میں حقیقتاً اپنے کاروبار میں اس امر کا ثبوت دے دو کہ واقعی تم موحد ہو اور توحید ہی تمہارا شیوہ ہے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر ایک امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتاہے ۔ اس واسطے خوشی کے وقت الحَمدُللّٰہ اور غمی اورماتم کے وقت اِنَّا لِلّٰہ کہہ کر ثابت کرتاہے کہ واقع میں اس کا ہر کام میں مرجع صرف خدا ہی ہے ۔جولوگ خدا تعالیٰ سے الگ ہو کر زندگی کا کوئی حظ اٹھانا چاہتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی زندگی بہت ہی تلخ ہے کیونکہ حقیقی تسلی اور اطمینان بجز خدامیں محو ہونے اور خدا کو ہی ہر کام کا مرجع ہونے کے حاصل ہو سکتا ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی تو بہائم کی زندگی ہوتی ہے اور وہ تسلی یافتہ نہیں ہو سکتے۔ حقیقی راحت اور تسلی انہیں لوگوں کو دی جاتی ہے جو خدا سے الگ نہیں ہوتے اور خدا تعالیٰ سے ہر وقت دل ہی د ل میں دعائیں کرتے رہتے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد پنجم طبع جدید۔ صفحہ ۶۱۲،۶۱۳)

طبیب اپنے بیماروں کے واسطے دعا کریں

فرمایا:

’’طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمارکے واسطے دعا کیا کرے۔ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا تعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے لیکن یاد رکھو کہ مؤثرِ حقیقی خدا تعالیٰ ہی ہے ۔اسی کے فضل سے سب کچھ ہو سکتاہے۔ بیماری کے وقت چاہئے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت اللہ تعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلا دیتاہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتاہے ۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتادیتاہے ۔ یہ اس کافضل ہے‘‘ ۔(ملفوظات جلد ۵، طبع جدید صفحہ ۵۳،۵۴)

دعا کے نتیجہ میں امراض سے شفا

فرمایاکہ :

’’بیماریوں میں جہاں قضا مبرم ہوتی ہے وہاں تو کسی کی پیش ہی نہیں جاتی اور جہاں ایسی نہیں وہاں البتہ بہت سی دعاؤں اور توجہ سے اللہ تعالیٰ جواب بھی دے دیتاہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ مشابہ مبرم ہوتی ہے اس کے ٹلا دینے پر بھی خداتعالیٰ قادرہے ۔ یہ حالت ایسی خطرناک ہوتی ہے کہ تحقیقات بھی کام نہیں دیتیں اور ڈاکٹر بھی لاعلاج بتا دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل کی یہ علامت ہوتی ہے کہ بہتر سامان پیدا ہو جاویں اور حالت دن بدن اچھی ہوتی جاوے ورنہ بصورت دیگر حالت مریض کی دن بدن ردی ہو تی جاتی ہے اور سامان ہی کچھ ایسے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اکثر ایسے مریض جن کے لئے ڈاکٹر بھی فتویٰ دے چکتے ہیں اور کوئی سامان ظاہری زندگی کے نظر نہیں آتے ۔ ان کے واسطے دعا کی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ ان کو معجزانہ رنگ میں شفا اور زندگی عطا کرتاہے گویا کہ مردہ زندہ ہونے والی بات ہوتی ہے‘‘۔(ملفوظات جلد ۵ طبع جدید ص ۵۳۷)

معالج کے لئے ضروری صفات (علم ، نیکی اور تقویٰ)

ایک صاحب گھر میں آئے ۔طب کا ذکر شروع ہوا ۔ فرمایا کہ :

’’طبیب میں علاوہ علم کے جو اس کے پیشہ کے متعلق ہے ایک صفت نیکی اور تقویٰ بھی ہونی چاہئے ورنہ اس کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا۔ ہمارے پچھلے لوگوں میں اس کاخیال تھا۔ اورلکھتے ہیں کہ جب نبض پر ہاتھ رکھے تویہ بھی کہے ’’سُبْحَانَکَ لَاعِلْمَ لَنَا اِلاَّ مَا عَلّمْتَنَا‘‘۔(البقرۃ:۳۳) یعنی اے خداوند بزرگ ہمیں کچھ علم نہیں مگر وہ جو تو نے سکھایا ‘‘۔(ملفوظات جلد ۵ ، طبع جدید ص۱۸۱)

معالج کے لئے ضروری صفات (علم ، نیکی اور تقویٰ)

ایک صاحب گھر میں آئے ۔طب کا ذکر شروع ہوا ۔ فرمایا کہ :

’’طبیب میں علاوہ علم کے جو اس کے پیشہ کے متعلق ہے ایک صفت نیکی اور تقویٰ بھی ہونی چاہئے ورنہ اس کے بغیر کچھ کام نہیں چلتا۔ ہمارے پچھلے لوگوں میں اس کاخیال تھا۔ اورلکھتے ہیں کہ جب نبض پر ہاتھ رکھے تویہ بھی کہے ’’سُبْحَانَکَ لَاعِلْمَ لَنَا اِلاَّ مَا عَلّمْتَنَا‘‘۔(البقرۃ:۳۳) یعنی اے خداوند بزرگ ہمیں کچھ علم نہیں مگر وہ جو تو نے سکھایا ‘‘۔(ملفوظات جلد ۵ ، طبع جدید ص۱۸۱)

ہمدردی اور احتیاط

سوال ہوا کہ طاعون کااثر ایک دوسرے پر پڑتاہے ایسی صورت میں طبیب کے واسطے کیاحکم ہے ۔ فرمایا :

’’طبیب او ر ڈاکٹرکو چاہئے کہ وہ علاج معالجہ کرے اور ہمدردی دکھائے لیکن اپنا بچاؤ رکھے۔ بیمار کے بہت قریب جانا اور مکان کے اندر جانا اس کے واسطے ضروری نہیں ہے وہ حال معلوم کر کے مشورہ دے ۔ ایسا ہی خدمت کرنے والوں کے واسطے بھی ضروری ہے کہ اپنا بچاؤ بھی رکھیں اور بیمار کی ہمدردی بھی کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد ۵،طبع جدید ص ۱۹۲)

ڈاکٹروں کے لئے عبرت کے مواقع

مختلف بیماریوں کا ذکر تھا ۔ فرمایا :

’’ڈاکٹروں کے واسطے عبرت کے نظاروں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے بہت موقعہ ہوتا ہے ۔قسما قسم کے بیمار آتے ہیں ۔بعض کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے جاتے ہیں ، بعض کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ شدت بیماری کے سبب لَامِنَ الْاَحْیَائِ وَلَامِنَ الْاَمْوَاتِ ، نہ زندوں میں داخل نہ مُردوں میں۔ لیکن ایسے نظاروں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے سے سخت دلی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور ضروری بھی ہے کیونکہ نرم دل اور رقیق القلب ایسا کام نہیں کر سکتاکیونکہ سرجری کا کام بہت حوصلے کا کام ہے ۔(ملفوظات جلد ۵ ، طبع جدید ص ۳۸۰)

(بشکریہ روزنامہ الفضل ربوہ ۔ ۱۴؍اپریل ۱۹۹۹ء)

(مطبوعہ :الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍مئی ۱۹۹۹ء تا۲۷؍مئی ۱۹۹۹ء)