مسیح اور مہدی کا مقام

بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اس بات کے مدعی ہیں کہ آپ وہی مسیح اور مہدی ہیں جن کے ظہور کے متعلق قرآن کریم ،احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان اُمت میں پیشگوئیاں موجود ہیں اور آپؑ نے اپنا وہی مقام بیان فرمایا ہے جو ان پیش خبریوں میں آنے والے مسیح اور مہدی کا بیان کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ آپ کو آپ کے جملہ دعاوی میں سچا جانتی ہے۔ اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگان و علماءامت کی روشنی میں آنے والے مہدی اور مسیح کے مقام کی وضاحت کر دی جائے۔

مسیح و مہدی کا مقام اور قرآن شریف

قرآن کریم کی سورۃ الجمعہ آیت نمبر۳،۴ 62:3 میں آنحضرت ﷺکی دو بعثتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپکی پہلی بعثت عرب کے امیّوں میں ہوئی اور دوسری بعثت وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوا بِھِم کے مطابق آخرین میں مقدر تھی جب یہ آیات نازل ہوئیں تو صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺسے یہ دریافت فرمایا کہ یہ آخرین کون لوگ ہیں جن میں حضورﷺ کی دوسری بعثت ہو گی۔ اس پر آنحضرت ﷺنے مجلس میں موجود حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا۔

لَوکَانَ الِایمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالُہ رَجُلُ اَورِجَالُ مِن ھٰوُلَآئِ (بخاری کتاب التفسیر سورة الجمعہ)اگر ایمان ثریا ستارہ پر بھی چلا گیا تو ایک فارسی الاصل شخص یا اشخاص اس ایمان کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔

پس اس آیت میں آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والے فارسی الاصل شخص کی بعثت کو آنحضرت ﷺ کی بعثت قرار دیا گیا ہے گویا آنے والا موعود آنحضرت ﷺکا ظلِّ کامل ہو گا۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ(سورة الصف: ۱۰)

وہی خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دیکر مبعوث فرمایا تا کہ وہ اسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دے۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اسلام کا ادیان باطلہ پر غلبہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ اس آیت کے اصل مصداق آنحضرتﷺ ہی ہیں لیکن وہ موعود غلبہ مسیح اور مہدی کے زمانہ میں ظاہر ہونا تھا اس لئے مسیح اور مہدی کو آنحضرتﷺ سے جدا نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کا آنا آنحضرتﷺکا آنا قرار دیا ہے۔

اس مفہوم کی وضاحت آنحضرت ﷺکے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا:۔

یُھلِکُ اللّٰہُ فِی زَمَانِہِ المِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الِاسلَامَ (ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال)امام مہدی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کو مٹا دے گا۔

پس اس آیت سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ امت میں ظاہر ہونے والے مسیح اور مہدی آنحضرتﷺکے روحانی فرزند اور ظل کامل ہونگے۔ اس لئے اس کے زمانہ میں ظاہر ہونے والے غلبہ کو آنحضرتﷺ کا غلبہ قرار دیا گیا ہے۔

مسیح اور مہدی کا مقام اور احادیث نبویّہ

۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔

مَثَلُ اُمَّتِی مَثَلُ المَطَرِ لَایُدرٰی اَوَّلُہ خیرُ ام اٰخِرُہ (مشکوة کتاب الرقاق باب ثواب ھذہ الامة)کہ میری امت کی مثال اس بارش کی سی ہے کہ جس کے متعلق معلوم نہیں کہ اس کا اول حصہ بہترین ہے یا آخری حصہ۔

آنحضرتﷺنے اس حدیث میں اُمت کی مثال بارش سے دی اور بتایا کہ معلوم نہیں کہ اس کا اوّل زیادہ بہتر ہے یا آخر۔ آپ نے اُمت کی ابتداءکو بہتر تو اس بنا پر قرار دیا کہ آپ اُمت میں موجود تھے اور اُمت کے آخر کو بہتر قرار دینا اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ آخری زمانہ میں اُمت میں آپ کے مظہر کامل مسیح اور مہدی نے ظاہر ہونا تھا۔

۲۔ آپ نے آخری زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کو نبی اللہ کے خطاب سے نوازا۔ چنانچہ مسلم کی حدیث میں آپ کیلئے چار دفعہ نبی اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفتہ )

۳۔ آپ نے آنے والے موعود کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور اسکی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا۔(بحار الانوار جلد۱۳ صفحہ۱۷ )

۴۔ آپ نے آنے والے موعود کو قبول کرنے کی اُمت کو یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر برف کے پہاڑوں پر سے گھسٹ کر بھی جانا پڑے تو پھر بھی اسے قبول کرنا اور اس کی خدمت میں حاضر ہو کر میرا سلام پیش کرنا۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی)

۵۔پھر آپ نے فرمایا کہ جس نے مہدی کو جھٹلایا اس نے گویا کفر کیا۔(حجج الکرامہ صفحہ۳۵۱۔از نواب محمد صدیق حسن خان مطبع شاہ جہاں بھوپال)

مسیح اور مہدی کا مقام اور علماءو بزرگان امت

حضرت محمد ابن سیرینؒ: (۳۳ ھ تا ۱۱۰ھ)

آپ امام مہدی کے بارہ میں فرماتے ہیں:۔

”اس اُمت میں ایک خلیفہ ہو گا جو حضرت ابوبکر اور عمر سے بہتر ہو گا۔ کہاگیا کیا ان دونوں سے بہتر ہو گا۔ انہوں نے فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ بعض انبیاءسے بھی افضل ہو“(جحج الکرامہ صفحہ۳۸۶ ۔ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہاں بھوپال)

حضرت امام باقر علیہ السلام: (۵۱ھ تا ۱۱۴ھ)

”جب امام مہدی آئے گا تو یہ اعلان کرے گا کہ اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم ؑ اور اسمعٰیل ؑ کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی ابراہیمؑ اور اسمعٰیل ؑ ہوں۔ اور اگر تم میں سے کوئی موسیٰؑ اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی موسیٰؑ اور یوشع ہوں۔ اور اگر تم میں سے کوئی عیسیٰ ؑاور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ عیسیٰ ؑاور شمعون میں ہی ہوں۔ اور اگر تم میں سے کوئی محمد مصطفی ﷺاور امیرالمؤمنین (علیؓ) کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد مصطفی ﷺ اور امیرالمؤمنین میں ہی ہوں۔“ (بحارُالانوار جلدنمبر۱۳ صفحہ۲۰۲ )

حضرت امام عبدالرزاق قاشانی ؒ: (وفات ۷۳۰ھ)

”آخری زمانہ میں جو امام مہدی آئیں گے وہ احکامِ شریعت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے اور معارف و علوم اور حقیقت میں آپ کے سوا تمام انبیاءاور اولیاءان کے تابع ہوں گے۔ اور یہ بات ہمارے مذکورہ بیان کے خلاف نہیں ہے۔ کیونکہ امام مہدی کا باطن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطن ہو گا۔“(شرح فصوص الحکم مطبع مصطفی البابی الجلی صفحہ۴۲۔۴۳ )

عارف ربّانی محبوب سجانی سیّد عبدالکریم جیلانیؒ: (۷۶۷ھ تا۸۳۷ھ)

”اس (امام مہدی….ناقل) سے مراد وہ شخص ہے جو صاحبِ مقام محمدی ہے۔ اور ہر کمال کی بلندی میں کامل اعتدال رکھتا ہے۔“ (انسان کامل (اُردو) باب نمبر۶۱ مہدی ؑکا ذکر صفحہ ۳۷۵ نفیس اکیڈمی کراچی)

حضرت ملاعبدالرحمن جامی: (۸۱۷ھ تا ۸۹۸ھ)

”حضرت نبی کریم ﷺ کا مشکوٰة باطن ہی محمدی ولایت خاصّہ ہے اور وہی بجنسہ خاتم الاولیاءحضرت امام مہدی علیہ السلام کا مشکوٰة باطن ہے کیونکہ امام موصوف آنحضرت ﷺ کے ہی مظہر کامل ہیں۔“ (شرح فصوص الحکم ہندی از حضرت ملا عبدالرحمن جامی صفحہ۶۹ )

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی: (۱۱۱۴ھ تا ۱۱۷۵ھ)

”اُمت محمدیہ میں آنے والے مسیح موعود کا یہ حق ہے کہ اس میں سیدالمرسلین ﷺکے انوار کا انعکاس ہو عامة الناس یہ گمان کرتے ہیں کہ جب وہ موعود دنیا میں آئے گا تو اس کی حیثیت محض ایک امتی کی ہو گی۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا۔ اور اسی کا دوسرا نسخہ (TRUE COPY) ہو گا۔ پس اس کے اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے“۔ (الخیر الکثیراز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صفحہ ۷۲-مدینہ پریس بجنور )

شیخ محمد اکرم صابری: (۱۱۳۰ھ)

”یعنی وہ محمد ﷺہی تھے۔جنہوں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہور فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفی ﷺکی روحانیت بروز کے طور پر حضرت آدم میں ظاہر ہوئی اور محمد ﷺہی ہونگے جو آخری زمانہ میں خاتم الولایت امام مہدی کی شکل میں ظاہر ہونگے یعنی محمد مصطفی ﷺکی روحانیت مہدی میں ظہور اور بروز کرے گی“۔ (اقتباس الانوار از شیخ محمد اکرم صابری۔ صفحہ۵۲)

اُردو کے مشہور شاعر جناب امام بخش ناسخ: (۱۱۸۸ھ تا ۱۲۵۳ھ)

اوّل و آخر کی نسبت ہوگی صادق یہاں

صورت معنی شبیہ مصطفی پیدا ہوا

دیکھ کر اس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں

یوں کہیں گے معجزے سے مصطفی پیدا ہوا

(دیوان ناسخ جلد دوم صفحہ۵۴ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ ۱۹۲۳ء)

بزرگ صوفی حضرت خواجہ غلام فرید : آف چاچڑاں شریف (۱۲۴۸ھ تا ۱۳۶۷ھ)

”حضرت آدمؑ صفی اللہ سے لے کر خاتم الولایت امام مہدی تک حضور حضرت محمد مصطفی ﷺ بارز ہیں۔ پہلی بار آپ نے حضرت آدم علیہ السلام میں بروز کیا ہے….اس کے بعد دوسرے مشائخ عظام میں نوبت بنوبت بروز کیا ہے۔ اور کرتے رہیں گے۔ حتیّٰ کہ امام مہدی میں بروز فرمائیں گے۔ پس حضرت آدم سے امام مہدی تک جتنے انبیاءؑ اور اولیاءؑقطب مدار ہوئے ہیں تمام روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر ہیں۔“ (مقابیس المجالس صفحہ۴۱۹مقبوس نمبر۶۲از : مولانا رکن الدین۔ ترجمہ: کپتان واحد بخش سیال اسلامک بک فاؤنڈیشن لاہور صوفی فاؤنڈیشن بہاولپور)

شیعہ مجتہد سید علی الحائری: (۱۲۸۸ھ تا ۱۳۶۰ھ)

”حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حضرت مسیح ؑپر افضلیت واضح اور ثابت ہے۔“(غایة المقصود جلد نمبر۲ صفحہ۳۸۔ از مولوی سید علی حائری مطبع شمس الہند لاہور)

شیعہ مجتہدمولانا سید محمد سبطین: (۱۳۳۵ھ)

مہدی نفس رسول ﷺو مظہر اوصاف رسول ﷺ و نائب خاص رسول اور آئینہ کمالات رسول ﷺ ہے اور ظہور انوار محمدی و اوصاف و کمالات محمدی اس جناب پر موقوف ہے پس چاہیئے کہ وہ ہم شکل و ہم نام وہم کنیت وجزو نور محمدی خلق اور سیرت میں بھی مثل محمد ہو بلکہ ایسا ہونا ضروری و لازمی ہے۔ (الصراط السوی فی احوال المہدی صفحہ۴۰۹۔از مولانا سید محمد سبطین ناشر مینجر البرہان بک ڈپو A۔۳۳ عمر روڈ اسلام پورہ لاہور)

قاری محمد طیّب سابق مہتمم دارالعلوم دیو بند: (۱۳۲۰ھ تا ۱۴۰۳ھ)

(i)”چونکہ حضرت عیسوی کے وجود میں آنے کا باعث صورت محمدی کا تمثل ہوا ہے اور آپ حضور کے ابن تمثالی ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے وَلَدُسِرُلِاَبِیہِ کے اصول پر ذات عیسوی کو حضور کی ذات اقدس سے وہ خاص خصوصیات پیدا ہو گئیں جو قدرتی طور پر اور انبیاءعلیھم السلام کو نہیں ہو سکتی تھیں چنانچہ منصب خاتمیت‘ طور مقبولیت‘ مقام عبدیت‘ غلبہ رحمت‘ شان معصومیت، وضع علم و معرفت، نوعیت ہجرت و جہاد‘ حریت مرتبہ‘ مرتبہ تکمیل عبادت‘ درجہ بشارت‘ مکالمہ قیامت وغیرہ جیسے اہم اور عظیم امور ہیں اگر حضور کی ذات اقدس سے کسی کو کمال اشتراک و تناسب ثابت ہوتا ہے تو حضرت عیسیٰ کی ذات مقدس کو“(تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام از قاری محمدطیب دارالعلوم دیوبند صفحہ ۱۴۴ نفیس اکیڈمی)(ii)”بہرحال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت اور مقام خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی۔ جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوی کو بارگاہ محمدی سے خلقًا و رتبتاً و مقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہیئے“۔ (تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام۔ از قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیو بند صفحہ ۱۲۹ نفیس اکیڈمی)