حضرت مَرْثَدْ بن ابی مَرْثَدْؓ

خطبہ جمعہ 6؍ جولائی 2018ء

تاریخ اور روایات میں بعض صحابہ کے حالات زندگی اور واقعات بڑی تفصیل سے ملتے ہیں لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کے بہت ہی مختصر حالات ملتے ہیں۔ لیکن بہرحال جنگ بدر میں شامل ہونے سے ان کا جو مقام ہے وہ تو اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس لئے چاہے چندسطر کا ہی ذکر ہو وہ بیان ہونا چاہئے۔

ان کی وفات صفر تین ہجری میں مقام رجیع میں ہوئی۔ آپ بدری صحابی تھے۔ آپ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کے حلیف تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ آپ اسلام کے شروع میں مشرف باسلام ہوئے اور بدر سے قبل ہجرت کر کے مدینہ آ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مؤاخات حضرت اوس بن صامت سے فرما دی۔ بدر کے روز یہ گھوڑے پر حاضر ہوئے جس کا نام سَبَلْ تھا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فوجی دستہ کے سالار تھے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رجیع کی طرف روانہ فرمایا تھا۔ یہ واقعہ ماہ صَفر تین ہجری میں پیش آیا اور بعض کا خیال ہے کہ اس دستہ کی کمان حضرت عاصم بن ثابت کے پاس تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 35 ابو مرثدؓ۔ مرثد بن ابی مرثدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) (اسد الغابہ جلد 5صفحہ 133 مرثد بن ابی مرثدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ بنو عَضَل اور قَارَّہ نے اسلام لانے کا دکھاوا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مذہبی تعلیم کے لئے چند معلم بھجوانے کی درخواست کی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے بارے میں روایتوں میں اختلاف ہے) حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر امارت ایک جماعت بھیجی۔ یہ لوگ ابھی مقام رجیع پر پہنچے تھے کہ بنو ھُذَیْل ننگی تلواریں لے کر آ گئے اور کہا کہ ہمارا مقصد تمہیں قتل کرنا نہیں بلکہ تمہارے بدلہ میں ہم اہل مکہ سے مال حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہم تمہاری حفاظتِ جان کا عہد کرتے ہیں۔ اس پر حضرت مَرْثَدْ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خالد رضی اللہ عنہ اور عاصم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں تم لوگوں کے عہد پر بھروسہ نہیں اور اس طرح لڑتے ہوئے تینوں نے جان دے دی۔ (سیر الصحابہ از شاہ معین الدین احمدندوی جلد دوم حصہ دوم صفحہ 555 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)