حضرت مُعَطِّبْ بن عُبَیْدؓ

خطبہ جمعہ یکم جون 2018ء

آپ کی کوئی اولادنہیں تھی آپ کے بھتیجے اُسَیْر بن عُروۃ آپ کے وارث ہوئے۔ حضرت مُعَطِّبْ بن عُبَیْد غزوۂ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اور انہوں نےیوم الرجیع میں شہادت پائی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 240 ومن حلفاء بنی ظفر مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

رجیع کا جو واقعہ ہے کہ اس میں دس مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لکھا ہے کہ

’’یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت خطرے کے دن تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے متوحّش خبریں آ رہی تھیں۔ لیکن سب سے زیادہ خطرہ آپ کو قریش مکہ کی وجہ سے تھا جو جنگ اُحد کی وجہ سے بہت دلیر اور شوخ ہو رہے تھے۔ اس خطرے کو محسوس کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیاکہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ خواہش معلوم کر کے وہی پارٹی جو خبر رسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لِحْیَان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنو لِحْیَان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدار لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنولِحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آ رہے ہیں تم آ جاؤ۔ جس پر قبیلہ بنو لِحْیَان کے دو سو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں (رجیع ایک جگہ ہے) ان کو آ پکڑا۔ دس آدمی دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم تو نہیں دی گئی۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو تمہیں گھیر لیا جائےتو پھر یہی حکم ہے کہ جنگ کرو۔ فوراً یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر مقابلے کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہد و پیمان پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے خدا تُو ہماری حالت دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔ غرض عاصم اور ان کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ جب سات صحابہ مارے گئے اور صرف خُبَیب بن عَدی اور زَید بن دَثِنَہ اور ایک اور صحابی باقی رہ گئے تو کفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کو زندہ پکڑنے کی تھی پھر آواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آؤ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آ کر نیچے اتر آئے مگر نیچے اترتے ہی کفار نے ان کو اپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کر باندھ لیا اور اس پر خُبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبداللہ بن طارق مذکور ہوا ہے صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے پکار کر کہا کہ یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے اور نامعلوم تم آگے چل کر کیا کرو گے۔ عبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا جس پر کفار تھوڑی دور تک عبداللہ کو گھسیٹتے ہوئے، زدو کوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا اور چونکہ ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے نیز روپے کی لالچ میں خُبیب اور زید کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ چنانچہ خُبیب کو تو حارث بن عابر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ خُبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا اور زید کو صَفْوان بن اُمیّہ نے خرید لیا۔ اور یہ بھی پھر آخر میں شہید کر دئیے گئے تھے۔ (سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 513-514)