نئے عہد نامہ کے الہامی مقام کا جائزہ ۔ تاریخی حقائق

اناجیل کے باہمی اختلافات و تضادات محققین بائبل کے اعترافات ۔ ( مشہور پادری وھیری کے قرآن مجید پر اعتراضات کے جواب میں ایک ٹھوس علمی وتحقیقی مقالہ)

سید میر محمود احمد ناصر

بالعموم یہ سمجھاجاتاہے کہ نیا عہدنامہ یونانی زبان میں لکھا گیا۔ اس زبان میں نئے عہدنامہ کا کوئی ایک بھی معین و مسلّم نسخہ نہیں ملتا۔ ناواقف آدمی یہ دھوکہ کھا تے ہیں کہ نیا عہدنامہ بھی قرآن مجید کی طرح کوئی معین مسلّمہ متن پر مشتمل کتاب ہے۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے اور نئے عہد نامہ کے الہامی مقام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج جو نیاعہدنامہ ہمارے سامنے پیش کیا جاتاہے وہ چھاپہ خانہ کی ایجاد سے پہلے کے قلمی مخطوطات کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتاہے او ریہ مخطوطات مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں لکھے گئے اور مختلف قسم کے کاغذ پر اور مختلف طرز تحریر میں تحریر ہوئے ۔ان مخطوطات میں جو سینکڑوں کی تعدا د میں ہیں باہمی ہزاروں ہزاراختلافات ہیں ۔ ان مختلف مخطوطات کو مدنظر رکھ کر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ پتہ لگایاجائے کہ اصل لکھنے والوں نے کیا لکھاتھااور اس غرض سے ایک پورا فن وجود میں آ چکاہے جو Textual Criticism کے نام سے موسوم ہے ۔یہاں مختصراً ان مخطوطات کا تعارف کروایاجاتاہے اور ان کے باہمی اختلافات کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے ۔

موجودہ نیاعہدنامہ مختلف مخطوطات سے مرتب کیا جاتاہے

جن مخطوطات سے آج نیاعہدنامہ مرتب کیا جاتاہے ان کوسہولت کے لئے چند جماعتوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ پہلی جماعت ان مخطوطات پرمشتمل ہے جوچوتھی صدی عیسوی سے دسویں صدی عیسوی کے درمیان لکھے گئے اور بڑے یونانی حروف میں مرقوم ہیں ۔ چوتھی صدی عیسوی سے پہلے کے مخطوطات جن میں سے کوئی بھی مکمل شکل میں موجود نہیں سکرول (Scroll)کہلاتے تھے ۔ کیونکہ وہ سکرول کی شکل میں لپیٹ کررکھے جاتے تھے مگرچوتھی صدی کے بعد مخطوطات کتابی شکل اختیارکر گئے اور کوڈیکس کہلائے جانے لگے۔(اس لفظ کی جمع Codicesہے) مخطوطات کی یہ جماعت آج کل نیاعہدنامہ مرتب کرنے کے لئے سب سے اہم سمجھی جاتی ہے۔اس جماعت کے بعض اہم کوڈیکس یہ ہیں:

(۱)۔۔۔کوڈیکس :(یہ عبرانی الف ہے) یاکوڈیکس Sinaiticus:

یہ کوڈیکس جرمن عالم ٹسچنڈارف کو طورسینا پر بنی ہوئی خانقاہ سینٹ کیتھرائن سے ملا جو اس نے زارروس کو تحفہ کے طور پر دیا اورروس میں انقلاب کے بعد برطانیہ نے خرید کر برٹش میوزیم میں محفوظ کر لیا ۔

(۲)۔۔۔کوڈیکسB یا کوڈیکس Vaticanus:

یہ مخطوطہ پوپ کی لائبریری میں ویٹیکن میں تھا اور نپولین بونا پارٹ نے جب اٹلی فتح کیا تو جو اشیاء وہ اپنی اظہار شان کے لئے ساتھ لایا ان میں یہ مخطوطہ بھی شامل تھا۔ اوراس طرح علمی دنیا اس سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو گئی۔

(۳)۔۔۔کوڈیکس A یا کوڈیکس Alexandrinus:

یہ مخطوطہ ترکی کے یونانی کلیسیا کے بِطریق Cyril Lucar نے شاہ انگلستان کو تحفہ دیا اوراب برٹش میوزیم لند ن میں ہے ۔

(۴)۔۔۔کوڈیکس D یا کوڈیکس Bezae:

جو غالباً پانچویں صدی کاہے اورایک عالم Theodore Bezae نے کیمبرج یونیورسٹی کو تحفہ دیا اور اب یونیورسٹی کی لائبریری میں ہے ۔

*۔۔۔ مخطوطات کی دوسری جماعت جس سے نیا عہدنامہ مرتب کرتے ہوئے مدد لی جاتی ہے جونویں صدی عیسوی سے چھاپہ خانہ کی ایجاد تک لکھے گئے اور چھوٹے یونانی حروف میں رواں ہاتھ میں مرقوم ہیں اور نسبتاً زیادہ مقدار میں ہونے کی وجہ سے اور باہم مشابہت رکھنے کی وجہ سے ’’خاندانوں‘‘ میں تقسیم کرائے گئے ہیں ۔ان میں سے فیملی(Family) نمبر ۱ ،اور فیملی(Family) نمبر ۱۳، نئے عہدنامہ کی ترتیب وتدوین کے لئے زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں۔

*۔۔۔ مخطوطات کی تیسری جماعت مکمل مخطوطات پرمشتمل نہیں بلکہ چوتھی صدی سے قبل کے لکھے ہوئے مخطوطات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جو نیل کے ساحل پر اُگنے والے Papyrus کہلانے والے پودے سے بنائے گئے کاغذ پرہیں ۔ یہ کاغذ خشک آب وہوا میں تو کچھ محفوظ رہتاہے مگرمرطوب آب وہوامیں ضائع ہوجاتا ہے۔ گزشتہ ۷۰۔۸۰سالوں میں ایسے مخطوطات کے ٹکڑوں کا انکشاف بالخصوص مصرکی خشک آب وہواسے ہواہے اورانہیں نیا عہدنامہ مرتب کرتے ہوئے مدنظر رکھاجاتاہے۔

*۔۔۔ مخطوطات کی چوتھی جماعت جو نئے عہد نامہ کے ایڈیشن مرتب کرتے ہوئے مدنظررکھی جاتی ہے پرانے زمانہ میں کئے گئے نئے عہدنامہ کے تراجم ہیں جو لاطینی ،آرامی اورمصر کی دو زبانوں بحیری اور صعیدی میں کئے گئے اور ثانوی اہمیت رکھنے والے تراجم جو آرمینی،گوتھک ، ایتھوپی اور سلافونی زبانوں میں ہوئے ۔ اسلام سے قبل عربی زبان میں نئے عہد نامہ کاترجمہ موجود تھا یا نہیں اس بارہ میں علماء بائبل میں اختلاف ہے۔

*۔۔۔ مخطوطات کی پانچویں جماعت جن سے نئے عہد نامہ کا متن متعین کرنے میں مدد لی جاتی ہے نئے عہدنامہ کے وہ اقتباسات ہیں جو پرانے عیسائی مصنفین نے گزشتہ صدیوں کے دوران اپنی تصانیف میں درج کئے۔

مذکورہ بالا مختصر خاکہ سے ظاہرہے کہ نئے عہدنامہ کا کوئی معین ،مسلّمہ نسخہ موجود نہیں بلکہ آج کی دنیا میں عیسائی دنیا جو نیاعہد نامہ مرتب کرکے پیش کرتی ہے وہ بہت سے مخطوطات سے مرتب کرنے والوں کی مرضی کے مطابق اخذ کر کے پیش کیاجاتاہے اوریہ مخطوطات آپس میں متعدد اختلافات رکھتے ہیں جن کی تعداد قریباً تین لاکھ تک جا پہنچتی ہے اوران مخطوطات سے نیا عہدنامہ مرتب کرنے کے لئے ایک باقاعدہ فن ظہورمیں آ چکاہے جوTextual Criticism کے نام سے موسوم ہے۔

اس بارہ میں بائبل کے ایک معروف عالم لکھتے ہیں:

“It may be thought in the case of the Bible there is no need for textual investigation; that God would not allow textual errors to creep in to it during the years it has been handed down. But that is simply not true. God did not choose to exercise such a miraculous providence over the books of the Bible”.(The Dead Sea Scrolls and the Bible by Ronald E. Murphy,O. Cram. p37-38)

نئے عہد نامہ کے متن کی تصحیح کے جواز کے بارہ میں پوپ کا فتویٰ

نئے عہدنامہ کے ان مخطوطات میں جواختلافات پائے جاتے ہیں اور فن Textual Criticism کے ذریعہ جو نئے عہدنامہ کے متن کی تصحیح کی جاتی ہے اس کے جواز کے بارہ میں پوپ کافتویٰ بھی موجود ہے ۔۱۹۴۳ء میں پوپ نے جوفتویٰ اس بارہ میں جاری کیا اس میں کہا گیا :

“In the present day indeed this art, which is called Textual Criticism and which is used with great and praiseworthy results in the editions of profane writings is also quite rightly employed in the case of the Sacred Books because of that very reverence which is due to the Divine Oracles. For its very purpose is to insure that the sacred text be restored, as perfectly as possible, be purified from the corruption due to the carelessness of the copyists and be freed , as for as may be done, from glosses and omissions, for the interchange and repetitions of words and from all other kinds of mistakes, which are wont to make their way gradually in to writings handed down through many Centuries .”(پوپ Pius XII کا خط بعنوان Divino Afflante Spirtu ۱۹۴۳ء)

مخطوطات کی کیفیت ، باہمی اختلافات ، تحریرکی غلطیاں، ارادۃً تبدیلیاں اور ایزادیاں

یہ امر بھی مدّنظررہے کہ ان مخطوطات میں نہ صرف باہمی اختلافات ہیں اورتحریرکی غلطیاں اورلغزشیں ہیں بلکہ ارادۃً تبدیلیاں اور ایزادیاں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اس کی ایک مشہور مثال مرقس کی انجیل کے آخری باب کی آخری آیات یعنی باب۱۶ آیات۸تا۲۰ہیں۔ موجودہ عیسائیت کی بنیاد حضرت مسیحؑ کے آسمان پرجانے پررکھی گئی ہے مگرچونکہ اس کا ذکر قدیم تحریر ات سے نہیں ملتاتھا اس لئے اس بے بنیاد عقیدہ کودرج کرنے کے لئے نئے عہد نامہ میں تحریف واضافہ کیاگیا اورمرقس کے آخرمیں یہ آیات جو حضرت مسیحؑ کے آسمان پراٹھائے جانے کے ذکر پرمشتمل ہیں زائد کی گئیں۔ اس بارہ میں امریکہ کی مشہور تفسیر بائبل Interpreters Bible میں،جس میں بڑی ہوشیاری سے رسمی عیسائی عقائد کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے ، لکھاہے :

“One of the oldest attempts to supplement and finish Mark is the so called “longer endingo”(Vss.9-20). This is not found in the best MSS (B SK sys,etc.) and dates probably from the second century; it was compiled out of the data of the other Gospels, and even of Acts,and may have been originally independent list of resurrection appearances.The author was probably, as Burkitt and Conybere held, the second century presbyter Aristion or Ariston. It is attributed to him in an Armenian MS written in 989.”(The Interpreters Bible . New york Abingdon. Cokesbury Press Neshvill Parthenon Press Nashville.U.S.A)

اس حوالہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کہ مرقس کی آخری آیات ۹تا ۲۰ اصل کتاب میں نہیں تھیں ، یہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کا مضمون دوسری اناجیل سے لیا گیاہے یا دوسری صدی کے بشپ Ariston نے لکھاہے۔ بالفرض یہ دونوں باتیں تسلیم بھی کرلی جائیں توسوال تو یہ ہے کہ کیا یہ اصل مرقس میں اضافہ اور تحریف ہے یانہیں؟ اور اگرہے توپھراس کتاب کی الہامی حیثیت کیارہ جاتی ہے اور کیاپادری وہیری صاحب کو افتراء کا اعتراض قرآن مجید کی بجائے نئے عہد نامہ پرکرنا چاہئے تھا یا نہیں؟

یہاں ضمناً یہ امر بھی مدنظررہے کہ مرقس کی آخری آیات صرف مخطوطات کی گواہی کے نتیجہ میں الحاقی ثابت نہیں ہوتیں بلکہ خود مرقس کی اندرونی گواہی بھی یہی ہے کیونکہ اس آخری باب کی آٹھویں آیت کا اُردو ترجمہ اس طرح کیاگیاہے :۔

’’اور انہوں نے کسی سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ ڈرتی تھیں ‘‘۔

انگریزی ترجمہ اس طرح کیا جاتاہے :

“And they said nothing to anyone,for they were afraid.”

یہ ترجمہ پوری طرح درست نہیں ۔ اصل یونانی میں آٹھویں آیت کے آخری الفاظ یہ ہیں:

(ایفو بونتوگار) اس کا ترجمہ ہے :’ ڈرتی تھیں کیونکہ ‘ ، نہ کہ ’کیونکہ ڈرتی تھیں‘۔صا ف ظاہر ہے کہ اصل مرقس میں کوئی وجہ ڈرنے کی بتائی گئی تھی جو بعد میں آنے والوں کو پسند نہیں آئی اور انہوں نے اس کو حذف کر کے اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔

مذکورہ بالا حوالہ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیاہے کہ اگرچہ مرقس کی آخری آیات اصل مرقس کا حصہ تو نہیں مگر it was compiled out of the data of other gospels،کہ دوسری اناجیل سے یہ حصہ اخذکیاگیاہے۔ یہ دعویٰ Interpreters Bibleکی دیانتداری کو مشتبہ کرنے والا ہے کیونکہ اس کے مصنفین یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اناجیل میں سے دو جو حواریوں کی طرف منسوب ہیں ان میں حضرت مسیح کے آسمان پراٹھائے جانے کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔ اور لوقا کی انجیل میں بظاہر ذکرموجود ہے مگرمستندمخطوطات کی گواہی یہی ثابت کرتی ہے کہ اصل لوقا میں آسمان پرجانے کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔ خود Interpreters Bible نے ہر صفحہ پر اپنی تشریح سے پہلے بائبل کے دو متن پہلو بہ پہلو دئے ہیں ۔ ایک شاہ جیمز کا متن اورایک Revised Standard متن۔ شاہ جیمز ورشن میں لوقا کی انجیل کے آخری الفاظ یہ ہیں :

“he was parted from them,and carried up in to heaven,and they worshipped him and returned to Jeruselem.”

اس کا ترجمہ اردو تراجم میں اس طرح کیا جاتاہے۔’’تو ایسا ہوا کہ ان سے جدا ہوگیا اور آسمان پراٹھایاگیا اور وہ اس کو سجدہ کرکے بڑی خوشی سے یروشلم کو لوٹ گئے ‘‘۔(لوقا ۔۲۴:۵۱۔۵۲)

مگر Revised Standard ورشن میں اس طرح ترجمہ ہے :

“he parted from them and they returned to Jeruselem with great joy.”

New English Bible میں اس کا ترجمہ اس طرح ہے :

.”… he parted from them and they returned to Jeruselem with great joy.”

گویا ترجمہ یوں ہوگا:’’ وہ ان سے جدا ہوگیا اور وہ بڑی خوشی سے یروشلم کو لوٹ گئے‘‘۔گویا اصل لوقا میں نہ حضرت مسیحؑ کے آسمان پرجانے کا ذکرتھا اور نہ حواریوں کے ان کو سجدہ کرنے کا ۔ یہ بعد کا اضافہ ہے ۔

پس Interpreters Bible کے مضمون نگارکا یہ کہنا کہ مرقس کی آخری آیات کا الحاقی اضافہ جن میں حضرت مسیحؑ کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے دوسری اناجیل پرمبنی ہے ،صریحا غلط ہے ۔

نئے عہدنامہ کے موجودہ مختلف ایڈیشنز میں اختلافات و تضادات

مذکور بالا مخطوطات کوچھوڑ کرنئے عہدنامہ کے موجودہ دنیامیں مطبوعہ ایڈیشن دیکھیں تو ان میں بھی تضاد اور اختلافات نظرآتے ہیں ۔ متی اور لوقا دونوں اناجیل میں حضرت مسیحؑ کے نسب نامے یوسف کی معرفت دئے گئے ہیں حالانکہ یوسف سے ان کا براہ راست کوئی رشتہ نہ تھا۔ مگراس بات سے قطع نظران دونوں نسب ناموں میں ناموں کی تعیین میں بھی اختلاف ہے اور ناموں کی تعداد میں بھی ۔ متی کے نسب نامہ میں ابراہام سے یوسف تک ۴۰ نام ہیں اورلوقا کے نسب نامہ میں ۵۴ ۔ کیا ایک خدا کی دو کتابوں میں اس اختلاف کا تصور ممکن ہے ؟

متی اور لوقا دونوں نسب نامے حضرت مسیحؑ کو حضرت داؤد ؑ کی اولاد قراردیتے ہیں اور یہ خیال یہود میں عام طورپر تسلیم کیاجاتاہے کہ آنے والا مسیح داؤد کی نسل سے ہوگا۔غالباً اس لئے انجیل نویسوں نے انہیں داؤد کی نسل سے ثابت کرنے کے لئے یوسف کے نسب نامے دئے ہیں ۔مگریہ بات یہود میں بحث طلب تھی کہ آنے والا مسیح حضرت داؤد کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ حضرت داؤد ؑ کے بیٹے حضرت سلیمانؑ کی نسل سے ہوگا، جبکہ بعض کا اصرار تھاکہ نہیں وہ حضرت داؤد کے بیٹے ناتن کی اولاد میں سے ہوگا۔دیکھئے انجیل نویسوں نے اپنے اپنے حلقہ میں یہ مسئلہ کس طرح حل کردیا۔ متی نے حضرت مسیحؑ کو حضرت سلیمان کی نسل قرار دے دیاہے اورلوقانے ناتنؔ کی نسل سے ۔

پادری وہیری صاحب قرآن مجید پر نعوذباللہ افتراء کا الزام لگاتے ہیں ان کا خود نئے عہدنامہ کی کتب کے بارہ میں کیا خیال ہے ؟


اس قسم کے اختلافات کی ایک اور مثال دیکھئے ۔ متی ،مرقس کی اناجیل بوضاحت کہتی ہیں کہ حضرت مسیحؑ نے اپنا اعلانِ ماموریت حضرت یوحنا کے قید ہو کرپکڑوائے جانے کے بعد کیا ۔( دیکھیں متی باب۴ آیت۱۲ تا ۱۷۔مرقس باب ۱آیت ۱۴)۔مگر یوحنا کی انجیل باب ۳سے وضاحتاً معلوم ہوتاہے کہ یوحنا کے پکڑوائے جانے سے عرصہ قبل حضرت مسیحؑ اعلان ماموریت کر چکے اور بیعتوں کا سلسلہ شروع ہو چکاتھا۔

کیاپادر ی وہیری صاحب اس واضح اختلاف کے باوجود ان تینوں اناجیل کو خدا کا کلام قرار دیں گے؟۔


پادر ی وہیری صاحب قرآن مجید پر افتراء ہونے کا الزام لگاتے ہیں لیکن وہ قرآن مجید کی کوئی ایسی پیشگوئی پیش نہیں کر سکتے جو جھوٹ ثابت ہوئی ہو کیونکہ وہ عالم الغیب خداکا کلام ہے ۔مگر نئے عہدنامہ سے بعض ایسی پیشگوئیاں پیش کی جاسکتی ہیں جو قطعی طورپر غلط نکلیں مثلاً ۱۔تھسلینکیوں میں پولوس کہتاہے:

’’جب ہمیں یہ یقین ہے کہ یسوع مر گیا اور جی اٹھا تواسی طرح خدا ان کو بھی جو سوگئے ہیں یسوع کے وسیلہ سے اسی کے ساتھ لے آئے گا ۔چنانچہ ہم تم سے خداوند کے کلام کے مطابق کہتے ہیں کہ ہم جو زندہ ہیں اور خداوند کے آنے تک باقی رہیں گے سوئے ہوؤں سے ہرگز ہرگز نہ بڑھیں گے۔ کیونکہ خداوند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اتر آئے گا۔ اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موئے جی اٹھیں گے پھرہم جو زندہ باقی ہوں گے ان کے ساتھ بادلوں پراٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا ئیں خداوند کااستقبال کریں ۔ پس تم ان باتوں سے ایک دوسرے کو تسلّی دیاکرو‘‘۔ (۱،تھسلنکیوں باب ۴آیت ۱۳تا ۱۸)

اگر پولوس نے یہ پیشگوئی اپنی طرف سے کی ہوتی تب بھی اس کاجھوٹ نکلنا نئے عہدنامہ پراعتراض وارد کرتا کیونکہ مسیحی عقیدہ کے مطابق چاروں اناجیل اور پولوس اور دوسرے لوگوں کے خطوط یکساں طورپر کلامِ الٰہی ہیں۔مگر یہاں توپولوس اس پیشگوئی کی بنیاد آیت نمبر ۱۵ کے مطابق حضرت مسیحؑ کے کلام پررکھ رہاہے ۔اور اناجیل میں بھی حضرت مسیحؑ کے ایسے فقرات موجودہیں جواس پیشگوئی پرمشتمل ہیں چنانچہ متی باب۲۴ میں حضرت مسیحؑ کا یہ ارشاد لکھتاہے جس میں اس نسل کے ختم ہونے سے پہلے حضرت مسیحؑ کی آمد ثانی کا ذکرہے ۔ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں :

’’اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعدسورج تاریک ہو جائے گااور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلا ئی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پردکھائی دے گا اوراس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی اور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اِس کنارے سے اُس کنارے تک جمع کریں گے۔

اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو۔ جونہی اس کی ڈال نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے ۔اسی طرح جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پرہے ۔مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہولیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔ آسمان اورزمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی‘‘۔ (متی ۲۴: ۲۹تا۳۵)

متی باب ۱۶ میں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں :

’’ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا ۔ اُس وقت ہرایک کو اس کے کاموں کے مطابق بدلہ دے گا ۔ مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے ‘‘۔(متی ۱۶: ۲۷۔۲۸)

مرقس میں حضرت مسیحؑ کہتے ہیں :

’’جو کوئی اس زناکار اور خطاکار قوم میں مجھ سے اور میری باتوں سے شرمائے گا ابن آدم بھی جب اپنے باپ کے جلال میں پاک فرشتوں کے ساتھ آئے گا تواس سے شرمائے گا۔ اور اس نے ان سے کہا مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک خداکی بادشاہی کو قدرت کے ساتھ آیا ہوا نہ دیکھ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے‘‘۔(مرقس ۸: ۳۷۔۳۸)

مذکورہ بالا حوالہ جات سے صاف ظاہرہے کہ نئے عہد نامہ کے مصنفین حضرت مسیحؑ کی یہ پیشگوئی قطعی سمجھتے تھے کہ آپ کی آمد ثانی پہلے دور کے اختتام سے پہلے ظہور پذیر ہو جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اور اب دوہزار سال گزر جانے کے باوجود یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔

کیا پادری وہیری صاحب کو اب بھی قرآن مجید کے نعوذباللہ افتراء ہونے اور نئے عہد نامہ کے کتاب مقدس اور کلامِ الٰہی ہونے پر اصرارہے؟


نئے عہد نامہ کے مستند کتاب ہونے کو یہ بات بہت صدمہ پہنچاتی ہے کہ نئے عہدنامہ کی تحریرات میں سے کوئی تحریر نہ حضرت مسیحؑ کی لکھی ہوئی ہے، نہ آپ کے کسی حواری کی ۔

اناجیل اربعہ میں سے دو کے متعلق تویہ بات معروف ہی ہے کہ و ہ کسی حواری کی تصنیف نہیں، مرقس اور لوقا کی اناجیل مسلّمہ طورپر حواریوں کی تحریر نہیں۔مگر متی اور یوحنا کی اناجیل کے متعلق بعض وقت یہ خیال کیا جاتاہے کہ وہ متی حواری اور یوحنا حواری کی تصنیف ہیں۔ مگر یہ بات اب مسیحی مصنّفوں کی اپنی تحقیق سے غلط ثابت ہو چکی ہے ۔ اور یاد رہے کہ خود ان دونوں کتابوں میں کہیں اشارۃً بھی یہ دعویٰ موجود نہیں کہ یہ دونوں حواریوں کی تصنیف ہیں اورجیساکہ ذکر ہوا اب مسیحی مصنفین بالعموم اقرار کرتے ہیں کہ یہ دونوں اناجیل متی حواری اور یوحناّ حواری کی تصنیف نہیں ۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا ایڈیشن ۱۹۷۵ء میں لکھا ہے :۔

“Although there is a Matthew named among the various lists of Jesus disciples, more telling is the fact that the name of Levi, the tax collector who is Mark became a follower of Jesus, in Matthew is changes to Matthew.It would appear from this that Matthew was claiming apostolic authority for his Gospel through this device but that the writer of Matthew is probably anonymous.”(دیکھیں زیرلفظ Biblical Literature )

اور یوحنا کی انجیل کے متعلق لکھاہے :۔

“Irenaeus calls John the beloved disciple, who wrote the Gospel in Ephesus. Papias mentions John the son of Zebedee, the disciple, as well as another John, the presbyter, who might have been at Ephesus. From internal evidence the Gospel was written by a beloved disciple whose name is unknown. Because both external and internal evidence are doubtful, a working hypothesis is that John and the Johannine letters were written and edited somewhere in the East(perhapes Ephesus) as the product of a “school,” or Johannine circle, at the end of the firest century “. (Biblical Literatureدیکھیں زیر لفظ).

متی کی انجیل کے مصنّف متی حواری تھے یانہیں؟ا س بارہ میں The Westminster Dictionary of the Bible میں لکھاہے:

“The Question of authorship is no easy problem. There is a strong and consistent tradition in the early church that Matthew was the author. This tradition is confirmed: (1) by the conclusive evidence, furnished by the contents, that the writer of this Gospel was a Jewish Christian emancipated from Judaism; (2) by the improbability that so important a book would have been attributed to so obscure an apostle without good reason;(3) by the likelihood that a publican would keep records; by the modest way in which the writer speaks of the feast given by Matthew to Jesus”. (ch.9:10 of Luke 5:29).”On the other hand, many scholars feel that internal evidence makes it difficult to accept this tradition of the Early Church. Matthew reproduces about 90 percent of the subject matter of Mark in language very largley identical with that of Mark. Now it is highly improbable that an apostle would have used as a major source the work of one who in all likelihood had not been an eyewitness of the ministry of Jesus. Papias, bishop of Hierapdis in Phrygia, writing C. A. D. 140, may provide a key to this problem. Eusebius (H. E. iii. 39, 16) quotes him as saying,”Matthew collected the logia(sayings, or oracles) in the Hebrew language, and each one interpreted them as he was able. This brief sentence is probably to be interpreted as follows. The Apostle Matthew (C.A.D 50) wrote down Jesus, saying in Aramaic. These sayings, with a brief frame of historical narrative were translated into Greek and thus constituted the document that scholars designate by the symbol (for German Quelle, source). This document and material from Mark and other sources were woven into what is now our First Gospel. By this hypothesis, The name Matthew, originally attached is the Aramaic source of Q, was transferred to the whole work which had incorporated it.” (The Westminster Dictionary of the Bible by John D. Davis, Phd., D,LL.D., late professor of OldTestament Literature, Princeton Theological Seminary Revised and Rewritten by Henry Snyder Gehman, Phd., S.T.D Professor of Old Testament Literature and chairman of the Department of Biblical Literature Princeton theological Seminary and Lecturer in Semitic languages, Princeton University London and New York. Collins Clear Type Press. Glasgow-Toronto-Sydney and Auckland.)

یوحنا کی انجیل کے بارہ میں اسی کتاب میں لکھا ہے :۔

“Like the other Gospels the Fourth does not mention the writer’s name but both internal and external considerations lend some support to the traditional belief that the work was written by the Apostle John. 133. ….It must be stated, however, that many scholars today do not feel the cogency of the above reasoning. They believe that the author of the Fourth Gospel was distinct from John the apostle, who was the witness to whose testimony the author and his followers appeal (John 19:33;21:24) The Evangelist (The author Proper) was, according to these Scholars a disciple and follower of John the son of Zabedee (the apostle) and wrote from the reminiscences and the teaching of his master, an eyewitness. His name is either unknown to us or, more likely, was John the presbyter or Elder(cf.11 John I and III John I). Thus though the Apostle John was responsible for the Gospel, it was actually written by the pen of another; it is according to this view ‘the Gospel of John the Elder according to John the Apostle’.” (John The Gospel according toزیر لفظ).

پطرس کا دوسرا خط اگرچہ وضاحتاً کہتاہے کہ ’’شمعون پطرس کی طرف سے جو یسوع مسیح کا بندہ اور رسول ہے ان لوگوں کے نام جنہوں نے ہمارے خدا اورمنجی یسوع مسیح کی راستبازی میں ہمارا قیمتی ایمان پایاہے ‘‘۔

مگراس کے باوجود بالعموم مسیحی مصنفین و علماء یہ لکھتے ہیں کہ یہ خط پطرس حواری کا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی بعض بزرگ مسیحی اس بات کا انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ خط پطرس کاہے اوراب تو غالباً غالب اکثریت پطرس کے مصنف ہونے سے انکاری ہے۔Interpreters Bible جو بالعموم روایتی مسیحی عقیدہ کے حق میں بات کرتی ہے اس بارہ میں لکھتی ہے:

“When Irenaeus(Ca.AD.185) quoted words ‘said by Peter’, he invariably had in mind passages from I peter. His introductory formula, ‘Peter says in his epistle,’ implies that he recognised only one epistle as by Peter. He may have known only one epistle under Peter’s name. Conceivably, however, he knew II Peter but rejected its authenticity. Contemporary leaders in the west, such as the author of the Muratorian canon, Tertullian, and Cyprian were similarly silent regarding II Peter. Clement of Alexandria was an Eastern contemporary of these Western leaders. Eusebius says that in his Outlines clement gave ‘Concise explanations of all the canonical scriptures,’ including ‘disputed’ writings such as ‘Jude and the Apocalypse known as Peter’s. His statement clearly implies an acquaintance with II Peter. Clement’s extant writings, however, contain no quotations from II Peter and reflect no acquaintance with it.The earliest explicit reference to II Peter is made by Origin (AD. 217-51). He says that Peter ‘left only one epistle of acknowledged genuineness’. Without trying to account for or refute current scepticism about the authenticity of a second epistle under Peter’s name, he says simply, ‘This is doubtful’. Eusebius (ca AD.325) included II Peter in his New Testament with the other Catholic epistles. He recognized, however that its canonization, was the outcome of its being ‘read in public in most churches’ rather than the result of any certainty of its authorship by Peter. Only I Peter he says, is recognised ‘as genuine and acknowledged by the elders of olden times.’ II Peter is used ‘along with the other scriptures’ despite the tradition that ‘it was not canonical.’ The Judgement prevailing in the Church caused Eusebius to describe II Peter as disputed, nevertheless familiar to the majority.’ Athnasius and Augustine both recognized II Peter as canonical. Neither says anything about its authenticity. Essentially the same position is taken by the third council of carthage(AD.397). Jerome at about this time expressed the Judgement that Peter ‘wrote two epistles which are called Catholic.’ “Because of differences in style, however, he says that II Peter is considered by many not to have been by him.” The epistle names Peter as its author. Its message is said to be from ‘Simon Peter, a Servant and apostle of Jesus Christ.'(I:I) This ascription is further emphasized by the authors allusion to Jesus prediction of Peter’s martyrdom (I:14:cf. John 21: 18-19), his claim to have been with Jesus ‘on the holy mountain’ on the occasion of the Transfigurations (I:17-18 cf. Matth. 17:5, Mark. 9:7; Luke 9:35) and his implicit reference to I Peter as also

written by him(3:1)

This Zeal of the epistle for its own authenticity creates more doubt than confidence and other data fail to support its claim. Differences in style from I Peter create insuperable difficulties for the new that the two epistles have a common author. Although both are probably pseudonymous, a strongest case can be made for the authenticity of I Peter. The possibility of Petrine authorship is definitely eliminated by data which locate the second epistle in the second century:(a) the incorporation of Jude as its second chapter;(b) the authors implicit classification of himself with a generation to whom the fathers’ were known by tradition (3:2,4); (c) the recognition of Paul’s letters as scripture(3:16);(d) the allusion to heretical misuse of Paul’s letters(3:16)

Because he felt he wrote in Peter’s spirit, this unknown Christian leader of the second century felt justified in attributing what he wrote to Peter that this was legitimate by current literary standards is shown by the titles of other second-Century such as the Gospel of Peter, the Acts of Peter, the teaching of Peter and the Preaching of Peter. Peter symbolized original and authoratative christaianity.By his authority, therefore,our author condemned heresy.(The Interpreters Bible New York, A bingdon Press Nashville. Vol. XII )

اس حوالہ میں مضمون نگار نہ صرف اس بارہ میں مجبور ہواہے کہ تسلیم کرے کہ پطرس حواری کی طرف منسوب دوسرا خط پطرس حواری کا نہیں بلکہ کسی غیر معلوم شخص نے دوسری صدی میں لکھ کر پطرس کی طرف منسوب کیاہے بلکہ یہ بھی چلتے چلتے تسلیم کرلیاہے کہ پطرس کاپہلا خط بھی دراصل پطرس حوار ی کا نہیں ہے ۔ لہذا 5 نہ ہی چار اناجیل کے علاوہ نئے عہد نامہ کی دوسری تحریر ات حضرت مسیحؑ کی ہیں نہ ہی حضرت مسیحؑ کے حواریوں کی بلکہ بعد کی تحریرات ہیں جن میں سے بعض حواریوں کی طرف منسوب کردی گئی ہیں ۔


نئے عہدنامہ کی کتب بالخصوص اناجیل اربعہ میں حضرت مسیحؑ کے معجزات اس خیال سے بیان کئے گئے ہیں کہ آپ کی الوہیت ثابت کی جائے۔ جیساکہ ہم ذکرکرچکے ہیں نیا عہد نامہ الہامی کلام ہے، نہ الہام ہونے کا دعویٰ کرتاہے ، نہ اس کے مصنفین اپنے آپ کو نبی یا مُلہَم قراردیتے ہیں اور نہ نبی ہونے کے دعویٰ کے ساتھ انہوں نے اپنی نبوت کے حق میں کوئی معجزات دکھائے کہ ثابت ہو کہ وہ نبی ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام ہے ۔نبوت تو ایک طرف اگراناجیل اربعہ کو غورسے دیکھاجائے تو ان کا ایک ٹھوس اور مستند تاریخ نویس ہونابھی ثابت نہیں ہوتا ۔

کاسرِ صلیب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’مَیں نے انجیلوں پر ایک اعتراض یہ بھی کیاتھا کہ ان میں جس قدر معجزات لکھے گئے ہیں جن سے خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی ثابت کی جاتی ہے وہ معجزات ہرگز ثابت نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوت جو مدارِثبوت تھی ثابت نہیں ہو سکی اور نہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ کوئی معجزہ دکھلایا ۔باقی رہا یہ کہ انہوں نے بحیثیت ایک وقائع نویس کے معجزات کو لکھاہو سووقائع نویسی کی شرائط بھی ان میں متحقق نہیں کیونکہ وقائع نویس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دروغگو نہ ہو اوردوسرے یہ کہ اس کے حافظہ میں خلل نہ ہو اور تیسرے یہ کہ وہ عمیق الفکر ہو اور سطحی خیال کاآدمی نہ ہو ۔چوتھے یہ کہ وہ محقق ہو اور سطحی باتوں پرکفایت کرنے والا نہ ہو۔ پانچویں یہ کہ جوکچھ لکھے چشمدید لکھے محض رطب و یابس کا پیش کرنے والانہ ہو ۔مگرانجیل نویسوں میں ان شرطوں میں سے کوئی شرط موجود نہیں تھی ۔ یہ ثابت شدہ امرہے کہ انہوں نے اپنی انجیلوں میں عمداً جھوٹ بولاہے۔ چنانچہ ناصرہ کے معنی الٹے کئے اور عمانوایل کی پیشگوئی کو خواہ نخواہ مسیح پر جمایا اور انجیل میں لکھاکہ اگر یسوع کے تمام کام لکھے جاتے تو وہ کتابیں دنیا میں سما نہ سکتیں۔ اور حافظہ کا یہ حال ہے کہ پہلی کتابوں کے بعض حوالوں میں غلطی کھائی اوربہت سی بے اصل باتوں کو لکھ کر ثابت کیا کہ ان کو عقل اور فکر اور تحقیق سے کام لینے کی عادت نہ تھی بلکہ بعض جگہ ان انجیلوں میں نہایت قابل شرم جھوٹ ہے جیساکہ متی باب ۵میں یسوع کا یہ قول ہے کہ ’’تم سن چکے ہو کہ اپنے پڑوسی سے محبت کر اور اپنے دشمن سے نفرت کر ۔حالانکہ پہلی کتابوں میں یہ عبارت موجود نہیں۔ ایسا ہی ان کا یہ لکھنا کہ تمام مردے بیت المقدس کی قبر سے نکل کر شہر میں آگئے تھے، یہ کس قدر بیہودہ بات ہے اور کسی معجزہ کے لکھنے کے وقت کسی انجیل نویس نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس کا چشمدید ماجرا ہے ۔پس ثابت ہوتاہے کہ وقائع نویسی کی شرائط ان میں موجود نہ تھیں۔ اور ان کا بیان ہرگز اس لائق نہیں کہ کچھ بھی اس کا اعتبار کیاجائے اور باوجود اس بے اعتباری کے جس بات کی طرف وہ بلاتے ہیں وہ نہایت ذلیل خیال اور قابل شرم عقیدہ ہے ۔ کیایہ بات عندالعقل قبول کرنے کے لائق ہے کہ ایک عاجز مخلوق جو تمام لوازم انسانیت کے اپنے اندر رکھتا ہے خداکہلاوے؟ کیاعقل اس بات کو مان سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کوکوڑے مارے اور خداکے بندے اپنے قاد ر خدا کے منہ پر تھوکیں اور اس کو پکڑ یں اوراس کو سولی دیں او ر وہ خداہوکر ان کے مقابلہ سے عاجز ہو ؟ کیا یہ بات کسی کو سمجھ آ سکتی ہے کہ ایک شخص خدا کہلاکر تمام رات دعا کرے اور پھر اس کی دعاقبول نہ ہو ؟ کیاکو ئی دل اس بات پر اطمینان پکڑ سکتاہے کہ خدابھی عاجز بچوں کی طرح نو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خون حیض کھاوے اور آخر چیختاہوا عورتوں کی شرمگاہ سے پیداہو؟کیاکوئی عقلمند اس بات کو قبول کر سکتاہے کہ خدا بے شمار اور بے ابتدا زمانہ کے بعد مجسم ہوجائے اور ایک ٹکڑا اس کا انسان کی صورت بنے اوردوسرا کبوتر کی اور یہ جسم ہمیشہ کے لئے ان کے گلے کا ہار ہو جائے ‘‘۔(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۸۵۔۸۷)

انجیل کی اخلاقی تعلیمات پر ایک نظر

نئے عہدنامہ کے الہامی مقام کو اس کے مضامین کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی اس کے مقام کی عظمت کاکوئی احساس پیدا نہیں ہوتا۔مغرب کے دانشور جو عیسائیت کے روایتی عقائد تثلیث ،کفارہ ، الوہیت مسیح کو الوداع کہہ چکے ہیں ابھی تک حضرت مسیحؑ کی شخصیت اور نئے عہد نامہ کی اخلاقی تعلیم سے متأثر معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ کی شخصیت کے متعلق تو ہم پادری وہیری کے اعتراض کے جواب میں کچھ باتیں عرض کریں گے ۔ جہاں تک اناجیل کی اخلاقی تعلیم کا تقاضا ہے اس تعلیم کو نادرۂ روزگار اور بے مثال قرار دیا جاتا رہاہے ۔کاسرصلیب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تعلیم پر چار اصولی اعتراضات فرمائے ہیں :

(الف)۔۔۔:یہ تعلیم ناقص اور نامکمل تعلیم ہے کیونکہ انسانی درخت کی شاخوں کی ایک شاخ کی آبیاری کرتی ہے ۔ باقی شاخوں کو بیکار چھوڑ دیا ہے۔

(ب)۔۔۔: یہ تعلیم نادرہ روزگار اور بیمثال نہیں بلکہ نئے عہد نامہ سے پہلے عام ملتی تھی اورپرانے عہدنامہ طالمود اور بنی اسرائیل کی دوسری کتابوں میں لفظاً لفظاً موجودہے ۔

(ج)۔۔۔: خداتعالیٰ کی صفات کی جو تجلّی صحیفہ فطرت اور قانون قدرت میں ہو رہی ہے یہ تعلیم ان کے مطابق نہیں۔

(د)۔۔۔: حضرت مسیحؑ کی طرف جو یہ تعلیم منسوب کی جاتی ہے خود انہوں نے بطور ایک اخلاقی معلم کے اس تعلیم پرعمل نہیں کیا ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’انسانی قویٰ کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ حلم اور درگزر پر انجیل کی تعلیم زور دیتی ہے اور باقی شاخوں کا خون کیا ہے۔حالانکہ ہرایک شخص سمجھ سکتاہے کہ جو کچھ انسان کو قدرتِ قادر نے عطا کیاہے کوئی چیز ا س میں سے بیکار نہیں ہے اور ہر ایک انسانی قوت اپنی اپنی جگہ عین مصلحت سے پیدا کی گئی ہے اور جیسے کسی وقت اورکسی محل پر حلم اور درگزر عمدہ اخلاق میں سے سمجھے جاتے ہیں،ایسا ہی کسی وقت غیرت اور انتقام۔ اور انتقام اور مجرم کو سزا دینا اخلاق فاضلہ میں سے شمار کیا جاتاہے نہ ہمیشہ درگزر اور عفو قرینِ مصلحت ہے اور نہ ہمیشہ سزا اور انتقام مصلحت کے مطابق ہوتاہے۔ یہی قرآنی تعلیم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے (جَزَآئُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ) یعنی بدی کی جزا اسی قدرہے جس قدر بدی کی گئی مگر جوکوئی عفو کرے اور اس عفو میں کوئی اصلاح مقصود ہو تواس کا اجر خدا کے پاس ہے۔

(حاشیہ :قرآن شریف نے بے فائدہ عفو اور درگزر کو جائز نہیں رکھا کیونکہ اس سے انسانی اخلاق بگڑتے ہیں اور شیرازہ نظام درہم برہم ہو جاتاہے ۔ اس عفو کی اجازت دی ہے جس سے کوئی اصلاح ہو سکے )

یہ تو قرآن شریف کی تعلیم ہے مگر انجیل میں بغیر کسی شرط کے ہر ایک جگہ عفو اور درگزر کی ترغیب دی گئی ہے اور انسانی دوسرے مصالح کو جن پرتمام سلسلہ تمدّن کا چل رہا ہے پامال کردیاہے اور انسانی قویٰ کے درخت کی تمام شاخوں میں سے صرف ایک شاخ کے بڑھنے پر زور دیاہے ۔ اور باقی شاخوں کی رعایت قطعاً ترک کردی گئی ہے ۔ پھرتعجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م نے خود اخلاقی تعلیم پر عمل نہیں کیا ۔ انجیر کے درخت کو بغیر پھل کے دیکھ کر اس پربددعا کی اور دسروں کو دعا کرنا سکھلایا اوردوسروں کو یہ بھی حکم دیا کہ تم کسی کو احمق مت کہو مگرخود اس قدر بدزبانی میں بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو ولدالحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں یہودی علماء کو سخت سخت گالیاں دیں اور بُرے بُرے ان کے نام رکھے ۔اخلاقی معلم کا فرض یہ ہے کہ پہلے آپ اخلاقِ کریمہ دکھلاوے ۔ پس کیا ایسی ناقص تعلیم جس پرانہوں نے آپ بھی عمل نہ کیا خداتعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے؟ پاک اور کامل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو انسانی درخت کے ہرایک شاخ کی پرورش کرتی ہے۔ اور قرآن شریف صرف ایک پہلو پر زور نہیں ڈالتا بلکہ کبھی تو عفو اور درگزر کی تعلیم دیتاہے مگر اس شرط سے کہ عفو کرنا قرین مصلحت ہواورکبھی مناسب محل اور وقت کے مجرم کو سزاد ینے کے لئے فرماتاہے ۔ پس درحقیقت خداتعالیٰ کے اس قانون قدرت کی تصویر ہے جو ہمیشہ ہماری نظر کے سامنے ہے ۔یہ بات نہایت معقول ہے کہ خدا کا قول اور فعل دونوں مطابق ہونے چاہئیں یعنی جس رنگ اور طرز پردنیا میں خداتعالیٰ کا فعل نظرآتاہے ضرور ہے کہ خداتعالیٰ کی سچی کتاب اپنے فعل کے مطابق تعلیم کرے ۔ نہ یہ کہ فعل سے کچھ اور ظاہر ہو اور قول سے کچھ اور ظاہر ہو۔ خداتعالیٰ کے فعل میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ نرمی اور درگزر نہیں بلکہ وہ مجرموں کو طرح طرح کے عذابوں سے سزایاب بھی کرتاہے ۔ایسے عذابوں کا پہلی کتابوں میں بھی ذکر ہے ۔ہمارا خدا صرف حلیم خدا نہیں بلکہ وہ حکیم بھی ہے اور اس کاقہر بھی عظیم ہے ۔سچی کتاب وہ کتاب ہے جو اس کے قانون قدرت کے مطابق ہے اور سچا قول الٰہی و ہ ہے جو اس کے فعل کے مخالف نہیں ۔ ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کے ساتھ ہمیشہ حلم اور درگزر کا معاملہ کیاہو اورکوئی عذاب نہ آیاہو۔ اب بھی ناپاک طبع لوگوں کے لئے خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ایک عظیم الشان اور ہیبتناک زلزلہ کی خبر دے رکھی ہے جو ان کو ہلاک کرے گا۔اور طاعون بھی ابھی دور نہیں ہوئی ۔پہلے اس سے نوحؑ کی قوم کاکیاحال ہوا ، لوطؑ کی قوم کو کیا پیش آیا ! سویقیناًسمجھو کہ شریعت کا ماحصل تخلّق باخلاق اللہ ہے یعنی خدائے عز وجل کے اخلاق اپنے اندر حاصل کرنا۔ یہی کمالِ نفس ہے۔اگر ہم یہ چاہیں کہ خدا سے بھی بڑھ کر کوئی نیک خلق ہم میں پیدا ہو تو یہ بے ایمانی اور پلید رنگ کی گستاخی ہے اورخدا کے اخلاق پرایک اعتراض ہے‘‘ ۔(چشمہ ٔمسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۷،۴۳،۴۵)

حضرت مسیحؑ کی اخلاقی تعلیم جو نئے عہدنامہ میں ہے اس کے سابقہ کتب میں پائے جانے اور ان سے ماخوذہونے کے بارہ میں آپ فرماتے ہیں:۔

’’صاحب ینابیع الاسلام نے اگر یہ کوشش کی ہے کہ قرآن شریف فلاں فلاں قصوں یاکتابوں سے بنایا گیاہے یہ کوشش اس کی اس کوشش کے ہزاروں حصہ پر بھی نہیں جو ایک فاضل یہودی نے انجیل کی اصلیت دریافت کرنے کے لئے کی ہے ۔ اس فاضل نے اپنے خیال میں اس بات کو ثابت کردیاہے کہ انجیل کی اخلاقی تعلیم یہودیوں کی کتاب طالمود اور بعض اور چند بنی اسرائیل کی کتابوں سے لی گئی ہے اور یہ چوری اس قدر صریح طورپر عمل میں آئی ہے کہ عبارتوں کی عبارتیں بعینہٖ نقل کردی گئی ہیں۔ اور اس فاضل نے دکھلا دیا ہے کہ انجیل مجموعہ مالِ مسروقہ ہے ۔درحقیقت اس نے حد کردی اور خاص کر پہاڑی تعلیم کو جس پر عیسائیوں کو بہت ناز ہے طالمود سے اخذ کرنا لفظ بلفظ ثابت کردیاہے اور دکھلا دیاہے کہ یہ طالمود کی عبارتیں اور فقرے ہیں اور ایسا ہی دوسری کتابوں سے مسروقہ عبارتیں نقل کرکے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیاہے ۔چنانچہ خود یورپ کے محقق بھی اس طرف دلچسپی سے متوجہ ہو گئے ہیں ‘‘۔(چشمہ ٔمسیحی ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۳۹)

یہ تحقیق جس کا بیج اس زمانہ میں بویا گیا اب ایک مسلّمہ حقیقت قرار پا چکی ہے ۔ معروف عالمِ بائبل Geddes Macgregor حضرت مسیحؑ کی اخلاقی تعلیم کے ذکر میں لکھتے ہیں :

“His ethical teaching was in no way radically different from the loftiest traditions of the Judaism into which he was born. This is plain from a careful reading of the Old Testament itself; the recently discovered Dead Sea Scrolls corroborate the already well established fact that as an ethical teacher Jesus gave his hearers a massage, which, however powerfully presented and convincingly demonstrated was not so distinctive as to be accounted a novel. In his ethical teaching Jesus in many ways highly conservative. True, he emphasised certain elements in the now rich Jewish tradition and disapproved of certain tendencies he noted in his development but this would be trueof any teacher worth listening to.”(The Bible in making p.24 .by Geddes Macgragor)

امریکہ کی معروف مذہبی شخصیت (ا ب آنجہانی)Rev.Charles Francis Potter لکھتے ہیں:

“Moreover,it is extremely embarrassing to read the best part of the Sermon on the mount,for instance, in the Enochan and other similar Essene writings, such as Jubilees, the Psalms of Solomon, and the Testamant of the twelve Patriarchs, when we have found actual pre-Christian manuscripts of them in Cave 4.”(The Lost Years of Jesus Revealed p.75. by The Rev.Dr.Charles Francis Potter)


انجیلی تعلیم مختص الزمان، مختص القوم تھی

پادری وہیری صاحب اپنی کتابوں کوکلام الٰہی ٹھیراتے ہیں اور قرآن شریف کو افتراء (نعوذباللہ) ٹھیراتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی کتابوں کا دائرہ خود ان کی اپنی تحریرات کے مطابق بنی اسرائیل کے لئے محدود ہے، نہ تما م دنیا کے لئے اور نہ ہمیشہ کے لئے ۔ اور ان کی تعلیمات بھی ایک محدود عرصہ کے لئے اورایک محدود دائرہ میں قابلِ عمل ہو سکتی ہیں۔ ہمیشہ کے لئے اور سار ی دنیا کے لئے ان پر عمل ناممکن ہے ۔حضرت کاسرِ صلیب علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’ماسوا اس کے قرآن شریف کے وجود کی ضرورت پر ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلی تمام کتابیں موسیٰ کی کتاب توریت سے انجیل تک ایک خاص قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا مخاطب ٹھیراتی ہیں اور صاف اور صریح لفظوں میں کہتے ہیں کہ ان کی ہدایتیں عام فائدہ کے لئے نہیں بلکہ صرف بنی اسرائیل کے وجود تک محدود ہیں ۔مگر قرآن شریف کے مدنظر تمام دنیاکی اصلاح ہے ‘‘۔(کتاب البریہ )

پھر فرماتے ہیں :

’’عیسائیوں کے محقق ا س بات کے بھی مصرّ ہیں کہ ایک عیسائی اپنے مذہب کی روسے انسانی سوسائٹی میں نہیں رہ سکتا اورنہ تجارت کرسکتاہے کیونکہ انجیل میں امیر بننے اورکل کی فکر کرنے سے منع کیا گیاہے۔ ایسا ہی کوئی سچا عیسائی فوج میں بھی داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن کے ساتھ محبت کرنے کاحکم ہے ۔ایسا ہی اگر کامل عیسائی ہے تو اس کو شادی کرنا بھی منع ہے ۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ انجیل ایک مختص الزمان اور مختص القوم قانون کی طرح تھی جس کو حضرات عیسائیوں نے عام ٹھہراکر صدہا اعتراض اس پر وا ردکرائے ‘‘۔ (کتاب البریہ)

پرانے عہدنامہ کے متعلق تو مسیحی خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا پیغام اوراس کی تعلیمات بنی اسرائیل کے لئے محدود تھیں مگرنیا عہد نامہ یہ بھی ظاہر کر رہاہے کہ بعد کے مسیحی خیالات کے برخلاف خود حضرت مسیحؑ اپنے مشن کو ایک محدود زمانہ کے لئے اور صرف ایک قوم کے لئے محدود سمجھتے تھے ۔ چنانچہ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں :

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے ۔ لیکن جب وہ سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا ۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اورتمہیں آئندہ کی خبریں دے گا‘‘۔ (یوحنا ۱۶: ۱۲۔۱۳)

’’یہ نہ سمجھوکہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابیں منسوخ کرنے آیاہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیاہوں کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتاہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے ۔پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے کلموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کوسکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑاکہلائے گا کیونکہ مَیں تم سے کہتاہوں کہ اگر تمہاری راستبازی فقیہوں اور فریسیوں کی راستبازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے‘‘۔ (متی ۵: ۱۷۔۲۰)

حضرت مسیحؑ نے اپنے بارہ حواریوں کو ارشاد فرمایا : ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہرمیں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا ‘‘۔(متی۱۰: ۵۔۶)

متی کا انجیل نویس لکھتاہے :

’’پھر یسوع وہاں سے نکل کر صور اور صیدا کے علاقہ کو روانہ ہوا اور دیکھو ایک کنعانی عورت ان سرحدوں سے نکلی اور پکار کرکہنے لگی:’’اے خداوندابن داؤد !مجھ پر رحم کر ایک بدروح میر ی بیٹی کو بُری طرح ستاتی ہے‘‘۔ مگر اس نے اسے کچھ جواب نہ دیا اور اس کے شاگردوں نے پاس آ کر اس سے عرض کی کہ اسے رخصت کردے کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاّتی ہے ۔ اس نے جواب میں کہا کہ مَیں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اورکسی کے پاس نہیں بھیجا گیا ۔مگر اس نے آ کر اسے سجدہ کیا اور کہا اے خداوند!میری مدد کر۔ اس نے جواب میں کہا لڑکوں کی روٹی لے کرکتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں ۔ اس نے کہا ہاں خداوند کیونکہ کتے بھی ان ٹکڑوں میں سے کھاتے ہیں جو ان کے مالکوں کے میز سے گرتے ہیں ۔ اس پر یسوع نے جواب میں اس سے کہا:’’اے عورت !تیرا ایمان بہت بڑاہے جیسا تو چاہتی ہے تیرے لئے ویساہی ہو ‘‘۔اوراس کی بیٹی نے اسی گھڑی شفا پائی‘‘۔(متی۱۵:۲۱۔۲۸)

کیا پادری وہیری صاحب اب بھی اپنے صحائف کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کا پیغام ہے (قُلْ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا)۔

قرآن کریم کے نعوذباللہ اپنے افتراء ہونے کی گواہی مہیا کرنے کا جو سوال پادری وہیری صاحب نے اٹھایاہے ہم ا س سوال کے جواب کو اس بات پرختم کرتے ہیں کہ قرآن مجید اپنے فی ذاتہٖ معجزہ ہونے اور کامل کتاب ہونے کادعویٰ کرتاہے۔ مگر چاروں اناجیل میں سے کوئی بھی اپنے بارہ میں اس قسم کا دعویٰ نہیں کرتی۔حضرت کاسر صلیب علیہ الصلوٰۃ والسلام ڈپٹی عبداللہ آتھم کو مباحثہ امرتسر میں مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

’’۔۔۔۔۔۔یہ قرآن کا دعویٰ ہے جس کو وہ اپنی تعلیم کی نسبت آپ بیان فرماتاہے اور پھر آگے چل کر اس کاثبوت بھی آپ ہی دے گا۔ لیکن چونکہ اب وقت تھوڑاہے اس لئے وہ جواب الجواب میں لکھا یا جاوے گا۔بالفعل ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ التماس ہے کہ بپابندی ان امور کے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں انجیل شریف کا دعویٰ بھی اس طرز اور اس شان کا پیش کریں کیونکہ ہر ایک منصف جانتاہے کہ ایسا تو ہر گز ہو نہیں سکتاکہ مدعی سست اور گواہ چست۔ خاص کر اللہ جلّ شانُہ جوقوی اور قادر اور نہایت درجہ کے علوم وسیع رکھتاہے ۔جس کتاب کو ہم اس کی طرف منسوب کریں وہ کتاب اپنی ذات کی آپ قیّوم چاہئے کیونکہ اگر وہ کسی دوسرے کے سہارا کی اپنی دعویٰ میں اثباتِ دعویٰ میں محتاج ہے تو وہ خداکا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اور یہ مکرّر5 یاد رہے کہ اس وقت صر ف مدّعا یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے اپنی تعلیم کی جامعیت اور کاملیت کا دعویٰ کیاہے یہی دعویٰ انجیل کا وہ حصہ بھی کرتاہو جو حضرت مسیحؑ کی طرف منسوب کیاجاتاہے اورکم سے کم اس قدر تو ہو کہ حضرت مسیحؑ اپنی تعلیم کو مختتم قرار دیتے ہوں اورکسی آئندہ وقت پرانتظار میں نہ چھوڑتے ہوں‘‘۔(جنگ مقدس)

اس سوال کے جواب میں ڈپٹی عبداللہ آتھم نے نئے عہد نامہ کے جو حوالہ جات پیش کئے ہیں ان میں نئے عہد نامہ یا اس کی کتابوں کی جامعیت اور کاملیت اور بے مثل ہونے کا کوئی دعویٰ نہیں بلکہ حضرت مسیحؑ کی تعلیم کے واجب العمل ہونے کا دعویٰ ہے ۔ سوال تو یہ تھاکہ کیا قرآن شریف کی طرح نئے عہدنامہ نے یا اس کی کسی کتاب نے اپنے بے مثل اور جامع اورکامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ؟۔ ایسا کوئی دعویٰ ان کتب میں موجود نہیں۔

ڈپٹی عبداللہ آتھم نے جو حوالہ جات پیش کئے ان میں اناجیل اربعہ میں سے صرف ایک حوالہ ہے جو یوحناّ ۱۲:۴۴۔۵۰ سے ماخوذ ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :

’’یسوع نے پکار کر کہا جو مجھ پر ایمان لاتاہے وہ مجھ پر نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے پر ایمان لاتاہے اورجو مجھے دیکھتاہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتاہے ۔مَیں نور ہو کردنیا میں آیاہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ اگرکوئی میری باتیں سن کر ان پر عمل نہ کرے تو مَیں اس کو مجرم نہیں ٹھہراتا کیونکہ مَیں دنیا کومجرم ٹھہرانے نہیں بلکہ دنیاکو نجات دینے آیاہوں۔ جو مجھے نہیں مانتا اورمیری باتو ں کو قبول نہیں کرتا اس کاایک مجرم ٹھیرانے والاہے یعنی جو کلام مَیں نے کیاہے آخری دن وہی اسے مجرم ٹھہرائے گا کیونکہ مَیں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسی نے مجھے حکم دیاہے کہ کیاکہوں اورکیا بولوں اور مَیں جانتاہوں کہ اس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے ۔پس جو کچھ مَیں کہتاہوں جس طرح باپ نے مجھے فرمایاہے اسی طرح مَیں کہتاہوں‘‘۔(یوحناّ۱۲:۴۴۔۵۰)

اس عبارت میں کسی جگہ اشارۃً بھی متی یا5 مرقس یا لوقا یا یوحناّ کی اناجیل کے جامع اور کامل اور بے مثل کتب ہونے کا دعویٰ نہیں ، نہ یہ کتب اس وقت موجود تھیں جب حضرت مسیحؑ نے یہ فقرات کہے ،نہ حضرت مسیحؑ کو ان کتب کا کچھ علم تھا۔ یہاں تو حضرت مسیحؑ اپنے واجب الاطاعت ہونے اور اپنے خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے ہونے کا دعویٰ پیش کررہے ہیں اور ہمیں اس سے پورا اتفاق ہے ۔ حضرت مسیحؑ خدانہیں بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے یعنی اس کے رسول تھے اورجن کے سامنے وہ فقرات کہہ رہے تھے ان کے لئے واجب الاطاعت تھے ۔ متی یا لوقا یا مرقس یا یوحناّ کی اناجیل کے کامل ہونے ، بے مثل ہونے ، جامع ہونے کا یہاں کوئی دورکابھی ذکر نہیں ۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۰ ،۲۷؍دسمبر۲۰۰۲ء)