وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۲)

آصف محمود باسط

کچھ عرصہ ہوا حضرت موسیٰ کے یدِ بیضا والے واقعہ کی تفسیر بیان فرمودہ حضرت المصلح موعودؓ پڑھنے کا  موقع ملا۔حضورؓ نے فرمایا ہے کہ اس سےمراد ہدایت اور رہنمائی بھی ہو سکتی ہے جو اس ہاتھ کے ذریعہ سے موسیٰؑ کی قوم کو حاصل ہونے والی تھی مگر اس سے عملاً یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ آپ ؑ کےہاتھ سے  حقیقت میں نورانی شعائیں نکلی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ افراد کو ایسا نور عطا فرماتا ہے جو ان کے وجود سے نکل کر دوسروں میں دخول کرتا ہے۔ حضور ؓ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ میرے پاس آتے ہیں۔ کہہ کچھ اور رہے ہوتے ہیں مگر مجھے ان کے اندر کچھ اور نظر آرہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کوئی بظاہر تو میرے ہاتھ کو بوسہ دے رہا ہوتا ہے مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے ہاتھ پر نجاست مل رہا ہے۔

یہ پڑھ کر دل خوف سے بھر گیا۔ ہم بھی تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہمیں تو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی مجال نہیں ہوتی، مگر حضور تو ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ نہایت ہی برکت اور سعادت کا باعث ہے کہ حضور کی نظرِ مبارک ہم پر پڑ جائے، مگر اس دوران ہماری شخصیت کے prism کے کونسا رخ سامنے آجائے اور اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے اندر کا کیا احوال بتا دے، کیا پتہ ہوتا ہے۔کئی دن اس خوف کی حالت طاری رہی۔ جیسی ٹوٹی پھوٹی دعا کرنی آتی ہے، وہ خدا کے حضور کی بھی۔ یہی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ ستاری کا سلوک فرماتا رہے۔ بظاہر میں جو بھی بنتا پھروں، باطن کا حال تو خود مجھے معلوم ہے یا میرے خدا کو کہ وہاں تو کوئی بھی ایسی بات نہیں جو حضور ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ ہر سطح پر کمزوری اور کوتاہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اللہ کی ستاری ہی ہے کہ گزارہ ہو رہا ہے اور حضور کی شفقت حاصل ہے۔ یا اللہ! اگر کبھی تیرے اس برگزیدہ نے میرے اندرکا حال جان لیا تو کیا ہوگا۔

اللہ کا بڑا کرم ہوا کہ انہیں دنوں حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب ’’منصبِ خلافت‘‘ بھی پڑھنے کا موقع ملاجس میں آپ ؓ نے ایک خلیفہ کے کام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو نبی کے کام ہیں، وہی خلیفہ کے کام ہوتے ہیں۔ یتلوا علیہم آیا تہ و یزکّیہم۔

تو دل کی کچھ ڈھارس اس طرح بندھی کہ اگر تو ہم گناہگاروں کے تزکیہ کا کام بھی خلیفہ کے سپرد ہے، تو وہ ہمارا مرض دیکھے گا تو علاج کرے گا۔ اس کے بغیر تو ممکن نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ استعداد  دے کر ہماری شرم یوں رکھ لی کہ جو باتیں ہم نہایت شرمناک سمجھتے ہیں اور کہنے کی ہمت کر ہی نہیں سکتے، وہ اللہ انہیں خود سجھا دیتا ہے۔ بلکہ اللہ کا بہت بڑا احسان اس شخص پر ہوگا جس کے اند ر کا حال خلیفۂ وقت جان لے اور اس کا تزکیہ کر دے۔

یوں دل نے تسلی پکڑی اور اس کے بعد نہ صرف حضور کی خدمت میں اپنی کمزوریوں کو بیان کرنے کا حوصلہ ملا، بلکہ جب جب لگا کہ حضور نے اس وقت دل کے اندر دیکھ لیا ہے، اور کچھ فرمایا ہے، تو اسے حق بات سمجھ کر تسلیم کیا۔ وہ مقام کج بحثی کا مقام نہیں۔ وہاں صفائیاں دینے کی گنجائش نہیں۔ وہاں غلط بیانی بھی نہیں ہو سکتی۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح خامس ایدہ اللہ تعالیٰ تو اپنے سامنے بیٹھے اپنے غلاموں کی اس حد تک شرم رکھتے ہیں کہ کبھی براہِ راست سوال نہیں کیا (علاوہ انتظامی معاملات کے جہاں یہ ناگزیر ہو جائے)۔ شخصی اعتبار سے ہمیشہ اشاروں کنایوں میں بات سمجھا دی۔ سمجھنے والا سمجھ لے تو خوشنصیب، نہ سمجھے تو یقیناً بے حد بدنصیب۔

مثلاً اگر کبھی فرمایا کہ ’’اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا خیال بھی رکھتے ہو یا افسری جھاڑتے رہتے ہو؟‘‘۔ تو اس کا جواب ہر گز ہرگز یہ نہیں کہ ’’نہیں، نہیں۔۔۔میں تو ایسا نہیں ہوں۔۔میں تو بڑا شفیق ہوں۔۔۔میں تو ایسا کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ اس کا جواب اسقدر ہے کہ ’’حضور، کوشش تو کرتا ہوں کہ خیال رکھوں، لیکن حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ ہمیں کیا پتہ کہ آج تو ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم میں یہ عیب نہیں، مگر آگے جا کر پیدا ہونے والا ہو۔ ہمارے کون سے عمل کی پاداش میں خدا تعالیٰ ہمارے دلوں سے رحم اٹھا لے اور ہم بے رحم بن کر رہ جائیں۔ پس ایسے موقعوں پر اس ہستی کی خدمت میں دعا کی درخواست کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کرنا چاہیے۔صرف خدا تعالیٰ غیب کا حال جانتاہے، مگر وہ خود فرماتا ہے کہ میں اس کا کچھ حصہ اپنے فرستادوں کو بھی دیتا ہوں۔ اور اس دور میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر فرستادہ کون ہوگا؟ اگر کوئی دوسرا یہ دعویٰ کرے تو صریحاً جھوٹا ، گمراہ اور گمراہ کن  انسان ہے۔پس ہمیں کیا پتہ کہ خدا نے اس گھڑی خلیفہ کے دل میں کیا بات ڈال دی ہے۔ اور دعا کے لئے عرض کرنے کا تو کوئی موقع بھی ضائع کرنے کے لائق نہیں۔

آج کچھ واقعات یہاں بیان کرنا چاہوں گا جو  میرے لئے نہایت ایمان افروز ہیں۔ ان واقعات کے بعد میرے دل میں تو کوئی شائبہ بھی شک نہیں رہ گیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو وہ دیدۂ بینا عطا فرما رکھا ہے جو پاتال تک پہنچتا ہے اور وہاں موجود سوالات ، خیالات اور محسوسات کو بھانپ لیتا ہے۔

ایک واقعہ تو ابھی کچھ روز قبل پیش آیا جس نے محاورۃ نہیں بلکہ حقیقتاً رونگٹے کھڑے کر دئیے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ایک مجلس سوال و جواب ایم ٹی اے پر نشر کرنا مقصود تھی۔ اس مجلس کے سلسلہ میں حضور انور سے  ہدایت  کی درخواست کرنی تھی۔  میں نے ابھی بات شروع کی کہ ’’حضور، حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ایک مجلس سوال و جواب ہے ۔ یہ کینیڈا میں ہوئی تھی۔۔۔‘

ابھی اسی قدر عرض کی تھی کہ فرمایا’’۔۔۔اور وہ مجلس انگریزی زبان میں ہے۔ اس میں کسی نے اٹھ کر اردو میں سوال کیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اسے کہا کہ مجلس انگریزی کی ہے، انگریزی میں پوچھو۔ اور اس نے جس قسم کی انگریزی میں پوچھا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ یہ تو انگریزی نہیں ہے! یہی والی مجلس ہے نا؟‘‘

اس سوال تک پہنچتے پہنچتے خاکسار مبہوت ہو چکا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں نے ابھی صرف یہ عرض کیا تھا کہ ایک مجلس سوال و جواب ہے جو کینیڈا میں ہوئی تھی۔ کینیڈا میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی بے شمار مجالسِ سوال و جواب ہیں۔ حضور کو کس طرح معلوم ہو گیا کہ میں کیا پوچھنے والا ہوں۔پھر وہ بھی اس قدر تفصیل کے ساتھ ۔ ایک ایک بات بالکل درست ایسے جیسے ابھی ابھی حضور نے ملاحظہ فرمائی ہو۔ ایک ذرہ مبالغہ کے بغیر عرض کروں گا کہ میرے ہوش و حواس معطل سے ہو گئے۔  یہ تک پوچھنے کی طاقت نہ تھی کہ حضور! آپ کو یہ سب کیسے پتہ چلا۔ پہلے تو یہ معلوم ہو جا نا کہ میں کون سی مجلس کے بارہ میں پوچھنے والا ہے۔ پھر وہ پورا واقعہ مجلس کے اس مقام کا تھاجس مقام سے متعلق خاکسار کو رہنمائی کی ضرورت تھی۔ پھر واقعہ بھی اس تفصیل کے ساتھ۔ ابھی میرا ذہن حیرت میں غوطے کھا رہا تھا کہ ارشاد ہوا’’بتاؤ ؟ یہی ہے نا؟‘‘

عرض کہ جی حضور، بالکل یہی مجلس ہے۔ بالکل یہی بات ہے جس کے آس پاس ہدایت کی ضرورت ہے۔ حضور انور کے چہرہ مبارک پر ایک بھرپور مسکراہٹ تھی۔ ادھر میری جو حالت تھی، اسے خوف کہنا چاہیے ، گھبراہٹ  یا حیرت۔ اب یہ الفاظ لکھتے وقت بھی نہیں معلوم کہ اسے کیا کہا جائے۔ میں نے اس موقع پر جس بے ساختگی سے پوچھاکہ ’’حضور، آپ کو کیسے پتہ چلا؟‘‘، اتنی بے ساختگی کی مجال کبھی ہوش کے عالم میں نہیں ہوئی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ میں کس درجہ حواس باختہ تھا۔ صرف اس قدر ارشاد فرمایا کہ’’تم نے کہا کینیڈا کی مجلس ہے۔ تو بہت سال پہلے ایم ٹی اے پر یہ مجلس دیکھی تھی۔ میں نے سوچا تم نے اسی کے بارہ میں پوچھنا ہوگا‘‘۔

ادھر میں تھا کہ اب بھی حیرت زدہ۔ بہت حیرت زدہ۔ کچھ خوف زدہ بھی۔ متعلقہ بات پر حضور انور نے رہنمائی سے نوازا اور پوچھا کہ ’’اورکیا کہتے ہو؟‘‘

ابھی دو تین اور باتیں (اس کے علاوہ) پوچھنے والی تھیں۔ میں نے اپنے کاغذات ، اپنے نوٹس ٹٹولے، مگر کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا ڈھونڈ رہا ہوں، کیا کر رہا ہوں۔ اوپر نظر اٹھی تو حضور اپنے کام میں مصروف تھے اور چہرہ مبارک پر اب بھی ایک پرسکون مسکراہٹ تھی۔ اجازت چاہی، اور باہر آگیا۔  باہر نکل کر لگا کہ کسی اور دنیا سے اس دنیا میں واپسی ہوئی ہے۔ جس جس کو یہ بات بتائی، سب حیرت زدہ تھے، کہ یہ ممکن کس طرح ہے؟ بعض نے تو یہ بھی کہا کہ ضرورتم نے کچھ نہ کچھ اشارہ تو دیا ہوگا۔ مگر انہیں یقین دلاتا رہا کہ میں نےکوئی بھی کسی بھی قسم کا اشارہ نہیں دیا۔ اگر کینیڈا کہہ دینا کوئی اشارہ ہے تو یہ تو کوئی اشارہ نہ ہوا۔ وہاں تو درجنوں مجالسِ سوال و جواب ہوئیں۔یہ کیسے ہوا، کیاہوا، میں تو کچھ بھی کہنے کے لائق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں۔ بلکہ یہ میرے سامنے میرے ساتھ ہوا ۔ بس اسقدر جانتا ہوں کہ وہ کوئی ایسی گھڑی تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادہ پر اپنے خاص علم کی ایک کھڑکی کھولی تھی۔ میں اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ میں نے کم از کم اس ایمان افروز واقعہ کا مشاہدہ ہی کر لیا۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل جماعتِ احمدیہ کی ایک بزرگ خاتون کا انتقال ہوا۔ ان پر ایم ٹی اے پاکستان سے ایک پروگرام بن کر آیا۔ یہ ان کی ذات اور شخصیت کے حوالہ سے ان کے عزیز و اقارب کی گفتگو پر مبنی تھا۔تین واقعات ایسے تھے کہ ان پر ہدایت لینا ضروری محسوس ہوا۔ خاکسار ڈی وی ڈی پر اس پروگرام کی ریکارڈنگ لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور انور نے اپنے دراز سے ٹی وی اور ڈی وی ڈی پلئیر کے ریموٹ نکالے اور یہ پروگرام حضور کے سامنے لگے ٹی وی پر چلا کر خاکسار ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ حضور نے پروگرام کے شروع کا کچھ حصہ دیکھا پھر ریکارڈنگ کو fast forwardکیا۔ روک کر جہاں سے چلایا، میں نے عرض کی کہ حضور، ایک بات تو یہ پوچھنی تھی(دل میں سوچا کہ عجیب اتفاق ہے)۔ حضور نے اس پر رہنمائی فرمائی۔ پھر fast forward کیا اور روک کر جہاں سے چلایا، وہ دوسری بات تھی جو میں نے پوچھنی تھی(اب بات اتفاق سے آگے بڑھ رہی تھی)۔ ہدایت ارشاد فرمائی اور پھر fast forward کیا۔ روک کر فرمایا کہ ’’اور تیسری بات یہ ہے جو تم نے پوچھنی ہے۔ یہی ہے نا؟‘‘۔ عرض کی کہ جی حضور، بالکل یہی ہے(اب کون ہے جو اسے اتفاق کہے؟)۔

حیرت سے میں نے حضور کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا۔ مگر وہاں تو وہ ایسا سکون تھا کہ جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔ جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔ جیسے اس میں حیران پریشان ہونے کی وجہ ہی کوئی نہ ہو۔

پوچھنے کی ہمت کسے ۔ نہایت ادب سے عرض کی کہ حضور، میں نے یہی تین باتیں پوچھنی تھیں۔ اس امید پر کہ شاید حضور کچھ پردہ اٹھائیں اور بتائیں کہ حضور کو یہ کس طرح معلوم ہوا۔ مگر حضور نے بس اسقدر جواب ارشاد فرمایا کہ ’’چلو، پوچھنی تھیں تو پوچھ لیں۔ جواب بھی مل گیا‘‘۔ میری کوشش رائیگاں گئی۔ مجھے اس حیرت ناک واقعہ کے پیچھے کارفرما علم کا کوئی سراغ نہ ملا۔

خطبہ جمعہ کا بھی تو یہی حال ہے۔ یقیناً سبھی اتفاق کریں گے کہ ہفتہ بھر کے دوران ایک خیال ہمیں پریشان کر رہا ہے۔ کوئی صورتحال درپیش ہے اور اس سے نمٹنے کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ گھر میں بچے نے کوئی سوال پوچھ لیا ہے مگر اس کا جواب نہیں سوجھ رہا۔ اور جب خطبہ جمعہ شروع ہوا تو یا تو پہلے ہی جملہ سے آپ کا دل خوش ہو گیا کہ لو بھئی! یہ تو آج میرے مسئلہ کا حل نکل گیا۔ یا پھر آگے چل کر کوئی نہ کوئی بات ایسی ارشاد فرمائی جو آپ کے ذہن کی گرہ کو کھول گئی۔پس اس سے اس تلقین کی حکمت بھی سمجھ آتی ہے جو حضور ہمیں متواتر فرماتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کے خطبات کو سنو۔ غور سے سنو۔ ان کی جگالی کرو۔ انہیں آپس میں دہراؤ۔ ان باتوں کو مجالس میں بیان کرو۔ حضور کی یہ تلقین اور تاکید ہمیں بتاتی ہے کہ حضور کا خطبہ ہمارے لئے  life line۔ ہم خطبات کو سنتے ہیں اور جب غور سے سنتے ہیں تو دل کئی بار یہ کہہ اٹھتا ہے کہ

میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

یہ علم کہ اس وقت جماعت کے دل میں کیاہے، انہیں کس جواب کی ضرورت ہے، ان میں سے بہت سوں کو کس معاملے میں رہنمائی کی ضرورت ہے، یہ سب علم خدا نہیں دیتا تو اور کون دیتا ہے۔ مانا کہ ہر فردِ جماعت حضور کو باقاعدگی سے خط لکھتا ہے ۔ اپنے مسائل بتاتا ہے۔ مگر خطبہ میں کروڑوں لوگوں کے خطوط کے جواب تو نہیں دئیے جاتے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ علم نفسیات میں ایک اصطلاح رائج ہے collective psychology۔ یعنی کسی معاشرہ یا قوم کی مجموعی نفسیات۔ مگر علمِ نفسیات میں اس اصطلاح کا اطلاق کسی خاص معاشرہ یا کسی ایک قوم پر ہوتا ہے۔ اس اصطلاح کا ماخذ جرمن ماہرِ نفسیات و مفکر کارل ینگ کا نظریۂ مجموعی لاشعور ہے جس کے مطابق کسی ایک خاص علاقہ میں رہنے والے، کسی ایک خاص بودوباش سے تعلق رکھنے والے، کسی ایک نسل سے تعلق رکھنے والے ایک  مجموعی لاشعور کے زیر اثر بہت سے رحجانات کو اپناتے ہیں۔ مگر بات ہو جماعت احمدیہ مسلمہ کی تو یہ جماعت تو دنیا کے ہر ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہر ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شامل ہیں جو اپنی اپنی ثقافت کے ساتھ ساتھ بلحاظِ عقیدہ احمدی مسلمان ہیں۔ ان سب کی نبض کو ٹٹول کر ان کی دھڑکن کو پڑھ لینا اور اس کے مطابق خطبہ میں ان کی رہنمائی کرنا، یہ صرف اور صرف حضرت خلیفۃ المسیح ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔ وہ خلیفہ جو خدا نے خود چنا ہو۔ اسی خلیفہ کی آواز کے بارہ میں تو کہا گیا کہ

جو آرہی ہے صدا، غور سے سنو اس کو

کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

حضور انور کے خطبات  کاہر لفظ ہمارے ذہنوں میں گردش کرنے والے سوالات اور مسائل کا حل ہے۔ آپ کے خطابات جو آپ بین الاقوامی سطح پر سیاسی و ملی اکابرین کے سامنے ارشاد فرماتے ہیں، ان کا ہر لفظ کئی سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ ان خطابات کے بعد یہ سیاسی اکابرین اور مفکرین بہت دفعہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ہم جو سوالات لے کر آئے تھے، ہمارے بغیر پوچھے حضور نے ان کے جوابات دے دئیے۔ ہم جو تصورات اسلام کے بارہ میں لے کر آئے تھے ہمارا خیال تھا کہ انہی کے ساتھ واپس جائیں گے، مگر حضور کو جیسے معلوم ہو گیا کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں ۔ حضور نے ہمارے خیالات کو تبدیل کر ڈالا۔

دفتری ملاقات میں مجال نہیں ہوتی کہ حضور کے اسقدر قیمتی وقت میں کسی ذاتی معاملہ کسی ذاتی مسئلہ کو چھیڑ دیا جائے۔ مگر بہت دفعہ یوں بھی ہوا کہ ذہن میں ایک ذاتی مسئلہ ہے اور ملاقات کے اختتام پر حضور نے خود ہی اسی مسئلہ کے بارہ میں دریافت فرمالیا۔ یا یہ کہ جو باتیں دفتری ملاقات میں پوچھنی تھیں، پوچھ لیں ۔ حضور اپنے کام میں مصروف ہیں۔اٹھنے کا اشارہ نہیں ہوا۔ جب اشارہ نہیں ہوا تو کون ہے جو نوروں نہاتےہوئے اس قامتِ گلزار کے پاس سے اٹھ کر چلا آئے۔ پھر ارشاد ہوا’’اور کیا کہتے ہو؟‘‘ تو اس میں کچھ عرض کرنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ حضور نے ایسے سنا جیسے یہی سننا چاہتے تھے۔ اور اس مسئلہ پر، اگرچہ ذاتی نوعیت ہی کا ہو، بڑی محبت سے ہدایات سے نوازا اور رہنمائی فرمائی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سب لوگ جو حضور انور کی خدمت میں ملاقات کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں، مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضور کو معلوم تھا کہ ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو یہاں تک کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔

یہ بات ہمارے لئے خوف کا مقام تو ہے ہی کہ ہمارا پیارا امام ہمارے دلوں کی پاتال تک میں دیکھتا ہے۔ یہ بات ہمیں اللہ تعالیٰ سے ستاری کی دعا پر راغب  بھی کرتی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بہت ہی شکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی شکل میں وہ ڈھال عطا فرما رکھی ہے، جس کے پیچھے ہم محفوظ ہیں۔ ڈھال تو آگےہوا کرتی ہے۔ اور حضور انور تو بہت ہی، بہت ہی آگے ہیں۔ ہم تو پیچھے پیچھے رینگتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ حضور کے دل میں پیچھے آنے والوں کے دلوں کا حال آشکار کردیتا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم خود بھی یہی  کریں اور اپنے بچوں کو بھی یہی تعلیم دیں کہ اپنا دل کھول کر خلیفۂ وقت کے سامنے رکھ دو۔ خط کے ذریعہ ملاقات سبھی کی ہو جاتی ہے۔ اپنے خطوں میں کیوں نہ اپنے دل کو کھول کر حضور کے سامنے پیش کر دیں۔ خدا تعالیٰ نے ویسے بھی حضور کو ہمارے دل کا حال بتا ہی دینا ہے۔ کیوں نہ ہم اپنے دل کی کتاب کھول کر خود سامنے رکھیں اور اپنے تزکیہ کا سامان کریں۔

رکھتا نہ کیسے روح و بدن اس کے سامنے

وہ یوں بھی تھا طبیب، وہ یوں بھی طبیب تھا