وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۳)

آصف محمود باسط

گزشتہ کچھ سالوں کے دوران حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے ایک دوست اور دو دشمنوں کی اولاد یہاں برطانیہ میں دریافت ہوگئی۔ خاکسار حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کچھ موضوعات پر تحقیق کر رہا تھا جس کے دوران انہیں تلاش کرنے کا موقع ملا اور اللہ کے فضل سے حضور انور کی دعا کے کرشمہ کی صورت میں یہ دریافت ممکن ہوئی۔ کرنل ڈگلس کا نواسہ، پگٹ کی نواسی اور پادری مارٹن کلارک کے پرپوتےکا سراغ ملا اور انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جماعتی اخبارات و رسائل میں ان کے ذکر پر لوگوں نے خاکسار کی کوششوں کو سراہنے کی جب  بھی کوشش کی، خاکسار نے انہیں ہمیشہ یہ بتایا کہ اس میں میرا کوئی بھی کمال نہیں۔ یہ صرف اور صرف حضور انور کی دعا، توجہ اور شفقت کا نتیجہ ہے۔ مگر آج اس مضمون کے ذریعہ خاکسار تمام قارئین تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہے تاکہ ریکارڈ میں بھی محفوظ ہو جائے کہ یہ صرف اور صرف حضور انور کی قوتِ قدسیہ کا نتیجہ تھا کہ یہ ممکن ہو سکا اور اللہ تعالیٰ نے یہ دریافت خلافتِ خامسہ کے مبارک عہد کے لئے اٹھا رکھی ہوئی تھی۔ سو ضروری ہے کہ ان کی تلاش کا کچھ احوال بیان کر دیا جائے تاکہ جن حقائق نے خاکسار کے ایمان کو تازہ کیا، وہ سب قارئین کے ازدیادِ ایمان کا باعث بھی ہوں۔

یہ اس دور کی بات ہے جب ہم پروگرام ’’راہِ ہدیٰ‘‘ میں پادری پگٹ والی پیشگوئی پر گفتگو کر رہے تھے۔ انہی دنوں انٹرنیٹ پر مخالفین نے بھی اس پیشگوئی کو بنیاد بنا کر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے استہزا پر کمر باندھ رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے تو فرمایا تھا کہ پگٹ جھوٹا ہے تو وہ میری زندگی میں وفات پا جائے گا اور اگر میں جھوٹا ہوں (معاذ اللہ) تو اس کی زندگی میں میر ی وفات ہو گی۔ پیشگوئی کو جھوٹاثابت کرنے کے لئے وہ اس بات کو بنیاد بنا رہے تھے کہ مرزا صاحب (علیہ السلام) تو 1908 میں وفات پا گئے جبکہ پگٹ 1927 تک زندہ رہا۔ طبیعت اس اعتراض پر بہت بے چین ہو جاتی۔ ایک دن حضور کی خدمت میں گزارش کی کہ خاکسار اس پیشگوئی پر مکمل تحقیق کرنا چاہتا ہے۔حضور نے بڑی بشاشت سے اجازت مرحمت فرمائی۔

خاکسار نے اس سلسلہ میں جماعتی لٹریچر کو بھی پڑھا اور پھر اس دور کے اخبارات کی تلاش شروع کی۔ معاملات خود بخود حل ہونے لگے۔ یہ تو ایک  طویل کہانی تھی جسے لکھنا ضروری تھا۔ لہذا حضور کی اجازت سے اسے مضمون کی شکل میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ پگٹ نے جہاں اپنی جماعت کے لئے کالونی بنا رکھی تھی، وہاں بھی گیا۔ اس پر تحقیق کرنے والے محققین سے بھی ملا۔ اس سے متعلق جتنی معلومات جمع کی جاسکتی تھی سب کی۔ اس کی وفات کے سرٹفکیٹ ، اس کے بچوں کی ولادت کے سرٹفکیٹ، اس کی شادی، اس پر لگائے گئے الزامات، اس کی ذلت و رسوائی کے عوامل، اس کا خود ٹوٹ پھوٹ جانا، اس کی جماعت کی شکست و ریخت اور نابود ہو جانا۔ ان سب معاملات سے گہری شناسائی اور ان دستاویزات کا حصول ہمت، وقت اور رقم کا متقاضی تھا۔ خاکسار کو یہ تینوں چیزیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے در سے ملیں۔ اس تحقیق پر کوئی سال بھر کا وقت لگا۔ اس دوران ایسے وقت بھی آئے کہ کئی کئی دن کسی چھوٹے سے شہر کے آرکائیوز میں اخباروں کو کھنگالنا اور ان کی دیمک نما بدبو کو سونگھنا پڑتا۔ مگر کچھ حاصل نہ ہوتا۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا۔

آج مجھے یہ شہادت دینے دیجیے کہ جب بھی حضور انور نے میری مایوسی کی کہانی سن کر فرمایا کہ ’’لگے رہو، کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا‘‘ تو اس کے چند دن کے اندر اندر وہ محنت جو بظاہر رائیگاں اور مایوس کن دکھائی دے رہی تھی، اس کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ کوئی ایسی کڑی مل گئی جس سے سلسلۂ خیال دوبارہ زندہ ہو گیا اور نئے راستے کھلنے لگے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں جب نہایت خوشی سے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اس دریافت کا ذکر تا، حضور ہمیشہ اسے ایسے سنتے جیسے حضور کو معلوم ہی تھا کہ ایسا ہوگا۔ جیسے حضور کو پتہ تھا کہ جہاں تک کھدائی کر کے یہ مزدور تھک کر بیٹھنے لگا ہے، دو ہاتھ کھدائی اور کر لے تو مقصود پا جائے گا۔اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔

انہی بوسیدہ کاغذات کے پلندوں میں سے اس کے چرچ واقع شمالی لندن کی فروخت اور ترکہ کے دستاویزات بھی ملے۔ ان سے اس کی ایک نواسی کا سراغ ملا جو اس زمانہ میں بریڈفورڈ میں مقیم تھی۔ یہ 2011 کی بات ہے اور اس کی سکونت کا پتہ تب سے بیس سال قبل کا تھا۔ اس کے مطابق وہ بریڈفورڈ شہر کے ایک  مکان میں سکونت پذیر تھی۔ خاکسار جس روز اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا کہ اس کی تلاش میں بریڈفورڈ جانا ہے، تو خاکسار نے یہ بھی عرض کر دی کہ حضور، یہ بیس سال قبل کا پتہ ہے۔ معلوم نہیں وہاں رہتی بھی ہو گی یا نہیں۔ ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں تیر چلانا۔ فرمایا ’’جاؤ گے تو مل جائے گی‘‘۔

میں ملاقات سے نکل کر سیدھا بریڈفورڈ کے لئے روانہ ہو گیا  جو لندن سے قریباً چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ وہاں پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی اور مناسب نہ لگا کہ یوں رات کے وقت کسی کے دروازہ پر دستک دی جائے۔ رات وہیں قیام کیا اور اگلے روز صبح اس پتہ کو تلاش کرتا ہوا وہاں جا موجود ہوا۔ اتوار کا دن، اور وہ صبح صبح کا وقت۔ مغربی ممالک میں تو اس وقت کوئی  کسی کے یہاں نہیں جاتا ۔ خیر ، دستک دی تو ایک ادھیڑ عمر انگریز ،  جو اپنے گاؤن میں ملبوس تھے، نے دروازہ کھولا۔ ان کے چہرہ  پر یوں بھی ناگواری تو شاید ہوتی ہی، مگر اپنے سامنے ایک پاکستانی نژاد، مسلمان کو کھڑا دیکھ کر وہ چونک سے بھی گئے۔ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید کوئی حملہ آور آگیا ہے اور جانے کیا کرے گا۔ میں نے بھرپور مسکراہٹ سے ان کی پریشانی کو دور کیا اور بتایا کہ میں اس نام کی خاتون کو تلاش کر رہا ہوں جو شاید یہاں رہتی تھیں۔

اس نے بڑے مختصر الفاظ میں نفی کی اور دروازہ بند کرنے ہی والا تھا، کہ میں نے ذرا ہمت کر کے پوچھا کہ آپ نے یہ مکان کب خریدا تھا؟ اب اس انگریز معاشرہ میں اس طرح کی گفتگو سخت نا پسندیدہ ہے۔ ہمارے یہاں تو اس سے بھی زیادہ ذاتی سوالات پوچھنے کا رواج ہے مگر یہاں یہ سوال اخلاقیات کے دائرہ سے خارج خیال کیا جاتا ہے۔ مگر میں بھی مجبور تھا۔ میرے پاس توپگٹ کی نواسی کو تلاش کرنے میں یہ امید کی آخری کرن تھی۔

اب اس نے اس سوال کے جواب میں اپنی آنکھیں گھمائیں (جسے انگریزی میں rolling his eyesکہتے ہیں اور  یہ بیزاری کی علامت ہوتی ہے)۔ مگر وہ کچھ غور کر رہا تھا۔ پھر انگریزوں کے مخصوص اختصار سے جواب دیا کہ کوئی پندرہ سال پہلے ایک خاتون سے خریدا تھا۔ اب یہ نہ پوچھنا کہ اب وہ کہاں رہتی ہے! میں  نے اسے بتایا کہ میں یہی پوچھنے والا تھا۔ کچھ اندازہ تو ہوگا۔ اس نے بتایا کہ بس اس قدر یاد ہے کہ وہ بریڈفورڈ سے بیزار تھی اور شیفیلڈ میں سکونت اختیار کرنے جا رہی تھی۔

اس کا بہت شکریہ ادا کیا، تکلیف کی معذرت کی اور قدرے مایوسی سے واپس پلٹ کر اپنی گاڑی میں آبیٹھا۔ اب شیفیلڈ جیسے شہر میں کہاں اشتہار لگاتا پھروں گا کہ اس نام کی خاتون کی تلاش ہے! کس سے پوچھوں گا، کسی کو بھلا کیا پتہ ہوگا کہ یہ انگلستان ہے اور یہاں تو برسوں بعد بھی پڑوسی کو پڑوسی کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔ ان کا نام تک معلوم نہیں ہوتا۔ مگر حضور کا ارشاد کہ ’’ڈھونڈنے نکلو گے تو مل ہی جائے گی‘‘ ذہن میں مستحضر تھا۔ اپنی ہمت دوبارہ اس ارشادِ مبارک کی بنیاد پر باندھی اور سوچنے لگا کہ اب یہ کس طرح ہوگا۔ کیونکہ اب اگر یہ کام نہ ہوا تو میں اپنی کوتاہی سے خلیفہ وقت کے ارشاد کو پورا ہونے سے روکنے والا نہ بن جاؤں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ملال جینے کیسے دے گا؟

اللہ تعالیٰ ہماری شدید خواہشات کو، اگر ان میں خیر کا پہلو ہو، بن مانگے بھی دعا سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ اور یہاں تو میر ی خواہش میں اس کے محبوب کا واسطہ بھی شامل تھا۔یکایک ذہن میں ایک خیال آیاکہ ٹیلی فون  ڈائریکٹری سے اس نام کے لوگوں کو شیفیلڈ میں تلاش کیا جائے۔ساتھ ہی اپنے موبائل فون میں برٹش ٹیلی کمیونیکیشن کی ویب سائٹ کھولی جس پر آن لائن ساری ڈائریکٹری موجود تھی۔ تلاش شروع کی تو مایوسی کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی کیونکہ اس نام سے سینکڑوں اندراج تھے۔ کس کس کو اتوار کی صبح فون ملاؤں گا اور کس طرح پوچھوں گا۔ پھر عصرِ حاضر میں رائج ٹیلی مارکیٹینگ نے انجانے کالرز کو یوں بھی بدنام کر رکھا ہے۔اگر فون اٹھانے والی وہ محترمہ ہوئیں بھی، تو وہ تسلیم کریں، بات کرنا پسند کریں یا بغیر جواب دئیے فون بند کر دیں، کیا معلوم! خیر، ہمت کر کے وہیں بیٹھے بیٹھے پہلی کال کی، دوسری اور پھر تیسری۔ جو کچھ طعن و تشنیع سننے کو ملی، اس نے تو ہمت کو اور بھی پست کر دیا۔ مگر اس محبوب کے دو بول میری عزتِ نفس سے کہیں زیادہ مقدم تھے۔ سوچا کہ کم از کم پہلے دس نمبروں پر تو کال کر لوں۔ پھر واپس لندن جا کر باقیوں کو تنگ کر کے ان کے درشت کلمات سن لیں گے۔

چوتھا نمبر ملایا۔ایک معمر اور مہربان خاتون کی آواز سنائی دی۔ ان سے پوچھا کہ کیا آپAnn Buckley ہیں۔ انہوں نے قدرے تامل سے کہا کہ ’’ہاں، لیکن تم کون ہو؟‘‘ میں نے اپنا تعارف کروایا کہ نام یہ ہے اور جماعت احمدیہ سے میرا تعلق ہے۔ آپ کے نانا کا نام پادری پگٹ تھا؟ انہوں نے جو جواب دیا اس سے میرے پورے بدن میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میں گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہوا گیا۔ انہوں نے بڑی محبت سے کہا کہ میں گھر پر ہی ہوں، یہ میرا پتہ ہے ابھی آسکتے ہو تو آجاؤ۔ بریڈفورڈ سے شیفیلڈ کا سفر قریب ایک گھنٹہ کا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ برادرم مکرم اعجاز احمد طاہر صاحب ساتھ تھے اور وہی گاڑی چلا رہے تھے۔ ورنہ اس روز میں گاڑی چلاتا توشاید قانون مجھے کبھی معا ف نہ کرتا اور کڑی سزا دیتا۔ اللہ انہیں جزا  دے کہ انہوں نے بڑی احتیاط سے گاڑی چلاتے ہوئے اس مہربان خاتون کے گھر تک پہنچا دیا۔محترمہ نے بڑی محبت سے پرتپاک استقبال کیا۔ بار بار پوچھتی کہ تمہیں نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟ میں اسے کیا بتاتا، کہ اسے میں نے نہیں ڈھونڈا۔ میرے خدا نے میرے محبوب امام کی بات کی لاج رکھی ہے۔

اگرچہ اس خاتون سے مل لینے کی خوشی بھی کم نہ تھی، مگر جب اپنے نانا کے اعتقادات کے ذکر پر انہوں نے کہا کہ  ’’میرے نزدیک وہ خرافات سے زیادہ کچھ نہیں ‘‘۔ تو دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا۔ خدا نے اس کی جماعت اور اس کے ماننے والوں کو تو نابود کر ہی دیا، مگر اس کی نواسی کو زندہ رکھا کہ وہ عہدِ خلافتِ خامسہ میں یہ بیان دے کہ اس کے نزدیک پادری پگٹ کے اعتقادات خرافات سے زیادہ کچھ نہیں۔پھر اس نے کہا کہ میرے پاس اپنے نانا کے بہت سے کاغذات محفوظ ہیں۔ دیکھنا چاہو گے؟ اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات ہو سکتی تھی۔ مجھے تو میری تحقیق کے حوالہ سے وہ کچھ مل گیا جو میں نے شاید خدا سے مانگا بھی نہیں تھا۔

تمام آرکائیوز اس نے ایک الگ کمرہ میں محفوظ کر رکے رکھے ہوئے تھے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر اس نے کہا کہ تسلی سے دیکھو، اور اگر چائے کافی کچھ بھی چاہیے ہو، تو مجھے آواز دے دینا۔

پہلے ڈبے کا ڈھکن کھولا۔ سب سے اوپر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کا وہ اشتہار تھا جو حضور ؑ نے بزبانِ انگریزی شائع کرواکر پادری پگٹ اور اس دور کے انگریزی اخبارات کو ارسال کیا تھا۔یہ دیکھ کر میں جس طرح چونک کر رہ گیا ہوں گا، وہ آپ اندازہ کر ہی سکتے ہیں۔ میں وہ اشتہار لے کر اس  کےپاس تقریباً دوڑتے ہوئے گیا۔ میں نے کہا یہ ہے وہ سارا قضیہ جس کے بارہ میں تحقیق کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس اشتہار کو پڑھا تھا اور مجھے اشتیاق بھی تھا کہ معلوم کروں کہ آخر کیا نتیجہ نکلا۔ انہیں اختصار کے ساتھ معاملہ کے بارہ میں بتایا گیا۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ہندوستان میں بیٹھے کسی آدمی تک پگٹ کا یہ دعویٰ پہنچا بھی، اور اس پر اس شخص نے اتنا بڑا اقدام کیا ۔ کہنے لگیں کہ میں کوئی مذہبی رحجان نہیں رکھتی مگر یہ جان کر حیران ہوں کہ میرے نانا کو ماننے والا تو آج ایک بھی آدمی نہیں جبکہ وہ لندن جیسے مرکزی مقام سے دعویٰ کرنے والا تھا، جب کہ ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گمنام گاؤں سے جس آدمی نے میرے نانا کو تنبیہہ کی، اس کی جماعت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔میرے نانا کا نام لیوا تو آج کوئی بھی نہیں بلکہ اگر ان کا نام دوبارہ سنا ہے تو تم لوگوں سے سنا ہے اور تم ہی لوگ ان پر تحقیق بھی کررہے ہو۔

جب انہیں بتایا گیا کہ حضرت بانیٔ جماعت کی خلافت جاری و ساری ہے اور کل عالم پر اسلام کی نیک نامی کا جھنڈا لہرانے کے لئے کمر بستہ ہے، تو انہوں نے حضور انور سے ملاقات کا شوق ظاہر کیا۔ اس ملاقات کا احوال ایک اور مضمون میں پہلے آچکا ہے۔ مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ حضور انور سے مل کر جس قدر متاثر ہوئی، وہ حضور انور کی قوتِ قدسی اور یوں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی صداقت کے نشان سے کم نہیں۔  ان کاغذات میں سے گزرتے ہوئے، گزرچکنے کے بعد اور واپسی کے سفر میں، حضور انور کے وہ الفاظ دل و دماغ میں گونج رہے تھے کہ ڈھونڈنے جاؤ گے تو مل بھی جائے گی۔ پورے واقعہ کو غور سے پڑھ لیں۔ خاکسار کی اس میں کوئی محنت نہیں نظر آتی، اور نہ تھی۔ چار ٹیلی فون نمبر گھما کر بات کر لینا کون سی کوئی بڑی بات یا کوئی بڑا تحقیقی معرکہ ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو بچپن سے سن رکھا تھا کہ خدا کا نبی یا خلیفہ کوئی بات کہتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے حرکت میں آجاتے ہیں اور تب تک دم نہیں لیتے جب تک اس بات کو پورا نہ کر دکھائیں۔الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو عملی رنگ میں مشاہدہ کرنے کی صورت پیدا فرما دی۔ مشاہدہ سے زیادہ  میں اسے اپنا تجربہ کہوں تو بہتر ہوگا۔

اسی طرح 2012 میں ہم ’’راہِ ہدیٰ‘‘ میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی پیشگوئیوں پر بات کر رہے تھے۔ کسی کالر نے فون کر کے پوچھا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے جنگ مقدس نامی مباحثہ کے دوران اپنے مد مقابل پادری عبداللہ آتھم کے  بارہ میں پیشگوئی کی کہ وہ پندرہ ماہ کے اندر اندر وفات پاجائے گا، مگر اس کی وفات معینہ مدت میں نہ ہوئی۔ہمارے علما ءنے اس سوال کا بہت تسلی بخش جواب دیا۔ خاکسار کو ایک بار پھر جستجو پیدا ہوئی کہ اس بارہ میں خود عیسائی منادوں کا ردِ عمل کیا تھا۔ یہ مباحثہ کس سطح کا مباحثہ تھا۔ لوگوں میں اس کا شہرہ تھا بھی یا نہیں۔ پس اس جستجو کو لے کر حضور انور کی اجازت میں حاضر ہوا۔ حضور انور نے ایک مرتبہ پھر بڑی بشاشت سے اجازت مرحمت فرمائی۔ اورمیں تو کہوں گا کہ ’’اجازت‘‘ کیا دی اک دل کی غذا دی۔استفسار فرمایا کہ ’’کیا ڈھونڈنا ہے؟‘‘ میں نے ابھی  بہت تھوڑا سا ہی بتایا تھا کہ فرمایا ’’اللہ فضل کرے۔ ڈھونڈو گے تو مل جائے گا‘‘۔ میں ابھی بہت ساری باتیں بتانا چاہتا تھا۔ کچھ بتانا شروع بھی کیا مگر ارشاد ہوا ’’اور؟‘‘ اور مجھے اپنے نوٹس میں لکھے اگلے معاملہ کی طرف بڑھنا پڑا۔میرا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی آتھم والے مباحثہ کے بارہ میں بتاؤں ، اور بتاؤں تاکہ تفصیل حضور کے علم میں آئے۔ مگر خدا کے پیارے کے منہ سے اس بات پر حتمی فیصلہ دعا کی صورت میں نکل چکا تھا۔ فرشتے حرکت میں آچکے تھے۔ دل اس یقین سے پر تھا کہ اب یہ کام ضرور ہوگا۔

اگلے کچھ ماہ مسلسل اس جستجو میں بسر ہوئے۔اس تحقیق کے دوران حضور انور کی پرشفقت رہنمائی سے یہ بھی سیکھا کہ بس ایک ہی کام کے لئے وقف ہو کر نہیں رہ جانا۔ حضور انور نے ایک روز فرمایا کہ ’’واقفِ زندگی کو multi-tasking کا ہنر آنا چاہیے‘‘۔  پس یہ کام بھی جاری رہا اور ساتھ دیگر کام بھی چلتے رہے۔ اس تحقیق میں کئی سفر، کئی دستاویزات خریدنا پڑیں۔پادری مارٹن کلارک ریٹائر ہو کر ہندوستان سے واپس سکاٹ لینڈ آکر ایڈنبرا شہر میں سکونت پذیر ہو گیا تھا۔ متعدد مرتبہ سکاٹ لینڈ جانا پڑا۔ حضور انور نے ہر موقع پر نہایت بشاشت سے سفر کی اجازت اور جس قدر رقم سفر اور دستاویزات کے حصول پر خرچ ہوتی تھی عنایت فرمائی۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر اس بات کا خود عینی شاہد بننے کی توفیق ملی کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی صداقت کو ثابت کرنے کی کوئی بھی راہ نکلتی ہو، حضور انور اس راہ پرچلنے کے لئے حوصلہ، ہمت، طاقت اور ہر طرح کا زادِ راہ جی کھول کر عنایت فرماتے ہیں۔

ہنری مارٹن کلارک اور عبداللہ آتھم دونوں کا تعلق چرچ مشن سوسائٹی سے تھا۔ ان دنوں ان کا صدر مقام آکسفورڈ شہر میں تھا ۔ وہاں موجود آرکائیوز میں سے وہ رپورٹس میسر آئیں جن میں ہنری مارٹن کلارک مباحثہ جنگِ مقدس کا احوال اپنے صدر دفتر کو ارسال کرتے رہے تھے۔ جس میں ان کا یہ اقرار بھی موجود تھا (نفرت سے بھرپور ہی سہی) کہ مرزا صاحب (علیہ السلام) نے ان کو جن دلائل میں الجھایا، ان دلائل کا انہیں کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی کہ مسلمانوں کو جب مباحثہ کی دعوت دی گئی تو ان کے اکابرین میں سے کوئی بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کو تیار نہ تھا، یہاں تک کہ قادیان کے مرزا صاحب (علیہ السلام) نے یہ ذمہ داری لی، اگرچہ انہیں تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج خیال کرتے ہیں۔ مگر انہیں غیر مسلم قرار دینے والوں میں سے ایک بھی لیڈر کو یہ طاقت نہ تھی کہ اسلام کے دفاع کے لئے آگے بڑھے۔

سوسائٹی کے بیشتر آرکائیوز کیڈبری ریسرچ لائبریری (برمنگھم یونیورسٹی) میں محفوظ کر لئے گئے ہیں۔ وہاں جا کر ہندوستان میں تعینات سوسائٹی کے منادوں کی خط و کتابت کے انبار ملے۔ فائلوں کے ڈھیر تھے جن میں سے گزرنا تھا۔ حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کر کے روانہ ہوا اور انہی بوسیدہ انباروں میں سے ہنری مارٹن کلارک کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خط ملا جو اس نے اپنے والد پادری رابرٹ کلارک کے نام لکھا تھا۔اس میں دیگر تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ ذکر بھی تھا کہ پندرہ ماہ کی معیاد ختم ہونے والی ہے۔ان دنوں عبداللہ آتھم اپنی بوکھلاہٹ کے ہاتھوں مجبور ہو کر فیروز پور میں مقیم ہے۔  اس سے ملاقات کا احوال درج ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اس کی پریشانی کسی قدر بہتر ہے، تاہم اسے امرتسر واپس لانے کا انتظام کیا جا رہا ہے تا کہ پندرہ ماہ کی معیاد گزر جانے پر جشن کیا جائے۔ اس جشن کے موقع پر اس نے کیا پڑھنا ہے،وہ میں نے خود اسے تحریر کر کے دیا ہے۔ ہزاروں کاغذات، دستاویزات اور فائلوں میں ہنری مارٹن کلارک کے ہاتھ لکھا یہ خط جس سے آتھم کی رجوع کی حالت صاف ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ نے عہدِ خلافتِ خامسہ کے لئے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ اس کی نقول حاصل کر کےحضور انور کی خدمت میں پیش کی گئیں۔

یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسی کسی بھی دریافت پر جب بھی خاکسار پورے جذباتی جوش و خروش کے حضور حاضر ہوا، توحضور کے تحمل، بردباری اور طمانیت کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ عام آدمی اور خلیفۃ المسیح کی wave lengthیکسر مختلف ہوتی ہے۔ ہم  جوش دکھاتے ہیں وہاں  ہوش نظر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بس دنیا کا سربستہ راز دریافت کر لیا، وہاں نگاہ افق پار لگی ہوتی ہے۔ کہ ابھی تو بہت کام باقی ہے۔ مگر اس سے یہ مطلب نہ نکالا جائے کہ حضور حوصلہ افزائی نہیں فرماتے۔ حضور انور کا ایک ہی جملہ مثلاً ’’کمال کر دیا! یہ کہاں سے نکال لائے‘‘ انسان کی ساری تھکن، ساری محنت پر بھاری ہوتا ہے۔ پھر حوصلہ افزائی فرمانے کے انداز تو ایسے ہیں کہ آدمی انہیں کیا بیان کرے۔ انسان نادان ہے، مگر ہمارےآقا کو تو خدا تعالیٰ  خود فراست، فہم، دوراندیشی اور دلجوئی  اور فیاضی کے نرالے اسلوب سکھاتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ایسا ہو تا ہے کہ انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ حضور مجھ سے فراموش نہیں۔اور اگر میں فراموش نہیں، تو اس مجسم دعا وجود کی دعا سے میں ضرور حصہ پا رہا ہوں۔ یہ ایندھن زندگی کی گاڑی کو چلتا رکھنے کے لئے بہت کافی ہے۔ اس وجود سے تعلق کے سوا باقی سب ہوا و ہوس کی کہانیاں ہیں۔

پھر مارٹن کلارک کی قبر تلاش کی گئی۔ اس کی وفات کا سرٹیفیکیٹ تلاش کیا گیا۔ اس سے اس کا آخری پتہ معلوم ہوا۔ وہاں سے اس کی جائداد کے کاغذات ملے اور وہاں سے اس کے ترکہ کی تفصیلات اور یوں، اللہ کے محض فضل اور حضور انور کی ر ہنمائی سے ہنری مارٹن کلارک کے پر پوتے تک رسائی حاصل ہو گئی۔

نہایت شفیق، مہربان  اورشریف کردار کے مالک انسان۔یہ انگلستان کے شہر بلیک پول میں مقیم تھے۔ ان کے پاس پہنچے تو مارٹن کلارک کے بہت سے کاغذات ملے جن میں مباحثہ جنگِ مقدس سے متعلق دستاویزات بھی میسر آئے۔(اس کی تفصیل ریویوآف ریلیجنز میں شائع ہو چکی ہے)۔

محترم جولن مارٹن کلارک صاحب، کہ یہ ان کا اسم گرامی ہے، بھی پوری داستان سن کر محوِ حیرت ہو گئے۔ ایک صدی کے اوپر ربع صدی گزرجانے کے بعد کوئی انہیں اس مباحثہ کے حوالہ سے ڈھونڈتا ہوا ان تک پہنچ جائے گا، یہ ان کے لئے ناقابلِ یقین بات تھی(اتنی ہی ناقابلِ یقین جتنی خود میرے لئے تھی)۔ بہت تپاک، بہت محبت سے ملے۔یہ جان کر جن کے ساتھ یہ مباحثہ ہوا تھا، ان کے پر پوتے آج ان کے جانشین اور خلیفہ ہیں، انہیں حضور انور سے ملنے کا اشتیاق لندن لے آیا۔

حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ جس انکساری اور عقیدت سے حضور انور سے ملے، وہ میں نے خود دیکھی اور میں گواہی دے کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہی انکساری تھی جو حضور انور کے غلاموں میں بوقتِ ملاقات ہوتی ہے۔ حضور سے ملاقات کے بعد بھی اپنی عقیدت کا اظہار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ میرے پر دادا کا تو نام و نشان مٹ گیا۔ مگر جو مد مقابل تھا، وہ کس شان سے دنیا کے ہر کونے میں گویا زندہ و موجود ہے۔ایسی بقائے دوام تو مسیح کو ہی ملنا مقدر تھی۔کہنے لگے کہ مباحثہ کے علمی پہلووں پر تو میری دسترس نہیں، تاہم جومیں دیکھ رہا ہوں وہ فیصلہ کرنے کے لئے کافی ہے۔

اسی طرح کرنل ڈگلس کی اولاد کی تلاش کی دفعہ بھی ہوا۔ اقدامِ قتل کے ایک بے بنیاد اور من گھڑت مقدمہ میں ملوث کرکے پادری مارٹن کلارک نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اہانت کا ارادہ کیا۔ مگر اس کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مسیح و مہدی کو خبر دے رکھی تھی۔ یعنی اسے خود اہانت اور ذلت اٹھانا پڑی۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ پادری مارٹن کلارک نے ایک مخبوط الحواس آدمی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ پر الزام لگائے کہ آپؑ نے اسے مارٹن کلارک کے قتل کے ارادہ سے امرتسر بھیجا تھا۔ اسے اس کے جھوٹے بیانات زبانی یاد کروائے گئے کہ عدالت میں یوں کہنا اور یہ کہنا ۔مقدمہ جس عدالت میں پیش ہوا، اس میں منصف کے فرائض کپتان مونٹاگو ولیم ڈگلس صاحب سر انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے مدعی کے بے سروپا بیانات کو سن کر اندازہ لگایا کہ یہ الزام کسی افسانے سے زیادہ نہیں۔ پھر ڈگلس صاحب کے اپنے بیان کے مطابق انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر بھی اندازہ لگا لیا کہ آدمی معصوم اور نیک ہے۔ اس کےلمبے عرصہ بعد وہ انڈین سروس سے ریٹائر ہوئے تو واپس لندن میں آکر آباد ہوئے اور جماعت کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ مراسم قائم رکھے اور مختلف جماعتی تقاریب میں اپنے اس تجربہ کو بیان فرماتے رہے جو انہیں حضور ؑ کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر ہوا تھا۔ کس طرح صداقت کا نور آپؑ کی پیشانیٔ مبارک پر نمایاں تھا۔ ان کی اولاد کو تلاش کرنے کے پیچھے یہ تحریک کارفرما تھی کہ آخر اس نے امامِ آخر زمان کے نور کو شناخت کیا تھا۔ ان کی اولاد کو ڈھونڈا جائے اور ایک مرتبہ پھر اسی نور سے روشناس کروایا جائے جو آج حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات میں ضو فشاں ہے۔

حضور انور کی خدمت میں اجازت اور رہنمائی کی غرض سے عرض کی۔ حضور نے بلاتامل اجازت بھی مرحمت فرمادی اور رہنمائی بھی فرمائی۔فرمایا کہ ’’یہیں لندن میں ہی کہیں ہوں گے، ڈھونڈنے کی بات ہے‘‘۔

اب یہ جملہ میرا مشعلِ راہ تھا۔ لاکھوں کروڑوں کے اس شہر میں کہیں کرنل ڈگلس کی اولاد موجود ہے۔ ضرور ہے کیونکہ حضور نے فرمایا ہے کہ موجود ہے۔ اب اسے کہاں تلاش کیا جائے۔ دوبارہ وفات کے سرٹیفکیٹ، وصیت کے کاغذات، ترکہ کی تفصیلات وغیرہ تلاش کی گئیں۔ بہت سے سراغ ملے۔ دل بہت خوش تھا کہ اس مرتبہ قدرے آسانی سے راہیں کھل رہی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے شاید یہ یاددہانی کروانی تھی کہ ایں سعادت بزورِ بازو نیست۔ یہ سعادت اگر ملنی ہے تو اسی آدمی کی دعا سے ملنی ہے جو میرا منتخب کردہ نمائندہ ہے۔ تمام سراغوں کا ’’کھرا ناپا‘‘ گیا۔ مگر تمام نشانات کہیں جا کر مندمل ہو جاتے۔ بڑا واضح سراغ ہوتا، مگر ہوتے ہوتے کہیں تحلیل ہو جاتا۔ سخت ناکامی و نامرادی کا سامنا ہوا۔ اس کے گھر کا پتہ معلوم ہو گیا۔ وہاں پہنچ بھی گئے۔ مگر نشان ندارد۔آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ہی نہیں۔ دل میں عجیب کوفت ہونے لگی کہ یہ کیا بات ہوئی، دشمن کی اولاد تو مل گئی تھی، دوست کی اولاد کی تلاش کا کوئی سرا ہاتھ آکر ہی نہیں دیتا۔ایک وقت آیا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ تلاش بے سود ہے۔ اب اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ جو ہو سکتا تھا، سب کر لیا۔

اب یہ مسئلہ تھا کہ حضور کو کس طرح بتاؤں۔ کیسی مایوس کن بات ہے۔ کیسی ناکامی ہے۔ حضور کی اجازت سے اسقدر وقت بھی صرف کر لیا، مگر ناکامی کے سوا کچھ واپس لے کر نہیں جا رہا ۔خیر ایک دن ہمت کر کے عرض کر ہی دی کہ حضور، ہر ممکن کوشش کر لی ہے۔ ڈگلس کی اولاد کا کچھ سراغ نہیں ملا۔

فرمایا’’نہیں ملی تو پھر کیا ہوا؟ مل ہی جانی تھی۔ صحیح سے ڈھونڈتے ۔ جانا کہاں ہے انہوں نے؟‘‘

اس کے بعد یہ بات بظاہر تو ختم ہو گئی مگر میں ملاقات سے نکلا تو طبیعت میں عجیب بے چینی تھی۔ مجھے اور کوشش کرنی چاہیے تھی۔ ہو سکتا ہے کہ تلاش کے آغاز ہی میں کہیں کجی واقع ہو گئی ہو کہ آگے ساری لکیر بے سمت ہو گئی۔دل میں ارادہ کیا کہ اب تک کی ساری تحقیق کو ایک طرف رکھ کر نئے سرے سے تلاش کا آغاز کیا جائے۔

ایک ایسے گاؤں کا پتہ چلا تھا کہ جہاں اس کی بیٹی کچھ عرصہ مقیم رہی تھی اور شواہد بتاتے تھے کہ کسی سکول میں پڑھاتی تھی۔ سوچا کہ وہاں جاکر کچھ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے۔ وہ نہیں ہوگی مگر آس پڑوس کچھ تو بتائے گا۔ مگر آس پڑوس کا حال تو اوپر بیان ہو چکا ہے۔ کسی کو کچھ بھی خبر نہ تھی۔ اچانک خیال آیا کہ محترم میر محمود احمد ناصر صاحب نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا کہ وہ جب 1952 یا 53 میں لندن میں مقیم تھے تو کرنل ڈگلس صاحب کی وفات ہوئی تھی۔ ان کے داماد نے مسجدفضل یعنی لندن مشن ہاؤس سے رابطہ کر کے جماعت کے نمائندگان کو جنازہ میں شمولیت کی دعوت دی تھی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (رحمہ اللہ تعالیٰ) اور محترم میر صاحب جنازہ میں شامل ہوئے تھے۔ جنازہ کہاں ہوا تھا، یہ تو یاد نہیں البتہ یہ یاد ہے کہ ان دنوں ان کے داماد جنوبی افریقہ منتقل ہونے والے تھے۔

حضور انور نے کس قدر درست فرمایا تھا۔ میری تحقیق کا قبلہ ہی درست نہ تھا۔ سراغ کہیں اور پڑے تھے اور میں اپنی خودتراشیدہ راہوں پر بڑےاعتماد سے چلتا چلا جا رہا تھا۔ بقول فیض

نہ جانے کس لئے امید وار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں

اب جنوبی افریقہ کے ریکارڈز، وہاں جانے آنے والے  مسافروں کے ریکارڈ، ان کی دیگر تفصیلات وغیرہ۔ اب جو تلاش کی سمت متعین ہوئی تو راستے کھلتے گئے۔ کرنل ڈگلس کی بیٹی اور داماد کی تفصیلات ملیں تو ان کی اولاد کے کوائف بھی معلوم ہو سکے۔ اوریوں، بعد  از تلاشِ بسیار، اللہ نے خاص فضل کیا او ر ایک مرتبہ پھر یہ نشان دیکھا کہ جب حضور نے فرمادیا تھا کہ  ڈگلس کی اولاد یہیں کہیں ہوگی، تو وہ یہیں کہیں سے نکل بھی آئی۔ اسی لاکھوں کروڑوں کی آبادی والے شہر سے وہ ایک فرد تلاش کرنے میں کامیابی ہو گئی جو کرنل ڈگلس صاحب کا نواسہ تھا۔

پہلے پہل تو انہیں ملنے میں ہمیشہ انقباض سا رہتا۔ پھر دو چار ملاقاتوں میں کچھ کھلے تو جی بھر کے کھلے۔ تمام قصہ ان کے لئے ایک بالکل نئی بات تھی۔وہ تو پورے معاملہ کی تفصیلات سنتے جاتے اور خوش ہوتے جاتے، مگر یہاں میں ایک عجیب الجھن کا شکار تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دشمن کی اولاد ملی تو اگرچہ اپنے آبا پر نفرین کرتی ہوئی، مگر بڑی اچھی کھاتی پیتی حالت میں۔ اور جس نے حضرت مسیح موعودؑکی پیشانی کے نور کو شناخت کیا، اس کی اولاد کی زندگی کیسی عجیب شکست و ریخت کا شکار ہے۔ بڑھاپے میں جوان بیوی طلاق دئیے بیٹھی ہے۔ طلاق کے باعث گھر ہے کہ ٹوٹنے کا آیا ہوا ہے۔ بچوں کی وجہ سے الگ پریشانی ہے۔ ایک مکان ہے جو بکنے کو لگا رکھا ہے۔ بیماریاں ایسی لاحق ہیں کہ کسی کام کاج کے لائق نہیں۔افلاس اور کسمپرسی کی عجیب تصویر کرنل ڈگلس صاحب کا نواسہ ہے۔ ادھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں جان کر وہ حضورسے ملاقات کا سخت مشتاق ۔ ایسا مشتاق کہ کہتا ہے کہ کسی بھی وقت لے جاؤ، مگر ضرور لے جاؤ، جلدی لے جاؤ۔

حضور سے گزارش کی اور حضور انور نے ازراہ شفقت ملاقات کا وقت عنایت فرمایا۔انہیں بھی اپنے نانا کی طرح حضور انور کی پیشانی پر صداقت ، محبت اورسکون کا نور نظر آیا۔ ایک ہی ملاقات میں گرویدہ ہو گئے۔ اس قدر گرویدہ کہ ہمیشہ حضور کی خیریت دریافت کرتے اور دعا کی درخواست کرنے کو کہتے۔دعا کی یہ درخواستیں خاکسار ہمیشہ بطور امانت حضور انور تک پہنچادیتا رہا۔ حضور بڑی محبت سے سنتے اور دعا ئیہ کلمات سے نوازتے۔ میں یہ دعائیہ کلمات بھی بطور امانت کرسٹوفر صاحب کو پہنچا دیتا رہا۔ وہ بڑی طمانیت محسوس کرتے۔ ایک روز کہنے لگے کہ بیماری میں بے چینی بڑھتی ہے تو حضور کے الفاظ سن کر دل کو سکون پہنچتا ہے۔ آرام محسوس ہوتا ہے۔

دعاؤں کی درخواستوں اورحضور کے دعائیہ کلمات  کی امانتوں کو خاکسار یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں پہنچاتا رہا۔ دو سال کے قریب عرصہ ہو گیا توایک روز  میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے بتایا تھا کہ آپ مذہبی رحجان کے آدمی نہیں۔ پھر یہ دعائیں اوران سے ملنے والی طمانیت کو کیسے دیکھتے ہیں۔ ان کے چہرہ پر ان کے جذبات کے رنگ نظر آنے لگے۔کہنے لگے کہ مجھے ساری عمر کبھی خدا کی یاد آئی نہ اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں نے ایک نہایت غیر مذہبی اور لاابالی زندگی گزاری ہے۔ مجھے خدا کی ذات پر غور کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، مگراب مجھے خدا پر یقین ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے حضور کی شخصیت ایسے میں ملی کہ میرا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔میرے لا ابالی مزاج کے باعث دوست تو سب وقتی نکلے۔ بیوی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ بچے یا تو بیوی کے ساتھ ہیں یا جو خودمختار ہیں ان کے پاس میرے لئے وقت نہیں۔ اور بیماریاں اور مسائل ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں تم مجھے ڈھونڈتے ہوئے آنکلے۔ مجھے حضور سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔میں اسے اتفاقی حادثہ نہیں کہہ سکتا۔ تم لوگ مجھے اپنی جماعت کا حصہ ہی سمجھو۔

میں نے ان کا یہ پیغام حضور تک پہنچا دیا۔ حضور نے بڑی تفصیل سے اس کا حال دریافت کیا۔ ان صاحب کے نانا یعنی کرنل ڈگلس نے منصفی کا حق ادا کرتے ہوئے نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کو بری قرار دیا تھا بلکہ آپ کا گرویدہ بھی  ہو گیا تھا۔ اگر ہر احمدی کو ڈگلس صاحب کی راست گوئی، انصاف پسندی اور فطرتِ سعید کا پاس  اور احترام ہے، تو وہ جو اس احسان نا فراموش جماعت کا سربراہ ہے، خود مسیح موعودؑ کا جانشین ہے، اسے تو یہ احساس سب سے بڑھ کر ہونا قدرتی بات ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بزرگ ہستی کے نواسے سے بہت محبت کا سلوک فرمایا۔ اس کے نانا کے کارِ خیر کے نام پر اس کے ساتھ ایسے احسانات کئے جنہیں تفصیل سے بیان کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ اتنابتادیتا ہوں کہ ڈگلس صاحب کے اس نواسے کی زندگی اس دن کے بعد سے مکمل طور پر تبدیل ہو گئی جس دن یہ حضور کو ملا۔ اللہ نے ان کے دل میں نورِ ہدایت بھی پیدا کر دیا اورحضورانور کے دل میں اس کےلئے ایسی محبت پیدا کر دی کہ ان کے روز و شب کا ہر لمحہ حضور انور کی شفقت کا مورد ہے۔ بیماری سے شفایاب کرنا تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔مگر زندگی کی دیگر سماجی آلائشیں اور تکالیف دور ہو جائیں تو بیماری کو کاٹنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ وہ بیمار تو بہت ہیں مگر بہت آرام میں ہیں۔

ان سے فون پر رابطہ رہتا ہے۔ وہ خود بھی باقاعدگی سے رابطہ رکھتے ہیں۔  ابھی مضمون تحریر کرتے ہوئے دوبارہ ان کا خیال آیا تو انہیں فون کیا اور خیریت دریافت کی۔ اپنی بیماری کا احوال سنانے کے بعد کہنے لگے کہ مجھے چھوڑو، حضور کیسے ہیں؟

میرا جواب سن کر کہنے لگے کہ حضور کو میری طرف سے سلام کہنا۔ دعا کے لئے کہنا۔ میں نے وعدہ کر لیا کہ ضرور کہوں گا۔ فون پر بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ فون بند ہوا توتھوڑی دیر بعد ان کا ٹیکسٹ میسج آیا۔ اردو ترجمہ یوں ہے کہ ’’میرے کوئی اور دوست نہیں۔ حضور کو بہت محبت بھرا سلام پہنچا دینا‘‘۔ میں اس واقعہ کو یہاں بلا تبصرہ چھوڑ نا چاہتا ہوں۔ کچھ کہنے کی گنجائش ہی کہاں ہے۔

اپنی گزارشات کے اختتام پر اتنا عرض کرتا چلوں کہ کوئی کوشش، تب تک ثمر آور نہیں ہو سکتی ، اگر اس میں خلیفۂ وقت کی دعا شامل نہ ہو۔ تحقیق کا میدان ہو، تعلیم کا، روحانی سفر کا، گھر کا، غرض کوئی بھی میدان ہو، اگر خلیفۂ وقت کی توجہ اور دعا حاصل ہو جائے، تویہ ممکن نہیں کہ  آدمی وہ میدان مار کر کامیاب و کامران نہ ہو۔دوسرا یہ کہ خلیفۂ وقت کی کسی بھی بات کو ، خواہ وہ ہماری کوتاہ بین آنکھوں کو معمولی ہی لگتی ہو،  کبھی بھی معمولی نہ سمجھا جائے۔ حضور انور کی ہر بات میں گہری حکمت تو ہوتی ہی ہے، مگر حضور کی ہر بات کو پورا کر دکھانے کے لئے فرشتے مصروف ِ کار ہو تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے مقام اور منصب کو سمجھنے اور خلیفۂ وقت کی ہر بات کو اپنی زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔