وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (۶)

آصف محمود باسط

خاکسار کی خوش قسمتی ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی دورہ سے واپس تشریف لانے پر وہاں ریکارڈ ہوئے تمام پروگرام پہلے خاکسار کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض پروگرام تو دورہ کے دوران لائیو نشر ہو چکے ہوتے ہیں  لیکن اکثر پروگرام حضور کے دورہ سے تشریف آوری کے بعد نشر کئے جانے ہوتے ہیں۔ ان پروگراموں میں سب سے پہلے حضور انور کے ساتھ واقفینِ نو اور طلبا کی کلاسوں کو دیکھنے کا اشتیاق ہوتا ہے سو سب سے پہلے انہیں دیکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ کلاسیں بھی عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہیں۔

اب دنیا بھر میں ہونے والی کلاسوں کا ایک مخصوص طریق بن گیا ہے کہ پہلے تلاوت ، پھر نظم پھر واقفین نو کی تقاریر اور پھر وہ وقت جس کا سب کو انتظار ہوتا ہے یعنی جب حضور انورشرکا سے گفتگو فرماتے ہیں۔ یہ گفتگو ہمیشہ صرف شرکأ کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام جماعت کے لئے اپنے اندر طرح طرح کے سبق لئے ہوتی ہے۔ جہاں شرکا سوالات پوچھ کر اپنے جوابات حاصل کرتے ہیں وہاں اور بہت سی باتیں اپنے اندر بہت باریک نکات لئے ہوتی ہیں۔

انہی کلاسوں میں شرکا ایسے سوالات پوچھ لیتے ہیں جو ان کی عمر کے اعتبار سے بظاہر عام سے نظر آتے ہیں مگر وہ فقہ احمدیہ کے ارتقا کوایک نئی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ دورِ حاضر کے بہت سے مسائل ہیں جن پر حضور انور رہنمائی فرماتے ہیں۔ مثلاً ایک کلاس میں پوچھا گیا کہ اگر کوئی ریسٹورنٹ سورکے گوشت کی اشیائے خوردنی  بنا کرفروخت کرتا ہے مثلا پزا یا برگر وغیرہ تو کیا وہاں احمدی مسلمان ملازمت کر سکتے ہیں؟ حضور نے جواب عطا فرمایا کہ اگر ان اشیأ کی تیاری میں بھی ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے تو پھرنہیں۔

آئندہ کسی کلاس میں کسی بچے نے اس جواب کا حوالہ دے کر پوچھ لیا کہ بہت سے احمدی ایسے سپر سٹورز میں بھی تو کام کرتے ہیں جہاں شراب اور سور کے گوشت کی اشیاء فروخت ہوتی ہیں، تو اُس پر حضور انور نے رہنمائی فرمادی کہ ان چیزوں کے بنانے میں اگر وہ شامل نہیں اور خریدار سے پیسہ وصول کر کے اسے سٹور انتظامیہ کو جمع ہی کروانے کا کام ہے تو کیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح مارگیج یعنی سود پر مکان خریدنے کے بارہ میں ایسی کلاسوں  ہی میں گتھیاں سلجھتی بھی دیکھیں۔ لباس، پردہ، مخلوط تعلیم، مرضی کی شادی، دین اور دنیا کی متوسط اور متوازن راہیں اور اس طرح کی بہت سے پیچیدہ مسائل جو مغربی معاشرہ (اور اب تو تمام دنیا ہی مغربی معاشرہ کا آئینہ بن کر رہ گئی ہے) میں رہنے والے بچوں کو درپیش ہیں، وہ سب ان نوجوانوں نے حضور انور کی خدمت میں پیش کئے اور ان پر رہنمائی چاہی۔ اور حضور نے اس پر رہنمائی عطا فرمائی۔

کئی بار سوچا کہ یوں ہر بات کا جواب مستحضر کیسے ہوتا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ دنیا بھر کے احمدی نوجوان حضور کی خدمت میں اپنی ہر طرح  کی مشکل، ہر طرح کا مسئلہ کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ لاکھوں ہوں گے جو خطوط میں اور لاکھوں  ہیں جو بالمشافہ حاضر ہو کر اپنے دل کی ہر بات کہہ ڈالتے ہیں۔ کوئی ہے جو عبادت میں لذت نہیں پاتا، کوئی ہے جو خدا کے بارہ میں شکوک کا شکار ہو گیا ہے، کسی کی محبت میں کوئی خاتون گرفتار ہے مگر احمدی نہیں اور شادی کی خواہش مند ہے ، کسی کو تعلیم کے میدان کے چناؤ میں الجھن درپیش ہے، کسی کے والدین اس سےخوش نہیں، کسی کو پردہ کرنے میں کالج کی طرف سے دقت کا سامنا ہے، کسی کو خود پردہ کی حکمت سمجھ نہیں آرہی۔ کوئی ہے جو اپنے امراض کے علاج پر رہنمائی چاہتا ہے، کوئی ہے جوہجرت کر کے کسی اور ملک جا کر آباد ہونا چاہتا ہے اور یہاں تک بھی کہ کوئی ہے جس کی شادی تو ہو گئی ہے مگر وہ کئی ماہ بعد تک شادی شدہ کہلانے کے قابل نہیں ہوسکا۔

پس کیا مشرق اور کیا مغرب، دنیا کے کونے کونے سے آنے والے لوگ حضور سے رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں، اور حضور اپنی اس پیاری جماعت کے افراد کو مشورہ اور ہدایت سے نوازتے رہتے ہیں۔اور یوں دنیا بھر کے مسائل حضور کی نظر کے سامنے رہتے ہیں۔مگر ایسا بھی نہیں کہ چونکہ اکثر مسائل اور ان کے حل مستحضر رہتے ہیں تو حضور ہمیشہ اسی وقت اس کا جواب بھی دے دیں۔ بعض اوقات کسی سوال کی نوعیت کے پیشِ نظر حضور اس پر تحقیق کرنے کا ارشاد بھی فرما دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو خودسائل ہی کوارشاد فرما دیتے ہیں کہ فلاں صاحب سے یا ریسرچ سیل ربوہ سے  پوچھ لویا پھر وہاں موجود انتظامیہ میں سے کسی کوتحقیق کرنے کی  یہ سعادت بہم ہوجاتی ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ ؑ کے سفرِ کشمیر کے بارہ میں کسی نوجوان نے سوال کیا۔ اس کا سوال بظاہر سیدھا سادا تھا، مگر حضور کا جواب صرف اُس نوجوان تک تو محدود نہیں رہنا تھا۔ حضور کے جواب میں تو دنیا بھر کے لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا سامان ہوتا ہے۔ اس لمحہ جانے خدا نے دل میں کیا ڈالی کہ حضور نے اسے بہت تفصیل سے بتانا شروع کیا۔ پوری تفصیل بتانے کے بعدخاکسار کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ میرے دفتر میں میرے میز کے بائیں جانب جو بہت سے کاغذ پڑے ہیں ان میں کہیں درمیان میں کر کے اس موضوع پر کچھ مواد پڑا ہے ۔ وہ لے آؤ۔

میں فوراً جانے لگا تو فرمایا ’’سمجھ آگئی ہے نا؟ میز کے بائیں طرف، کاغذوں میں، ایک فولڈر میں ہوگا‘‘۔

یہ بات حضور اسی کلاس میں بیان فرمانا چاہتے تھے اور منشأ مبارک یہ تھا کہ وقت بالکل ضائع نہ ہو۔اس لئے دوبارہ اچھی طرح سمجھا کر روانہ کیا۔ میں نےجاکر حضور کے پروائیویٹ سیکرٹری محترم منیر احمد جاوید صاحب کو پیغام دیا۔ انہوں نے بڑی سرعت سے اٹھ کر یہ مضمون تلاش کیا اور میں یہ مضمون لے کر واپس کلاس میں حاضر ہو گیا۔حضور نے شیروانی کی جیب سے عینک نکال کر لگائی اور کچھ تلاش کر کے پڑھ کر اس بات کو بیان کیا۔ بات بالکل وہی تھی جو حضور بیان فرما چکے تھے، مگر چونکہ اس معاملہ پر تفصیلی تحقیق میسر تھی، حضور نے اسے منگوا کر اس میں درج حوالہ جات بھی نوجوان کو بتا دئیے۔

ایک مرتبہ ایک نوجوان نے سوال کیا کہ  حضرت صوفی احمد جان صاحب نے دعویٰ سے قبل ہی حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کو شناخت کر لیا تھا اور آپ سے بیعت لینے کی التجا بھی کرتے رہتے تھے۔ مگر دعویٰ اور بیعتِ اولیٰ کے وقت وفات پاچکے تھے۔ کیا انہیں صحابی کہا جائے گا یا نہیں؟

حضور انور نے فوراً جواب تو ارشاد فرما دیا کہ اپنی نیکی، تقویٰ اور شناخت کے باعث آپ کا مقام بہت اونچا ہے مگر صحابی کی تعریف میں نہیں آتے، لہذا صحابی نہ کہلائیں گے۔ مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ اس معاملہ پر ربوہ میں بعض  بزرگان سے پوچھو کہ ان کا کیا کہنا ہے۔ خاکسارنے حسبِ ارشاد ربوہ میں ان بزرگان کو حضور کا ارشاد بھیج دیا۔ انہوں نے اپنی رائے پیش کی کہ وہ صحابی شمار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے بھی جہاں 313 صحابہ کی فہرست درج فرمائی ہے، ان میں ان کا نام نہیں۔پھر حضور نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو کلاس میں بیان فرمایا کہ اب مکمل تحقیق کے بعد فیصلہ یہ ہے کہ وہ لفظ ’’صحابی‘‘ کے اصطلاحی معنوں میں صحابی نہیں۔

کیسی حیرت کی بات ہے۔ آخری فیصلہ خلیفۂ وقت ہی کا ہوگا مگر حضور اس آخری فیصلہ سے قبل فرماتے ہیں کہ تحقیق کرو اور جواب لے کر آؤ۔ مجھے تو جو بات سمجھ میں آسکی وہ یہ ہے کہ ایک تو قرآنی احکامات سب سے زیادہ خلیفۂ وقت کے پیش نظر رہتے ہیں۔ اور وہ سب سے زیادہ جانتے ہیں کہ فرمانِ الہی کی تعمیل ہی میں برکت ہے۔ سو جہاں بھی موقع ہو، مشاورت کے حکم پر عمل کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی اس کی عادت ہو۔ دوسرا یہ کہ نوجوانوں کی یہ نشستیں ان میں تحقیق کا شوق پیدا کریں۔ احمدیت کے یہ سپاہی دلائل کی تلوار لے کر نکلیں تو دلائل مضبوط ہوں۔ انہیں معاملات کی چھان بین اور ان پر غور و خوض کی عادت ہو۔ پس ان کلاسوں اور ان نشستوں میں حضور انور کے مدِ نظر احمدی نوجوانوں کی ہر طرح کی تربیت رہتی ہے۔

جہاں تحقیق اور وقت لگا کر فیصلہ کرنے کی تربیت ان نشستوں میں نظر آتی ہے وہاں حضور انور گاہے بہ گاہے اس بات کی تربیت بھی دیتے رہتے ہیں کہ جو فیصلہ فوری کرنے کا ہے اس پر غیر ضروری عجلت سے نہیں مگر جلد فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو۔

جامعہ احمدیہ یوکے کا قیام 2005 میں عمل میں آیا۔ تب حضور انور کی خدمت میں بغرضِ رہنمائی عرض کی گئی کہ جو طلبا جامعہ چلے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر واقفین نو ہیں۔ کیا انہیں بھی حضور کے ساتھ واقفین نو کی کلاس میں بلایا جائے؟ حضور نے فرمایا کہ ان کی الگ کلاس  ہوگی۔ سوطلبا جامعہ کی الگ کلاس ہونے لگی۔جسطرح باقی کلاسوں کے نام تھے اسی طرح اس کلاس کانام بھی ’’کلاس جامعہ احمدیہ یوکے‘‘ رکھ دیا گیا۔کچھ عرصہ یہ کلاس یونہی ہوتی رہی۔ ایک روز جامعہ احمدیہ یوکے کی کلاس حضور کے ساتھ جاری تھی کہ اچانک حضور انور نے فرمایا کہ ان کی کلاسیں تو صبح سے شام تک ہر روز ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں بھی اس کا نام کلاس کا رکھ دیا ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے! ہم منتظر تھے کہ حضور کوئی نام ارشاد فرمائیں گے۔ فرمایا ’’سوچو‘‘۔ پھر اگلا طالبِ علم اپنا کوئی مضمون پڑھنے لگا۔ اس نے ختم کیا تو فرمایا کہ کچھ ’’سوچا؟‘‘ عرض کی کہ کچھ ذہن میں نہیں آیا۔ پھر کچھ اور پڑھا جانے لگا۔ اس کے ختم ہونے پر فرمایا کہ’’ کیا سوچا؟‘‘۔عرض کی کہ ’’ ایک نشست‘‘۔ فرمایا ٹھیک ہے، ابھی جا کر ٹھیک کروادو’’طلبا جامعہ کے ساتھ ایک نشست‘‘۔ ہر کلاس کا نام سائڈ پر رکھی ٹی وی سکرین میں نظر آتا رہتا ہے۔ خاکسار فوراً کنٹرول روم میں گیا اور کلاس کا نام بدلوا کر وہ لکھوا دیا جو حضو ر انور نے ابھی ابھی ارشادفرمایا تھا۔پھر ایم ٹی اے پر پروگرام کی تعارفی پٹی میں بھی تبدیل کروایا تاکہ جب چلے تو اپنے نئے نام کے ساتھ چلے۔

اس میں ایک سبق ہمیں تو یہ ملا کہ ہمیں اس نئی کلاس کا نام حضور انور سے رہنمائی لے کر رکھنا چاہیے تھا ۔ یہ بات درست نہ تھی کہ گزشتہ ناموں کو دیکھ کر نئی کلاس کا نام بھی وہی رکھ دیں۔پھر طلبا سمیت ہم سب کو جو سبق عطا فرمادیا وہ یہ کہ جو کام کرنے والا ہے، وہ جتنا جلد ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔یوں یہ نشست آدھی ایک نام کے ساتھ اور آدھی دوسرے نام کے ساتھ نشر ہوئی۔

بچوں کے ساتھ یہ کلاسیں اکتوبر 2003 میں شروع ہوئیں۔ پہلی کلاس ’’بستانِ وقفِ نو‘‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں بارہ سال سے کم عمر کے بچے اور بچیاں شامل تھے۔ پھر چند ماہ کے بعد بڑے بچوں کے لئے الگ کلاسیں شروع کی گئیں۔ اب بستان کے علاوہ ’’گلشنِ وقفِ نو‘‘ کے نام سے ناصرات اور اطفال کی کلاسیں شروع کی گئیں۔ پھر لجنہ اور خدام کی کلاسیں بھی اسی نام سے ہونے لگیں۔پہلی پہلی کلاسوں میں ہمیں ناتجربہ کاری(بلکہ یہاں نادانی کا اعتراف بھی کرلینا مناسب ہوگا) کے باعث یہ معلوم نہ تھا کہ حضور کے سامنے قرآن کریم، دُرِّ ثمین، اور بعض دیگر کتب رکھنا ضروری ہیں کہ اگر حضوربچوں کو کچھ ان میں سے بتانا چاہیں یا درستگی فرمانا ہو تو کتب فوری میسر ہوں۔ کسی روز ضرورت پڑی اور کتابوں کی ڈھنڈیا مچی تو عقل آئی کہ آئندہ یہ کتب ہمیشہ حضور کے سامنے ہونی چاہئیں تا کہ حضور کو دقت نہ ہو۔

ہم ٹھہرے سطحی خیالات کے لوگ ۔ہمیں قرآن کریم کا جو نسخہ میسر تھا ، وہ رکھنا شروع کر دیا ۔ انہی دنوں میں حضور انور نے ایک ملاقات کے دوران فرمایا کہ

’’تم نے غور کیا ہے کہ میں جلسہ اور اجتماعوں پرتلاوت کے بعد ، کبھی حضرت مصلح موعود ؓ اور کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ترجمہ پڑھواتا ہوں؟‘‘

عرض کی کہ ’’جی حضور‘‘

فرمایا کہ ترجمہ تو ایک سا ہی ہوتا ہے مگر کہیں کہیں معانی کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کہیں سے سننےیا پڑھنے  والے کو بہتر سمجھ آتا ہے اور کبھی کہیں سے۔ پھر فرمایا کہ ’’مجھے تو ہمیشہ سے ، زمانہ طالب علمی سے لے کر آج تک تفسیر صغیر کا ترجمہ زیادہ بہتر سمجھ میں آتا ہے‘‘۔

پھر فرمایا کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں اور کلاسوں میں اگر کتب میرے سامنے رکھنی ہوں تو تفسیر صغیر بھی رکھا کرو۔حضور کا حکم سر آنکھوں پہ لئےاگلی کلاس سے پہلے پہلے خاکسار نے تفسیر صغیر کا سب سے نیا طبع ہونے والا ایڈیشن مہیا کرلیا اور وہ حضور کے میز پر رکھا جانے لگا۔

کچھ عرصہ بعدایک ملاقات میں حضور انور نے کوئی آیت دیکھنے کے لئےاپنے زیرِ استعمال تفسیر ِ صغیر کا نسخہ اٹھایا اور اس میں سے کچھ تلاش فرمانے لگے۔ساتھ ساتھ فرمانے لگے’’مجھے تو یہی پرانا ایڈیشن اچھا لگتا ہے۔ اس کا انڈیکس دیکھنا آسان ہے، اور مجھے ہمیشہ سے اسی کی عادت بھی ہے۔ وہاں جو تم کتابیں رکھتے ہو، ان میں یہی پرانا ایڈیشن رکھ لیا کرو‘‘۔

اب جو تعمیل ارشاد میں نکلا ہوں تو یہ نسخہ دفاتر میں تو میسر نہ آیا۔ ایک محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے دفتر میں تھا مگر ظاہر ہے کہ وہاں سےتو یہ نسخہ نہیں لیا جاسکتا کہ آخر حضور ہی کی ضرورت کے پیش نظر انہوں نے بھی رکھا ہوا ہے۔پھر ایک دفتر سے یہ نسخہ مل گیا تو اس دفتر کے نگران صاحب سے نئے ایڈیشن کے عوض یہ پرانا ایڈیشن حاصل کر لیا گیا۔کئی مرتبہ کا مشاہدہ ہے کہ جب بھی ملاقات کے دوران حضور انور کو قرآن کریم سے کچھ تلاش کرنے کی ضرورت پیش آئی، تویا تو حضور سورتوں کے نام دیکھ کر ہی مطلوبہ مقام تک پہنچ گئے، یا پھر فوراً تفسیر صغیر کے اس ایڈیشن کے انڈیکس سے مضمون تلاش فرمایا۔ اور قرآن کریم کی تفسیرصغیر کا یہ نسخہ بھی اپنی حالت سے بتاتا ہے کہ نہ جانے کن زمانوں سے حضور کے استعمال میں ہے۔کئی رنگوں کی کئی نشانیاں جابجا لگی ہوئی ہیں۔ یہی حال حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی کتب کا ہے۔ روحانی خزائن کا پورا سیٹ حضور کے پہلو میں رکھا ہے۔ قرآن کریم رکھا ہے۔ تفسیر صغیر بھی ہے اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ترجمہ بھی۔ مگریہ تو صرف حضور کے پہلو میں محدود جگہ میں رکھی کتب کا حال ہے۔

حضور کو اپنے دائیں بائیں ہر طرف لگے شیلفوں میں رکھی کتب کا بہت ہی اچھی طرح علم ہے کہ کون سی کتاب کہاں ہے۔اس کا تجربہ ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔ ایک مرتبہ کشمیر کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ تھا۔ اپنے دائیں طرف دیکھا اور فرمایا کہ وہ دیکھو، دو کتابوں کا سیٹ ہے۔ ’’وہ اٹھا لو، اور لے جاؤ۔ مگر میں نے واپس لینی ہیں!‘‘۔ میں بڑی خوشی خوشی اٹھا لایا۔ ان سے استفادہ بھی کیا۔ پھر خیروبرکت کے حصول کے لئے اپنے دفتر کی لائبریری کی کتب کے ساتھ انہیں رکھ چھوڑا۔ کوئی سال بھر کے بعد ایک روز حضور ہمارے دفتر میں تشریف لائے۔شیلف میں لگی کتب کو دیکھتے بھی رہے اور بعض کتب کے بارہ میں تبصرہ بھی فرمایا۔ یکدم فرمایا’’میری کتابیں بھی تمہارے پاس ہیں۔ کہاں ہیں؟‘‘ میں نے اشارہ کرتے ہوئے عرض کی کہ حضور وہ ہیں۔ فرمایا’’میں نے واپس لینی ہیں!!‘‘۔

پھر جامعہ احمدیہ یوکے کے ایک طالبِ علم کے سپرد کشمیری مسلمانوں کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات پر مقالہ سپرد ہوا تو حضور انور نے خاکسار کو اس کا مقالہ نگران مقرر فرمایا۔حضور کی اجازت سے ان کتب سے وہ طالبِ علم بھی استفادہ کرتا رہا۔ پھراب سے  کچھ روز پہلے خاکسار یہ دونوں کتب لے کر حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکریہ کے ساتھ واپس کیں۔فرمایا’’خیال آگیا ان کا۔ چلو وہاں رکھ دو‘‘۔حضور نےاسی شیلف میں واپس رکھنے کا ارشاد فرمایا جہاں سے یہ کئی سال پہلے لی گئی تھیں۔

ایک روز خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ براہینِ احمدیہ میں ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک پادری ’’ھیکر‘‘ کا ذکر فرمایا ہے۔ میں نے بہت تلاش کیا ہے مگر اس نام کا کوئی پادری نہیں ملا۔جس کانفرنس کے حوالہ سے حضورؑ نے اس کا ذکر فرمایا ہے اس کانفرنس کے زمانہ اور مقام کے حوالہ سے تحقیق کی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ایک پادری ’’ہیکٹر‘‘ نامی اس وقت موجود بھی تھا اور اس نے وہاں تقریر بھی کی تھی اور یہی بات بیان کی تھی جو حضور ؑ نے اس سے منسوب فرمائی ہے۔ میں ابھی اپنی تحقیق کا پلندا پیش کرنے ہی والا تھا کہ حضور نے فرمایا کہ اٹھو اور پیچھے وہ الماری کھولو۔ الماری شیشہ کی نہ تھی کہ اس میں سے کتابیں نظر آرہی ہوں۔ فرمایا ’’اس میں براہین احمدیہ کا پہلا ایڈیشن ہے، سب سے پہلے اس میں دیکھو‘‘۔ یعنی ایسے معاملات میں سب سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں طبع ہونے والا پہلا ایڈیشن دیکھنا چاہیے۔ سو میں نے کتاب اٹھائی اور تلاش کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا جہاں اس پادری کا ذکر تھا۔وہاں بھی ’’ھیکر‘‘ ہی لکھا تھا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ’’اب دکھاؤ کیا لائے ہو‘‘۔ اس کے بعد تحقیق پیش کی اور حضور انور نے رہنمائی فرمائی کہ نظارت اشاعت، ایڈیشنل وکالتِ تصنیف اور ریسرچ سیل ربوہ کو لکھ کر بھیج دیا دیا جائے کہ اس کی درستگی کر لیں  جو غالباً سہوِ کاتب سے یوں لکھ دیا گیا ہے۔

اسی طرح  ایک موقع پر ایک مخصوص ملک میں آباد ایک مخصوص مذہب کے پیروکاروں کے کسی طرزِ عمل کا ذکر تھا۔ فرمایا کہ’’ اس پر ایک کتاب لکھی گئی تھی۔ میں نے کالج کے زمانہ میں پڑھی تھی۔ لیکن شاید میرے پاس یہاں بھی ہو‘‘۔ یہ فرما کر حضور ایک شیلف کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اٹھ کر وہاں دیکھو، یہ نام ہے، اگر ہوئی تو اسی جگہ پر ہوگی۔ میں نے دیکھنا شروع کیا۔ جلد ہی یہ کتاب مل گئی۔ فرمایا ’’لے جاؤ ۔ پڑھ کر واپس کر دینا‘‘۔یہ کتاب خاکسار لے آیا اور پڑھ بھی جلد لی مگر کتاب  ابھی واپس نہیں کی تھی کہ ایک روز برادرم عابد وحید خان صاحب کا فون آیا ۔کہنے لگے کہ حضور نے اس کتاب کا ذکر ان سے کیا اور انہیں میرے بارہ میں فرمایا کہ کتاب اس کے پاس ہے، اس سے کہو کہ پڑھ لی ہے تو تم بھی لے کر پڑھ لو۔یعنی اپنی کتب کے متن ، اپنے دفتر میں ان کےمحلِ وقوع اوریہاں تک کہ ان کی نقل و حرکت کا بھی حضور کو خوب علم ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ میں حضرت یحییٰ ؑ اور قتلِ انبیا کے موضوع پر سوال پوچھا گیا۔ جواب حضور نے بھی سماعت فرمایا اور حضور جواب سے مطمئن نہ تھے۔ ملاقات کے دوران فرمانے لگے کہ اس پر مفصل تحقیق کئی سال پہلے ماہا دبوس صاحبہ نے کی تھی۔میں تمہیں اس کا مواد دیتا ہوں۔اس کے بعد حضور اپنے آس پاس پڑی فائلوں میں یہ مواد تلاش فرمانے لگے۔ جب آس پاس نہیں ملا تو خود اٹھ کر بعض شیلفوں میں دیکھا۔ کچھ شیلفوں میں مجھے دیکھنے کا حکم فرمایا۔ کافی دیر یہ تلاش جاری رہی۔ اِس سارے عمل کے دوران میرے جذبات کا عجیب حال تھا۔ کبھی اپنی خوش نصیبی پر خود ہی رشک آتا کہ حضور کس قدر توجہ اور محبت سے اس مسئلہ کے حل کے لئے کوشش فرما رہے ہیں۔کبھی یہ دکھ ہوتا کہ حضور اس قدر تکلیف خود اٹھا رہے ہیں۔ کبھی یہ سوچتا، کبھی وہ سوچتا۔ مگر اس روز حضور کےساتھ حضور کے دفتر کی تقریباً تمام الماریاں دیکھ لیں۔ کتابوں، کاغذوں سے بھری ہوئی الماریاں۔  مگر ہر فائل، ہر کتاب بڑے قرینہ سے پڑی ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ طاق پر رکھ بھولنے والی بات ہو۔ یہ تحقیق جو حضور تلاش فرما رہے تھے  اس کے فولڈر کا رنگ تک یاد تھا کیونکہ جب بھی میں نے کسی فولڈر کو نکالا، حضور نے ضرور فرمایا کہ ہاں یہ نکال کر دیکھو یا یہ کہ نہیں یہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے فولڈر کارنگ اور ہے اور وہ اس طرح کے فولڈر میں نہیں۔جب سب الماریاں دیکھی جا چکیں تو فرمایا کہ شاید میرے پاس اوپر لائبریری میں ہو۔

ملاقات اور تلاش تو ختم ہو گئی۔ میں واپس اپنے دفتر بیت الفتوح چلا آیا۔ کھانے کا وقت تھا سو کھانا کھایا۔ اس کے بعد چائے کا شوق پورا کیا۔ پھر کچھ کام کیا کچھ وقت ضائع بھی کیاہو گا۔ اتنے میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آگیا کہ حضور نے آپ کے لئے ایک فولڈر دیا ہے آکر لے جائیں۔اللہ جزا دے میرے پیارے آقا کو۔ میں تو اٹھ کر چلا آیا مگر حضور کو مستقل اس تحقیقی مواد کی فکر رہی اور حضور تلاش فرماتے رہے۔ ایم ٹی اے پر کی گئی ایک بات کی اس قدر اہمیت کہ بات چھوٹی ہو یا بڑی، جب دنیا تک جائے تو درست طور پر جائے۔مجھے یہاں اعتراف کرنا ہے کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں کی حساسیت کا درس میں نے اس عظیم درسگاہ سے حاصل کیا جسے دنیا حضرت مرزا مسرور احمد(ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) کے نام سے جانتی ہے۔ اگر یہ معمور الاوقات شخص جس کے سپرد کُل دنیا کی رہنمائی کا کام ہے ایم ٹی اے کے ایک پروگرام کے ایک سوال کے ایک جواب کی خاطر اسقدر محنت کر سکتا ہے، تو ہم جو آپ کے ادنیٰ غلام ہیں، ہم چین سے کیونکر بیٹھ رہیں۔ ہماری نیندیں ایسے میں کیوں اُڑنہ جائیں؟

تو یہ ایک مختصر سی جھلک ہے اس توجہ کی جو حضور علم کو عام کرنے کے کام پر صرف فرماتے ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی سبق دیتے رہتے ہیں کہ اگر حضور علم کو عام کرنے کے لئے خود حصولِ علم پر اسقدر محنت کرتے ہیں تو افرادِ جماعت جن کے سپرد درس وتدریس، تبلیغ، تربیت یا ایم ٹی اے کے پروگراموں میں بیٹھ کر گفتگو کرنے اور جواب دینے  کا کام ہے، انہیں تو دن رات حصولِ علم میں صرف کردینا چاہییں۔

شروع شروع کی کلاسوں کی بات ہے۔ حضور سے کسی نے پوچھا کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے نام کے ساتھ ’’نواب‘‘ کیوں لکھا جاتا ہے۔حضور نے تفصیلی جواب عطا فرمایا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کو اپنی بیٹیوں کی پیدائش سے پہلے ان کے نام کے ساتھ ’’نواب‘‘ لکھا ہوا دکھایا گیا تھا۔

کچھ روز بعدملاقات کے دوران فرمایا کہ ’’کلاس میں میں نے دونوں بیٹیوں کے نام کے ساتھ الہاماً نواب لکھا ہوا کہہ دیا تھا؟‘‘۔ عرض کی کہ جی حضور۔ فرمایا’’نواب تو صرف حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے نام ساتھ الہاماً لگا ہوا تھا۔ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے نام کے ساتھ تو نواب عبداللہ خان صاحب سے شادی کی وجہ سے لگا تھا‘‘۔

اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ ایسی باتیں جو تاریخی حقائق سے تعلق رکھتی ہوں فوراً درست ہو جانی چاہییں اور اس بارہ میں ہدایت ارشاد فرمائی۔

ذرا دیکھیے، بظاہر بچوں کی کلاس ہے، مگر احتیاط کا کیا عالم ہے۔ پھر یہ کہ کوئی بھی بات یونہی نہیں کہہ دی۔ خود اپنی کہی ہوئی بات کا تجزیہ بعد میں بھی کیا اور پھر اگلی کلاس میں بچوں کو بتایا کہ اصل بات یوں ہے، اس وقت روانی میں نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے نام کے ساتھ بھی لفظ ’’نواب‘‘ کو الہامی کہہ دیا تھا۔

کوئی عام آدمی ہوتا تو اوّل تو بچوں کی کلاس سمجھ کر اس بات پر دوبارہ غور بھی نہ کرتا۔ اگر کرتا تو شاید یہ سوچ کر چھوڑ دیتا کہ بچوں کی کلاس ہی ہے، ایسا بھی کیا ہے۔ یا پھر اگر کوئی توجہ دلادیتا تو یا تو اپنی ہی بات کو درست کہتا یا پھر کہتا کہ خیرہے! ایسا بھی کیا ہے، بچے ہی ہیں نا! مگر یہاں علم و معرفت کےاس سمندر کا یہ عالم ہے کہ اس باریک بات پر بھی نظر ہے ۔ یہاں بھی ہم ایم ٹی اے کے کارکنان کے لئے یہی سبق تھا کہ ایم ٹی اے پر کی ہوئی بات تمام دنیا تک جاتی ہے۔ جو بات جائے وہ صد فی صد درست اور مکمل ہونی چاہیے۔

کسی بچہ یا نوجوان نے کلاس میں چھوٹی سی بات بھی پوچھی تو اس کا تفصیلی جواب عطا فرمایا۔ کسی سوال کو لغو یا غیر ضروری قرار نہیں دیا۔ جس نے جو پوچھا، اس کی تسلی کی فکر صاف نظر آئی۔

ان کلاسوں میں انتظامیہ کی اصلاح کا کام بھی حضور ساتھ کے ساتھ فرما رہے ہوتے ہیں۔ حضور کے سامنے پروگرام رکھا ہوتا کہ تلاوت کون کرے گا اور نظم کون پڑھے گا وغیرہ۔مجھے توکبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اگر کوئی املا کی معمولی سی غلطی بھی رہ گئی ہو، وہ شاید حضور کے سامنے اجاگر ہو کر آجاتی ہے۔ شاید چمکنے لگتی ہے۔ حضور ہمیشہ ایسی اغلاط کی نشاندہی فرماتے اور توجہ دلاتے ہیں۔

حضور ایک ملک کے دورہ سے واپس تشریف لائے۔ وہاں کی کلاسیں دیکھ کر انہیں نشر کرنے کی تیاری کا کام جاری تھا۔ ایک کلاس کے بارہ میں میرے ذہن میں ایک سوال تھا ، سو ہمت کر کے ایک ملاقات میں پوچھ ہی لیا۔ عرض کی کہ ’’حضور، اس کلاس میں تو شروع سے آخر انتظامیہ کو خوب سرزنش ہوئی ہے۔ انتظامیہ نے ہر کام ہی الٹ پلٹ کیا ہوا تھا۔ ہر بات حضور کو سمجھانا پڑی اور ہر بات پر ان کی خوب سرزنش بھی ہوئی ہے۔ جیسےحضور کا حکم ہو‘‘۔

فرمایا’’یہ پوچھ رہے ہو کہ چلانی ہے کہ نہیں۔ تو بالکل چلانی ہے۔ اسی طرح چلے گی‘‘

ہم اپنی نادانی میں یہ بھولتے رہتے ہیں کہ حضور کے مخاطب وہ چند بچے یا بچیاں نہیں ہوتیں جو سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ حضور کی کلاس ساری دنیا کی ’’کلاس‘‘ ہوتی ہے۔ ہم سب، لاکھوں کروڑوں احمدی اس کلاس کا حصہ ہیں جس میں حضرت خلیفۃ المسیح کچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں۔حضور کی ہر بات ہم سب کے لئے واجب الاطاعت ہے۔ اگرچہ بہت سے بزرگ ہیں جو منصبِ خلافت سے متعلق لوگوں کو آگاہی دیتے رہتے ہیں اورنوجوان نسل تک اس مقدس امانت کی تعظیم و تکریم کی تلقین کی امانت پہنچاتے ہیں ، مگر کوئی نہیں جو خلیفۂ وقت سے بڑھ کر اس منصب کو سمجھے اور کوئی نہیں جو آپ سے بڑھ کر اس کی عزت و توقیر سے آشنا کرے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح اپنے نہایت درجہ قیمتی وقت میں سے کچھ لمحات نہیں پورا ایک گھنٹہ نکال کر ہم میں تشریف فرما ہوئے ہیں اور وہاں نہ پروگرام رکھا ہے، نہ تلاوت، نظم کرنے والوں کو خود پتہ ہے کہ کون کب کیا پیش کر رہا ہے۔کبھی مائکروفون نہیں چل رہا۔ مائکروفون کیسے ایک سے دوسرے تک جائے گا اس کا بھی کسی کو علم نہیں۔پس حضور نے صرف اس کلاس کی انتظامیہ کو ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے منتظمین کو ہوشیارباش فرمانا تھا۔ سو فیصلہ فرمایا کہ یہ کلاس ضرور نشر ہوگی اور اسی طرح نشر ہوگی۔

یہ کلاسیں مسجد فضل سے ملحقہ محمود ہال میں منعقد ہوتی ہیں۔ پہلے پہل جامعہ احمدیہ یو کےکی نشست بھی اسی طرح ہوتی تھی کہ جامعہ احمدیہ کے طلبا محمود ہال آجاتے اور حضور انور کی صحبت سے فیضیات ہوتے۔ پھر جامعہ احمدیہ کی قسمت جاگی اور حضور بنفسِ نفیس  جامعہ تشریف لے جانے لگے۔ جامعہ کے طلبا اپنی مادرِ علمی کو خوب چمکاتے کہ عالمِ روحانی کا بادشاہ خود چل کر ان کے پاس تشریف لے جارہا ہوتا۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے۔جامعہ یوکےکی پہلی عمارت مسجد فضل لندن سے کوئی پندرہ یا بیس منٹ کے فاصلہ پر تھی۔ جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ کا یہ خاص سلوک ہے کہ ہر عمارت بہت جلد چھوٹی پڑ جاتی ہے۔ سو یہ عمارت بھی جامعہ احمدیہ کی ضروریات کے لئے کافی نہ رہی۔ لندن سے باہر کوئی 45 منٹ کی مسافت پر اللہ تعالیٰ نے ایک بہت ہی خوبصورت مقام پر ایک بہت ہی کشادہ عمارت جامعہ یوکے کے لئے عطا فرمادی۔اب جب بھی ان کی حضور انور کے ساتھ نشست ہوتی، حضور یہ سفر اختیار کر کے وہاں تشریف لے جاتے۔ غالباً 2013 کے موسمِ سرما میں ایک  روز ان کی نشست ہونا تھی۔لندن اور اس کے نواح میں اب برف کم کم ہی پڑتی ہے۔ مگر اس روز برف نے بھی جانے کیا ٹھان لی کہ پڑی اور پڑتی ہی چلی گئی۔ ٹی وی پر محکمہ موسمیات نے ہر طرح کی وارننگ جاری کر دی۔ باہر نکلنے سے پرہیز، سفر اختیار نہ کرنے کی ہدایت اور جانے کیا کیا احتیاطی تدابیر۔ ایسےمیں مسجد فضل سے جامعہ ایک پیغام گیا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ حضور ضرور تشریف لے جائیں گے اور نشست ضرور ہوگی۔اس روز جامعہ کے طلبا اور اساتذہ نے مل کر ’’وقارِ عمل‘‘ کی تاریخ کا ایک عجیب باب رقم کر دیا۔ سب سے بڑا مرحلہ وہ راستہ تھا جو بڑی سڑک سے اتر کر جامعہ کی عمارت تک جاتا ہے۔ اسی پر سے حضور کے قافلہ نے گزرنا تھا اور یہ نہایت اونچی اور بل کھاتی، اور خاصی طویل ڈھلان ہے۔Grit(برف پگھلانے والا نمک) برف کی اسقدر دبیز تہوں کو پھگلانے سے قاصر تھا۔ بعد میں ایک دوست سےمعلوم ہوا کہ اس راستہ کو صاف کرنے کے لئے مناسب سامان تو میسر نہ تھا، مگراپنے امام کے عشق میں سرشار ان طلبأ اور اساتذہ نے یہ کیا کہ ایک بڑا سا لوہے کا ستون لے کر اسے ایک گاڑی کے پیچھے باندھا، دو نوجوان اس ستون کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے اور گاڑی آہستہ آہستہ  اس ڈھلان پر چلائی گئی ۔ یہ ستون مضبوطی سے زمین پر رگڑ کھاتا جاتا اور برف کو راستے سے صاف کرتا جاتا۔ برف تھی کہ پڑتی جاتی تھی اوراس ڈھلان کو بار بار پھسلن بناتی جاتی۔ مگر اپنے محبوب کے عشق میں یہ دیوانے یہی عمل دہراتے رہے تا وقتیکہ اگلی صبح حضور کے آنے کا وقت ہو گیا۔ حضور اپنے قافلہ کے ہمراہ اس راستہ پر بڑی حفاظت سے گزر کر جامعہ احمدیہ یوکے کی عمارت میں تشریف لے گئے اور کلاس کا انعقاد ہوا۔ جاکر فرمایا کہ یونہی نہیں چھوٹے موٹے چیلنجز سے گھبرا جاتے۔ جو کام کرنا ہے وہ کرناہے۔ پھر اس کے بعد معمول کے مطابق نشست ہوئی۔ لندن کے نواح میں واقع ،برف کی چادروں میں لپٹی اس عمارت کے اندرعلم اور عشق اور محبت کے الاؤ روشن ہوئے، اور وہاں موجود سبھی خوش نصیبوں نے اس ٹھٹھرتی صبح میں ،اپنے وجود میں ایمان کی حدت کو محسوس کیا۔ باہر تو برف پڑی رہی، مگر میدانِ عمل کے لئے تیار ہونے والے ان نوجوانوں کے باطن کی کتنی ہی برفیں پھگل گئیں ہوں گی۔دنیا کا کون سا قائد ہے جو صرف قول سے ہی نہیں، بلکہ اپنے فعل سے زندگی کو برتنے کے قرینے سکھاتا ہو۔منہ سے بات کردینا تو دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ لیکن

جا لپٹ جا لہر سے، دریا کی کچھ پروا نہ کر

کا عظیم سبق صرف عمل سے دیا جاسکتا ہے، سو حضور نے کیا ہی خوب دیا۔

جامعہ کے ساتھ نشست کی بات چل رہی ہے تو ایک اور بات جو ہمیشہ میرے لئے بہت ہی ایمان افروز رہی ہے، آپ کے ساتھ بھی بانٹنا چاہتا ہوں، کہ یہ دولت بھی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔

یہ کلاسیں اکتوبر 2003 میں شروع ہوئیں۔ ننھے منے بچے ان کلاسوں میں آنا شروع ہوئے۔ نہایت معصوم باتیں، معصوم سے لطیفے سناتے۔ حضور سنتے۔ خود بھی ان کی عمر کے لحاظ سے حضور انہیں لطائف سناتے۔ ان سے حروفِ تہجی کی باتیں کرتے۔ معصوم سی پہلیاں پوچھتے۔ ابھی خلافتِ خامسہ کا سورج طلوع ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے۔ جماعت احمدیہ کے وہ مخالفین جو خلافت رابعہ کے بعد جماعت کو معاذ اللہ بکھرتا ہوئے دیکھنے کے سپنے سجائے بیٹھے تھے، ابھی اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ خلافت ِ خامسہ کے قیام کے ذریعہ خلافتِ احمدیہ کے استحکام کا نظارہ دیکھ کر ان کے زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ مگر ان کی مایوسی انہیں کھسیانی بلی کی طرح کھمبے نوچنے کی طرف لے گئی تھی۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ذات بابرکات کی گہرائی ابھی کسی  پر بھی عیاں نہ تھی(سچ پوچھیں تو آج بھی اپنوں، غیروں بلکہ کسی پر بھی اس بلند و بالا، فلک بوس  ہستی کے جوہر پوری طرح عیاں نہیں۔ یہ بات میں سب سے پہلے اپنے آپ کو شامل کر کے عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں)۔ تودشمن اپنے چھوٹے پن کے اظہار میں حضور انور کی مختلف باتوں کو استہزا کانشانہ بنایا کرتے۔ کبھی آپ کے طرز تکلم پر ہنستے، کبھی آپ کے خطبہ پر باتیں بناتے اور پھر کلاسیں شروع ہوئیں تو ان کلاسوں پر بھی پھبتیاں کسنے لگے۔ کہ ’’جناب! آپ یہی کام کیا کریں کہ بچوں کو الف ب پ سکھایا کریں، امت مسلمہ کی رہنمائی آپ کیا کریں گے‘‘ (نعوذ باللہ)۔

حضرت صاحب تو ایک چٹان ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت کچھ باتوں کا تو مجھ آپ کوعلم بھی نہ ہوگا، مگر جو میرا مشاہدہ ہے، اس کی بنیاد پر مجھے کہنے دیجیے کہ میں نے خود دیکھا کہ اس چٹان سے کئی منہ زور لہریں ٹکر ا ٹکرا کر اپنا سر پھوڑتی رہیں، مگر یہ چٹان خدا کی طرف سے اٹھائی گئی چٹان تھی۔ یہ ہر منہ زور لہر کو اپنے سینہ پر کھا کر نہ صرف قائم و دائم رہی، اور ہے بلکہ اپنے پیچھے پھیلی آبادیوں کو بھی ان طوفانوں سے بچاتی رہی اور بچاتی ہے۔ مجھے حضور کے دل کا حال معلوم ہونے  کا دعویٰ ہے نہ یہ دعویٰ کسی کو زیبا ہے۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ

اُس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز

رونے والوں کی طرح، جاگنے والوں جیسی

فرازؔ تو نہ جانے کس دنیوی محبوب کے لئے کس ادنیٰ محبت کے اظہار میں ایک بڑا شعر کہہ گیا۔ مگر مجھے یہ شعر ہمیشہ اپنے اور آپ کے اور ہم سب کے محبوب کے لئے موزوں نظر آیا۔ ہمیں تو کوئی تکلیف پہنچے، ہم فوراً اپنے اس محبوب کو لکھ بھیجتے ہیں یا زبانی کہہ دیتے ہیں۔ بچوں کی طرح جا کر کہہ دیا کہ فلاں شخص کی فلاں بات سے میرا دل بہت دکھا۔ فلاں مسئلہ درپیش ہے۔ فلاں بیمار ہے۔ فلاں پریشان ہے۔ مگر اس آدمی کے پاس تو کوئی دوسرا آدمی نہیں کہ جس کے پاس وہ اپنے درد و الم کی متاع گروی رکھو اکر سکون کی دولت لے آئے۔ یہ آدمی تو جاگتا ہے اور روتا، اس رب کے حضور جس نے اسے اپنی آخری جماعت کی امامت سپرد فرمائی ہے۔تو حضور کو صرف اسی دشنام طرازی کا سامنا نہیں جو ہمارے سامنے انٹرنیٹ وغیرہ پر آجاتی ہے۔ حسد کی آگ میں جلتے دشمن اور منافقین تو جانے گمنام خطوں میں بھی کیا کیا کچھ لکھ بھیجتے ہوں گے۔ مگر یہ تیز گام آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔

سو مخالفین ان کلاسوں پر پھبتیاں کستے رہے اور حضور اپنے عظیم الشان کاموں کے ساتھ ساتھ تقریباً ہر ہفتے ان ننھے منے بچوں کے ساتھ حروفِ تہجی اور ننھی منی پہیلیوں کی کھیلیں کھیلتے رہے۔

ایک گزشتہ مضمون میں خاکسار بڑی تفصیل سے عرض کر چکا ہے کہ ہم تو وہاں دیکھ ہی نہیں سکتے جہاں حضور انور کا دیدۂ بینا دیکھ رہا ہوتا ہے۔یہ بچے عمر کی منزلیں طے کرتے گئے۔ چھوٹے بچوں کی کلاس ’’بستانِ وقفِ نو‘‘ سے ’’گلشنِ وقفِ نو اطفال‘‘ میں آگئے۔ پھر اور بڑے ہوئے تو ’’گلشنِ وقفِ نو خدام‘‘ میں آکر اپنے آقا کے حضور بیٹھنے لگے۔ پھر انہی میں سے کچھ ’’طلبا جامعہ کے ساتھ نشست‘‘ میں اپنے آقا سے فیض پانے لگے۔یہی بچے جو اپنے آقا سے حروفِ تہجی سیکھا کرتے تھے اور اردو بمشکل بول پاتے تھے، اب ان ’’نشستوں ‘‘ میں اپنے آقا کے ساتھ اردو میں ہمکلام ہوتے۔ انہی میں سے اکثراردو میں تقاریر کرتے۔ سبھی اپنے آقا سے اردو میں سوالات پوچھتے اور اردو میں ان کے جوابات کو سمجھ جاتے۔ ان کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی ایک خاص روشنی نظر آتی۔یہ روشنی دیکھنے والے کی آنکھ تک پہنچتی تو اس روشنی میں حضورِ انور کی محبت اور توجہ کا رنگ سب رنگوں پر غالب نظر آتا۔

اسی روشنی کی ایک کرن نے ایک روز میرے دل کوبڑی شدت کے ساتھ چھو لیا۔ میں نےاجازت چاہی کہ ایم ٹی اے پر نوجوانوں کے لئے ایک ایسا پروگرام شروع کیا جائے جس میں طلبأ جامعہ ان کے سوالوں کے جواب دیں۔ یوں نوجوان نوجوان سے بات کرے گا تو اچھا اثر ہوگا۔حضور نے فی الفور فرمایا’’کرو! کس نے روکا ہے!‘‘

حضور کاایسا جملہ جس میں بھرپور اجازت ہو ہمیشہ چھوٹی سی کوشش کو بھی بھاگ لگا دیتا ہے۔ تجربہ نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اگر کسی تجویز پر حضور کی طرف سے پوری خوشی نظر نہ آئے اس تجویز کو دور سے سلام کر کے چھوڑ دینا چاہیے۔یہاں تک کہ یہ جملہ کہ ’’ٹھیک ہے! کر کے دیکھ لو‘‘ یا پھر یہ کہ ’’اچھا! چلو کر لو‘‘ بھی سرخ بتی سے کم نہیں ہوتے۔شروع شروع میں میں نے ایسے جملوں کو نارنگی بتی خیال کر کے اس میں گزر کر دیکھا۔ یا حادثہ ہوجاتا ہے یا ہوتے ہوتے بچتا ہے۔ ہری بتی صرف وہ شرح صدر ہے جو کسی خوش بخت تجویز پر، کسی خوش بخت لمحہ میں، اللہ کے خاص فضل کی جھڑی میں حضور کی چشمِ مبارک یا لہجۂ مبارک سے محسوس ہو جائے۔

پس حضور انور کی اس منظوری کے ساتھ ہی اس پروگرام کی تیاری پر کام شروع کر دیا گیا۔تیاری کے ساتھ ساتھ پروگرام کے نام کی تجویز پر بھی غور ہونے لگا۔ جس جس کے ذہن میں جو نام آیا، ہم لکھتے گئے۔ فہرست تیار ہوجانے پر تمام نام دورانِ ملاقات میں نے رہنمائی کی غرض سے حضور کی خدمت میں پیش کئے۔ حضور انور نے Beacon of Truth کے نام کو منظور فرمایا  ۔

جس روز پروگرام کی ریکارڈنگ کا وقت آیا، ہم نے تین سٹول رکھے، پیچھے ایک خو ش رنگ پردہ لٹکایا اور پروگرام ریکارڈ کر لیا۔ اس پروگرام کو منصور احمد کلارک صاحب (حال مربی سلسلہ لندن ریجن) نے پیش کیا۔ پروگرام کے شرکا میں ایاز محمود خان صاحب (حال مربی سلسلہ وکالتِ تصنیف لندن)، قاصد معین احمد صاحب (حال مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے) اور شہزاد احمد صاحب (حال مربی سلسلہ ریویو آف ریلیجنز) شامل تھے۔یہ سب اس وقت جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا تھے۔

پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہونے لگی اورمیں کنٹرول روم میں جا کر بیٹھا تو سکرین پر ان نوجوانوں کو دیکھ کر میری آنکھیں فرطِ جذبات سے ڈبڈبا گئیں۔مجھے منصور کلارک کے وہ دن یاد آگئے جب وہ ننھا سا بچہ تھا اور ہر کلاس کے لئے اپنی والدہ کے ساتھ برمنگھم سے سفر کر کے کلاس میں شامل ہونے کے لئے آیا کرتا تھا۔ اردو پڑھنی نہیں آتی تھی اور ہر کلاس سے پہلے انگریزی حروفِ تہجی میں لکھی اردو زبان کی عبارت میرے ساتھ دہرایا کرتا۔اُس کی والدہ کلاس سے کچھ دن پہلے فون کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرتیں اورکہتیں کہ اس کی تیاری اچھی نہیں ہے۔ پتہ نہیں بول بھی پائے گا یا نہیں، میں سوچ رہی ہوں اسے مسجد کے پاس کسی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دوں تاکہ وہاں رہ کر تیاری کرلے۔ قاصد معین کا بھی چہرہ نظروں کے سامنے گھوم گیا جب وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں حضور کی کلاس میں بیٹھا تھا ۔ایک روز حضور نے ایک گروپ فوٹو میں سے بزرگان کی شناخت بچوں سے کروائی۔ ایک بزرگ کو کوئی نہ بوجھ سکا، مگرقاصد نے ہاتھ کھڑا کر کے بتایا کہ یہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ ہیں۔ حضور نے اس ننھے سے بچے کی بات سن کر فرمایا تھا’’کمال کر دیا تم نے۔ تم نے کیسے پہچان لیا؟‘‘

آج یہ پودے جو حضور نے خود بوئے تھے، پھر انہی کلاسوں اور ملاقاتوں میں ان کی نشو ونما کی تھی،انہیں پالا پوسا تھا، آج اپنے دین کی خاطر اپنے سینہ پر ہر طرح کا وار سہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ کہاں گئے وہ ہنسی ٹھٹھا کرنے والے؟آج خدا کی قدرت نے ان شریروں کےمنہ پر کیساطمانچہ مارا۔ یہی بچے تھے نا جنہیں ایک درویش الف ب پ پڑھایا کرتا تھا؟ یہی تھے نا جو ایک صوفی منش کی پوچھی ہوئی سادہ سی پہیلیاں بوجھا کرتے تھے؟یہی تو تھے جو اس کلاس کے بعد اس سادہ لوح، عظیم المرتبت ولی اللہ کی طرف سے دئیے گئے کھانےکےڈبے اٹھا کر گھروں کو جایا کرتے تھے اور سارا گھرانہ اس کھانے کو تبرک سمجھ کر کھایا کرتا تھا؟ اس معصوم ادا پر بھی تو شریر طبع نادان استہزا کیا کرتے تھے۔ مگر آج دیکھو کہ  بقول شاعر

’اِن‘ کو دعائیں خوب لگیں اپنے پیر کی

اور تم اپنے زخم چاٹتے، کھمبا نوچتے ماضی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کہیں کھو گئے۔ تمہیں تو تاریخ بھی یاد رکھنے پر تیار نہیں اور یہاں ہر دن تاریخ سازہوتا ہے اور ہر رات میں ایک نہیں کئی  Beacon of Truthروشن ہوتے ہیں۔

خیر ، پروگرام ریکارڈ ہوا۔ اس کی ریکارڈنگ حضورِ انور کی خدمت میں بغرضِ ملاحظہ و رہنمائی پیش کی گئی۔ حضور نے ازراہِ شفقت اس کی منظوری عطا فرمائی۔مگر ایک اور مزے کی بات یہ ہوئی کہ میں ایک کام کے سلسلہ میں کیمبرج یونیورسٹی میں تھا۔ وہاں برادرم محترم ظہیر احمد خان صاحب (استاد جامعہ احمدیہ یوکے) کا فون آیا۔انہوں نے بتایا کہ ان کی ابھی کچھ دیر پہلے حضور انور سے ملاقات تھی۔ حضور انور نے انہیں بڑی محبت اور فخر سے ان نوجوانوں کی کاوش دکھائی۔ خود DVDلگائی۔ پھر یہاں وہاں سے چلا کر ان کی گفتگو دکھاتے رہے کہ یہ دیکھو ان بچوں نے کتنا اچھا کام کیا ہے۔ اسی سال ہماری ایم ٹی اے کا فورم ہوا تو اس میں بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے ایم ٹی اے کے بیرونِ ملک سٹوڈیوز کے نمائندگان سے خطاب فرماتے ہوئے اس پروگرام کا ذکر فرمایا   اور بڑی محبت سے ان بچوں کے کام کو سراہا، کہ ایک نوجوان پریزینٹر بن گیا، باقی پینل میں بیٹھ گئے اور اشاعتِ دین کا کام شروع کر دیا۔ کیسی عجیب بات ہے۔ یہ تو حضور کا کرشمہ تھا۔حضور اپنی کرشمہ سازی پر بھی اپنے غلاموں کو سراہتے جاتے ہیں۔

پھر 2012 میں جامعہ احمدیہ یوکے کی پہلی کلاس فارغ التحصیل ہوئی۔ ان کی تقریب تقسیم انعامات ہوئی۔ ان میں بہت سے چہرے وہی تھے جو کبھی بہت چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے اور حضور کی کلاسوں میں پروان چڑھے تھے ۔ حضور اپنے دستِ مبارک سے انہیں چاکلیٹ دیا کرتے تھے۔ کبھی لکھنے کے لئے قلم عنایت فرمایا کرتے تھے۔ کبھی ٹوپیاں ان کو دیتے ، انہیں پہننے کو کہتے، کبھی خود پہناتے اور کبھی یہ بھی فرماتے کہ یوں نہیں یوں پہنتے ہیں۔ آج یہ بچے جن کی ٹوپیاں حضور سیدھی کروایا کرتے تھے، مربیان سلسلہ بن کر میدانِ عمل میں جانے کے لئے تیار تھے۔ آج حضور انہیں اپنے دستِ مبارک سے ’’شاہد‘‘ کی ڈگریاں عطا فرما رہے تھے۔

پھر اگلے سال 2013 میں دوسری کلاس فارغ التحصیل ہوئی۔ ان کی گریجویشن کی تقریب میں بھی حضور تشریف لے گئے۔ اس روزبھی فارغ التحصیل ہونے والی کلاس میں بہت سے چہرے وہ تھے جنہیں دشمنانِ احمدیت نے انہی کلاسوں میں دیکھا ہوگا جن کا وہ استہزا کیا کرتے تھے۔عبدالقدوس عارف، مصور احمد شاہد، شہزاد احمد، عقیل احمد کنگ، قاصد معین احمد۔ ان سب کا خمیر انہی کلاسوں سے تو اٹھا تھا جہاں حروفِ تہجی اور ننھی منی پہیلیاں اور دینی معلومات کے معصوم سے سوالات پوچھے جاتے تھے۔یہی بچے کلاسوں میں اپنی معصوم سی آوازوں میں کبھی ترانے اور کبھی نظمیں پڑھا کرتے تھے۔میں تو ان سارے نظاروں کا ایک خاموش تماشائی رہا تھا۔ خوشی کے جذبات اگر مجھ تماشائی پر غلبہ کررہے تھے تو اس سارے منظرنامہ کے سب سے اہم کردار کا دل اپنے رب کے حضور کس قدر شکر بجالایا ہوگا۔ حضور کا دل تو باغ باغ ہو گیا ہوگا۔ مگر دینِ اسلام کی اس مضبوط چٹان پر جذبات کا اظہار بھلاکس نے دیکھا ہے۔آج حضور انہیں میدانِ عمل کے اسرارورموز سمجھا رہے تھے۔ انہیں فرما رہے تھے کہ قرآن کریم پر غور اور تدبر کرنا اور آیات کی تفاسیر سوچنا۔ کوئی نکتہ سوجھے تو خلیفۂ وقت کو لکھنا اور توثیق ہو جانے پر اسے عام کرنا۔ حضور تو گاؤں گاؤں کو ایک رازی ؔ بخشنے جارہے تھے،انہی بچوں میں سے جن کی بچپن کی کلاسوں میں ہونے والی تربیت کو دشمن استہز ا کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔دشمن ہنستا تھا، اور تقدیر دشمن پر ہنستی تھی کہ تمہیں کیا معلوم کہ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کا کوئی کام بے سبب نہیں ہوتا اور کوئی کوشش نامراد نہیں رہتی۔

آغاز میں تو دشمن اس بات پر بھی ہنسا کئے کہ زراعت کی تعلیم حاصل کرنے والے کو خلیفہ بنا لیا۔وہ ہنستے رہے مگر اس بات کی رمز بھی ہمیں حضرت مسیح پاک ؑ سمجھا گئے تھے۔ خدا نے اس دنیا کے لئے جسمانی اور روحانی دو نظام جاری فرما رکھے ہیں۔مادی اور روحانی دونوں دھارے متوازی چلتے چلتے ہیں۔ جہاں جسمانی ضرورت کا سامان ہے، وہاں روحانی ضروریات کا بھی رب العالمین نے انتظام فرما رکھا ہے۔ جسم کی بھوک مادی اجناس سے مٹتی ہے تو روحانی بھوک اور پیاس کے لئے عبادت ایک غذا کے طور پر مہیا فرما دی ہے۔سو زراعت کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بیج بونے، اس کے اگنے، پھر کونپلیں نکلنے اور پھر پھل  اور فصل کے تیار ہوجانے کا علم سیکھا اور سکھایا جاتا ہے۔ سو اس کا متوازی نظام عالم روحانی میں کس طرح چل رہا ہے، یہ ہمارے پیارے حضور کی کلاسوں نے ہمیں سمجھا دیا۔ ایک کلاس کے دوران جامعہ احمدیہ میں متعلم گیمبیا سے آئے ہوئے عبداللہ ڈِبّا (مربی سلسلہ) نے حضور سے پوچھ بھی لیا کہ حضور آپ اب بھی زراعت سے شغف رکھتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ ’’اب میری زرعی زمینیں اور میری فصلیں تم ہو لوگ ہو‘‘۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے دیکھ لیا کہ روحانی علوم کے حصول کے لئے حضور نے بیج بوئے، پھر انہیں خوب سینچا، کلاسوں کے علاوہ ملاقاتوں میں ان کی نگہداشت فرماتے رہے، انہیں چھاؤں بھی دی اور دھوپ کی تمازت سہنے کے لئے تیار بھی کیا۔ پھر ایک روز یہ کھیتی تیار ہو گئی اور اب اس کھیتی سے لاکھوں کروڑوں لوگوں تک حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلیفہ (ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ الحمدللہ رب العالمین۔پھر زراعت کی تعلیم تو شاید اللہ تعالیٰ نے یہی نکتہ سمجھانے کے لئے حضور کو دلائی۔ ورنہ ہم سب جانتےہیں، ہم سب دیکھتے ہیں، ہم سب کا مشاہدہ ہے، ہم سب کا تجربہ ہے  اور ہم سب قسم کھا کر یہ اقرار کرنے کو تیار ہیں کہ حضور انور کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں دنیا بھر کے علوم کی کنجی ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو کوئی سا ایک خطبہ سن لے، کوئی سی کلاس اٹھا کر دیکھ لے، دنیا کے سیاست دانوں اور دانشوروں سے گفتگو سماعت کر لے، پریس کو دئیے گئے انٹرویو بھی اب تو سب   Youtubeپر آگئے ہیں۔بس دیکھ لیں، ثبوت خود مل جائے گا۔

بات چل رہی ہے کلاسوں کی تو کلاسوں کی ایک اور قسم بھی ہے۔ یہ وہ ملاقاتیں ہیں جن میں مختلف علوم میں ریسرچ کرنے والے طلبا و طالبات حضور انور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ اب یہ کلاسیں بھی حضور انور کے دورہ جات کے شیڈول کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلی جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے محققین حضور کے سامنے اپنی تحقیق پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

ان ملاقاتوں کا بھی عجیب حال ہے۔ جب یہ سارے پروگرام حضور کے دورہ کے اختتام پر خاکسار کے پاس آتے ہیں تو مجھے سب سے زیادہ دلچسپی انہی ملاقاتوں میں ہوتی ہے۔ یہ میرے لئے ایک بے انتہا دلچسپ اور ایمان افروز ملاقات ہوتی ہے۔کوئی شہد پر تحقیق کررہا ہے، کوئی stem cell کی دنیا کے سربستہ راز دریافت کرنے نکلا ہوا ہے، کوئی آرکیالوجی کے ذریعہ زمین کے خزانے اگلنے کی پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھ رہا ہے، کوئی کینسر کے موذی مرض کے علاج کی تحقیق میں کسی انتہا کی طرف جا نکلا ہے، کوئی الزائمرز کی جانگسل بیماری سے دنیا کو نجات دلانے کی دھن میں ہے۔ سب ریسرچ کی اعلیٰ ڈگریاں لینے کے لئے ایم ایس سی، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی وغیرہ کی سطح پر تحقیق کررہے ہیں۔حضور بڑی دلچسپی سے ان کی باتیں سنتے بھی جاتے ہیں، ان سے سوالات بھی پوچھتے جاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہیں بہت سی باتیں سمجھاتے بھی جاتے ہیں۔مگر حضور کی گفتگو کا عالم یہ ہوتا ہے کہ گویا حضور ان تمام علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔حضور انہیں ایسی بھی باتیں بعض اوقات بتاتے ہیں جس پر وہ کہتے ہیں کہ ابھی اس گوشے تک رسائی نہیں۔یا یہ کہ معلوم ہی نہیں تھاکہ یہ گوشہ بھی ہے اورہنوز تشنۂ تحقیق ہے۔

ایک ملاقات میں میں نےاپنی حیرت کا اظہار کر ہی دیا۔ مگر سکون اور شانتی کے اس سمندر کے چہرے پر صرف اس خوشگوار مسکراہٹ کو پایا جوہم سب کے دلوں کو زندگی بخشتی ہے۔فرمایا’’انہی کی باتوں کو سُن کر کچھ ذہن میں آجاتا ہے تو بتا دیتا ہوں۔ یا پوچھ لیتا ہوں۔ میں نے کون سا یہ سارے مضمون پڑھ رکھے ہیں۔تھوڑابہت ہی پتہ ہوتا، اکثر وہی  تھوڑا بہت بتا دیتا ہوں یا پوچھ لیتا ہوں‘‘۔

میں نے خاموشی سے یہ بات سُن تو لی مگر ذہن میں سوال جوں کا توں کھڑا تھا۔ پھر بات یوں سمجھ آئی کہ جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بچوں کی ایک معصوم بحث سن کر تربیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’میاں نہ علم اچھا نہ دولت اچھی۔ اللہ کا فضل اچھا‘‘، تو حضرت مسیح موعودؑ کی عاجزانہ راہوں کی طرح خدا کو یہ بات بھی ایسی پسند آگئی کہ اس نے حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت کی مسند پر بٹھانے کے لئے جسے بھی چنا، اسے ذہین و فطین ہونے اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کردینے والے وعدہ سے تبرکاً وافر حصہ عطا فرمایا۔اگر خلافت واقعی خدا کی قدرت کا اظہار ہے، اور یقیناً ہے، تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ربِّ کائنات کی قدرت اپنی جھلک ان کے ہر قول وعمل میں نہ دکھائے۔سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔

جب حضور نے خاکسار کو ازراہِ شفقت ایم ٹی اے کے پروگراموں کی ذمہ داری عطا فرمائی، تو ایک روز فرمایا کہ ’’اپنے ساتھ ایک ٹیم تیار کرو‘‘۔حضور نے’’ پرسیکیوشن‘‘ پروگرام شروع کروایا، پھر اسے ’’راہ ہدیٰ ‘‘میں تبدیل فرما دیا۔ پھر بیکن آف ٹروتھ شروع کروایا۔ پھر’’ تاریخی حقائق ‘‘بھی حضور انور نے ہی شروع کروایا اور پھر ’’فقہی مسائل‘‘۔ یوں ایم ٹی اے کی سکرین پر ناظرین نے پروگراموں میں تدریجاًجو تنوع محسوس کیا، اس کا مختصر تذکرہ یہاں کئے دیتا ہوں، تفصیل آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں(یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ایم ٹی اے کے کسی بھی پروگرام میں جہاں خیر کا پہلو ہے، وہ حضور کی عنایت سے ہے۔ کوتاہیاں سب ہماری ہیں)۔ غرض، حضور پروگراموں کے پودے لگاتے رہے اور ان کی تعداد بڑھتی گئی ۔ٹیم بنانے کا ارشاد اسی پس منظر میں ہوا۔

تب تک جامعہ احمدیہ یوکے کو شروع ہوئے چار برس کا عرصہ ہو چکا تھا۔ سب سے بڑی کلاس درجہ ثالثہ میں پہنچ چکی تھی۔ حضور سے اجازت چاہی کہ طلبا جامعہ سے مدد لے لی جائے؟ توحضور نے بڑی محبت سے یہ اجازت عنایت فرمائی۔ انصر بلال انور صاحب (حال مربی سلسلہ جرمنی)، مصور احمد شاہد صاحب (حال مربی سلسلہ فن لینڈ)، عبدالقدوس عارف صاحب(حال مدرس جامعہ احمدیہ یوکے)، ایاز محمود خان صاحب (حال مربی سلسلہ وکالتِ تصنیف لندن)، جری اللہ خان صاحب (حال مربی سلسلہ جرمنی)، قاصد معین احمد صاحب (حال مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے)، محمد انس احمد صاحب (حال مربی سلسلہ سپین)، صباح الظفر صاحب (حال مربی سلسلہ جاپان) ، مدبر دین صاحب (مربی سلسلہ شعبہ پروگرامنگ ایم ٹی اے)، مستنصر قمر صاحب (حال مربی سلسلہ نیوزی لینڈ)، رضا احمد صاحب (حال مربی سلسلہ لندن ریجن)، ظافر محمود ملک (مربی سلسلہ ریویو آف ریلیجنز)وغیرہ رفتہ رفتہ اس ٹیم کا حصہ بنتے رہے۔ یہ سب اس وقت جامعہ کی مختلف کلاسوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

اِدھر ایم ٹی اے کے پروگراموں میں حضور کی توجہ اور نگرانی سے وسعت پیدا ہو رہی تھی، اُدھر جامعہ احمدیہ یوکے کے طلبا ان کاموں کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور سنبھالنے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ اور یہ حضور کو معلوم تھا کہ کب کس پودے کی قلم کہاں سے نکال کر کہاں لگانی ہے۔ کب کہاں کی زرخیز مٹی، کس زمین پر بچھانی ہے تا کہ اور زمینیں بھی زرخیز ہوں۔ کون سے دریا سے نہر کدھر کو نکالنی ہے اور وہ کہاں کہاں سے گزر کر کن کن اراضی کو سیراب کرتی جائے گی۔ سو یہی طلبا جو حضور کی کلاسوں اور نشستوں اور ملاقاتوں سے فیض حاصل کرتے رہے، اب اس فیض کو عام کرنے لگے اور اللہ کے فضل سے جہاں جہاں ہیں، اسی فیض کو عام کرنے ہی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

یہ سطور لکھتے ہوئے بہت سے ننھے چہرے نظروں کے آگے گھوم رہے ہیں جو بہت چھوٹے ہوتے سے حضور کی کلاسوں میں حاضر ہو کر معصوم باتیں کرتے کرتے یوں پروان چڑھے کہ آج نہ صرف جماعت احمدیہ کی بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کر رہے ہیں۔ سفیر الدین قمر (کیمرہ مین ایم ٹی اے)، توقیر مرزا (ایڈیٹر ، ایم ٹی اے)، فائز احمد (آرکیٹیکٹ)، فاتح احمد (سول انجنئیر)، اظہار اشرف  اورتصویر احمد(متعلم میڈسن)، دانش احمد اور نہ جانے  کون کون سے چہرے ہیں جن کو بہت چھوٹے ہوتے ہوئے ان مجالس میں حضور سے فیض پاتے دیکھا، اور پھر آج انہیں اس فیض کو عام کرتے ہوئے دیکھنے کی توفیق بھی مل رہی ہے۔

ان کلاسوں کا قریب سے مشاہدہ کرتے  ہوئے چودہ برس کا عرصہ بیت گیا۔ کئی اسرار آج تک سمجھ نہیں آئے۔ پوچھنے کی مجال نہیں۔ حضور کی روزانہ کی ڈاک میں ہزاروں خطوط ہوتے ہیں۔ اچھے وقتوں میں وہ اضطراب کہ ابھی حضور کو خط لکھا جائے اگرچہ بہت خوش قسمت لوگوں کو میسر ہوجاتا ہے، مگر یہ اضطراب زیادہ تر پریشانی کے عالم  میں انگڑائی لے کر اٹھتا ہے۔سو حضور کی روزانہ کی ڈاک میں ذاتی مسائل مثلاً دادی اماں کا گر کر ہڈی تڑوا بیٹھنا، نانا ابو کو دمہ کا شدید دورہ، امتحانوں میں فیل ہوجانا، نوکری سے نکال دیا جانا، شوہر کے ظلم و ستم، بیوی کا سخت نافرمان اور منہ پھٹ ہونا، کسی کے لاعلاج مرض پر ڈاکٹروں کا صاف جواب ، ناہنجار اولاد کی بدتمیزی اور بے اعتنائی، غرض ہر طرح کے عجیب و غریب مسائل ہوتے ہیں۔ جماعت کی انتظامی ڈاک ہے تو اس میں کہیں مسجد بنتے بنتے اچانک حکومت کی طرف سے روک آگئی ہے، کہیں مسجد کے لئے زمین خریدتے خریدتے مقامی لوگوں نے طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا ہے اور اب کام روکنا پڑا ہے، کہیں معصوم احمدیوں کو ناحق پولیس اٹھا کر لے گئی ہے اور انہیں فردِ جرم عائد کئے بغیر(یا بےبنیاد فردِ جرم عائد کرکے) قیدوبند میں ڈال دیا ہے، اور یہ بھی کہ کہیں حضور کی پیاری جماعت کے ایک پیارے معصوم فرد کو صرف اس پاداش میں بے دردی سے شہید کردیا گیا ہے کہ وہ اس زمانہ کے امام کو مانتا تھا۔

اب یہ اور ایسے کتنے ہی مسائل ہیں جو حضور کو صبح و شام گھیرے رہتے ہیں۔یہی مسائل سنتے پڑھتے حضور کلاس پر تشریف لے آتے ہیں مگر چہرۂ مبارک پر ایک نورانی مسکراہٹ کھل کھیل رہی ہوتی ہے۔دیکھنے  والوں کو لگتا ہے کہ اتنی طمانیت تو تبھی ہو سکتی ہے اگرحضور کی آج کے دن کی کُل مصروفیت صرف یہی ہو کہ اس کلاس کو رونق بخشنی ہے، پانچ نمازیں پڑھانی ہیں اور بس۔ مگر دنیا کو کیا معلوم کہ  یہ ہستی اس وقت دنیا کی مظلوم ترین ہستی ہے۔ اس ہستی کی محبت میں مبتلا لوگوں نے اپنے سب دکھ درد اسی ہستی کی جھولی میں لا گرائے ہیں۔ قضا اور امور عامہ کی کارروائیوں میں الجھا ہواانصاف بلکہ احسان مانگ رہا ہے، کوئی دعا کی درخواست کررہا ہے، کوئی خلافِ تعلیمِ نظامِ سلسلہ کام کرکے اب اس پر معافی کا طلبگار ہے۔کسی کی غلطی پر حضور اس سے ناخوش ہوئے ہیں تو وہ معافی کا خواستگار ہے۔ دوسری پارٹی کہتی ہے کہ اسے کبھی معاف نہ کیا جائے ورنہ عدل پامال ہوجائیگا۔ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت کے انتظامی مسائل بھی آپ ہی نے حل کررہے ہیں۔ آخری منظوری کا کام اللہ نے آپ ہی کے سپرد کردیا ہے۔ہر فیصلہ کی ذمہ داری بھی خدا کے حضور خود ہی لینی ہے۔

آپ مسائل و مصائب کے اس چکر سے کچھ وقفہ لے کر باہر کلاس میں آئے ہیں۔ نماز پڑھانی ہے، اور پھر واپس اسی دنیا میں لوٹ جانا ہے۔مگر جونہی کلاس کے لئے محمود ہال میں تشریف لائے، آپ کی مسکراہٹ نے ماحول کو روشن کردیا۔ بیٹھ کر بچوں کی باتیں سن رہے ہیں، سوالات سن کر جواب عطا فرما رہے ہیں، کسی کو اس کے ابا کے آپریشن کا پوچھ رہے ہیں کہ خیریت سے ہوگیا۔ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں کہ امتحان ہونے والا تھا، کیسا ہوا؟ سردیاں ہیں تو کسی کا ملبوس دیکھ کر ازراہِ مزاح یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ’’سب ٹھٹھر رہے ہیں، تمہیں گرمی لگ رہی ہے؟‘‘۔اس سب میں  کلاس کے بچے اور ہم سب بھی محظوظ ہو رہے ہیں۔کاش ہمیں ان خوشگوار لمحات میں یہ دعا ہمیشہ یاد رہ جایا کرے کہ ’’اللھم اید امامنا بروح القدس‘‘۔ اور کچھ نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرلیں کیونکہ اللہ ہی ہے جو حضور کے دکھوں اور غموں کو ہلکا کر سکتا ہے۔اور اللہ پر بھروسہ ہی ہے جو حضور کو یہ طاقت دیتا ہے کہ سمومِ غم اور مصروفیات کے ہجوم  میں بھی ہماری دلداری، ہماری تعلیم و تربیت اور ہماری اصلاح کے لئے سامان پیدا فرماتے ہیں۔خدا کرے کہ ہم آئندہ جب بھی حضور انور کو بالمشافہ دیکھیں یا ٹی وی پر دیدار کا شرف حاصل ہو، تو ان اشعار کا مضمون  ذہن میں رکھ لیا کریں:

دعا کرو کہ سروں پہ رہے وہ ابرِ کرم

دلوں میں نور کی جو کھیتیاں اگاتا ہے

دعا کرو وہ شجر عمر بھر رہے قائم

وہ جس کے سائے میں ہر شخص چین پاتا ہے

دعا کرو کہ نہ آنچ آئے اُس کے سر پہ کبھی

جو سب کو پیار سے اپنے گلے لگاتا ہے

دعا کرو وہ خزانہ کبھی نہ ہو خالی

جو غم نصیب غریبوں کے کام آتا ہے

دعا کرو کہ نہ گہنائے تا ابد وہ چاند

جو ظلمتوں میں دئیے پیار کے جلاتا ہے

دعا کرو کہ وہ پرچم سدا بلند رہے

خدا کے دیں کی طرف جو ہمیں بلاتا ہے