کیا نیت نماز کے لئے کوئی معین الفاظ ہیں؟

ایک خط  کے جواب میں جس میں نیت نماز کے بارے میں پوچھا گیا، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تحریر فرمایا:

نیت کا تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے اس کیلئے کوئی معین الفاظ بیان نہیں ہوئے، نماز کی نیت سے صرف اس قدر مراد ہے کہ انسان کے دل میں یہ ہونا چاہئے کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے۔ زبان سے الفاظ کا ادا کرنا یا نماز شروع کرنے سے پہلےاِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ (الانعام: ۸۰) کے کلمات دہرانا کسی نص سے ثابت نہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں۔ “نماز کی نیت کرنا مگر صرف دل میں زبان سے نہیں۔” (دینیات کا پہلا رسالہ صفحہ 20)

نماز میں توجہ قائم رکھنے کے طریق بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ “ساتواں طریق نماز پڑھنے کی نیت ہے ۔ کیونکہ جب انسان اپنے نفس کو بتا دیتا ہے کہ اس کام کیلئے میں کھڑا ہونے لگا ہوں تو توجہ اس کی ہی طرف رہتی ہے۔ نیت سے مراد یہ نہیں کہ کہا جائے کہ پیچھے اس امام کے اتنی رکعت نماز منہ طرف کعبہ شریف وغیرہ وغیرہ ۔ بلکہ ذہن میں ہی نماز پڑھنے کی طرف نیت کرنی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیت دراصل قلب کی ہوتی ہے۔ مگر بعض لوگوں کو کھڑے وقت پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کیا کرنے لگے ہیں۔ پس جب تم نماز پڑھنے لگو تو نماز پڑھنے کا خیال بھی کرلو اور سمجھو کہ کیا کرنے لگے ہو۔ جب یہ بات سمجھ لو گے تو اسی وقت سے تمہارے اندر خشیت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی تو توجہ بھی قائم رہ سکے گی۔” (ذکر الہٰی، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 521، 520 )

جماعت کی طرف سے  شائع شدہ فقہ کی کتاب میں یہ وضاحت موجود ہےکہ نیت کے معنے ارادہ کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیت کا تعلق دل سے ہےاس لئے دل میں یہ طے ہونا چاہئے کہ وہ کس وقت کی کتنی رکعت نماز شروع کرنے لگا ہے۔ منہ سے نیت کے الفاظ ادا کرنے ضروری نہیں ، بلکہ بعض صورتوں میں تو منہ سے اظہار نیت کے الفاظ نکالنے کو مستحسن بھی نہیں سمجھا گیا۔ (فقہ احمدیہ عبادات صفحہ 71)

جماعتی لٹریچر میں غالباً سب سے پہلےحضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی مرتب کردہ کتاب فقہ احمدیہ مطبوعہ 1923ء میں نیت نماز کیلئے قرآنی آیت اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ کے الفاظ کو سہواً درج کردیا گیا تھا، جس کا کوئی حوالہ اس۔ کتاب میں موجود نہیں۔ (فقہ احمدیہ از حافظ روشن علی صاحبؓ صفحہ 32مطبوعہ 12 مارچ 1923ء)

باقی جہاں تک نماز کے آغاز میں  تکبیر تحریمہ کے بعد وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ کے کلمات یا ثناء اور دیگر مسنون کلمات کے پڑھنے کا تعلق ہے تو احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہ کر نماز شروع فرماتے تھے اور تکبیر تحریمہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف کلمات پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض کلمات دعا پر مشتمل ہیں اور بعض کلمات اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء پر مشتمل ہیں ۔ اس بارہ میں کئی روایات آتی ہیں ۔ ان روایات میں سے بعض میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لمبی دعا پڑھنے کا بھی ذکر آیا ہے جس کا آغاز آپ  وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ کے کلمات سے فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصر ھا باب الدعا فی صلاة اللیل و قیامہ)

صحاح ستہ میں سے ترمذی، نسائی، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں متعدد روایات بیان ہوئی ہیں۔ جن میں اس موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا درج ذیل الفاظ میں ثناء پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں  کَانَ النَّبِیُّ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ قَالَ سُبْحَانَکَ اللَّھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالَی جَدُّکَ وَلَا اِلَہَ غَیْرُکَ۔(سنن ترمذی ابواب الصلاة باب ما یقول عند افتتاح الصلاة) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو  سُبْحَانَکَ اللَّھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالَی جَدُّکَ وَلَا اِلَہَ غَیْرُکَ کے کلمات پڑھتے۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے۔ میں نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آپ اس دوران کیا پڑھتے ہیں ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں یہ دعا پڑھتا ہوں۔ اللَّھُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَ بَیْنَ خَطَایَا یَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّھُمَّ نَقِّنِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مَنْ الدَّنَسِ اللَّھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ۔( صحیح بخاری کتاب الاذاں باب ما یقول بعد التکبیر)یعنی اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کردے جس طرح سفید کپڑے کو دھو کر میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی ، برف اور اولوں سے دھو کر صاف کردے۔

پس نیت نماز کیلئے کسی قسم کے الفاظ دوہرانے یا قرآن کریم کی کسی آیت کو پڑھنے کی کوئی سند موجود نہیں۔ لہٰذا ان چیزوں کو نیت نماز کے طور پر نہ تکبیر تحریمہ سے پہلے اور نہ ہی تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھا جائے گا۔ بلکہ نیت کا تعلق چونکہ دل سےہوتا ہے ، اس لئے نماز شروع کرنے سے پہلے دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ انسان کس وقت کی اور کونسی نماز پڑھنے لگا ہے ۔ اس کیلئے کسی قسم کے الفاظ دوہرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ۔ اسی طرح تکبیر تحریمہ کے بعد جو ہم وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ کی مسنون دعا پڑھتے ہیں، وہ نیت نماز کے طور پر نہیں پڑھتے بلکہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات یہاں پڑھے ہیں یا دیگر دعائیں پڑھیں ہیں، اسی طرح آپ کی سنت کے تابع ہم یہ دعا یا یہ کلمات پڑھتے ہیں۔