گھانا کے نومبایعین کے ایمان افروز واقعات

قریشی داؤد احمدساجدؔ، مبلغ سلسلہ گھانا

1

۱۔۔۔ Nana Ibrahim Agyemang آف برونگ آہافوریجن نے بیان کیا کہ،’’ میں اپنے علاقہ میں بت پرستوں کا راہنما تھا اور میرا اپنا بت تھا۔ میں نے ایک عرصہ تک نہ صرف بت پرستی کی بلکہ خود Fitish Priest کے طور پر کام کرتا رہا۔ میں نے احمدیت ایک خواب کے ذریعہ قبول کی۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے اسلامی لباس یعنی گاؤن پیش کیا گیا ہے اور ایک ٹوپی پہننے کو دی گئی ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک خاتون ایک وسیع جگہ میں لے گئی جہاں بہت لوگ جمع تھے جنہوں نے سفید لباس پہنے ہوئے تھے۔ پھر مجھے ایک بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ جس نے مجھے سونے کے تین بڑے ٹکڑے پیش کئے اور مجھے کہا کہ میں اپنا لباس اتار دوں لیکن اس خاتون نے جو مجھے ساتھ لے کر آئی تھی اشارۃً کہا کہ میں یہ پیشکش قبول نہ کروں۔ تب میں نے وہ پیش کش مسترد کر دی۔ جب میں نیند سے بیدار ہوا تومیں نے اپنی بیوی سے کہا میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ یہ خبر ان کے لئے حیرانگی کاباعث تھی تا ہم میں نے انہیں بتایا کہ میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ میں بت پرستی ترک کر کے اسلام قبول کر لوں گا جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے۔

چنانچہ میں ایک احمدی دوست سے ملااور اسے کہا کہ میں احمدیت قبول کرنا چاہتاہوں ۔ وہ دوست مجھے ٹیچی مان میں ریجنل مشنری کے پاس لے گیا جہاں میں نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔

میں نے احمدیت اس لئے قبول کی کہ میں نے دیکھاکہ غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت احمدی حقیقی اسلام کی پیروی کرتے ہیں۔ امسال کانفرنس کے لئے جو Theme رکھا گیا ہے کہ ’’’توہمات کی پیروی قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘‘ میں تمام بھائیوں کو یقین دلانا چاہتاہوں کہ بدروحوں کا کوئی وجود نہیں جو مافوق البشر طاقت رکھتی ہیں۔کیونکہ میں خود ایک Fitish Priest تھا اور لوگوں کو دھوکہ دیا کرتا تھا ۔ اگر وقت ہوتا تو میں اس کا مظاہرہ بھی دکھا دیتا کہ ہم لوگ لوگوں کو کیسے دھوکہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ایسے عقائد نہیں رکھنے چاہئیں ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ میں تمام دوستوں سے درخواست دعاکرتا ہوں ۔

2

۲۔۔۔ مسٹر یونس داؤد صاحب آف Wale Wale،ناردرن ریجن نے بتایاکہ میں غیر احمدی مسلمان تھا اوراپنے علاقہ میں مسلمانوں کا امام تھا۔ میں نے اپنے گاؤں اور پھر ٹمالے میں اسلامی تعلیم حاصل کی۔ لیکن میں بڑے بڑے معلمین اور اماموں کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے مطمئن نہ تھا کہ کیونکرہمارے اماموں اورمعلمین کے قول وفعل میں تضاد ہے۔

ایک دفعہ ایک مشہور امام جس کا نام میکانو (Meekano) تھا۔ سیرت النبیؐ کے اجلاس میں شرکت کے لئے ٹمالے آیا ۔ میں بھی اس کا پیروکار تھا ۔جلسہ کے اختتام پر امام کو بہت سی گائیں ، بکریاں اور ایک خطیر رقم کے علاوہ کئی اشیاء تحفۃً پیش کی گئیں۔ اس وجہ سے لوگوں میں کافی اختلاف ہوا۔ میر ا اپنا نظریہ تھا کہ اتنی بڑی رقم او ر تحائف امام کو دینے کی بجائے کیوں نہ ٹمالے کی جامع مسجد کی تعمیر نو کے لئے خرچ کئے جائیں، جس کی حالت خراب ہے۔ میں اس واقعہ کی وجہ سے مزید دلبرداشتہ ہو گیا ۔ چونکہ میں نے احمدیت کے بارہ میں سن رکھا تھا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں احمدیت میں داخل ہو جاؤں گا۔ چنانچہ بعض احمدی دوستوں کی وساطت سے میں نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے حقیقی اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

3

۳۔۔۔ مسٹر کریم(Mr.Kareem) ڈسٹرکٹ چیف ایگزیکٹو سلاگا(Salaga)،ناردرن ریجن ۔ (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ چیف ایگزیکٹو ضلعی وزیر کو کہتے ہیں)۔ انہوں نے کہا:

’’ میں ایک مسلمان گھر میں پیدا ہوا لیکن عیسائی ماحول میں پرورش پائی۔ اور پھر میں نے عملی طورپر ۱۹۸۳ء میں اسلام کی طرف مکمل رجوع کیا ۔میں ایک زراعت آفیسرتھا اور ۱۹۹۰ء میں ڈسٹرکٹ سیکرٹری (ضلعی وزیر)مقرر کیا گیاجس عہدہ پر میں آج تک قائم ہوں۔

سلگا(Salaga) ایک روایتی اسلامی قصبہ ہے ۔ جب میں نوجوان تھا تو کہا جاتا تھا کہ احمدی ایک غلط اسلام کی پیروی کرتے ہیں ۔ اس لئے میں نے اکثر احمدیوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔ باوجود اس کے کہ کچھ پاکستانی مبلغین وہاں آیاکرتے تھے۔ میں ان کے پاس کبھی نہیں گیا۔ میں Mr. Muhammad Ackonathe ہیڈماسٹر احمدیہ سیکنڈری سکول سلگا کی وساطت سے احمدیت سے متعارف ہوا۔ نیز کچھ کتب کا بھی مطالعہ کیاتو مجھے احساس ہوا کہ دراصل احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ جس قسم کے اسلام کی ہم پیروی کرتے ہیں وہ توہمات سے بھرپور ہے۔ جسے بعض علاقوں میں ذاتی جائیداد سمجھا جاتاہے۔ مختصراً میں نے احمدیت اس وقت قبول کی جب مکرم امیر و مشنری انچارج صاحب ٹمالے تشریف لائے۔ اورمیں مکرم امیر صاحب سے ٹمالے ائر پورٹ پر ملا تو میں نے ہیڈماسٹر صاحب سے کہا کہ یہ نادر موقع ہے کہ میں احمدیت قبول کر لوں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے۔ انہوں نے استعارہ کے طورپر کہا کہ یہ آخری بس ہے۔ ایسا نہ ہومیں لیٹ ہو جاؤں اور پھر ایسا موقع میسر نہ آئے۔چنانچہ میں نے اسی وقت فارم پر کر کے احمدیت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کر لی۔

میں نے احمدیت قبول کرنے کا فیصلہ اس چیز کو مدنظر رکھ کر کیا کہ اس کے بدلہ میں مجھے بہت سی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم میں اس کے لئے تیار ہوں۔ میں نے یہ ارادہ بھی کیا ہے کہ میں دوسرے لوگوں کو بھی احمدیت کی طرف مدعو کرونگا۔مجھے یقین ہے کہ آپ کی دعاؤں کے طفیل احمدیت کی خاطر مجھے جو بھی مشکلات اٹھانی پڑیں گی مجھے اس سے راحت ہوگی۔

گھانا میں جماعت احمدیہ ایک امن پسند جماعت سمجھی جاتی ہے ۔ میں یہ بات جماعت کی روحانی حیثیت کے ساتھ اس کی سوشل، مالی اور دیگر ترقیاتی پروگراموں کو مدنظر رکھ کر کہہ رہا ہوں۔ میں نے یہ چیز صرف احمدیت میں دیکھی ہے کہ احمدیت کے لیڈر لوگوں سے خدمت لینے کی بجائے اس چیز میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کی جائے۔ جبکہ دیگر مذاہب اورمسلمان فرقوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب میں نے دیکھا کہ مکرم امیر صاحب ہمیں اشیاء خورونوش پیش کر رہے تھے۔

میں احمدیت کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہوں۔ اور میں تمام بھائیوں سے درخواست دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے عہد پرقائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

4

۴۔۔۔ Mr. Abdullah Yaparsi Nyankpala ناردرن ریجن ۔ انہوں نے بیان کیا کہ احمدی داعیان الی اللہ کی ٹیم ہمارے گاؤں آئی ۔ ہم نے ان کی باتیں سنیں تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہمیں سچی باتیں بتا رہے ہیں۔اس سے قبل مسلمان ہونے کے باوجود ہم اسلام کے حقیقی علم سے نابلد تھے۔ ہم نے احمدیت قبول کی تو ان لوگوں نے ہمیں حقیقی اسلام سکھانا شروع کیا ۔ اس کے بعد ٹمالے سے ایک مسلمان آیا جس نے ہمیں کہا کہ احمدی حقیقی مسلمان نہیں ہیں ۔ہم نے انہیں جواب دیا کہ اگر آپ لوگوں کے پاس بہتر اسلام تھا تو آپ اتنے سالوں سے ہمیں وہ اسلام سکھانے کیوں نہیں آئے۔ اگر اب احمدی ہمیں اسلام کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہتر مسلمان ہیں۔

ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں زیادہ سے زیادہ آٹھ یا نو لوگ جا سکتے تھے۔ جبکہ ہمارے گاؤں میں جمعہ کے دوران تقریباً ۶۰۰ کے قریب حاضری ہوتی ہے۔ چنانچہ جماعت احمدیہ نے ایک بڑی مسجد ہمارے گاؤں میں تعمیر کر دی۔ہم نے پختہ یقین کے ساتھ احمدیت قبول کی ہے ۔ میں نے بوادی میں تربیت سنٹر میں دو ہفتے کا کورس مکمل کیا ہے۔ اس دوران میں نے اسلام کو صحیح معنو ں میں سمجھا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی۔

5

۵۔۔۔ مسٹر عبداللہ حسن ٹمالے نے بیان کیا:

’’ میں نے محسوس کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم سب لوگوں پر ہے جو یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدیت میں سچائی کی طاقت ہے ۔ بہت سے لوگ جو اپنے آ پ کو بڑے امام یا معلم سمجھتے ہیں و ہ متحمل مزاج نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احمدی ہی حقیقی معنوں میں آنحضورؐ کے سچے پیروکار ہیں۔ مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ جہاد اپنے بھائیوں کو قتل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی جہاد یہ ہے کہ انہیں دین اسلام کی سچی تعلیم دی جائے او ر اس حقیقی جہاد کا تصور میں نے صرف جماعت احمدیہ میں دیکھاہے۔ میں بوادی ٹریننگ سنٹر میں حقیقی اسلام سے روشناس ہوا اور مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ احمدی مسلمانوں اور دیگر مسلمانوں میں کیا فرق ہے۔ جو کچھ میں نے دیکھا اور سنا ہے اس کی بنا پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے جب بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہونگے اور آئندہ سالوں میں یہ جگہ جہاں ہم کانفرنس منعقد کر رہے ہیں کانفرنس کے لئے چھوٹی ہو جائے گی۔

احمدی داعیان الی اللہ ہمارے گاؤں آئے ۔ ان کی تبلیغی مہم بہت کامیاب رہی کیونکہ اگلی صبح ہم سب نے احمدیت قبول کر لی لیکن جو امام ہمیں نماز پڑھاتا تھا اس نے احمدیت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت ہمارے لئے ایک مسجد زیر تعمیر ہے۔ اب امام کے علاوہ جو کہ باہر کا آدمی ہے گاؤں کے تمام لوگوں نے احمدیت قبول کر لی ہے۔

(مطبوعہ:الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍فروری ۱۹۹۸ء تا ۵؍مارچ ۱۹۹۸ء)