ہم اور ہماری شناخت

سید شمشاد احمد ناصر، امریکہ

(الفضل انٹرنیشنل، ۵ نومبر ۲۰۱۹ء)

کچھ دن ہوئے خاکسار نے ایک اداریہ میں پڑھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ایک شخص کو یہ نصیحت فرمائی کہ:

’’ہمارا نشان شناخت صرف یہ ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو وضو کر کے نماز ادا کر لیا کرو یہ نشان کافی ہے۔‘‘

جب خاکسار نے یہ ارشاد پڑھا تو معاً ذہن آپ علیہ السلام کی ایک اور تحریر اور نصیحت کی طرف چلا گیا اور وہ نصیحت اور ارشاد مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ48 پر یوں درج ہے۔ آپ جماعت کے افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’سو تم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ۔ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے۔‘‘

ایک شناخت تو ہم نے خود کرانی ہے جس کی وجہ سے اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔

اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’یہ سلسلہ بیعت محض بمراد فراہمی طائفہ متقین یعنی تقویٰ شعار لوگوں کی جماعت کے جمع کرنے کے لئے ہے تا ایسے متقیوں کا ایک بھاری گروہ دنیا پر اپنا نیک اثر ڈالے…

فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اوراپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے۔ تا دنیا میں محبت اور توبہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے۔ سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ196تا198)

یہ وہ شناخت کے پہلو ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ ساری جماعت کے افراد سے چاہتے ہیں۔ جس میں نماز اور تقویٰ شامل ہیں۔ جو شخص باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اس کی تو خداتعالیٰ نے بھی یوں تعریف بیان فرمائی ہے۔ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہُ۔ (التوبہ9:18) یعنی اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے۔ اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔

ترمذی ابواب التفسیر میں اسی آیت کے تحت آنحضرت ﷺ کا ایک ارشاد یوں درج ہے۔ حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

جب تم کسی شخص کو مسجد میں عبادت کے لئے آتے جاتے دیکھو تو تم اس کے مومن ہونے کی گواہی دو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 259)

نماز کا قیام نماز کی بروقت ادائیگی اور نماز باجماعت پڑھنے کی تو وہ ہماری شناخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور پھر حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ اور خدا کے پاک مسیح نے ہمارے لئے مقرر کر دی ہے۔ اس لئے اس میں نہ تو ناغہ ہو اور نہ ہی کسل اور سستی تا قیامت کے دن ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جو نجات اور فلاح پانے والے ہوں گے۔

خاکسار نے شروع ہی میں لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کے قیام کی وجہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے حقوق، عبادت الٰہی اور اس کی توحید پر انسان پوری طرح جم جائے اور اس کی یہ خصوصیات پھر اس کی تبلیغ میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔ کیونکہ اس کے تقویٰ کا اثر دوسروں کو کھینچ لانے کا باعث بنے گا۔ ان شاء اللہ۔

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص حضرت امام جعفر صادق کے پاس آیا اور اس نے سوال کیا، ’’میں دین کی تبلیغ کے لئے جارہا ہوں۔ کوئی ایسا عمل بتا دیں جو دین کی تبلیغ میں بہت مددگار ثابت ہو۔ ‘‘ امام جعفرؒ نے جو جواب دیا اس میں پورا دین بیان کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’کوشش کرنا کہ دین کی تبلیغ کے لئے تمہیں اپنی زبان استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کے دوستوں کے لئے کچھ نصائح بھی ارشاد فرمائی ہیں۔ آپ کی تصنیف ازالہ اوہام صفحہ 546پر ’’ان دوستوں کے لئے جو سلسلہ بیعت میں داخل ہیں نصیحت کی باتیں‘‘ لکھی ہیں۔ جو ہم سب کے لئے اپنی زندگیوں میں عمل کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے۔…  ہم کیونکر خداتعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو۔ اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے۔ سو اے میرے پیارے بھائیو کوشش کرو تا متقی بن جاؤ۔ بغیر عمل کے سب باتیں ہیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں۔ سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خداتعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ اور پرہیزگاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو۔ سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک خیر اور شر کا بیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اگرچہ تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہو گی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء۔ ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیداہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہوجاتا ہے۔ سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والااپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور ردّی ٹکڑے کو کاٹتاہے اور باہر پھینکتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کو ردّی پاؤ اس کو کا ٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو ناپاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ۔

پھر بعد اس کے کوشش کرو اور نیز خدائے تعالیٰ سے قوت اورہمت مانگوکہ تمہارے دلوں کے پاک ارادے اور پاک خیالات اورپاک جذبات اورپاک خواہشیں تمہارے اعضاء اور تمہارے تمام قویٰ کے ذریعہ سے ظہور پذیر اور تکمیل پذیر ہوں تا تمہاری نیکیاں کمال تک پہنچیں کیونکہ جو بات دل سے نکلے اور دل تک ہی محدود رہے وہ تمہیں کسی مرتبہ تک نہیں پہنچا سکتی۔ خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو۔ …

اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میں گرایا جائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادرپیش ہے۔ بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے۔

خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہوجاؤ۔ وہ بڑی مراد ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو۔ عزیزو!! خدائے تعالیٰ کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو۔ موجودہ فلسفہ کی زہر تم پر اثر نہ کرے۔ ایک بچے کی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو۔ نماز پڑھو نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کُنجی ہے اور جب تُو نماز کے لئے کھڑا ہوتو ایسا نہ کر کہ گویا تُو ایک رسم ادا کر رہا ہے بلکہ نماز سے پہلے جیسے ظاہری وضو کرتے ہو ایسا ہی ایک باطنی وضو بھی کرو۔ اور اپنے اعضاء کو غیر اللہ کے خیال سے دھو ڈالو۔ تب ان دونوں وضوؤں کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ اور نماز میں بہت دعا کرو اور رونا اور گڑگڑانا اپنی عادت کر لو تا تم پر رحم کیاجائے۔ ‘‘

اس نصیحت کے آخر پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’چاہئے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آوے اور خداتعالیٰ کی بزرگی تم میں قائم ہو… توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ اور اپنے مولیٰ حقیقی کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو اور اسلام کے لئے سارے دکھ اٹھاؤ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلّاَ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ (آل عمران:103) ‘‘ (ازالہ اوہام جلد سوم صفحہ546-552 ایڈیشن 1984)