جان ہیو سمتھ پگٹ Rev John Hugh Smyth Pigott

لئیق احمد طاہر، مبلغ انگلستان


(1852-1927)

جان ہیو پگٹ ‘ انگلستان میں 1852 کو پیدا ہوا۔ اور  30  سال کی عمر میں   چرچ  آف انگلینڈ میں شامل ہو گیا اس کے ایک بہت متمول شخص ہینری جیمز پرنس (Henry James Prince)  کے ساتھ گہرے مراسم تھے ۔ ہینری Anglican فرقہ کا پادری تھا۔کسی وجہ سے یہ ان سے بدظن ہو گیا اور Claptonلندن میں  1892 ءمیں ہینری جیمز  پرنس نے ایک نئے چرچ کی بنیاد رکھی جس کا نام Ark of the Covenantرکھا ایسے چرچ  یورپ اور امریکہ میں آئے دن بنتے اور ناپید ہوتے رہتے تھےاور اب بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ہر ہفتہ ایک نیا چرچ بنتا اور ایک مرتا ہے ۔ اسکے علاوہ ہینری نے Somersetshire میں دو صد ایکڑ کا رقبہSpaxton کے مقام  پر خریدکے  وہاں اپنی ایک  کالونی بنائی ۔ ابتدا ہی میں 60 کے قریب بڑے مالدار لوگ اس کے ہم نوا بن گئے ۔

Clapton کے چرچ میں پگٹ ہر اتوارکو سروس لیا کرتا تھا اور  ہینری پرنس کے دعویٰ کے مطابق پرچار کرتا کہ روح ا  لقدس ہینری پرنس پر نازل ہوتا ہے اور عنقریب یسوع مسیح ہماری نجات  کے لیے نزول فرمانے والے ہیں ۔

ہینری پرنس کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ اس کے چرچ  Ark of the Covenant میں شریک ہوں گے ان پر کبھی موت نہ آئے گی  اور وہ تا ابد زندہ رہیں گے۔

بڑی تعداد میں متمول  بیوہ عورتیں اسکے فرقہ میں شامل ہونے لگیں ۔ اسنے شادی بیاہ کے خود ساختہ قوانین بنا لئے اور عیاشی کے لئے ہر بیوہ سے خود شادی کرتا ۔ بعض اوقات 7۔7بیوگان سے شادی کی اور انہیں روحانی دلہنوں کا نام دیتا  بدقسمتی سے ہینری1899 ءمیں فوت ہو گیا اسکی موت پر اس کے ماننے والوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ ھینری پرنس تو مدعی تھا کہ روح القدس اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کی تائید اور علم کی بنیاد پر مسیح کی عنقریب آمد ثانی کی خبر دیا کرتا تھا اور یہ کہ اسپر ایمان لانے والے اور وہ خودہمیشہ زندہ رہینگے ۔ یہ سب باتیں توافسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ اگر یہ خبر روح القدس کی تھی تو وہ خود کیسے مر گیا۔ اس کا مریدجان ہیو پگٹ ایک چلتا پھرتا ہوشیار اور عیار آدمی تھا اْس نےاِس ساری صورتِ حال کو سنبھالا اور کہا  کہ ھینری پرنس تو صرف مسیح کی آمد ثانی کا پرچار کرنے آیا تھا اور وہ مسیح جو فوت ہو کر اور پھر زندہ ہو کر چلا گیا تھا ۔ بس اب  اسکی آمد آمد ہے ۔ لوگوں میں پگٹ نے ایک ہیجان پیدا کر دیا اور لوگ جوق در جوق اسکے چرچ Ark of the covenant  میں آنے لگے جوCLAPTON کے علاقہ میں Brook Rd پر London E5 میں واقع تھا۔

9 ستمبر 1902 کو جب چرچ بھرا ہوا تھا اور انتظامات کے لئے پولیس کی بھاری نفری موجود تھی پگٹ نے دعوی کیا کہ ھنری پرنس اس کے لئیے  ایلیا (علیجاہ) کے طور پر ارھاص بنکر یعنی( Fore-Runner ) بن کر آیا تھا اور دراصل میں ہی وہ یسوع خداوند ہوں جو صلیب پر مرنے کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر چلا گیا تھا اور  God incarnate   بن کر آ گیا ہے۔ اخباروں میں اس دعوی کی خوب تشہیر ہوئی۔ اس دعوی سےچند سال قبل پگٹ Dublin  میں معاون پادری  کے طور پر کام کیا کرتا تھا ۔پگٹ کادعوی برطانیہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور  ہزاروں لوگ 14 ستمبر 1902 کو اسکا وعظ سننے کے لیے امڈ آئے اور  نغمےگا گا کر اسکا  استقبال کیا۔ عیسائی جیسا کہ آج بھی ان کا طریق ہے۔ O Jesus   O Jesus کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے لیکن تھوڑے عرصہ میں ہی وہ وقت بھی آگیا کہ CLAPTON کے کے اس چرچ میں اسے کذاب اور جھوٹا قرار دیکر لوگوں نے مخالفت شروع کر دی۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ مخالفین نے اسپر کرسیاں دے ماریں۔ پتھراؤ کیا ۔ اور پولیس نے بڑی مشکل کے ساتھ اسے چرچ کے عقبی دروازہ سے اپنی حفاظت میں نکالا اور سخت تنبیہ کی کہ آئندہ ایسی نقض امن کی صورت پیدا ہوئی  تو پولیس اسے گرفتار کر لے گی اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی چنا نچہ اسکے بعد پگٹ کلیپٹن کے چرچ میں کبھی SERVICE لینے کیلئے نہ آسکا۔کلیپٹن کا یہ چرچ 1956 کے  بعد کسی زمانہ میںAncient Catholic Church  نے خرید لیا تھا ۔

پگٹ یہاں سے بے آبرو ہو کر ہینری پرنس کی مذہبی تنظیم، جس کا نام Agapemonie یعنی خانہ ٔ محبت ،   (Abode of love) تھا،  کے صدر مقام Spaxton  میں آگیا  جو  Somerset کے پاس مغربی انگلستان میں ہے۔ یہ shrine، ایک بہت وسیع گرجے، سیرگاہ،  محل ، دفاتر اور پیروکاروں کیلئیے قیام گاہوں پر مشتمل تھی۔ یہ بڑی مذہبی کالونی تھی جسے ہینری پرنس  نے تعمیر کروایا    تھا اور اسکا نام جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ خانہ محبت  (Agapemonie) رکھا تھا۔ اسکے ارد گرد ایک بڑی چار دیواری بنائی گئی تھی تا اس میں ہونے والی رنگینیوں اور معاشقوں سے باہر کی دنیا کا با لعموم رابطہ نہ ہو۔ پگٹ کی داشتائیں  بھی spiritual Brides یا Soul Brides یعنی روحانی دلہنیں کہلاتی تھیں  اسکا دعوی تھا کی ان دلہنوں کے ساتھ اسکا  صرف روح اور جسم کا تعلق ہے لہذا کوئی جسمانی اولاد باہم ملا پ سے نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس دعوی کے برخلاف اس کے تین ناجائز بیٹے ایک خوبصورت جوان عورت سے ہوئے۔ ان کی تفصیل ہم آگے تحریر کریں گے۔

پگٹ کے دعویٔ الوہیت سے متعلق خبر ، اخبار The Hackney and Kingsland Gazette میں 10 ستمبر 1902 کوشائع ہوئی۔ یہ خبر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو کہیں سے موصول ہوئی اور آپ نے پگٹ کے سیکٹری کو مزید معلومات بھجوانے کیلئے لکھا اور حضرت مسیح موعود ؑکے دعوی سے متعلق تفصیلی خط بھجوایا جس کے جواب میں اس نے دو اشتہار اور ایک خط بھجوائے۔ ۹ نومبر ۱۹۰۲ کو حضرت مفتی صاحب نے وہ حضرت اقدس کو سنائے۔ پگٹ کے اشتہار کا جو عنوان انگریزی لفظوں میں تھا۔اسکے معنی ہیں۔ کشتی ٔ نوح۔ حضرت اقدس نے  فرمایا :اب ہماری سچی کشتیٔ  نوح ۔ جھوٹی پر غالب آجائےگی۔یورپ والے کہا کرتے تھے کہ جھوٹے مسیح آنے والے ہیں۔ سو اوّل لنڈن میں جھوٹا مسیح آگیا۔ اُس کا قدم اس زمین میں اوّل ہے۔ بعد ازاں ہمارا  ہوگا جو کہ سچا مسیح ہے۔ اور یہ جو حدیثوں میں ہے کہ دجال خدائی اور نبوت کا دعوی کرے گا تو موٹے رنگ میں اب قوم نے وہ بھی کردیا۔ ڈوئی امریکہ میں نبوت کا دعوی کر رہا ہے اور پگٹ لندن میں خدائی کا دعوی کر رہا ہے اور اپنے آپ کو خدا کہتا ہے۔(ملفوظات جلد نمبر ۴ صفحہ ۲۰۰۔۱۹۹ بحوالہ البدر ۲۱ نومبر ۱۹۰۲ )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پگٹ کے نام ایک اشتہار لکھا جس کا عنوان تھا ’’ایک الوہیت  کے مدعی کو     تنبیہ‘‘   اور مولوی محمد علی صاحب کوفرمایا کہ وہ اس کا ترجمہ کر کے ولایت بھیج دیں۔ یہ اشتہار  بہت مختصر تھا۔ دوسرا یہ کہ اس کے آخر میں حضور علیہ السلام نے اپنا نام اس طرح لکھا ” النبی مرزا غلام احمد‘‘  یہ اشتہار 14 فروری 1903 کو اخبار دی سنڈے سرکل لنڈن میں شا ئع ہوا۔(تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 255۔254)

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اس اشتہار کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تصنیف

۔The Renaissance of Islam   صفحہ 179 پر لکھتے ہیں


The Promised Messiah then issued a challenge to Mr Pigott and announced that if Mr Pigott accepted the challenge God would humiliate him and demonstrate that his claim was false. The Sunday circle of 14th February 1903 reported the challenge in the following terms.

Then follows the terrible warning of Mirza Ghulam Ahmad. The jealousy of God, he says, has been roused on account of the insult offered to His sacred name and to His messengers by the haughty assertion of a man who calls himself God and the Lord of earth and heaven, and my True Holy Perfect and Mighty God has commanded me to warn him of the punishment that awaits him. If he does not repent of the irreverent claim he shall be soon annihilated, even in my lifetime, with sore torment proceeding from God and not from the hands of man. This warning of punishment is from the God of earth and heaven. His jealousy shall consume the pretender, so that no one may defile the earth again with such false and arrogant claims.

اس اشتہار کو انگلستان کے اخباروں نے بڑی شہرت دی۔ پگٹ سے متعلق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس اشتہار نومبر 1902 مطبوعہ 14 فروری 1903 سنڈے سرکل لنڈن میں بڑی وضاحت سے  فرماتے ہیں کہ اگر پگٹ نے اپنے دعویٔ مسیحیت اور الوہیت سے توبہ نہ  کی تو وہ جلد نیست و نابودہو جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہےکہ  میری زندگی میں ہی۔

اشتہار کے یہ الفاظ کہ’’یہ بھی ممکن ہےکہ میری زندگی میں ہی “ اشارہ کر رہے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ پگٹ حضور ؑ کی زندگی  میں عملا جھوٹا مسیح اور خود ساختہ خدا ہونے سے رجوع کر لے۔ اور حضور ؑکے بعد پھر اس کے اعادہ کی جرأت  کرے نتیجۃً پھر ایسا ذلیل و خوار ہو کہ گویا زندہ درگور ہو جائے اور ۱۹۰۹ ءسے اپنی موت تک (۱۹۲۷ ء) مسیح یا خدا ہونا تو درکنار ایک شریف اور با غیرت انسان کہلانے کا بھی مستحق نہ رہے۔ اسکی ذلت کا سامان اسطرح بھی ہوا کہ اسنے دعویٰ کر دیا کہ وہ کلیپٹن کے تالاب کو پیدل چل کے عبور کرے گا ۔ لیکن مقررہ تاریخ پر وہ بہانہ سے اسے ٹال گیا۔

واضح رہے کہ اس اشتہار اوّل میں حضور ؑنے پگٹ کی موت کی کوئی پیشگوئی نہیں فرمائی بلکہ یہی لکھا کہ اگر پگٹ نے حضورؑ  کا چیلنج قبول کر لیا تو خدا تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر دے گا  پگٹ نے اس چیلنج کا جواب دینے کی بجائے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ اب یہ جدھر جاتا لوگ اس پر آوازے کستے اور بے عزت کرتے چنانچہ یہ کلیپٹن کے چرچ کو تالا لگا کر  ھنری جیمز پرنس کی بنائی ہوئی کالونی Agapemonie  کے صدر مقام Spaxton میں لنڈن سے دور Somersetshire  میں الگ تھلگ زندگی کے دن گزارنے لگا اس کے ماننے والوں میں بعض انتہائی متمول مگر عیاش مرد اور عورتیں شامل تھیں یا چند انتہائی مالدار لیکن ذہنی اور جنسی مریض اس کے مرید بن گئے۔پگٹ نے Clapton   میں جو دعوٰیٔ الوہیت کیا تھا اس سے حضور ؑ کی زندگی میں تا ئب رہا۔اور حضور کی وارننگ کی وجہ سے حیرت زدہ ہو کر اس پر سکوت مرگ طاری رہا۔

اپنے پہلے بیٹے David  کو اسنے جب بائیبل کا تحفہ دیا تو اسپر یہ نوٹ لکھا’’میرے پلوٹھے داؤد کے لئے۔ اسکے باپ کی طرف سے ۔ جو تمہاری طرح یہ کہتا ہے کہ

Our father, which Art in Heaven   ’’اے ہمارے خدا جو آسمانوں  میں ہے۔‘‘

اس تحریر سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پگٹ خود کو خدا سے الگ وجود خیال کرتا رہا اور الوھیت کے دعوٰی سے تائب ہو گیا تھا۔ اس کے کمرے میں آویزاں ایک لاطینی عبارت آج بھی محفوظ ہے جو درج ذیل ہے Homo Sum .  Humani Nihil A Me Alien um puto اس کا ترجمہ جو پگٹ نےخود اپنے ہاتھ سے لکھا یہ  ہے۔

I am a man nothing akin to humanity do I consider alien to me”‘‘

(مضمون جناب آصف باسط صفحہ 11 الفضل انٹرنیشنل 22 جولائی 2011)

ڈاکٹر جوشوا     پی۔ایچ ۔ ڈی نے پروگرام راہ ہدیٰ 23 جنوری 2011 میں برملا اظہار کیا کہ پگٹ بعد میں اپنی خدائی کے دعوی سے ہمیشہ مجتنب رہا۔

تاہم جھوٹا خدائی کا دعوٰی کرنے  کا انجام کیا ہوا اور پگٹ کیسے خدا تعالیٰ کے عتاب کا نشانہ بنا۔ اسکی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔ یہ پہلا اشتہار تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پگٹ کو نومبر 1902 میں بھجوایا گیاتھااور مغربی اخباروں کو بغرض اشاعت ارسال کیا گیاتھا۔

اس میں حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ ” اگر وہ اپنے گستاخانہ دعویٰ (یعنی جھوٹے یسوع مسیح اور خدائی کے دعوٰی۔  مؤلف  ) سے باز نہ آیا تو جلد نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میری زندگی میں ہی۔”

اس اشتہار میں دی گئی عبارت ہم اوپر درج کر آئے ہیں۔ جس میں حضور نے پگٹ کو چیلنج کرتے ہو ئےفرمایا کہ

’’میں اسے اس نوٹس کے ذریعہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ اس توہین آمیز دعوی سے توبہ نہیں کرے گا تو عنقریب میری زندگی میں ہی تباہ و برباد ہو جائے گا‘‘

اس اشتہار کا عنوان تھا :  ایک الوھیت کے مدعی کو تنبیہ

حضور ؑنے اس میں مزید لکھا کہ “یہ امر خدا کی غیرت کو بھڑکانے والاہے کہ ایک شخص انسان ہو کر پھر خدا بنتا ہے اور زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اپنے تئیں قرار دیتا ہے اور اس طرح خدا کے نبیوں کی بے عزتی کا بھی موجب ہوتا ہے۔ اس لئیے میرے سچے اور پاک اور کامل خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے کہ میں ایسے شخص کو آنے والی سزا سے متنبہ کروں”)ریویو آف ریلیجنز اردو 1903 صفحہ 349 تا 351 نیز دیکھیں  ذکر حبیب صفحہ 7 – 106 – تاریخ احمدیت جلد نمبر 2 صفحہ 7-255)

دوسرا اشتہار

اس پہلے اشتہار کے بعد سیدنا حضرت مسیح موعود نے 23 اگست 1903 کو دوسرا اشتہار ۔ چھ ماہ کے بعد ” پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں ” کے عنوان سے شائع کیا جس میں پگٹ کے بارے میں پیشگوئی فرمائی  کہ:’’یہ دلیر دروغ گو یعنی پگٹ جس نے خدا ہونے کا لنڈن میں دعوی کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 255)

یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی اور پگٹ جو اس زمانہ میں پورے عروج پرتھا کن اسباب کی وجہ سے ناکامی و نامرادی کی انتہائی پستی میں جا گرا یہاں تک کہ اسے حضور علیہ السلام کی زندگی میں اپنا دعویٰ ءمسیحیت ودعوی ءالوھیت دہرانے کی جرات بھی نہ ہوئی ۔ اسکی تفصیل بہت ایمان افروز ہے جو ہمارے قارئین کیلئے دلچسپی کا موجب ہوگی۔

مکرم آصف محمود باسط صاحب نے پگٹ کے بارہ میں ایک قیمتی،  تحقیقی مضمون تحریر کیا ہے جو الفضل انٹرنیشنل لنڈن 22 جولائی 2011 کی اشاعت کا حصہ بنا۔ آپ نے بڑی جدو جہد کے بعد پگٹ کی نواسی Ms Ann Buckley  سے رابطہ کیا اور انہیں 2011ء میں بیت الفتوح میں منعقد ہونے والےPeace symposium  میں  شرکت کی دعوت دی ۔ پیس سمپوزیم میں شریک ہونے والے بعض مہمانوں کو حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے شرف ِ  ملاقات بھی عطا فرمایا۔ ان میں پگٹ کی نواسی بھی شامل تھی اسکے بعد اسنے 22 اپریل 2011 کو خود درخواست کر کے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے تفصیلی ملاقات کی۔ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے بھی اپنی کتاب The Renaissance of Islam کے صفحہ 179 -180 پر Mr C.T. Baker Carr کے ایک مضمون کا ذکر کیا ہے جس کا عنوان تھا  The Bogus Messiah جو اخبار The evening Newsکی یکم فروری 1955 کی اشاعت میں شائع ہوا اس میں مضمون نگار Baker Mr. نے لکھا کہ جولائی 1904 میں ایک بہت خوبصورت لڑکی روتھ اینی پریس(Ruth Annie Preece ) پگٹ اور اسکی بیوی کے ساتھ رہنے لگی پگٹ کی شادی تو 14 اگست 1886 کو ہو چکی تھی۔

مس پریس اور اسکی دو بہنوں کو ان کے والد بڑے اعتماد کے ساتھ مسٹر پگٹ کے پاس چھوڑ گئے تھے لیکن ایک سال کے بعد یہ خبر آئی کی ( Agapemonie, Abode of love )میں ایک بچہ پیدا ہواہے۔ سمر سیٹ ہاؤس کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ 23 جون 1905 کو مس روتھ اینی پریس اور پادری جان ھیو سمتھ پگٹ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام گلوری (Glory) رکھا گیا۔ 20 اگست 1908 کو ان دونوں کے ہاں ایک اور لڑکا پیداہوا۔ اس موقعہ پر رجسٹریشن کے لئیے 18 ستمبر 1908 کو  The Bridge Water کے رجسٹرار سڈنی ڈبلیو ہک   (Sidney W . Hook) کو بلایا گیا اور اس لڑکے کا نام پاور POWER) (درج کروایا گیا۔ اس ناجائز ولادت پر BISHOP OF BATH & WELLS نے سخت ایکشن لیا اور فیصلہ کیا کہ پگٹ کو کلیسیاءِ انگلستان کی شرعی عدالت (consistory court) میں سزا دی جائے کیونکہ یہ حرام کاری کا مرتکب ہوا ہے اسپر جرم ثابت ہو نے پر اسے سخت رسوا کن سزا دی گئی یعنی پادری کے عہدہ سےمعزول کر دیا گیا۔ جسے انگریزی میں Defrockکرنا کہتے ہیں۔ اس سے بڑی عبرت ناک سزا کسی پادری کے لئیے نہیں ہو سکتی۔ یہ کاروائی Wells Cathedral میں مارچ 1909میں ہوئی ۔ اس واقعہ کے بعد عوام کی توجہ خانہء محبت  کی طرف ہوئی تو پتہ لگا کہ وہاں تقریبا 100عورتیں چند مردوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ پگٹ کے تیسرے ناجائز بیٹے کا نام  Life تھا۔

تذکرہ میں 1902 کے حوالہ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا    کا یوں ذکر آتا ہے۔

’’پگٹ کے متعلق دعا اور توجہ کرنے سے حضرت اقدس نے رؤیا میں دیکھا کہ کچھ کتابیں ہیں جن پر تین بار تسبیح،  تسبیح ، تسبیح لکھا ہوا تھا پھر الہام ہوا                   ’’وَاللهُ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔اِنَّھُمْ لَا یُحْسِنُوْن ۔‘‘

اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ  اس کی موجودہ حالت خراب ہے اور یا  آئندہ توبہ نہ کرینگے اور یہ معنی بھی اسکے ہیں۔ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِا اللّٰہ اور یہ مطلب بھی اس سے ہے کہ اسنے یہ  کام اچھا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ پر یہ افترا اور منصوبہ باندھا اور وَاللهُ شَدِیْدُ الْعِقَابظاہر کرتا ہے کہ اسکا انجام اچھا نہ ہو گا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگا۔ حقیقت میں یہ بڑی شوخی ہے کہ خدائی کا دعوی کیا جاوے ” تذ کرہ ایڈیشن چہارم 1977 مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ صفحہ 439 اور 440۔ بحوالہ  البدر 21 نومبر 1902 ،الحکم 24 نومبر 1902 نیز البدر 28 نومبر  اور 5 دسمبر 1902 میں اسکا مکرر ذکر ہوا۔

حضرت مسیح موعود نے 22 اکتوبر 1902ء کو فرمایا: ’’ڈوئی کی نسبت اگر ھمارے مقابلے پر پگٹ آئے تو بہت اثر ہو گا۔۔۔پگٹ کو ضرور چٹھی لکھنی چاہیے ۔اگر مقابلہ کرے تو خوب اثر ہوگا اور لوگ بھی توجہ کریں گے۔‘‘

مفتی صاحب نے کہا کہ چٹھی لکھ دی ہوئی ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ بہ نسبت امریکہ کے ولایت والوں کو ہم سےبہت واسطہ ہے۔ اس کا اگر مقابلہ ہو اور وہ مقابلہ لکھا جاوے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کردے۔ ڈوئی نے تو کم مرتبہ اختیار کیا ہے ۔

مثل غلاموں کے (یعنی مسیح کی آمدثانی پر بطور ارہا ص آنے کا ۔مؤلف ) اگر وہ (پگٹ ) ذرہ دلیر بنے تو یہ (ڈوئی) قابو آیا ہوا ہے کیونکہ وہ اسکی مقررہ میعاد کے اندر آگیا ہے۔­­­­­­­­­­­­­­­­­  [1] کہدیو ے کہ مسیح پانی کی طرح پگھل کر آسمان سے آیا اور میرے اندر رچ گیا ہے” (ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 109، 110 )

یہاں ” اگر مقابلہ ہو تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کردے “سے صاف ظاہر ہے کہ حضور پگٹ کی طرف سے اس مقابلہ اور چیلنج کو قبول کرنے کا انتظار فرما رہے ہیں لیکن پگٹ کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور حضور کی زندگی میں خاموش رہا۔

پگٹ کے دعویٔ خدائی کی انگلستان کے اخباروں میں خوب تشہیر ہوئی تھی اور اس بارہ میں خبروں سے حضورؑ خوب آگاہ تھے ۔ چنانچہ امریکہ کے ایک اخبار میں ڈوئی کا ذکر سن کر حضور نے فرمایا کہ ’’ پگٹ کی شہرت ڈوئی سے بہت زیادہ ہے‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ219 )

19 نومبر 1902 بروز چہار شنبہ(بدھ وار) کو سیر کے دوران  ’’پگٹ مظہر شیطان‘‘کے عنوان سے لکھا ہے۔

ان لوگوں کو اس لئےدعویٰ کرنے کی جرأت ہوجاتی ہے کہ قوم نے مان لیا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ مسیح آئے ورنہ اگر قوم کی کثرت ِرائے اس طرف ہوتی کہ وہ وقت دور ہے تو یہ دعویٰ نہ کرتا۔

شیطان کے بھی مظہر ہوتےہیں۔ شیطان نے اس زمانہ میں اپنے مظہر کے لئے پگٹ کو ہی پسند کیا ہے۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 220-219)

پگٹ کے نام کاسِرّ

پھر فرمایا:- پگٹ کے نام کا جوسِرّ ہے اس میں خنزیر کے معنی پائے جاتے ہیں (یعنی pig)

دیکھیں کہ یہ عیسائیوں کا خدا آسمان پر جاتا ہے کہ زمین میں دفن ہوتا ہے۔دراصل خداتعالیٰ کو ان لوگوں پر سخت غیرت ہے جو خدائی کا دعویٰ کر تے  ہیں- اس کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ ایسے لوگ ہوں- اس حساب سے توموسیٰؑ اور دوسرے کل نبی معاذاللہ اس(پگٹ ) کے بندےہوئے اوریہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ہی سلطنت [2] کے نیچے دو مدعی[3] ۔ ایک جھوٹا  ایک سچا۔ جیسے طاعون ہمارے لئیے مفید پڑی ہے۔ ویسے ہی پگٹ نے گردن نکالی ہے۔ جو کچھ اول مقررہو چکا ہے ضرور ہے کہ وہ تمام ظاہر ہو جاوے۔)ملفوظات جلد نمبر 4 صفحہ 221 )

حضرت مفتی صادق صاحب بالعموم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزی اخبار سنایاکرتے تھے۔ ایک اخبار میں مسٹرپگٹ کے بارہ میں خبر سن کر فرمایا

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسے کاذب مدعی پیدا   ہوئیے تھے جو کہ بہت جلد نابود ہوئے۔ یہی حال اس کا ہوگا۔ اس کے متعلق الہام ہے کہ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ العِقَاب‘‘    (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 37)

ہمارے قارئین یاد رکھیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فدا ہ نفسی و روحی و جنانی کے زمانہ میں یا آپ کے بعد صرف وہی مدعیان نبوت ہلاک ہوئے جنہوں نے اپنے جھوٹے دعویٰ سے رجوع نہیں کیا۔ لیکن جنہوں نے توبہ کی ان کے ساتھ خلفائے راشدین نے رأ فت  اور محبت کا سلوک فرمایا مثلا طلیحہ بن خُویْلداَلْاَ سَدی نے دعوی نبوت کر کے ایک بڑا لشکر جرار مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کر لیا تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ جبریل علیہ السلام اس پر نازل ہوتے ہیں۔ اس کے دعویٔ نبوت کی اطلاع جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا    قَتَلَکَ اللّٰہُ وَ حَرَّمَکَ الْشَّہَا دَ ۃُ   کہ اللہ تجھے قتل کرے ۔ تو ناکام و نامراد ہو اور تجھ پر شہادت حرام ہو جائیے۔ (طبری، واُسُدُ الْغَابَۃ۔ طُلیحہ بن خُویلَدْ)

اسکی فوج نے حضرت خالد بن ولید سے شکست کھائی اور طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا۔ ایک مرتبہ عمرہ کی غرض سے طلیحہ شام سے روانہ ہوا۔ جب راستہ میں مدینہ کے پاس سے گزرا تو لوگوں نے اسےپہچان لیا اور حضرت ابوبکر صدیق کو اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا ۔ اس سے صرف ِنظر کرو اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی ہے۔ اور وہ اسلام قبول کر چکا ہے۔ ایک روایت کے مطابق طلیحہ نے حضرت عمر رضی اللہ کے عہد خلافت میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر جنگ قادسیہ اور جنگ نہاوند میں بھی شریک ہوا ۔

اب دیکھئے نبی اکرم صلی علیہ وسلم  نے اس کے بارہ میں قَتَلَکَ اللہُ  کہ اللہ تجھے قتل کرے ناکام و نامراد کردے کے الفاظ فرمائے لیکن اسکی توبہ سے یہ وعیدی پیشگوئی ٹل گئی۔ اور تائب ہو کر وہ مسلمان ہوا اور اسلام کے دشمنوں کے خلاف جنگوں میں شریک ہوا۔ یاد رہے کہ ایک عاقل بالغ، اگر کامل ہوش و حواس میں معین وحیٔ رسالت  کے، اپنے اوپر نزول کا دعوی کرے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے قابل گرفت ہے ۔

پگٹ کا انجام

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ پگٹ کا انجام کیا ہوا۔ اس کی وفات مارچ 1927 میں تقریبا باقی دنیا سے الگ تھلگ اور تنہائی میں ہوئی۔ انتہائی خاموشی اور راز داری سے اسکاجنازہ لے جایا گیا اور Spaxtonمیں ھنری پرنس کے تعمیر شدہ گرجا گھر میں دفن کردیا گیا ۔ گو پہلے ہی یہ کالونی ویران ہو چکی تھی کیونکہ باقی دنیا سے عمدا اسے کاٹ دیا گیا تھا اور بلند چاردیواری کی وجہ سے یہاں کے چند درجن افراد کے  ساتھ کسی کا رابطہ نہ تھا ۔ بعد میں اس گرجا کے اردگرد خاردار تاریں لگا دی گئیں ۔

یہ گرجا اب فروخت ہو چکا ہے اور رہائشی مکان کے طور پر ایک انگریز فیملی کے زیر استعمال ہے۔ مکرم آصف باسط صاحب نے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے Spaxton جا کر جب اس گرجا اور کالونی کی باقیات  دیکھیں  تو اندازہ ہوا کہ اس شخص کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوا ۔ اب ایک شخص بھی اس کا نام لیوا نہیں ہے۔ ہم نے گرجے میں کھڑے ہو کر اس کی رہائشی خاتون سے پوچھا کہ پگٹ کی قبر کہاں ہے؟

اس نے کہا تم بالکل اس کے اوپر کھڑے ہو۔ قالین اٹھا کر دیکھا توفرش میں ایک چوکور دروازہ سا تھا۔ اس نے کہا کہ یہی اس کی قبر ہے مگر اس کی نعش اب یہاں نہیں ۔ کہاں گئی؟ یہ کسی کو معلوم نہیں حتیٰ کہ پگٹ کی نواسیوں کو بھی نہیں۔ جب اس سے پوچھا کہ اب اسکی قبر کی جگہ کیا ہے  تو خاتون نے بتایا کہ یہاں خالی جگہ دیکھ کرہم نے اپنا راشن سٹور کیا ہوا ہے۔ خاتون نے اس کی قبر کے مقام پر بنے ایک خالی چوکور خانہ کے بارہ میں بتایا کہ یہاں ایک نہایت قیمتی طلائی تختی نصب تھی جس پر پگٹ کا نام اور تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات درج تھی۔ مگر پگٹ کے بڑے بیٹے کو شراب اور جوئے کی ایسی عادت تھی کہ اس کے لئے اس نے  نہ صرف تمام کالونی گنوا دی بلکہ یہ طلائی تختی تک اونے پونے بیچ ڈالی۔۔۔۔۔ آج روئے زمین پر بلا شبہ ایک بھی شخص ایسا نہیں جو Agapemonie ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔” یعنی اپنے آپ کو اس خانہ محبت (Abode of love ) کی طرف منسوب کرتا ہو۔

1955 میں اس چھوٹے سے فرقہ کی سربراہ وہی خوبصورت لڑکی یعنی  Ruth Annie Preece تھی جس نے پگٹ کے ناجائز بچے جنم دئیےتھے۔

The Evening News London Feb1, 1955 p.7 Under the title of Bogus Messiah

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 2 صفہ 257-258)

Somerset Archive Center میں اس زمانہ کے اخباروں کا ذکر کرتے ہوئےجناب  آصف باسط  صاحب  لکھتے ہیں کہ انہیں وہ اخبار دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مارچ  1909 میں جب پگٹ کو پادری کے منصب سے شرعی عدالت نے معزول کیا تو پھر اس نے کہا  کہ اسے ان فیصلوں کی کیا پرواہ ہے۔” میں تو خدا ہوں”  خاکسار کے خیال میں اس کا یہ کہنا محض خفت مٹانے کیلئے تھا ورنہ وہ ہر قسم کے دعووں سے دست بردار ہو گیا تھا۔(مؤلف )  اسکی عملی حالت اس کے دعوی کی نفی کرنے کے لئیے کافی تھی۔ اسکے دوشیزاؤں سے ناجائیز تعلقات اور ناجائیز اولاد کے قصے اور روحانی دلہنوں کے فسانوں نے ، ہاں سچے فسانوں نے جنہیں اخبارات نے بڑی چھان بین کے ساتھ درج کیا تھا اور بعد میں پی ایچ ڈی پروفیسرزاور لیکچررز نے اپنی تحقیق کے ذریعہ اسکی ایسی ذلت و رسوائی کی جو کسی بھی مضبوط سے مضبوط قوی کے انسان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف تھی چنانچہ پگٹ نے اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ اور مقفل کر لیا۔ اسکی ذہنی حالت بگڑنے لگی اور آدم بیزار نظر آنے لگا حتیٰ کہ اس حالت کو دیکھ کر اس کی معشوقہ  Ruth Annie Preece Ms   بھی اُسےخیرباد کہہ کر چلی گئی۔ اس حالت کا Mr Donald Mc  Cormick بدیں الفاظ ذکر کرتا ہے۔

“ It was a slow process, brought about principally through a disintegration of his character” (The Temple of Love by Donald Mc Cormick p.112, 1962, The Citadel Press, New York)

اس کتاب کے صفحہ    149 پر مصنف  نے پگٹ کے ذہنی توازن کے بگڑ جانے کا تفصیل سے ذکر کیا اور بتایا کہ کس طرح اسکی گفتگو بے ربط اور خیالات غیر متوازن ہوتے چلے گئیے ۔ دیکھنے والے محسوس کرتے تھے کہ وہ عدم اعتماد کا شکار ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی وفات تک کا وقت بوکھلاہٹ میں گذارا۔ مٹھی بھر پیروکار بھی اس سے اکتاہٹ اور بیزاری محسوس کرنے لگے اور رفتہ رفتہ اسے چھوڑ گئے ۔ چنانچہ یہ اس ذہنی کیفیت میں گھل گھل کر 1927 میں موت کی گہری کھائی میں اتر گیا۔

Dr. Joshua J Schwieso نے جو یونیورسٹی آف ویسٹ انگلینڈ میں عمرانیات کے لیکچرار ہیں ۔ ہینری پرنس کے اس cult کی shrine(مذہبی کالونی Agapemonie خانہ محبت یعنی (Abode of love سے متعلق University of Reading سے PhD کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کے مقالہ کا عنوان تھا Deluded Inmates, Frantic Ravers and communists: (A sociological study of the Agapemonie,  a sect of Victorian Apocalyptic  Millenarian)یعنی ایک دھوکہ خوردہ،  نروس، اخلاق سے گرا ہوا (اخلاق باختہ) بدمعاش اور بے دین، بے حیائی کے قیدی ۔ وکٹورین عہد کے ایک خانۂ محبت کی معاشرتی تحقیق ۔ ایک ایسے شخص کی کہانی جو نبیوں کی طرح پیشگوئیاں کرنے کا خوگر تھا اور بیسویں صدی کے millenium میں الوھیت کا مدعی تھا اس مقالہ میں مقالہ نگار نے 1902 میں حضرت مسیح موعود کی طرف سے پگٹ کو دی جانے والی وارننگ کا ذکر بھی کیاہےکہ۔۔۔۔۔ اگر وہ دعویٔ الوہیت سے باز نہ آیا تو جلد نیست و نابود ہو جائے گا۔ (صفحہ171)

بعض ذہنوں  میں یہ تحفظ پایا جاتا ہے کہ پگٹ کیوں حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہلاک نہ ہوا جبکہ ڈوئی ہلاک کردیا گیا تھا ۔ اگر ہمارے قارئین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا اشتہار “پگٹ اور ڈوئی کے متعلق پیشگوئیاں ” بابت 23 اگست 1903 کا سرسری مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ چونکہ ڈوئی نے چیلنج قبول کر لیا تھا اور کہا تھا کہ میں مرزا غلام احمد اور ان کے ہم نواؤں کی کیا پرواہ کرتا  ہوں۔ان کی حیثیت تو کیڑے مکوڑوں کی ہے۔ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو مسل کر ہلاک کر دوں۔ اس لئیے خداتعالی نے حضور علیہ السلام کے مقابل پر آجانے کی وجہ سے اسے ہلاک کرکے اپنے سچے مسیح کی صداقت ثابت کردی۔ حضرت مسیح موعود نے ڈوئی کی ہلاکت کے بارہ میں بڑی تحدی سے فرمایا تھا کہ وہ میرے دیکھتے دیکھتے بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑ دے گا۔ لیکن اس کے برعکس حضور کی زندگی میں پگٹ نے زندگی بھر کبھی بھی حضور کے چیلنج کا جواب نہ دیا اور خاموشی اختیار کیے رکھی۔ حضور علیہ السلام نے اپنے پہلے اشتہار میں جو نومبر 1902 میں یورپ کے اخباروں کو بھجوایا تھا صاف لکھا کہ “اگر وہ اپنے گستاخانہ دعوی سے باز نہ آیا تو وہ جلد نیست و نابود کر دیا جائیے گا۔پگٹ کی مسلسل خاموشی اپنے دعوی سے دست بردار ہونے کا کھلا کھلا ثبوت ہے۔ وہ اس کے بعد ہر موقع پر اپنے آپ کو ایک عام پادری اور انسان کے طور پر پیش کرتا رہا ۔

اس لئے اسے حضور کی زندگی میں خداتعالی نے ہلاک نہ کیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کریم سورہ حاقہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کے لئیے ہلاکت کاوعدہ کرتا ہے  (69:45 ( پگٹ تو اپنے آپ کو خدا یعنی خدا کا بیٹا  (خداوند یسوع مسیح) کہتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ سلطنت برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی  یعنی Super power کہلاتی تھی ۔ اور عیسائیت کے فروغ اور تبلیغ کے لئیے اس کے تمام تر وسائل  موجود تھے ۔ خدا تعالیٰ نے پسند نہ کیا کہ ایک مسیح کی زندگی میں ایک جھوٹا عیاش ۔ بدباطن اور زناکار انسان اپنے آپ خداوند یسوع مسیح کہہ کر رسوائی اور ذلت کے تازیانہ سے بچ جائے ۔اسکی رسوائی ہی اس کے دعویٰ کی نفی تھی۔ اس کا ہلاک کرنا حضور علیہ السلام کے چیلنج کو قبول کرنے کے ساتھ مشروط تھا۔ اس لئے بچ گیا۔ آئیے اب اردو لغات کی روح سے جائزہ لیں کہ نیست و نابود کرنا اور تباہ و برباد کے کیا معنی ہیں۔ فیروزاللغات اردو ۔ جامع ۔ طبع اول 2005 از فیروز سنز لمیٹڈ ۔ لا ہور ، پاکستان ۔ ایک نہایت جامع اور معروف کتاب لغت ہے۔ اس میں حضور علیہ السلام کے بیان فرمودہ دونوں محاوروں کا ترجمہ یوں دیا گیا ہے۔

نیست کرنا= برباد کرنا اجاڑنا ۔ نیست و نابود کرنا بیخ و بنیاد سے کھودنا بالکل فنا کر دینا۔

نیست و نابود ہونا= خاک میں ملنا ۔ مٹ جانا ۔

تباہ= ویران ۔ اجڑا ہوا. خستہ حال۔ خراب ۔ برا۔ بدکار۔

تباہ حال =  ذلیل حالت ۔ شکستہ حال ۔ خستہ حال

تباہ کرنا= ضائع کرنا، ویران کرنا۔ اجاڑنا

تباہ ہونا= ستیاناس ہونا ۔ برباد ہونا۔ اجڑنا ۔غارت ہونا۔ بگڑنا۔ مٹنا

تباہی= بربادی۔ خرابی ویرانی۔ ذلت ۔ مصیبت ۔ بلا

تباہی آنا= آفت آنا۔ بلا نازل ہونا

ان متنوع معانی میں سے صرف ایک معنی پر حصر کرلینا یعنی ہلاک کر دینا حضور کے منشاء کے مطابق نہیں ہے۔ جبکہ آپ باربار فرما رہے ہوں کہ اگر اس نے توبہ نہ کی اور اپنے گستاخانہ دعویٰ سے باز نہ آیا تو وہ نیست و نابود کر دیا جائیگا ۔

کیا اس بلندی پر پہنچ کر اس قعر مذلت میں گرنے کو نیست و نابود کہنا بے جا ہے۔ ہرگز نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پگٹ کو جھوٹے دعوی الوھیت کی بنا پر ہلاک کیا جانا ضروری تھا وہ اس آیت قرآنیہ پر غور کریں۔

وَ مَنۡ یَّقُلۡ مِنۡہُمۡ اِنِّیۡۤ اِلٰہٌ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَذٰلِکَ نَجۡزِیۡہِ جَہَنَّمَ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ (سورة  الا نبياء 21:30 )

ترجمہ: اور جو شخص ان میں سے یہ کہے کہ میں اس کے سوا معبود ہوں تو وہی ہے جسے ہم جہنم کی سزادیں گے۔ اسی طرح ہم ظالموں کو جزا دیا کرتے ہیں۔

گویا جھوٹے مدعیٔ الوہیت کی سزا آخرت میں جہنم ہے۔ ضروری نہیں کہ اسے اسی دنیا میں سزا دی جائے ۔ البتہ ایک جھوٹا مدعی نبوت اگر توبہ  نہ کرے تو ضرور اسی دنیا میں سزا پاتا ہے۔ کیونکہ نبی انسان ہوتے ہیں اور لوگ ان کے دعوی سے دھوکہ کھا سکتے ہیں۔اس لئیے اس دنیا میں جھوٹے نبی کی گرفت لازمی ہے جیسا کہ سورة الحا قه   آیات 45تا     48 میں بڑی تحدی سے جھوٹے مدعیٔ  نبوت کی ہلاکت کا معیار بیان کیا گیا ہے۔

سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پگٹ سے متعلق کی گئی پیشگوئی اپنی پوری شان  اور آب و تاب کے ساتھ پوری ہوئی۔ آپ اپنی تصنیف لطیف کشتی نوح میں فرماتے ہیں۔

’’وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں ۔۔۔۔۔ کوئی  ایسی پیشگوئی میری نہیں ہے کہ وہ پوری نہیں ہوئی یا اس کے دو حصوں میں سے ایک حصہ پورا نہیں ہو چکا۔ اگر کوئی تلاش کرتا کرتا مرجائے تو ایسی کوئی پیشگوئی جو میرے منہ سے نکلی ہو اس کو نہیں ملے گی جسکی نسبت وہ کہہ سکتا ہو کہ خالی  گئی۔ مگر بے شرمی سے یا بے خبری سے جو چاہے کہے۔ اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہزار ہا میری ایسی کھلی کھلی پیشگوئیاں ہیں جو نہایت صفائی سے پوری ہو گئیں جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں۔ ان کی نظیر اگر گزشتہ نبیوں میں تلاش کی جائے تو بجز آنحضرت صلی  اللہ  علیہ وسلم کے کسی اور جگہ ان کی مثل نہیں ملے گی۔  (کشتی نوح  ۔ روحانی خزائن جلد نمبر 19 صفحہ 6)

[1] مراد ہے کہ ڈوئی نے دعوی کیا تھا کہ یسوع مسیح ناصری دوبارہ 25 سال کے اندر اندر نازل ہونے والا ہے۔ میں ایلیا(علیجاہ ) ہوں اور یسوع مسیح خداوند ۔ اور پگٹ نے یسوع مسیح خداوند ہونے کا دعوٰی اسی مدت میں کر کے ڈوئی کی بات پوری کر دی  (دیکھیں پگٹ اور ڈوئی کی پیشگوئیاں۔ مجموعہ اشتہارات جلد سوئم صفحہ618)

 [2] انگلستان اور ہندوستان ایک ہی سلطنت ِ برطانیہ کے نیچے تھے۔(مؤلف)

[3] دو مدعی ۔ ایک پگٹ جو جھوٹا ہے اور ایک سچا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مؤلف)