سیرت مسیح موعود علیہ السلام

فہرست مضامین

علماء زمانہ کی شدید مخالفت اور مباحثہ لدھیانہ

اِس اعلان کا شائع ہونا تھا کہ ہندوستان بھر میں شور پڑ گیا اور اس قدر مخالفت ہوئی کہ الامان! وہی علماء جو آپ کی تائید کرتے تھے آپ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت

مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنّہ میں آپ کی تائید میں زبردست آرٹیکل لکھے تھے انہوں نے ہی آپ کے خلاف زمین و آسمان سر پر اُٹھا لیا اور لکھا کہ مَیں نے ہی اس شخص کو چڑھایا تھا اور اب مَیں ہی اِسے گراؤں گا یعنی میری ہی تائید سے اِن کی کچھ عظمت قائم ہوئی تھی اب مَیں اتنی مخالفت کروں گا کہ یہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں گے اور بدنام ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب مع بعض دیگر علماء کے لدھیانہ بھی پہنچے۔

مباحثہ لدھیانہ

اور مباحثہ کا چیلنج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور بھی فرما لیا۔ لیکن مباحثہ٭میں فریق مخالف نے اِس قسم کی کج بحثیاں شروع کیں کہ کچھ فیصلہ نہ ہو سکا اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے دیکھا کہ ایک فتنۂ عظیم برپا ہے اور قریب ہے کہ کوئی صورت غدر کی پیدا ہو جائے تو انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک خاص حکم کے ذریعے لدھیانہ سے اُسی دن چلے جانے پر مجبور کیا۔ اِس پر بعض دوستوں کے مشورہ سے کہ شاید ایسا حکم آپ کے متعلق بھی جاری ہو آپ لدھیانہ سے امرتسر تشریف لے آئے اور آٹھ دن وہاں رہے لیکن بعد میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے دریافت کرنے پربتایا کہ آپ کے متعلق کوئی حکم نہ تھا جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں ہفتہ بھر کے قریب رہے اور پھر قادیان تشریف لے آئے۔

دہلی کا سفر اور مولوی نذیر حسین سے مباحثہ

اِس کے بعد کچھ مدت قادیان رہ کر پھر لدھیانہ تشریف لے گئے جہاں کچھ مدت رہے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے جہاں آپ 28 ستمبر 1891ء کی صبح کو پہنچے۔ چونکہ دہلی اس زمانہ میں تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا وہاں کے لوگوں میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا آپ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیدا ہوا اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کیے اور مولوی نذیر حسین جو تمام ہندوستان کے علماءِ حدیث کے اُستاد تھے، اُن سے مباحثہ قرار پایا۔ مسجد جامع مقامِ مباحثہ قرار پائی لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی۔ کوئی اطلاع آپ کو نہ دی گئی۔ عین وقت پر حکیم عبدالمجید خان صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آگئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسے فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جا سکتے جب تک پہلے سرکاری انتظام نہ ہو، پھر مباحثہ کے لیے ہم سے مشورہ ہونا چاہیے تھا اور شرائطِ مباحثہ طَے کرنی تھیں۔ آپ کے نہ جانے پر اور شور ہوا۔ آخر آپ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین دہلوی جامع مسجد میں قَسم کھا لںر کہ حضرت مسیح علیہ السلام قرآن کی رُو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں ہوئے اور اس قَسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو مَیں جھوٹا ہوں اور مَیں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لیے تاریخ بھی مقرر کر دی۔ مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد اِس سے سخت گھبرائے اور بہت روکیں ڈالنی شروع کر دیں لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ سن کر قَسم کھا جائیں کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اُس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہوگئے۔ حضرت صاحب کو لوگوں نے بہت روکا کہ آپ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائیگا لیکن آپ وہاں ٭ گئے اور ساتھ آپ کے بارہ دوست تھے (حضرت مسیحؑ کے بھی بارہ ہی حواری تھے۔ اِس معرکۃ الآراء موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی) جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پُر تھی بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے۔ ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں سے گزر کر جب کہ سب لوگ دیوانہ وار خون آلود نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے آپ اس مختصر جماعت کے ساتھ محرابِ مسجد میں جا کر بیٹھ گئے۔

مجمع کے انتظام کے لیے سپرنٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران پولیس اور قریباً سَو کانسٹیبلوں کے آئے ہوئے تھے۔ لوگوں میں سے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے اور مسیح ثانی بھی پہلے مسیح کی طرح فقیہیوں اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا۔ لوگ اِس دوسرے مسیح کو سُولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سے مارنے پر تُلے ہوئے تھے اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں ناکامی ہوئی۔ مسیح کی وفات پر بحث کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا۔ قَسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیر حسین کو کھانے دی۔ خواجہ محمد یوسف صاحب پلیڈر علیگڑھ نے حضرت سے آپ کے عقائد لکھائے اور سنانے چاہے لیکن چونکہ مولویوں نے لوگوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانے نہ حدیث کو نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ انہیں یہ فریب کُھل جانے کا اندیشہ ہوا، اِس لیے لوگوں کو اُکسادیا۔ پھر کیا تھا ایک شور برپا ہوگیا اور محمد یوسف کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا۔

افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطرناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہوگا۔ لوگ تتربتر ہوگئے۔۔ پولیس آپ کو حلقہ میں لے کر مسجد سے باہر گئی۔ دروازہ پر گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہرنا پڑا۔ لوگ وہاں جمع ہوگئے اور اشتعال مںہ آکر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اِس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کرا کر آپ کو روانہ کیا اور خود مجمع کے منتشر کرنے میں لگ گئے۔

اِس کے بعد مولوی محمدبشیر صاحب کو دہلی کے لوگوں نے بھوپال سے بلوایا اور اُن سے مباحثہ ہوا جس کا تمام حال چھپا ہوا موجود ہے۔