کرامات الصادقین

روحانی خزائن جلد 7

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی، مسیح موعود و مہدی معہودؑ

مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگایا تھا کہ آپؑ کو اس بات کا صحیح علم نہیں تھا کہ کس طرح قرآن کریم کی تفسیر لکھی جاتی ہیں اور یہ کہ آپؑ کو عربی زبان کی تعلیم حاصل نہیں تھی۔ ۳۰ ؍مارچ ۱۸۹۳ء کو جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام نے صدق و کذب جانچنے کے لیے یہ تجویز فرمائی کہ ایک مجلس میں بطور قرعہ اندازی ایک سورۃ نکال کر اس کی فصیح زبان عربی اور مقفّی عبارت میں تفسیر لکھی جائے اور اس تفسیر میں ایسے حقائق اور معارف لکھے جائیں جو دوسری کتابوں میں نہ پائے جاتے ہیں۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ شیخ بٹالوی کو اختیار ہوگا کہ میاں شیخ الکل اور دوسرے تمام متکبّر ملّاؤں کو ساتھ ملا لے۔

اس کے جواب میں بٹالوی صاحب نے اشاعتہ السنہ جلد ۱۵ نمبر۸ صفحہ ۱۹۰۔۱۹۱ میں یہ لکھ کر کہ عربی زبان میں بالمقابل تفسیر نویسی کے لیے ‘میں حاضر ہوں حاضر ہوں حاضر ہوں’ لکھ کر مقابلہ سے اپنی جان بچانے کے لیے وہ رکیک شرطیں لگائیں۔ جن سے دانشمند سمجھ گئے کہ بٹالوی صاحب میدان مقابلہ سے گریز کر رہے ہیں۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے ان کے اس قسم کے تعصّبان کو دیکھ کر پہلے تو دل میں یہ خیال آیا کہ اب ہمیشہ کے لیے ان سے اعراض کیا جائے لیکن عوام کا یہ غلط خیال دور کرنے کے لیے کہ گویا میاں محمد حسین بٹالوی یا دوسرے مخالف مولوی جو اس بزرگ کے ہم مشرب ہیں علم ادب اور حقائق تفسیر کلام الٰہی میں ید طولی رکھتے ہیں قرین مصلحت سمجھا گیا کہ اب آخری دفعہ اتمام حجّت کے طور پر بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب دوسرے علماء کی عربی دانی اور حقائق شناسی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے یہ رسالہ کرامت الصادقین شائع کیا جائے۔

یہ رسالہ چار قصائد اور تفسیر سورہ فاتحہ پر مشتمل ہے اور یہ قصائد صرف ایک ہفتہ کے اندر حضورؑ نے لکھے اور وہ بھی اس وقت جب آپ آتھم کے ساتھ مباحثہ سے فارغ ہو کر امرتسر میں مقیم تھے۔ مگر آپ نے بٹالوی صاحب اور ان کے ہم مشرب مخالفوں کے لیے محض اتمام حجّت کی غرض سے پورے ایک ماہ کی مہلت دی۔ مزید آپؑ نے پیشگوئی بھی کی کہ ان میں سے کوئی بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ نہ شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہمت ہوئی اور نہ ہی دوسرے مکفرین کو کہ وہ اس رسالہ کے مقابلہ پر رسالہ لکھ کر اپنی عربی اور قرآن دانی کا ثبوت دیتے۔