سچائی کی بابت اسلام کی حسین تعلیم

خطبہ جمعہ 19؍ دسمبر 2003ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشھدوتعوذکے بعددرج ذیل آیت قرآنیہ تلاوت فرمائی

{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ}(التوبہ: ۱۱۹)

اس آیت کا ترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

انبیاء دنیا میں بگڑی ہوئی مخلوق کو، جو مخلوق اپنے خدا سے پرے ہٹ جائے اور بگڑ جائے اُس مخلوق کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو مبعوث فرماتاہے تاکہ انہیں خدا تک پہنچا سکیں۔ اور یہ سیدھاراستہ سچائی پر قائم ہو ئے بغیر نہیں مل سکتا۔ اسی لئے تمام انبیاء سچائی کی تعلیم دیتے رہے اور جرأت سے حق پر قائم رہتے ہوئے ایک خدا کی طرف بلاتے رہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اب دین مکمل کرنے کا وقت آ گیاہے، اب انسانی سوچ بلوغت تک پہنچ چکی ہے تو پیکر صدق وجود حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مبعوث فرمایا، جنہوں نے ہر معاملے میں بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے معاملے تک ہمیں سچ پر قائم رہنے کی اور ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اے مومنواب تم ایمان لے آئے ہو اس ایمان پر مزید یقین بڑھاناہے تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ ہر وقت اس کا خوف تمہارے دل میں رہے اور ہمیشہ حق بات کی طرف بلانے والے، حق دکھانے والے اور سچ بولنے والے اور کہنے والے بنو اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ، سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ اور اب دنیا میں آنحضرتﷺ سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں جو اتنی گہرائی اور باریکی میں جا کر تمہیں حق، سچ اور صدق کی تعلیم دے۔ اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ جاؤ اور اس تعلیم پر عمل کرو جو اس سچے نبیﷺ نے خدا سے علم پا کر تمہیں دی ہے۔ اور پھر ہم احمدیوں کی اور بھی زیادہ خوش قسمتی ہے اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں، اس کی جتنی بھی حمد کریں کم ہے، کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں حضرت خاتم الانبیاﷺ کے عاشق صادق اور آپﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانے کے امام مسیح اور مہدی علیہ السلام کے دعوے کو ماننے کی توفیق بھی دی۔ جنہوں نے ہمیں اس حسین تعلیم کے باریک در باریک نکات کو مزید کھول کر دکھایا اور بتایا۔ اور اس سچی تعلیم کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کی تفصیل سے نصائح فرمائیں۔ آپ نے وضاحت سے فرمایا کہ قرآن کریم میں جس طرح سچ اور راستی کے بارہ میں حکم ہے کسی اور کتاب میں نہیں۔ آپ فرماتے ہیں :کہ جس قدر راستی کے التزام کے لئے قرآن شریف میں تاکید ہے مَیں ہر گز باور نہیں کر سکتاکہ انجیل میں اس کا عشرعشیر بھی تاکید ہو۔ پھر اس بارہ میں آپ نے عیسائیوں کو چیلنج بھی کیا تھا کہ مَیں چیلنج کرتاہوں کہ اگر تم لوگ مجھے انجیل میں سے کھول کر بتا دو، سچائی کی اور صدق کی تعلیم جس طرح قرآن شریف میں ہے، تو مَیں تمہیں ایک بہت بڑی رقم انعام دوں گا۔

پھر آپ نے فرمایا : قرآن شریف میں دروغ گوئی کویعنی جھوٹ بولنے کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایاہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے {فَاجْتَنِبُوْاالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ }یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو اور پھر ایک جگہ فرماتاہے {یٰآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنَ وَالْاَقْرَبِیْن…}۔ یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ یا تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھائیں۔ (نورالقرآن نمبر ۲صفحہ ۱۷۔ ۱۸)

تو اب اس قدر تاکید کے بعد ہم پر کس قدر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم سچ کے خُلق کو اپنے اوپر لاگو کریں اور اسے اپنائیں۔ اور ہمارا اوڑھنا بچھونا، ہر حالت میں، ہماری ہر بات جو ہمارے منہ سے نکلے وہ سچ ہو۔

اب احادیث کی روشنی میں کچھ وضاحت کرتاہوں۔ حضرت ابوبکر ہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: کیا مَیں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کیا جی حضور! ضرور بتائیں۔ آپ ؐ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا(سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے)، والدین کی نافرمانی کرنا، آپ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے ہوئے تھے، آپ جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو!تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپ ؐ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضور ؐ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین)

تو اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ آنحضرتﷺ کو جھوٹ سے کس قدر نفرت تھی۔ اور آپ ؐ کی ہر تعلیم ہی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی۔ تو اصل میں جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ شرک اور جھوٹ ایک ہی چیزہیں۔ انسان نے اپنے اندر بھی بہت سے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ اور بہت سے جھوٹ کے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: آج کی دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلواوررنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں، جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں، جھوٹے اسناد بنالئے جاتے ہیں۔ (یعنی کاغذات بھی جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں، مقدمے بھی جھوٹے بنالئے جاتے ہیں، پیشیاں بھی جھوٹی، گواہیاں بھی جھوٹی، ہر چیز جھوٹی )۔ کو ئی امر بیان کریں گے توسچ کا پہلو بچا کربولیں گے۔ اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا۔ (وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی کوئی ضرورت نہیں، ان سے اگر کو ئی پوچھے )کہ کیا یہ وہی دین تھا جو آنحضرتﷺ لے کر آئے تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیزکرو۔ { اِجْتَنِبُوْاالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ }بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملا یا ہے۔ جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سرجھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کوبت بناتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتاہے۔ (یعنی وہ سمجھتاہے کہ بُت اسے نجات دے گا اس کے مسائل سے )۔ اسی طرح جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتاہے اور سمجھتاہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہوجاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑدیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پراپنا مدار سمجھتے ہیں مگرمَیں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتاہے، بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ (ملفوظات جلد نمبر ۸ صفحہ ۳۴۹۔ ۳۵۰)

وہ سمجھتے ہیں کہ جو انہوں نے اپنے دلوں میں بت بنائے ہوئے ہیں اس کے ذریعہ سے ہی نجات ہے۔ اور یہ بُت بھی بہت سی قسموں کے ہیں، مختلف ملکوں میں، مختلف لوگوں نے قسما قسم کے مختلف بُت اپنے دلوں میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ مختلف پیشوں میں سچ کی کمی اور جھوٹ کی زیادتی نظر آتی ہے۔ تویہ اس طرح کا بُت ہی ہے جو انہوں نے اپنے دل میں قائم کیا ہواہے۔ اور جب پوچھو تو یہ کہتے ہیں، جیساکہ حضور بھی فرما رہے ہیں، کہ اس کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا، اگر جھوٹ نہ بولا جائے۔ مثلاً وکالت ہے، ایک بڑا قابل احترام پیشہ ہے اگرصحیح طرح اختیار کیا جائے، استعمال کیاجائے۔ لیکن بعض وکیلوں کو بھی یہ عادت ہوتی ہے کہ اگرکوئی سیدھا سادا کیس بھی ہو تو اس کو بھی ایسے طریقے سے پیش کریں گے کہ اس میں جھوٹ کی ملونی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے مؤکل کو نقصان پہنچ رہاہوتاہے، اس کا نقصان کروا دیتے ہیں۔ یہاں یورپین ملکوں میں بھی اب احمدی آتے ہیں، اسائلم کے کیس بعض دفعہ بڑے سیدھے ہوتے ہیں اور اگر سیدھے طریقے سے ان کو حل کیا جائے تو ہو سکتاہے کہ وہ حل ہو بھی جائیں لیکن بلا وجہ ایسے باتوں میں الجھاتے ہیں کہ اچھا بھلا کیس خراب ہو جاتاہے۔ پھر بعض مؤکل سے سیدھی طرح بات ہی نہیں کرتے، اس کو صحیح صورت حال ہی نہیں بتاتے اور بڑے عرصہ بعد جاکے جب پتہ کرو تو پتہ چلتاہے کہ پیروی ہی نہیں ہو رہی۔ اسی طرح ہمارے ملکوں میں بھی، تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی، بعض ان پڑھ لوگوں کو وکلاء بہت چکروں میں ڈالتے ہیں۔ عدالت میں پیش ہی نہیں ہورہے ہوتے، مؤکل سے فیس لے رہے ہوتے ہیں۔ پھر مجرم کو بچانے کے لئے جھوٹی گواہیاں دے رہے ہوتے ہیں اور جن سے فیس لے رہے ہوتے ہیں ان سے بھی جھوٹ بول کر ٹال مٹول کررہے ہوتے ہیں، غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ بہت ساری چیزیں ہیں اور ایسے لوگوں کے خیال میں اگر اس طرح بات نہ کی جائے، مثلا ً ایسے ہی جو وکیل ہیں کہ ہیر پھیر نہ کیا جائے اور لوگوں کو دھوکے میں نہ ڈالا جائے تو ان کا رزق ختم ہوجائے گا، ان کی تو کوئی آمد ہی نہیں رہے گی۔ اگر اتنی آسانی سے کیس حل ہونے لگیں۔ توگویا یہ غلط بیانی اور جھوٹ ان کے رازق بن جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تمہارا رازق مَیں ہوں تو احمدی وکلاء کو ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔ مجھے ایک مثال یاد آگئی، فیصل آباد میں جب ہم ہوتے تھے تو خدام خدمت خلق کے تحت باہر جایا کرتے تھے تاکہ دیہاتوں میں جاکے لوگوں سے ملیں اور اگر ان کے کوئی کام بھی ہوں تو وہ کئے جائیں، ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ زمیندار ہیں تو ان کی زمیندارے کی کیا کیا ضروریات ہیں، ان کا جائزہ لیاجائے۔ تو اسی طرح کے ایک وفد میں ہم گئے۔ ایک دیہاتی بیٹھاتھا باتوں باتوں میں اس کو پتہ لگ گیاکہ ہم احمدی ہیں۔ گو کہ یہ اظہار عموماً نہیں کیا جاتاتھا جب تک کو ئی خود نہ پوچھے۔ اس نے ذکرکیاکہ فیصل آباد میں ایک احمدی وکیل ہیں شیخ محمد احمد صاحب مظہرؔ، بہت نیک انسان ہیں اور بہت سچے آدمی ہیں، کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے اور کبھی کوئی جھوٹا کیس نہیں لیتے لیکن (وہ پنجابی میں کہنے لگا) ایک نقص ہے ان میں کہ وہ ہیں مرزائی۔ تو مرزائی احمدی ہونا ہی نقص تھا ان میں اور کوئی عیب تلاش نہیں کرسکے۔ تو یہ تو ان کی کم عقلی ہے یا جس طرح مولویوں نے انہیں بتایا اسی طرح انہوں نے اظہار کردیا لیکن اس پر ابوجہل کی یہ بات یاد آجاتی ہے جو اس نے آنحضرتﷺ کو کہی تھی کہ اِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ بَلْ نُکَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِہٖ یعنی ہم تجھے جھوٹا قرار نہیں دیتے، توُ تو سچا ہے، صادق القول ہے، بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو توُ لے کرآیاہے۔ (جامع ترمذی کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الانعام)

تو اس زمانے میں بھی آنحضرتﷺ کے اسوہ پر عمل کرکے، صرف آپ ؐ کے حقیقی پیروکار ہی اس زمانے میں یہ نمونے دکھا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے والے ہی یہ نمونے دکھا سکتے ہیں کہ جن کو یہ کہاجائے، کوئی یہ انگلی نہ اٹھائے کہ یہ شخص جھوٹاہے باقی تعلیم کو جھوٹا کہنا تو خیر ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کی سنت چلی آ رہی ہے۔

پھر ڈاکٹر ہیں، غلط میڈیکل رپورٹ بنوا دیتے ہیں، بعض مقدمات قائم کروا دیتے ہیں۔ تو جو بھی اپنے پیشے سے خیانت کرے گا وہ جھوٹ کو اپنا کرہی کرے گا۔ خیانت ہے ہی جھوٹ اور کیاہے۔

پھر استاد ہیں۔ بعض اُستاد ہیں جو اس معززپیشے کو جھوٹ کی وجہ سے بدنام کر رہے ہیں۔ رشوت لے کر، پیسے لے کر جھوٹے نمبر لگا دیتے ہیں۔ بلکہ بعض تو ایسے استاد بھی ہیں جو جھوٹی اسناد لے کر ملازمت میں آئے ہوئے ہیں، ان کی کوالیفی کیشن (Qualification) ہی نہیں ہوتی بعض ملکوں میں۔ تو یہ ایسی بھیانک برائیاں ہیں جو معاشرے میں قائم ہیں اور پاکستان وغیر ہ میں جو تیسری دنیا کے ملک ہیں یہ کو ئی چھپی ہوئی باتیں نہیں ہیں یہ سب باتیں اخباروں میں آتی ہیں۔ تو جب جھوٹ پر مبنی معاشرہ قائم ہو جائے توپھراقدار ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور ایک وقت میں تمام معاشرہ ہی بے حس اور بالکل ہی اللہ تعالیٰ سے دور جانے والا ہوجاتاہے۔ تو ہر احمدی کو اس معاشرہ میں ایسی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ یہ احساس پیدا کرناہے، اپنے اندربھی، اپنی نسلوں کے اندر بھی کہ احمدی ہونے کی حیثیت سے تم نے سچائی پر قائم رہناہے اور جھوٹ کے خلا ف جہاد کرناہے۔ جتنا مرضی اس میں نقصان ہواس کی کوئی۔ پرواہ نہیں کرنی۔ اس لئے ہر احمدی چاہے وہ ملازمت سے منسلک ہو، چاہے کسی پیشے سے منسلک ہو، چاہے کوئی کاروبار کرتاہو، یہ عہد کرے کہ مَیں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا۔ اب کاروبار میں، بعض کاروباری حضرات ہیں، بعض دفعہ اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں۔ وقتی طور پر تو شاید ان کو فائدہ نظر آرہاہولیکن حقیقت میں جھوٹ کے راستے وہ شرک کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔ تو اس زمانے میں احمدی کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کا دعویٰ کرنے کے بعد، جھوٹ سے نفرت کا وعدہ کرنے کے بعد، بے احتیاطی کرنے کا مطلب ہے کہ ہم یہ خیال کر رہے ہیں کہ شاید جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے سکتے ہیں، نعوذباللہ۔ اس لئے بہت خوف کا مقام ہے، بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضرتﷺ کا یہ فرمان اچھی طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو۔ شک سے مُبرّا یقین کو اختیار کرو کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتاہے۔ (ترمذی کتاب صفۃ القیامۃ باب ما جاء فی اوانی الحوض…)

اب بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ تو نہیں بولا لیکن بات ایسی گول مول کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ ہی ہوتی ہے۔ اسی کے بارہ میں فرمایا کہ شک سے مبرّا بات کرو۔ اور شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو۔

پھر حدیث میں آتاہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :کسی بندے کے دل میں ایمان اور کفر جمع نہیں ہو سکتے۔ اور نہ سچائی اور کذب بیانی اکٹھے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دیانتداری اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۳۴۹۔ مطبوعہ بیروت)

پھر ایک حدیث ہے یہ بھی حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے۔ کہ آپﷺ نے فرمایا:انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی علامت کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔ (مسلم مقدمہ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع)

تو بعض لوگ اِدھر ُادھر باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں صرف مزہ لینے کے لئے۔ کہ ایک سے بات ادھر پہنچائی، اِدھر سے اُدھر پہنچائی۔ تو ہمیں اس حدیث کے مطابق اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہیں ہم انجانے میں، لاشعوری طورپر یا جان بوجھ کر اپنے پر یہ جھوٹے ہونے کا لیبل نہ لگوالیں۔ پھرحدیث ہے، ابوہریرہ ؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاجس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا (اب یہ ماؤں اور باپوں کے لئے بہت ضروری ہے، سننے کی چیز)۔ جس نے کسی چھوٹے بچے کوکہا کہ آؤ مَیں تمہیں کچھ دیتاہوں پھروہ اس کو دیتا کچھ نہیں تویہ جھوٹ میں شمارہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۵۲۔ مطبوعہ بیروت)۔ اس کا مطلب ہے کہ بچے کو تو پھرسچ اور جھوٹ کا احساس ختم ہو جائے گا، اس کی تربیت کے لئے بہت ضروری ہے۔ اور ہم نے اپنی اگلی نسلوں کی بھی تربیت کرنی ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ دار ی ہے۔ پھرہر گاؤں، ہر شہر میں ایک بڑی تعداد میں واقفین نوبچے ہیں، ان کی بھی تربیت گوگھر کے ماحول میں بھی کرنی ہے لیکن احمدی ماحول میں بھی ان کی تربیت کرنی ہے تو اس لئے بچپن سے ہی بچوں میں اور ان کے دلوں میں جھوٹ سے نفرت اور سچ سے محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیشہ، ہر وقت، ہر ایک کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔

پھر حضرت عبداللہؓ بن عامر سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ ہمارے گھر تشریف فرما تھے کہ میری والدہ ے مجھے بلایا کہ آؤ مَیں تجھ کوکچھ دیتی ہوں۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا:’’توُاسے کیا دینا چاہتی ہے؟‘‘۔ انہوں نے عرض کیا کہ مَیں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر توُاس کو کچھ نہ دیتی تو تیرے ذمّہ جھوٹ لکھاجاتا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التشدید فی الکذب)۔ اب یہ دیکھیں کتنی تنبیہ ہے۔

پھر حضرت فاطمہ ؓ حضرت اسماء ؓ سے روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی کریمﷺ سے پوچھا :اے اللہ کے رسول !میری ایک سَوتن ہے۔ اگر مَیں جھوٹے طورپر اس کے لئے یہ ظاہر کروں کہ خاوند مجھے یہ یہ چیزیں دیتاہے حالانکہ وہ اس نے مجھے نہ دی ہوں (اس کو تنگ کرنے کے لئے، اس کو جلانے کے لئے ) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ نہ ملنے والی چیزوں کا جھوٹے طور پراظہار کرنے والا ایسا ہی ہے گویا اس نے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ (مسلم کتاب الزینۃ کتاب اللباس و الزینۃ باب النھی عن التزویر…)

تو یہ بھی جھوٹ ہی ہے۔ تو اس معاشرے میں بھی بعض دفعہ مقابلے میں آکر غلط بیانیاں ہورہی ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ ہمارا افسر ہمارے سے بڑا تعلق رکھتاہے تو بلاوجہ ایسے لوگوں کو حسد اور جلن بھی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر رشتہ داریوں میں صرف تنگ کرنے کے لئے، اس کے علاوہ بھی، اسی طرح کا اظہار کیاجاتاہے جس سے دوسرے کو جلن شروع ہو۔ گو یہ بھی ناپسندیدہ بات ہے۔ کسی کے اگر کسی سے تعلقات ہیں تو کسی کو جلن اور حسد کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ جھوٹے طورپر اظہار ہے، یہ جھوٹ کے زمرے میں آجاتاہے۔

پھر عبداللہؓ بن عمرو بن العاص روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:چار باتیں ایسی ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان میں سے ایک بات پائی جائے اس میں نفاق کا ایک حصہ یا خصلت پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ اور باقی کیاہیں ؟ پہلی بات یہ کہ جب وہ گفتگو کرتاہے تو کذب بیانی سے کام لیتاہے یعنی اس کی باتوں سے جھوٹ ظاہر ہو رہاہوتاہے۔ دوسری بات، جب و ہ معاہدہ کرتاہے توغداری کا مرتکب ہو رہاہوتاہے۔ تیسرے، جب وعدہ کرتاہے تو وعدہ خلافی کرتاہے۔ اور چوتھے، جب جھگڑتاہے تو گالی گلوچ سے کام لیتاہے۔ (بخاری ومسلم کتاب الایمان باب علامۃ المنافق)

اب اس حدیث پر اور غور کریں تو تمام باتیں ہی جھوٹ کے تعلق میں ہیں۔ پہلی بات تو صاف کھلی ہے کہ ہر بات میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ کھلے طورپر جھوٹ نہیں بولتے، ایسے طریقے سے بات کو گھما پھراکر کرتے ہیں اور پھر اس طرح اگلے آدمی کو پہنچاتے ہیں کہ سننے والا اس کا کوئی بھی مطلب نکال سکتاہے۔ اور بعض دفعہ ایسی گول مول باتیں جوہیں، دو دلوں میں پھوٹ ڈالنے کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ لڑائیاں ہوتی ہیں اور اگر نظام جماعت یا عزیز رشتہ دار مل کر صلح صفائی کی کوشش کریں تو تحقیق کے بعد پتہ لگتاہے کہ بات ہی غلط تھی۔ بات ایسی ہے ہی نہیں تھی جو دوسرے کی طرف منسوب کرکے بات کی گئی۔ اور جب اس بات کرنے والے کو پوچھا جائے کہ تم نے ایسے بات پہنچا کر دو فریقین میں آپس میں پھوٹ ڈلوادی ہے، لڑائی پیدا کر دی ہے تو وہ آرام سے کہہ دیتاہے کہ مَیں نے تو اس طرح بات ہی نہیں کی۔ میرا تو مطلب یہ تھا۔ توایسے لوگ جو اس طرح ہوشیار بنتے ہیں اور صرف مزہ لینے کے لئے ’بی جمالو‘ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ چاہے ظاہر جھوٹ بول کر یا چھپا ہواجھوٹ بول کر ان کو رسول خداﷺ نے منافق کا درجہ دیاہے۔ کیونکہ مومن کے لئے تو واضح طورپر قول سدید کا حکم ہے۔ ایسی بات کرو جو کھلی ہو، صاف ہو، سیدھی ہو اور سمجھ آنے والی ہو، کسی قسم کا اشتباہ پیدا نہ ہوتاہو اور کبھی اس وجہ سے، اس بات کی وجہ سے دلوں میں پھوٹ نہ پڑتی ہو۔

پھر دوسری خصلت ہے نفاق کی کہ جب معاہدہ کرتے ہیں تو غداری کے مرتکب ہوتے ہیں اور معاہدے توڑتے ہیں۔ آپﷺ کا تو یہ عمل تھاکہ بے چارے بے کس، ظلم کی چکی میں پسے ہوئے مسلمان، جب بھی مکہ سے مدینہ آئے تو چونکہ کفار سے ایک معاہدہ تھا کہ ایسے مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے گا تو ان کی حالت زار کے باوجود دل پر جبر کرتے ہوئے آنحضرتﷺ ان کو واپس بھجوا دیا کرتے تھے۔ تو یہ اسوہ حسنہ ہے ہمارے سامنے۔ آج کل بہت بڑی بڑی حکومتیں معاہدے کرتی ہیں اور پھرانہیں اس طرح توڑدیتی ہیں۔ خاص طورپر مسلمان حکومتوں یا غریب ملکوں کے ساتھ معاہدوں کا سوال ہو تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اور اعتراض اسلام پہ ہورہاہوتاہے کہ اسلام یوں ہے اور یوں ہے۔ بہرحال ان کے عمل ان کے ساتھ۔ لیکن مسلمانوں کو بھی یہ نصیحت ہے کہ اگر تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوتو تمہارے اندر منافقت کا بیج ہے اس لئے فکرکرو اور اس برائی کو اپنے اندر سے ختم کرو۔ اب میں گھر کی سطح پر، بعض رشتوں کی سطح پرمعاہدے کی مثال دینا چاہتاہوں۔ شادی بیاہ کا تعلق بھی مرد اور عورت میں ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتاہے۔ عورت کو حکم ہے کہ اس معاہدے کی رو سے تم پر یہ فرائض ادا ہوتے ہیں مثلا ً خاوند کی ضروریات کا خیال رکھنا، بچوں کی نگہداشت کرنا، گھر کے امور کی ادائیگی وغیرہ۔ اسی طرح مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرہے۔ ان کی متفرق ضروریات کی ذمہ داری اس پر ہے۔ اور دونوں میاں بیوی نے مل کر بچوں کی نیک تربیت کرنی ہے اس کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تو جتنا زیادہ میاں بیوی آپس میں اس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے اتنا ہی زیادہ حسین معاشرہ قائم ہوتا چلا جائے گا۔

لیکن بعض دفعہ افسوس ہوتاہے بعض واقعات سن کر اور دیکھ کر کہ یہاں یورپ میں، مغرب میں رہنے والی لڑکی کارشتہ اگر پاکستان یا ہندوستان وغیرہ میں کہیں ہوا۔ تو لڑکی نے سپانسر کر کے لڑکے کو بلوایا، شادی ہنسی خوشی چلتی رہی، بچے بھی ہوگئے۔ اور جب مرد کے کاغذات مکمل ہوگئے؟ اب مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا توغلط طریق سے لڑکیوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ تو اس طرح ایک پاکیزہ تعلق کو ایک معاہدے کو توڑنے والے بن گئے اور اکثر بنیاد، صرف بہانے ہوتے ہیں، جھوٹ پر مبنی باتیں ہوتی ہیں، اندر کچھ بھی نہیں ہوتا، الزامات لگا ئے جا رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لوگ بھی منافقت کے زمرے میں ہی آتے ہیں او راحمدیوں کو، ہم میں سے ہرایک کو اس بارہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

پھر تیسری خصلت ہے وعدہ خلافی۔ یہ بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ اور آج کل کے معاشرے میں حکومتوں سے لے کر نچلی سطح پر ہر جگہ اس کے نظارے دیکھنے میں نظر آتے ہیں۔ اور اکثر ایسے ہیں جن کی جب کو ئی وعدہ کر رہے ہوتے ہیں تو شروع سے ہی نیت ٹھیک نہیں ہوتی۔ اور بعد کے فعل سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ واقعی ابتداء سے ہی نیت بد تھی۔ کیونکہ شروع میں انہوں نے یہی سوچا ہوتاہے کہ ابھی وعدہ کرلو، جوفائدہ اٹھاناہے اٹھا لو، اور جھوٹ بول لو، کوئی حرج نہیں۔ اور جب وعدہ پورا کرنے کا وقت آئے گاتو پھردیکھا جائے گا، پھر ٹال دیں گے، پھرتھوڑاسا جھوٹ بول دیں گے۔ تو ایسے لوگوں کوبھی اپنا محاسبہ کرتے رہناچاہئے کہ وعدہ خلافی جس کو یہ معمولی سمجھ رہے ہیں یہ کوئی معمولی چیزنہیں ہے بلکہ آنحضرتﷺ نے ایسے شخص کو منافقین کی صف میں کھڑا کردیاہے اور منافق کافر سے بھی زیادہ گنہگار ہے۔

پھرچوتھی خصلت کہ جب جھگڑتاہے تو گالی گلوچ سے کام لیتاہے۔ اوراس کی سب سے زیادہ سمجھ احمدیوں کوہی ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ مخالفین احمدیت گالی گلوچ یا غلیظ زبان کا استعمال اس لئے کرتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔ اگر سچے ہوتے تو دلیل سے بات کرتے، شریفانہ رنگ میں بات کرتے۔ تو جھوٹے کے پاس جب کوئی دلیل نہیں ہوتی تو وہ ماردھاڑ اور گالی گلوچ پر اتر آتاہے۔ اور پھر ایسے لوگ اس تعریف کی روسے منافق بھی ہیں۔ اگر اس کو مزید کھولیں تو ایسے لوگوں کی اور بھی بہت ساری منافقانہ باتیں ظاہر ہونی شروع ہوجائیں گی۔ تو یہ تو تھی غیروں کی بات۔ ان کے عمل ان کے ساتھ ہیں، ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ خدا خود ہی ان سے نمٹ لے گا لیکن احمدیوں کو بھی بہت محتاط ہونے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں بعض دفعہ میاں بیوی میں، بھائیوں میں، رشتہ داروں میں، برادریوں میں، اپنے ماحول میں، کاروباری حلقوں میں رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ غلط یا صحیح یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن کسی فریق کوبھی یہ زیب نہیں دیتاکہ ان رنجشوں کو اتنا بڑھا دیں کہ گالی گلوچ تک نوبت آجائے۔ تو ہمیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ اگر ایسا موقعہ پیدا ہو جائے تو صلح میں پہل کرو۔ صلح کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ۔ سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو۔ کجا یہ کہ گالی گلوچ کرکے منافقت کا لیبل اپنے پر لگا لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس سے بچائے، محفوظ رکھے۔ جیساکہ مَیں نے پہلے کہا گالی گلوچ ہمیشہ جھوٹا آدمی ہی کرتاہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

’’تم جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ بھی روحانیت کو تباہ کرنے والا مرض ہے اور پھر شرک اپنی ذات میں سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کیونکہ جو طاقتیں خداتعالیٰ نے کسی کو نہیں دیں، ان کے متعلق ایک مشرک کہتاہے کہ فلاں فلاں چیز میں ہیں (وہ بتوں سے مانگتے ہیں جس چیز کا بت بنایاہواہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کے دلوں میں ہے کہ وہ طاقت فلاں فلاں بتوں میں ہے) اور اس طرح جھوٹ کی نجاست پر منہ مارتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کی علامتوں میں سے ایک بڑی بھاری علامت راستبازی ہوتی ہے اور یہ علامت ایسی ہے جو اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ راستبازی کی قدروقیمت کو نہیں سمجھتے۔ خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں یہ مرض زیادہ پایا جاتاہے۔ کیونکہ یہ زمانہ مُداہنت اور نِفاق کا زمانہ ہے اور تہذیب کے معنے آج کل یہ سمجھے جاتے ہیں کہ بات کرنے والا دوسرے کے خیالات کااس قدرخیال رکھے کہ اگر اُسے سچائی بھی چھپانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ مگر زمانے کی رو کے باوجود ہر شخص کافرض ہے کہ اس بدی کا پورے زور سے مقابلہ کرے۔ اور اسے کچلنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے کیونکہ جھوٹ بولنے والا دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتاہے اور دھوکہ ایک ایسی چیزہے جس سے لوگوں کونقصان پہنچتاہے۔ پس جھوٹ بولنے والا صرف اخلاقی مجرم ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا دشمن اور انہیں تباہ کرنے والا بھی ہے اور اس عہد کو مٹانا ہر سچے اور مخلص مسلمان کا فرض ہے۔ رسول کریمﷺ نے منافق کی علامات کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ جب بولتاہے تو جھوٹ بولتاہے۔ اور منافق کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اسے دوزخ کے سخت ترین مقام میں رکھا جائے گا۔ گویا خداتعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتاہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتاہے۔ جو قوم اپنے افراد میں سے جھوٹ نہیں مٹا سکتی اور اس کے باوجود یہ سمجھتی ہے کہ اس کو ترقی اور عزت حاصل ہوجائے گی۔ اس کا یہ خیال ایسا ہی خام ہے جیسے ایک بچے کا یہ خیال کہ چاند کے پاس پہنچ جائے گا یاستاروں کے پاس پہنچ جائے گا۔

پھر آپ نے فرمایاکہ اگر سچائی ایسی چیزہے جس کے بغیرکسی قوم کا رعب قائم نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ سچائی اور دیانت کا نمونہ دکھاتے ہیں وہ اپنی قوم کو چار چاند لگادیتے ہیں اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ اپنی قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں ‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۴۱۔ ۴۳)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’حق اور انصا ف پرقائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو۔ جھوٹ مت بولو اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یااس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو جیسے بیٹے وغیر ہ کو‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۵۳)

پھرآپ ؑ نے فرمایا :

’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتاہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتاہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کااظہار نہیں کرسکتا اور اپنی پاکدامنی کاثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کرکے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدانے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اس کے حاسد نہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپناحساب صا ف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔ خداکو راضی کرے پھرکسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے۔ ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی مَورد ِعذاب ہو جاوے مگریہ سب کچھ بھی تائید غیبی اور توفیق الٰہی کے سوا نہیں ہو سکتا۔ صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو۔ {خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا}(النساء :۲۹)۔ انسان ناتواں ہے، غلطیوں سے پُرہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے۔ اور تائیدات ِ غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے۔ (ملفوظات جلد پنجم، طبع جدید، صفحہ ۵۴۳)

پھر آپ نے فرمایا:’’صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو بالکل راستبازی میں فنا شدہ ہو اور کمال درجہ کا پابند، راستباز اور عاشقِ صادق ہو۔ یہ ایک ایسامقام ہے کہ جب ایک شخص اس درجہ پرپہنچتاہے تووہ ہر قسم کی صداقتوں اور راستبازیوں کا مجموعہ اور ان کوکشش کرنے والا ہوجاتاہے۔ جس طرح پر صدیق کمالاتِ صداقت کا جذب کرنے والا ہوتاہے۔ … صدیق کے کمال کے حصول کا فلسفہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی کمزوری اور ناداری کو دیکھ کر اپنی طاقت اور حیثیت کے موافق {اِیَّاکَ نَعْبُدُ} کہتاہے اور صدق اختیار کرتا اور جھوٹ کو ترک کردیتاہے اور ہر قسم کے رجس اور پلیدی سے جوجھوٹ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے دور بھاگتاہے اور عہد کرلیتاہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، جھوٹی گواہی نہ دو ں گا اور نہ جذبہ نفسانی کے رنگ میں کوئی جھوٹا کلام کروں گا، نہ لغو طور پر، نہ کسب خیر اور دفع شر کے لئے۔

بعضوں کا خیال ہے کہ مصلحتاً بعض موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے۔ فلاں غلط بات کرنے سے فلاں بہتری پیدا ہو سکتی ہے تعلقات میں یا رفع شرمَیں کر رہاہوں غلط کام کر کے۔ یا ایسی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جہاں جھوٹ بولنا جائز ہو گیا تھا۔ آپ نے فرمایاکہ کسی صورت میں بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ فرماتے ہیں یعنی یہ عہد کرے کہ کسی رنگ اور حالت میں بھی جھوٹ کو اختیار نہیں کروں گا۔ ’’اور جب اس حد تک وعدہ کرتاہے تو گویا {اِیَّاکَ نَعْبُدُ } پر ایک خاص عمل کرتاہے اور اس کاوہ عمل اعلیٰ درجہ کی عبادت ہوتی ہے۔ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ }سے آگے {اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن }ہے خواہ یہ اس کے منہ سے نکلے یا نہ نکلے لیکن اللہ تعالیٰ جو مبدء الفیوض ہے اور صدق اور راستی کا سرچشمہ ہے‘‘ (جہاں سے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور فیض نکلتے ہیں اور سچائی اور راستی کا دکھانے والا ہے ) اللہ تعالیٰ اس کو ضرور مدد دے گا اور صداقت کے اعلیٰ اصول اور حقائق اس پر کھول دے گا۔ مثلاً جیسے کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو تاجر اچھے اصولوں پر چلتاہے اور راستبازی اور دیانتداری کو ہاتھ سے نہیں دیتا اگر وہ ایک پیسے سے بھی تجارت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پیسے کے بدلے لاکھوں روپے دے دیتاہے۔

اسی طرح جب عام طورپر ایک انسان راستی اور راستبازی سے محبت کرتاہے اور صدق کو اپنا شعار بنا لیتاہے تووہی راستی اس عظیم الشان صدق کو کھینچ لاتی ہے جو خداتعالیٰ کو دکھا دیتی ہے۔ صدق مجسم قرآن شریف ہے اور پیکرِ صدق آنحضرتﷺ کی مبارک ذات ہے اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ کے مامور و مرسل حق اور صدق ہوتے ہیں۔ پس جب وہ اس صدق تک پہنچ جاتاہے تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور اسے ایک خاص بصیرت ملتی ہے جس سے معارف قرآنی اس پر کھلنے لگتے ہیں۔ مَیں اس بات کے ماننے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوں کہ وہ شخص جو صدق سے محبت نہیں رکھتا اور راستبازی کو اپنا شعار نہیں بناتا وہ قرآن کریم کے معارف کوسمجھ بھی سکے۔ اس لئے کہ اس کے قلب کو اس سے مناسبت ہی نہیں کیونکہ یہ تو صدق کا چشمہ ہے اور اس سے وہی پی سکتاہے جس کو صدق سے محبت ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۳۶۵۔ ۳۶۶)

پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ :

’’مَیں نے غور کیا ہے قرآن شریف میں کئی ہزار حکم ہیں ان کی پابندی نہیں کی جاتی۔ ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں میں خلاف ورزی کرلی جاتی ہے یہاں تک دیکھا جاتاہے کہ بعض جھوٹ تو دوکاندار بولتے ہیں اور بعض مصالحہ دار جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ نے ان کو رجس کے ساتھ رکھاہے۔ مگر بہت سے لوگ دیکھے ہیں کہ رنگ آمیزی کرکے حالات بیان کرنے سے نہیں رکتے اور اس کو کوئی گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ ہنسی کے طورپر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے۔ (یعنی ہر طرح کے جھوٹ سے پرہیز جب تک نہیں ہوتا)۔ ……

پھر آپ نے فرمایا : ’’خداتعالیٰ نے مجھے اسی لئے مامور کیاہے (ہم احمدی جو ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا کہ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مامور کیاہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتاہے پیدا ہو۔ خداتعالیٰ تاوان نہیں چاہتابلکہ سچا تقویٰ چاہتاہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۲۰۔ ۱۲۱)

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو سچ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے اور جھوٹ سے بیزار ہو کر نفرت کرنے والا بنا ئے۔ ہر احمدی جدھر بھی جائے اس پر کبھی اس اشارے کے ساتھ انگلی نہ اٹھے کے یہ جھوٹاہے بلکہ ہر انگلی ہر احمدی پر ان الفاظ پر اٹھے کہ اگر سچائی کا کوئی پیکر دیکھناہے تو یہ احمدی جارہاہے۔ اگر کسی قوم کے اندر کوئی سچائی دیکھنی ہے، اس دنیا میں موجودہ حالات میں کسی نے سچائی دیکھنی ہے تو ان احمدیوں میں دیکھو۔ تو ہر احمدی خواہ وہ امریکہ میں رہنے والا ہویا یورپ میں ہو، ہر دیکھنے والا احمدی کے متعلق یہی کہے کہ سچائی ان کا نمایاں پہلو ہے اور پہچان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خلق پر قائم رہنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 19؍ دسمبر 2003ء شہ سرخیاں

    اے ایمان لانے والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ

    ٭…صدقِ مجسم قرآن شریف ہے اور پیکر صدق آنحضرت ﷺ کی ذاتِ مبارک ہے۔

    ٭…انبیاء مخلوق کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے آتے ہیں۔

    ٭…اب دنیا میں آنحضرت ﷺ سے بڑھ کر کوئی صادق نہیں … اس لئے اس نبی کے ساتھ چمٹ جاؤ۔

    ٭…جس طرح سچ اور راستی کے بارہ میں قرآن میں حکم ہے کسی اور کتاب میں نہیں۔

    ٭…ہمارا اوڑھنا، بچھونا، ہماری ہر بات جو ہمارے منہ سے نکلے وہ سچ ہو۔

    ٭…احمدی وکیلوں، ڈاکٹرز، اساتذہ کے لئے راہنما ہدایت اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا نمونہ۔

    ٭…صرف جھوٹ ہی نہیں شک سے مبرّا بات کرو ……

    ٭…شادی بیاہ ایک پاکیزہ تعلق اور معاہدہ ہے اس کا احترام کریں۔

    ٭…سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔

    ٭…سچائی کے بارے احمدیوں کا ایک اعلیٰ اور قابل ذکر معیار ہونا چاہئے۔

    ۱۹؍دسمبر ۲۰۰۳ ء بمطابق ۱۹؍فتح ۱۳۸۲ ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور