حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو

خطبہ جمعہ 5؍ مارچ 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشھد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا}(النساء :۱۳۶)

اس کاترجمہ ہے اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قرآن کریم میں جن اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی ہے، ان میں سے ایک انصاف اور عدل ہے۔ جس پر عمل کرنا، جس پر قائم ہونا اور جس کو چلانا مومنوں پر فرض ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ جو مرضی حالات ہو جائیں جیسے بھی حالات ہو جائیں تم نے انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے زمانے میں ایک دفعہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اور آیتوں کے علاوہ اس آیت کوبھی پیش فرمایا کہ اس کے بعد تم کس منہ سے یہ دعویٰ کر سکتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا انعام کا چیلنج دیا اور عیسائیوں کو للکارا کہ جس طرح سچ بولنے اور انصاف پر قائم رہنے کی تلقین قرآن کریم میں ہے، عیسائی اگر انجیل میں سے دکھا دیں تو ایک بڑی رقم آپؑ نے فرمایا میں انعام کے طور پر پیش کروں گا۔ لیکن کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ مقابلے میں آئے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی اس نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں قرآن کریم کی چھپی ہوئی حکمت کی باتوں اور براہین کا ہمیں ہتھیار دیا۔ لیکن یہ ہتھیار صرف غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حسین تعلیم ہے اس کو ہم نے اپنے اوپر لاگو کرنا ہے، اگر اپنے گھر کی سطح پر، اپنے محلہ کی سطح پر اپنے ماحول میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا یہ عدل کا نظام قائم نہ کیا تو ہمارے دنیا کی رہنمائی کے تمام دعوے کھوکھلے ہوں گے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ جو گواہی بھی دینی ہے۔ جس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا حکم ہے وہ صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں کہ جب دل میں خداتعالیٰ کا خوف ہو۔ جب یہ پتہ ہو کہ ایک خدا ہے جو میری ظاہری اور پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ جس کو میرے موجودہ فعل کی بھی خبر ہے اور جو میں نے آئندہ کرنا ہے اس کی بھی خبر رکھتا ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ میں بھی ترقی ہو گی اور جب تقویٰ میں ترقی ہو گی تو پھر عدل کو قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ اپنے یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی دوسرے عزیز کے خلاف بھی کبھی گواہی دینے کی ضرورت پڑی تو گواہی دینے کی ہمت پیدا ہو گی اور توفیق ملے گی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب آپؑ نے اپنے والد کی طرف سے کئے گئے مقدمہ میں دوسرے کے حق میں گواہی دی آپؑ کے والد کے ساتھ مزارعین کا درختوں کا معاملہ تھا، زمین کا جھگڑا تھا، مزارعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت دیانت، انصاف اور عدل کو دیکھتے ہوئے عدالت میں کہہ دیاکہ اگر حضرت مرزا غلام احمد یہ گواہی دے دیں کہ ان درختوں پر ان کے والد کا حق ہے تو ہم حق چھوڑ دیں گے، مقدمہ واپس لے لیں گے۔ عدالت نے آپ کو بلایا، وکیل نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی، آپؑ نے فرمایا کہ میں تو وہی کہوں گا جو حق ہے کیونکہ میں نے بہرحال عدل، انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بات سن کر عدالت نے ان مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور اس فیصلے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس طرح خوش خوش واپس آئے کہ لوگ سمجھے کہ آپؑ مقدمہ جیت کر واپس آ رہے ہیں۔ یہ ہے عملی نمونہ جو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے ہمیں اس معیار عدل کو قائم رکھنے کے لئے دکھایا۔ اور آپؑ نے اپنی جماعت سے بھی یہی توقع رکھی، یہی تعلیم دی کہ تم نے بھی یہی معیار قائم رکھنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ ایسی بات کر جاؤ جس کے کئی مطلب ہوں اور ایسی گول مول بات ہو کہ شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حق میں فیصلہ کروا لو۔ اگر اس طرح کیا تو یہ بھی عدل سے پرے ہٹنے والی بات ہو گی، عدل کے خلاف چلنے والی بات ہو گی اس لئے ہمیشہ قول سدید اختیار کرو، ہمیشہ ایسی سیدھی اور کھری بات کرو جس سے انصاف اور عدل کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوں، پھر یہ عدل کے معیار اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ سلوک میں بھی قائم رکھو، روزمرہ کے معاملات میں بھی قائم رکھو، اپنے ملازمین سے کام لینے اور حقوق دینے میں بھی یہ معیار قائم رکھو، اپنے ہمسایوں سے سلوک میں بھی یہ معیار قائم رکھو، حتیٰ کہ دوسری جگہ فرمایا کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل کے اعلیٰ معیار قائم رکھو۔ اللہ تعالیٰ جو تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے تمہارے دلوں کا حال جاننے والا ہے، تمہاری نیک نیتی کی وجہ سے تمہیں اعلیٰ انعامات سے بھی نوازے گا۔ تودیکھیں کتنی خوبصورت تعلیم ہے دنیا میں انصاف اور عدل اور امن قائم کرنے کی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو، جھوٹ مت بولو، اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۵۳ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ۲۷۴)(یعنی بچوں، بیویوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچے، تب بھی گواہی جھوٹی نہیں دینی)۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ {وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ} اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے، اگرچہ اپنے تم کسی قریبی پر گواہی دو۔

یعنی انصاف قائم رکھنے کے لئے تم نے اپنا ذاتی مفاد نہیں دیکھنا۔ یا اپنے عزیزوں اور قریبیوں کا مفاد نہیں دیکھنا بلکہ حق اور سچ بات کہنی ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مزید کھول کر فرمایا کہ{ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ}(سورۃ المائدہ آیت نمبر۹) یعنی اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

اب دیکھیں اس سے زیادہ عدل و انصاف قائم رکھنے کے کون سے معیار ہو سکتے ہیں کہ دشمن سے بھی تم نے بے انصافی نہیں کرنی۔ اگر تم دشمن سے بھی بے انصافی کرو گے اور عدل کے تقاضے پورے نہیں کرو گے اس کا مطلب ہے تمہارے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے۔ منہ سے تو کہہ رہے ہو کہ ہم اللہ کے بندے اور اس کا خوف رکھنے والے ہیں۔ لیکن عمل اس کے خلاف گواہی دے رہا ہے۔ اب بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی آپس میں بھی چپقلشیں ہو جاتی ہیں کجا یہ کہ دشمنوں سے بھی انصاف کا سلوک ہو تو کہاں بعض دفعہ یہ عمل ہوتا ہے اپنوں سے بھی چھوٹی موٹی لڑائیوں میں، چپقلشوں میں ناراضگیوں میں اپنے خاندان یا ماحول میں فوراً مقدمے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ اور بعض دفعہ انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے کہ معمولی سی باتوں پر تھانے کچہری کے چکر لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ مقدمے بازی شروع ہو جاتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف بعض دفعہ جھوٹی گواہیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی خوف نہیں رہتا، مکمل طور پر شیطان کے پنجے میں چلے جاتے ہیں اور اس کے باوجود کہ اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے پتہ بھی ہوتاہے کہ جان بوجھ کر بعض غلط باتیں بھی کر رہے ہیں، جھوٹ بھی بول رہے ہیں لیکن شیطان اتنی جرأت دلا دیتا ہے کہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو ہمارے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اوپر خدابھی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم رحمن کے بندے بننا چاہتے ہو تو اپنے ذہنوں کو مکمل طور پر صاف کرو اور مقصد صرف اور صرف انصاف اور عدل قائم کرنا ہو۔ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات سے نہ روکے کہ تم انصاف اور عدل قائم نہ کرو۔ اس حکم کی عملی شکل ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلے میں اس طرح نظر آتی ہے، روایت یہ ہے۔ حضرت مصلح موعود نے کوٹ(Quote) کیا ہے کہ ایک دفعہ کچھ صحابہ ؓ کو باہر خبررسانی کے لئے بھجوایا گیا، کیونکہ جنگی حالات تھے مسلمانوں پر مشکلات تھیں، حالات پرنظر رکھنی ہوتی تھی۔ تو دشمن کے کچھ آدمی ان کو حرم کی حد میں مل گئے اور انہوں نے(یعنی مسلمانوں نے)سمجھا کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ مکہ والوں کو جا کر خبر کر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے۔ اس سوچ کے ساتھ انہوں نے ان پہ حملہ کر دیا اور ان کفار میں سے ایک آدمی مارا بھی گیا، ۔ جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ واپس مدینے پہنچا تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کے بھی آدمی آ گئے کہ اس طرح یہ ہمارے دو آدمی مار کے آگئے ہیں اور حرم کے اندر مارے ہیں تو جو لوگ پہلے حرم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے رہے، ان کو جواب تو یہ ملنا چاہئے تھا کہ تم بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہو لیکن آپؐ نے فوراً کیا کارروائی کی؟ آپؐ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔ ممکن ہے وہ لوگ اس خیال سے حرم میں چلے گئے ہوں کہ وہ محفوظ ہیں اور انہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو، انہوں نے جنگ میں تھوڑی سی کمی دکھائی ہو، اس پر آپؐ نے ان دونوں کا خون بہا(جس کا عربو ں میں دستور تھا) ان دو مقتولین کے ورثاء کے حوالے کیا۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۲۴۹، ۲۵۰)

حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں { کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ} کہ تمہاری گواہیاں اللہ تعالیٰ کے لئے عدل کے ساتھ ہوں پھر اس کی تشریح کہ{ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا} کسی کی دشمنی انصاف کے مانع نہ ہو۔ مثال دیتے ہیں مثلاً بعض غیر آریہ لوگ اس زمانے میں تھے تمہیں دفتروں سے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ تم ان کے مقابلے میں بھی ایسی کوشش کرو، جہاں تمہیں اختیار ہو تم ان کے خلاف کارروائی کرو، نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا علاج یہ بتایا ہے کہ تم یہ یقین رکھو کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا اور ان سے خبررکھنے والا بھی کوئی ہے۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۔ ۱۵؍اگست ۱۹۰۹ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ۸۵)۔ اس طرح تم تقوے پہ قائم ہو جاؤ گے، تمہیں یقین ہو گا کہ تمہیں دیکھنے والا، تمہارے کاموں سے باخبر کوئی ہے تو پھر یہ اعلیٰ معیار عدل و انصاف کے قائم ہو سکیں گے۔

پھر بعض لوگوں کو عادت ہے کہ بعض کاروباری لوگ جو بعض دفعہ بہت ہوشیار چالاک بنتے ہیں کم تجربہ والے کو ساتھ ملا کر کاروبار کرتے ہیں۔ بعض بیچاروں کے پاس پیسہ تو آ جاتا ہے ایسے سیدھے ہوتے ہیں کہ جو اِن چالاک اور ہوشیار آدمیوں کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور ان سے کاروبار کا ایسا معاہدہ کر لیتے ہیں جو آخر کار سراسر نقصان پہ منتج ہوتا ہے۔ اور سارا سرمایہ بھی ان لوگوں کا ہوتا ہے اور کام کی ساری ذمہ واری بھی ان لوگوں کی ہوتی ہے۔ اور اس دوسرے شخص کو گھر بیٹھے صرف منافع مل رہا ہوتا ہے ایسے ہوشیار لوگوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہئے کہ لوگوں کو اس طرح بیوقوف نہ بنایا کریں، اگر کوئی باتوں میں آ کے بیوقوف بن گیا ہے یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہے جو دیکھ رہی ہے۔ اس کوتو خبر ہے تمہارے دل میں کیا ہے تو کبھی بھی ایسے تقویٰ سے عاری معاہدے نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ جب بھی تم نے ایسا معاہدہ کیا تو ایسا معاہدہ کرنے والا جس نے کسی ایسے شخص کا جس کو پوری طرح تجربہ نہیں ہے رقم دلوائی اور ضائع کروائی اس نے بہرحال عدل و انصاف کا خون کیا۔ اور بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا یہ پیسہ بھی لوٹ لیتے ہیں اور اس کے بعدجب ان لوگوں کو سمجھایا جائے کہ یہ تم نے غلط کام کیا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے ایسے معاہدے بھی نہیں ہونے چاہئیں تقویٰ کو مدنظر رکھ کر ایسے معاہدے کیا کرو تو جواب ان کا یہ ہوتا ہے کہ دیکھو جی! اس نے اپنی خوشی سے دستخط کئے تھے ہم نے کون سا اس پر پستول رکھ کر اس سے منوایا تھا۔ یہ بہت قابل شرم حرکت ہے، ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن جو دوسرے لوگ اس طرح کی بے وقوفی میں پیسہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں ان کو بھی اپنا سرمایہ سوچ سمجھ کر لگانا چاہئے۔ مشورہ کرکے، دعا کرکے، سمجھ کے، کچھ فائدہ بھی ہو گا کہ نہیں بلاوجہ بیوقوف نہیں بن جانا چاہئے مومن کو کچھ تو فراست دکھانی چاہئے۔

بعض لوگ قرض لے لیتے ہیں اور واپسی کے وقت بہانے بنا رہے ہوتے ہیں۔ ان کو بھی خوف خدا کرنا چاہئے۔ ایک حدیث میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی حدرَد الاسلمی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہو گئی، اس یہودی نے آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمے میرے چار درہم ہیں اور یہ مجھے ادا نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ سے کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو، عبداللہ نے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ آپؐ نے دوبار ہ فرمایا اس کا حق اسے لوٹا دو، عبداللہ نے پھر وہی عذر کیا اور کہا کہ میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ آپؐ ہمیں خیبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے اور واپس آ کر میں اس کا قرض چکا دوں گا، آپؐ نے فرمایا ابھی اس کا حق ادا کرو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی بات تین دفعہ فرما دیتے تھے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھا جاتا تھا، چنانچہ حضرت عبداللہ اسی وقت بازار گئے، انہوں نے ایک چادر بطور تہہ بند کے باندھ رکھی تھی۔ سر کا کپڑا اتار کر تہہ بند کی جگہ باندھ لیا اور چادر چار درہم میں بیچ کر قرض ادا کر دیا۔ اتنے میں ایک بڑھیا وہاں سے گزری، کہنے لگی اے رسول اللہ کے صحابی یہ آپ کو کیا ہوا ہے، عبداللہ نے سارا قصہ ان کو سنایا اس نے اسی وقت جو اپنی چادر جوڑ رکھی تھی ان کو دے دی۔ اور یوں ان کا قرض بھی اتر گیا اور ان کی چادر بھی ان کو مل گئی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۴۲۳۔ مطبوعہ بیروت)

اس صحابی کی دیکھیں قرض ادا کرنے کی حالت بھی نہیں تھی۔ اس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا چاہے اپنے تن کے کپڑے بھی بیچ کر قرض ادا کرو قرض بہرحال ادا کرنا ہے۔ تبھی حق اور انصاف قائم ہو سکتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عدل کی حالت یہ ہے کہ جو متقی کی حالت نفس امارہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لئے عدل کا حکم ہے، اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کسی طرح سے اسے دبا لوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزر جائے اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بے باک ہو گا کہ اب تو قانونی طور پر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہو سکتا، مگر یہ ٹھیک نہیں۔ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب اد اکیا جاوے، یعنی اس کا قرض واپس ادا کیا جائے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جائے، فرمایا مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پرواہ نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں بہت کم توجہ کرتے ہیں، یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے یعنی جنازہ نہ پڑھتے تھے، پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہئے کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے۔ (ملفوظات جلد ۴صفحہ ۶۰۷۔ الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۶)

ایک حدیث ہے، حضرت زھیر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، انصاف کرنے والے خدائے رحمن کے داہنے ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے۔ (اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ ہی داہنے شمار ہوں گے)۔ تو یہ لوگ اپنے فیصلے اور اپنے اہل و عیال میں اور جس کے بھی وہ نگران بنائے جاتے ہیں عدل کرتے ہیں۔ (مسلم کتاب الامارۃباب فضیلۃ الامیر العادل وعقوبۃ …)۔

یہاں میں اب گھر کی مثال لیتا ہوں، ہر شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اس کا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھے، مرد قوام بنایا گیا ہے، گھر کے اخراجات پورے کرنا، بچوں کی تعلیم کا خیال رکھنا، ان کی تمام تعلیمی ضروریات اور اخراجات پورے کرنا، یہ سب مرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت میں بھی بعض مرد ایسے ہیں جو گھر کے اخراجات مہیا کرنے تو ایک طرف، الٹا بیویوں سے اپنے لئے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے خرچ پورے کرو، حالانکہ بیوی کی کمائی پر ان کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر بیوی بعض اخراجات پورے کر دیتی ہے تو یہ اس کا مردوں پر احسان ہے۔ تو مردوں کو اس حدیث کے مطابق ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے حصہ پانا ہے، اللہ تعالیٰ کے نور کے حقدار بننا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ بچوں کی تربیت کا حق ادا کرنا ہو گا، ان میں دلچسپی لینی ہو گی، ان کو معاشرے کا ایک قابل قدر حصہ بنانا ہو گا۔ اگر نہیں تو پھر ظلم کر رہے ہو گے۔ انصاف والی تو کوئی چیز تمہارے اندر نہیں۔ بعض لوگ یہاں انگلستان، جرمنی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، معاشرے میں، دوستوں میں بلکہ جماعت کے عہدیداروں کی نظر میں بھی بظاہر بڑے مخلص اور نیک بنے ہوتے ہیں۔ لیکن بیوی بچوں کو پاکستان میں چھوڑا ہوا ہے اور علم ہی نہیں کہ ان بیچاروں کا کس طرح گزارا ہو رہا ہے، یا بعض لوگوں نے یہاں بھی اپنی فیملیوں کو چھوڑا ہوا ہے۔ کچھ علم نہیں ہے کہ وہ فیملیاں کس طرح گزارا کر رہی ہیں۔ جب پوچھو تو کہہ دیتے ہیں کہ بیوی زبان دراز تھی یا فلاں برائی تھی اور فلاں برائی تھی تو اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسے لوگوں کی بات ٹھیک ہے۔ توپھر انصاف اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک وہ تمہاری طرف منسوب ہے اس کی ضروریات پوری کرنا تمہارا کام ہے۔ بچوں کی ضروریات تو ہر صورت میں مرد کا ہی کام ہے کہ پوری کرے۔ بیوی کو سزا دے رہے ہو تو بچوں کو کس چیز کی سزا ہے کہ وہ بھی در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ ایسے مردوں کو خوف خدا کرنا چاہئے۔ احمدی ہونے کے بعدیہ باتیں زیب نہیں دیتیں۔ اور نہ ہی نظام جماعت کے علم میں آنے کے بعد ایسی حرکتیں قابل برداشت ہو سکتی ہیں یہ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ ہمیں بہرحال اس تعلیم پر عمل کرناہو گا جو اسلام نے ہمیں دی اور اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نکھار کر وضاحت سے ہمارے سامنے پیش کی۔

ایک حدیث ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سے سب سے بہتر اخلاق کا مالک ہے۔ اور تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والے ہیں۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)

پھر ایک اور روایت میں آتا ہے سلیمان بن عمرو بن احوص اپنے والد عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے ایک لمبی روایت کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا اس میں کچھ حصہ جو عورتوں سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ:’’سنو! تمہارا تمہاری بیوی پر ایک حق ہے، اسی طرح تمہاری بیوی کا بھی تم پر ایک حق ہے تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر ان لوگوں کو نہ بٹھائیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو اور نہ وہ ان لوگوں کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں جن کو تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہاری بیویوں کا تم پر یہ حق ہے کہ تم ان سے ان کے کھانے کے معاملے میں اور ان کے لباس کے معاملے میں احسان کا معاملہ کرو‘‘۔ (ترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی حق المرأۃ علی زوجھا)

اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ گھر کے ماحول کو انصاف اور عدل کے مطابق چلانا ہے تو میاں اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہو گا ان کے حقوق کی حفاظت کرنی ہو گی، عورتوں کو کس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے گھروں میں آنے والیاں عورتوں کی سہیلیاں ہی ہوتی ہیں ایسی نہ ہوں جن کو خاوند گھروں میں آنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دوستیاں بھی ان سے ناجائز یا جائز نہ بنائیں، اگر خاوند پسند نہیں کرتا کہ گھروں میں یہ لوگ آئیں تو نہ آئیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض گھروں کے معاملے میں خاوند کو علم ہو اس کی وجہ سے وہ پسند نہ کرتا ہو کہ ایسے لو گ گھروں میں آئیں۔ یہ باتیں ایسی ہی ہیں کہ خاوند کی خوشی اور رضا مندی کی خاطر عورتوں کو برا ماننا بھی نہیں چاہئے اور جو خاوند کہتے ہیں مان لینا چاہئے۔ اس حدیث میں دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ خاوندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اہل و عیال کا جو حق ہے وہ ادا کریں، گھر کے اخراجات اور ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھیں۔ اس کی وضاحت تو میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام(مردوں کے لئے) فرماتے ہیں :دل دکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں جب والدین ان کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا امیدیں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں اور جن کا اندازہ انسان {عَاشِرُوْاھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} کے حکم سے ہی کر سکتا ہے۔ (البدر جلد ۳ صفحہ۲۶؍جولائی ۱۹۰۴ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد ۲ صفحہ ۲۱۶)

پھر اولاد سے بھی بعض لوگ بے انصافی کر جاتے ہیں۔ بعض کو بے جالاڈ سے بگاڑ دیتے ہیں اور بعض پر ضرورت سے زیادہ سختی کرکے بگاڑ دیتے ہیں تو پھر ایسے بچے بڑے ہو کر بعض دفعہ اپنے باپوں سے بھی نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو دور کرنے کے لئے اور انصاف قائم کرنے کے لئے بڑی باریکی سے خیال رکھتے ہوئے ہمیں تعلیم دی ہے۔

حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں ان کے اباّ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا میں نے اس بچے کو ایک غلام تحفہ دیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا تحفہ دیا ہے۔ میرے ابا نے عرض کیا نہیں حضور، آپؐ نے فرمایا یہ تحفہ واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد سے انصاف اور مساوات کا سلوک کرو۔ اس پر میرے والد نے وہ تحفہ واپس لے لیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضور ؐ نے فرمایا مجھے اس ہبہ کا گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم کا گواہ نہیں بن سکتا۔ (بخاری کتاب الھبۃ باب الھبۃ للولد …)

پھر نظام جماعت ہے۔ جماعت میں بھی بعض معاملات میں عہدیداران کو فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ ان کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں۔ پھر قضاء کا نظام ہے۔ ان کے پاس فیصلے کے لئے معاملات آتے ہیں۔ ان کو بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے دعا کرکے، گہرائی میں جا کر، ہر چیزکو غور سے دیکھ کر پھر فیصلہ کریں تاکہ کبھی کسی کو شکوہ نہ ہو کہ عدل و انصاف کے فیصلے نہیں ہوتے۔ بعض دفعہ قضا میں صلح وصفائی کی کوشش کے لئے معاملہ لمبا ہو جاتا ہے جس سے کسی فریق کو یہ شکوہ پیدا ہو جاتا ہے کہ قضا فیصلے نہیں کر رہی۔ ان فریقین کو بھی صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہئے۔ بہرحال عہدیداران اور قضا کو انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنا چاہئیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دن تک کہ جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر عضو کے لئے صدقے دینا چاہئے۔ اور جو شخص لوگوں میں عدل سے فیصلے کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ (بخاری کتاب الصلح باب فضل الاصلاح بین الناس والعدل بینھم)

یعنی جن لوگوں کو اس کام پر مقرر کیا گیاہے جو فیصلے کریں اگر وہ عدل و انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے تو یہ بھی ان کی طرف سے ایک صدقہ ہے تو جہاں یہ دل کی تسلی کی بات ہے کہ ان کی طرف سے صدقہ شمار ہو گا وہاں فکر انگیز بھی ہے، فکر ڈالنے والی بات بھی ہے کہ کہیں غلط فیصلوں کی سزا نہ ہو جائے کہیں پوچھ گچھ نہ ہو جائے۔

ایک اور روایت ہے عبداللہ بن موہب روایت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو قاضی بنا کر بھیجتے ہوئے کہا، جاؤ لوگوں میں ان کے معاملات کے فیصلے کرو۔ انہوں نے کہا اے امیرالمومنین کیا آپ مجھے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے معاف نہیں رکھ سکتے اس پر حضرت عثمان ؓ نے کہا تم قضا کے عہدے کو ناپسند کیوں کرتے ہو جبکہ آپ کے والد فیصلے کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مَنْ کَانَ قَاضِیًا فَقَضَا بِالْعَدْلِ یعنی جو قضا کے عہدے پر فائز ہو۔ اسے چاہئے عدل کے ساتھ فیصلے کرے اور مناسب یہ ہے کہ اس عہدے سے اس طرح نکلے کہ اس پر کوئی الزام نہ ہو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو سننے کے بعد میں اس عہدے کی خواہش نہیں رکھتا۔ (ترمذی کتاب الاحکام باب ما جاء عن رسول اللہﷺ فی القاضی)

ان کو اللہ کا خوف تھا کہیں ایسا فیصلہ نہ ہو جائے کہ جس پہ الزام ہو۔ پھر ایک روایت ہے۔ حسن روایت کرتے ہیں کہ عبیداللہ بن زیاد، معقل بن یسار کی مرض الموت میں ان کی عیادت کو گئے انہوں نے کہا میں تمہیں ایسی حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں ابھی زندہ رہوں گا تو میں یہ حدیث تمہیں نہ سناتا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کوئی بندہ جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کی دیکھ بھال فرض کی ہو اگر وہ اس حال میں مرتاہے کہ اس نے اپنی رعیت کی نگہبانی کرنے میں عدل سے کام نہ لیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ (سنن الدارمی کتاب الرقائق باب فی العدل بین الرعیۃ)

تو اس زمانے میں ہم احمدیوں پر عدل اور انصاف کو قائم رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ہم اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچانا اور اس کی بیعت میں شامل ہوئے۔ وہ امام جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم اور عدل کہا ہے جہاں وہ امام ان خصوصیات کا حامل ہو گا وہاں اس کے ماننے والوں سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ عدل کے اعلیٰ معیار قائم کر یں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن مریم حکم اور عدل بن کر ضرور نازل ہو گا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۴۔ بیروت)۔ جو حضرت مسیح موعود ؑ کے آنے کی پیشگوئی ہے۔

پھر ایک روایت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا اگر دنیا کی زندگی کا ایک دن بھی باقی ہو گا تو اللہ تعالیٰ ضرور میرے اہل بیت سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو دنیا کو عدل سے بھر دے گا جس طرح کہ وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہو گی۔ (ابوداؤد کتاب الفتن اول کتاب المہدی)

یعنی امام مہدی کا آنا بہرحال ضروری ہے اور قیامت سے پہلے اس نے آنا ہے چاہے قیامت کو ایک دن بھی رہ جائے تووہ مبعوث ہو گا اس کے بعد یہ سب کچھ ہو گا۔ ہم لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے امام مہدی کو دیکھا، پہچانا اور اس کی جماعت میں شامل ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب دور مسیح موعود آ گیا ہے۔ اب بہرحال خدا تعالیٰ آسمان سے ایسے اسباب پیدا کر دے گا جیسا کہ زمین ظلم اور ناحق خونریزی سے پُر تھی اب عدل، امن اور صلح کاری سے پُر ہو جائے گی اور مبارک وہ امیر اور بادشاہ ہیں جو اس سے کچھ حصہ لیں۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۹)

پھر آپؑ فرماتے ہیں خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اس کی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی فرائض سے زیادہ اور ایسے اخلاق سے خدا کی بندگی کرو گویا تم اس کو دیکھتے ہو اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت اور سلوک کرو اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو ایسے بے علت اور بے غرض خدا کی عبادت اور خلق اللہ کی خدمت بجا لاؤ کہ جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔ (شحنۂ حق۔ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۶۱، ۳۶۲)

ایک اور جگہ فرمایا جس طرح ماں اپنے بچے کے ساتھ کرتی ہے اس طرح کرو۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں غرض نوع انسان پر شفقت سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے مگر میں دیکھتا ہوں اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے ان پر ٹھٹھے کئے جاتے ہیں ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت او رمشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے جو لوگ غرباء کے ساتھ بہت اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے ان کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں اور اس خداداد فضل پر تکبر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کچل نہ ڈالیں۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۳۸، ۴۳۹۔ الحکم ۱۰؍ نوبمر ۱۹۰۵ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اس دنیامیں امن، صلح اور عدل کی فضا پید اکرنے والے ہوں، قائم کرنے والے ہوں اور اس لحاظ سے اپنی نسلوں کی تربیت کرنے والے بھی ہوں کیونکہ آئندہ دنیا کے جو حالات ہونے ہیں اس میں احمدی کا کردار ایک بہت اہم کردار ہو گا جو اس کو ادا کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 5؍ مارچ 2004ء شہ سرخیاں

    ٭…حق وانصاف اور سچی گواہی کے بارہ میں قرآنی تعلیم کاحسین اور بے مثل بیان

    ٭…عائلی زندگیوں میں مردوں کی ذمہ داریاں اور ان کی ادائیگی کاحکم

    ٭…بیرون ملک آکربسنے والے ایسے افرادجوپیچھے اپنے خاندانوں کے حقوق سے غافل ہیں

    ٭…گھرکاماحول اور میاں بیوی کی ذمہ داریاں

    ٭…اس زمانے میں ہم احمدیوں پرعدل وانصاف کوقائم رکھنے کی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے

    ۵؍مارچ ۲۰۰۴ء بمطابق۵؍امان ۱۳۸۳ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور