اسلام سلامتی کا پیغام ہے۔ ہر احمدی کو اس کو دنیا میں پھیلانا چاہئے

خطبہ جمعہ 3؍ ستمبر 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشھدوتعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

{یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ حَتّٰی تَسۡتَاۡنِسُوۡا وَ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ۔فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فِیۡہَاۤ اَحَدًا فَلَا تَدۡخُلُوۡہَا حَتّٰی یُؤۡذَنَ لَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ قِیۡلَ لَکُمُ ارۡجِعُوۡا فَارۡجِعُوۡا ہُوَ اَزۡکٰی لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ}(سورۃ النور آیت29-28)

اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیج لو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں اس کی اجازت دی جائے۔ اور اگر تمہیں کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جایا کرو۔ تمہارے لئے یہ بہت زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو خوب جانتا ہے۔

ہر معاشرے میں ملنے جلنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اچھی طرح ملنے والے کو اچھے اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے، اچھے اخلاق والے جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چہرے پر شگفتگی اور مسکراہٹ لاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نہ پہچانتے ہوں تب بھی چہرے پر نرمی ہوتی ہے۔ اور جو اچھی طرح سے نہ ملے عموماً اس کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ بڑا بداخلاق ہے، کسی کام کے سلسلے میں اس کو ملنے گیا اور بڑی بداخلاقی سے پیش آیا، بڑے بیہودہ اخلاق کا مالک ہے، کام نہیں کرنا تھا نہ کرتا لیکن کم از کم مل تو اخلاق سے لیتا وغیرہ، اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ تو اس طرح کی باتیں، اچھے اخلاق سے نہ پیش آنے والے کے بارے میں دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا۔ پھر مختلف معاشروں کے ایک دوسرے سے ملتے وقت مختلف حرکات کے ذریعے سے اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ کوئی سر جھکا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی رکوع کی پوزیشن میں جا کے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی دونوں ہاتھ جوڑ کر، اپنے چہرے تک لے جا کر ملنے کی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر حال احوال پوچھ کے لوگ مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اسلام نے جو ہمیں طریق سکھایا ہے، جو مومنین کی جماعت کو، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر رائج کرنا چاہئے وہ ہے کہ سلام کرو۔ یعنی ایک دوسرے پر سلامتی کی دعا بھیجو اور پھر یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ سلامتی کی دعا کس طرح بھیجو اور پھر دوسرا بھی جس کو سلام کیا جائے، اسی طرح کم از کم انہیں الفاظ میں جواب دے۔ بلکہ اگر بہتر الفاظ میں گنجائش ہو جواب دینے کی تو بہتر جواب دے۔ اس طرح جب تم ایک دوسرے کو سلام بھیجو گے تو ایک د وسرے کے لئے کیونکہ نیک جذبات سے دعا کر رہے ہو گے اس لئے محبت اور پیار کی فضا بھی تمہارے اندر پید اہو گی۔

پھر یہ بھی بتایا کہ اسلامی معاشرہ کیونکہ امن اور سلامتی پھیلانے والا معاشرہ ہے اس لئے یہ بھی خیال رکھو کہ جب تم کسی کے گھر ملنے جاؤ تو مختلف اوقات میں انسا ن کی مختلف حالتیں ہوتی ہیں، طبیعتوں کی مختلف کیفیت ہوتی ہے اس لئے جب کسی کے گھر ملنے جاؤ اور گھر والا بعض مجبوریوں کی وجہ سے تمہارے سلام کا جواب نہ دے یا تمہاری توقعات کے مطابق تمہارے ساتھ پیش نہ آئے تو ناراض نہ ہو جایا کرو۔ زود رنجی کا اظہار نہ کیا کرو بلکہ حوصلہ دکھاتے ہوئے، خاموشی سے واپس آ جایا کرو۔ اور اگر اس طرح عمل کرو گے تو ہر طرف سلامتی بکھیرنے والے اور پر امن معاشرہ قائم کرنے والے ہو گے۔

یہ جو دو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، آپ نے ان کا ترجمہ بھی سن لیا۔ اس میں اسلام کے حسین معاشرے کو قائم کرنے اور آپس کے تعلقات کو ہمیشہ بہترین رکھنے کے لئے چند بڑی خوبصورت نصائح فرمائی گئی ہیں۔ پہلی بات تو یہ بیان فرمائی کہ تمہارا دائرہ عمل صرف تمہارا اپنا گھر ہے۔ تم اگر آزادی سے داخل ہو سکتے ہو تو اپنے گھروں میں۔ کسی دوسرے کے گھر میں منہ اٹھا کے نہ چلے جایا کرو۔ اس سے تم بہت سی قباحتوں سے بچ جاؤ گے۔

اگر کسی کے پاس ملاقات کے لئے یا کام کے لئے جانا ہے تو پہلے گھر والوں سے اجازت لو اور اجازت لینے کے بہت سے فوائد ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو لکھا ہے کہ بغیر اجازت کسی کے گھر جانے سے ہو سکتا ہے کہ تمہارے پر کوئی اخلاقی الزام لگ جائے، کوئی چوری کا الزام لگ جائے۔ اس لئے اجازت کو اَنا کا مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری اپنی بھی اسی میں بچت ہے اور گھر والوں سے جو تمہارے تعلقات ہیں ان میں بھی اس میں فائدہ ہے کہ اجازت لے لو۔

پھر بہت ضروری چیز، بہت اہم بات یہ ہے کہ اجازت لینے کا طریق کیاہے۔ فرمایا کہ اجازت لینی کس طرح ہے۔ وہ اس طرح لینی ہے کہ سلام کہہ کر اجازت لو، اونچی آواز میں سلام کہو۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے، کسی شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے اپنے ملازم کو کہا کہ جاؤ اس کو جا کر اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ۔ جو یہ ہے کہ پہلے سلام کرو پھر اندر آنے کی اجازت لو۔ کیونکہ یہی ایک طریق ہے جس سے تم اپنے آپ کو بھی پاک کر رہے ہوتے ہو اور گھر والوں کو بھی سلامتی بھیج رہے ہوتے ہو۔ سلامتی کا یہ پیغام بھیجنے سے یہ احساس بھی رہتا ہے کہ میں نے سلامتی کا پیغام بھیجا ہے اب ان گھر والوں کے لئے میں نے امن کا پیامبر بن کر ہی رہنا ہے ان سے بہتر تعلقات ہی رکھنے ہیں۔ اور پھر گھر والے بھی جو جواب میں سلامتی کا جواب ہی دیتے ہیں تو پھر اس طرح سے دونوں طرف سے محبت کے جذبات کی فضا پیدا ہوتی ہے۔

گھر میں سلام کہہ کر داخل ہونے کی اجازت کے بارے میں ایک اور روایت میں یوں آتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے قرض کے معاملہ میں حاضر ہوا۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپؐ نے فرمایا :کون؟ میں نے کہا میں ہوں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیامَیں مَیں لگا رکھی ہے۔ گویا کہ آپؐ نے یہ بات پسند نہیں فرمائی کہ بغیر سلام کے اپنا تعارف کروایا جائے۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب اذا قال من ذا)۔ یہ بات آپؐ کو سخت ناپسند تھی کہ کوئی مسلمان ہو اور سلام کو رواج نہ دے اور یونہی گنواروں کی طرح گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔

اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا بھی بڑا واضح حکم ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ {فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً}(النور:62)۔ یعنی جب تم گھروں میں داخل ہو تو پہلے اپنے آپ کو سلام کر لیا کرو۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں یعنی اپنے رشتے داروں اور دوستوں کوسلام کہو جو ان مکانوں میں رہتے ہیں اور یاد رکھو کہ یہ سلام تمہارے منہ کا سلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بہت بڑا تحفہ ہے۔ یعنی سلام کا لفظ بظاہر تو بہت معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن ہے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کرنے والا۔ کیونکہ سلام کے لفظ کے پیچھے خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا وعدہ ہے۔ پس جب تم کسی بھائی کو سلام کہتے ہو تو تم نہیں کہتے بلکہ خداتعالیٰ کی دعا اسے پہنچاتے ہو۔ فرمایا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ عموماً ہمارے ملک میں لوگ اپنے گھروں میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم نہیں کہتے۔ گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کے لئے تو یہ دعا ہے لیکن اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لئے نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی وہ اپنے گھروں میں جائیں السلام علیکم کہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو مخاطب کرکے فرمایا اے میرے بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے ہاں جاؤ تو سلام کہا کرو۔ یہ تمہارے اور تمہارے اہل خانہ کے لئے خیر و برکت کا موجب ہو گا۔

یہاں یہ بات مزید واضح ہوگئی کہ اپنے گھر میں بھی داخل ہو تو سلام کہا کرو کیونکہ سلامتی کا پیغام تو ہر وقت بکھیرتے رہنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ جب تم جنت میں جاؤ گے تو وہاں کیونکہ صحیح معنوں میں اس سلامتی کے کلمہ کا ادراک ہو گا، صحیح معنے پتہ ہوں گے اس لئے اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے بعد دوسری اہم بات جو تم کرو گے وہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنا ہی ہو گا۔ اس لئے یہاں بھی اگر جنت نظیر معاشرہ قائم کرنا ہے تو ایک دوسرے پر سلام بھیجو۔

تو سلام کی عادت ڈالنے کے لئے جیسا کہ اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں بھی اپنے بچوں کو سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ یہ تو ٹریننگ کا ایک مستقل حصہ ہے، بچے کو سمجھاتے رہیں کہ وہ سلام کرنے کی عادت ڈالے، گھر سے جب بھی باہر جائے سلام کرکے جائے اور گھر میں جب داخل ہو تو سلام کرکے داخل ہو۔ پھر بچوں کو اس کا مطلب بھی سمجھائیں کہ کیوں سلام کیا جاتا ہے تو بہرحال بچوں، بڑوں سب کو سلام کہنے کی عادت ہونی چاہئے۔

بعض دفعہ بے تکلف دوستوں اور بے تکلف عزیزوں کے گھروں میں لوگ بے دھڑک چلے جاتے ہیں۔ یہاں یورپ میں تو اکثر گھروں میں باہر کے دروازوں کو کیونکہ تالا لگا ہوتا ہے یا اس طرح کا لاک(Lock)ہوتا ہے جو خود بخود بند ہو جاتا ہے یا باہر سے کھل نہیں سکتا اس لئے اس طرح جا نہیں سکتے` اور جن گھروں میں اس طرح کا نظام نہیں ہے یا اگر یہ نہ ہو اور گھر کھلے ہوں تو شاید ان گھروں میں گھسنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے `لیکن پاکستان ہندوستان وغیرہ میں بلکہ تمام تیسری دنیا جو کہلاتی ہے ان ملکوں میں یہی طریق ہے اور جب روکو کہ اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو پھر برا مناتے ہیں۔ یہ حکم عورتوں کے لئے بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ مردوں کے لئے ہے۔ عورتوں میں بھی وہی قباحتیں پیدا ہو سکتی ہیں جس طرح مردوں میں پیدا ہو سکتی ہیں بلکہ بعض حالات میں عورتوں کے لئے زیادہ قباحتیں پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ اس لئے سلام کرکے، اعلان کرکے، اجازت لے کر گھر کے جس فرد کے پاس بھی آئی ہوں وہاں جائیں تاکہ تمام گھر والوں کو بھی پتہ ہو کہ فلاں اس وقت ہمارے گھر میں موجود ہے۔ پھر پردہ دار عورت کے لئے اور بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے جہاں وہ گھر میں موجود ہو گی وہاں مرد آسانی سے آ جا نہیں سکیں گے یا آنے میں احتیاط کریں گے۔ پردہ کروا کر آئیں گے۔ تو اس طرح اور بھی بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں صرف سلام کہنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ گھر میں کوئی نہ ہو تو یہ نہیں کہ گھر یا کمرہ کھلا دیکھ کر وہاں جا کے بیٹھ جاؤ بلکہ اگر گھر میں کوئی نہیں تو تین دفعہ سلام کہو اور جب تین دفعہ سلام کہہ دیا اور کسی نے نہیں سنا تو واپس چلے جاؤ۔ اور پھر یہ کہ گھر میں اجازت ملے تو داخل ہونا ہے۔ اگر تم نے تین دفعہ سلام کیا اور اجازت نہیں ملی یا گھر میں کوئی نہیں ہے یا گھر والا پسند نہیں کرتا کہ تم اس وقت اس کے گھر آؤ تو واپس چلے جاؤ۔ اگر کوئی گھر والا موجود ہو اور کھل کر یہ کہہ بھی دے کہ اس وقت مجبوری کی وجہ سے میں مل نہیں سکتا تو پھر برا نہ مناؤ بلکہ جو کہا گیا ہے وہ کرو۔ اور وہ یہی کہا گیا ہے کہ واپس چلے جاؤ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ واپس چلے جاؤ۔ سلام تو اس لئے پھیلا رہے ہو کہ سلامتی کا پیغام پھیلے امن کا پیغام پھیلے، آپس میں محبت اور اخوت قائم ہو، تمہارے اندر پاکیزگی قائم ہو تو پھر اگر کوئی گھر والا معذرت کر دے یا ملنا نہ چاہے تو اس کے باوجود ملنے والا برا نہ منائے۔ اور گھر والے کی بات مان لے۔ تو یہ ہے اسلامی معاشرہ جو سلام کو رواج دے کر قائم ہو گا۔

ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تین دفعہ اجازت مانگ لے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ واپس لوٹ جائے۔ (بخاری کتاب الاستئذان۔ باب التسلیم والاستئذان ثلاثا)

یہاں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اتنی دور سے آئے ہوتے ہو گھر والے نے تمہیں واپس لوٹا دیا تو اس نے غلط کیا، کم از کم ایک دو منٹ بٹھا کر پانی ہی پوچھ لیتا۔ بلکہ یہاں آنے والے کو کہا ہے کہ اگر گھر والا اجازت نہ دے تو واپس چلے جاؤ۔ ٹھیک ہے اور جگہوں پر مہمان نوازی کا بھی حکم ہے۔ لیکن یہاں تمہیں یہی حکم ہے کہ گھر والا گھر کا مالک ہے۔ تمہیں اگر اندر آنے کی اجازت نہیں دیتا تو واپس چلے جاؤ۔ لیکن پاکیزگی یہی ہے کہ واپس ناراضگی سے نہیں جانا، برا نہیں منانابلکہ دل میں بلاکسی رنجش لانے کے اس پر عمل کرنا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے اور اس سے ہمارے اندر محبت و اخوت پیدا ہو گی۔ دل میں کسی قسم کے بدلے کا خیال نہیں لانا کہ میں بھی جب مجھے موقع ملے اسی طرح کروں گا۔ اس طرح تو بجائے امن کے فساد پھیلانے والے ہوں گے۔ پھر یہ ہے کہ آجکل چونکہ گھروں میں گھنٹی لگی ہوتی ہے، گھنٹیوں کا رواج ہے اس لئے لوگ سمجھتے ہیں کہ سلام کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ گھنٹی کے ساتھ بھی سلام کہا جاسکتا ہے۔ اسی میں برکت ہے اسی سے محبت بھی پیدا ہوتی ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم صاحب ایمان اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک باہم محبت نہ کرو۔ کیا میں تم کو ایک ایسا فعل نہ بتاؤں جو تم بجا لاؤ تو باہم محبت کرنے لگو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ یعنی آپس میں سلام کہنے کو رواج دو۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب بیان انہ لا یدخل الجنۃ الا المومنون…)

تو یہاں آپؐ نے فرمایا کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ ہر ایک کو پتہ ہے اور مومن کون ہے، ایمان لانے والا کون ہے۔ فرمایا کہ ایمان لانے والے وہ ہیں جو آپس میں محبت و پیار سے رہتے ہیں۔ ایک د وسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بیعت کر لی، الفاظ بیعت دوہرا دئیے تو مومن بن گئے۔ فرمایا کہ اگر تمہارے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا نہیں ہوتیں، اگر تم نے ایک دوسرے کے جذبات کا خیال نہیں رکھا، اگر تم تعلیم کے تمام حصوں پر پوری طرح عمل نہیں کر رہے تو ایمان میں بہت خلا باقی ہے۔ تم جماعت میں شامل تو ہو گئے لیکن جو انقلاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوا۔ مومن کی جو نشانیاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں وہ حاصل نہیں ہوئیں۔ جو اعلیٰ معیار حاصل کرنے تھے وہ ابھی حاصل کرنا باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن کمزوریوں کے ساتھ تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ اَسْلَمْنَا ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی۔ فرمایایہ کہنے کے بعد تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایمان لائے۔ آگے فرماتا ہے کہ {وَلَمَّا یَدْخُلِ الاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ} جہاں تک ایمان کا تعلق ہے وہ تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ ایمان تب داخل ہوا ہوا سمجھا جائے گا جب یہ اعلیٰ معیار قائم ہوں گے۔ اللہ کی بھی عبادت کرنے والے ہوگے، کوئی نماز بھی چھوڑنے والے نہیں ہو گے اور خدا کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہو گے اور آپس میں انتہائی محبت بھی پیدا کرنے والے ہو گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ سلام کو رواج دو اور سلام کو رواج دینے کا یہ مطلب ہے کہ جب منہ سے سلام کہو تو اس وقت تمہارے دل سے بھی تمہارے بھائی کے لئے دعائے خیر نکل رہی ہو۔

پھر اس بارے میں ایک اور روایت ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں میں عداوت اور حسد کی بیماری بھی پیدا ہو جائے گی جس سے دین کی برکات بھی جاتی رہیں گی اور تمہارے اندر سے دین بالکل نکل جائے گا۔ چنانچہ آجکل دیکھ لیں یہی مسلمانوں کا حال ہے۔ پس ہم احمدی مسلمان خوش قسمت ہیں کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آ کر ان بیماریوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر اصلاح نہ کی تو پھر بیعت سے ہی کاٹے جائیں گے۔ اللہ ہر ایک کو محفوظ رکھے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلی امتوں کی بیماری عداوت اور حسد تمہارے اندر بھی گھس آئے گی۔ عداوت تو جڑ سے کاٹ دینے والی شئے ہے۔ یہ بالوں کو نہیں کاٹتی بلکہ دین کو کاٹ دیتی ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جنت میں نہیں جا سکو گے جب تک مومن نہ بنو اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک تم میں باہم میل ملاپ اور محبت نہ ہو۔ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ یہ باہمی محبت تم میں کیوں کر پیدا ہو گی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپس میں السلام علیکم کو رواج دو۔ (الترغیب والترھیب بحوالہ بزار)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر یہ بھی بتایا کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے کے موقعے کس طرح پیدا کرنے ہیں۔ اور پھرکس طریق سے سلام کرنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ محبت بڑھے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت عمران بن حُصَیْن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو دس گنا ثواب ملا ہے۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا۔ حضورؐ نے سلام کا جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپؐ نے فرمایا اس کو بیس گنا ثواب ملا ہے۔ پھر ایک اور شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا۔ آپؐ نے انہیں الفاظ میں اس کو جواب دیا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو آپؐ نے فرمایا اس شخص کو تیس گنا ثواب ملا ہے۔ (ترمذی ابواب الاستئذان فی فضل السلام)

تو دیکھیں اپنے پیارے نبیؐ کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں محبت پیدا کرنے کے لئے کس باریکی میں جا کر طریقے سکھائے ہیں۔ ہر دعا جو السلام علیکم کے ساتھ شامل کرتے ہیں وہ سلام کرنے والے کے لئے دس گنا ثواب کا باعث بنتی ہے، دس گنا اضافے، کے ساتھ ثواب کا باعث بنتی ہے۔ اور جب یہ دعا ثواب میں اضافہ کر رہی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے کھاتے صرف اس لئے نہیں بنائے کہ اگلے جہان میں پہنچنے پر ہی دکھائے گا بلکہ وہ اس دنیا میں بھی ایسی دعائیں کرنے والوں کو، جو دل سے دوسروں کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں، مزید نیکیاں قائم کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ اور اس کے اُس بھائی کو بھی ان دعاؤں سے فیضیاب فرماتا ہے جو دعا کرنے والا اس کو دے رہا ہوتا ہے۔ اور پھر جواب میں ایک دوسرے کو دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر جب دوسرا بڑھا کر جواب دیتا ہے تو پھر اور زیادہ نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ بھی تو حکم ہے کہ جب کسی کو کوئی خیر لوٹاؤ تو بڑھا کر دو۔ اگر کسی کو کوئی چیز نیکیوں میں سے لوٹاؤ تو بڑھا کر لوٹاؤ۔ اگر ایک اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہتا ہے تو جواب والا وَرَحْمَۃُ اللّٰہ ساتھ لگا دیتا ہے یا بَرَکَاتُہٗ بھی ساتھ لگا دیتا ہے تو وہ اتنا ہی زیادہ ثواب کا مستحق ہو جاتا ہے اور دینے والا بھی اور جس کو مل رہی ہوں اس کو بھی زائد دعائیں مل رہی ہوتی ہیں۔ یہاں میں ضمناً حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اس سلسلہ میں ایک بات ذکر کر دوں۔ میں بھی بعض اوقات جان بوجھ کر اسی طرح کرتا ہوں۔ ان سے کسی نے سوال کیا تھا کہ زیادہ ثواب تو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہنے میں ہے۔ آپ صرف اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ کہتے ہیں تو آپ نے جواب دیا تھا کہ میں جان بوجھ کر ایسا کرتا ہوں تاکہ آپ زیادہ بہترطو رپر لوٹا سکیں کیونکہ احسن رنگ میں لوٹانے کا بھی تو حکم ہے۔

مجھے کسی بچی نے سوال کیا اس سفر کے دوران بھی کہ آپ کو سب دعا کے لئے کہتے ہیں آپ کسی کو نہیں کہتے۔ تو میں نے اس کو کہا تھا کہ میں تو پہلے دن سے آج تک دعا کے لئے کہتا چلا آ رہا ہوں۔ ہاں ہر ملنے والے کو انفرادی طور پر نہیں کہتا۔ بعضوں کو کہہ بھی دیتا ہوں اور خطوں میں بھی لکھتا ہوں لیکن اجتماعی طور پر عموماً میں دعا کے لئے کہتا رہتا ہوں اور اجتماعی دعائیں لینے کی کوشش کرتا ہوں۔ مسجد میں بھی سلام کرتے وقت، اجتماعوں وغیرہ میں بھی۔ اس سے ایک تو جو میں نے کہا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا طریق کار تھا اور میں بھی بعض دفعہ کرتا ہوں، جیسا کہ آپ نے جواب دیا تھا کہ اس لئے مختصر سلام کرتے ہیں کہ جواب دینے والے کو زیادہ ثواب ہو۔ ایک تو یہ ہے کہ اس کو ثواب مل جائے کہ وہ بڑھا کر لوٹائے تو وہ جو بڑھا کر لوٹا رہا ہوتا ہے اس میں سے بھی تو دعاؤں کا حصہ مل رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ مجھے تو سب سے زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جتنی زیادہ دعاؤں سے آپ میری مدد کر رہے ہوں گے اتنی زیادہ جماعت میں مضبوطی آتی چلی جائے گی اور اتنی زیادہ آپس کی محبت بڑھتی چلی جائے گی۔ بہرحال یہ ضمناً بات آگئی تھی۔ اصولی طور پر یہ نہیں ہے کہ سلام کرنے والا آدھا سلام کرے یا مختصر الفاظ میں کرے اور جواب دینے والا ضرور پورا جواب دے۔ دونوں طرف سے جتنی زیادہ دعائیں دی جائیں اتنا زیادہ بہتر ہے۔ میں بعض اوقات پورا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ بھی کہتا ہوں۔ اور جس طرح حدیث میں ہے کہ اس کو رواج دینا چاہئے۔ ہر کوئی کیونکہ اس طرح سوچ کر نہ تو سلام کر رہا ہوتا ہے اور نہ جواب دینے والا سوچ کر جواب دیتا ہے اس لئے انفرادی طور پر یا ویسے بھی عام طور پر جو لوگ ملیں تو زیادہ ثواب اسی میں ہے جتنے زیادہ الفاظ سلامتی کے، دعا کے دوہرائیں گے۔ یہ وضاحت میں نے اس لئے تفصیل سے دے دی ہے کہ بعض لوگ ناسمجھی میں بعض باتوں میں پکے ہو جاتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی اگر کسی نے یہ بات سنی ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس بات پہ جان بوجھ کر قائم ہی ہو جائے کہ سلام صرف اتنا ہی فرض ہے کہ مختصر کیا جائے اور جواب دینے والا زیادہ جواب دے۔ کیونکہ بعض باتیں موقع محل کے حساب سے اور بعض لوگوں کے مقام کے لحاظ سے ہوتی ہیں، وہ اصول نہیں بن جایا کرتے۔ اصول وہی ہیں جو ہمیں ہمارے آقا و مطاع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں اور ہمیں تو جتنا زیادہ ثواب حاصل کر سکیں کرنا چاہئے۔ اور یہ لوٹانے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی بڑھا کر لوٹائے تاکہ اس کو بھی ثواب ملے اور جس کو وہ سلام کا جواب دے رہا ہے اس کو بھی ثواب ملے۔

پھر جن باتوں کے کرنے سے مومن جنت میں داخل ہو گا۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! سلام کو رواج دو، ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ۔ صلہ رحمی کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ اگر تم ایسا کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی ابو اب صفۃ القیمٰۃ)

اس حدیث میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان میں سے تین تو حقوق العباد سے تعلق رکھتی ہیں جو میں نے پہلے حدیث پڑھی تھی یہ اس کی مزید وضاحت ہے۔ یعنی سلام کے رواج سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوں گے اور نرم جذبات کے پیدا ہونے سے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ دوسرے یہ فرمایا کہ ضرورت مند کو کھانا کھلاؤ۔ لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھو۔ اگر کوئی ضرورت مندنہیں ملتا، یہاں بعض اوقات ان ملکوں میں کوئی ضرورت مند نہیں ملتا۔ تو جماعت میں صدقات کا نظام موجود ہے۔ یہاں سے دوسرے ملکوں میں بھی مدد کی جاتی ہے۔ بے انتہا غریبوں کی مدد کی جاتی ہے تم بھی اس میں داخل ہو جاؤ تو براہ راست سلام تو نہیں پہنچا رہے لیکن ان غریبوں کے لئے سلامتی کے سامان پیدا کر رہے ہو۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھ رہے ہو اور ان سے غائبانہ دعائیں بھی لے رہے ہو۔ یہ صرف محبت اور ہمدردی کے اس جذبے کے تحت کر رہے ہیں کہ ہمارے بھائی بند ہیں اور ضرورت مند ہیں۔ پھر فرمایا کہ صلہ رحمی کرو۔ اپنے رشتہ داروں کا، اپنے قریبیوں کا، اپنے عزیزوں کا ایک دوسرے کے سسرالی قریبیوں کا، عزیزوں کاخیال رکھو، کیونکہ ایک دوسرے کے سسرال کے جو رحمی رشتہ دار ہیں وہ بھی قریبی عزیز ہی ہیں۔ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاؤ۔ تکلیف صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی جسمانی تکلیف نہیں پہنچائی یا کھل کے گالم گلوچ نہیں کی بلکہ اگر خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے جذبات کا اور ایک دوسرے کے عزیزوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے تو وہ بھی سلامتی پھیلانے والے نہیں ہیں۔ سلامتی تو ایک دعا ہے اور دعائیں جذبات کو ٹھیس پہنچا کر نہیں دی جاتیں۔ فرمایا کہ یہ سب باتیں سلامتی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس لئے تم بھی ان باتوں کو کرکے سلامتی کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہو گے۔ اور پھر آخر میں حق اللہ کی طرف بھی توجہ دلا دی۔ کہ اللہ کا حق کیا ہے؟ بلکہ وہ بھی بندوں کی ضرورت ہی ہے کہ نمازیں بھی پڑھو، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، بلکہ تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ جب اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اس وقت تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھو گے تو پھر دل بھی صاف ہو گا۔ خدا کی خشیت بھی پیدا ہو گی اور جب خدا کی خشیت پیدا ہو گی تو اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور سلامتی کی دعا بھیجنے کی طرف اور توجہ پیدا ہو گی۔ اور نہ صرف اگلے جہان میں بلکہ اس جہان میں بھی تمہیں سلام بھیجنے کا فہم حاصل ہو رہا ہو گا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جن سے جان پہچان ہے صرف انہیں کو سلام کرنا چاہئے۔ مسلمان معاشرے میں تو ہر راہ چلتے کو سلام کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا۔ اسلام کا کون سا کام بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا غریبوں، مسکینوں کو کھانا کھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، چاہے تو اسے پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔ تو جیسا کہ میں نے کہا کہ مسلمان معاشرے میں سلام کو رواج دینا چاہئے۔

پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے، بہت بڑا جرم ہے۔ بہرحال ایک احمدی کے دل سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعائیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو یہ ان کا حال ہو رہا ہے۔ لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاں تو سلام کو رواج دیں۔ خاص طور پر ربوہ، قادیان میں۔ اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہئے۔ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوں کو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی۔ پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں۔ ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض اور دوسرے شہروں میں کسی دوسرے کو سلام کرکے پاکستان میں قانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں۔ احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے۔ اس لئے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور مولوی ہمارے اندر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی عموماً لوگ شریف ہیں جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ گونگی شرافت ہے۔ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اندر سے وہ بھی مولوی سے بڑے سخت تنگ ہیں۔ تھانیدار والا ہی حساب ہے کہ جب ایک دفعہ ایک احمدی پہ مقدمہ ہو گیا۔ سلام کہنے پر مولوی نے پرچہ درج کروایا۔ جب تھانیدار نے جرم دیکھا تو اس نے اس کو کہا کہ کیا اس نے تمہیں سلام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ جرم ہے اس نے کیوں مجھے سلام کیاہے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے اگر یہ جرم ہے اس احمدی کا تو وہ آئندہ سے تمہیں لعنت بھیجا کرے گا۔ احمدی لعنت کبھی نہیں بھیجتا۔ دوست ہو یا دشمن ہو احمدی نے تو ہمیشہ سلامتی کا نعرہ ہی لگانا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ایوب بن بشیر ؓ قبیلہ عَنْزَہ کے ایک شخص کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ اس شخص نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ملاقات آپ لوگوں سے مصافحہ کیا کرتے تھے؟ اس پر حضرت ابو ذرؓ نے بتایا کہ میں جب کبھی بھی حضورؐ سے ملا، مصافحہ کیا ہے۔ بلکہ ایک مرتبہ حضورؐ نے مجھے بلا بھیجا، میں اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ جب میں گھر آیا اور مجھے بتایا گیا تو میں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضورؐ اس وقت بستر پر تھے، حضورؐ نے مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا اور معانقہ کیا۔ اس خوش نصیبی کے کیا کہنے۔ (ابوداؤد کتاب الادب باب فی المعانقہ)

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا اور آپؐ سے گفتگو کرتا، آپؐ اس سے اپنا چہرہ مبارک نہ ہٹاتے۔ یہاں تک کہ وہ خود واپس چلا جائے اور جب کوئی آپؐ سے مصافحہ کرتا تو آپؐ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑاتے یہاں تک کہ وہ خود ہاتھ چھڑا لے۔ اور کبھی آپؐ کو اپنے ساتھ بیٹھنے والے سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھاگیا۔ (ابن ماجہ کتاب الادب باب اکرام الرجل جلیسہ)

اس سے جہاں ہم سب کے لئے نصیحت ہے، خاص طور پر جماعت کے عہدیداران کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں، ان کو بھی سبق لینا چاہئے کہ ملنے کے لئے آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہنا چاہئے۔ خوش آمدید کہیں، ان سے ملیں، مصافحہ کریں، ہر آنے والے کی بات کو غور سے سنیں۔ بعض لکھنے والے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے بعض معاملات ہیں کہ آپ سے ملنا تو شاید آسان ہو لیکن ہمارے فلاں عہدیدار سے ملنا بڑا مشکل ہے۔ تو ایسے عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کو یاد رکھنا چاہئے، ملنے والے سے اتنے آرام سے ملیں کہ اس کی تسلی ہو اور وہ خود تسلی پا کر آپ سے الگ ہو۔ پھر دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہر آنے والے کو کرسی سے اٹھ کر ملنا چاہئے، مصافحہ کرنا چاہئے۔ اس سے آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور یہی عاجزی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے۔ دیکھیں آپ بیٹھتے وقت بھی کتنی احتیاط کیا کرتے تھے۔

مصافحے کے بارے میں یہاں ایک وضاحت کر دوں یہاں مغرب میں ہمارے معاشرے سے آئی ہوئی بعض خواتین کو بھی مردوں کے کہنے کی وجہ سے یا خود ہی کسی کمپلیکس(Complex)کی وجہ سے مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور بڑے آرام سے عورتیں مردوں سے مصافحہ کر لیتی ہیں۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو اس سے بچنا چاہئے۔ اگر آرام سے دوسرے کو سمجھا دیں کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تو لوگ سمجھ جاتے ہیں۔ نہ عورت مرد کو سلام کرتی ہے تو پھر نہ مرد عورت کو سلام کرے گا۔ دوسرے بعض معاشروں میں بھی تو مصافحے نہ کرنے کا رواج ہے وہ بھی تو نہیں کرتے۔ ہندو بھی ہاتھ جوڑ کر یوں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہاں ان کا سلام کا رواج ہے۔ اور معاشروں میں بھی اس طرح مختلف طریقے ہیں۔ اس لئے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی قسم کے کمپلیکس میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذہب بہرحال مقدم ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بہرحال زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوار شخص پیدل کو سلام کرے اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب یسلم الراکب علی الماشی)۔ تو یہ طریق بھی عاجزی پیدا کرنے اور تکبر کو دورکرنے لئے سکھایا گیا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے اور اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا چٹان حائل ہو جائے۔ پھر دوبارہ اس سے ملے تو دوبارہ سلام کرے۔ یعنی ایک دفعہ سلام کافی نہیں ہے۔ پھر ملے پھر بے شک سلام کرے۔ یعنی سلام کو اتنا زیادہ رواج دو کہ تمہارے اندر کی ساری کدورتیں، دل کے تمام میل صاف ہو جائیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس کے قریب سے گزرے جس میں مسلمان اور مشرک بت پرست اور یہودی سب بیٹھے ہوئے تھے۔ تمام کی مشترکہ مجلس تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کیا۔ (بخاری کتاب الاستئذان باب التسلیم فی یجلس فی اختطلاط من المسلمین و المشرکین)

تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بلا استثناء اس مجلس کے ہر فرد کو سلام کیا۔ یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کو سلام ہو۔ جبکہ آج کامُلّا ں کہتا ہے کہ فلاں کو سلام کرو اور فلاں کو سلام نہ کرو۔ آپ لوگ بھی یہاں بلا جھجک اس معاشرے میں بھی لوگوں کو سلام کیا کریں۔ پھر اس کا مطلب بتایا کریں۔ آخر ان کا سلام بھی توآپ کرتے ہیں۔ آپ کو بھی سلام کرنا چاہئے بعض قریبی تو خیر جانتے ہیں، سلام بھی کر لیتے ہیں۔ کل جب میں آیا ہوں تو بڑی اچھی بات لگی بعضوں نے جو یہاں کے مقامی تھے السلام علیکم بھی کہا۔ تو ہرایک کو بتانا چاہئے، اس کامطلب بھی بتائیں تاکہ اسلام کی تعلیم کی جو خوبیاں ہیں وہ بھی لوگوں کو پتہ لگیں۔ اور اس سے آپ کی دعوت الی اللہ کے اور راستے بھی کھلیں گے۔

اس سلسلے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے طریق کارکے بارے میں بتاتا ہوں۔ قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو سلام کا اس قدر خیال تھا کہ حضورؑ اگرچہ چند لمحوں کے لئے بھی جماعت سے اٹھ کر جاتے اور پھر واپس تشریف لاتے تو ہر بار جاتے بھی اور آتے بھی السلام علیکم کہتے۔ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 32)

حافظ محمدابراہیم صاحب قادیانی بیان کرتے ہیں۔ اکثر حضور علیہ السلام، السلام علیکم پہلے کہا کرتے تھے۔ (سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 114)

تو یہ سب کچھ اس محبت کی وجہ سے تھا جو آپ ؑ کے دل میں اپنے ماننے والوں کے لئے تھی بلکہ کوئی بھی بیٹھا ہو تو آپؑ اس طریقے سے سلام کیا کرتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے تمام بندوں سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے اور اسی جذبے کے تحت آپ سلام کو پھیلایا کرتے تھے۔

آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ اس زمانے میں اسلام کے اکثر امراء کا حال سب سے بدتر ہے۔ وہ گویا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف کھانے پینے اور فسق و فجور کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ` دین سے وہ بالکل بے خبر اور تقویٰ سے خالی اور تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں۔ اگر ایک غریب ان کو السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا اپنے لئے عار سمجھتے ہیں۔ بلکہ غریب کے منہ سے اس کلمہ کو ایک گستاخی کا کلمہ اور بیباکی کی حرکت خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے زمانے کے اسلام کے بڑے بڑے بادشاہ السلام علیکم میں اپنی کوئی کسر شان نہیں سمجھتے تھے‘‘۔ یعنی اپنی شان میں کوئی کمی نہیں سمجھتے تھے’’ مگر یہ لوگ تو بادشاہ بھی نہیں ہیں پھر بھی بے جا تکبر نے ان کی نظر میں ایسا پیاراکلمہ جو السلام علیکم ہے، جو سلامت رہنے کے لئے ایک دعا ہے، حقیر کرکے دکھایا ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ زمانہ کس قدربدل گیا ہے کہ ہر شعار اسلام کا، تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘‘۔ (چشمہ ٔمعرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ327)

پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس شعار اسلام کو اتنا رواج دیں کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے۔ اس کے لئے خود بھی کوشش کریں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی کہیں ان دنوں میں، جلسہ کے دنوں میں دعاؤں کے ساتھ جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، جلسے کی کارروائی سننے میں جہاں وقت گزار رہے ہوں گے، وہاں ہر ملنے والے کو سلامتی کی بھی دعا دیں تاکہ اس مجمع میں، یہاں جو لوگ اکٹھے ہوئے ہیں ان میں جو دینی اور روحانی حالت کی بہتری کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں، یہاں جو آپ آپس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق رشتہ محبت و اخوت قائم کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اس رشتے کی مضبوطی کے لئے سلامتی کی دعائیں بھی بھیجیں۔ دنیا میں ہر جگہ احمدی پاک دل کے ساتھ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دینا شروع کر دیں تو بہت جلد اس یکجہتی اور دعاؤں کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ احمدیت کی ترقی کو دیکھیں گے۔

دنیا میں آج اور جگہ بھی جلسے ہو رہے ہیں۔ ہر جگہ ان جلسوں کو سلامتی کے پیغام سے بھر دیں۔ ان ملکوں میں جب آپ اسلام کے اس امن اور سلامتی کے پیغام کو پھیلائیں گے تو جیساکہ میں نے پہلے کہاکہ دعوت الی اللہ میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی، لوگوں سے رابطوں میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی۔

اس لئے اس ملک میں رہنے والے ہر احمدی کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے آپ کو اپنے ملک میں رہنے اور کمانے، اپنے حالات بہتر بنانے کی اجازت دی ہے اور ایک احسان کیا ہے کہ بہت سوں کے حالات اپنے ملک میں اتنے اچھے نہیں تھے یہاں کی نسبت تو اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ اس خوبصورت تعلیم پر عمل کرتے ہوئے جو اسلام نے آپ کو دی ہے، جس کو اس زمانے میں صحیح رنگ میں ہمارے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رکھا ہے۔ اس کو ان لوگوں تک پہنچائیں۔ اسلام سلامتی کا پیغام ہے، ہر احمدی کو اس کو دنیا میں پھیلانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہت سے الہامات و رویا میں السلام علیکم کہہ کر خوشخبریاں دی ہیں۔ اس وقت میں ایک رؤیا پیش کرتا ہوں۔ آپؑ لکھتے ہیں کہ:’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ اول گویا کوئی شخص مجھ کو کہتا ہے کہ میرا نام فتح و ظفر ہے اور پھر یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے اَْصَلَح اللّٰہُ اَمْرِیْ کُلَّہٗ یعنی اللہ تعالیٰ نے میرے سارے کام اپنے فضل سے ٹھیک کر دئیے۔ پھر دیکھا کہ مکان شبیہ مسجد میں ہوں (یعنی مسجد کی شکل کے مکان میں ہوں ) اور ایک الماری کے پاس کھڑا ہوں اور حامد علی بھی کھڑا ہے۔ اتنے میں نظر پڑی میں نے عبداللہ غزنوی کو دیکھا کہ بیٹھے ہیں اور میرا بھائی غلام قادر بھی بیٹھا ہے تب میں نے نزدیک ہو کر ان کو السلام علیکم کہا تو انہوں نے بھی وعلیکم السلام کہا اور بہت سے دعائیہ کلمات ساتھ ملا دئیے جن میں صرف یہ لفظ محفوظ رہا یعنی ذہن میں یہی رہا کہ اَخَّرَکَ اللّٰہ کہ اللہ تعالیٰ تیرے سارے کام ٹھیک بنا دے۔ انجام بخیر کرے۔ مگر معنے یہی یاد رہے کہ ان کے کلمات ایسے ہی تھے کہ تیرا خدا مدد گار ہو، تیری فتح ہو، پھر میں اس مجلس میں بیٹھ گیا اور کہا کہ میں نے خواب بھی دیکھی ہے کسی کو میں نے السلام علیکم کہا ہے۔ اس نے جواب دیا وَعَلَیْکُمُ السَّلَام وَالظَّفر‘‘۔ (تذکرہ صفحہ249 مطبوعہ1969ء)

پس ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ کے اس سلام کو حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ سلام حضرت اقدسؑ کے ساتھ آپؑ کی جماعت کو بھی ہے۔ آپؑ کا مقصد ایک پاک جماعت کا قیام تھا اور نیک انجام اس جماعت کے لئے بھی ہے جیسا کہ اس میں بتایا گیاہے۔ لیکن ہر فرد جماعت کو سلامتی پھیلا کر انفرادی طور پر بھی ان برکات سے حصہ لینا چاہئے تاکہ فتح و ظفر کی جو خوشخبری اللہ تعالیٰ نے دی ہے اس کی برکات سے ہر ایک حصہ لے سکے۔ اس لئے میں پھر کہتاہوں کہ اس سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک بھی پھیلائیں اور آپس میں بھی مومن بنتے ہوئے محبت اور پیار کی فضا پیداکریں اور اللہ تعالیٰ کی ابدی جنتوں کے بھی وارث بنیں جہاں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 3؍ ستمبر 2004ء شہ سرخیاں

    جتنی زیادہ دعاؤں سے آپ میری مدد کر رہے ہوں گے اتنی زیادہ جماعت میں مضبوطی آتی چلی جائے گی۔

    ٭…عام میل ملاقات اور گھروں میں جانے کے آداب اور دینی تعلیمات

    ٭…اپنے بچوں کو بھی سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔

    ٭…عہدیداران کو نصائح کہ آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہیں ان سے ملیں مصافحہ کریں

    ٭…آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس شعار اسلام کو اتنا رواج دیں کہ یہ احمدی کی پہچان بن جائے۔

    ۳؍ ستمبر ۲۰۰۴ء بمطابق ۳؍ تبوک ۱۳۸۳ ہجری شمسی بمقام زیورک، (سویٹزرلینڈ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور