آنحضرت ﷺ کی بلند شان اور مقام ارفع کا ذکر

خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2004ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشھدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا

{ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ}(آل عمران:32)

{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}(الاحزاب:57)

یہ پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہدے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

یہ دو آیات ایک آل عمران کی ہے اور دوسری سورۃ احزاب کی۔ جیسے کہ ترجمے سے آپ نے سن لیا آل عمران کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو آنحضرتﷺ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تمام گزشتہ اور آئندہ نمونے ختم ہو گئے اب اگر کوئی پیروی کے قابل نمونہ ہے تو آنحضرتﷺ کا نمونہ ہے اور یہ پیروی کے نمونے کس طرح قائم ہوں گے۔ اس طرح قائم ہوں گے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی پسند اور ناپسند کو اپنی پسند اور ناپسند بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس طرح تم آنحضرتﷺ کی پیروی کرو گے تو پھر ہی مَیں تمہارے گناہ بھی بخشوں گا اور تمہارے سے محبت کا سلوک بھی کروں گا۔ تمہاری دینی اور دنیاوی بھلائیوں کے سامان بھی پیدا کروں گا۔ تو گویا اب اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے تمام راستے بند ہو گئے اور اگر کوئی راستہ کھلا ہے تو آنحضرتﷺ کی کامل اتباع کرکے آپ کے پیچھے چل کر ہی خداتعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے، یہی ایک راستہ ہے جو کھلاہے۔ پھر اس اسوئہ حسنہ کی پیروی کرنے کے لئے اور آپﷺ کی محبت دل میں بڑھانے کا طریق جو اگلی آیت مَیں نے تلاوت کی ہے سورۃ احزاب کی اُس میں بتایاہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نبی کوئی معمولی نبی نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا وجود ہے۔ زمین و آسمان اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کے اس پیارے نبی پر رحمت بھیجتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں۔ پس اے لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ اس نبی سے محبت پیدا کرو۔ اس پر درود بھیجو اور بہت زیادہ سلامتی بھیجو۔ جب تم اس طرح اس نبی پر درود و سلام بھیجو گے تو تم پر اس کی پیروی کے راستے بھی کھلتے چلے جائیں گے اور جیسے جیسے یہ راستے کھلیں گے جس طرح تم اس کی پیروی کرتے چلے جاؤ گے اتنی ہی زیادہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی بنتے چلے جاؤ گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ:’’ قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں۔ اول {اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیُ}(آل عمران:32)۔ دوم۔ {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}(الاحزاب:57)۔ اور تیسرا موہبت الٰہی‘‘۔ (حضرت اقدس کی ایک تقریر اور مسئلہ وحدت الوجود پرایک خط صفحہ 23)۔ یعنی دعائیں قبول کروانا چاہتے ہو تو جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس کی پیروی کرو، آپ ؐ سے محبت کرو اور اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرو۔ پھر رسول اللہﷺ پر درود بھیجو تاکہ اس محبت میں خود بھی بڑھو اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل کرو۔ اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکو، اس سے بخشش طلب کرو، اس کی عبادت کرو۔ ، سب غیراللہ کو چھوڑ دو۔ تو یہ تین چیزیں ہیں اگر پیدا ہو جائیں گی تو سمجھو کہ تم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ اور دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ:’’ ان کو کہہ دو اس بارہ میں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ محبوب الٰہی بن جاؤ اور تمہارے گناہ بخش دئیے جائیں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اطاعت کرو‘‘۔

فرمایا کہ:’’…… میری پیروی ایک ایسی شئے ہے جو رحمت الٰہی سے ناامید ہونے نہیں دیتی۔ گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے‘‘۔ یعنی جو حقیقی پیروی کرنے والے ہوں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ ان میں ایک یقین کی کیفیت ہوتی ہے کہ اس پہلو سے ہم نے یقینا اللہ تعالیٰ کا قرب پا لینا ہے اور اس کی محبت حاصل کرلینی ہے تو فرمایا کہ میری پیروی گناہوں کی مغفرت کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے’’ اور تمہارا یہ دعویٰ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اسی صورت میں سچا اور صحیح ثابت ہو گا کہ تم میری پیروی کرو‘‘۔

پھر فرمایا کہ’’ اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی خود تراشیدہ طرز ریاضت اور مشقت اور جپ تپ سے اللہ تعالیٰ کا محبوب اور قرب الٰہی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ انوار و برکات الٰہیہ کسی پر نازل نہیں ہو سکتیں جب تک وہ رسول اللہﷺ کی اطاعت میں کھویا نہ جاوے۔ اور جو شخص آنحضرتﷺ کی محبت میں گم ہو جاوے اور آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے‘‘ یعنی یہ پیروی اور محبت مومن بندے کو اتنی زیادہ ہونی چاہئے کہ اس کوباقی سب چیزوں سے بے نیاز کر دے، کسی غیر کے آگے جھکنے والے نہ ہوں۔ جیسے بھی حالات ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے آستانے پر ہی جھکنے والے ہوں۔ اب یہی شان ہے جو ایک احمدی کی ہونی چاہئے۔ فرمایا ’’ کہ آپ کی اطاعت اور پیروی میں ہر قسم کی موت اپنی جان پر وارد کر لے اس کو وہ نور ایمان، محبت اور عشق دیا جاتا ہے جو غیر اللہ سے رہائی دلا دیتا ہے اور گناہوں سے رستگاری اور نجات کا موجب ہوتا ہے۔ اسی دنیا میں وہ ایک پاک زندگی پاتا ہے اور نفسانی جوش و جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے نکال دیا جاتاہے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَاالْحَاشِرُالَّذِیْ یُحْشَرُالنَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ۔ یعنی مَیں مردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں ‘‘۔ (الحکم جلد 5 نمبر 3 مورخہ 24؍ جنوری 1901 صفحہ 2)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ {اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}۔ (الاحزاب:57)۔ اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر توجانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا۔ صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء۔ سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صِدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا‘‘۔ یعنی اگر قرآن شریف کی تعلیم سامنے نہ ہوتی اور جس طرح قرآن کریم نے ہمیں ان انبیاء کا بتا یا وہ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتے۔ یہ آنکھوں سے دیکھنے والی ہی بات ہے جس طرح تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر ہے تو تمام گزشتہ انبیاء کی جو سچائی ہے وہ اس طرح ہم پر ظاہر نہ ہوتی جس طرح قرآن کریم کے پڑھنے سے ہم پر ظاہر ہوئی ہے۔ فرمایاکہ’’ کیونکہ صرف قصّوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں۔ اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں۔ کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور یقینا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آ گئے۔ اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں ‘‘ کہ اب یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ تجربے سے یہ باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہو گئیں۔ ’’ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیزہوتا ہے۔ ‘‘ یہ صرف قصے نہیں رہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے ہی پتہ لگ گیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمکلام ہوتا ہے کس طرح بات کرتا ہے کس طرح سنتا ہے اور کس طرح سناتا ہے۔ ’’ اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرتﷺ کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے

محمدؐ عربی بادشاہِ ہر دو سرا

کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں۔ کہ اس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی۔ ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج‘‘۔ یعنی جو سعید فطرت لوگ ہیں ان کی روح کو تازگی دینے کے لئے، ان کو نور پہنچانے کے لئے ایک سورج ہے۔ جیسے ہمارے جسم کی صحت کے لئے ایک سورج ہے۔ ’’وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کر دیا۔ وہ نہ تھکا، نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصّہ کو شرک سے پاک نہ کر دیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے۔ اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفّاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیّت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لئے کھولا نہ گیا۔ لیکن افسوس کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور ان کے اندر داخل ہو‘‘۔ (چشمہ ٔمعرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 303-302-301)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بتانے کے بعد یہ فرمایا کہ کون ہے جو سچے دل سے ہمارے پاس آیا کہ اسے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نو رکا پتہ نہ لگا۔ یعنی اس غرض سے آیا کہ اس نور کو دیکھے اور اس کو نہ دکھایا ہو۔ کیونکہ اب اس زمانے میں آنحضرتﷺ کا نور دیکھنے کے لئے مسیح موعود کے پاس ہی آنا ہو گا۔ یہ بھی آنحضرتﷺ کا ہی ارشاد ہے کہ چودہ سو سال کے بعد جب مسیح و مہدی آئے گا وہ میرے نور سے ہی منور ہوگا، میری روشنی ہی پھیلائے گا۔ پس آنحضرتﷺ کی پیروی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کی اس بات کی بھی پیروی کی جائے کہ چودھویں صدی میں جس مسیح و مہدی کا ظہور ہونا ہے اس کو بھی مانا جائے۔ یہ نہیں ہے کہ جیسے مسلمانوں کا آج کل یہی شیوہ ہے کہ جو مرضی کی باتیں ہوں وہ مان لیں اور کچھ نہ مانی۔ تو فرمایا کہ یہ تو گھٹیا اور گندی زندگی کو پسند کرنے والی باتیں ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خود اپنے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے کہ مجھ سے کس طرح محبت کرو۔ ایک روایت میں آتا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا جب تک مَیں اسے اپنے والد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں۔ (بخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان)

تو یہ معیار بتایا ہے دنیاوی رشتوں کی مثال دے کر کہ صرف پیروی کا دعویٰ ہی نہیں کرنا بلکہ یہ جو دنیاوی رشتے ہیں، والدین اور بچے، ان سب سے زیادہ مَیں تمہارا پیارا بنوں۔ مجھے تم سب سے زیادہ پیار کرنے والے بنو۔ صحابہ نے جن میں بچے بھی تھے بوڑھے بھی تھے جو ان بھی تھے انہوں نے اسی طرح قربانیاں دی ہیں اور اسی طرح پیار کیا ہے۔ بچوں نے اپنے والدین کو چھوڑنا گوارا کر لیا مگر آپ کا در نہ چھوڑا۔ پس آج ہمیں بھی وہی مثالیں قائم کرنی ہیں، انشاء اللہ۔ جس طرح آپؐ نے فرمایا، جو اسلام کی تعلیم ہے، اس کو مانناہے، اس پر عمل کرنا ہے اور دنیا کوئی پرواہ نہیں کرنی۔ آپؐ کے لئے جو غیرت اور محبت اور عشق ہمارے دلوں میں ہونا چاہئے اس کے مقابلے میں ہر دوسری چیز اور ہر دوسرا رشتہ اور ہر قسم کی غیرت جو بھی ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرتﷺ کی اتنی غیرت تھی کہ آپ معمولی سی زیادتی بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ آپ کو ایسی باتیں سن کر جس قدر غم اور تکلیف پہنچتی تھی وہ ناقابل بیان ہے۔ آپ ایسے شخص کی شکل بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے جس نے آنحضرتﷺ کے متعلق کوئی نازیبا بات کی ہو۔ اور جب عیسائی مشنریوں نے آنحضرتﷺ کے خلاف بعض بہتان گھڑے اس زمانے میں تو آپ کی انتہائی کرب اور تکلیف کی کیفیت ہوتی تھی۔

آپ خود بھی اس کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ: ’’عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں۔ اور اپنے اس دجل کے ذریعے ایک خلق کثیر کو گمراہ کرکے رکھ دیاہے۔ میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں ان کے دلآزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیرالبشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔ خداکی قسم اگر میری ساری اولاد، اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور مَیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا !توُ ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 15)

پس یہ ہے وہ غیرت جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں تھی اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت اور آپ کی محبت کے وہ معیار ہیں جو آپ اپنی جماعت کے ہر فرد میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور اس تعلیم کا ہی اثر ہے کہ یہ محبت جماعت کے دلوں میں پیدا ہوئی اور پھرجماعت اس محبت کے زیر اثر ہی آج دنیا کے کونے کونے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پہنچانے کے لئے کوشاں ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں اس غیرت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام جماعت کے ذریعہ پہنچایا جا رہا ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ پہنچایا جاتا رہے گا۔ یہ پیغام پہنچانے کے طریق اور دنیا کو چیلنج دینے کی جرأت جیسے کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔

آپ کو آنحضرتﷺ کے ساتھ جو عشق تھا اور آپ کے لئے جو غیرت تھی اس کا اظہار اس سے پہلے کے اقتباس سے ہو چکا ہے جو الفاظ میں نے پڑھے ہیں۔ آپ ؑ نے دنیا کو واضح الفاظ میں یہ چیلنج دیا ہے کہ تمہارا جو کچھ بھی مذہب ہو، تمہاری جتنی بھی طاقت اور وسائل ہوں، تم جتنا مرضی ہنسی ٹھٹھا کر لو لیکن یاد رکھو کہ اب دنیا میں غالب آنے والا مذہب صرف اور صرف اسلام ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ:’’ اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی روحانی زندگی اور پاک جلا ل کا ہمیں یہ ثبوت ملا ہے کہ اس کی پیروی اور محبت سے ہم روح القدس اور خدا کے مکالمہ اور آسمانی نشانوں کے انعام پاتے ہیں۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 141)

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج اس مسیح محمدی کی جماعت زندہ خدا اور زندہ مذہب اور جاہ جلال کے نبی کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کی جو کوشش کر رہی ہے، یہ جماعت، جماعت احمدیہ اس کی راہ میں مسلمان کہلانے والے رکاوٹیں اور مشکلیں ڈال رہے ہیں، ان کے خلاف الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔

آنحضرتﷺ سے عشق و محبت اور آپ پر درود بھیجنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو محبت کی اور جس طرح نوازا اس ذکر کو بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔

’’پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ سَیِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَ خَاتَم النَّبِیِّیْن۔ اور درود بھیج محمدؐ اور آل محمدؐ پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اُسی کے طفیل سے ہیں اور اُسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں ‘‘۔ یعنی آنحضرتﷺ کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتنا اونچا مرتبہ ہے۔ ’’ اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے‘‘۔

پھر فرماتے ہیں۔ فارسی کے کچھ شعر ہیں۔

’’ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم

مہر و ماہ را نیست قدرے در دیار دلبرم

آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب

واں کجا باغ کہ می دارد بہار دلبرم‘‘

یعنی میرے دوست کے مقابلے میں، میرے محبوب کے مقابلے میں کوئی بھی محبوب نہیں ہے۔ میرے دوست کے مقابلے میں تو چاند اور سورج کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ چہرہ کہاں ہے جو اس کے چہرہ کی طرح چمک دمک رکھتا ہو اور وہ باغ کہاں ہے جس میں میرے دوست کی طرح بہار آئی ہو۔

فرمایا کہ:’’ اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زُلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے ‘‘یعنی اللہ تعالیٰ دین کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے جوش میں ہے لیکن وہ جو زندہ کرنے والا ہے اس کا تعین نہیں ہوا کہ وہ کون ہو گا ’’ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحی کی تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارے سے اس نے کہا کہ ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ ‘‘ جس نے دوبارہ دین کا احیاء کرنا ہے یہ وہ شخص ہے۔ جو آنحضرتﷺ سے محبت کرتا ہے اس سے زیادہ اور کوئی محبت نہیں کرتا۔ ’’اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے‘‘ یعنی احیاء دین کے لئے جو شرط ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں ہو۔ ’’ تو وہ اس شخص میں متحقق ہے‘‘۔ اور اسی شخص میں پائی جاتی ہے۔ ’’اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سر ہے کہ افاضئہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کوبھی نہایت عظیم دخل ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت سے بھی محبت ہونی چاہئے۔ ’’ اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہی طیبین، طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعدعین بیداری میں ایک تھوڑی سی غَیْبَتِ حِس سے جو خفیف سے نشا سے مشابہہ تھی ایک عجیب عالَم ظاہر ہوا‘‘۔ یعنی بیداری کے عالم میں اونگھ کی سی کیفیت تھی۔ اس میں اس طرح ہوا ’’کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی‘‘ جیسی بہ سرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آ گئے جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علی ؓ وحَسْنَین و فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہم اجمعین۔ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا‘‘۔ اب اس پر بھی بعض مخالفین کو اعتراض شروع ہو جاتا ہے کہ سر ران پر رکھنے سے۔ اپنی ذہنی حالت کا دراصل وہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ کہ اتنا غلط مطلب نکالتے ہیں کہ شرم آتی ہے۔ کوئی مسلمان کہلانے والا ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔ آپ فرما رہے ہیں کہ’’ مادر مہربان کی طرح‘‘۔ اب ماں کے مقام کی جو مثال ہے اس کے بارے میں بھی جو غلط سوچ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے حال پر رحم کرے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اور پھر یہ ہے کہ یہ فرمایا ہے کہ سامنے آ کر کھڑے ہو گئے جس طرح بچہ کو ساتھ چمٹا لیتے ہیں۔ چمٹا لیا ساتھ۔ تو فرمایا کہ’’ مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیاہے۔ اور اب علی و ہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 599-597 حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳)

پس دیکھیں اس عاشق صادق اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند کی محبت جو آپ کو اپنے آقا اور محبوب سے تھی کہ بے انتہا درود بھیجا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نوازا جیسا کہ اس سے ظاہر ہے۔

پس آج ہمیں بھی اس محبت کے نمونے قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ دنیا کو جلد سے جلد اس آقا کی غلامی میں لا سکیں جو تمام دنیا کے لئے مبعوث ہوا ہے تاکہ دنیا میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہو۔

اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور آپ کے لئے غیرت کی چند اور مثالیں جو روایات ہیں بچوں کی اور دوسری پیش کرتا ہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ جو آپ کے منجھلے بیٹے، دوسرے بیٹے تھے فرماتے ہیں کہ:’’ یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھرمیں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں۔ مگرمَیں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے مَیں آسمانی آقا کو حاضر و ناظر جان کر کہتاہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلّی نہ آ گئی ہو۔ آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رُوواں رُوواں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا‘‘۔ (سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 27-26)

پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ:’’ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آ کر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسانؓ بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسانؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ

مَنْ شَآءَ بَعْدکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

یعنی اے خدا کے پیارے رسول تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے اب تیرے بعدجو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی۔

راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کونسا صدمہ پہنچا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مَیں اس وقت حسانؓ بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہو رہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا‘‘۔ (سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم۔ اے۔ صفحہ28-27)

تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت آپ کو۔ یہ کھوکھلے نعرے، دعوے اور تحریریں نہیں تھیں۔ آج مخالف اٹھ کے یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کم رہے ہیں۔ آج اگر اس مقام کو کسی نے پہچانا ہے اور اس کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی غیرت رکھی ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی غیرت کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میری عمر اس وقت 17سال کی تھی کہ کسی جلسہ میں بھیجا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک وفد کی صورت میں۔ فرمایا میری عمر اس وقت 17سال کی تھی مگر وہاں مخالفین نے کچھ باتیں کیں۔ فرمایا کہ مَیں اس بد گوئی کو سن کر برداشت نہ کر سکا اور اور مَیں نے کہا کہ میں تو ایک منٹ کے لئے بھی اس جلسہ میں نہیں بیٹھ سکتا، مَیں یہاں سے جاتا ہوں۔ اکبر شاہ صاحب نجیب آبادی مجھے کہنے لگے کہ مولوی صاحب تو یہاں بیٹھے ہیں اور آپ اٹھ کر باہر جا رہے ہیں۔ اگر یہ غیرت کا مقام ہوتا تو کیا مولوی صاحب کو غیرت نہ آتی۔ مَیں نے کہا کچھ ہو مجھ سے تویہاں بیٹھا نہیں جاتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ سخت کلامی مجھ سے برداشت نہیں ہو سکتی۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو کم سے کم نظام کی اتباع تو کرنی چاہئے۔ مولوی صاحب اس وقت ہمارے لیڈر ہیں اس لئے جب تک وہ بیٹھے ہیں اس وقت تک نظام کی پابندی کے لحاظ سے آپ کوا ٹھ کر باہر نہیں جانا چاہئے۔ ان کی یہ بات اس وقت کے لحاظ سے مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں بیٹھ گیا۔ جب یہ وفد واپس قادیان پہنچا اور حضرت اقدس کی خدمت میں اس جلسہ کی رپورٹ پیش کی تو حضور کو اس قدر رنج پہنچا کہ الفاظ میں اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ جو صحابہ اس موقع پر موجود تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس کی زبان فیض ترجمان سے بار بار یہ الفاظ نکلتے تھے کہ ’’تمہاری غیرت نے یہ کیسے برداشت کیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف گالیاں سنتے رہے۔ تم لوگ اس مجلس سے فوراً اٹھ کرباہر کیوں نہ آ گئے‘‘۔ (حیات نور صفحہ 308) تو یہ ہے آپ کی تعلیم، آپ کے دلی جذبات اور آپ کا عملی نمونہ آنحضرتﷺ کی محبت میں سرشار ہونے کا اور آپ کی خاطر غیرت دکھانے کا۔

یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں ورنہ بے شمار مثالیں ہیں۔ اور یہی نمونے قائم کرنے کی آپ نے اپنی جماعت سے امید رکھی ہے۔ اورنصیحت فرمائی ہے۔ آج مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک عزت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان مخالفین کواس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ تمہاری عقلوں او ر آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لئے تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ آج تمہارے پاس طاقت ہے تو تم جو چاہو کرنے یا کہنے کی کوشش کرو، کرتے رہو، کہتے رہو۔ مولوی کی آنکھ پر پردے تو پڑے ہوئے تھے ہی اور ہیں ہی۔ ان کا کام تو صرف فساد اور نفرتیں پھیلانا ہی ہے افسوس تو اس بات کا ہوتاہے کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی باوجود جاننے کے اور ذاتی مجالس میں اس کے اظہار کے پھر بھی کھلے عام یہ اعتراف نہیں کرتے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جوسب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والی ہے اور آپ کی تعلیم کی پیروی کرنے والی ہے۔ اِکّا دُکّا آپ کو ملیں گے، آپ کے دوست ہوں گے، یہی اعتراف کریں گے۔ لیکن اس علم کے باوجود کبھی کھل کے نہیں کہہ سکتے۔ اور جیسا کہ مَیں کہا، بعض دفعہ اظہا ر ہوچکاہے، اور اس اظہار کے باوجود، 1974ء میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا جوقانون پاس کیا تھااس کے بارہ میں بھی اظہار ہوتاہے کہ یہ غلط تھا۔ اور اس وقت مُلّاں کو خوش کرنے کے لئے یا جو بھی مقاصد تھے اس زمانے کی حکومت کے ان کو پورا کرنے کے لئے جو قدم اٹھایا گیا تھا اس سے سوائے ملک میں بدامنی اور بے چینی کے ملک کو کچھ اور نہیں ملا، بے چینی اور بدامنی ضرور ملی ہے۔ یہ اظہار کرتے ہیں غیر بھی۔ پھر بھی مُلّاں کے پیچھے چلتے ہیں۔ بہرحال اس وقت تو مَیں اس کی تفصیل نہیں بتا رہا۔

ایک قانون کا ذکر یہاں کرنا ہے جو چند سال سے بنا ہوا ہے پاکستان میں۔ ہتک رسول کا قانون ہے۔ اور مُلّاں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح احمدیوں کو اس قانون کے تحت پھنسایا جائے اور الزام لگایا جائے اور بعض بظاہر جو بڑے پڑھے لکھے کہلاتے ہیں۔ پڑھے لکھے سے مراد ہے بظاہر پڑھے لکھے۔ ہیں تو پڑھے لکھے ہی قانون دان ہیں، حکومتوں کے جج ہیں۔ یہ مولوی کے ڈر سے یا اللہ کے خوف کی کمی کی وجہ سے یا جو بھی وجہ ہو احمدیوں کو اس ہتک رسول کے الزام کے تحت سزا دے دیتے ہیں، بغیر تحقیق کے کہ حقائق کیا ہیں۔ باوجود یہ پتہ ہونے کے کہ مولوی جھوٹ بھی بولتا ہے اور جھوٹی گواہیاں بھی دلواتا ہے احمدی کے خلاف فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی ایک احمدی کو جنہوں نے چند سال ہوئے بیعت کی تھی، نوجوان آدمی تھا اس کے خلاف گاؤں کے ایک مولوی نے ایف آئی آر کٹوائی کہ یہ میرے پاس مسجدمیں آیا تھا اور ایک دوسوالوں کے بعد کہا کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے۔ نعوذ باللہ۔ اور الفاظ بھی کیسے لکھتے ہیں ایف آئی آر اس وقت میرے پاس ہے ان کی حالت دیکھیں۔ کہ مَیں فلاں جگہ کا مولوی ہوں اور میرے پاس فلاں فلاں آدمی موجود تھے کہ اقبال ولد فقیر محمد قوم فلاں جو احمدی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اچانک میرے پاس آیا اور مجھے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ آپ کا کیا مذہب ہے تو میں نے اسے جواب دیا کہ اللہ پاک کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے اور ان کے علاوہ پیروں فقیروں کو بھی ماننے والاہوں۔ ان کو تو کم مانتے ہیں پیروں فقیروں کو زیادہ مانتے ہیں۔ تو دوبارہ اس نے سوال کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بتلائیں۔ تو مَیں نے اسے کہا کہ تم کسی عالم دین کے پاس چلے جاؤ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے وہ آپ کو مسئلہ حل کر دیں گے تو اقبال مذکور اس احمدی نے کہا کہ آپ کا نبی جھوٹا ہے اور یہ فلاں فلاں نے بات سنی اور وہ دوڑ گیا۔ یعنی کوئی سرپیر نہیں ہوتا ان کی باتوں کا کہ خود جا کے کہا کہ مجھے مارو۔ اتنے بے وقوف نہیں ہیں احمدی۔ ایک تو محبت کا تقاضا ہے ایسی بات کہہ نہیں سکتے۔ اگر دنیاداری کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو ایسی بات کہے گا۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جج صاحب نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اس بے چارے کو عمر قید کی سزا سنا دی اور دس ہزار روپے جرمانہ۔ تو جیل میں ہے آج کل۔

ایسے لوگوں سے انصاف کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا ہے اسی سے مانگنا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد کو آئے گا اور جو ہمارے اسیران ہیں ان کو خود احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح جیل میں مدد فرما رہا ہوتاہے۔ باوجود تنگی کے کبھی احساس نہیں ہو رہا ہوتاایسے ایسے فضل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو مدد کو انشاء اللہ آنا ہے اور آئے گا۔ ججوں کو بھی جوفیصلے سنانے والے ہیں ان کو بھی یاد رکھناچاہئے کہ ان کے اوپر ایک احکم الحاکمین ہے جو بغیر کسی جنبہ داری کے انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ تم لوگ کسی مظلوم کو سزا تو دے سکتے ہو۔ لیکن ٹھیک ہے اس کے پاس اختیار نہیں ہے، کچھ نہیں کرسکتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بہرحال نہیں بچ سکتے۔ اب بعض مولوی بڑی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا حوصلہ دکھاتے ہوئے احمدیوں کو کہتے ہیں، بعض اخباروں میں بھی آ جاتا ہے، تقریریں بھی کرتے ہیں کہ اگر تم احمدیت سے منحرف ہو جاؤ، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں سب سے بڑا عاشق رسول سمجھیں گے اور اپنے سینے سے لگائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ تمہیں کیا پتہ کہ عشق رسول کیا ہوتا ہے۔ جس شخص کو تم چھوڑنے کے لئے کہہ رہے ہو اسی سے تو ہم نے عشق رسول کے اسلوب سیکھے ہیں۔ عشق رسول کی پہچان تو ہمیں آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے ملی ہے۔ ان کو چھوڑ کر ہم تمہارے پاس آئیں جن کے پاس سوائے گالیوں کے اور غلیظ ذہنیتوں کے اور ہے ہی کچھ نہیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ ان باتوں سے بھری پڑی ہے کہ جب بھی عشق رسول کے اظہار اور غیرت دکھانے کا معاملہ آیا احمدی ہمیشہ صف اول میں رہا، اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا۔ پرانے زمانے میں مذہبی اختلاف کے باوجود کچھ شرافت تھی، کچھ قدریں تھیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے اگر اسلام کے دفاع کے لئے، آنحضرتﷺ کے لئے غیرت دکھانے کے لئے کوئی کام ہوا تو غیروں نے بھی اس کا برملا اظہار کیا۔ جماعت کی خدمات کی توصیف و تعریف کی۔ آجکل کے اخباروں کی طرح، لوگوں کی طرح خوف زدہ ہو کر نہیں بیٹھ گئے کہ پتہ نہیں کیا مصیبت آ جائے گی ہم پہ اگر ہم نے کچھ کہہ دیا۔ یہ جرأت پاکستان میں تو نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش میں ظاہر ہو رہی ہے۔ ان کے عوام نے بھی دکھائی ہے۔ ان کے سیاسی لیڈروں نے بھی دکھائی ہے ان کے اخباروں نے بھی دکھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے جو اس جرأت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس وقت جو واقعہ مَیں بتا رہا ہوں یہ 1927ء میں ایک رسالہ’ ورتمان‘ نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے متعلق بڑی بیہودہ گوئیاں کی تھیں۔ فضول باتیں گندی غلیظ قسم کی۔ تو اس وقت مسلمانوں میں جوش اور غیض غضب بھی تھا لیکن اس کوصحیح راستے پر چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس وقت تمام مسلمانوں کو توجہ دلانے اور مسلمان لیڈروں کو اکٹھا کرکے اس سلسلہ میں کوشش کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود ؓ نے انتھک محنت کی، اور مشورے دئیے۔ مسلمانوں کو بتایا کہ جلسہ سے یا تقریروں سے یا بائیکاٹوں سے یا جلوسوں سے یہ مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ عملی ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ بہرحال یہ ایک لمبی تفصیل ہے۔ آپ کی کوششوں سے بہت سے عملی اقدامات ہوئے۔ عدالت میں پیش ہونے کے لئے عدالت میں یہ کیس بھی چلا اور پیش ہونے کے لئے چوٹی کے مسلمان وکلاء کی جو کمیٹی تھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو اگر کوئی احسن طریق پر اچھے رنگ میں عدالت میں پیش کر سکتا ہے تووہ چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ہی ہیں۔ چنانچہ وہ پیش ہوئے اور ان کی کوششوں کو بڑا سراہا گیا اخباروں میں بھی۔ اور اخباروں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ تو اس ساری کوشش کا ذکر اس وقت 23؍ستمبر 1927ء کی مشرق اخبار نے اس طرح لکھا کہ:

’’ یہ واقعہ ہے اس پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے صرف احمدی جماعت ہی اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے کہ اس نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ بر حیثیت اچھا کیا اور خوب کیا اور اس سے زیادہ بہتر اور صحیح طریق پر ناموس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے جہاد اکبر بھی کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا۔ فرداً من الافراد کا ذکر نہیں۔ کیونکہ حضرت خواجہ حسن نظامی اپنی ذات خاص سے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں ‘‘۔ ان کا ذکر چھوڑو، چند ایک نے اگرکیاتو۔ کہتاہے کہ ’’یورپ اور افریقہ اور امریکہ میں جو خدمات اسلام یہ جماعتیں کر رہی ہیں ان کا ذکر بے سود ہے۔ ہندوستان میں بھی جو کام ہو رہا ہے اور جیسا ایثار اور ہمت بلکہ اولوالعزمی یہ لوگ دکھا رہے ہیں باعث صد ہزار ممنونیت قوم مسلمہ ہے۔ حال میں صوبہ متوسط کے دارالصدر ناگپور میں اس جماعت کے ایک فرد واحد نے جو ثبوت اپنی ہمت و ایثار کا دیا ہے اس کی مفصّل کیفیت الفضل قادیان نے 17؍ اگست کو لکھی ہے۔ ایک صاحب ایثار کی کوششیں اور ہمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلسہ ہوا اور بارش بہت زور شور سے ہوتی رہی۔ پانی میں سب بھیگتے رہے۔ جن کے پاس چھتریاں تھیں چھتریاں اتار دیں اور ریزولیوشن پیش کئے، پاس کئے، تقریریں کیں اور ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنے پیشوا اور اپنے امام جماعت کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ کر سکتا ہے۔ اور اس موقعہ پر قابل تحسین تمام فرقوں کے مسلمان ہیں جنہوں نے اختلاف کو چھوڑ کر خدا کے حکم پر تمسک کیا‘‘، یعنی اکھٹے ہو گئے ’’اور رہنمائے اسلام امین کامل صادق پاکباز حضرت محمد رسول اللہﷺ کے ناموس کی حفاظت کے لئے ایک مرکز پر جمع ہو گئے اور یہی خدا کاحکم ہے۔ قرآن پاک میں برابر اس کی تاکید مسلمانوں کو ہے کہ تفرقہ نہ پیدا کرو۔ فرقہ بندی کو چھوڑ دو اور سب ایک ہو جاؤ گے تو غیر مسلم فرقے تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ لیکن آج کل اس کے بالکل الٹ کرتے ہیں سارے۔

پھر آگے لکھتاہے کہ ’’ہم جماعت احمدیہ کو مبارک باد دیتے ہیں کہ وہ سچا کام خدمت اسلام کا انجام دے رہی ہے اور اس وقت ہندوستان میں کوئی جماعت اتنا اچھا اور ٹھوس کام نہیں کرتی کہ وہ ہر موقع پر مسلمانوں کو حفاظت اسلام اور بقائے اسلام کے لئے توجہ دلاتی رہتی ہو۔ باوجود اختلافِ عقائد کے ہمارے دل پر اس جماعت کی خدمات کا گہرا اثر ہے۔ اور آج سے نہیں جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے زمانہ سے اِس وقت تک ہم نے کبھی اس کے خلاف کوئی حرف زبان اور قلم سے نہیں نکالا۔ ‘‘(اخبار مشرق یکم ستمبر 1927ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ 58-57 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 608)

تو یہ تھی ان لوگوں کی شرافت لیکن آج کل کی شرافت گونگی ہے۔ گھروں میں بیٹھ کے بات کر لیں گے باہر نکل کے نہیں کر سکتے۔ تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور آپ کے لئے غیرت کی ایک مثال ہے جو اسی تعلیم کا نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے جو غیروں کو بھی نظر آ رہی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ صرف بات یہ ہے کہ اب اکثر سے شرافت اٹھ گئی ہے۔ اگر شرافت ہو تو آج بھی جو خدماتِ اسلام اور جو کوشش آنحضرتﷺ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کررہی ہے اس کو سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے کی بجائے، احمدی پر ہتک رسول کا الزام لگانے کی بجائے، ان خدمات کو سراہیں۔ ان کی تعریف کریں۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی وہ مثال قائم کریں جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ جب مسیح و مہدی کی آمد کی خبر سنو تو اس کو میرا سلام پہنچاؤ۔ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور اس قوم کو مولویوں کے چنگل سے نکالے جن کا کام ہی صرف فساد ہے اور خدا کرے کہ حقیقت کو سمجھنے والے بنیں اور حقیقت کے اظہار کی جرأت ان میں پیدا ہو۔ لیکن احمدی کا بھی یہ کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی مثالیں قائم کرے اور آپ پر درود بھیجے۔ عشق و محبت کی جو تعلیم اور جو مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قائم کر گئے ہیں ان کا کوئی مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اور نہ ہی احمدی کے علاوہ اس کا کوئی اظہار کر سکتا ہے۔

پس یہ آج احمدی کا ہی کام ہے کہ اس کا اظہار کریں اور بتائیں دنیا کو۔ افریقہ کے دورے کے دوران ایک ملک میں ایک ایرانی ایمبیسی کے افسر آئے ہوئے تھے بہت شریف النفس انسان تھے بعد میں ایئر پورٹ بھی مجھے چھوڑنے آئے۔ اور کافی دیر بیٹھے رہے۔ باتیں ہوتی رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق پربھی بات ہوئی۔ تو اس حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شعر فارسی کا انہیں سنایا کہ :

جان و دلم فدائے جمال محمدؐ است

خاکم نثار کوچہٴ آل محمدؐ است

تو فوراً بڑی دیر تک اس کو دہراتے رہے وہ کہ ایسا شعر تو مَیں نے کبھی سنا ہی نہیں۔ پھرمیں نے کہا۔ اس کے باوجود الزام یہی ہے کہ عشق رسول نہیں۔ تومیں نے کہا ایک شعر اور بھی سن لیں۔ آپ نے فرمایا۔

بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

یہ شعر بھی ان کو بڑا پسند آیا۔

پہلے شعر کا مطلب یہ ہے کہ میری جان و د ل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن پر فدا ہیں۔ اور میری تو خاک بھی آپ کی آل کے کوچہ پر نثار ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے عشق کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہی ہے۔ اگر یہ عشق کرناکفر ہے تو میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ تو مولوی کو کیا پتہ ان عشق کی باتوں کا۔ بہرحال وہ شریف النفس تھے۔ انہوں نے کہا یہ شعرکہا ں ہیں مجھے کتاب دی جائے۔ فارسی کی درثمین ان کو پہنچا دی تھی۔ توبہرحال شرفاء ہیں لیکن اگر عقل نہیں آتی سمجھ نہیں آتی تو مولوی کو نہیں آئے گی۔ خدا کرے کہ قوم کے لوگوں کو بھی سمجھ آجائے کہ مولوی نے سوائے فتنہ و فساد کے اور کچھ نہیں پیدا کرنا۔ آج بھی، مَیں پھرکہتاہوں کہ ہر احمدی کا یہی جواب ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا’ گر کفرایں بود بخدا سخت کافرم‘۔ کہ اگر تم اس کو کفر سمجھتے ہو تو پھر ٹھیک ہے ہم کافر ہی ہیں۔ بے شک تم ہتک رسول میں اپنی مرضی سے اسے اندر کردو۔ لیکن خدا کو پتہ ہے کہ اصل میں یہ ہتک رسول میں سلاخوں کے پیچھے نہیں بلکہ عشقِ رسول میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ لیکن تم لوگ مسیح موعود کو نہ مان کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے باہر نکل رہے ہو اور ہتک رسول کے اصل میں مر تکب تم لوگ ہو رہے ہو۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بدلے لینے پہ آتا ہے پھر بہت خطرناک حالات ہوتے ہیں۔ پھر یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کون بچ گیا اور کون مر گیا۔ بہرحال ان لوگوں کے شر سے اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہر احمدی کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہر احمدی کا بھی یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے اور پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے اور آپ پر درود و سلام بھیجے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ دسمبر 2004ء شہ سرخیاں

    ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی پہلے سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرے اور آپ پر درود و سلام بھیجے۔

    ٭…قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں ان میں سے ایک درود شریف کثرت سے پڑھیں۔ ٭…آنحضرتﷺ کی بلند شان اور مقام ارفع کا ذکر

    ٭…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرتﷺ سے والہانہ عشق

    ٭…اسیران راہِ مولا اور خدا تعالیٰ کا ان سے پیار کا سلوک اور احمدیوں کے خلاف ظالمانہ فیصلے کرنے والوں کو انتباہ کہ خدائی پکڑ سے بچیں۔

    10؍ دسمبر2004ء بمطابق 10؍فتح 1383 ؁ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور