قرآن کریم کی عظمت اور فضائل وبرکات

خطبہ جمعہ 4؍ مارچ 2005ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی:۔

رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً۔ فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ(البیّنۃ:۳،۴)

پھر فرمایا:

اس کا ترجمہ ہے کہ اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا ان میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں۔ قرآن کریم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ پاک کتاب ہے اور ہر قسم کے ممکنہ عیب سے پاک ہے اور نہ صرف پاک ہے بلکہ ہر قسم کی حسین اور خوبصورت تعلیم اس میں پائی جاتی ہے جس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اور اس میں وہ تمام خوبیاں شامل کر دی گئی ہیں جن کی پہلے صحیفوں میں کمی تھی اور اب یہی ایک تعلیم ہے جو ہر ایک قسم کی کمی سے پاک ہے۔ بلکہ اس تعلیم پر عمل کرکے ہر برائی سے بچا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اس کی تعلیم پر عمل کرنے اور اس تعلیم کو لاگو کرنے سے ہی اپنی اور دنیا کی اصلاح ممکن ہے۔ یعنی یہ تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری یہی اب دنیا کی اصلاح کی، دنیا میں نیکیاں رائج کرنے کی، دنیا میں امن قائم کرنے کی، دنیا میں عبادت گزار پیدا کرنے کی، دنیا میں ہر طبقے کے حقوق قائم کرنے کی ضمانت ہے۔ تو جس نبی پر یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کامل اور مکمل تعلیم اتری اور جو خَاتَمَ النَّبِیِّیْن کہلائے، جن کے بعدکوئی نئی شریعت آ ہی نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس تعلیم پر کس قدر عمل کرنے والے ہوں گے، اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے اس پاک کلام کو سمجھا، وہ آپؐ ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا مکمل فہم اور ادراک حاصل ہوا۔ یہ آپؐ ہی کی ذات ہے جس کو اپنے پر اترنے والی اس آخری کتاب، اس آخری شریعت، کلام کے مطالب اور معانی کے مختلف زاویوں اور اس کے مختلف بطون کو سمجھنے کا کامل علم حاصل ہوا۔ گویا یہ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنؐ کی ذات ہی تھی جس نے اس خَاتَمُ الْکُتُبْ کو سمجھا اور نہ صرف اس گہرائی میں جا کر عمل کیا بلکہ صحابہ ؓ کو بھی وہ شعور عطا فرمایا جس سے وہ اس کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس آخری کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی اور شریعت یا کتاب سے رہنمائی لی جائے۔ کیونکہ پہلوں کی باتیں بھی اس میں آ چکی ہیں اور آئندہ کی باتیں اور خبریں بھی اس میں آ چکی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے۔ بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خَاتَمُ الْکُتُبْ ہو۔ اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔ کیونکہ کلام الٰہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اسی قدر قوت و شوکت اس کلام کی ہوتی ہے‘‘۔

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کو ہر کوئی جانتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے صحابہ ؓ میں پاک تبدیلیاں پیدا کیں۔ جو پاک تبدیلیاں صحابہ ؓ میں ہوئیں کہ راتوں کو جاگ کر محفلیں لگانے والے اب بھی راتوں کو جاگتے تھے لیکن راگ رنگ کی محفلیں نہیں جمتی تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدوں میں راتیں گزرتی تھیں۔ پھر جو شراب کو پانی کی طرح پینے والے تھے انہوں نے جب خبر سنی تو نشے کی حالت میں بھی یہ نہیں کہا کہ پہلے پتہ کرو کیا ہو رہاہے کیا نہیں ہو رہا۔ بلکہ پہلے شراب کے مٹکے توڑے گئے۔ تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی ہی تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا۔

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس قدر کسی شخص کی قوت قدسی ہوتی ہے اسی قدر اس کا قوت و شوکت کا کلام ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ:

’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا۔ اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہو ئی تھی۔ اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہو چکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اور اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ اور جیسے نبوت کے کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے۔ آپؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرات تعلیم، غرض جس پہلو سے دیکھو اسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ، پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 27-26جدید ایڈیشن- الحکم 24؍ اپریل 1903ء صفحہ 2`1)

تو جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک مکمل معجزہ ہے۔ اور یہی نہیں کہ اس میں مکمل تعلیم آ گئی اور یہ معجزہ ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معجزے کے ہر حکم کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا اور اس پر عمل کرکے دکھایا تاکہ اپنے ماننے والوں کو بھی بتا سکیں کہ مَیں بھی ایک بشر ہوں، جہاں تک بشری تقاضوں کا سوال ہے۔ لیکن ایسا بشر ہوں جس کو خداتعالیٰ نے اپنا پیارا بنایا ہے۔ اور اپنی طرف جھکنے کی وجہ سے پیارا بنایا ہے۔ تم بھی اس تعلیم پر عمل کرو، میری سنت کی پیروی کرو اور اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق خداتعالیٰ کا قرب پانے والے بنو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے حکموں پر کس حد تک عمل کرتے تھے۔ اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ کا مشہور جواب ہر ایک کے علم میں ہے کہ جب آپؓ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔ پوچھنے والے نے کہا: کیوں نہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’فَاِنَّ خُلُقَ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ الْقُرْآن‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن ہی تھے۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب جامع صلاۃاللَّیل ومن نام عنہ او مرض حدیث نمبر 1739)

یعنی قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی۔ قرآن کریم میں جس طرح لکھا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق العباد ادا کئے۔ قرآن کریم میں جن باتوں کو کرنے کا حکم دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں اور حکموں پر مکمل طور پر عمل کیا، ان کو بجا لائے، ان کی ادائیگی کی۔ قرآن نے جن باتوں سے رکنے کاحکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو ترک کیا۔ قرآن کریم نے روزوں کا حکم دیا، صدقات کا حکم دیا، زکوٰۃ کا حکم دیا۔ آپؐ نے روزوں، صدقات اور زکوٰۃ کے اعلیٰ ترین معیار قائم کر دئیے۔ قرآن کریم نے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ نرمی کا حکم دیا تو آپؐ نے نرمی کی وہ انتہا کی جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اصلاح معاشرہ کے لئے سختی کا حکم دیا تو آپؐ نے اس کی بھی پوری اطاعت و فرمانبرداری کی۔ غرض کون سا حکم ہے قرآن کریم کا جس کی آپؐ نے نہ صرف پوری طرح بلکہ اعلیٰ ترین معیار قائم کرتے ہوئے تعمیل نہ کی ہو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے، آپؐ کے آپس کے تعلق کی بہت اچھی طرح مثال پیش کی ہے۔ کہ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو موتی ہیں جو ایک ہی سیپ سے اکٹھے نکلے ہیں۔ قرآن کریم کی تعلیم کو جاننا چاہتے ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو دیکھ لو۔ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہو، اگر یہ دیکھنا چاہتے ہو کہ آپؐ کے صبح و شام اور رات دن کس طرح گزرتے تھے، تو قرآن کریم کے تمام حکموں کو، اوامرونواہی کو پڑھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سامنے آجا ئے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہادیٔ کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا۔ مگر آپؐ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ جس طرح پر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی قولی کتاب ہے اور قانون قدرت اس کی فعلی کتاب ہے، اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی ایک فعلی کتاب ہے جو گویا قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 34جدید ایڈیشن)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم سے عشق اور محبت، اس کے احکامات پر عمل، اللہ تعالیٰ کی خشیت، اس بارے میں آپؐ کی سیرت ہمیں کیا بتاتی ہے؟ آپؐ کا قرآن کریم کو پڑھنے کے بارے میں کیا طریق تھا؟ اس بارے میں چند مثالیں احادیث سے پیش کرتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ میں نماز فجر پڑھائی آپؐ نے سورۃ مومنون سے تلاوت شروع کی۔ یہاں تک کہ جب موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا ذکر آیا … تو شدت خشیت الٰہی کے باعث آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانسی شروع ہو گئی۔ اس پر آپؐ نے رکوع کیا۔ (مسلم -کتاب الصلاۃ -باب القراء ۃ فی الصبح)

تو یہ خشیت اس حد تک تھی کہ اپنی قوم کی بھی ساتھ یقینا فکر ہو گی۔ کیونکہ آپؐ کا دل تو انتہائی نرم تھا کہ جس طرح فرعون اور اس کی قوم تباہ ہوئے یہ لوگ بھی کہیں انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائیں۔ اس بات پر اتنا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ ذکر کیا ہے، جو مثالیں دی ہیں، تو انکار کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے واقعات ہو سکتے ہیں۔ تو کہیں میری قوم بھی اس انکار کی وجہ سے تباہ نہ ہو جائے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت {وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ۔ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ}(الزّمر:68) کے بارہ میں دریافت کیا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا۔ اور قیامت کے دن زمین تمام تر اس کے قبضہ میں ہو گی اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں جبار ہوں، میں یہ ہوں، میں یہ ہوں، اللہ تعالیٰ اپنی بزرگی بیان کرتا ہے۔ راوی کہتے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات اس جوش سے بیان کر رہے تھے کہ منبر رسول اس طرح ہل رہا تھا کہ ہمیں اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں منبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لئے ہوئے گر نہ پڑے۔ (الدرالمنثور – تفسیر سورۃ الزمر زیرآیت نمبر 68)

اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے آپؐ کا جوش غیر معمولی ہو جایا کرتا تھا۔ کیونکہ آپؐ کی ذات ہی تھی جسے اللہ تعالیٰ کی جبروت اور قدرتوں کا صحیح ادراک تھا، صحیح علم تھا، صحیح گہرائی تک آپؐ پہنچ سکتے تھے۔ اور آپؐ ہی کی ذات تھی جس کے سامنے خداتعالیٰ کی ذات سب سے بڑھ کر ظاہر ہوئی۔ تو آپؐ کو پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا کیا قدرتیں ہیں اور طاقتیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا اگر رحم نہ ہو تو یہ لوگ جو اس کی باتوں سے دور ہٹتے جا رہے ہیں، اس کے حکموں پر عمل نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑی طاقتوں کے مالک ہیں، اس پہ بڑا فخر ہے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اُن کو وہ اس طرح تباہ و برباد کر دے جس طرح ایک کیڑے کی بھی شاید کوئی حیثیت ہو، ان کی وہ بھی حیثیت نہیں ہے۔

قرآن کریم جب نازل ہوا تو سب سے زیادہ آپؐ اس کو آسانی اور روانی سے پڑھ سکتے تھے اور اسی روانی میں اس کے مطالب کو بھی خوب سمجھ سکتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپؐ کا قرآن کریم پڑھنے کا طریق کیا تھا۔ اس بارے میں حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ مَیں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد – کتاب الوتر – باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ)

آپؐ کا قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں کیا طریق ہوتا تھا اس بارے میں اور بہت ساری روایات ہیں۔ جن میں بیان کرنے والوں نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کیا ہے۔ اُن سے آپؐ کے حسن قراءت کی اور بھی زیادہ وضاحت ہوتی ہے۔

ایک روایت یَعْلٰی بن مَملک کی ہے کہ مَیں نے اُمّ المومنین اُمّ سَلْمَۃ رضی اللہ عنہا سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت قراءت مفسرہ ہوتی تھی۔ یعنی ایک ایک حرف کے پڑھنے کی سننے والے کو سمجھ آ رہی ہوتی تھی۔ (ابوداؤد کتاب الوتر، استجاب الترتیل فی القرآء ۃ۔ حدیث نمبر 1463)

پھر حضرت اُمّ سَلْمَۃ ؓ ہی ایک اور جگہ روایت کرتی ہیں۔ آپؐ کے پڑھنے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرتے تھے آپ{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} پڑھ کر توقف فرماتے۔ پھر{اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} پڑ ھتے اور پھر توقف فرماتے، رکتے۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب فضائل القرآن الباب الاوّل، الفصل الثانی حدیث نمبر 2205)

تو آپؐ اتنا غور کر رہے ہوتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہر ہر لفظ میں معنی پنہاں ہیں اس لئے بڑے ٹھہر ٹھہر کر غور کرتے ہوئے وہاں سے گزرتے تھے۔

پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ آواز سے تلاوت کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب التطوع- باب فی رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل)

اور یہ بلند آواز بھی اور آہستہ آواز بھی انہیں حدود کے اندر تھی جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے، جس سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ؐ کی تلاوت کو کس طرح دیکھتا تھا۔ یہ بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کسی چیز کو ایسی توجہ سے نہیں سنتا جیسے قرآن کو سنتا ہے جب پیغمبر اس کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب استجاب الترتیل فی القرآء ۃ حدیث نمبر 1470)

تو اللہ تعالیٰ کی اپنے پیارے نبی پر جو نظر ہے اس وقت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے، جب وہ اپنا کلام اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خوش الحانی سے سنتا ہے کہ دیکھو میرا پیارا میرے کلام کو کس خوف کس خشیت اور کس محبت کے ساتھ مکمل طور پر اس میں فنا ہو کر پڑھ رہا ہے۔

پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ جب آپؐ رکوع کرتے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے۔ اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو آپؐ رک جاتے، تلاوت کے وقت اور رحمت طلب کرتے۔ اور جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو آپؐ رک جاتے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے۔ (سنن ابی داؤد- کتاب الصلاۃ -باب مایقول الرجل فی رکوعہ وسجودہٖ)

اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ یہ رحمت اور پناہ طلب کرتے وقت بعض دفعہ آپ ؐ کی روتے روتے ہچکی بندھ جایا کرتی تھی۔ آپؐ میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور پیار اور تعلق اور محبت اس طرح تھا کہ جس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما روایت کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپؐ میں بڑھاپے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سورۃ ھود، سورۃ واقعہ، سورۃ مرسلات اور {عَمَّ یَتَسَآءَ لُوْنَ} اور {وَاِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ}، سورۃ تکویر وغیرہ نے بوڑھا کر دیا ہے۔ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الواقعۃ حدیث نمبر 3297)

سور ۃھود میں ان قوموں کا ذکر بھی ہے جو انبیاء کے انکار کی وجہ سے ہلاک کر دی گئیں اور آپؐ جو رحمۃ للعالمین تھے، آپؐ کا دل اس بات سے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ اب بھی کہیں انکار کی وجہ سے قوم پر عذاب نہ آ جائے۔ پہلے انبیاء تو صرف اپنی اپنی قوموں کے لئے ہوتے تھے، آپؐ توکُل دنیا کے لئے نبی تھے۔ پس آپؐ کو اس زمانے میں اپنی موجودہ قوم کی بھی فکر تھی اور جو آئندہ آنے والی نسلیں ہیں اور دنیا کی تمام قومیں ہیں ان کی بھی فکر تھی، یہ لوگ عذاب میں گرفتارنہ ہو جائیں۔ اور پھر اس وجہ سے آپؐ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے، گڑ گڑاتے تھے، رحم مانگتے تھے۔ اور پھر اس سورۃ کی اس آیت نے بھی آپؐ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کر دی کہ

{فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ}(ھود:113) کہ جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہو جا اور وہ بھی قائم ہو جائیں جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے۔ اور حد سے نہ بڑھو یقینا وہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ :’’رسول اللہﷺ کو دیکھو کہ صرف اس ایک حکم نے کہ{ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ…}(ھود:113) نے ہی بوڑھا کر دیا۔ کس قدر احساس موت ہے آپ ؐ کی یہ حالت کیوں ہوئی؟ صرف اس لئے کہ تاہم اس سے سبق لیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک اور مقدس زندگی کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ہادیٔ کامل اور پھر قیامت تک کے لئے اور اس پر کل دنیا کے لئے مقرر فرمایا۔ مگر آپؐ کی زندگی کے کل واقعات ایک عملی تعلیمات کا مجموعہ ہیں۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 34 جدید ایڈیشن)

تو خود توآپؐ کی زندگی پاکیزہ تھی ہی، اس فکر میں بڑھاپا آیا کہ دوسرے بھی یہ معیار حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔ وہ بھی اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کر سکیں گے یا نہیں۔ دوسرے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ان نیکیوں پر جن نیکیوں کا حکم ہے قائم ہو سکیں گے کہ نہیں، ان برائیوں سے جن سے رکنے کا حکم ہے بچ سکیں گے کہ نہیں، اس فکر میں آپؐ پر ایک عجیب حالت طاری رہتی تھی۔ پھر اسی طرح باقی سورتیں ہیں جن کے مضامین میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور آخری زمانے کی خبریں، لوگوں کی حالتیں نہ سدھرنے کی وجہ سے تباہیاں، دجل اور یہ سب کچھ ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اللہ تعالیٰ نے یقینا آئندہ کا زمانہ بھی دکھا دیا تھا اور آپؐ جو ہر ایک کے لئے رحمت تھے اس بات سے بے چین ہو جاتے تھے کہ دنیا کا کیا ہو گا، اور امت کا کیا ہو گا اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کیا۔ کیا کسی نے ایسا محسن انسانیت دیکھا ہے؟ جو قرآن کریم کے اس طرح سمجھنے کی و جہ سے کئی صدیوں دور کی حالت دیکھ کر بھی بے چین ہو رہا ہے۔ آپؐ کہتے ہیں مجھے اپنی تو کوئی فکر نہیں ہے۔ مجھے تو ان باتوں نے بوڑھا کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دنیا میں ہو رہی ہیں اور دنیا میں ہونے والی ہیں۔ مجھے تو اس بات نے بوڑھا کر دیا ہے اور اس فکر نے بوڑھا کر دیا ہے، اور اس غم نے بے چین کر دیا ہے کہ کیوں دنیا اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف رجوع نہیں کرتی؟ پھر اور بہت ساری سورتیں ہیں۔ جن کی آپؐ بڑی باقاعدگی سے تلاوت کیا کرتے تھے جن میں قوموں کی تباہی، ان میں شرک رائج ہونے اور توحید سے پرے ہٹنے یا قیامت کے آنے وغیرہ کا ذکر ہے۔ پھرایسی سورتیں جن میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور توحید کا ذکر ہے، نیکیوں پر قائم ہونے کا ذکرہے، برائیوں سے بچنے کا ذکرہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا ذکر ہے، آخرین کے زمانے کا ذکر ہے، قربانیوں کا ذکرہے جن میں مالی قربانیاں اور جانی قربانیاں ہیں، اور پھریہ آپؐ کو نصیحت کہ آپؐ تو صرف نصیحت کرتے چلے جائیں، آپ کا کام نصیحت کرنا ہے۔ تو یہ سورتیں بھی بہت سی ہیں جن کی تلاوت آپ اکثر کیا کرتے تھے بلکہ بعض روایتوں میں آتاہے کہ روزانہ پڑھا کرتے تھے۔ اور یہ تو ہم پہلی روایات میں دیکھ ہی آئے ہیں کہ آپؐ کے پڑھنے کا طریق کیا تھا۔ عذاب کی آیات یا الفاظ جہاں بھی آتے تھے آپؐ کانپ جایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی خشیت غالب آجایا کرتی تھی۔ اور پھر یقینا آپؐ اسی صورت میں امت کے لئے دعائیں بھی کرتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات والی آیات سن کر، پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے تھے۔ غرض کہ عجیب انداز تھا، عجیب اسلوب تھا آپؐ کا قرآن کریم پڑھنے کا اور سمجھنے کا اور تلاوت کرنے کا۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ عَبْدُاللّٰہ بِن مُغَفَّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ مَیں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹ پر سوار سورۃالفتح پڑھتے دیکھا۔ آپؐ بار بارہر آیت کو دوہراتے تھے۔ (سنن ابی داؤد- کتاب الوتر- باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ – حدیث نمبر 1464)

اُس وقت آپؐ کے جذبات اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز تھے، اس کے شکر سے لبریز تھے۔ آپؐ کا سر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز تھا۔ روایات میں آتا ہے جس اونٹ پر آپ بیٹھے ہوئے تھے اس کی سیٹ کے اگلے حصے پر سر ٹِک گیا تھا۔ کیونکہ آپ کو اس فتح کے ساتھ آئندہ آنے والی فتوحات کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات اور زیادہ بڑھ گئے تھے۔

پھر سوتے وقت بھی آپؐ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے کر سویا کرتے تھے۔ چنانچہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر شب جب اپنے بستر پر جاتے تو دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اور {قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَد}، { قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَق} اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} پڑھتے۔ پھر جہاں تک ہو سکتا اپنے بدن پر ہاتھ ملتے اور آغاز سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصے سے فرماتے اور تین دفعہ ایسا ہی کرتے تھے۔ (بخاری- کتاب فضائل القرآن- باب فضل المعوذات)

گویا ایک ڈھال تھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی جس کو آپؐ اپنے اوپر اوڑھ لیا کرتے تھے۔ حالانکہ روایات میں آتا ہے کہ آپؐ کا سونا بھی جاگنے جیسا ہی تھا۔ کئی آدمی عموماً جاگتے ہوئے بھی سو رہے ہوتے ہیں۔ تو آپؐ کا تو یہ حال تھا کہ سوتے ہوئے بھی مسلسل دعائیں ہی کر رہے ہوتے تھے۔

پھر قرآن کریم کا علم جاننے والوں، حفظ کرنے والوں کی بھی آپؐ بے انتہا قدر کیا کرتے تھے کہ انہوں نے خداتعالیٰ کا کلام اپنے دل و دماغ میں بسایا ہوا ہے۔ اس زمانے میں جب جنگیں ہوا کرتی تھیں۔ جنگ احد میں بہت زیادہ شہادتیں ہوئی تھیں۔ اس میں قرآن جاننے والے، اس کا علم حاصل کرنے والے بہت سارے حفاظ بھی شہید ہوئے تھے۔ تو جب سب کی تدفین کا معاملہ پیش ہوا تو اس وقت آپؐ نے تدفین کے لئے ایک اصول وضع فرمایا جس کا روایات میں یوں ذ کر آتا ہے کہ جنگ احد کے دن زخمی صحابہ ؓ نے شہداء کے لئے قبریں کھودنے کی بابت اپنی مجبوری عرض کی بہت سارے زخمی بھی ہو گئے تھے اور جو شہید ہوئے تھے وہ کافی تعداد میں تھے۔ علیحدہ علیحدہ ان کے لئے قبرکھودنا بڑا مشکل تھا۔ طاقت اور ہمت نہیں تھی۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ کشادہ قبریں کھودو اور انہیں عمدگی سے تیار کرو اور ایک قبر میں دو دو اور تین تین شہداء کو دفن کر و اور فرمایا ان شہداء میں سے مقدم اس شہید کو رکھو جو قرآن زیادہ جاننے والا تھا۔ (ترمذی، کتاب الجہاد، باب ماجاء فی دفن الشہداء)

ان کا بھی اس وقت احترام ہے۔ شہید تو سارے ہیں لیکن قرآن زیادہ جاننے والے کو مقدم رکھو۔ قرآن کریم سے عشق و محبت تو آپؐ کو تھا ہی کیونکہ آپؐ پر نازل ہوا تھا۔ جس کے اعلیٰ معیاروں کامقابلہ کرنا تو ممکن نہیں ہے ہاں یہ معیار حاصل کرنے کے لئے حتی المقدور اپنی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ آپ ؐ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر اس شخص سے محبت تھی جو قرآن کریم عمدگی سے پڑھا کرتا تھا اور اس کو یاد کیا کرتا تھا۔ اور قرآن کریم کو پڑھنے، شوق سے پڑھنے اور یاد کرنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ ؓ سے قرآن کریم سنا بھی کرتے تھے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی کیا مَیں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں ؟ حالانکہ آپؐ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سن کر فرمایا:مَیں یہ پسند کرتا ہوں اپنے علاوہ کسی اور سے بھی قرآن کریم سنوں۔ تو حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سورۃ نساء کی تلاوت کرنا شروع کی یہاں تک کہ میں آیت {فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا}(النّساء:42) پر پہنچا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جاؤ۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (بخاری -کتاب فضائل القرآن -باب قول المُقْرِیِٔ لِلْقَارِیِٔ، حَسْبُکَ)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ توآپؐ کو اپنی اس گواہی پر، اللہ کے حضور اپنے اس مقام کا سن کر ایک خشیت کی کیفیت طاری ہو گئی تھی اور پھر یہ کہ میری اس گواہی کی وجہ سے جو ظاہر ہے ایک سچی گواہی ہونی ہے، میری امت کے کسی شخص کو سزا نہ ملے۔ آپؐ کو اس گواہی پہ فخر نہیں تھا کہ مجھے تو بڑا مقام ملا ہے۔ بلکہ فکر تھی۔ اور اس فکر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر بھی ہوتی تھی کہ امت میں قرآن کریم پڑھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے پیدا ہوں جس کے لئے آپؐ ہمیشہ تلقین فرماتے رہتے تھے۔

چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے قرآن کے ماننے والو!قرآن کو تکیہ نہ بناؤ اور رات دن کے اوقات میں اس کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرو اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو رواج دو۔ اور اس کے الفاظ کو صحیح طریق سے پڑھو اور جو کچھ قرآن میں بیان ہوا ہے ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے اس پر غور و فکر کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اس کی وجہ سے کسی دنیاوی فائدے کی خواہش نہ کرنا۔ بلکہ خدا کی خوشنودی کے لئے اس کو پڑھنا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)۔ یعنی صرف اس کو زبانی سہارا نہ بناؤ، قرآن کریم رکھا ہوا ہے اور پڑھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کو پڑھو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے الفاظ و معانی پر غورکرو اور پھر اس کا پڑھنا خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہو، نہ کہ ذاتی فائدے اٹھانے کے لئے جس طرح آج کل بعض لوگ کرتے ہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبیدہ الملیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ میں سے ہیں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سویا کرو۔ اور اس کی تلاوت رات کو اور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلا ؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو۔ اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب فضائل القرآن الباب الاوّل، الفصل الثالث حدیث نمبر 2210)

یعنی قرآن کریم کو پڑھو بھی اس کی تعلیم کو پھیلاؤ بھی اور اس پر عمل بھی کرو۔ دوسروں کو بھی بتاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا حافظ ہے وہ ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہو گا جو بہت معززاور بڑے نیک ہیں۔ اور وہ شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات پر شدت سے کار بند ہوتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہو گا۔ (بخاری، کتاب التفسیر- تفسیر سورۃ عبس- حدیث نمبر 4937)

تو زیادہ اجر قرآ ن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی ہے۔ اور عمل اسی وقت آئے گا جب اس کے مفہوم کو سمجھ سکیں گے۔ اور آپ ؐ اس کی بار بار تلقین اس لئے فرماتے تھے کہ قرآن کریم پڑھو اور سمجھو کہ قرآن کریم کو گھروں میں صرف سجاوٹ کا سامان نہ بناکے رکھو یا صرف یہی نہیں کہ پڑھ لیا اور عمل نہ کیا بلکہ عمل سے ہی درجات بلند ہوتے ہیں۔ پھر ایک اور ترغیب دیتے ہوئے آپؐ فرماتے ہیں کہ اونچی آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے لوگوں کے سامنے خیرات کرنے والا اور آہستہ آواز میں قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا چپکے سے خیرات کرنے والا۔ (سنن ابی داؤد -کتاب التطوع۔ باب فی رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت کے روز اس کے ماں باپ کو دو تاج پہنائے جائیں گے جن کی روشنی سورج کی چمک سے بھی زیادہ ہو گی، جو ان کے دنیا کے گھروں میں ہوتی تھی۔ پھر جب اس کے والدین کا یہ درجہ ہے تو خیال کرو کہ اس شخص کا کیا درجہ ہو گا۔ جس نے قرآن پر عمل کیا۔ (سنن ابی داؤد -کتاب الوتر – باب ثواب قراءۃ القرآن)

دیکھیں آپؐ کو ہر وقت یہ لگن تھی کہ اس کتاب کو امت ہمیشہ پڑھتی رہے، اس پر عمل کرتی رہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ اس کو چھوڑ دے۔ اور یقینا اس کے لئے آپؐ دعائیں بھی کرتے تھے۔ اور یہ جو درجات کی بلندی کے بارے میں فرما رہے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہی آپؐ کو بتایا ہو گا۔ اور اسی سے علم پا کر آپؐ نے بتایا ہے کہ اس کے درجات کی بلندی ہو گی۔ اللہ کرے کہ آپؐ کی اس دلی تمنا کو امت سمجھے۔ اور بھی بے شمار مثالیں ہیں جن میں آپ ؐ نے امت کو قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تاکہ وہ اعلیٰ اخلاق قائم ہو سکیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا تھا اور آپ چاہتے تھے کہ امت بھی ان پر عمل کرے اور قرآن کریم کی تعلیم تمام دنیا میں رائج ہو جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ اس بارہ میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید وحی متلوّ ہے اور اس کاہر حصہ متواتر اور قطعی ہے اور حتیٰ کہ اس کے نقطے اور حروف بھی۔ خداتعالیٰ نے اسے ایک زبردست اور کامل اہتمام کے ساتھ ملائکہ کی حفاظت اور پہرہ میں اتارا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کسی قسم کا دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور ہمیشہ اس بات پر مداومت سے عمل کیا کہ اس کی آیت آیت آپؐ کی آنکھوں کے سامنے اسی طرح لکھی جائے جس طرح نازل ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ آپؐ نے تمام قرآن کو جمع فرما دیا اور بنفس نفیس اس کی آیات کی ترتیب قائم فرمائی۔ آپؐ ہمیشہ نمازوں وغیرہ میں اس کی تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے رفیق اعلیٰ اور محبوب ربّ العالمین سے جا ملے‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت ’حمامۃ البشریٰ‘ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 216)

اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ مارچ 2005ء شہ سرخیاں

    خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ مارچ 2005 ء بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن، لندن۔

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور