دعوت الی اللہ اور ہماری ذمہ داریاں

خطبہ جمعہ 30؍ ستمبر 2005ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ۔ (حٰمٓ السجدہ: ۳۴)

پھر فرمایا:

اور اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم لوگ جو ایمان لے آئے ہو اور دین کی کچھ شدھ بدھ رکھتے ہو اور یہ دعویٰ کرتے ہو کہ مسلمان ہو گئے ہو اگر تم حقیقت میں مسلمان ہو اور نام کے مسلمان نہیں بلکہ کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا جذبہ رکھتے ہوئے تم نے اسلام قبول کیا ہے تو یاد رکھو کہ تم پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اور ان میں سے ایک ذمہ داری تبلیغ دین بھی ہے۔ اور تبلیغ بھی اس وقت فائدہ مند ہو گی، اس وقت اس کو بھی پھل لگیں گے جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے۔

پس ایک احمدی جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے اس زمانے کے حکم اور عدل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس لئے مانا ہے کہ میں کامل فرمانبرداروں میں شمار کیا جاؤں، اس لئے مانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کروں، اس لئے مانا ہے کہ آج خدا تک پہنچنے کا راستہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی دکھایا ہے تو پھر ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ تمام فیض بھی تبھی حاصل کر سکتے ہیں جب ان تمام حکموں پر بھی عمل کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور جن کی طرف اس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میرا پیغام تمام دنیا کو پہنچا دو اور آپؐ کو سب سے بڑا داعی الی اللہ قرار دیا تھا۔ فرماتا ہے {دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا}(الاحزاب:47) یعنی اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر بھیجا ہے۔ پس اس چمکتے ہوئے سورج نے ہر طرف اللہ تعالیٰ کی تعلیم کی روشنی پھیلائی اور اپنا سب کچھ اس راہ میں قربان کر دیا۔ اور اندھیروں کو دور کیا۔ جہاں آپ نے دعوت الی اللہ کرکے خود ان اندھیروں کو دور کیا وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کہ{وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ} (حٰمٓ السّجدۃ: 34) اپنے ماننے والوں کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو آگے پہنچاتے رہو۔ اور تم دنیا میں جو بھی بات کرتے ہو ان میں سب سے زیادہ پیاری اور خوبصورت وہ باتیں ہوتی ہیں جب تم اللہ تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچا رہے ہوتے ہو۔ لیکن ساتھ یہ بات بھی ہر وقت ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ دعوت الی اللہ اور تبلیغ بھی اس وقت ہی اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک نیکی شمار ہو گی جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے۔ ورنہ تو گنہگار ہو گے۔ ایسی تبلیغ میں برکت ہی نہیں ہو گی جب اپنے عمل اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق نہ ہوں۔ تمہاری باتیں سن کر ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر کوئی متاثر ہو جائے لیکن جب تمہارے درمیان میں آ کر تمہارے میں شامل ہو کر، تمہارے عمل دیکھے گاتو اگر اس شخص پر جو شامل ہو اہے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو، تو ہو سکتا ہے کہ جو بات کچھ کر رہے ہوں، عمل کچھ کر رہے ہوں ان کے عملوں کی وجہ سے ان کو دھکا لگے اور وہ کہے کہ ٹھیک ہے تعلیم اچھی ہے اس پر مجھے عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ بہت خوبصورت تعلیم ہے۔ لیکن جماعت میں مجھے شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں شامل بہت سوں کے اپنے عمل، اس تعلیم کے خلاف ہیں، اس تعلیم سے مختلف ہیں۔ اس سفر میں، سکنڈے نیوین ممالک میں مجھے ایک خاتون نے کہا، وہ احمدیت کے کافی قریب ہیں کہ میں جماعت کو بہت اچھا سمجھتی ہوں۔ جمعہ بھی آ کے اکثر ہمارے ساتھ ہی پڑھتی ہیں۔ لیکن بیعت نہیں کرنا چاہتیں۔ کیونکہ انہوں نے کہاکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ بعض عورتوں کی باتیں اور ایک دوسرے کے خلاف بولنا ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک غیر احمدی عورت میں ہے تو کیا ضرورت ہے کہ میں جماعت میں شامل ہوں۔ کبھی میں سوچتی ہوں کہ بیعت کر لوں، کبھی سوچتی ہوں نہ کروں، عجیب مخمصے میں پڑی ہوئی ہوں۔ اس لئے دعوت الی اللہ کے ساتھ نیک اعمال کا بہت جوڑ ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ورنہ باوجود اس کے کہ بات اچھی ہو گی، لیکن اپنے بد نمونے کی وجہ سے نیک نتائج پیدا نہیں ہوتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہاری علمی دلیلیں تمہارے تبھی کام آئیں گی جب تمہارے عمل بھی نیک ہوں گے۔ اور نیک عمل وہ ہیں جو دوسروں کو کھینچتے ہیں۔ پس آج میں اپنے اس مختصر سے خطبے میں (کیونکہ ابھی میں نے سفر کرنا ہے) اس طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ ایک تو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں۔ یہاں ہالینڈ کے لوگ، بعض یہاں شدت پسند بھی ہیں لیکن بہت تھوڑے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ یہاں بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو دین سے دلچسپی بھی رکھتی ہے اور اسلام کے بارے میں سننا بھی چاہتی ہے۔ یہ چھوٹا سا ملک ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت بھی شریف ہے۔ پھر یہاں دوسرے ملکوں کے بعض لوگ، عرب ممالک سے بھی آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں۔ اگر آپ لوگ پروگرام بنا کر ان میں تبلیغ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے عمل بھی ان کو متاثر کرنے والے ہوں تو یہاں مقامی لوگوں میں بھی اور مختلف قومیتوں میں بھی آپ کو کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔ اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچائیں۔ ایسا پیغام جو ثمر آور ہو جس میں پھل لگنے ہوں۔ وہ پیغام پہنچانے کے لئے مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ موقعے میسر آ سکتے ہیں۔ عموماً ہم سمجھتے ہیں کہ صرف مہینے میں یا کبھی کبھار ایک آدھ سٹال لگا لیا یا نمائش وغیرہ ہوئی تو اس میں سٹال لگا لیا تو یہی تبلیغ کا ذریعہ ہے اور کافی ہے۔ ٹھیک ہے یہ ایک ذریعہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس ذریعہ سے تبلیغ فرمایاکرتے تھے۔ حج کے موقعوں پر یا دوسرے میلوں کے موقعوں پر آپؐ جاتے تھے اور تبلیغ کرتے تھے، آپ کو بڑی سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے راستے ہیں۔ آپؐ نے تبلیغ کا ہر راستہ اپنایا۔ یہاں مثلاً دیہاتوں میں رابطے بڑھائیں۔ دیہاتوں میں نسبتاً شریف آدمی ہوتے ہیں۔ پھر عرب وغیرہ جو یہاں مختلف جگہوں سے، مختلف ملکوں سے آ کر آباد ہوئے ہیں ان میں جائیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جو بچے پڑھتے ہیں، ہمارے سٹوڈنٹ پڑھتے ہیں، وہ وہاں سیمینار وغیرہ کریں۔ اکثر ملکوں نے اس طرف توجہ دی ہے اور دے رہے ہیں اور ان جگہوں پر اسلام کا جو صحیح حقیقی اسلام ہے اور جو اسلام کی اصل خوبصورت تعلیم ہے اس کا تعارف حاصل ہو رہا ہے۔ ڈنمارک ایک چھوٹا سا ملک ہے، جماعت کی تعداد بھی شاید آپ کی جماعت سے کم ہی ہو۔ وہاں بھی میرے دورہ کے موقع پر نوجوان لڑکوں نے جو مختلف پیشوں سے بھی وابستہ تھے یا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اپنے پروفیسروں اور پڑھے لکھے لوگوں اور ممبر زآف پارلیمنٹ وغیرہ کو ایک ہوٹل میں ریسیپشن (Reception) میں بلایا اور سب نے بڑا اچھا اثر لیا۔ پہلے بھی کیونکہ ان کے رابطے تھے، احمدیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ تعارف تھا۔ مزید ان کو تعارف ہوا، ان کے دلوں میں مزید روشنی پیدا ہوئی۔ لیکن یہ پرانے رابطوں سے چیز پیدا ہو سکتی ہے کہ مسلسل رابطے ہوں۔ اس لئے رابطے بڑھائیں۔ اور پھر آپ کے نیک نمونے، آپ کی شرافت، آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق جب ان لوگوں پر ظاہر ہو گا تو تبلیغ کے مزید میدان کھلیں گے۔ پھر اس کے علاوہ بھی اپنے مقامی حالات کے مطابق مختلف راستے تلاش کریں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایک معین راستہ دے دیا، اس پہ عمل کرنا ہے۔ اور جب ایک لگن سے اور صبر کے ساتھ تبلیغی رابطے کریں گے اور لوگوں تک پیغام پہنچائیں گے، اپنے عملوں سے ان پر ایک نیک اثر بھی قائم کریں گے اور سب سے بڑھ کر دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ نیک نتائج بھی پیدا فرمائے گا انشاء اللہ۔ یہاں لوگوں میں دلچسپی میں نے دیکھی ہے۔ ہمارے قافلے کے کئی افراد نے بھی اس کو محسوس کیا ہے۔ جہاں بھی میں گیا ہوں مختلف جگہوں پہ، سیر کی غرض سے ہی چاہے گیا، لوگ دلچسپی سے سوال پوچھتے تھے۔ بعض لوگوں نے قافلے کے افراد سے جماعت کی ویب سائٹ کے بارے میں بھی پوچھا کہ لٹریچر وغیرہ پڑھنا تو مشکل ہے ہمیں ویب سائٹ بتا دو ہم خود ہی تلاش کریں گے اور وہاں انشاء اللہ بہت معلومات مل جائیں گی۔ اور یہ وعدہ کیا کہ ہم ویب سائٹ ضرور دیکھیں گے، معلومات بھی لیں گے۔

اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف جو پیس پیلس (Peace Palace) کہلاتا ہے اس کو جب میں دیکھنے گیا تو وہاں بھی گائیڈ تھی۔ وہ جب ہمیں اس کمرہ میں لے کر گئی جہاں مختلف ججوں کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ تو ان میں حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی تصویر بھی ہے۔ گائیڈ بھی پڑھی لکھی گائیڈتھی۔ یہ نہیں کہ یونہی کوئی معمولی سی پڑھی لکھی ہو۔ اس نے چوہدری صاحب کے بارے میں پوچھا کہ میں نے سنا ہے کہ وہ احمدی تھے۔ کیا وہ پکے احمدی تھے۔ کیونکہ ان لوگوں کی نظر میں دنیا دار تو مذہبی نہیں ہو سکتا۔ تو میں نے اس کو بتایا نہ صرف پکے بلکہ جماعت میں بہت مقام رکھتے تھے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا ترجمہ بھی کیا ہوا ہے اور خود بھی بعض کتابیں لکھی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کو نہیں پتہ تھا۔ وہاں اس عمارت میں لائبریری بھی ہے۔ لائبریری کا وہ تعارف کروا رہی تھی تو میں نے چوہدری صاحب کے حوالے سے اس سے پوچھا کہ کیا چوہدری صاحب کی کتابیں بھی رکھی جا سکتی ہیں کیونکہ یہاں قانون کی کتابیں ہیں، مذہبی کتابیں تو نہیں۔ تو اس نے کہا کہ ہاں رکھی جا سکتی ہیں۔ بہرحال میں نے امیر صاحب کو کہا ہے کہ اس خاتون کو بھی کتابیں دیں۔ اس سے بھی بعض مذہبی کتابیں دینے کا وعدہ کیا ہے اور لائبریری میں بھی رکھوانے کی کوشش کریں۔ تو ہمارا کام تو اللہ تعالیٰ کی باتوں کو، نیک اور پاکیزہ باتوں کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اور اپنے آپ کو پاک رکھتے ہوئے اپنے عملوں کے معیاروں کو اونچا کرتے ہوئے، دعاؤں کے ساتھ یہ پیغام پہنچانا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ برکت ڈالنے والا ہے۔ جو نیک فطرت ہو گا وہ آئے گا انشاء اللہ۔ ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ لیکن اگر ہم صرف منصوبہ بندیاں ہی کرتے رہیں اور مہینوں، سالوں صرف اس سوچ میں ضائع کردیں کہ کیا پلاننگ کرنی ہے اور کس طرح کی پلاننگ ہونی چاہئے۔ کیا کیا طریقے استعمال کرنے چاہئیں۔ اس بات پر سوچتے ہی رہیں اور عمل کچھ نہ ہو توہم یقینا گناہگار بن رہے ہیں۔ یہاں آ کر اگر نیک نیتی سے اس طرف بھی توجہ دیتے تو بعض لوگ یہاں کہتے ہیں بہت سارے اسائلم سیکرز آئے ہوئے ہیں کہ ہمارے کیس پاس نہیں ہو رہے۔ وہ روک پڑ گئی، یہ روک پڑ گئی، اتنے سال ہو گئے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اگر اس طرف بھی توجہ دے رہے ہوتے تو اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا ہے، سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ اس نیکی کی وجہ سے آسانیاں بھی پیداکر سکتا تھا۔ پس کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ اس طرف توجہ دیں۔ ابھی بہت میدان خالی ہے۔

ہر طبقہ میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچنا چاہئے۔ آج اسلام پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی ہو رہے ہیں۔ آج اگر اسلام کی خوبصورت تصویر کو کوئی پیش کر سکتا ہے تو وہ احمدی ہیں۔ آج اگر ہم نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا، نہ سمجھا تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں فرمانبرداروں میں شمار نہیں ہو سکتے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں جماعتی طور پر بھی اور ذیلی تنظیمیں اپنے طور پر بھی۔ خدام اپنے طور پر، انصار اپنے طور پر، لجنہ اپنے طور پر حالات کے مطابق اپنے تبلیغی پروگرام بنائیں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں، جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ، تبلیغ کے لئے عمل صالح شرط ہے۔ اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے اور سب کو گزشتہ کوتاہیوں کا مداوا کرنے کی توفیق عطافرمائے اور نیک نتائج پیدا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ ستمبر 2005ء شہ سرخیاں

    خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر2005 ء بمقا م ننسپٹ (ہالینڈ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور