آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ حملوں کے جواب میں اسلام کی خوبصورت اورپاکیزہ تعلیم کاتذکرہ

خطبہ جمعہ 10؍ مارچ 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غیر مسلموں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپؐ نعوذباللہ ایسا دین لے کر آئے جس میں سوائے سختی اور قتل وغارت گری کے کچھ اور ہے ہی نہیں اور اسلام میں مذہبی رواداری، برداشت اور آزادی کا تصور ہی نہیں ہے اور اسی تعلیم کے اثرات آج تک مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس بارہ میں کئی دفعہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے ہی بعض طبقے اور گروہ یہ تصور پید اکرنے اور قائم کرنے میں ممد ومعاون ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے اسی نظریے اور عمل نے غیر اسلامی دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لغو اور بیہودہ اور انتہائی نازیبااور غلیظ خیالات کے اظہار کا موقع پیدا کیا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طبقوں اور گروہوں کے عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیم اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں۔ اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسن سلوک، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، ان سے انصاف کرنا، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارے میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیرمسلموں کے لئے ہیں۔ ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے، ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کردے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوانہ نعروں اور عمل سے غیرمذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرأت پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپؐ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو۔ آپؐ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فعل، آپؐ کی زندگی کا پل پل اور لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپؐ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کئے، امن میں بھی اور جنگ میں بھی، گھر میں بھی اور باہر بھی، روز مرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی۔ آپؐ نے آزادی ضمیر، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں۔ اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکّہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیااور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ {لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ} (البقرہ:257) کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا وعاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو، لیکن کوئی جبر نہیں۔ آپ ؐ کی زندگی رواداری اور آزادی مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ان میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ مکّہ میں آپؐ کی دعویٰ نبوت کے بعد کی 13سالہ زندگی، کتنی سخت تھی اور کتنی تکلیف دہ تھی اور آپؐ نے اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کتنے دکھ اور مصیبتیں برداشت کیں۔ دوپہر کے وقت تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹائے گئے، گرم پتھر ان کے سینوں پر رکھے گئے۔ کوڑوں سے مارے گئے، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا ‘ قتل کیا گیا ‘ شہید کیا گیا۔ آپؐ پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے۔ سجدے کی حالت میں بعض دفعہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپؐ کی کمر پر رکھ دی گئی جس کے وزن سے آپؐ اٹھ نہیں سکتے تھے۔ طائف کے سفر میں بچے آپؐ پر پتھراؤ کرتے رہے، بیہودہ اور غلیظ زبان استعمال کرتے رہے۔ ان کے سردار ان کو ہلا شیری دیتے رہے، ان کو ابھارتے رہے۔ آپؐ اتنے زخمی ہو گئے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہیں، اوپر سے بہتا ہوا خون جوتی میں بھی آ گیا۔ شعب ابی طالب کا واقعہ ہے۔ آپؐ کو، آپؐ کے خاندان کو، آپؐ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا۔ بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو۔ یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت۔ تو یہ حالات تھے۔ آخر جب ان حالات سے مجبو رہو کر ہجرت کرنی پڑی اور ہجرت کر کے مدینے میں آئے تو وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ آور ہوئے۔ مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو آپؐ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ ان حالات میں جن کا مَیں نے مختصراً ذکر کیا ہے اگر جنگ کی صورت پیدا ہو اور مظلوم کو بھی جواب دینے کا موقع ملے، بدلہ لینے کا موقع ملے تو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ پھر اس ظلم کا بدلہ بھی ظلم سے لیا جائے۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیارقائم فرمائے۔ مکّہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے۔ آپؐ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول و ضوابط کو آپؐ نے نہیں توڑا۔ جو اخلاقی معیار آپؐ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں توڑا۔ آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑرہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے۔ لیکن اس کے مقابلے میں آپؐ کا اُسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔

جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی۔ اس پر حُبابؓ بن منذر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ منتخب کی

ہے آیایہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ؟ یا یہ جگہ آپؐ نے خود پسند کی ہے، آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمے پر قبضہ کر لیں۔ وہاں ایک حوض بنا لیں گے اور پھر جنگ کریں گے۔ اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پا نی پینے کے لئے نہیں ملے گا۔ تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں۔ چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑاؤ ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپؐ نے فرمایا :نہیں ان کو پانی لے لینے دو۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام ذکر رؤیا عاتکہ بنت عبد اللہ …صفحہ 424 دارالکتب العلمیۃ الطبعۃ الاولیٰ)

تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا۔ لیکن آپؐ نے اس سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپؐ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیں پانی لینے سے نہ روکا۔ کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی۔ اسلام پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ یہ لوگ جو پانی لینے آئے تھے ان سے زبردستی بھی کی جا سکتی تھی کہ پانی لینا ہے تو ہماری شرطیں مان لینا۔ کفار کئی جنگوں میں اس طرح کرتے رہے ہیں۔ لیکن نہیں، آپؐ نے اس طرح نہیں فرمایا۔ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں پوری طاقت نہیں تھی، کمزوری تھی، اس لئے شاید جنگ سے بچنے کیلئے یہ احسان کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ یہ غلط بات ہے۔ مسلمانوں کے بچے بچے کو یہ پتہ تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مسلمان کی شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اس لئے یہ خوش فہمی کسی کو نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس قسم کی خوش فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ نے تویہ سب کچھ، یہ شفقت کا سلوک سراپا رحمت ہونے اور انسانی قدروں کی پاسداری کی وجہ سے کیا تھا۔ کیونکہ آپ نے ہی ان قدروں کی پہچان کی تعلیم دینی تھی۔

پھر اس دشمن اسلام کا واقعہ دیکھیں جس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا۔ لیکن آپؐ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپؐ نے عطا فرمائی۔ چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ:

ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگیں کرتا رہا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان عفو اور امان کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا۔ اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی نہیں ٹھہر سکاتھا۔ اس لئے فتح مکہ کے بعد جان بچانے کیلئے وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپؐ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا۔ اور پھر جب وہ اپنے خاوند کو لینے کیلئے جب گئی تو عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہیں آتا تھا کہ مَیں نے اتنے ظلم کئے ہوئے ہیں، اتنے مسلمان قتل کئے ہوئے ہیں، آخری دن تک میں لڑائی کرتا رہا تو مجھے کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال وہ کسی طرح یقین دلا کر اپنے خاوند عکرمہ کو واپس لے آئی۔ چنانچہ جب عکرمہ واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات کی تصدیق چاہی تو اس کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا۔ پہلے تو آپ دشمن قوم کے سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے کہ یہ دشمن قوم کا سردار ہے اس لئے اس کی عزت کرنی ہے۔ اس لئے کھڑے ہوگئے اور پھر عکرمہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ (ماخوذمؤطا امام مالک کتاب النکاح و شرح زرقانی علی مؤطا الامام مالک باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ، حدیث نمبر1183)

عکرمہ نے پھرپوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے ؟یعنی میں مسلمان نہیں ہوا۔ اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے، آپ نے مجھے بخش دیا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کیلئے کھل گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ اے ! محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنیوالے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا۔ (السیرۃالحلبیہ۔ جلد سوم صفحہ109مطبوعہ بیروت)

تو اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے۔ حسن خلق اور آزادی مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو۔ لیکن اسلام کی تبلیغ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے بارے میں بتاؤ کیونکہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے۔ یہ خواہش اس لئے ہے کہ یہ تمہیں اللہ کا قرب عطا کرے گی اور تمہاری ہمدردی کی خاطر ہی ہم تم سے یہ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک قیدی کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ سعید بن ابی سعید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف مہم بھیجی

تو بنو حنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا۔ صحابہ نے اسے مسجد نبویؐ کے ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ثمامہ تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہو گا۔ اس نے کہا میرا ظن اچھا ہے۔ اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپؐ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدر دانی کرنے والا ہے۔ اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہے لے لیں۔ اس کے لئے اتنا مال اس کی قوم کی طرف سے دیا جا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اگلا دن چڑھ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے۔ چنانچہ ثمامہ نے عرض کی کہ میں تو کل ہی آپؐ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپؐ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو وہیں چھوڑا۔ پھر تیسرا دن چڑھا پھر آپ اس کے پاس گئے آپؐ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کر دو۔ تو ثمامہ کو آزاد کر دیا گیا۔ اس پر وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا۔ اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھااور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے۔ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ آپ کا دین ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے۔ بخدا میں سب سے زیادہ ناپسند آپؐ کے شہر کو کرتا تھا۔ اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے۔ آپ کے گھوڑسواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جا تو مَیں عمرہ کرنے کے لئے رہا تھا اب آپ کا کیا ارشاد ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے خوشخبری دی، مبارکباد دی اسلام قبول کرنے کی اور اسے حکم دیا کہ عمرہ کرو، اللہ قبول فرمائے گا۔ جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کہ کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم اب آئندہ سے یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ (بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ۔ وحدیث ثمامہ بن اُثال4372)

ایک دوسری روایت میں ہے کہ مارنے کی کوشش کی یا مارا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کوئی دانہ نہیں آئے گا۔ اور یہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت نہ آ جائے۔ چنانچہ اس نے جا کے اپنی قوم کو کہا اور وہاں سے غلہ آنا بند ہو گیا۔ کافی بری حالت ہو گئی۔ پھر ابو سفیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست لے کر پہنچے کہ اس طرح بھوکے مر رہے ہیں اپنی قوم پر کچھ رحم کریں۔ تو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلہ اس وقت ملے گا جب تم مسلمان ہو جاؤ بلکہ فوراً ثمامہ کو پیغام بھجوایا کہ یہ پابندی ختم کرو، یہ ظلم ہے۔ بچوں، بڑوں، مریضوں، بوڑھوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا ہونی چاہئے۔ تو دوسرے یہ دیکھیں کہ قیدی ثمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو جاؤ۔ تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہو تا رہا اور پھر حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوئے۔ آزاد کر دیا اور پھر دیکھیں ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں جکڑے جانے کیلئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

پھر ایک یہودی غلام کو مجبور نہیں کیا کہ تم غلام ہو میرے قابو میں ہو اس لئے جو مَیں کہتا ہوں کرو، یہاں تک کہ اس کی ایسی بیماری کی حالت ہوئی جب دیکھا کہ اس کی حالت خطرے میں ہے تو اس کے انجام بخیر کی فکرہوئی۔ یہ فکر تھی کہ وہ اس حالت میں دنیا سے نہ جائے جبکہ خدا کی آخری شریعت کی تصدیق نہ کر رہا ہو بلکہ ایسی حالت میں جائے جب تصدیق کر رہا ہو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان ہوں۔ تب عیادت کے لئے گئے اور اسے بڑے پیار سے کہا کہ اسلام قبول کر لے۔

چنانچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خادم یہودی تھا جو بیمار ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اور فرمایا تو اسلام قبول کر لے۔ (بخاری کتاب المرضیٰ باب عیادۃ المشرک حدیث 5657)

ایک اور روایت میں ہے اس نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا لیکن بہرحال اس نے اجازت ملنے پر یا خود ہی خیال آنے پر اسلام قبول کر لیا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات … حدیث نمبر1356)

تو یہ جو اسلام اس نے قبول کیا یہ یقینا اس پیار کے سلوک اور آزادی کااثر تھاجو اس لڑکے پر آپ کی غلامی کی وجہ سے تھا کہ یقینا یہ سچا مذہب ہے اس لئے اس کو قبول کرنے میں بچت ہے۔ کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ سراپا شفقت ورحمت میری برائی کا سوچے۔ آپؐ یقینا برحق ہیں اور ہمیشہ دوسرے کو بہترین بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، بہترین کام کی طرف ہی بلاتے ہیں، اسی کی تلقین کرتے ہیں۔ پس یہ آزادی ہے جو آپ نے قائم کی۔ دنیا میں کبھی اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت سے پہلے بھی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے تھے اور غلامی کو ناپسند فرماتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے بعد اپنا مال اور غلام آپؐ کو دے دئیے تو آپ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھے دے رہی ہو تو پھر یہ میرے تصرف میں ہوں گے اور جو مَیں چاہوں گا کروں گا۔ انہوں نے عرض کی اسی لئے مَیں دے رہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں غلاموں کو بھی آزاد کردوں گا۔ انہوں نے عرض کی آپ جو چاہیں کریں مَیں نے آپ کو دے دیا، میرااب کوئی تصرف نہیں ہے، یہ مال آپ کا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے اسی وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلاموں کوبلایا اور فرمایا کہ تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ بھی غرباء میں تقسیم کر دیا۔

جو غلام آپ نے آزاد کئے ان میں ایک غلام زید نامی بھی تھے وہ دوسرے غلاموں سے لگتاہے زیادہ ہوشیار تھے، ذہین تھے۔ انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ جو مجھے آزادی ملی ہے یہ آزادی تو اب مل گئی، غلامی کی جو مہر لگی ہوئی ہے وہ اب ختم ہو گئی لیکن میری بہتری اسی میں ہے کہ مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ہی ہمیشہ رہوں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپؐ نے مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آزاد نہیں ہوتا، مَیں تو آپ کے ساتھ ہی غلام بن کے رہوں گا۔ چنانچہ آپ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور یہ دونوں طرف سے محبت کا، پیار کا تعلق بڑھتا چلا گیا۔ زید ایک مالدار خاندان کے آدمی تھے، اچھے کھاتے پیتے گھر کے آدمی تھے، ڈاکوؤں نے ان کو اغوا کر لیا تھا اور پھر ان کو بیچتے رہے اور بکتے بکاتے وہ یہاں تک پہنچے تھے تو ان کے جو والدین تھے ‘ رشتہ دار عزیز بھی تلاش میں تھے۔ آخر ان کو پتہ لگا کہ یہ لڑکا مکّہ میں ہے تو مکہ آ گئے او رپھر جب پتہ لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہیں تو آپ کی مجلس میں پہنچے اور وہاں جا کے عرض کی کہ آپ جتنا مال چاہیں ہم سے لے لیں اور ہمارے بیٹے کو آزاد کر دیں، اس کی ماں کا رو رو کے برا حال ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ مَیں تو اس کو پہلے ہی آزاد کر چکاہوں۔ یہ آزاد ہے۔ جاناچاہتاہے توچلا جائے اور کسی پیسے کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا بیٹے چلو۔ بیٹے نے جواب دیا کہ آپ سے مل لیاہوں اتنا ہی کافی ہے۔ کبھی موقع ملا توماں سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ لیکن اب مَیں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔ مَیں تو اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوچکاہوں آپ سے جدا ہونے کا مجھے سوال نہیں۔ ماں باپ سے زیادہ محبت اب مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ زید کے باپ اور چچا وغیرہ نے بڑا زور دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ زید کی اس محبت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر پھر زید کے باپ اور چچا وہاں سے اپنے وطن واپس چلے گئے اور پھر زید ہمیشہ وہیں رہے۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ112)

تو نبوت کے بعد تو آپؐ کے ان آزادی کے معیاروں کو چار چاند لگ گئے تھے۔ اب تو آپ کی نیک فطرت کے ساتھ آپ پر اُترنے والی شریعت کا بھی حکم تھا کہ غلاموں کو ان کے حقوق دو۔ اگر نہیں دے سکتے تو آزاد کر دو۔

چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور بڑے غصے کا اظہار فرمایا۔ اس پر ان صحابی نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ کہا کہ میں ان کو آزاد کرتا ہوں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نہ آزاد کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے۔ (مسلم کتاب الایمان والنذر باب صحبۃ الممالیک و کفارۃ … حدیث نمبر4197)

تو اب دیکھیں یہ ہے آزادی۔

پھر دوسرے مذہب کے لوگوں کیلئے اپنی اظہار رائے کا حق اور آزادی کی بھی ایک مثال دیکھیں۔ اپنی حکومت میں جبکہ آپ کی حکومت مدینے میں قائم ہو چکی تھی اس وقت اس آزادی کا نمونہ ملتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے۔ ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی۔ مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی۔ اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور چن لیا۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا۔ یہودی شکایت لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمایا: لَا تُخَیِّرُ ْونْی عَلٰی مُوْسٰی کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ (بخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الأشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود حدیث نمبر 2411)

تو یہ تھا آپ کا معیار آزادی، آزادی مذہب اور ضمیر، کہ اپنی حکومت ہے، مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ کے قبائل اور یہودیوں سے امن وامان کی فضا قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے، وہ مسلمان نہیں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا، رعایا کے دوسرے لوگوں کے، ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے۔ قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپؐ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپؐ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کیا جائے۔ آپؐ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو۔ ٹھیک ہے تمہارے نزدیک مَیں تمام رسولوں سے افضل ہوں۔ اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دلآزاری اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے۔ اس کی مَیں اجازت نہیں دے سکتا۔ میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہو گا۔

تو یہ تھے آپؐ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے۔ بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔

آپ کے انسانی اقدار قائم کرنے اور آپؐ کی رواداری کی ایک اور مثال ہے۔ روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی لیلہ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمّیوں میں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراماً کھڑے ہو گئے۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَلَیْسَتْ نَفْسًا کیا وہ انسان نہیں ہے۔ (بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ یہودی حدیث نمبر 1312)

پس یہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانیت کا بھی۔ یہ اظہار اور یہ نمونے ہیں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ یہ اظہار ہی ہیں جن سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن سے پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ نہ کہ آجکل کی دنیاداروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پیدا کرنے کے اور کچھ نہیں۔ پھر ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران توراۃ کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے۔ یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کر دو۔ (السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ، ذکر غزوہ خیبر جلد 3صفحہ49)

باوجود اس کے کہ یہودیوں کے غلط رویے کی وجہ سے ان کو سزائیں مل رہی تھیں آپؐ نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کوٹھیس پہنچے۔

یہ چند انفرادی واقعات مَیں نے بیان کئے ہیں اور مَیں نے ذکر کیا تھا کہ مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اُس معاہدے کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، جو روایات پہنچی ہیں ان کا مَیں ذ کر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپؐ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرے میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرے میں بھی امن قائم ہو اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آپؐ نے یہودیوں سے جومعاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے۔ اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہو گئی تو یہودیوں کے خلاف مجبوراً سخت اقدام کرنے پڑے۔

دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی ہو گی۔ باوجود مسلمان اکثریت کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو۔

تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو۔ اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے۔ جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہرحال سزا ملے گی۔ باقی حفاظت کرنا سب کا مشترکہ کام ہے، حکومت کاکام ہے۔ پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا۔ اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق۔ فیصلہ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپؐ تھے۔ اس لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہو گا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا۔ حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے۔

پھر ایک شرط یہ ہے کہ کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کیلئے نہ نکلے گا۔ اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے۔ اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی رہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے۔

پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے۔ یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہو گی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہو رہا ہے تو اس فائدے کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کر ے گا۔ اسی طرح اگر مدینے پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کرینگے۔

پھر ایک شرط ہے کہ قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا۔ مسلمانوں نے یہاں آ کر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مدد لیں گے۔ ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔ یعنی اپنے اپنے خرچ خود کریں گے۔ اس معاہدے کی رو سے کوئی ظالم یا گناہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہو گاکہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ھجرۃ الرسول کتابہ بین المہاجرین والانصار موادعۃ 354-355 ایڈیشن 2001ء)

یعنی جیسا کہ پہلے بھی آ چکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہو گا، گناہ کرنے والا ہو گا، غلطی کرنے والا ہو گا۔ بہرحال اس کو سزا ملے گی، پکڑ ہو گی۔ اور یہ بلا تفریق ہو گی، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے۔

پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کیلئے آپؐ نے نجران کے وفدکو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی۔ جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے۔ آپؐ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپؐ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپؐ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی(جو نجران میں آئے تھے) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے گرجے ان کے عبادت خانے، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہر وں میں ہو ں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہو گی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں۔ پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاریٰ کو) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے۔ ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے۔ اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی۔ نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کوٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا۔ علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہو گی تو اسے مکمل آزادی ہو گی کہ وہ اپنے طو رپر عبادت کرے۔ اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کرمسائل پوچھنا چاہے تو جائے۔ گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپؐ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہو گا اور نہ احسان ہو گا بلکہ اس معاہدے کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہو گی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں۔ (ملخص سیاسی وثیقہ جات از عہد نبوی تا خلافت راشدہ از ڈاکٹر محمد حمید اللہ صفحہ 108 تا112)

تو یہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کیلئے۔ اس کے باوجود آپ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا۔ اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا‘‘۔ کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے’’ اور چونکہ ان کیلئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا۔ اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے۔ پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک کیلئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی، فوجداری، مالی سب ہدایتیں ہیں۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپؐ سے فیصلہ کراتے تھے۔

قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعویٰ کی ڈگری کی‘‘۔ اس کا ذکر مَیں کر چکا ہوں۔ ’’پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں ‘‘۔ یعنی یہ حکومت کا کام ہے۔

پھر فرماتے ہیں : ’’بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب‘‘۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے{وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ء َ اَسْلَمْتُمْ۔ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغِ} (الجزو 3سورۃ آل عمران) ’’اور اے پیغمبر! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پا گئے۔ اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کیلئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے۔ اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت ‘‘۔ یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں۔ ’’ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ {وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ} (الجزو 2سورۃ البقرۃ)۔ (ترجمہ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ243-242)

پس جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ شریعت اتری ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پر اترے ہوئے احکامات کے معاملے میں زیادتی کرتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتح مکہ کے موقع پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کی ایک مثال ہم دیکھ بھی چکے ہیں۔ اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملے گی۔ مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا۔ اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ مکمل طور پر یہ اعلان فرمادیا کہ {لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم} کہ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہزاروں درُود اور سلام ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 10؍ مارچ 2006ء شہ سرخیاں

    اسلام حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا۔

    کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کئے۔

    فرمودہ مورخہ 10؍مارچ 2006ء (10؍ امان 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور