نمازوں کے قیام اورنظام وصیت کی تحریک اورمحبت بھری نصائح

خطبہ جمعہ 14؍ اپریل 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

گزشتہ22-20سال میں جماعت احمدیہ کے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد اس ملک میں آئی ہے۔ گو اس لحاظ سے تو بہت بڑی نہیں جس طرح دوسرے ملکوں میں گئی ہے لیکن خاصی تعداد یہاں بھی آئی ہے۔ لیکن اس ملک میں احمدیت کا آغاز آپ لوگوں کے یہاں آنے سے نہیں ہوا، اس جگہ کی احمدیت کی تاریخ صرف22-20سال پرانی نہیں ہے، بعض کو شاید علم نہ ہوکہ آسٹریلیا میں احمدیت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے زمانے میں 1903ء میں آئی ہے۔ اور حضرت صوفی حسن موسیٰ خان صاحبؓ کو قبول احمدیت کی توفیق ملی گویا اس ملک میں احمدیت کا پودا لگے سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان بزرگ کو جنہوں نے اس وقت احمدیت قبول کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے جو بیعت کی قبولیت کا خط ملا اس میں جو ہدایات درج تھیں وہ آج بھی ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اور اگر آپ ان ہدایات کو پلّے باندھ لیں تو اس ملک میں رہتے ہوئے جہاں آپ اپنا تعلق خدا سے بھی جوڑ رہے ہوں گے ایسا تعلق جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا ہوتا ہے اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود اپنے بندے کا ہر لحاظ سے خیال رکھنے والا ہوتا ہے۔ بندہ سوتا ہے تو خدا اس کی خاطر جاگتا ہے، بندہ دشمن میں گھرتا ہے تو خدا اس کی حفاظت فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اپنے بندے کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور ایسی ایسی جگہوں سے ایسے ذرائع سے اس کی ضروریات پوری کرتا ہے کہ بندے کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اپنی طاقتوں کی جو تصویر اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھائی ہے، ہمیں بتائی ہے، اپنے وجود کا جو فہم اور ادراک ہمیں دیا ہے وہ صرف ایسی چیز نہیں کہ صرف قرآن کریم میں ہی درج ہے جس کا کسی کو تجربہ نہ ہو۔ خداتعالیٰ کے خالص بندے اس بات کا تجربہ رکھتے ہیں اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں ہمیں اس کے کئی نمونے نظرآتے ہیں۔ اور پھر اس دنیا کے انعاموں کے ساتھ ایسے بندے جو خدا کی طرف جھکنے والے ہوں ان کی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق عاقبت بھی سنور جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اس دنیا سے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ دائمی جنتوں کی بشارت بھی دیتا ہے۔

یہ بزرگ جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے یعنی حضرت صوفی موسیٰ خان صاحب ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً نیک انجام کی خبردی تھی۔ تو یقینا آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام دعاوی پر مکمل ایمان اور اپنی عملی حالت کو ان نصائح کے مطابق ڈھالنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہو گی، ان نصائح کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو لکھوائی تھیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ پر کامل اور مکمل ایمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کی تعلیم پر صدق دل سے چلنا یقینا اللہ تعالیٰ کے دنیا و آخرت کے انعاموں کا وارث بناتا ہے۔ آج بھی ہم اگر ان انعاموں کے وارث بننا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی تاکہ ہر وقت ہم اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرسکیں۔ اب مَیں ان نصائح کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے حضرت صوفی صاحب کو لکھی تھیں۔ پہلی بات یہ لکھی کہ’’آپ کی بیعت تو قبول ہو گئی ہے اب آپ کو چاہئے کہ نمازوں کو سنوار کر ادا کریں ‘‘۔

نماز ایک ایسی بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مومن مومن نہیں کہلا سکتا۔ اور پھر یہ کہ نماز پڑھنی کس طرح ہے۔ سنوار کر ادا کرنی ہے۔ نماز کو جلدی جلدی اس لئے ادا نہیں کرنا کہ مَیں نے اس کے بعد اپنے دنیاوی جھمیلوں کو نمٹانا ہے۔ نماز سنوار کر پڑھنے میں بہت سے لوازمات شامل ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے اپنی جسمانی صفائی کا خیال رکھا جائے اور سستی اور کسل کو دور کیا جائے۔ اس لئے ہمیں حکم ہے کہ وضو کرکے نماز پڑھیں۔ جن گھروں میں نماز کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ان کے بچوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ صرف بچپنے میں ہی نہیں بلکہ بڑے ہو کر بھی، جوانی میں بھی اور اس کے بعد بھی، کہ ایک تو نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور اگر کبھی کسی دوست کے ساتھ یا ویسے ہی مسجد میں آ گئے تو بغیر اس بات کا خیال رکھے کہ وضو قائم ہے یا نہیں، اگر نماز کھڑی دیکھیں گے تو اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ظاہری اور باطنی صفائی کے لئے وضو ضروری ہے۔ اور یہ نماز سنوار کر پڑھنے کی پہلی شرط ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر اس بارے میں ارشاد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ} (المائدۃ:7) کہ اے مومنو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ بھی اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ بھی دھو لیا کرو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں بھی دھو لیا کرو۔ تو اس حکم سے واضح ہو گیا کہ اگر پانی کی موجودگی ہے، اسلام اتنا سخت مذہب بھی نہیں، یہ وضو کی ساری شرط پانی کی موجودگی کے ساتھ ہے۔ تو وضو کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ جہاں یہ صفائی کے لئے ضروری ہے وہاں نماز میں توجہ قائم کرنے کے لئے پوری طرح ہوشیار کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ اور وضو کرنے کے اہتمام سے نمازسے پہلے ہی یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ مَیں اللہ کے حضور جانے لگا ہوں اور دنیاداری کو جھٹک کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ یا اس طرح پاک ہو کر حاضر ہونے کی کوشش کرنی ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مسلمان اور مومن بندہ وضو کرتا ہے اور اپنا منہ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام بدیاں دھل جاتی ہیں جن کا ارتکاب اس کی آنکھوں نے کیا ہو۔ پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کی وہ تمام غلطیاں دُھل جاتی ہیں۔ جو اس کے دونوں ہاتھوں نے کی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک اور صاف ہو کر نکلتا ہے۔ پھر جب وہ پاؤں دھوتا ہے تو اس کی وہ تمام غلطیاں پانی کے آخری قطرہ کے ساتھ دھل جاتی ہیں جس کا اس کے پاؤں نے ارتکاب کیا ہو۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک اور صاف ہوکر نکلتا ہے۔ (مسلم کتاب الطھارۃ باب خروج الخطاء مع ما ء الوضوء حدیث نمبر 465)

تو یہ ہے وضو کی اہمیت۔ لیکن اس سے یہ بھی مطلب نہیں لے لینا چاہئے کہ جان بوجھ کر غلطیاں کرتے رہو، بدنظریاں کرتے رہو، دوسروں کے حقوق مارتے رہو، اپنے مفاد کے لئے دوسروں کو دھوکہ دیتے رہو اور پھر وضو کر لوتو پاک ہو گئے۔ یہ بڑا واضح حکم ہے کہ اگر تم رحمن کے بندے ہو تو پھر اس کا خوف بھی دل میں رکھو۔ تو جو اللہ کا خوف دل میں رکھنے والا ہو گا وہ عادی مجرم نہیں ہو گا بلکہ انجانے میں جو غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں اور ان پر وہ فکر مند رہتا ہے ان سے انسان پاک ہو جاتا ہے۔

پھر نماز کو سنوار کر ادا کرنے کے سلسلے میں ایک اہم بات وقت پر نماز پڑھنا ہے۔ یہ وقت پر نماز پڑھنے کا احساس اور عادت ہی اس وصف کو نمایاں کرنے والی ہو گی کہ یہ انسان یا مومن بندہ نماز سنوار کر پڑھنے کی عادت اور خواہش رکھتا ہے اور اس کو عادت بھی ہے۔

نمازوں کو وقت پر ادا کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایاہے کہ {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا} (النّسآء:104) یعنی نماز یقینا مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے اور یہ نمازوں کے اوقات پانچ مقرر کئے گئے ہیں اور بر وقت نماز کی ایک اہمیت ہے۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی حقیقت سے ہمیں آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہروقت جو نماز کا حکم ہمارے لئے مقرر فرمایاہے وہ اپنے اندر کیا اہمیت رکھتا ہے۔ ہر نماز کی اہمیت آپؑ نے بڑی تفصیل سے بیان فرمائی۔ اس وقت اس تفصیل میں تو جانا ممکن نہیں ہے تاہم مختصر یہ کہ انسان کی زندگی مستقل بلاؤں اور مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے اور شیطان ہر وقت حملے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ پھر انسان کی زندگی میں مختلف کیفیات اور حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان بلاؤں اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے اور شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے اور ان مختلف کیفیات اور حالات کے مطابق جو صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ نے یہ فرض کیا ہے کہ دن کے پانچ حصوں میں اللہ کے حضور حاضر ہوا جائے اور جہاں انسان وقت پر نماز پڑھنے کی وجہ سے ان حملوں سے محفوظ رہے گا وہاں روحانیت میں ترقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا بھی ہو گا۔ پس ہر احمدی کو وقت پر نماز ادا کرنے کی پابندی کرنی چاہئے اس کی اہمیت پر توجہ دینی چاہئے۔

اس زمانے میں جب ہرطرف مادیت کا دَور دَورہ ہے اس طرف توجہ دینا اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ شیطان نت نئے طریقوں سے حملے کرکے انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ دل میں یہ وسوسے پیدا کرتا ہے کہ اگر تم نے اس و قت اپنا فلاں دنیاوی کام نہ کیا تو نقصان اٹھاؤ گے اس لئے پہلے اس کام کو نمٹا لو، نماز کا بھی وقت تو ہے لیکن بعد میں اسے جمع کرکے پڑھ لینا۔ اور کیونکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ ہر زمانے میں شیطان نے مختلف طریقوں سے حملے کرنے ہیں، ہر زمانے میں انسان کی مصروفیات مختلف ہونی ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ ایسی نمازیں جو تمہاری سستیوں اور جو تمہاری دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے وقت پر ادا نہ ہونے کا احتمال ہو یا وہ احتمال رکھتی ہوں ان کی خاص طور پر حفاظت کرو۔ کیونکہ پھر ایک نماز سے لاپرواہی آہستہ آہستہ باقی نمازوں سے بھی غافل کر دیتی ہے۔ اس لئے فرمایا {حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی} (البقرۃ:239) یعنی تم تمام نمازوں کا اور خصوصاً درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو۔ یہ نہیں فرمایا کہ فلاں نماز کی خاص طو رپر حفاظت کرو، درمیانی نماز کی تعریف بھی مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔ ہر وہ نمازدرمیانی ہے جس میں دوسری ترجیحات نماز کے مقابلے میں زیادہ ہوں اور جب انسان دوسری مصروفیات کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کو تمام دوسرے دنیاوی مفادات پر ترجیح دے رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ ایسے عبادت گزاروں کی ضروریات خود ایسی جگہ سے پوری فرما رہا ہو گا کہ جہاں سے انسان کو گمان بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی نیکی بغیر جزا کے نہیں چھوڑتا اور دونوں جہان کی نعمتوں سے نوازتا ہے۔

پھر نماز میں سنوار اور نکھار تب پیدا ہو گا جب نمازیں باجماعت ادا کی جا رہی ہوں گی کیونکہ ایک مومن پر نماز باجماعت فرض ہے۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ نماز کو قائم کرو، اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شرائط کو قائم کرنے کی جو سنت ہمارے سامنے قائم فرمائی وہ مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے کی ہے۔ ہمیں نماز باجماعت کی ادائیگی کی ترغیب دلاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ باجماعت نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔ (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث نمبر 1362)

ایک دفعہ ایک نابینا آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کی کہ مجھے راستے کی ٹھوکروں کی وجہ سے مسجدمیں آنے میں دِقّت ہے۔ کیامیں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں ؟ پہلے تو آپؐ نے اجازت دے دی۔ پھر فرمایا تمہیں اذان کی آواز آ جاتی ہے؟ اس نے عرض کی جی آواز تو آ جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر نماز کا حق یہ ہے کہ تم مسجدمیں آ کر نماز ادا کیا کرو۔ (مسلم کتاب المساجد باب یحب اتیان المسجد علی من سمع النداء حدیث نمبر 1371)

ایک اور روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مَیں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ ؐ نے فرمایا(سردی وغیرہ کی وجہ سے، موسم کی جو بھی شدت ہوتی ہے اس وجہ سے) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضوکرنا اور مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا یہ بھی ایک قسم کا رِبَاط یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنے کی طرح ہے۔ آپؐ نے یہ بات دو دفعہ فرمائی۔ (مسلم کتاب الطہارۃ۔ باب فضل اسباغ الوضوء علی مکارہ حدیث 475-476)

پس ہم یہ چھاؤنیاں اپنے دلوں کی سرحد پر قائم کریں گے تو شیطان کے حملوں سے اپنے دل کو بچا کر رکھ سکیں گے۔ ورنہ شیطان تو جس طرح اس نے چیلنج دیا ہوا ہے ہر راستے پر ہمارے پر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے۔ نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے۔ اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اللہ، راستباز، ابدال، قطب گزرے ہیں۔ انہوں نے یہ مدارج اور مراتب حاصل کئے؟اسی نماز کے ذریعے سے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ۔ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کیلئے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہیں۔ پس کشا کش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر4صفحہ605جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

نفس کی بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ یہ جو دنیا کی فکریں اور پریشانیاں ہیں ان سے چھٹکارا اسی نماز کے ذریعہ سے ملتا ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں :’’نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہ غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کر سکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں اور کل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ281-282)

جماعت احمدیہ کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ طرہ امتیاز ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں احمدی کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام دنیا کے احمدیوں کو اس تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ایک وحدت کی نشانی ہے پس یہ وحدت ہمارے اندر اس وقت تک قائم رہے گی جب تک ہم اپنی باجماعت نمازوں کا اہتمام کرتے چلے جائیں گے۔ ایک بڑا طبقہ اس طرف توجہ دیتا چلا جائے گا۔ اصولی طور پر تو 100فیصد احمدیوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے رہیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ یہ وحدت بھی قائم رہے گی۔

یہاں کیونکہ ہر جگہ ہماری مساجد نہیں ہیں۔ یہاں بھی شاید لوگ فاصلے پر رہتے ہوں گے تو جو لوگ مسجد میں آ سکتے ہوں انہیں ضرور آنا چاہئے اور جو نہ آ سکتے ہوں وہ قریب کے گھر آپس میں مل کر نماز سینٹرز قائم کریں اور نماز باجماعت کا اہتمام کیا کریں۔ اسی طرح دوسرے شہر کے لوگ ہیں جہاں بہت فاصلے کی دُوری ہو وہاں گھر والے اکٹھے ہو کر نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔ جس حد تک گھر اکٹھے ہو سکتے ہوں آپس میں مختلف گھر اکٹھے ہو جائیں، ایک جگہ سینٹر بنا لیں۔ جہاں یہ بھی ممکن نہ ہو، وہاں گھر کے سربراہ اپنے بیوی بچوں کو اکٹھا کریں اور نماز باجماعت کی اپنے گھر میں عادت ڈالیں۔ اس سے جہاں باجماعت نماز ادا کرنے کی وجہ سے نماز کا 27گنا ثواب لے رہے ہوں گے وہاں اپنے بچوں کے دلوں میں بھی نماز کی اہمیت پیدا کر رہے ہوں گے۔ اور یہ اہمیت جب ان بچوں کی زندگیوں کا حصہ بن جائے گی تو پھر ہمیشہ نماز سنوار کر ادا کرنے والے بن جائیں گے۔ پھر آپ لوگ اس فکر سے بھی آزاد ہو جائیں گے کہ کہیں ہمارے بچے اس معاشرے کے رنگ میں نہ ڈھل جائیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو حقیقی نمازیں پڑھنے والے، اس کے حضور جھکنے والے ہیں نمازیں ان کو فحشاء سے بھی روکتی ہیں۔ نمازیں ان کی محافظ بن جائیں گی اور ان کی حفاظت کے لئے کھڑی ہو جائیں گی۔ اس لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اپنی نسلوں کو بھی اگر سنوارنا ہے، بچانا ہے تو خود بھی نمازوں کی عادت ڈالیں تاکہ بچوں کو بھی عادت پڑے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر دوسری نصیحت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے خط میں حضرت صوفی صاحب کو فرمائی تھی وہ تھی، استغفار بہت پڑھتے رہیں۔ اپنے گناہوں پر نظر رکھتے ہوئے اور آئندہ ان سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتا ہے تو وہ اس طرح اپنے بندے کو نوازتا ہے کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

ایک حدیث میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں جب ہر طرف مایوسی ہو کھانے پینے سے لدا ہوا اس کا اونٹ گم جائے اور وہ اچانک اس کو مل جائے‘‘۔ (بخاری کتاب الدعوات باب التوبۃ حدیث 6308)

تو دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے استغفار سے خوش ہوتا ہے۔

قرآن کریم نے استغفار کے فوائد کے مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے {اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ۔ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا} (نوح:11)۔ اپنے رب سے استغفار کرو وہ بڑا بخشنے والا ہے اور پھر تمہارے استغفارکرنے کا تمہیں فائدہ کیا ہو گا۔

{یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا} (نوح:12) یعنی اس توبہ اور استغفار کی وجہ سے جو سچے دل سے کی جائے گی وہ برسنے والے بادل کو تمہاری طرف بھیجے گا اور مالوں اور اولاد سے تمہاری امداد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اُگائے گا اور تمہارے لئے دریا چلائے گا۔ تو دیکھیں انسان کتنے فوائد حاصل کر رہا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑ رہا ہے اور روحانی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ رہا ہے وہاں دنیاوی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ اب یہاں اس ملک میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں خاص طور پر اس صوبے میں پانی کی بڑی قلّت ہے اور بعض چیزوں کے لئے پانی کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ آج دنیا میں ہر جگہ احمدی ہی ہیں جو دنیا سے مشکلات دور کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پس اپنی عبادتوں اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنے کے عمل کو پہلے سے بڑھ کر ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اپنے ساتھ ساتھ انسانیت کی تکلیفوں کو بھی دور کرنے کا باعث بن سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر اس روحانی پانی سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے غیروں کو بھی سیراب کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام استغفار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقے کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ ‘‘ یعنی جوبخشش مانگنے والا ہے اس کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ ’’لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے ہیں اور یہ بھی مراد ہے کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہو ڈھانک لے‘‘۔ یعنی ایک آدمی نے کوئی گناہ کر لیا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ڈھانک لے۔ ’’لیکن اصل اور حقیقی معنے یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کرکے اس سے الگ نہیں ہوا۔ بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیداکرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے۔ یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے۔ پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقص کو خدا کی قیومیت کے ذریعے بگڑنے سے بچاوے‘‘۔ (ریویو آف ریلجنز جلد اول صفحہ193-192)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ صفت قیوم کے ذریعے سے اپنے آپ کو بگڑنے سے ہمیشہ بچائے رکھیں۔ پس استغفار کا بھی ایک بہت وسیع مضمون ہے۔ اپنی روحانی اور جسمانی بقا اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لئے احمدیوں کو بہت زیادہ اس طرف توجہ دینی چاہئے تاکہ جن انعاموں کے ہم وارث ہو چکے ہیں، ان کو تاقیامت پاتے چلے جانے والے ہوں۔ پھر آپؑ نے ایک نصیحت یہ فرمائی تھی کہ’’تقویٰ طہارت، اللہ رسول کی سچی فرمانبرداری میں کوشش کریں ‘‘۔ متقی وہ ہیں جو اپنے آپ کو دنیا کی لغویات سے بچا کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی آ جاتے ہیں اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی آجاتی ہے۔

پس ایک احمدی کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی زندگی کو عبادتوں سے اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہم میں طاقت پیدا ہو۔ پس ایک متقی انسان سلجھا ہوا انسان ہے جو ہر وقت اس کوشش میں ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’مبارک ہے وہ جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیارکرے اور بدقسمت ہے وہ جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ99جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس آپ لوگ جو اس خطہ زمین میں آئے، بہت سے اس لئے یہاں آ کر پناہ گزین ہوئے کہ زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے اپنے ملک میں آپ پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا گیاتھا۔ یہاں آ کر ذہنی یکسوئی بھی حاصل ہوئی اور مالی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے۔ یہ سب باتیں اس چیز کا تقاضا کرتی ہیں کہ آپ اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائیں، ہر لمحہ اور ہر آن خداتعالیٰ کو اپنی ڈھال بنائے رکھیں۔ اس دنیا کی چکا چوند خدا کی یاد سے بیگانہ نہ کر دے بلکہ مزید اس کے آگے جھکنے والا بنا دے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر اور اسوہ پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور آپؐ کے غلامِ صادق کی بیعت میں آ کر آپؑ کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے کامل فرمانبرداری دکھانے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ اس بارے میں آپ ؑ فرماتے ہیں کہ:

’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو۔ (یعنی جو اپنے آپ کو میری جماعت میں شامل سمجھتے ہو)۔ آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پرقدم مارو گے۔ سواپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خداتعالیٰ کو دیکھتے ہو۔ اور اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو۔ یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو خود تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہو گا‘‘۔ (کشتیٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)

اس ضمن میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے اور ہمیشہ جماعت میں اطاعت اور فرمانبرداری کی مثالیں قائم کرنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بعد ایک ایسا انتظام فرمایا جو نظام خلافت کے ذریعے سے ہے۔ اور اس نظام خلافت کے ساتھ ایک اور بھی نظام تھا۔ ایک تو فرمانبرداری اور اطاعت کا نظام دوسرے خدا اور رسول کا پیغام پہنچانے کے لئے اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے نظام وصیت کا اجراء۔ اور آج سے تقریباً 100سال پہلے یہ اجراء ہوا تھا۔ اور یہ جو وصیت کا نظام آپؑ نے جاری فرمایا تھا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا۔ اور اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے آپؑ نے بے شمار دعائیں کی ہیں۔ اور اس نظام میں شامل ہونے والوں، بلکہ جماعت کو تقویٰ پر قدم مارنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپؑ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں نصیحت کرتے ہوئے کہ:

خداتعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ:’’تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کو سیراب کر دیتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے۔ انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدم صدق نہیں رکھتا‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد نمبر 20صفحہ307)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اسکی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پائیں۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد نمبر 20صفحہ 308-309)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے دسمبر 2005ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے نظام وصیت کو جاری ہوئے 100سال پورے ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے بتایا اور 2004ء کے جلسہ UK میں مَیں نے تحریک کی تھی کہ 2005ء میں 100سال پورے ہوں گے تو کم از کم 50ہزار موصیان ہونے چاہئیں۔ تو جیسا کہ مَیں جلسہ سالانہ قادیان میں اعلان کر چکا ہوں کہ اللہ کے فضل سے یہ تعداد پوری ہو چکی ہے بلکہ اس تعداد سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ اب تو جماعتیں اپنا اگلا ٹارگٹ پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن یہاں آپ لوگوں کی دلچسپی کے لئے مَیں جو بات بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے کہ یہاں کی جو تاریخ مرتب ہوئی ہے اس کے مطابق حضرت صوفی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ بیرون ہندوستان نظام وصیت میں شامل ہونے والے اولین موصی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب وصیت کا اعلان فرمایا تو اس کے تین مہینے کے بعد ہی انہوں نے وصیت کر دی تھی اور اس طرح آپ کی وصیت مارچ 1906ء کی ہے۔ پھر اس لحاظ سے اس ملک میں یعنی اس براعظم میں نظام وصیت کے پہلے پھل کو بھی 100سال ہو گئے ہیں۔ یہ اپریل کا مہینہ ہے۔ صرف ایک مہینہ ہی اوپر ہوا ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے یقینا ایک تڑپ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دروازے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ اور یقینا یہ کامیاب کوشش تھی، کیونکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انجام بخیر ہونے کی خبر الہاماً دی تھی۔ اور آپ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے بھی وارث بنے جو آپؑ نے اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور بے شمار دعائیں ہیں جو آپ نے کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ میں ترقی دے، ایمان میں ترقی دے، نفاق سے پاک کرے تو یہ صرف اتفاق نہیں ہے۔

اب میں سمجھتا ہوں 100سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکاہوں۔ یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نظام وصیت کا پہلا پھل آج سے 100سال پہلے لگ چکا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہو گا۔ تو کہنا مَیں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور ہندوستان نظام وصیت کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ایک شخص تھا یا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی۔ آج آپ کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں اور 100سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیرصاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100فیصد جماعتی عہدیداران اس نظام میں شامل ہوں، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہدیداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں۔ گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں موصیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پرقدم مارنے والا ہو۔ یہ ایسا بابرکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے۔ اس میں شامل ہوکے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے۔

اب سالومن آئی لینڈز (Soloman Islands) میں وہاں کے ایک نئے احمدی ہیں، انہوں نے بھی وصیت کی ہے تو جس طرح نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ بڑھیں گے ان لوگوں کو دیکھ کر آپ لوگوں کو بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں یہ پرانے احمدیوں کو پیچھے نہ چھوڑ جائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت صوفی صاحب کو ان کے خط میں نمازوں میں دعائیں کرنے اور تہجد میں دعائیں کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے لئے بھی دعائیں کریں اور دنیاکو حق کی پہچان کی طرف توجہ دینے کے لئے بھی دعائیں کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کس قدر خوشی ہوتی تھی کہ کسی سعید روح کو حق پہنچے، حق کو پہچاننے کی توفیق ملے اور پھر آگے اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق ملے۔ اس کا اظہار خط کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔

حضرت مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت اقدس آپ کے اخلاص اور محبت اور خدا داد فہم رَسا سے بہت خوش ہوئے اور آپ کے حق میں دعا فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ آپ کو دینی اور دنیاوی برکت دے۔ اور آپ کے ہدایت اور تبلیغ سے بہتوں کو فائدہ دے اور ایک جماعت کے قلوب کو اس سلسلے کی طرف متوجہ کرے آمین‘‘۔

تو اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احمدیت کا پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ پس یہ میدان بھی ایسا ہے جس میں ہر احمدی کومعیّن پروگرام بنا کر جت جانا چاہئے۔ آج دنیا کی حالت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کو صحیح راستے کی تعیین کرکے دکھائی جائے صحیح راستہ بتایا جائے اور جو روحانی بارشیں اور فضل اور روحانی پانی کی نہریں اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل کی ہیں اور آپ کے لئے جاری فرمائی ہیں اس سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ یہ جلسے کے چند دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے میسر فرمائے ہیں کہ اس میں اپنے جائزے لیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی توقعات کو اپنے سامنے رکھیں۔ اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کریں، اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولادوں کو بھی زمانے کی لغویات سے محفوظ رکھیں۔ آپس میں محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔ اور پھر مستقل مزاجی سے اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ آپ کی تبلیغ بھی تبھی کامیاب ہو گی جب آپ کے اندر خود بھی پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔

اللہ تعالیٰ ان دنوں میں آپ سب کو اس لحاظ سے دعائیں کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اور جو باجماعت نمازیں پڑھنے اور نوافل پڑھنے کے مواقع میسر آئیں اس میں بھی باقاعدگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ جلسہ ہر لحاظ سے آپ کے لئے روحانی ترقی کا باعث بنے۔ آمین


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ اپریل 2006ء شہ سرخیاں

    نمازکو خوب سنوار سنوار کرپڑھنا چاہئے۔ نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے۔

    فرمودہ مورخہ 14؍ اپریل 2006ء (14؍شہادت 1385ھش) مسجد بیت الھدیٰ سڈنی (آسٹریلیا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور