متفرق دعائیں

خطبہ جمعہ 13؍ اکتوبر 2006ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:

آج بھی میں قرآن کریم کی متفرق دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ یہ جو رمضان کا مہینہ جا رہا ہے اور اب ہم آخری عشرے میں قدم رکھ رہے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کردکھاتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اپنے خاص قرب اور قبولیت سے نوازتا ہے۔ تو ایک احمدی کو ان خاص دنوں میں اور خاص وقت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جہاں ہم اپنی زبان میں اپنے لئے دعائیں کرتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اپنے عزیزوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں وہاں وہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہیں یاجو دعائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیں اور جن کو سب سے بڑھ کر قبولیت کا درجہ حاصل ہوا۔ آپ ہی تھے جن کو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کے سب سے زیادہ آداب اور صحیح طریق آتے تھے۔ یا پھر جماعت میں رائج بعض ایسی دعائیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کے بتائے ہوئے راستے اختیار کرتے ہوئے اپنے لئے بھی، اپنے عزیزوں کے لئے بھی، اولاد کے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی دعائیں کرنے کی توفیق پانے والے ہوں اور ہماری یہ دعائیں قبولیت کا درجہ پانے والی بھی ہوں۔ ہماری ان دعاؤں کا سلسلہ عارضی اور رمضان کے بعد ختم ہونے والا نہ ہو یا اپنے مقصد کو جس کے لئے دعائیں کی جا رہی ہیں حاصل کرنے کے بعدہم دعائیں کرنی بند نہ کر دیں۔ یہ نہ ہو کہ جب ہم مشکل میں ہوں تو دعائیں کرنے والے اور بے چین ہو ہو کر دعا کے لئے خط لکھنے والے ہوں (بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں ) اور جب اللہ تعالیٰ اس مشکل سے نکال دے تو پھر نمازوں کا بھی خیال نہ رہے۔ ایک احمدی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے اس طرز پر نہیں چلنا، اس طرز پر اپنی زندگی نہیں گزارنی کہ کام نکل گیا تو اللہ تعالیٰ کو بھول گئے، رمضان ختم ہو گیا تو نمازوں اور دعاؤں کی طرف توجہ نہ رہی۔ ہماری دعائیں ہمیشہ اور مستقل رہنے والی دعائیں ہونی چاہئیں، ہر دن ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور قبولیت دعا پر یقین میں بڑھاتے چلے جانے والا ہونا چاہئے۔ احمدی کے قدم نیکیوں میں ایک جگہ رک نہیں جانے چاہئیں۔ بلکہ فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَات کے مضمون کو سمجھتے ہوئے، نیکیوں کو سمجھتے ہوئے نیکیوں میں آگے سے آگے قدم بڑھانے والا ہونا چاہئے۔ ہر معاملے میں نظر اللہ تعالیٰ کی طرف ہونی چاہئے کیونکہ مومن وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر بھی اور اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکنے والا ہونا چاہئے اور اگر کوئی امتحان آئے تو تب بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکنا چاہئے۔ ایک مومن کی یہ شان نہیں ہے کہ جس طرح وہ کہتے ہیں نا فصلی بٹیرے یا فصلی کوّے کہ جب فصل ہوتی ہے تو نیچے آ جاتے ہیں، اس کی طرح صرف غرض پر ہی اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی ہے یا رمضان میں تو اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کر لی اور اس کے بعد بھول جائیں کہ عبادتیں بھی فرض ہیں، اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے بھی ضروری ہیں۔ پس ہمیشہ ایک مومن کو شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا رہنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو انعامات سے ہمیشہ نوازتا رہے۔

اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس دعا سے حصہ پانے والے ہوں جس میں آپ نے فرمایا کہ میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خداتعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں۔ اللہ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا کا وارث بننے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی اور نمازوں کی طرف توجہ صرف عارضی اور رمضان کے دوران ہی نہ ہو بلکہ ہمیشہ ہماری زندگیوں کا حصہ بنی رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کبھی اس کی عبادت سے، اس کے حضور دعاؤں سے غافل نہ ہوں اور کبھی ایسا نہ ہو کہ ہم دنیا کی طرف اس قدر جھک جائیں کہ دنیا کے کیڑے کہلائیں بلکہ ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جن کے نمونے سے لوگوں کو خدا یادآوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے دراصل دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو۔ پس جب ہماری یہ حالت ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ اپنی جناب سے ہمارے لئے ہر حال میں سکینت کے سامان پیدا فرمائے گا، اپنے فضلوں سے بھی نوازتا رہے گا اور ہماری دعائیں بھی قبولیت کا درجہ پاتی رہیں گی۔

اب جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ میں آج متفرق دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا، چند دعائیں پیش کرتا ہوں۔ جو سب سے پہلی دعا مَیں نے لی ہے وہ نیک اعما ل بجالانے کی توفیق حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کی دعا ہے۔ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ (سورۃ النّمل : 20) اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جو تجھے پسند ہوں اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔

انسان نیکیوں کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بھی اس کی دی ہوئی توفیق سے ہی ملتا ہے۔ جن لوگوں کو دعاؤں کا فہم و ادراک نہیں، جن لوگوں کو خدا کی قدرتوں کا صحیح فہم نہیں وہ اگر کوئی کامیابی حاصل کر لیں تو وہ اس کو اپنی صلاحیتوں پر محمول کرتے ہیں، اپنے ہنر یا اپنی کوشش یا اپنے علم کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ لیکن ایک نیک بندہ ہمیشہ ہر انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اے اللہ یہ تیرا فضل ہے جس کی وجہ سے مجھے انعام ملا ہے اور اس پر میں تیرا شکر گزار ہوں اور اس شکر گزاری کے اظہار کے طور پر مزید تیرے آگے جھکتا ہوں، تو مجھے توفیق دے کہ ہمیشہ تیرا شکر گزار رہوں اور کبھی میرے سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہو جو تجھے پسند نہ ہو۔ میرا شمار ہمیشہ نیکو کار لوگوں میں ہو، نیک کام کرنیوالے لوگوں میں ہو، ایسے احمدیوں میں ہو جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کو دیکھ کر دوسروں کو خدا یاد آ جائے۔ دوسروں کو بھی توجہ پیدا ہو کہ نیکیاں کمانے کیلئے، خدا کا قرب حاصل کرنے کیلئے وہ نمونے حاصل کرنے چاہئیں، وہ طریق اختیار کرنے چاہئیں جو ایسے احمدی کے ہیں جن کو دیکھ کر لوگوں کو خدا یاد آتا ہے۔ ایک احمد ی پر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان اور انعام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہونا بھی ہے اور پھر آپ کی جماعت میں شامل ہو کر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس انعام سے بھی نوازا ہے جس کا گزشتہ پندرہ سو سال سے مسلمان انتظار کر رہے ہیں اور جس کی عدم موجودگی کی وجہ سے، جس کے مسلمانوں میں قائم نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے، تفرقہ پڑا ہوا ہے اور وہ آپس میں بکھرے ہوئے ہیں۔ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے پاس حکومتیں بھی ہیں، تیل کی دولت بھی ہے، دوسرے قدرتی وسائل بھی ہیں لیکن غیروں نے ان کو اپنا زیر نگیں کیا ہوا ہے۔ ہر ملک کا دوسرے ملک کے خلاف ایسا رویہ ہوتا ہے کہ جس طرح دو دشمنوں کا ہے، رنجشیں ہیں، مسلمان ملکوں میں آپس میں رنجشیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں، ہر فرقہ دوسرے فرقے کی گردنیں مارنے پر ہر وقت تیار بیٹھا ہے، ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، علماء مسلمانوں کی غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں اتنی خوبصورت تعلیم دی ہوئی ہے لیکن اسکے باوجود مسلمانوں کی یہ حالت کیوں بنی ہوئی ہے؟ صرف اسلئے کہ آنے والے مسیح و مہدی کے انکاری ہیں۔ پس ایک احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج دنیا میں ایک احمدی کی پہچان مختلف رنگ میں ہے۔ احمدی جہاں بھی، جب بھی شرفاء میں تعارف حاصل کرتا ہے اور اسلام کی تعلیم کے صحیح پہلو سامنے رکھتا ہے تو ہر جگہ اس کی عزت کی جاتی ہے۔ پس اس عزت اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر احمدی کو شکر گزار ہونا چاہئے اور یہ شکر گزاری اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر مزید نیکیوں کی توفیق بھی دیتی ہے اور نیک اعمال پھراللہ تعالیٰ کے قرب کے معیار مزید بڑھانے میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح ایک سچے احمدی کا محور صرف اور صرف خداتعالیٰ کی ذات رہ جاتا ہے جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو نیک اعمال بجا لانے اور شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر دوسری دعا جو میں نے لی ہے یہ اولاد کے بارے میں ہے۔ ہر مرد عورت کی جب شادی ہوتی ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے اولاد ہو۔ اگر شادی کو کچھ عرصہ گزر جائے اور اولاد نہ ہو تو بڑی پریشانی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ مجھے بھی احمدیوں کے کئی خط روزانہ آتے ہیں جن میں اس پریشانی کا اظہار ہوتا ہے، دعا کے لئے کہتے ہیں۔ لیکن ایک احمدی کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اولاد کی خواہش ہمیشہ اس دعا کے ساتھ کرنی چاہئے کہ نیک صالح اولاد ہوجو دین کی خدمت کرنے والی ہو اور اعمال صالحہ بجا لانے والی ہو۔ اس کے لئے سب سے ضروری بات والدین کے لئے یہ ہے کہ وہ خود بھی اولاد کے لئے دعا کریں اور اپنی حالت پربھی غور کریں۔ بعض ایسے ہیں جب دعا کے لئے کہیں اور ان سے سوال کرو کہ کیا نمازوں کی طرف تمہاری توجہ ہوئی ہے، دعائیں کرتے ہو ؟توپتہ چلتا ہے کہ جس طرح توجہ ہونی چاہئے اس طرح نہیں ہے۔ مَیں اس طرف بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکاہوں کہ اولاد کی خواہش سے پہلے اور اگر اولاد ہے تو اس کی تربیت کے لئے اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے یا جو اولاد موجود ہے وہ نیکیوں پر قدم مارنے والی ہو اور قرۃ العین ہو۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا حضرت زکریا ؑ کے حوالے سے ہمیں سکھائی ہے کہ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَاءِ (آل عمران:39) کہ اے میرے رب مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ ذریّت عطا کر یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے۔ ایسی پاک نسل عطا کر جو تیری رضا کی راہوں پر چلنے والی ہو۔ اور جب انسان یہ دعاکر رہا ہو تو خود اپنی حالت پہ بھی غور کر رہا ہوتا ہے کہ کیا میں ان سارے حکموں پر عمل کر رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے دئیے ہیں ؟

پھر ایک جگہ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کا ذکر ہے، فرمایا رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ (الصّٰفّٰت:101) اے میرے رب مجھے صالحین میں سے وارث عطا کر، مجھے نیک صالح اولاد عطا فرما۔ پس جو والدین اولاد کے خواہش مند ہوں انہیں نیک اولاد کی خواہش کرنی چاہئے اور پھر اولاد کی تربیت بھی اس کے مطابق ہو اور جیسا کہ میں نے کہا اولاد کی تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں۔ واقفین نو بچوں کے جو والدین ہیں انہیں خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے جس انعام سے نوازا تھا اس نے تو قربانی کا بھی اعلیٰ معیار قائم کر دیا۔ پس جو والدین اپنے بچوں کو وقف نو میں شامل کرتے ہیں انہیں خصوصاً اور دوسروں کو بھی، عام طور پرہر احمدی کو دعا کرتے رہناچاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بننے والی ہو، جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے والی ہو اور صالحین میں شمار ہو۔

اولاد کی اصلاح کے ضمن میں ایک اور قرآنی دعا اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الاحقاف:16)کہ میرے بچوں کی بھی اصلاح فرما، کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اپنی حالت کی پاک تبدیلی اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد اور بیوی کے واسطے بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ اکثر فتنے اولاد کی وجہ سے انسان پر پڑ جاتے ہیں اور اکثر بیوی کی وجہ سے…… ان کی وجہ سے بھی اکثر انسان پر مصائب شدائد آ جایا کرتے ہیں ‘‘ بڑی سخت مصیبتیں آ جایا کرتی ہیں تو اولاد کے لئے بہت دعا کرنی چاہئے۔ فرمایا ’’ توان کی اصلاح کی طرف بھی پوری توجہ کرنی چاہئے اور ان کے واسطے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔ ‘‘ (الحکم جلد 12نمبر16مورخہ 2؍ مارچ1908ء صفحہ6، ملفوظات جلد پنجم صفحہ456جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر والدین کا وجود ہے، یہ ایسا وجود ہے کہ انسان تمام عمر بھی ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں اتار سکتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ وہ جو کچھ بھی تمہارے ساتھ سلوک کریں، تمہارے سے سختی کریں، نرمی کریں، تم نے ہر حال میں ان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرنا ہے۔ تم نے ان کی کسی بری لگنے والی بات پر بھی اُف تک نہیں کہنی۔ صبر سے ہر چیز کو برداشت کرنا ہے۔ ہمیشہ ان سے نرمی اور پیار کا معاملہ رکھنا ہے کیونکہ تمہارے بچپن میں ان کی جو تمہارے لئے قربانیاں ہیں تم ان کا احسان نہیں اتا ر سکتے۔ اور یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل: 25) کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم کر جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری تربیت کی تھی۔

حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مٹی میں ملے اس کی ناک، مٹی میں ملے اس کی ناک۔ یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ دہرائے۔ یعنی ایساشخص قابل مذمت ہے، بڑا بدبخت اور بدقسمت ہے۔ لوگوں نے عرض کی کونسا شخص؟ تو آپ نے فرمایا وہ شخص جس نے اپنے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔ (مسلم کتاب البر و الصلۃ باب رغم انف من ادرک ابویہ)

ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ جس نے رمضان پایا اور اپنے گناہ نہ بخشوائے اور والدین کو پایا اور اپنی بخشش کے سامان نہ کروائے۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب قول رسول الہ رغم انف رجل)

آپؐ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر پوچھنے والے نے پوچھا، سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق کون ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیسری دفعہ پوچھا آپؐ نے فرمایا تیری ماں اور چوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا تیرا باپ۔ (بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ)

تو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ماں باپ کے احسانوں کا ایک انسان بدلہ نہیں اتار سکتا لیکن دعا اور حسن سلوک ضروری ہے۔ اس سے کچھ حد تک آدمی اپنے فرائض کو ادا کر سکتا ہے اور اسی سے بخشش ہے۔

اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ جب معاشرے میں برائیاں پھیلتی ہیں تو پھرہر طرف سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ماں باپ کی طرف سے بھی شکائتیں ہوتی ہیں۔ بعض لوگ خود تو ماں باپ کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں جوبڑی اچھی بات ہے، کرنی چاہئے۔ لیکن اپنے بچوں کو اس طرح ان کی ماں کی خدمت کی طرف توجہ نہیں دلا رہے ہوتے جس کی وجہ سے پھر آئندہ نسل بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے۔ تو آپ بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں۔ اور بعض دفعہ جب ایک انسان بچوں کے سامنے اپنی بیوی سے بدسلوکی کر رہا ہو گا، اس کی بے عزتی کر رہا ہو گا تو عزت قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لئے ماؤں کی عزت قائم کروانے کے لئے اور بچوں کی تربیت کے لئے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی بیویوں کی، اپنے بچوں کی ماؤں کی عزت کریں۔ اب میں بعض قرآنی دعائیں جن میں مخالفین کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی گئی ہے پیش کرتا ہوں۔ یہ دعائیں ہو سکتا ہے بعضوں کو یاد بھی ہوں لیکن بعض کو یادنہیں ہوں گی۔ لیکن جب مَیں یہ دعائیں پڑھوں تو آپ لوگ میرے ساتھ پڑھتے جائیں یا آمین کہتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مخالفین کے شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور رحم فرمائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ہم پر ڈالے، ثبات قدم عطا فرمائے۔ بعض جگہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جو احمدیوں کے لئے برداشت سے باہر ہوتے ہیں تو کبھی کسی احمدی کے لئے کوئی ایسا موقع نہ آئے کہ جہاں وہ ٹھوکر کھانے والا ہو۔ ہمیشہ ہم میں سے ہر ایک ان برکتوں کا وارث بنتا رہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہیں۔ ایک دعا ہے رَبِّ انْصُرْنِیْ بِمَا کَذَّبُوْنِ (المؤمنون:27) اے میرے رب میری مدد کر کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا۔ پھر رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (التحریم:12) اے میرے رب میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔ یہ وہ دعا ہے جو فرعون کی بیوی نے کی تھی۔ احمدیوں کے لئے تو بعض ملکوں میں بڑے شدید حالات ہیں۔ کئی فرعون کھڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ پھر ایک دعا ہے رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُالْفَاتِحِیْنَ (الاعراف:90) اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (سورۃ القمر:11) مَیں یقینا بہت مغلوب ہوں میری مدد کر۔ فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَھُمْ فَتْحًا وَ نَجِّنِیْ وَ مَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الشعراء:119) پس میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما، مجھے اور میرے ساتھ ایمان والوں کو نجات عطا فرما۔

فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (المائدہ:26)ہمارے درمیان اور فاسق قوم کے درمیان فرق کر دے۔ اس دعا کو بھی آجکل بہت پڑھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور مسلمان ملکوں میں جماعت کے لئے راستے کھولے تاکہ ان کو صحیح طورپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچایاجا سکے اور اس راستے میں جو روکیں ہیں، جو سختیاں ہیں جو ان مسلمان کہلانے والوں نے احمدیوں پر روا رکھی ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو دور فرمائے۔

رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ (آل عمران:54) اے ہمارے رب ہم اس پر ایمان لے آئے جو تونے اتارا اور ہم نے رسول کی پیروی کی۔ پس ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور یہ بھی دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اس پر قائم رہیں۔ رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ اَعُوْذُبِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ (المؤمنون:99,98) اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب کہ وہ میرے قریب پھٹکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے لے کر اب تک ہمیشہ شیطانوں نے وسوسے ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ مسلم امت میں جن لوگوں کے پاس منبر تھا، جو لوگ بظاہر نام نہاد دین کے علمبردار سمجھے جاتے تھے ان لوگوں نے امت کو ورغلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے وسوسے ڈال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کے وسوسوں سے جو شیطانوں کا رول ادا کر رہے ہیں ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے۔

اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعائیں ہیں۔ حضرت ابو بردہ بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کی طرف سے خوف محسوس کرتے تھے تو ان الفاظ میں دعا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ (سنن ابی داؤد کتاب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما)

کہ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں کے مقابل پر رکھتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ یعنی ہم ان کے شر سے تیری حفاظت میں آتے ہیں۔ ثبات قدم کے لئے، دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی۔ شہربن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اے ام المومنین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس ہوتے تھے تو ان کی اکثر دعا کیا ہوا کرتی تھی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب فی عقد التسبیح بالید)

اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم کر دے۔

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کثرت سے دعائیں کیں کہ ہم کو ان میں سے کچھ بھی یاد نہ رہا۔ چنانچہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ نے بہت سی دعائیں کی ہیں مگر ہمیں تو ان دعاؤں میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسی دُعا نہ بتا دوں جوان سب دعاؤں کی جامع ہے۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ یہ دعا کیا کرو اَللّٰھُمَّ اِنَّانَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَ اَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَ عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب فی عقد التسبیح بالید)

اے اللہ! ہم تجھ سے اس خیر کے طالب ہیں جس خیر کے طالب تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم ہر اس شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ سے پناہ طلب کی تھی اور اصل مددگار تُو ہی ہے اور تجھ ہی سے ہم دعائیں مانگتے ہیں اور اللہ کی مدد کے بغیرنہ تو ہم نیکی کرنے کی طاقت پاتے ہیں اور نہ ہی شیطان کے حملوں سے بچنے کی قوت۔ پھر ابو ہانی بتاتے ہیں کہ انہوں نے عبدالرحمن الحُبُلی سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے، وہ دونوں کہتے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تمام بنی نوع انسان کے دل خدائے رحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں میں ایک دل کی مانند ہیں، وہ اسے جیسا چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ۔ (مسلم کتاب القدر باب تصریف اللہ تعالی القلوب کیف شاء)

اے دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت میں پھیر دے۔ اطاعت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی ہے۔ اس کے لئے خاص طور پر یہ دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

ظالموں کے ظلم سے نجات پانے کے لئے جو دعا آپ نے سکھائی اس کا ایک روایت میں ذکر آتا ہے۔ خالد بن عمران روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے لئے یہ دعائیں کئے بغیر مجلس سے کم ہی اٹھتے تھے کہ اے اللہ! ہمیں اپنی خشیت یوں بانٹ جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے اور ایسی اطاعت کی توفیق عطا فرما جو ہمیں تیری جنت تک پہنچا دے۔ اور تو ہمیں ایسا یقین عطا کر جس سے تو ہم پر دنیا کے مصائب آسان کر دے۔ اور تو ہمیں ہمارے کانوں، ہماری آنکھوں اور ہماری قوتوں سے تب تک فائدہ اٹھانے کی توفیق دے جب تک تو ہمیں زندہ رکھے اور اسے ہمارا وارث بنا۔ اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والے سے ہمارا انتقام لینے والا تو ہی بن۔ اور ہم سے دشمنی رکھنے والے کے مقابل پر ہماری مدد فرما۔ ہمارے مصائب ہمارے دین کی وجہ سے نہ ہوں۔ اور دنیا کمانا ہی ہماری سب سے بڑی فکر اور ہمارے علم کا مقصود نہ ہو۔ اور تو ہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب فی عقد التسبیح بالید)

پھر حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیاکرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میری نصرت کر اور میرے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا اور میرے حق میں تدبیر کر مگر میرے خلاف تدبیر نہ کرنا اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان بنا دے اور مجھ پر زیادتی کرنے والے کے خلاف میری مدد کر۔ اے اللہ مجھے اپنا بہت شکرکرنے والا، کثرت سے تیرا ذکر کرنے والا، تجھ سے بہت ڈرنے والا اور اپنا بے حد مطیع اور اپنی طرف جھکنے والا، بہت نرم دل اور جھکنے والا بنا دے۔ اے اللہ میری توبہ قبول کر اور میرے گناہ دھوڈال اور میری دعا قبول کر اور میری دلیل کو مضبوط بنا دے اور میری زبان کو درستگی بخش اور میرے دل کو ہدایت عطا کر اور میرے سینے کے کینے کو دور کر دے۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات)

اب بعض دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہیں جو الہامی دعائیں ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے ’’ رَبِّ احْفَظْنِیْ فَاِنَّ الْقَوْمَ یَتَّخِذُوْنَنِیْ سُخْرَۃً اے میرے رب میری حفاظت کر کیونکہ قوم نے تو مجھے ٹھٹھے کی جگہ ٹھہرا لیا۔‘‘ (بدر جلد 2نمبر 48 مؤرخہ 29؍ نومبر 1906ء صفحہ3۔ الحکم جلد 10نمبر40مورخہ24؍نومبر1906ء صفحہ1۔ تذکرہ صفحہ578 ایڈیشن چہارم)

پھر ستمبر 1906ء کاالہام ہے ’’ رَبِّ لَا تُبْقِ لِیْ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْرًا۔ اے میرے رب میرے لئے رسوا کرنے والی چیزوں میں سے کوئی باقی نہ رکھ۔‘‘ (الحکم جلد10نمبر31 مورخہ10؍ستمبر1906ء۔ الحکم جلد10نمبر32 مؤرخہ 17؍ ستمبر 1906صفحہ 1۔ تذکرہ صفحہ568ایڈیشن چہارم)

’’ رَبِّ اجْعَلْنِیْ غَالِبًا عَلٰی غَیْرِیْ۔ اے میرے رب مجھے میرے غیر پر غالب کر۔‘‘ (بدر جلد 6نمبر 32مؤرخہ 8؍ اگست 1907ء صفحہ 4، الحکم جلد 11 نمبر 28 مؤرخہ 10؍ اگست 1907ء صفحہ 2)

’’ رَبَّنَا لَاتَجْعَلْنَا طُعْمَۃً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کی خوراک نہ بنا۔‘‘ (البشریٰ مرتبہ حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ صفحہ 53۔ تذکرہ صفحہ684ایڈیشن چہارم)

’’رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی، رَبِّ اغْفِرْ وَا رْحَمْ مِنَ السَّمَآئِ، رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ، رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّد، رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔‘‘ (تحفۃ بغداد، روحانی خزائن جلد 7صفحہ 25)

اے میرے رب مجھے دکھلا کہ تو کیونکر مردوں کو زندہ کرتا ہے، اے میرے رب مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر، اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑاور تو خیرالوارثین ہے، اے میرے رب امت محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے رب ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ ‘‘

’’یَا رَبِّ یَارَبِّ انْصُرْ عَبْدَکَ وَاخْذُلْ اَعْدَائَکَ۔ اِسْتَجِبْنِیْ یَا َربِّ اسْتَجِبْنِیْ۔ اِلَامَ یُسْتَھْزَأُبِکَ وَ بِرَسُوْلِکَ۔ وَ حَتَّامَ یُکَذِّبُوْنَ کِتَابَکَ وَیَسُبُّوْنَ نَبِیَّکَ۔ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا مُعِیْنُ۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 569)

اے میرے رب اپنے بندہ کی نصرت فرما اور اپنے دشمن کو ذلیل ورسوا کر۔ اے میرے رب میری دعا سن اور اسے قبول فرما۔ کب تک تجھ سے اور تیرے رسول سے تمسخر کیا جائے گا اور کس وقت تک یہ لوگ تیری کتاب کو جھٹلاتے اور تیرے نبی کے حق میں بدکلامی کرتے رہیں گے۔ اے ازلی ابدی، اے مدد گار خدا میں تیری رحمت کا واسطہ دے کر تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مغرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں یا قرآن کریم کے بارے میں یا اسلام کے بارے میں مستقل کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔ تو اس کے لئے ان دنوں میں خاص طور پر بہت دعا کریں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور ان کے شر سے بچائے۔

پھر الہام ہے ’’ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ اِنَِّ رَبِّیْ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ۔ اے حیّ اے قیوم میں تیری رحمت سے مدد چاہتاہوں۔ یقینا میرا رب آسمان اور زمین کا رب ہے۔‘‘ (الحکم جلد 3نمبر 22 مورخہ 23؍جون 1899ء صفحہ8۔ تذکرہ صفحہ297ایڈیشن چہارم)

امت مسلمہ کے لئے دعا کریں کہ’’ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ266۔ تذکرہ صفحہ 37 ایڈیشن چہارم)

اے میرے رب العزت امت محمدیہ کی اصلاح فرما۔

پھر ایک ہے ’’اے ازلی ابدی خدا مجھے زندگی کا شربت پلا۔‘‘ (بدرجلد 6نمبر14مورخہ4؍اپریل1907ء۔ الحکم جلد 11نمبر12مورخہ10؍اپریل1907صفحہ1۔ تذکرہ صفحہ 600۔ ایڈیشن چہارم)

پھر مئی 1906ء کا الہام ہے’’رَبِّ فَرِّقْ بَیْنَ صَادِقٍ وَّ کَاذِبٍ۔ یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کرکے دکھلا۔‘‘ (الحکم جلد 10نمبر 20مؤرخہ 10؍ جون 1906ء۔ حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ411 حاشیہ۔ تذکرہ صفحہ532ایڈیشن چہارم)

آجکل مختلف جگہوں پر دنیا میں مسلمان ملکوں میں مُلّاں بھی بڑا تیز ہوا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ایسے نازیبااور گھٹیا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ ان کو سن کر سینہ چھلنی ہو جاتا ہے۔ یہ دعا بہت کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یا تو ان کو عقل دے یا پھر ایسا واضح فرق دکھلائے اور ان کو اپنے انجام تک پہنچائے کہ جو دوسروں کے لئے بھی عبرت بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ اے ہمارے رب ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری آزمائشیں اور تکالیف دور کر دے اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غم سے نجات دے دے اور ہمارے کاموں کی کفالت فرما اور اے ہمارے محبوب ہم جہاں بھی ہوں ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے ننگوں کو ڈھانپے رکھ اور ہمارے خطرات کو امن میں تبدیل کر دے۔ ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی ہمارا آقا ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اے رب العالمین میری دعا قبول فرما۔‘‘ (ترجمہ از عربی عبارت۔ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 182)

مسلمانوں کے جو بڑے بڑے علماء ہیں، سردار بنے پھرتے ہیں ان کو مخاطب کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ اے مسلمانوں کے شیوخ اور رہنماؤ گواہ رہو کہ میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے اس سے تمہارے لئے ہدایت طلب کرتا ہوں۔ اے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میرے تضرعات کو سن۔ میں تیرے نبی خاتم النبییّن و شفیع المذنبین (صلی اللہ علیہ وسلم)کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ۔ اے میرے رب! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما۔ ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما۔ انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما۔ ان سے صلح فرما۔ انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں۔ اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے درگزر فرما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور ان کے بلند درجات اور راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القریٰ مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا۔ تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی ر اہوں کا علم عطا کر۔ جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما۔ اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں۔ ‘‘ (ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 23,22)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتنی دعائیں کی ہیں، اتنے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، پھر بھی یہ قوم کو برائیوں اور بگاڑ کی طرف لیتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد تو اللہ تعالیٰ جو تقدیر چلاتا ہے اور جو اس کا منطقی نتیجہ نکلنا چاہئے وہ نکلے گا انشاء اللہ۔ لیکن ہمیں بہرحال دعا کرنی چاہئے، اگر ان کے لئے اصلاح مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ جلد ان کی اصلاح فرمائے تاکہ یہ مزید گناہوں سے بچ جائیں اور قوم مزید بگڑنے سے محفوظ رہے۔ ورنہ ایسے لوگ جو سردار ہیں، جنہوں نے قوم میں تفرقہ پیدا کیا ہوا ہے ان کو پھر اللہ تعالیٰ خو د نپٹے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعاؤں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے۔ ہر ایک امر کے لئے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس سے پہلے تمہیدیں ہوتی ہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکر ان کو سلطنت دلانی تھی تو چاہئے تھا کہ ظاہری طاقت ان میں جمع ہونے لگتی، ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے، فتوحات کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا۔ مگر یہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے۔ ہتھیار ان کے ایجاد نہیں، ملک و دولت ہے تو اور وں کے ہاتھ ہے، ہمت و مردانگی ہے تو اور وں میں۔ یہ ہتھیاروں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج۔ دن بدن ذلت اور ادباران کے گرد ہے۔ جہاں دیکھو، جس میدان میں سنو انہیں کو شکست ہے۔ بھلا کیا یہی آثار ہوا کرتے ہیں اقبال کے؟ ہرگز نہیں۔ یہ بھولے ہوئے ہیں۔ زمینی تلوار اور ہتھیاروں سے ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بے دینی اور لامذہبی کا رنگ ایسا ہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں۔ پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں۔ ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے، نہ اپنی کوششوں سے۔ اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے، نہ قوت بازو سے۔ یہ اس لئے ہے کہ جس طرح ابتداء تھی انتہا بھی اسی طرح ہو۔ آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی… اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 191,190 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس آدم ثانی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حتی المقدور اپنی کوششیں کرنے والے بن سکیں۔

(الفضل انٹرنیشنل03 نومبرتا 09 نومبر2006ء)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ اکتوبر 2006ء شہ سرخیاں

    واقفین نو بچوں کے والدین کو خصوصًا اور ہر احمدی کو عمومًا یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی اولاد سے نوازے جو حقیقت میں دین کی خادم بننے والی اور صالحین میں شمار ہو۔

    خود بھی ماں باپ کی خدمت کریں اور بچوں کی بھی اس طرح تربیت کریں کہ وہ اپنی ماؤں کی خدمت کرنے والے ہوں۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ مؤرخہ 13؍اکتوبر 2006ء (13؍تبوک 1385ھش) مسجد بیت الفتوح، لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور