روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمان خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے

خطبہ جمعہ 19؍ جنوری 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے یہ تلاوت فرمائی:

اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ۔ (یٰس:12)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر، مختلف حوالوں سے اپنی صفت رحمانیت کی شان بیان فرمائی ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں کہ رحمن کا کیا مطلب ہے، کیونکہ اس کو چار پانچ ہفتے گزر گئے ہیں اس لئے مختصراً دوبارہ بیان کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن سے مراد ایسی رحمت، مہربانی اور عنایت ہے جو ہمیشہ احسان کے طور پر ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی صفت کی وجہ سے بلا تمیز مذہب و قوم ہر انسان کو اپنے اس احسان سے فیض پہنچا رہا ہے بلکہ ہر جاندار اس سے فیض حاصل کر رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’خدائے تعالیٰ آپ ہی ہر یک ذی روح کو اس کی ضروریات جن کا وہ حسبِ فطرت محتاج ہے عنایت فرماتا ہے اور بن مانگے اور بغیر کسی کوشش کے مہیا کر دیتا ہے۔ ‘‘ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 450 حاشیہ نمبر 11)

آپ نے مزید کھول کر فرمایا کہ جاندار کی ضروریات اس کی فطرت کے مطابق جو بھی ہیں ان کو مہیا فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی مزید وضاحت ہو گئی۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ’’دوسری خوبی خداتعالیٰ کی جو دوسرے درجہ کا احسان ہے جس کو فیضان عام سے موسوم کر سکتے ہیں رحمانیت ہے جس کو سورۂ فاتحہ میں الرحمن کے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے اور قرآن شریف کی اصطلاح کی روح سے خداتعالیٰ کا نام رحمن اس وجہ سے ہے کہ اس نے ہر ایک جاندار کو جن میں انسان بھی داخل ہے اس کے مناسب حال صورت اور سیرت بخشی۔ یعنی جس طرز کی زندگی اس کے لئے ارادہ کی گئی اس زندگی کے مناسب حال جن قوتوں اور طاقتوں کی ضرورت تھی یا جس قسم کی بناوٹ، جسم اور اعضاء کی حاجت تھی وہ سب اس کو عطا کئے اور پھر اس کی بقا کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی وہ اس کے لئے مہیا کیں۔ پرندوں کے لئے پرندوں کے مناسب حال اور چرندوں کے لئے چرندوں کے مناسب حال اور انسان کے لئے انسان کے مناسب حال طاقتیں عنایت کیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان چیزوں کے وجود سے ہزار ہا برس پہلے بوجہ اپنی صفت رحمانیت کے اجرام سماوی وارضی کو پیدا کیا تاوہ ان چیزوں کے وجود کی محافظ ہوں۔ پس اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کی رحمانیت میں کسی کے عمل کا دخل نہیں بلکہ وہ رحمت محض ہے جس کی بنیاد ان چیزوں کے وجود سے پہلے ڈالی گئی۔ ہاں انسان کو خداتعالیٰ کی رحمانیت سے سب سے زیادہ حصہ ہے کیونکہ ہر ایک چیز اس کی کامیابی کے لئے قربان ہو رہی ہے۔ اس لئے انسان کو یاد دلایا گیا کہ تمہارا خدارحمن ہے۔ ‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 248-249)

پس یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے عقل اور شعور عطا فرمایا ہے، اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کی اس صفت رحمانیت کی وجہ سے اس کے آگے جھکے رہنے والا بنا رہنا چاہئے۔ لیکن عملاً انسان اس کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔ انسانوں کی اکثریت اپنے خدا کی پہچان سے بھٹکی ہوئی ہے۔ فیض اٹھاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ اپنی رحمانیت کے صدقے اللہ تعالیٰ دنیا میں انبیاء بھیجتا ہے جو لوگوں کو بشارت بھی دیتے ہیں، ڈراتے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کر نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ اس کی عبادت کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ لیکن اکثریت اپنی اصلاح کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ اور پھر اس بات پر نبی اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں کہ قوم کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ اور سب سے زیادہ تنگی ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ سلم نے محسوس کی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کو یہ کہنا پڑا کہ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعرآء:4) یعنی شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لے گا کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ پس آپؐ کا یہ احساس آپؐ کے اس مقام کی وجہ سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رحمۃٌ للعالمین بنا کے بھیجاتھا۔ اور یہ آپﷺ کی فطرت کا خاصہ تھا۔ بہرحال یہ رحمان خدا کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ دنیاوی ضرورتیں بھی بن مانگے پوری کرتا ہے اور روحانی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی ان کی قدر نہ کرے، ان کو نہ پہچانے، ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو ایسے لوگ پھر خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں۔ نبی کی تعلیم اور نبی کا درد ایسے لوگوں کے کسی کام نہیں آتا۔ پس روحانی فیض اٹھانے کے لئے رحمن خدا کی طرف توجہ اور اس کا خوف ضروری ہے۔ اسی لئے آپﷺ کی حالت دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ (یٰس:12) توُ صرف اسے ڈرا سکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرتا ہے اور رحمن سے غیب میں ڈرتا ہے۔ پس اسے ایک بڑی مغفرت کی اور معزز اجر کی خوشخبری دے دے۔

پس اللہ تعالیٰ جو رحمان ہے، اپنے بندے پر انعام و احسان کے لئے ہر وقت تیار ہے۔ اس نے اپنے انعامات کے ساتھ خوبصورت تعلیم اور نصیحت بھی لوگوں کے سامنے رکھ دی اور فرمایا کہ تمہارے اوپر زبردستی کوئی نہیں اگر ان احسانوں کو یاد کرکے جو مَیں تم پر کرتا ہوں میری نصیحت پر عمل کرتے ہو، غیب میں بھی میرے پہ ایمان کامل ہے تو ان احسانوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ تمہارے لئے دنیا و آخرت میں انعامات مزید بڑھیں گے، مزید خوشخبریاں ملیں گی جن کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر ڈھانپے رکھے گی اور اس سے تم اللہ تعالیٰ کے مزید قریب ہونے والے بنو گے۔

اس کے لئے کیا طریق اختیار کرنے ہیں۔ یہ جو طریق ہیں، یہ اب آگے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت میں بیان ہوں گے۔ بہرحال یہاں آنحضرتﷺ کے ذریعہ ہمیں بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اظہار خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانا بھی ہے۔ اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو پیغام آنحضرتﷺ لے کر آئے اور جس کو لے کرآج آپ ؐ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہوئے، اس پیغام کو ہم آگے پہنچاتے رہیں اور لوگوں کے دلوں پر اثر نہ ہونے کی وجہ سے مایوس نہ ہوں۔ کئی ایسے ملیں گے جن کے دل اس طرف مائل ہوں گے۔ چاہے وہ قلیل تعداد میں ہی ہوں جو رحمن خدا سے ڈرنے والے ہیں، اس کے شکر گزار ہیں۔ اس لئے یہ پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے اور یہ پیغام دوسروں کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی، ان قبول کرنے والوں کے لئے بھی اور پہنچانے والوں کے لئے بھی مغفرت اور مزید انعاموں کا ذریعہ بن جائے گا۔ پس ہمارا ایمان بالغیب بھی اُس وقت اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا اقرار کرنے والا ہو گا جب ہم اپنے اندر بھی خداتعالیٰ کا خوف پیدا کریں گے، اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، خالصۃً للہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے جائیں گے۔ راستے کی کوئی روک ہمارے لئے اِس کام کو بند کرنے والی نہیں ہونی چاہئے۔ ختم کرنے والی نہیں ہونی چاہئے، یہی ایک مومن کا خاصّہ ہونا چاہئے۔

دنیا کو تباہی سے بچانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ رحمن خدا کو سمجھیں ورنہ رحمن خدا کے احسانوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے ایسے عذابوں میں مبتلا ہوں گے جو کبھی بیماریوں کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی صورت میں آتا ہے۔ کبھی ایک قوم دوسری قوم پر ظالمانہ رنگ میں چڑھائی کرکے ان سے ظالمانہ سلوک کرکے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمینی اور سماوی عذاب آتے ہیں۔ پس دنیا کو ان عذابوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا کام ہے، جس کا بہترین ذریعہ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑنا ہے کیونکہ مُردوں کو زندگی دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پس یہ ایک بہت بڑا فرض ہے جو احمدیت میں شامل ہونے کے بعد ہم پرعائد ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ماحول میں، اپنے عمل سے بھی اور دوسرے ذرائع سے بھی رحمن خدا کا یہ پیغام پہنچائیں۔ اس انعام کا دوسروں کے سامنے بھی اظہار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے اور یہ کرنے سے ہی پھرہم بھی رحمن خدا سے ڈرنے والوں میں شمار ہوں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہی، اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف جو اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو، اس کا یہ پیغام پہنچا رہے ہوں گے۔

قرآن کریم میں رحمن کے حوالے سے ہی ذکر ملتا ہے کہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کوپیغام پہنچایا اور کس طرح نصیحت فرمائی۔ فرماتا ہے یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِالشَّیْطٰنَ۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا۔ یٰٓاَ بَتِ اِنِّیٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا(مریم:46-45) اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر، شیطان یقینا رحمن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ یقینا مَیں ڈرتا ہوں کہ رحمن کی طرف سے تجھے کوئی عذاب پہنچے۔ پس تو اس وقت شیطان کا دوست نکلے۔

آج دنیامیں قسم ہا قسم کی بت پرستی ہے۔ اس بت پرستی میں ڈوب کر لوگ شیطان کی عبادت کر رہے ہیں۔ رحمن خدا کو سب بھول چکے ہیں یا کہنا چاہئے اکثریت بھول چکی ہے۔ اس طرف کسی کی نظر جانے کو تیار نہیں کہ رحمن خدا کا شکر گزار بنے، مغرب اور یورپ کی دیکھا دیکھی مسلمان کہلانے والے بھی رحمن سے عملاً تعلق توڑ چکے ہیں۔ آج اس کے نتیجے بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ دنیا اور دنیا کی ہوا و ہوس سب سے پہلے ان کا مطمح نظر بن چکی ہے۔

آخرین کے زمانے کی اس نشانی کا اللہ تعالیٰ نے نقشہ کھینچا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَا نِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا(الجمعۃ:12) یعنی جب وہ کوئی تجارت یا دل بہلاوا دیکھیں گے تو اس کی طرف دوڑ پڑیں گے اور تجھے اکیلا کھڑا ہوا چھوڑ دیں گے۔ یہ نقشہ اس زمانے کے لوگوں کا ہے جو آج کا موجودہ زمانہ ہے، مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے۔ جب خدا کا مسیح پکار پکار کر کہہ رہا ہے، خدائے رحمن کا واسطہ دے کر کہہ رہا ہے کہ خدائے رحمن کی طرف آؤ۔ جس چیز کو تم بہترین سمجھ رہے ہو۔ وہ بہترین نہیں ہے بلکہ تمہیں تباہی کی طرف لے جانے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نظر رکھو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کے ذریعہ سے اور پھر آپ ؐ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے، مسیح محمدی کے ذریعہ سے پہنچایا ہے کہ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ (الجمعۃ:12) تو کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ دل بہلاوے اور تجارت سے بہتر ہے۔ پس آج بھی دنیا اپنی جھوٹی روایات، اَناؤں اور مفادات کی وجہ سے رحمن خدا کو بھول کر اُن معبودوں کی عبادت کر رہی ہے جو شیطان نے ان کے دلوں میں معبود بنا کر پیش کئے ہوتے ہیں۔ زمانے کے امام کا انکار بذات خود شیطان کی گود میں گرانے والا ہے اور شیطان کے ورغلانے میں آنے والا ہر انسان پھر اسی صفت سے متصف ہو جاتا ہے جو شیطان کی ہے۔ اور شیطان کے ورغلانے میں آنے والا پھر اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ دیتا ہے، پھر اس کا رحمن خدا سے کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ رحمن سے تعلق توڑو گے تو لازماً اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ شیطان سے تعلق جڑے گا اور شیطان سے تعلق جوڑنا یہی شیطان کی عبادت ہے۔ یہی دلوں کے بت ہیں جو رحمن خدا سے دور کرتے ہیں، جن میں دُنیا کا خوف زیادہ ہے اور رحمن کا خوف کم ہے یا بالکل ہی نہیں ہے۔

پس اس لحاظ سے بھی بڑی باریکی سے ہمیں بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہم دوسروں کو بتاتے ہیں وہاں ہمیں بھی اپنے آپ کو دیکھنا پڑے گا۔ بڑے خوف کا مقام ہے کہ کون سی ایسی بات کہیں ہو جائے، ہمارے منہ سے نکل جائے یا ہمارے عمل سے ظاہر ہو جائے جو رحمن خدا کو ناراض کرنے والی ہو۔ بڑی بڑی باتیں نہیں ہیں بعض بہت چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہیں جو ناراض کرتی ہیں۔ ہم جب اپنے آپ کو دیکھیں گے اپنے عمل صحیح کریں گے تبھی ہم صحیح طور پر پیغام پہنچا سکیں گے۔ مثلاً بظاہر چھوٹی بات ہے۔ اس کا ایک حدیث قدسی میں ذکر ملتا ہے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رِحم کو فرمایا کہ کیا تو یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ مَیں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھ سے تعلق جوڑے اور اس سے تعلق کاٹ دوں جو تجھ سے تعلق کاٹے۔ اس نے کہا کیوں نہیں، اے میرے رب! تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ پس اسی طرح ہو گا۔ ‘‘ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ محمد باب و تقطعوا ارحامکم حدیث نمبر 4830)

تو رحم کیا ہے؟ رحم ہے رحمی رشتے۔ پس آج ہم آپس کے رشتے نہیں نبھاتے، تعلق نہیں نبھاتے تو ان کو نہ نبھا کر رحمن خدا کی نافرمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور رحمن خدا نے فرمایا کہ جو ان رحمی رشتوں کو توڑے گا اس سے میں بھی تعلق توڑوں گا۔ خداتعالیٰ کی نافرمانی پھر یقینا شیطان کی طرف لے جانے والی ہے۔ اگر انسان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی غور کرے اور پھر ان برائیوں پر غور کرے اور ان کو نکالنے کی کوشش کرے تو تبھی وہ رحمن خدا کا قرب پانے والا بن سکتا ہے ورنہ یہی چیزیں بڑھتے بڑھتے پھر دل کو سیاہ کر دیتی ہیں۔ اور رحمن کی روشنی سے خالی کرکے پھر شیطان کے اندھیروں کو دل میں بسالیتی ہیں۔ اور پھر ایک شخص جو بظاہر خدا کی عبادت کر رہا ہوتا ہے رحمن کی عبادت کرنے والا نہیں رہتا بلکہ شیطان کی جھولی میں گر جاتا ہے۔ اور پھر شیطان کی جھولی میں گرنے والے کو وارننگ ہے جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ کو وارننگ دی تھی۔ اس کے الفاظ یہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ کر لئے جو مَیں نے بتائے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ رحمن خدا سے پرے ہٹے ہوئے لوگوں کے لئے وارننگ ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا رحمن ہے اور رحمن کی تعریف ہم دیکھ آ ئے ہیں بندوں پر احسان کرنے والا اور بغیر کسی وجہ کے احسان کرنے والا۔ کوئی اجر نہیں لے رہا بلکہ احسان ہے اس نے اپنے بندوں کے لئے انعامات اور احسانات کی بارش برسائی ہوئی ہے لیکن اس کے حکموں پر نہ چل کر تم اس کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہو۔ اور اس کا نتیجہ عذاب کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو وارننگ دی۔

اگر ایک ذی شعور عقلمند انسان غور کرے تو دیکھے گا کہ آجکل مختلف صورتوں میں انسانیت پر جو عذاب آ رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمن ہے تو اس کے ساتھ دوسری صفات بھی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں شرک معاف نہیں کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ ظاہری بتوں کا شرک نہیں ہے۔ بلکہ قسم ہا قسم کے مخفی شرک بھی ہیں جو انسان نے اپنے دل میں بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے بھی جب ہم غور کریں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ پتہ نہیں کون سی بات ہے جو خداتعالیٰ کو ناراض کرنے والی بن جائے۔ یہاں بظاہر حضرت ابراہیمؑ کا اپنے باپ کو رحمن خدا کے حوالے سے ڈرانا عجیب لگتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کی اور صفات بھی ہیں۔ تو جب ایک انسان اس کے باوجود کہ خداتعالیٰ بے انتہا نوازنے والا ہے انعامات دینے والا ہے اور بغیرمانگے دینے والا ہے جب اس سے تعلق توڑتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی جو دوسری صفات ہیں جن میں سز ادینا بھی ہے ان کے نیچے آجاتا ہے۔ تو یہ انسان کی انتہائی بدبختی ہے کہ جو ایسے رحمان خدا کے عذاب کا مورد بنے جس نے دنیاوی سامان بھی ہمیں اپنی زندگی گزارنے کے لئے مہیا فرمائے اور روحانی بہتری کے لئے بھی اپنے مقرب بندے دنیا میں بھیجتا رہتا ہے۔ اور اس زمانے میں ہم گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیج کر یہ احسان عظیم ہم پر کیا ہوا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات بھی ہیں اور جب انسان صفت رحمانیت کی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر ایسی صفات بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں جن میں سختی بھی ہے۔ مثلاً جیسے اللہ تعالیٰ کی صفت جبار بھی ہے قہار بھی ہے تو جب انسان باوجود اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کے احسان فراموشی کرتا چلا جائے گا تو بعض دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کی ان حدود کو پھلانگے گا جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ قہری جلوے بھی دکھاتا ہے۔ اس کا مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ پھر وہ جلوہ زلزلوں اور دوسری آفات کی صورت میں بھی ہوتا ہے۔ یہاں صفت رحمانیت پر اعتراض نہیں آتا بلکہ انسان کے یہ اپنے اعمال کا نتیجہ ہے جب وہ شرپر اصرار کرتا چلا جائے گا، شر سے باز نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’پس آدمی کو لازم ہے کہ توبہ وا ستغفار میں لگا رہے اور دیکھتا رہے۔ ایسا نہ ہو بداعمالیاں حد سے گزر جاویں اور خداتعالیٰ کے غضب کو کھینچ لاویں ‘‘۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ (الزلزال:9) یعنی جو شخص ایک ذرہ بھی شرارت کرے گا وہ اس سزا کو پائے گا‘‘۔ یہ لکھ کے آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ پس یاد رہے کہ اس میں اور دوسری آیات میں کچھ تنا قض نہیں ہے کیونکہ اس شر سے وہ شرمراد ہے جس پر انسان اصرار کرے‘‘۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ مَیں بخشوں گا میں رحمان ہوں اور یہاں شر کی سزا دے رہا ہے۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ یہاں شر سے مراد ایسا شر ہے جس پر انسان اصرار کرتا رہے’’ اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے، اسی غرض سے اس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا۔ تا معلوم ہوکہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا ورنہ سارا قرآن شریف اس بارے میں بھرا پڑا ہے کہ ندامت اور توبہ اور ترک اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خداتعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے‘‘۔ (چشمۂٔ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 24)

پس اللہ تعالیٰ تو بن مانگے احسان کرنے والا ہے۔ مانگنے والے کو تو بے شمار نوازتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے لگے تو رحمن کا لفظ جب آپ کے مبارک منہ سے نکلتا تھا تو آپؐ بے چین ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگتے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا، آخر کسی صحابی نے جو وہاں موجود تھے پوچھا کہ حضور! اس طرح بے چین ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ جب مَیں رحمن لفظ پہ پہنچتا ہوں تو اس لفظ پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق پر بے شمار انعاموں اور احسانوں کو یاد کرکے اس بات پر بے چین ہو جاتا ہوں کہ پھر بھی لوگ اس رحمن خدا کی سزا کے مورد بنتے ہیں تو یہ کس قدر ان کی بدبختی ہے۔ (دروس الشیخ عائض القرنی جزء 128 صفحہ 4المکتبۃ الشاملۃ CD)

پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ ابو رافع نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق سے پہلے ہی یہ لکھ چھوڑا ہے کہ یقینا میری رحمت میرے غضب پر فوقیت لے گئی ہے۔ یہ بات اس کے پاس عرش کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ (بخاری کتاب التوحید۔ باب قول اللہ تعالیٰ بَلْ ھُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ حدیث نمبر 7554)

پھر ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ کے پاس چند قیدی آئے تو ان قیدیوں میں سے ایک عورت بچے کو دودھ پلا رہی تھی، جب وہ قیدیوں میں سے کسی بچے کو دیکھتی اس کو پکڑتی اپنے سینے کے ساتھ لگاتی۔ (اس کا شاید بچہ گُما ہوا تھا) اور اسے دودھ پلاتی، تونبی کریمﷺ نے ہم سے پوچھا، کیا تم گمان کر سکتے ہو یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی؟ ہم نے کہا نہیں۔ یہ کبھی اسے آگ میں نہیں پھینکے گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنی یہ عورت اپنے بچے پر کرتی ہے۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ حدیث نمبر 5999)

پس رحمن خدا سزا نہیں دے رہا، یا وہ بندے کو سزا نہیں دیتا یا رحمن خدا عذاب نازل نہیں کرے گا یا نہیں کرتا بلکہ انسان اپنی شرارتوں اور خدا کی نافرمانیوں کا مرتکب ہو کر قانون قدرت کے تحت دوسری صفات کے تحت آ کر جن میں سزا اور عذاب بھی ہے اس سزا اور عذاب کا مورد خود بن رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احسانوں کا شکر ادا کرنے والا بنائے، نہ کہ ہم اس کے احسانوں کی کسی قسم کی ناشکری کرکے رحمن خدا سے دور جانے والے بن جائیں، اور یہی پیغام ہم نے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم صحیح طور پر یہ پیغام پہنچا سکیں تاکہ اس شرک کی وجہ سے جو آج دنیا کی اکثریت میں ہے دنیا کو عذاب کی وارننگ دے کر اس سے بچانے والے بن سکیں۔ دنیا کی بہت ہی بڑی اکثریت ہے جو عیسائی ہے، رحمن خدا کے ہی انکاری ہیں۔ خداتعالیٰ کی اس صفت کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ وہ رحمن خدا ہے۔ اور اپنے اعمال اور اس کے آگے جھکنا ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے والا ہے۔ نہ کسی دوسرے کی قربانی کام آئے گی، نہ نجات دلانے کے لئے رحمن خدا کے مقابل پر کسی بندے کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو صاف شرک ہے جس کے بارے میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے باپ کو وارننگ دی تھی۔ سورۃ مریم میں ہی عیسائیوں کے بارے میں یہ ذکر بھی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی وہ وارننگ بھی پہلے سورۃ مریم کی ہے۔ عیسائیوں کے بارے میں یہ کھول کر بیان کر دیا کہ رحمن کا بیٹا بنا کر انہوں نے اتنا بڑا شرک کیا ہے جس کی انتہا نہیں، قریب ہے کہ زمین آسمان پھٹ جائے۔ (یعنی خدا کو ہر کام کے لئے اپنے بیٹے کی مدد کی ضرورت ہے)۔ یہ اتنا خوفناک تصور ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو لانے والا ہے۔ اللہ فرماتا ہے وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا۔ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا۔ اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّا ٓ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (مریم:94-89) یعنی وہ کہتے ہیں رحمن نے بیٹا بنا لیا ہے۔ یقینا تم ایک بہت بیہودہ بات بنا لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑے اور زمین شقّ ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں کہ انہوں نے رحمن کے لئے بیٹے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کوئی بیٹا اپنائے۔ یقینا آسمانوں او ر زمین میں کوئی نہیں مگر وہ رحمن کے حضور ایک بندے کے طور پر آنے والا ہے۔ ہر جو دنیا میں آیاہے، وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے، بندہ ہے۔

آجکل یہ شرک انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور یہی زمانہ تھا جب اس شرک کے ظاہر ہونے پر خداتعالیٰ کی غیرت نے جوش میں آ کر اس ظالمانہ نظریہ کے خلاف مسیح محمدی کو کھڑا کرنا تھا۔ سو وہ کھڑا ہوا اور اس نظریہ کو پاش پاش کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مبعوث ہونا بھی رحمن خدا کا ہم پر احسان ہے جس کے لئے ہمیں شکر گزار ہوتے ہوئے، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے، اس پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں یہ جو آیت ہے کہ ’’ تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ…… دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ قیامت کبریٰ کے قریب عیسائیت کا زمین پر بہت غلبہ ہوجائے گا۔ جیسا کہ آجکل ظاہر ہورہا ہے اور اس آیت کریمہ کا منشاء یہ ہے کہ اگر اس فتنہ کے وقت خداتعالیٰ اپنے مسیح کو بھیج کر اصلاح اس فتنہ کی نہ کرے تو فی الفور قیامت آجائے گی اور آسمان پھٹ جائیں گے۔ مگر چونکہ باوجود اس قدر عیسائیت کے غلو ّکے اور اس قدر تکذیب کے…… قیامت نہیں آئی تو یہ دلیل اس بات پر ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم کرکے اپنے مسیح کو بھیج دیا ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا کا وعدہ جھوٹا نکلے۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 287)

پس اب غلامان مسیح الزمان کا کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں اور خدا کے وعدہ کے مطابق اس کے اجر کے وارث بنیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:۔

گزشتہ جمعہ مَیں نے مسجد برلن کا ذکر کیا تھا کہ لجنہ اماء اللہ جرمنی نے یہ کام اپنے ذمہ لیا ہے۔ اس پہ جو جرمنی سے باہر کی عورتیں ہیں ان کا بھی خیال ہے کہ اُس زمانے میں کیونکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کام قادیان اور ہندوستان کے ذمہ کیا تھا جن میں سے بیشتر کی اولادیں پاکستان میں اور باہر کے دوسرے ممالک میں ہیں، اس لئے ان کو ثواب پہنچانے اور ہمیں بھی ثواب حاصل کرنے کے لئے اس کی اجازت دی جائے کہ ہم بھی اس میں حصہ لے سکیں۔ تو بہرحال عام تحریک تو مَیں نہیں کرتا لیکن یہ اجازت ہے کہ اگر کوئی احمدی عورت یا بچی اس مدّ میں اپنی خوشی سے چندہ دینا چاہیں تو بے شک دے دیں، کوئی روک نہیں ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ لجنہ اماء اللہ جرمنی بھی اس پہ کوئی اعتراض نہیں کریں گی۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ خیریت سے اس مسجد کی تعمیر مکمل کروا دے کیونکہ مخالفت ابھی بھی زوروں پر ہے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 9تا 15 فروری 2007ء ص 5تا 7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 19؍ جنوری 2007ء شہ سرخیاں

    فرمودہ مورخہ 19؍جنوری 2007ء بمطابق 19؍صلح 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور