صفت رحیم، سیرت النبیﷺ بنی نوع انسان سے ہمدردی

خطبہ جمعہ 23؍ فروری 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ (التوبۃ: 128)

جیسا کہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ہستی کو اپنی صفات سے ہم پر ظاہر فرماتا ہے اور مومن بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا رنگ پکڑو، میرے رنگ میں رنگین ہو۔ میری صفات اختیار کرو، تبھی تم میرے حقیقی بندے کہلا سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی اعلیٰ ترین مثال کوئی شک نہیں کہ آنحضرتؐ کے علاوہ کسی اور فرد میں نہیں پائی جاسکتی۔ کیونکہ آپؐ ہی اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے ہیں جس کے نور سے ایک دنیا نے فیض پایا، فیض پا رہی ہے اور انشاء اللہ فیض پاتی چلی جائے گی تاکہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرتؐ کی ذات بابرکات کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں :

’’ وہ انسان جس نے اپنی ذات سے، اپنی صفات سے، اپنے افعال سے، اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قویٰ کے پُرزور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً و عملاً و صدقاً و ثباتاً دکھلایا اور انسان کامل کہلایا…وہ انسان جوسب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا‘‘۔ وہ قیامت کیا تھی۔ مُردوں کو زندہ کرنے والی تھی۔ ’’وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخرالنبیین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے توُ نے کسی پر نہ بھیجا ہو۔ …… اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ‘‘۔ (اتمام الحجۃ علی الذی لجّ وزاغ عن المحجّۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ308)

پس یہ ہیں ہمارے نبیؐ جنہوں نے خداتعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا حقیقی پرتو بن کر دکھایا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں :

’’اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ119)

پس آپؐ کی خداتعالیٰ سے یہ انتہائی درجہ کی محبت تھی جس کی وجہ سے آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی محبت کی مخلوق کی تکلیف آپ کو گوارا نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوق سے اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت کے تحت سلوک فرماتا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ ذات جس کا اوڑھنا بچھونا، جس کی ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا تھی، اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے وہی سلوک روا نہ رکھتی جو خداتعالیٰ اپنے بندوں سے کرتا ہے۔ آپؐ کے اندر خداتعالیٰ کی مخلوق کے لئے جو رحیمیت، رحمانیت کے جذبات تھے، اس جذبے کے تحت جو محبت موجزن تھی، اس کی شدّت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اُسے ان الفاظ میں محفوظ فرما لیا جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے، جس کا ترجمہ ہے کہ یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے، اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اٹھاتے ہو اور وہ تم پر بھلائی چاہتے ہوئے حریص رہتا ہے، مومنوں کے لئے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پس یہ ہے ہمارے پیارے نبیؐ کا اُسوہ اور آپؐ کے بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے جذبات۔ وہ پیارا رسولؐ انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے جب تم تکلیف اٹھاتے ہو یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی نہ کرکے اٹھاؤ گے۔ اس آیت میں کافروں اور مومنوں دونوں کے لئے جذبات کا اظہار ہے۔ آپؐ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کیا کیا تکلیفیں تھیں جو دشمن نے آپؐ کو نہ دیں، آپؐ کے ماننے والوں کو نہ دیں۔ عورتوں کو اونٹوں سے باندھ کر، ان کی ٹانگیں باندھ کر ان کو چیرا گیا۔ خود آپؐ کوانتہائی تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ اڑھائی سال تک آپ کے ماننے والوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں محصور رکھا گیا لیکن آپؐ پھر بھی ان لوگوں کی بھلائی کی خواہش کرتے تھے۔ دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، انہیں سیدھے راستے پر چلائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکیں۔ اپنا دفاع کیا تو صرف اس حد تک کہ وہ دفاع سے آگے نہ بڑھے، بدلہ یا دشمنی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس کا تو شائبہ تک بھی آپ کے دل میں نہیں تھا۔ او ر ان کو بچانے کے لئے اس حد تک بے چین تھے کہ اپنی جان ہلکان کر رہے تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کہا کہ ان کافروں کو، مشرکین کو، اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا لینے والے خیالات رکھنے والوں کو، خبردار کر کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو ایک عذاب تمہارے لئے منہ کھولے کھڑا ہے۔ تم لوگ اس کی پکڑ کے نیچے آنے والے ہو۔ تو اِس رحمۃٌ للعالمین کی حالت انتہائی کرب اور تکلیف کی حالت ہو جاتی ہے، بے چین ہو ہو کر ان کے سیدھے راستے پر آنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے اور دعائیں کرتے ہیں اور ان کو پیغام حق پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کے درپے ہو؟ کیوں اپنے آپ کو جہنم کی آگ میں جھونک رہے ہو؟ اس حد تک حالت پہنچ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکھف :7) پس اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو کیا توُ اُن کے غم میں شدت افسوس کی وجہ سے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ پس یہ سراسر رحمت کے جذبات لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کے لئے تھے اس فکر میں تھے جس نے آپ کی یہ حالت کر دی تھی کہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے تھے۔ آج کوئی بتائے کہ کیا کبھی کسی کے حقیقی باپ کو بھی اپنے بچوں کی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے اتنی فکر ہوتی ہے جتنی آپؐ کو ان لوگوں کے لئے تھی جن سے آپؐ کا رشتہ صرف یہ تھا کہ وہ آپؐ کے پیارے خدا کی مخلوق ہیں۔ اور اللہ کا اپنی مخلوق سے جو تعلق ہے اور ان کو شیطان کے پنجے سے بچانے کے لئے جو اس نے آپؐ کو مبعوث فرمایا ہے، اس کا حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ صرف یہ آپؐ کی غرض تھی۔

اور پھر مومنوں کے لئے بھی آپؐ کتنے حریص رہتے ہیں اس کا اظہار بھی اس آیت میں ہے۔ ایمان لانے والوں کو دیکھ کر آپؐ کو بڑی خوشی ہوتی تھی اور ان کو مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا پیار اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے آپ رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ ہر وقت یہ فکر تھی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں لپٹے رہیں۔ حدیث میں سے ایک دو مثالیں دیتا ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا، آپ مجھے کوئی دعا سکھائیں جو میں نماز میں کیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا تو کہہ اے اللہ! یقینا مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔ تُواپنی جناب سے میری مغفرت فرما اور مجھے رحمت سے نواز۔ یقینا تُو ہی غفور اور رحیم ہے۔ (بخاری کتاب الاذان باب الدعاء قبل السلام۔ حدیث نمبر 834)

پھر ایک اور روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا فرشتے تم میں سے اس شخص کے لئے جو نماز والی اپنی اس جگہ پر رہتا ہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو، بشرطیکہ وہ کوئی ناگوار بات نہ کرے، یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ اس پر رحم فرما۔ (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الحدث فی المسجد۔ حدیث نمبر 445)

تو یہ بھی ترغیب دلانے کے لئے ہے کہ نمازوں کی طرف آؤ، اللہ کی بخشش اور رحمت طلب کرو۔ اللہ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے بنو۔

پھر مومنوں کے لئے رحمت بننے کے لئے آپ کے حریص ہونے کی انتہا دیکھیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! جس مومن کو مَیں نے سخت الفاظ کہے ہوں تو توُ اس بات کو قیامت کے دن اس شخص کے لئے اپنے قریب ہونے کا ایک ذریعہ بنا دے۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ من آذیتہ فاجعلہ لہ زکاۃ و رحمۃ۔ حدیث نمبر6361)

یعنی میری سختی بھی اس کے لئے رحمت بن جائے۔ تو اس حد تک آپ رؤف اور رحیم تھے کہ کہیں غلطی سے بھی یا ارادۃً بھی اگرکسی وجہ سے کسی کو کچھ کہہ دیا ہے تو اس کی بھی سزا نہ ہو بلکہ وہ رحمت کا ذریعہ بن جائے۔ پس یہ ہیں ہمارے نبی، جو رؤف اور رحیم ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے رؤف اور رحیم کا نام دیا ہے جو اپنوں کے معیار بلند کرنے کے لئے بھی بے قرار ہیں اور غیروں کو بھی عذاب سے بچانے کے لئے بے قرار ہیں۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ جذب اور عقد ہمت ایک انسان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ وہ خداتعالیٰ کی چادر کے نیچے آ جاتا ہے، اور ظل اللہ بنتا ہے اور پھر وہ مخلوق کی ہمدردی اور بہتری کے لئے اپنے اندر ایک اضطراب پاتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مرتبہ میں کُل انبیاء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے اس لئے آپؐ مخلوق کی تکلیف دیکھ نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ یعنی یہ رسول تمہاری تکالیف کو دیکھ نہیں سکتا۔ وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو بڑے بڑے منافع پہنچیں ‘‘۔ (الحکم جلد 6 نمبر 26 صفحہ 6 مورخہ 24؍جولائی 1902ء)

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’ تعلیم قرآنی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ نیکوں اور ابرار اخیار سے محبت کرو اور فاسقوں اور کافروں پر شفقت کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ (التوبۃ:128) یعنی اے کافرو! یہ نبی ایسا مشفق ہے جو تمہارے رنج کو دیکھ نہیں سکتا اور نہایت درجہ خواہشمند ہے کہ تم ان بلاؤں سے نجات پاؤ‘‘۔ (نورالقرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 433)

پس جیسا کہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ آپ کی خواہش کافروں کو بھی ان بلاؤں سے نجات دلانے کے لئے اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ اُن کے ایمان نہ لانے پر آپؐ نے اُن کی ہمدردی میں اپنی جان کو ہلکان کیا ہوا تھا۔ پس یہ ہے وہ انسان کامل جس کی ہمیں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔

آج آئے دن مغرب کے کسی نہ کسی ملک میں اسلام اور آنحضرتؐ کے خلاف مختلف طریقوں سے غلط پروپیگنڈا کرکے آپؐ کے مقام کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ہالینڈ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے ایک ہرزہ سرائی کی جس میں آنحضرتؐ اور اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارے میں انتہائی بیہودہ اور ظالمانہ الفاظ کا استعمال کیا۔ جہاں بھی اسلام اور بانی اسلامؐ کے متعلق اس قسم کی بیہودہ گوئی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں، اس ملک میں، جماعت احمدیہ جواب دیتی ہے۔ ہالینڈ والوں کو بھی مَیں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی لکھیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا تصور ان کے ذہنوں میں پیدا کریں تاکہ عوام کے ذہنوں سے اس اثر کو زائل کیا جائے۔ دراصل اسلام ہی ہے جو اس زمانے میں مذہب اور خدا کا عقلی اور حقیقی تصور پیش کرتا ہے۔ اس طرح اگر تو یہ لوگ جو اسلام اور آنحضرتؐ کے بارے میں اس قسم کی لغو اور بیہودہ باتیں لاعلمی یا کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں تو ان کو بتائیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کیا ہے اور آنحضرتؐ کا اُسوہ زندگی کے ہر شعبے میں کیا ہے۔ مخلوق خدا سے ہمدردی کس طرح آپ کے پاک دل میں بھری ہوئی ہے تاکہ ان کے ذہن صاف ہوں۔ لیکن اگر ان کے دل صرف بغض اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں اور کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تو پھر اتمام حجت ہو جائے گا۔ بہرحال آج یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ہر احمدی نے انجام دینا ہے۔

ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ جس کا مَیں نے ذکر کیا، اس کا جہاں تک تعلق ہے، لگتا ہے اس کے دل میں تو اسلام اور آنحضرتؐ اور قرآن کریم اور مسلمانوں کے لئے بغض اور کینہ انتہاکوپہنچا ہوا ہے۔ جس کا اظہار اس نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ ان صا حب کا نام ہے غِیرت ولڈرز (Geert Wilders)۔ کیتھولک گھر میں یہ پیدا ہوا لیکن رپورٹ کے مطابق مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ ان لوگوں کو بھی جب اپنے مذہب میں سکون نہیں ملتا اور سمجھ نہیں آتی۔ خدا تک تو پہنچ نہیں سکتے تو پھر اسلام کو بھی برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں، اس پر الزام تراشی شروع ہو جاتی ہے۔ بہرحال یہ صاحب کافی پرانے اسلامی تعلیم پر اعتراض کرنے والے ہیں۔ برقع کے خلاف بھی جو سب سے پہلے ہالینڈ میں مسئلہ اٹھا تھا، یہی اس میں پیش پیش تھا۔ بظاہر مذہب سے لاتعلق ہے لیکن اسلام کے خلاف بغض کی وجہ سے عیسائیت اور یہودیت کو بقول اس کے اسلام سے بہتر سمجھتا ہے۔ سمجھے، لیکن اگر عقل رکھتا ہے تو اس زمانے میں جب مغربی ممالک کو تہذیب یافتہ ہونے کا دعویٰ ہے اور یہ صاحب اپنے آپ کو پڑھا لکھا بھی کہتے ہیں، ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہے، تو پھردوسرے مذاہب کے بارے میں بیہودہ گوئی کرنے کا ان لوگوں کو حق نہیں پہنچتا۔ چند افراد کے ذاتی فعل سے اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قرآن اور آنحضرتؐ کے بارے میں ایسی باتیں کرے کہ کوئی بھی عقلمند اور پڑھا لکھا انسان نہیں کر سکتا۔ مثلاً آنحضرتؐ کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر وہ آج ہالینڈ میں ہوتے تو نعوذ باللہ دہشت گرد قرار دے کر ملک سے نکالتا۔ تم نے کیا نکالنا ہے، تم تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ زمانہ دیکھنے والے ہو جب محمد رسول اللہؐ کے نام لیواؤں کی اکثریت ہر جگہ دیکھو گے۔ آنحضرتؐ کے دعویٰ سے لے کر آج تک کیا کیا کوششیں ہیں جو آپ کے مخالفین نے نہیں کیں۔ کیا وہ کامیاب ہو گئے؟ آج دنیا میں ہر جگہ، ہر ملک میں، چاہے وہاں مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے یا زیادہ ہے روزانہ پانچ وقت بلند آواز سے اگر کسی نبی کا نام پکارا جاتا ہے تو وہ اس رحمۃ للعالمین کا نام ہے۔ جس کا دل باوجود ان مخالفتوں اور مخالفین کی گھٹیا حرکتوں کے انسانیت کا حق ادا کرنے کے ناطے ہر وقت ہر ایک کے لئے ہمدردی کے جذبات سے پُر تھا۔

پھر کہتا ہے کہ قرآن کے احکامات ایسے ہیں کہ نعوذ باللہ آدھا قرآن پھاڑ کر علیحدہ کر دینا چاہئے۔ ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ تم عملاً تو لامذہب ہو لیکن جن مذاہب کواسلام سے بہتر سمجھتے ہو، ان کی تعلیم کا قرآن کریم کی تعلیم سے موازنہ تو عقل کی آنکھ سے کرکے دیکھو۔ تعصب سے پاک نظر کرکے پھر قرآن کا مطالعہ کرو اور پھر سمجھ نہ آئے تو ہم سے سمجھو کہ جہلا ء کو اس پاک کلام کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ قرآن کریم کا تو دعویٰ ہے کہ پہلے اپنے دلوں اور اپنے دماغوں کو پاک کرو تو پھر اس پاک تعلیم کی سمجھ آئے گی ورنہ تمہارے جیسے جہلاء تو پہلے بھی بہت گزر چکے ہیں جو اعتراض کرتے چلے گئے۔ وہ بھی ابوالحکم کہلاتا تھاجس کا نام قرآن نہ سمجھنے کی وجہ سے ابو جہل پڑا۔ اور وہ غریب مزدور، وہ غلام جو دنیا کی نظر میں عقل اور فراست سے عاری تھے اس قرآن کو سمجھنے کی وجہ سے علم و عرفان پھیلانے والے بن گئے۔ پس ہم تمہیں اتمام حجت کے لئے اس رؤف اور رحیم نبی کے حوالے سے توجہ دلاتے ہیں کہ وہ تم جیسے لوگوں کو بھی آگ کے عذاب سے بچانے کے لئے بے چین رہتا تھا۔ اس کی باتوں کو غور اور تدبّر سے پڑھو اور دیکھو، پرکھو، سمجھو اور سمجھ نہ آئے تو ہم سے پوچھو اور اپنے آپ کو اُس دردناک عذاب سے بچاؤجو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ جو حد سے بڑھنے والوں کے لئے مقدر ہے۔ اللہ کرے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے، یہ لوگ عقل کے ناخن لینے والے ہوں اور سمجھنے والے ہوں۔ لیکن یہ احمدیوں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس رؤف و رحیم نبی کی زندگی کے ہر حسین لمحے کی تصویر ان لوگوں تک پہنچائیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپؐ، جسے اللہ تعالیٰ نے رؤف و رحیم قرار دیا تھا، انہوں نے دہشت گردی کی تعلیم دی ہے۔ ان کو بتائیں کہ اسلام کی جنگوں میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں کے ساتھ کیا نرمی اور احسان اور رحم کے سلوک کی اسلام کی تعلیم ہے۔ جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا رحم کی تعلیم ہے۔ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر قیدیوں کے لئے رحم کے جذبات تھے۔ وہ قیدی جو جنگی قیدی تھے، جو جنگ میں اس غرض سے شریک تھے کہ مسلمانوں کا قتل کریں ان سے شفقت اور رحم کا سلوک ہے کہ آپ بھوکے رہ کر یا روکھی سوکھی کھا کر ان کو اچھا کھلایا جا رہا ہے۔ آج اس سراپا رأفت اور رحم پر یہ الزام لگانے والے یہ بتائیں کہ جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر جو وہاں کی تمام آبادی کو جلا کر بھسم کر دیا تھا، بچے بوڑھے، عورتیں، مریض، سب کے سب چشم زدن میں راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے بلکہ اِرد گرد کے علاقوں میں بسنے والے بھی اس کی وجہ سے سالوں بلکہ اب تک بہت ساری خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہیں، نئے پیدا ہونے والے بچے اپاہج پید اہو رہے ہیں۔ کیا یہ ہیں اعلیٰ اخلاق؟ جن کے انجام دینے والوں کو یہ لوگ امن پسند اور امن قائم کرنے والا کہتے ہیں۔ عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو یہ لوگ کیا نام دیتے ہیں۔ تم لوگ یاد رکھو کہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود اسلام کا خدا جس نے اپنے پیارے نبی، جو ہر ایک کے لئے رؤف و رحیم تھے، پر جو تعلیم اتاری ہے، جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، وہ اتنی خوبصورت تعلیم ہے کہ اگر وہ سمجھنے والے ہوں تو سمجھ جائیں۔ ایک آیت کا مَیں ذکر کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے گناہگاروں کو بھی بخشنے کے سامان فرمائے ہوئے ہیں۔ فرماتا ہے۔ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ۔ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا  (الفرقان:71) سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے، نیک عمل بجا لائے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ خوبیوں میں بدل دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

پس اس ارشاد کی روشنی میں ان لوگوں کو اپنے آپ کو دیکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کی دلآزاری کرنے کی بجائے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے۔ خود ان میں کتنی نیکیاں ہیں ؟ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی ہتک کرنے کی بجائے اپنے اندر جھانکنا چاہئے۔ آج مغرب میں جو بے شمار برائیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ اپنے گریبان میں نہ جھانکنے کی وجہ سے ہیں۔ تمہارے گھروں کے چین اور سکون جو برباد ہوئے ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اب بھی اپنے خدا کو پہچان لو اور اس کے پیاروں کے بارے میں بیہودہ گوئیوں سے باز آ جاؤ اور رحیم خدا کو پکارو کہ وہ بخش دے۔

احمدیوں سے مَیں پھریہ کہتا ہوں کہ اپنے اوپر اسلام کی تعلیم لاگو کرتے ہوئے ان عقل کے اندھوں یا کم از کم ان لوگوں کو جو ان کے زیر اثر آ رہے ہیں اور خدا کے پیاروں سے ہنسی ٹھٹھے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، ان کو سمجھائیں کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو نہ تمہاری بقا ہے اور نہ تمہارے ملکوں کی بقا ہے۔ کوئی اس کی ضمانت نہیں۔ پس اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو اس محسن انسانیت اور اللہ تعالیٰ کے پیارے نبیؐ کی ذات پر حملے بند کرو، اس سے تعلق پیدا کرو۔ اگر تعلق نہیں بھی رکھنا تو کم از کم شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ خاموش رہو۔

جنگوں کے علاوہ موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی آجکل دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہالینڈ تو وہ ملک ہے جس میں اس لحاظ سے بھی شرک بڑھا ہوا ہے کہ یہاں کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ باقی دنیا کو تو خدا نے بنایا ہے لیکن ہالینڈ کو ہم نے بنایا ہے۔ سمندر سے کچھ زمین نکال لینے کی وجہ سے ان کے دماغ الٹ گئے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ ملک کا اکثر حصہ سطح سمندر سے نیچے ہے۔ جب طوفان آتے ہیں، جب آفات آتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے عذاب آتے ہیں تو پھر وہ پہاڑوں کو بھی غرق کر دیتے ہیں۔ پس ان لوگوں کو بھی اور دنیا میں ہر جگہ انسانیت کو اس حوالے سے خدا کے قریب لانے کے لئے احمدی کی ذمہ داری ہے۔ اپنی ذمہ داری کو بھی سمجھیں اور خود بھی اس نبیؐ کے اسوہ پر چلتے ہوئے رحم کے جذبے کے تحت انسانیت کو بچانے کی فکر کریں۔ دنیا کو ایک خدا کی پہچان کروائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ توبہ کرنے والے، ایمان لانے والے اور پھر ایمان پر قائم رہتے ہوئے صالح عمل کرنے والے ہی ہیں جن کی بخشش ہو سکتی ہے۔

پس یہ پیغام عام کر دیں ورنہ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے پیارے پر ظالمانہ حملے کرکے عذاب کو دعوت دے رہی ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارضی و سماوی آفات کی خبر اپنی صداقت کے طور پر بھی دی ہے۔ اس لئے بڑے خوف کا مقام ہے اور دنیا کو بڑی شدت سے متنبّہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آنحضرتؐ کا مقام ان پر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نور کو دکھانے کی ضرورت ہے جس نے اُجڈ اور جاہل عرب کو اس زمانے میں مہذب ترین اور باخدا بنا دیا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’ دنیا میں ایک رسول آیا تاکہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صدہا سال سے بہرے ہیں۔ کون اندھا ہے اور کون بہرا، وہی جس نے توحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسول کو جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکز اعتدال پر قائم کیا۔ اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسول، ہاں وہی آفتاب صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مُردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا۔ نہ یسوع کی طرح صرف لاف و گزاف۔ جس نے مکّہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی بہت سی تاریکی کو مٹایا۔ ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا۔ اس کے پہلے دنیا کیا تھی اور پھر اس کے آنے کے بعد کیا ہوئی؟ یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ دقّت ہو۔ اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشنس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارادامن پکڑے گا کہ اس جنابؐ عالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے اور اس سچے معبود کی عظمت اوتاروں اور پتھروں اور ستاروں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اس ذوالجلال و قدوس کی جگہ پر بٹھایا تھا اور یہ ایک سچا فیصلہ ہے کہ اگر یہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے درحقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیں تھیں تو وہ دعویٰ ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے پہاڑپر کیا تھا۔ وہ کیا دعویٰ تھا وہ یہی تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پا کر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا۔ یہ صرف دعویٰ نہ تھا بلکہ اس رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعویٰ کو پورا کرکے دکھلا دیا۔ اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ … اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسو ل (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے۔ چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو کہ اب کے بعد مردہ پرستی روز بروز کم ہو گی یہاں تک کہ نابود ہو جائے گی۔ کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا؟۔ کیا ناچیز قطرہ خدا کے ارادوں کو رد کر دے گا؟۔ کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الٰہی حکموں کو ذلیل کر دیں گے؟ اے سننے والو سنو! اور اے سوچنے والو سوچو! اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا۔ ‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 9-8 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ پیغام، پیغام توحید ہے جو آج ہم نے ان سب تک پہنچانا ہے جو عقل اور شرافت رکھتے ہیں۔ جن کے لئے ہمیں اب پہلے سے بڑھ کر کمر ہمت کسنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ منصوبے ہیں جو حرکت میں آچکے ہیں اور ہم ہر روز اس کے نظارے دیکھتے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔ ہماری تو یہ حقیر سی کوشش ہو گی جو ہمیں ثواب کا مستحق بنائے گی۔

آخر میں پھر مَیں ان بڑبولوں تک جو آنحضرتؐ کے بارے میں نازیبا الفاظ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ پہنچانا چاہتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :

’’ مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریمؐ کی عزّت کے لئے جان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت توہین سے اس کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے ان کو یاد کرتے ہیں۔ آپ یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے۔ مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے۔ (چشمۂٔ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 385)

انشاء اللہ وہ فتح تو آنی ہے۔ ہر احمدی یہ پیغام ایسے لوگوں تک بھی اور ملک کی دوسری آبادی تک بھی پہنچا دے کہ یہ لوگ جو اس قسم کی باتیں کرنے والے ہیں نہ تمہارے خیر خواہ ہیں نہ ملک کے خیر خواہ ہیں۔ نہ دنیا میں امن وسلامتی کے چاہنے والے ہیں بلکہ فتنہ پرداز لوگ ہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اور صرف دنیا میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 16 تا 22 مارچ 2007ء ص 5تا 8)

 


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 23؍ فروری 2007ء شہ سرخیاں

     ہالینڈ کے ایک ممبر پارلیمنٹ کی طرف سے آنحضرتﷺ اور اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے بارے میں ہرزہ سرائی اور اس کی پر زور مذمت، دنیا اللہ تعالیٰ کے پیارے پر ظالمانہ حملے کر کے عذاب کو دعوت دے رہی ہے۔ جنگوں کے علاوہ موسمی تغیرات کی وجہ سے بھی آج کل دنیا تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    فرمودہ مورخہ 23 ؍فروری 2007ء بمطابق 23؍تبلیغ 1386 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور