خدا تعالیٰ کی صفت السلام

خطبہ جمعہ 11؍ مئی 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا ایک نام اَلسَّلَام ہے۔ قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے اس لفظِ سَلَام کو مختلف پیرایوں میں استعمال فرمایا ہے۔ اپنی صفت کے حوالے سے بھی بیان فرمایا ہے اور مومنوں کو اس صفت کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بھی فرمایا ہے۔

اس کے معانی مختلف مفسرین اور اہل لغت نے کئے ہیں، تفسیر الطبری میں علامہ ابو جعفر محمد کہتے ہیں کہ اَلسَّلَام وہ ذات ہے جس کی مخلوق اس کے ظلم سے محفوظ رہے۔

پھر ابوالحسن الترمذی کے نزدیک اَلسَّلَام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اَلسَّلَام اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ہر نقص، عیب اور فنا سے سلامت ہے۔ جبکہ بعض دوسرے علماء کے نزدیک وجہ تسمیہ یہ ہے یعنی اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان آفتوں سے سلامت ہے جو دوسروں کو تغیر اور فنا وغیرہ کی پہنچتی رہتی ہیں۔ نیز یہ کہ وہ ایسا باقی رہنے والا دائمی وجود ہے کہ تمام مخلوقات فنا ہو جائیں گی مگر اس پر فنا نہیں۔ وہ ہر ایک چیزپر دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔

پھر تفسیر رُوح البیان میں لکھا ہے اَلسَّلَام ہر قسم کی آفت اور نقص سے محفوظ ہے، تمام تر نقائص سے پاک ہونے کی وجہ سے اور سلامتی عطا کرنے میں بڑھا ہوا ہونے کی وجہ سے اُسے اَلسَّلَام کہا گیا ہے۔ اور اَنْتَ السَّلَام حدیث میں آتا ہے، (ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا سلم من الصلاۃ حدیث:300) نماز کے بعدجو دعا پڑھتے ہیں اس میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تُو وہ ذات ہے جو ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور ہر قسم کے نقص اور کمی سے مبرّا ہے۔ اور حدیث میں جو یہ ہے کہ مِنْکَ السَّلَام تو اس سے مراد یہ ہے کہ توُ وہ ذات ہے جو ایک بے کس شخص کو ناپسندیدہ اور تکلیف دِہ امور سے محفوظ کرتی ہے اور دونوں جہانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے چھٹکار ادلاتی ہے اور توُ وہ ذات ہے جو ایمان لانے والوں کے گناہوں اور عیوب کی پردہ پوشی کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ قیامت والے دن کی رسوائی سے سلامتی میں ہوں گے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مِنْکَ السَّلَام کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں مومنوں پر سلامتی کا تحفہ عطا کرتاہے۔ جیسا کہ فرمایا سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْم یعنی ان کو سلام کہا جائے گا جو بار بار کرم کرنے والے ربّ کی طرف سے ان کے لئے پیغام ہو گا۔ تو اس لفظ سَلَام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مکمل حفاظت کا پیغام اور وعدہ دے دیا ہے۔ اُس خدا کی طرف سے جو رحم کرنے والا خدا ہے اور بار باررحم کرنے والا خداہے۔ یہ ایک چھوٹی سی آیت ہے لیکن ایک عظیم پیغام اپنے اندر رکھتی ہے کہ اس سلامتی کے تحفے کو حاصل کرنے کے لئے، اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بننے کے لئے اور اگلے جہان میں بھی اس سے فیض پانے کے لئے تم بھی اپنے اندر، آپس میں، یہ روح پیدا کرو۔ آپس کے تعلقات میں یہ روح پیدا کرو۔ ایک دوسرے کو سلامتی بھیجو تو یہ تحفہ تمہیں ملتا رہے گا۔ پھر اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ آپس کی سلامتی کے تحفے سے جہاں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے جنت میں جگہ پاؤ گے وہاں اس دنیا میں بھی سلامتی کی وجہ سے اپنے روح و دماغ کو بھی امن میں رکھو گے اور تمہارے لئے، اپنی ذات کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی مکمل خوشی پہنچانے والی چیز ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بھی یہ ایک عظیم راستہ ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک سَلَام اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں رکھا ہے اس لئے تم آپس میں سَلَام کو پھیلاؤ۔ (الادب المفرد لامام بخاری ؒ باب السلام من اسماء اللہ عز وجل حدیث نمبر 1019)

پس یہ سلام کو پھیلانا، آپس کی محبت پیدا کرنے کا اور معاشرے میں امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لئے بے شمار مواقع پر، آنحضرتﷺ نے آپس کے محبت و پیار کو قائم کرنے کے لئیسَلَام کو رواج دینے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پس خدا کا سَلَام حاصل کرنے کے لئے ہم اپنے معاشرے میں بھی حقیقی سلامتی پھیلانے والے بنیں گے تو تبھی اس کو حاصل کرنے والے ہو سکیں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے ایک شخص نے پوچھا کہ کونسا اِسلام بہتر ہے؟ تو آپ نے فرمایا : تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلٰی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِفْ۔ پہلی بات تو یہ فرمائی کہ تم کھانا کھلاؤ اور دوسری یہ ہے کہ سلام کہو ہر اُس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے۔ (بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام من الاسلام حدیث نمبر 12)

پھر ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’تم سے پہلی قوموں کی بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں۔ یعنی بغض اور حسد‘‘۔

اب یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اگر اس زمانے میں بھی غور کریں تو یہ چیزیں بھی دوبارہ داخل ہو رہی ہیں بلکہ ایک انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس پیغام کو لے کے آئے تھے اس میں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ تھی اس میں بھی بغض اور حسدایک بہت بڑی چیز ہے جو حقوق ادا نہ کرنے کی ایک وجہ بنتی ہے۔ تو جماعت کو ہمیشہ اس سے محفوظ رہنا چاہئے۔

فرمایا کہ… یہ بیماریاں تم میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی ہیں یعنی بغض اور حسد۔ ’’بغض مونڈھ دینے والی ہے۔ فرمایا: بالوں کو مونڈھنے والی نہیں بلکہ دین کو مونڈھنے والی۔ بُغض ایسی چیز ہے جو تمہارے دین کو ختم کر دے گی۔ فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کامل ایمان نہ لے آؤ اور اس وقت تک کامل ایمان نہیں لا سکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ اور کیا مَیں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس محبت کو تم میں مضبوط کر دے گی، وہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں سَلَام کو رواج دو۔‘‘ (الترغیب والترھیب جزء 3الترغیب فی افشاء السلام و ما جاء فی فضلہ… حدیث نمبر3978۔ صفحہ372-371)

پس جیسا کہ مَیں نے کہا آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو کسی نہ کسی رنگ میں شیطان حسد اور بغض کے جذبات بہت سوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ پس کتنی بدنصیبی ہے کہ زمانے کے امام کو مان کر بھی ہم بعض حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنے کے لئے، اللہ اور رسولﷺ نے یہی راستہ بتایا ہے کہ سلام کو رواج دو۔ اس سے آپس میں دلوں کی کدورتیں بھی دور ہوں گی، محبت بھی بڑھے گی، عفو اور درگزر کی عادت بھی پیدا ہو گی اور پھر اس سے معاشرے میں ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے گی جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک بڑا اہم حکم ہے جس سے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔

عام طور پر جماعت میں بھی بعض دفعہ آپس میں لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں، جھگڑ ے ہوتے ہیں جو بعض دفعہ اتنا طول کھینچ لیتے ہیں کہ انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی ایک جگہ اسی طرح آپس میں دو خاندانوں کی لڑائی ہوئی اور اس حد تک بڑھ گئی کہ جماعت کی بدنامی کا باعث بنی جس کی وجہ سے دونوں فریقوں کو جماعت سے اخراج کی سزا دینی پڑی۔ خیر اس کے بعد معافی کے لئے لوگ لکھتے ہیں، لکھتے رہے، ایک نے لکھا کہ مَیں نے جب اس بات کو ختم کرنے کے لئے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے جا کر مسجد میں ہی دوسرے فریق کو سلام کیا تو اس نے کہا بھول جاؤ اس بات کو، ابھی چھ مہینے سال تک مَیں تمہارے ساتھ کوئی بات نہیں کر سکتا، نہ سلام ہو سکتا ہے، نہ ہماری صلح ہو سکتی ہے۔ تو ایسے موقعے جماعت میں بھی پیدا ہو تے ہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ امام الزمان کو مان کر بھی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعووں پر ایمان لانے کے بعد بھی، اُن شرائط بیعت کو ماننے کے بعد بھی کہ حقوق العباد کی ادائیگی کریں گے پھر ہم اس قسم کی حرکتیں کر رہے ہوں۔ تو جہاں یہ نفرتیں، کینے، لڑائیاں بعض لوگوں کو جو اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوتے ہیں جماعت سے علیحدہ کرتے ہیں، وہاں یہ سزا دینے کی وجہ سے خلیفۂ وقت کے لئے بھی تکلیف کا باعث بن رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ سب سے بڑھ کر اپنے خدا کی ناراضگی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ تو خدا تواَلسَّلَام ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن اپنی حرکتوں کی وجہ سے بندہ پھر اس کی ناراضگی کا مورد بن رہا ہوتا ہے۔ پس اللہ بندوں پرظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بندہ خود ہے جو اپنی ذات پر اس قسم کی حرکتیں کرکے ظلم کر رہا ہوتا ہے۔

پھر امام غزالی اللہ تعالیٰ کے اَلسَّلَام ہونے کی بابت فرماتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی ذات ہر عیب سے اور جس کی صفات ہر نقص سے اور جس کے کام ہر قسم کے شر سے محفوظ اور پاک ہوں، یعنی اس کے کام میں صرف شر یعنی دکھ اور تکلیف ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر اس تکلیف سے کہیں بڑھ کر خیر اور بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ تو یوں سلامتی بکھیر تا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔

انسان اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت اَلسَّلَام سے فیض پا سکیں سلامتی پھیلانے سے صرف شر اور دکھ سے ہی نہیں بچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن رہا ہوتا ہے۔ اس خیر اور بھلائی سے بھی حصہ لے رہا ہوتا ہے جواَلسَّلَام خدا بندے کے نیک اعمال اور سلامتی پھیلانے کی وجہ سے اسے دے رہا ہوتا ہے۔

امام راغبؔ نے اس بارے میں مزید وضاحت فرمائی ہے، یہ لکھتے ہیں کہ اَلسَّلَام اور اَلسَّلَامۃ ان معنوں میں ہے کہ وہ ہر قسم کے ظاہری اور باطنی عیوب و نقائص سے خالی ہے اور جب اللہ کی نسبت اَلسَّلَام کہیں گے تو مراد یہ ہو گا کہ اس میں انسانوں والے عیوب و نقائص نہیں ہوتے۔

پھر لکھتے ہیں کہ عبدالسلام یعنی خدائے سلام کا بندہ وہ ہے جو اَلسَّلَام کا مظہر ہو، خدائے اَلسَّلَام اس کو ہر نقص، آفت اور عیب سے محفوظ رکھتا ہے۔ جب بندہ اس اَلسَّلَام خدا کا مظہر بننے کی کوشش کرتا ہے، سلامتی پھیلاتا ہے، معاشرے میں محبت امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرتا ہے تو پھر کیا نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر نقص آفت اور عیب سے محفوظ رکھتا ہے۔ ، پس ہر بندہ جس کا دل ملونی، کینہ، حسد اور بد ارادے سے پاک ہو اور جس کے اعضاء گناہوں کے ارتکاب اور ان امور کے ارتکاب سے جن سے خدا نے روکا ہے، بچے ہوئے ہوں اور جس کے اخلاق ایسے ہوں کہ اس کی عقل، خواہشات اور غضب کی اسیر نہ ہو۔ عقل اپنی خواہشات کی غلام نہ بن جائے کہ غصے میں آ کر ہر چیزبھول نہ جائے۔ ایسے لوگ نہ ہوں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے۔ ؎

جنہیں عیش میں یاد خدا نہ رہی

جنہیں طیش میں خوف خدا نہ رہا

اور کوئی شخص صفت سَلَام اور اَلسَّلَام سے اس وقت تک متصف نہیں ہو سکتا جب تک دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ نہ ہوں۔ اور اَلسَّلَام صفت کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ تکالیف اور مصائب کو دُور کرتی ہے۔ جس طرح حدیث میں آیا ہے۔ آنحضرتﷺ ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامتی میں رہیں۔ ایک جگہ فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامتی میں رہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب ایّ الاسلام افضل؟ حدیث نمبر11)

پس آپس کے تعلقات، ایک دوسرے سے محبت کے سلوک کے حقوق کا خیال رکھنا، یہ کوئی معمولی چیزیں نہیں ہیں، ان کی بڑی اہمیت ہے۔ اگراس سَلَام خدا کی طرف منسوب ہونا ہے تو پھر ہم میں سے ہر ایک کو سلامتی کا پیامبر بننا ہو گا، سلامتی کو پھیلانے والا بننا ہو گا، اپنے معاشرے میں سلامتی بکھیرنے والا بننا ہو گا۔ ورنہ جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے نام کا اسلام ہو گا اور یہ ایمان کی کمزور حالت ہے، یہ کمزور درجہ کا ایمان ہو گا۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ یہی نہیں کہ صرف مسلمان تمہارے سے محفوظ رہیں بلکہ ایک سچے اور پکے مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام انسانیت کی سلامتی کی ضمانت ہو۔

سہل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا وہ شخص سلامتی والا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ (مسنداحمد بن حنبل، مسند معاذ بن انس، جلد5صفحہ377 حدیث 15729مطبوعہ بیروت1998ء)

جب ایمان میں ترقی ہوتی ہے تو صرف اپنے مسلمان بھائیوں سے نہیں، تمام بنی نو ع انسان سے محبت اور پیار اور سلامتی کا تعلق ہو جاتا ہے اور یہی سلامتی کا تعلق ہے جو پھر یہ نیک پیغام دوسروں تک پہنچاتا ہے اور یہی سلامتی کا تعلق ہے جو پھر دوسروں کو آپ کے ارد گرد لے کر آتا ہے۔ اور پھر یہی سلامتی کا پیغام ہے جس سے تبلیغ کے میدان کھلتے ہیں۔ اور یہی سلامتی کا پیغام ہے جس سے پھر لوگوں کو آپ کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے اور صحیح دین کو پہچان کر اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ سلامتی کا پیغام جب اختیار کریں گے اور پھیلائیں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے صحیح پر تو بن سکیں گے۔

مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ حقیقی سَلَام صرف جنت میں ہی ہے کیونکہ وہاں ایسی بقا ملے گی جو فنا سے پاک ہے اور ایسی تو نگری ملے گی جو ہر قسم کے فقر سے مبرّا ہے اور ایسی عزت نصیب ہو گی جس کے ساتھ کوئی ذلّت نہیں اور ایسی صحت عطا ہو گی جس کے بعد کوئی بیماری نہیں۔ یہی مضمون اس آیت کریمہ میں ہے لَھُمْ دَارُالسَّلَامِ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ اور یہ آیت اس طرح ہے کہ لَھُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْن (الانعام:128) کہ ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس امن کا گھر ہے اور وہ ان نیک کاموں کے سبب سے جو وہ کیا کرتے تھے ان کا ولی ہو گیا ہے۔

پس جیسا کہ سَلَام بھی خد اکے ناموں میں سے ایک نام ہے تو یہ جو لفظ دارالسلام استعمال کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے قرب کی جگہ، یعنی جنت۔ پس ہر تقویٰ پر قدم مارنے والے مومن کے لئے جو سلامتی بکھیرنے والا ہے اور معاشرے میں سلامتی اور امن کا علمبردار ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ولی ہو گا۔ اپنے قرب میں جگہ دے گا کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضاکی راہوں پر چلنے والے کو اپنے وعدوں کے مطابق اپنے قرب میں جگہ نہ دے۔

پھر فرمایا یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَام وَیُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدۃ :17) کہ اللہ اس کے ذریعہ سے انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ جو بھی اس تعلیم کے ذریعہ سے جو آنحضرتﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اتاری تھی، اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، اسے سلامتی کی راہوں پر اللہ تعالیٰ ہدایت دے گا۔ جس سے وہ اس دنیا میں بھی سلامتی بکھیرنے والا بن جائے گا اور اس کا ہر عمل اور ہر فعل اس طرح سے ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو گا۔ روشنی اس کا مقدّر ہو جائے گی اور اندھیرے اس سے دُور ہو جائیں گے۔ پس یہ سُبُلَ السَّلَام یعنی سلامتی کے راستے یقینا وہ راستے ہیں جو خدا کی طرف لے جانے والے ہیں اور یہ اُسی وقت حاصل ہوں گے جب قرآن کریم کی تعلیم ایک مومن کُلّی طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر صراط مستقیم پرچلتے ہو ئے اللہ تعالیٰ کا قرب اس کو حاصل ہوتا ہے جس کے حصول کے لئے ہر مومن کو کو شش کرنی چاہئے اور وہ کرتا ہے اور یہی ذریعہ ہے جس ذریعہ سے پھر انسان دونوں جہان کے فیض پا سکتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ (یٰسٓ:59) سلام کہا جائے گا ربّ رحیم کی طرف سے۔ فرمایا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ(الرعد:25) پس تمہارے لئے سلامتی ہو کیونکہ تم ثابت قدم رہے۔ پس دیکھو تمہارے لئے اس گھر کا کیا ہی اچھا انجام ہے۔ پس یہ ثابت قدمی بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان میں اور ان احکامات کی پابندی میں ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو دئیے ہیں جن کے ذریعہ سے حقوق اللہ بھی ادا ہوتے ہیں اور حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہیں۔ ایک مومن کو اللہ تعالیٰ نے ایسے گھر کی خوشخبری دی ہے جو ہمیشہ رہنے والا گھر ہے۔ پس یہ جو مختلف جگہوں پر بار بار اَلسَّلَام خدا کا پیغام ہے، بے شمار جگہوں پر سَلَام کا جو لفظ استعمال ہوا ہے یہ ہمیں اس بات کی اہمیت کو سمجھنے والا بننا چاہئے۔

سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’سلام تو وہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہو‘‘۔ فرمایا ’’خداتعالیٰ کا سلام وہ ہے جس نے ابراہیم کو آگ سے سلامت رکھا۔ جس کو خدا کی طرف سے سلام نہ ہو بندے اس پر ہزار سلام کریں، اس کے واسطے کسی کام نہیں آ سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ244جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خداتعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20صفحہ63)

پس جب یہ حالت ہوگی جس کی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق اس زمانے کے امام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں تو پھر ہم خداتعالیٰ کی سلامتی کے نیچے ہوں گے اور دنیا کی لعنتیں یا منصوبے ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے لیکن اگر خدا کی سلامتی کے نیچے ہم نہیں تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دنیا کے ہزار سلام بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ244)

پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے وارث اُس وقت بنیں گے جب ہم اس تعلیم کے مطابق صفت سَلَام کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے نیچے آنے کی کوشش کریں گے۔ ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہم میں امام بھیجا اور پھر یہ توفیق دی کہ اس امام کو مانیں، اس مسیح و مہدی کو مانیں جس کو سَلَامپہنچانے کا بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا اور جس کوسَلَام کہتے ہوئے اپنے پیارے ہونے کا مرتبہ و مقام اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ یعنی خود اللہ تعالیٰ نے آپ پر سَلَام بھیجا ہے۔ جیسا کہ ایک الہام میں آپ کو فرمایا ’’سَلَامٌ عَلَیْکَ یَآ اِبْرَاہِیْمُ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ ذُوْ عَقْلٍ مَتِیْنٍ‘‘ تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم! تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے۔ (تذکرہ صفحہ82 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

پس ان تمام فیوض سے فیضیاب ہونے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے اور اس سَلَام سے حصہ لینے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا، ہدایت کے اس سرچشمے کی ہر ہدایت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر اتارا اور جس کے عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ابراہیم کے نام سے پکار کر سَلَام بھیجا تاکہ وہ تمام آگیں بھی اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دے جو مخالفین نے آپؑ کے خلاف بھڑکائی تھیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف مخالفین نے آگ جلائی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے الہاماًآپؑ کو فرمایا ہے وَنَظَرْنَا اِلَیْکَ وَقُلْنَا یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اور ہم نے تیری طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ جو فتنے کی آگ قوم کی طرف سے ہے اس ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا۔ (تذکرہ صفحہ 40-39ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

تاریخ شاہد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر آپؑ کی زندگی میں جو بھی آگ بھڑکائی گئی وہ نہ صرف ٹھنڈی ہوئی بلکہ آپؑ کے لئے سلامتی کا پیغام لائی۔ سلامتی کا مطلب جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ خیر اور بھلائی لانا ہے۔ تو اس زمانے میں بھی مخالفت کی جو آگ دنیا کے کسی بھی خطے میں جماعت کے خلاف بھڑکائی گئی یا بھڑکائی جا رہی ہے وہ ضرور ٹھنڈی ہو گی انشاء اللہ۔ کیونکہ وہ کسی فرد کے خلاف نہیں بھڑکائی جا رہی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بھڑکائی جا رہی ہے۔ آپؑ کے ماننے والوں کے خلاف اس لئے بھڑکائی جا رہی ہے کہ انہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا۔ پس اس مخالفت کی وجہ سے اگر ان چھوٹی موٹی تکالیف میں جو آجکل بعض لوگوں کو بعض جگہوں پر برداشت کرنی پڑتی ہیں ہم مبتلا کئے جا رہے ہیں تو یہ بھی ایک امتحان ہے جس پر پورا اترنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ چاہے وہ سری لنکا میں ہو، بنگلہ دیش میں ہو یا پاکستان میں ہو، اس آگ نے یقینا ٹھنڈا ہونا ہے انشاء للہ۔ نہ صرف یہ ٹھنڈی ہو گی بلکہ سلامتی بھی لے کر آئے گی اور یہی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیں ہمیشہ سلامتی مانگتے رہنا چاہئے۔

اس ضمن میں سری لنکا کی یہ خبر مَیں آپ کو بتا دوں۔ ابھی جب مَیں جمعہ پہ آرہا تھا تو فون پریہ اطلاع ملی کہ وہاں کافی عرصہ سے مخالفین شدید مخالفت کر رہے تھے اور مخالفت کی ایک انتہا کی ہوئی تھی۔ وہاں پر مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13فیصد ہے لیکن کیونکہ زور زیادہ ہے، شیطان کا زور زیادہ چلتا ہے نا۔ مسلمان تو نہیں، نام کے مسلمان ہیں۔ آنحضرتﷺ کے نام کو بدنام کرنے والے لوگ ہیں۔ مولویوں کے پیچھے چل کے اس ملک میں جتنی مساجد ہیں۔ (وہاں 2ہزار 300کے قریب مساجد ہیں ) وہاں تمام مسجدوں میں جماعت کے خلاف خطبہ دیا گیا اور ایک آگ بھڑکائی گئی، لوگوں کو بھڑکایا گیا۔ تو صبح اطلاع تھی کہ ہماری نگومبو (Nigombo) کی جو مسجد ہے وہاں 500کے قریب لوگوں نے حملہ کیا اور 60کے قریب جو وہاں اندر نمازی تھے ان کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ بہرحال ابھی دوبارہ اطلاع آئی ہے کہ پولیس نے کچھ ہمت کرکے (پہلے تو پولیس کے قابو نہیں آ رہے تھے) ان کو باہر نکال دیا ہے اور اب احمدی اس وقت مسجد میں جا رہے ہیں۔ لیکن وہاں کے احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جو آگ بھڑکائی جا رہی ہے یہ ان لوگوں کی طرف سے بھڑکائی جا رہی ہے جو اُس نبی کی طرف منسوب ہونے والے ہیں جنہوں نے سلامتی کا پیغام دیا اور یہ بجائے اسلام کی خدمت کے اسلام کو بدنام کرنے والے لوگ ہیں۔ اللہ نے فضل کیا ہے، مسجد تو خالی ہو گئی۔ آپ لوگ آئندہ بھی ثابت قدم رہیں، پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ اس امتحان سے آپ لوگوں کو کامیاب کرکے نکالے۔ اِن لوگوں کے اِس عمل کو دیکھ کر اور جب دنیایہ شور مچاتی ہے کہ یہ تعلیم ہے جس پر مسلمان عمل کر رہے ہیں تو شرم آتی ہے۔ اس نبی کی طرف منسوب ہوتے ہوئے، جیسا کہ مَیں نے کہا، جس نے ہمیشہ سلامتی کی تعلیم دی، پیار اور محبت اور امن کا پیغام ہر جگہ پہنچایا اور ہمیشہ یہ تلقین کرتے رہے کہ پیار اور محبت سے رہو۔ ان کی طرف منسوب ہو کریہ لوگ نہایت ظالمانہ قسم کے عمل کر رہے ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بجائے یہ لوگ حقوق العباد کو دبانے والے، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم کرنے والے اور حقوق العباد غصب کرنے والے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ احمدیت کو اس طرح ختم کر دیں گے؟ یہ ان لوگوں کو زُعم ہے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا یہ زُعم کبھی پورا نہیں ہونے دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ ان کے خیال میں یہ کسی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے یا کسی بندے کا لگایا ہوا پودا ہے۔ جماعت احمدیہ تو اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا پودا ہے، اور جس کے ساتھ خداتعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تیری ساری مرادیں پوری کرے گا اس کو یہ لوگ کس طرح ختم کر سکتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح نامراد رہیں گے اور اپنی آگ میں جلتے رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ آگ جلد سری لنکا کے احمدیوں پر ٹھنڈی ہو جائے گی جو ان کے خلاف بھڑکائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے اور ایمانوں کو مضبوط کرے۔ ان کو مَیں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تاکہ اس کے فضلوں کو جلد سے جلد سمیٹنے والے ہوں اور دنیا کی جماعتوں کے احمدی بھی ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس امتحان اور ابتلا سے جلد سے جلد نکالے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے جو ایک وعدہ ہے اور ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ سَلَامٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ صَافَیْنَاہٗ وَنَجَّیْنَاہٗ مِنَ الْغَمِّ۔ تَفَرَّدْنَا بِذٰلِکَ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی کہ ابراہیم پر سلام ہو۔ ہم نے اس کو خالص کیا اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو۔ (تذکرہ صفحہ85ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

پس دعائیں کرنا اور اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اور وحدانیت کا صحیح فہم و ادراک حاصل کرنا۔ یہ ہے جو اس زمانے کے ابراہیم کے نقش قدم پر چلنے والوں کو بھی زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر فرمایا کہ اے ابراہیم! تجھ پر سلام، ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ نے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا ہے اس کی طرف منسوب ہونے والوں کو کیسا ہونا چاہئے۔ یقینا ان راہوں پہ چلنے والا جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی راہیں ہیں، جو اس کی وحدانیت کو قائم کرنے والی راہیں ہیں، جو اس واحد خدا کے آگے جھکنے والی راہیں ہیں اور جن پر چل کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے وہ اعزاز پایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چن لیا ہے اور فرمایا۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ یعنی جب بھی ضرورت پڑی تیرے سب کام درست کرتا چلا جائے گا اور اب بھی جن میں روک ہے وہ بھی انشاء اللہ درست ہوجائیں گے اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ خود اتر کر آتا ہے اور اپنے فضل سے، نہ کہ ہماری کسی کوششوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دوستی کا حق ادا کرتا ہے۔ ہر کام سنوارتا ہے اور سنوارتا چلاجاتا ہے بلکہ اس طور سے ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کی بارش ہو رہی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایم ٹی اے کے سٹاف نے اور عربوں نے مل کر MTA العربیہ کے اجراء پر ایک فنکشن کیا تھا۔ تو وہاں بھی مَیں نے ان کو یہی کہا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو وہ ہمیشہ سے حسب ضرورت پورا کرتا چلا جا رہا ہے اور آج بھی پورا کر رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ کرتا چلا جائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دلائی ہے کہ مَیں دوستوں کا دوست ہوں، کبھی تجھے چھوڑوں گا نہیں۔ ایک نیک شخص جو دوستی کا حق ادا کرنے والا ہو، جو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے وہ بھی اپنے دوست اور دوستی کا حق ادا کرتا ہے اور نہیں چھوڑتا، وقت پہ کام آتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو سب سے زیادہ وفا کرنے والا ہے وہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اعلان کرے کہ مَیں نے خالص دوستی کے ساتھ تجھے چن لیا اور پھر وہ دوستی کا حق ادا نہ کرے۔

پس ہم جو اس امام کی طرف منسوب ہوتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے دوستی کا اعلان فرمایا، ہمیں انفرادی طور پر بھی اس سے فیض پانے کے لئے ان تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جن کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی اور قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس کا ذکر ہے۔ مثلاً فرمایا وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(الفرقان :64) کہ رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواب میں کہتے ہیں سَلَام۔ تو یہ مومن کی نشانی ہے اور یہ اس رحمن خدا کے ماننے والے کی نشانی ہے، یہ اس کے پیاروں کی طرف منسوب ہونے والوں کی نشانی ہے جس کی معراج آنحضرتﷺ کی ذات تھی کہ انتہائی عاجزی اور فروتنی کے ساتھ زندگی گزاری۔ غریب کے ساتھ بھی عزت سے پیش آئے، بات کی تو ہمیشہ عزت وا حترام سے کی، جاہل کے ساتھ(جو جاہل بدو تھے) جو نازیبا کلمات بھی بعض اوقات منہ سے نکال دیتے تھے، ان کے ساتھ بھی نہایت پیار سے اور عاجزی سے اور سلامتی بھیجتے ہوئے اپنے نمونے دکھائے اور اس عاجزی کا عظیم نمونہ اس وقت قائم کیا جب فاتحانہ شان کے ساتھ مکّہ میں داخل ہو رہے تھے، لیکن اس پر بھی آپ کا سر عاجزی سے جھکتا چلا جا رہا تھا۔ اونٹ کے کجاوے کے ساتھ لگتا چلا جا رہا تھا اور پھر وہاں جا کے بھی سلامتی بکھیری کہ کوئی ظلم نہیں کرنا، کسی کو قتل نہیں کرنا، لڑائی نہیں کرنی، سوائے اس کے کہ جو تلوار اٹھاتا ہے وہ بھی مجبوری سے۔

تو ہمیں بھی اسی اُسوہ پر چلنا ہو گا تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پیار کی نظر ہم پر پڑے گی اور پھر پڑتی چلی جائے گی۔

پھر اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے عاشق صادق نے کیا عاجزی کے نمونے دکھائے، اس عاجزی کے کیا معیار قائم کئے۔ لغو مجالس سے ہمیشہ بچتے رہے اور عاجزی کی انتہا کی وجہ سے ہی اور صرف امن قائم کرنے کے لئے نہ کہ اپنی اَنا کو قائم کرنے کے لئے بعض ایسے موقعے پیش آئے جہاں ظاہراً سُبکی کا بھی خیال تھا لیکن آپ نے عاجزی دکھاتے ہوئے اس کو بھی برداشت کیا اور اسی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں۔ (تذکرہ صفحہ595ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

پس ہم جو اللہ کے ان پیاروں کو ماننے والے اور ان کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے اور لغویات سے بچنے، جھگڑوں اور فضول مجلسوں سے پہلو بچانے والے ہوں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی سلامتی کے وارث بن سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ یکم تا 7جون 2007ء ص5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ مئی 2007ء شہ سرخیاں

    ہم میں سے ہر ایک کو سلامتی کا پیامبر بننا ہوگا، دنیا کے کسی بھی خطے میں جماعت کے خلاف جو آگ بھڑکائی جارہی ہے اس آگ نے یقینا ٹھنڈا ہونا ہے

    فرمودہ مورخہ11؍مئی 2007ء (11؍ہجرت 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور