اللہ تعالیٰ کی صفت السلام

خطبہ جمعہ 8؍ جون 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے والدین سے لے کر معاشرے کے مختلف طبقات سے حسنِ سلوک کے بارے میں قرآنی تعلیم کا ذکر کیا تھا کیونکہ یہ حُسنِ سلوک معاشرے میں صلح سلامتی اور امن کا ماحول پیدا کرنے میں بڑا اہم کر دار ادا کرتا ہے۔ معاشی اور اقتصادی حالات جو ہیں ان کا بھی معاشرے کے امن و سلامتی سے بڑا تعلق ہے، اس حوالے سے آج چند باتیں کروں گا۔

کسی بھی معاشرے میں نسبتی لحاظ سے بھی اور واضح فرق کے لحاظ سے بھی امیر لوگ بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں۔ ضرورت مندبھی ہوتے ہیں اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ بعض مالی کشائش ہونے کے باوجود طبیعتوں کے بخل کی وجہ سے نہ دینی ضرورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے پر یہاں تک کہ اپنے قریبی عزیزوں سے حُسنِ سلوک سے بھی بالکل بے پرواہ ہوتے ہیں۔ کبھی خیال نہیں آتا کہ ان کی مالی ضرورت کا جائزہ لے کر اس مال میں سے جو خداتعالیٰ نے انہیں دیا ہے ان پر بھی کچھ خرچ کر سکیں۔ نتیجۃ ً بعض اوقات پھر رشتوں میں ایسی دراڑیں پڑنی شروع ہوتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں کہ رشتوں کا احساس ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ غریب رشتہ داروں کو تکلیف میں جب ضرورت ہوتی ہے اور جب ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، ان کے قریبی عزیز ضرورتیں پوری نہیں کرتے تو یہ باتیں اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ پھر نفرتیں پنپنے لگتی ہیں۔ گو ایک مومن کا شیوہ نہیں کہ کسی دوسرے کی آسودگی اس کے دل میں حسد اور نفرت کے جذبات پیدا کرے۔ ہر اس شخص کو جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اپنے آپ کو ایسے جذبات سے پاک رکھنا چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اِلاّماشاء اللہ جماعت احمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی برکت سے اس قسم کے خیالات رکھنے والے اور دوسروں کی دولت پر نظر رکھنے والے نہیں ہیں، یا جیسا کہ مَیں نے کہا بہت کم ہوں گے، اِکاّ دُکاّ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا غریب طبقہ، جو کم و سائل والا طبقہ ہے وہ دوسرے کے پیسوں کو دیکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنتے ہوئے، اپنی طاقت سے بڑھ کر خداتعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں کرنے والا ہے۔ اور اگر گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو مالی لحاظ سے کمزور احمدی کا معیار قربانی یعنی اس کی آمد کی نسبت سے قربانی کا جو اس کا معیار ہے وہ اپنے آسودہ حال بھائیوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال جو لوگ خوشحال ہیں، یا نسبتاً زیادہ بہتر حالت میں ہیں، ان کو اپنے ان عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں، خیال رکھنا چاہئے کیونکہ آپس میں محبت پیار بڑھانے کا یہ بہت بڑا ذریعہ ہے۔

جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ بندے سے جب سَلَام کا لفظ منسوب ہو تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ایسا شخص جس کے اخلاق، خواہشات غضب کے تابع نہ ہوں۔ ایک احمدی کا معیار تویہی ہے کہ اس میں صرف اپنی خواہشات نہ ہوں بلکہ وہ اپنے بھائیوں کی خواہشات کا بھی احترام کرنے والا ہو۔ اپنی بہنوں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی خواہشات کا احترام کرنے والا بھی ہو۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کا خیال رکھنے والا بھی ہو۔ غصے کی وجہ سے یا کسی ناراضگی کی وجہ سے اگر کوئی ضرورت مند ہے تو کسی بھی وقت اس کو اپنی مدد سے محروم نہ کرے، اس کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچے۔ اس بارے میں خداتعالیٰ کا واضح ارشاد ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر بعض لوگوں نے الزام لگایا اور یہ لمبا واقعہ ہے بہرحال جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس الزام کی بریت ہو گئی تو اس وقت الزام لگانے والوں میں ایک ایسا شخص تھا جو ویسے تو نیک تھے، پتہ نہیں کیوں منافقین کی باتوں میں آ گئے۔ بہرحال وہ ایسے بھی تھے جن کی ضرورت کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مددکیا کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہ ؓ کی بریت ہو گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ عہد کیا، قسم کھائی کہ مَیں اب ساری عمر کبھی اس کی مددنہیں کروں گا۔ تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَ لَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النور:23) اورتم میں سے صاحب فضیلت اور صاحب توفیق اپنے قریبیوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دینے کی قسم نہ کھائیں۔ پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک حدیث نمبر 4141)

پس یہ مومنین کے لئے ہمیشہ قائم رہنے والا حکم ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ الزام حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی پر لگا تھا۔ باوجود اس کے کہ الزام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی محبوب ترین ہستی کی بیوی پر لگا تھاجس سے آپﷺ کوبہت صدمہ تھا۔ باوجوداس کے کہ یہ الزام نہ صرف ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبوب ہستی پر تھا بلکہ خود خداتعالیٰ کے پیارے پر یہ الزام تھا جس کی وجہ سے آپؐ انتہائی پریشانی میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ پیارا جس کی خاطر خداتعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا لیکن اس کے باوجود پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان لوگوں کو معاف کر دیا بلکہ حکم دیا کہ اے صاحب فضیلت شخص جو نبی کو سب سے زیادہ پیار کرنے والا اور اس کے گہرے دوستوں میں سے ہے اور وہ تمام لوگ جو اس زمرے میں آتے ہیں، جو بھی حالات ہوں درگزر کرتے ہوئے اس مدد کو جاری رکھو جو کسی کی کر رہے ہو۔ کسی بھی قسم کی غصّے کی حالت اور تکلیف تمہیں اس مدد سے نہ روکے۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے، ان کو بھی بخشنے والا ہے تم کو بھی بخشے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیاروں سے صرف اور صرف دوسروں کے لئے سلامتی کی توقعات ہیں۔ پس اس مقام کو کبھی نہ ضائع ہونے دو۔ جب ان حالات میں ایک دوسرے کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچنے کا حکم ہے تو عام حالات میں تو بہت زیادہ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ عام حالات میں تو صلح اور سلامتی کو پھیلانے کے لئے بہت زیادہ ایک دوسرے کی معاشی ضروریات کا خیال رکھنے کا حکم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پیار کے اظہار کے لئے، اس لئے کہ اب معاشرے کی سلامتی ایک دوسرے کی خاطر ہر قسم کی قربانی سے وابستہ ہے، انصار مدینہ نے مہاجرین کے لئے مالی قربانی کے بھی اعلیٰ ترین نمونے دکھائے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ انصار اور مہاجر نہیں بلکہ مسلمان، مسلمان کا رشتہ قائم ہوا ہے۔ اب صلح اور سلامتی کی نئی روایتیں قائم ہونے جا رہی ہیں۔ نبیﷺ نے جو ہمارے درمیان مؤاخات قائم کر دی ہے یہ کوئی دنیاوی بھائی بندی نہیں ہے۔ اِس نبیﷺ کی پیروی میں یہ وہ مؤاخات ہے جس سے اب دنیا کی سلامتی وابستہ ہے۔ پس ایک دنیا نے دیکھا کہ سلامتی کے جذبے سے پُر مواخات نے دنیا میں کیا کیا انقلابات پیدا کئے۔ پس یہ جذبہ ہے جو آج آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کے ہر فرد نے بھی دکھانا ہے جس سے پھر انشاء اللہ اس سلامتی کا دَور دَورہ ہو گا جس کے ساتھ آنحضرتﷺ بھیجے گئے تھے۔

پس اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں۔ مسکینوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ کریں۔ یہاں ان مغربی ممالک میں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے کشائش حاصل کر چکے ہیں اپنے عزیزوں کو، ایسے عزیز جو زیر نگیں نہیں بلکہ قرابت داری ہے، جو غریب ملکوں میں رہتے ہیں اور جن کی مالی کشائش نہیں، ان کو بھی وقتاً فوقتاً تحفے بھیجتے رہا کریں۔ پاکستان میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی میرے علم میں بعض ایسے خاندان ہیں جو اپنی بہتر تعلیم کی وجہ سے یا بہتر کاروبار کی وجہ سے آسودہ حال ہیں اُن کو بھی اپنے اپنے ملکوں میں اپنے ضرورتمند بھائیوں کا خیال رکھنا چاہئے اور یہ خیال ایسا ہو کہ اس میں احسان جتانا نہ ہو بلکہ اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی کا نظارہ پیش کر رہا ہو، دل کی گہرائیوں سے خدمت ہو رہی ہو۔ اس حکم کے تابع یہ مدد ہو رہی ہو کہ دایاں ہاتھ اگر دے رہا ہے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ یہ طریق ہے جس سے دوسرے کی عزت نفس بھی قائم رہتی ہے۔ یہ طریق ہے جس سے معاشرے میں سلامتی پھیلتی ہے اور یہ طریق ہے جس سے ایک د وسرے کے لئے دعاؤں سے پُر معاشرہ بھی قائم ہوتا ہے۔ آجکل پاکستان میں بھی مہنگائی بہت ہے، دنیا میں عمومی طور پر مہنگائی بڑھ گئی ہے اور سنا ہے کہ بعض سفید پوش جو ہیں ان کو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن احمدی کی تو بہرحال یہ کوشش ہونی چاہئے کہ یہ جوبھرم ہے ہمیشہ قائم رہے، کسی کے آگے وہ ہاتھ پھیلانے والا نہ ہو۔ لیکن جو عزیز رشتہ دار بہتر حالات میں ہیں ان کو چاہئے کہ ایسے طریق پر کہ جس سے کسی قسم کا احساس نہ ہو ان کی مدد کی جائے۔

کچھ سال ہوئے مجھے کسی نے ایک خاتون کا واقعہ بتایا۔ ان کے عزیز جو باہر تھے کچھ مدد کیا کرتے تھے اور اچھا گزارا اُس سے ہو جایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ اس عزیز کے حالات کی وجہ سے یا کسی وجہ سے کوئی مدد نہیں آئی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ فاقے ہونے لگے، بہت مشکل سے گزارا ہونے لگا۔ ایک وقت کی ہی روٹی کھائی جاتی تھی۔ وہ خاتون کہتی ہیں کہ ایک دن مَیں جا رہی تھی تو راستے میں مجھے آٹھ آنے یا ایک روپیہ گرا ہوا نظر آیا تو اس کو اٹھانے لگی۔ پھر خیال آیا کہ بس ذرا سے ابتلاء سے، امتحان سے گھبرا گئی، اللہ پر توکل چھوڑ دیا۔ اس روپے پر تمہاری نظر ہو گئی۔ پتہ نہیں کس کا ہے، کون آ کر اٹھا لے، یہ تو چوری ہے۔ بہرحال ان کے جو بھی احساس وجذبات تھے انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور حالات ایسے تھے کہ بچے بھی بیچارے بڑی مشکل سے گزارا کر رہے تھے۔ ان کو بھی سمجھاتی رہیں کہ حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں صبر کرنا چاہئے اور جو بھی حالات ہوں اگر غربت کے حالات ہوں تو ان میں اور زیادہ خدا کی طرف جھکنے والا بننا چاہئے۔ بہرحال کہتی ہیں کہ جب مَیں اس کے بعد گھر آئی تو کوئی صاحب آئے ہوئے تھے جو ان کو مدد بھیجا کرتے تھے۔ انہوں نے لفافہ دیا اس میں پہلے سے کئی گنا زیادہ رقم تھی۔ تو بعض لوگوں کے حالات ایسے بھی ہوتے ہیں۔ اگر کچھ عرصہ اور وہی رقم نہ آتی تو ہو سکتا تھا کہ اس کے بچوں میں کسی قسم کے ایسے خیالات پیدا ہو جاتے جس سے معاشرے سے نفرتیں پیدا ہوتیں، اللہ تعالیٰ پر بدظنی پیدا ہوتی اور اسی طرح کے واقعات ہوتے ہیں جس سے پھر گھروں کی سلامتی بھی اٹھ رہی ہوتی ہے۔ تو ہمیشہ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو جو حکم دئیے ہیں سارے بڑے پُر حکمت احکامات ہیں۔ بہرحال یہ بات ہو رہی تھی کہ معاشی حالات بھی سلامتی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریٰت:20) اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورتمندوں کے لئے ایک حق تھا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۔ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (الروم:39)

پھر آگے فرماتا ہے وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ۔ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ (الروم:40)

اس کا ترجمہ ہے کہ پس اپنے قریبی کو اس کا حق دو نیز مسکین کو اور مسافر کو۔ یہ بات ان لوگوں کے لئے اچھی ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور اگلی آیت میں ہے کہ جو تم سود کے طور پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں مل کر وہ بڑھنے لگے تو اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم جو کچھ زکوٰۃ دیتے ہو تو یہی ہیں وہ لوگ جو اسے بڑھانے والے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ اپنے قریبیوں کو، ضرورت مندوں اور مسکینوں کو، مسافروں کو ان کا حق دو۔ اور حق کیا ہے ؟ان کا حق یہ ہے کہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جو لوگ بہتر حالت میں ہیں، جن کی مالی حالت بہتر ہے، جو مالی کشائش رکھتے ہیں وہ اپنے غریب بھائیوں کے لئے خرچ کریں۔ وہ اس طبقے کے لئے خرچ کریں جن میں قریبی بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں، مسکین بھی ہیں، مسافر بھی ہیں۔ کیونکہ اگر معاشرے کے ہر طبقے کا خیال نہیں رکھتے، اپنے بھائیوں کو معاشرے میں ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہو تو یہ چیز ایسے کمزور طبقے کو پھر جرائم پر مجبور کرے گی۔ اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے وہ بعض ایسے کام کرنے پر مجبور ہوں گے جس سے معاشرے کا امن برباد ہو گا۔ غریب اور ضرورت مند طبقہ اپنی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ اپنے سے بہترکے لئے، امیروں کے لئے، دلوں میں بغض اور کینے پال رہا ہوتا ہے۔ اور ان کی سوچ سے فائدہ اٹھا کر پھر جو مفاد پرست ہیں اُن کو معاشرے میں فسادکے لئے اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ عموماً ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو کم از کم غریب ممالک میں یا کم ترقی یافتہ ممالک میں فساد پیدا کرنے کے لئے ایسے لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتے ہیں جن کے مالی حالات اچھے نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ امراء کے خلاف بھی آوازیں اٹھاتے ہیں۔ اپنے ملکوں کے جو بہتر کشائش رکھنے والا طبقہ ہے اس کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں اور حکومت کے خلاف بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ ہڑتالیں بھی ہوتی ہیں، قانون شکنیاں بھی ہوتی ہیں اور ملک میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ فساد دکھاتی رہی ہے اور آج بھی ہم کئی ملکوں میں یہ حالت دیکھ رہے ہیں۔ تو فسادوں کے عوامل میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہ معاشی بدحالی بھی ہے اور پھر یہ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ ایسا طبقہ پھر خدا سے بھی دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح جو طبقہ اپنے پیسے کو صرف اپنے تک محدود رکھتا ہے، غریبوں کا حق ادا نہیں کرتا، وہ بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خداتعالیٰ سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ اسلام کا دعویٰ تو کامل اور مکمل مذہب ہونے کا ہے جس میں ہر بات کا، ہر طبقے کی ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ معاشرہ بھی پرا من رہے اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف بھی توجہ رہے اور اس کا حق بھی ادا ہوتا رہے۔

پس ایک مسلمان کی پاک عملی حالتیں ہی ہیں جو اُسے اسلام کا صحیح نمونے دکھانے والا بناتی ہیں۔ اس تعلیم کا پرتو دکھاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے ورنہ صرف مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ پس جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ایک حکم معاشرے کے کمزور اور غریب طبقے کی معاشی حالت کو بہتر کرنا ہے اور اس کے لئے اسلام میں زکوٰۃ دینے کا حکم ہے، صدقہ دینے کا حکم ہے، ایک د وسرے کو تحفے دینے کا حکم ہے۔ حدیث میں آتا ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کو تحفے دو اس سے محبت بڑھتی ہے۔

زکوٰۃ کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے۔ اس کے لئے مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں احکامات آتے ہیں۔ کیونکہ یہی چیز ہے جس سے اسلامی حکومت کے خرچ بھی پورے ہوتے ہیں اور غریبوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر ذکر کیا ہے اور نماز کے قیام کے ساتھ کئی جگہوں پر اس کا ذکر فرمایا ہے۔ پس یہ بہت اہم چیز ہے اور جن پر یہ لاگو ہوتی ہے ان کو یہ ادا کرنی چاہئے اور اسی طرح جو صاحب حیثیت مسلمان ہے اس کے لئے اپنے مال میں سے قریبیوں اور ضرورت مندوں کے لئے بھی خرچ کرنا انتہائی ضروری ہے بلکہ فرض ہے۔ غریبوں اور مسکینوں اور کمزورطبقے کا خیال رکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ طبقہ ہی ہے جو ملکی معیشت کی بہتری کے لئے خدمت کر رہا ہوتا ہے۔ کارخانوں کے مزدور ہیں یا دوسری مختلف کاروباری جگہوں پر مزدور ہیں۔ بڑے زمینداروں کے لئے محنت کرنے کے لئے ان کی زمینوں پر مزدور ہیں۔ ہمارے ملکوں میں خاص طورپر زمینداروں میں اس پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں تو مشینری سے اکثر کام ہوجاتا ہے لیکن تیسری دنیا میں تو مزدوروں پر بہت انحصار ہوتا ہے۔ لیکن یہاں بھی جو صنعتی ممالک ہیں ان کی ترقی بھی مزدوروں کی ہی مرہون منت ہے۔ اگر اس طبقے کی محنت اور مدد شامل نہ ہو تو ملکی معیشت بھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس لئے اس غریب طبقے کو اس کا حق ادا کرنے کا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کی غربت سے فائدہ اٹھا کر اس کا حق نہ مارو، اس کو کم نہ دو۔ اسی طرح ان کے حق میں ان کی دوسری ضروریات کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو معاشرے میں ہر طبقے کے حق کا خیال رکھتا ہے۔ اس کمزور طبقے کو بھی اس کا حق دلوانے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ نہ ہی کوئی دوسرا مذہب اور نہ ہی کوئی اور اِز م اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس لئے اب دیکھ لیں وہی اِزم جو غریبوں کے حقوق کے علمبردار بن کر اٹھے تھے آہستہ آہستہ ختم ہو گئے یا ختم ہو تے جا رہے ہیں اور دنیا کی بے سکونی کی کیفیت پھر بڑھ رہی ہے کیونکہ صرف پیسے سے سکون نہیں ملتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے کہ میرے عابد بنو۔ جب دونوں فریق، ضرورت مند بھی اور ضرورت پوری کرنے والا بھی، اس حکم کی تعمیل کر رہے ہوں گے، جب صاحب حیثیت اس سوچ کے ساتھ اپنے کمزوروں کی مدد کریں گے کہ مَیں نے خدا کا پیار حاصل کرنا ہے، اس کی رضا حاصل کرنی ہے توپھر ہی حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر توجہ پیدا ہوگی۔ یہ مدد کوئی احسان نہیں ہے بلکہ ان کا حق ہے اور اس طرح سے جو مدد ہو رہی ہو گی وہ غریب طبقے کو کمتر سمجھ کر نہیں ہو رہی ہو گی بلکہ اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے ہو رہی ہو گی۔ دینے والا خود لینے والے کا ممنون ہو گا کہ اس نے قبول کیا اور لینے والا دینے والے کا ممنون احسان ہو گا کہ اس نے اس کی ضروریات کا خیال رکھا اور یہ وہ صحیح معاشرہ ہو گا جو اسلامی نمونہ پیش کرتا ہو گا۔ جس میں ایک دوسرے کے لئے دعاؤں اور سلامتی کے نظارے نظر آئیں گے۔ یاد رکھیں آج احمدی ہی ہے جو اس معاشرے کی صحیح تصویر پیش کر سکتا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ یہ عہد باندھا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کروں گا، ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ورنہ دنیا میں جو نفسا نفسی ہے اور جن ذاتی منفعتوں کی وجہ سے ترجیحات بدل رہی ہیں یا جن ترجیحات کی طرف دنیا چل پڑی ہے ان سے یا اُس سوچ سے اس معاشرے کے امن اور سلامتی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’سچے نیکوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنے قریبیوں کو اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور نیز اس مال میں سے یتیموں کے تعہد اور ان کی پرورش اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں ‘‘یعنی ان کو پالتے پوستے ہیں ’’ اور مسکینوں کو فقروفاقہ سے بچاتے ہیں۔ اور مسافروں اور سوالیوں کی خدمت کرتے ہیں‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ357)

تو یہ ہے ایک نمونہ جو مومنین کے معاشرے کا نظر آنا چاہئے۔

پھر دوسری آیت میں جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں سے کچھ ذکر تو ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں انتہائی اہم معاشی مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہمیشہ سے معاشرے میں فساد کی جڑ رہا ہے اور آج بھی بظاہر بہتر معیشت کے لئے ایک اہم ستون سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ہر شخص کو اور دنیا کے جو غریب ممالک ہیں ان کو ہمیشہ کے لئے قرضوں کے شکنجوں میں جکڑتا چلا جا رہا ہے لیکن غیر محسوس طریقے سے۔ اور وہ چیز جیسا کہ اس آیت کے ترجمہ میں بتایا تھا سُود ہے۔

خداتعالیٰ نے سُود کی بڑی شدت سے مناہی کی ہے کیونکہ یہ غریب کو ہمیشہ کے لئے غربت کی دلدل میں دھنساتا چلا جاتا ہے۔ اس آیت میں جس میں سود کا ذکر کیا گیا ہے اس سے پہلی آیت کے ساتھ موازنہ بھی مل جاتا ہے کہ سود تمہیں کیا دیتا ہے اور غریبوں کے حق کے طور پران کی زکوٰۃ اور صدقات اور تحفوں سے جو مدد کرتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے۔ پہلی بات تو یاد رکھو کہ جو خرچ اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تم کرتے ہو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یقینی طور پر اس میں تمہاری کامیابی ہے جس کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھو گے اور اگلے جہان میں بھی اور سب سے بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ اللہ راضی ہو گیا۔ دوسری کامیابی، پُر امن اور سلامتی سے پُر معاشرے کا قیام ہو گا۔ پھر مرنے کے بعد اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی وجہ سے دائمی جنتوں کے وارث بنو گے جہاں تمہیں ہمیشہ سلام اور سلام کے تحفے ملیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے جو سود کے کاروبار میں ملوث ہوں وہ کیا حاصل کرتے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کرتا ہے اور جن کے خلاف اللہ تعالیٰ اعلان جنگ کر دے ان کا نہ اس دنیا میں کوئی ٹھکانہ ہے اور آخرت میں جوان کی سزا ہے وہ تو ہے ہی۔

پھر سود کی وجہ سے معاشرے کا امن کس طرح برباد ہو رہا ہے۔ جوغریب ہے وہ غربت کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے۔ پیسنے والا اس سود کے پیسے سے اپنی تجوریاں بھر رہا ہوتا ہے۔ اور بظاہر بے تحاشہ پیسہ کمانے والا جو شخص ہے وہ اپنے خزانے بھر رہا ہوتا ہے، لیکن دل کا چین اور سکون ان میں نہیں ہوتا۔ کئی لوگ ہیں جو لکھتے ہیں اور کہتے ہیں بلکہ پاکستان میں مَیں نے دیکھے بھی ہیں کہ پیسوں کے باوجود راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ تو یہ عموماً سود ہی ہے جس نے ایک ملک کے معاشرے میں ملکی سطح پر بھی انفرادی سطح پر بھی پیسے کو ایک خاص طبقے کے گرد منتقل کر دیا ہے، ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اور عموماً امیر ملکوں میں بھی جہاں بظاہر اچھے حالات ہیں، اسی سود کی وجہ سے تقریباً ہر شخص یا اکثریت قرض کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کو محسوس نہیں کرتے اور اپنی زندگی میں اس سے باہر نہیں نکل سکتے۔

گزشتہ دنوں میں یہاں ایک پروگرام تھا، یونیورسٹی میں ایک فنکشن تھا۔ یہ بات مَیں نے وہاں کی اور بتایا کہ یہ بھی ایک طرح کی غلامی ہے تو یونیورسٹی کے چانسلر سمیت بہت سے لوگوں نے اس کی تائید کی اور ان لوگوں کا اس تائید کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے جو سچائی سے پُر ہے اور اس کے احکامات پر عمل کئے بغیر دنیا کی نجات ہو ہی نہیں سکتی اور جس طرح مَیں نے کہا سود غلامی کی ایک قسم ہے اور غلامی میں کبھی محبتیں نہیں پنپ سکتیں۔ ہمیشہ نفرتیں اٹھیں گی اور امن برباد ہو گا۔ پھر ہمارے غریب ملک ہیں کہ جہاں سود پر قرضے لیتے ہیں عموماً سندھ وغیرہ میں توہندو اس کاروبار میں ہمیشہ زیادہ ہے لیکن بعض مسلمان بھی یہ کام کرتے ہیں اور مخصوص لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں اور یہ جوسود پر قرضے ہیں یہ تمام عمر اس قرض لینے والے کو بلکہ ان کی نسلوں کو بھی کبھی سر اٹھانے نہیں دیتے۔

ایک امریکن اکانومسٹ ہے اس نے ہندو پاکستان کی ریسرچ پہ لکھا تھاکہ یہ لوگ ایسے ہیں جو بظاہر زمیندار بھی ہیں، جائیدادوں والے بھی ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہیں قرض لے کر اور زندگی گزارتے ہیں قرض لے کر اور اس دنیا سے جب جاتے ہیں تب بھی قرض ہوتا ہے جو آگے اولادوں کوٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ تو یہ سود ہی ہے جو ان کو اس مشکل میں گرفتار کئے ہوئے ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں تو بجائے یہ کہ نسلیں تک قرض کی زنجیروں میں جکڑیں اور پروان چڑھیں اور پھرآگے اگلی نسلوں کو ٹرانسفر کریں، بے چینی اور بے چارگی سے زندگی گزاریں وہ اس سے بچ سکتے ہیں۔ اور جب لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے، قرضوں میں جکڑے ہوتے ہیں تو پھر یہ کبھی نیک جذبات دوسروں کے لئے پیدا کرنے والے نہیں ہو سکتے خاص طور پر ان لوگوں کے لئے جن کے یہ مقروض ہوتے ہیں۔ پھرغریب ملکوں میں جن میں بہت سے مسلمان ممالک شامل ہیں مثلاً پاکستان ہے ویسے تو اسلام کا بہت نام ہے۔ لیکن ان کی بھی سودی نظام سے جان نہیں چھوٹ سکی۔ سود کا جو بھی نام رکھ لیں۔ بعض جگہ انہوں نے کچھ تبدیلیاں کی ہیں لیکن عملی صورت سود دینے کی ہی ہے۔ یہاں بھی امیر طبقہ جب بینکوں سے قرض لیتا ہے تو ادائیگی نہیں کرتا اور کچھ عرصے کے بعد وہ بڑی بڑی رقمیں معاف ہو جاتی ہیں۔ لیکن غریب طبقہ جو ہے وہ پستا چلا جاتا ہے، ساری سختیاں اسی پر ہو رہی ہوتی ہیں اور یہ باتیں پھر غریبوں میں بے چینی پیدا کرتی ہیں اور کسی طبقے کی بے چینی سے معاشرے میں سلامتی اور امن نہیں رہ سکتا۔ تو جیسا کہ مَیں نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ پاکستان میں مہنگائی اس قدر ہے کہ غریب حقیقت میں پریشان ہے اور وہاں جو حالات ہیں اس وجہ سے امیر اور غریب کے فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ جب یہ فاصلے بڑھتے ہیں تو پھر امن اور سلامتی کی ضمانت اس معاشرے میں نہیں دی جا سکتی۔ پس جہاں پاکستان کے احمدی اپنے ملک کے لئے دعا کریں وہاں ہمارا بھی فرض ہے کہ جو پاکستان سے باہر دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کریں کیونکہ آجکل پاکستان بھی ایک بڑے خوفناک دور سے گزر رہا ہے جس میں بہت سے عوامل ہیں لیکن ایک بڑی وجہ خود غرضی کا حد سے زیادہ بڑھ جانا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور دنیا کے ہر اس ملک پر رحم کرے جو اپنوں کے ہا تھوں بھی اور غیروں کے ہاتھوں سے بھی ظلم کی چکی میں پِس رہا ہے۔ دنیا کے امیر ممالک نے غریب ملکوں کو مدد کے نام پر ایسے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے جس سے نکلنا اب ان کے لئے ممکن نہیں رہا اور یہ صورت بھی ایک غلامی کی صورت بن چکی ہے۔ ایسی غلامیوں میں ردّ عمل بھی ہوتے ہیں اور جب ردّ عمل ہوں تو پھر نہ صرف اس ملک کا امن اور سکون برباد ہوتا ہے بلکہ دنیا سے بھی سلامتی اٹھ جاتی ہے اور قوموں کے خلاف نفرتیں جنم لیتی ہیں اور اس خوفناک نتیجے کی جو منطقی نتیجہ ہے، جو نکلنا تھا، اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی خبر دے دی ہے۔ ہم مسلمانوں کو ہوشیار کر دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک سودی روپیہ نہیں بڑھتا۔ جس کو تم بظاہر بڑھا ہوا سمجھتے ہو وہ اللہ کی پھٹکار کی وجہ سے، لعنت کی وجہ سے، بے برکت ہو جاتا ہے۔ پس خاص طور پر مسلمانوں کو اور مسلمان حکومتوں کو بھی اگر اپنے آپ کو ان فسادوں سے باہر نکالنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرکے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ انصاف کے تقاضوں پر چل کر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرکے ہی نکالا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو برائیاں معاشرے میں قائم ہو چکی ہیں۔ جن چیزوں کو بعض لوگ شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کرنے لگ گئے ہیں، ادائیگی حقوق سے غافل ہوچکے ہیں، ان کی طرف توجہ دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس سلامتی کے شہزادے کو بھیجا ہے، اس کو ماننا ہو گا۔ اس کے ماننے سے انکار کرو گے اور اس کے ماننے والوں سے ظالمانہ سلوک کرتے رہو گے توپھر کبھی بھی ان فسادوں سے اور ان اندھیروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔

ضرورتمندوں کا خیال، زکوٰۃ کی ادائیگی اور سُود کی مناہی کی جو آیات مَیں نے بیان کی ہیں ان آیتوں میں ایک آیت یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ(الروم:42) کہ لوگوں نے جواپنے ہاتھوں سے بدیاں کمائیں ان کے نتیجے میں فساد خشکی پر بھی غالب آ گیا اور تَری پر بھی تاکہ وہ انہیں بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ شاید وہ رجوع کریں۔ پس یہ فساد جو اس زمانے میں ہمیں پھیلا ہوا نظر آتا ہے یہ ان بدیوں کی وجہ سے ہے جس میں آج کا معاشرہ ملوث ہے۔ یہ اس حکم کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے یا ان احکامات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ یہ سب نظارے جو ہمیں نظر آ رہے ہیں کہ ہر مسلمان ملک اور ہر مسلمان کہلانے والا شخص باوجود آزادی کے محکوم ہے، غیروں کی نظر میں مشکوک ہے گو کہ دنیا کا ہر ملک چاہے مسلمان ہو یا غیرمسلمان ہو روحانی لحاظ سے دیوالیہ ہو گیا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اخلاقی برائیاں اور گراوٹیں حد سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ تو یہ لوگ اگر اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو اللہ تعالیٰ کی سزا کا مزا چکھیں گے۔ لیکن ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ جن کی کتاب میں، جن کی شریعت میں، ایک ایسی کتاب میں جو آخری شریعت لے کر آئی ہے اللہ تعالیٰ نے وارننگ دے دی ہے کہ جو جھٹکے مل رہے ہیں ان سے سبق حاصل کرو اور ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ جب حالات کو بدلنے کے لئے اپنے بندوں کو مبعوث کرتا ہے، جو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو ان مبعوث ہونے والوں کے پیغام کو سنو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں۔ حالات کی وجہ سے خود غور کرو اور ان کو تلاش کرو تاکہ خود بھی بچ جاؤ اور پھر اس پیغام کو لے کر آگے بڑھو اور دنیا کو اس تباہی سے بچاؤ۔ پس ہر مسلمان کو غور کر نا چاہئے اور ہوش کرنی چاہئے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی وارننگ بڑی سخت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں۔ زمین بالکل مر چکی ہے۔ یہ زمانہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا ہو گیا ہے۔ جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔ … انسانوں کے ہر طبقے میں فساد واقع ہو گیا ہے۔ جس پہلو اور جس رنگ میں دیکھو دنیا کی حالت بدل گئی ہے۔ روحانیت باقی نہیں رہی… اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ خدا پرستی اور خداشناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لئے اس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نور نبوت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرو اس نے اپنے فضل سے اس وقت اس نور کو نازل کیا ہے۔ مگر تھوڑے ہیں جو اس نور سے فائدہ اٹھاتے ہیں ‘‘۔ (الحکم جلد 7مورخہ31؍مارچ1903ء صفحہ2)

پس احمدی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس نور سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی ہے۔ پس اس نور کو اپنے قول سے اور اپنے عمل سے پھیلانے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کو بھی ان آفات سے محفوظ کر سکیں جن کی طرف دنیا جا رہی ہے اور جن کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ دنیا کا بہت بڑا حصہ تباہی کی لپیٹ میں آجائے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 29 جون تا 5 جولائی 2007ء ص 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ جون 2007ء شہ سرخیاں

    اپنے عزیزوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں، جو لوگ خوشحال ہیں ان کو اپنے عزیزوں کا جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں خیال رکھنا چاہیے۔ زکوٰۃ جن پر لاگو ہوتی ہے ان کو یہ ادا کرنی چاہیے۔ سود کی وجہ سے معاشرے کا امن برباد ہو رہا ہے

    فرمودہ مورخہ 08 ؍جون 2007ء (08؍احسان 1386ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور