جلسہ سالانہ کے تعلق میں مہمانوں اور میزبانوں کے حقوق و فرائض

خطبہ جمعہ 27؍ جولائی 2007ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد، تعوذ و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا:

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ موسم کی وجہ سے انتظامیہ بھی فکر مند ہے کیونکہ موسم تمام ملک میں خراب ہی ہے اور بعض لوگ بھی شاید اس خوف سے کہ بے آرامی نہ اٹھانی پڑے یا بچوں کے ساتھ دِقّت نہ پیش آئے یا پیچھے اپنے گھروں کا خوف رکھتے ہوئے ہچکچائیں۔ تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور دونوں طرف کے لوگوں کی پریشانیاں دور فرمائے، انتظامیہ کی پریشانیاں بھی دور فرمائے اور جومہمان آرہے ہیں ان کی بھی پریشانیاں دور فرمائے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جلسہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدائی منشاء کے مطابق شروع کیا تھا تاکہ آپؑ کے ماننے والے ایک خاص ماحول میں چند دن گزار کر علمی اور روحانی ترقی کی طرف لے جانے والے خطابات سن کر اپنی دینی، علمی اور روحانی حالت کو سنوارنے والے بنیں۔ پس یہ دن انتہائی برکت کے دن ہیں اور جب ہم خالصتاً اللہ تعالیٰ کے مسیح کے جاری کردہ روحانی پروگرام میں شمولیت کے ارادے سے یہاں آئیں گے تو یقینا ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے کی طرف بھی مائل ہوں گے اور ان دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل ہوجائے گی کہ اے میرے قادر مطلق خدا! اے زمین و آسمان کے مالک خدا! ہم تیرے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس مجلس میں آئے ہیں جہاں تیرے اور تیرے رسولﷺ کے نام کی سربلندی کے لئے منصوبے بنائے جاتے ہیں، تلقین کی جاتی ہے۔ اس لئے اس موسم کو بھی جو تیرے ہی تابع ہے ہمارے پروگراموں میں کسی بھی قسم کی روک ڈالنے سے روکے رکھ۔ تو یقینا اللہ تعالیٰ موسم کے بداثرات سے بچاتے ہوئے ہمیں اپنے پروگراموں کے احسن طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے گا اور موسم ہمارے پروگراموں میں کسی بھی روک کا باعث نہیں بنے گا انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

مجھے یاد ہے ربوہ میں جب جلسے ہوا کرتے تھے تو سردیوں میں دسمبر کے مہینے میں جلسہ ہوتا تھا اور بعض دفعہ بارش بھی ہو جایا کرتی تھی اور جلسہ گاہ بھی کھلے آسمان تلے تھی۔ نیچے بھی کچھ نہیں، کچی زمین یا پرالی بچھی ہوتی تھی اور کھلا آسمان (یہاں تو پھر گھاس ہے، کچھ حد تک کیچڑ بھی کم ہے اور آپ کے اوپر مارکی بھی لگی ہوئی ہے) اس کے باوجود لوگ بیٹھ کر جلسے کے پروگرام بڑے اطمینان سے سنتے تھے، ان کے ایمانوں کی گرمی میں کبھی موسم حائل نہیں ہوا، کبھی موسم کی شدت حائل نہیں ہوئی۔

قادیان میں شدید سردی میں ہندوستان کے ایسے علاقوں سے بھی لوگ آتے ہیں جہاں سردی نہیں پڑتی، درمیانہ موسم رہتا ہے اور ان کو سردی کی عادت ہی نہیں اور اس وجہ سے ان کے پاس گرم کپڑے بھی نہیں ہوتے، لیکن سخت کُہر میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہ آرام سے بیٹھے جلسہ سنتے ہیں اور بڑے شوق سے جلسے کے لئے آتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گھانا کا دورہ فرمایا تھا تو جماعت سے خطاب کے دوران شدید بارش شروع ہو گئی۔ کھلا میدان تھا، اوپرکوئی مارکی نہیں تھی، کوئی اوپر سایہ نہیں تھا۔ اتنی شدید بارش تھی کہ باوجود چھوٹی سی چھتری کے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے اوپر رکھی ہوئی تھی، آپؒ بھی بھیگ گئے تھے۔ چھتری بھی کوئی کام نہیں کررہی تھی اور لوگ بھی بارش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خاموشی سے کھڑے رہے اور کم ازکم بیس پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ شدید بارش میں بھیگتے رہے لیکن مجال ہے کہ کوئی اِدھر سے اُدھر ہوا ہو بلکہ جہاں کھڑے تھے وہاں اتنا پانی کھڑا ہو گیا کہ ان کے پاؤں بھی ٹخنوں سے اوپر پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بوٹ، جرابیں، کپڑے سب بھیگے ہوئے تھے۔

پھر دو سال پہلے جب مَیں نے تنزانیہ کا دورہ کیا ہے تو لجنہ کے خطاب کے دوران شدید بارش ہو گئی۔ وہاں مارکیاں بھی اتنی مضبوط نہیں ہوتیں اور نیچے پولز (Pols) کی سپورٹ بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ بارش اتنی شدید تھی کہ مارکی کی چھت جو کہ پوری طرح تکون نہیں تھی اس کے تکون نہ ہونے کی وجہ سے پانی کا صحیح طرح نکاس نہیں ہورہا تھا اور پانی اوپر جمع ہونا شروع ہو گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ مارکی پانی کے وزن سے پھٹ گئی اور پانی ایک شدید شراٹے سے نیچے آیا لیکن عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورتوں میں صبر نہیں ہوتا، اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں۔ افریقہ کے دوردراز ملک کے لوگ جن میں نو مبائعین بھی تھے جو پہلی دفعہ جلسہ سننے کے لئے آئے تھے خاموشی سے بیٹھے رہے۔ مجال ہے جو کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو۔ کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر انہوں نے ساری تقریر سنی اور مجھے احساس نہیں ہوا کہ اتنی شدت سے پانی ان کے اوپر آرہا ہے۔ جب بھی پانی آتا تھا ایک طرف ہو جاتی تھیں۔ کچھ بھیگ بھی گئیں اور اس کے پھٹنے کے بعد بھی جیسا کہ مَیں نے کہا مسلسل بارش ہوتی رہی اور مختلف جگہوں سے مارکی پھٹتی رہی اور پانی ان کے اوپر گرتا رہا اور تھوڑا بہت بھی نہیں بلکہ شراٹے سے نیچے گرتا رہا لیکن عورتیں اور بچے خاموشی سے بیٹھے رہے۔

تو موسم ایک احمدی کے جوش ایمان پر کوئی اثر نہیں ڈالتا، چاہے وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا ایشیا کا رہنے والا ہو یا یورپ کا رہنے والا ہو۔ یہاں مجھے کسی نے کہا کہ شاید باہر سے آئے ہوئے لوگ تو آجائیں لیکن یہاں کے پرانے مقامی لوگ موسم کی شدت کی و جہ سے شاید خوفزدہ ہوں اور نہ آئیں۔ لیکن اللہ کے فضل سے اس وقت بھی پنڈال (مارکی) میں کافی لوگ بیٹھے ہیں اور ٹریفک کی وجہ سے باہر پھنسے ہوئے بھی ہیں۔ تو اللہ کے فضل سے کافی تعداد میں لوگ آئے ہیں۔ اور موسم کی شدتیں ہمارے ایمانوں کی گرمی میں کبھی روک پیدا نہیں کرسکیں اور نہ انشاء اللہ کریں گی۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ بارش ہوتی رہے اور ہم اس موسم میں جلسہ سنیں تو جلسے کا انتظام درہم برہم نہیں ہوگا اور آپ سب لوگ اس سے مکمل تعاون کریں گے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کچھ لوگ آبھی رہے ہیں اور کچھ لوگ راستے میں ہوں گے۔ مزید آنے کا پروگرام بھی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ حاضری پر بھی زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم یہ دعا ضرور مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بداثرات سے ہم سب کو بچائے اور یہ بارش اور یہ موسم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لئے ہوئے نہ ہو۔

آنحضرتﷺ انشاء اللہ ایسے موسموں میں جب ہوا اور آندھی اور طوفان اور بارش کی شدت ہوتی تھی تو یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَہَا وَخَیْرَ مَا فِیْھَا وَخَیْرَمَا اُرْسِلَتْ بِہٖ۔ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَافِیْھَا وَشَرِّمَا اُرْسِلَتْ بِہٖ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ الاستقاء باب التعوذ عند رؤیۃ الریح والغیم حدیث نمبر 1969)

اے اللہ! مَیں اس بارش، ہوا، آندھی، طوفان کی تجھ سے ظاہری اور باطنی خیر و بھلائی چاہتا ہوں اور وہ خیر بھی چاہتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اور مَیں اس کے ظاہری اور باطنی شر سے اور اس شر سے بھی پناہ مانگتا ہوں جس کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے، اس کے سامنے جھکیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر حال میں ہمیں خیر پہنچے اور اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے۔

ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں پر زور دیں، جیسا کہ مَیں نے کہا برطانیہ بارشوں اور طوفانوں کی زد میں ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ان دنوں میں ایک جگہ جمع ہو کر دعاؤں کا یہ موقع دیا ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ محکمہ موسمیات کی اس پیشگوئی کے باوجود کہ آئندہ دو تین دن میں بارشیں ہوتی رہیں گی، ہمیں ان بارشوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا جلسہ بخیروخوبی اختتام کو پہنچے اور ہم جلسہ کی برکات سمیٹ کر بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنے انعاموں کا وارث بناتا رہے۔

اس وقت جلسہ کے تعلق سے کچھ توجہ مہمانوں کو بھی دلانا چاہتا ہوں۔ کچھ باہر سے آنے والے اس جلسہ میں پہلی دفعہ شامل ہورہے ہیں اور اکثریت گو کئی سالوں سے آنے والوں کی ہے لیکن اس اکثریت کو بھی بعض امور کی یاددہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح چند باتوں کی طرف کارکنان کو بھی توجہ دلاؤں گا گو کہ پہلے بہت سی باتوں کی طرف توجہ دلاچکا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے مہمانوں اور میزبانوں کو ایک حدیث میں اس طرح توجہ دلائی ہے کہ مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے۔

ایک حدیث میں آتا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔ اس کی خصوصی مہمان نوازی ایک دن رات ہے۔ جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے اور تین دن سے زائد صدقہ ہے۔ مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ مہمان نواز کے پاس ٹھہرا رہے کہ میزبان کو تکلیف میں ڈالے۔ (ابوداؤد کتاب الاطعمۃ باب فی الضیافۃ حدیث نمبر 3748)

ایک مومن کے لئے مہمان کی مہمان نوازی بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی ایک شرط ہے اور فرمایا کہ مہمان کی تکریم کرے۔ تکریم کیا ہے؟ یعنی خوش دلی سے اس کی مہمان نوازی کرے، کھلے ہاتھوں سے اس کا استقبال کرے، گھر میں لائے، اس کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے اس کے جذبات کو تکلیف پہنچے۔ اس کی عزت افزائی کرے اور نہ صرف منہ سے بلکہ اپنے ہر عمل سے بھی مہمان سے انتہائی خلوص کا سلوک کرے اور اس کو کسی بھی عمل سے یہ اشارہ تک نہ ہو کہ اس کا آنا میزبان کے لئے مشکل کا باعث بن گیا ہے۔ اپنے وسائل کے لحاظ سے بہترین رنگ میں اس کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرے اور یہ سب کچھ ایک مومن اپنے مہمان کے لئے اس لئے کررہا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے اور ہر ایک کے اپنے اپنے وسائل اور بعض مجبوریاں ہوتی ہیں اس لئے فرمایا کہ ایک دن تو تکلیف برداشت کرکے بھی تکریم کرنا پڑے تو کرو اور خاص تکلّف کرو، یہی تکریم ہے۔ اس کے بعد پھر عمومی مہمان نوازی ہے اور مہمان کو یہ نصیحت فرمائی کہ تم بھی حقیقت کو سامنے رکھو اور اپنے میزبان پر زیادہ بوجھ نہ بنو۔ اور اس کو یہ بتانے کے لئے کہ تمہارا اپنے میزبان پر زیادہ بوجھ ڈالنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے نزدیک پسندیدہ فعل نہیں ہے، فرمایا تین دن سے زیادہ کی مہمان نوازی پھر صدقہ بن جاتا ہے اور صدقہ تو صرف انتہائی غریب اور ضرورت مند کو دیا جاتا ہے۔ پس یہ ایسا سمویا ہواحکم ہے جو مہمان اور میزبان دونوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان کے حقوق و فرائض کیا کیا ہیں اور اس کو بلاو جہ کے تکلّفات سے بھی بچاتا ہے۔ اسی طرح میزبان کو بھی جیساکہ مَیں نے کہا توجہ دلاتاہے اور مہمان کو بھی تاکہ دونوں کے تعلقات محبت اور پیار قائم رہیں۔ تو جب تک میزبان کا خیال کرتے ہوئے مہمان اس پرناجائز بوجھ نہیں ڈالے گا اس وقت تک محبت وپیار کا تعلق قائم رہے گا۔ تو یہ مہمان کو کہا ہے اگر تم ناجائز بوجھ ڈال رہے ہو اور لمبی مہمان نوازی چل رہی ہے توپھر یہ مہمان نوازی نہیں بلکہ پھر یہ صدقہ بن جاتا ہے اور صدقہ بھی زبردستی کاجو تم اس سے لے رہے ہو۔

پس ایک حسین معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریق اپنے حق کو پہچان کر ادا کریں۔ یہاں جلسے پر دوسرے ممالک سے لوگ آتے ہیں۔ فاصلے اور جہازوں کی سیٹوں کی بکنگ کی وجہ سے زیادہ ٹھہرنا پڑتا ہے، مجبوری ہے۔ اس لئے جماعتی نظام بھی پندرہ دن کی مہمان نوازی کرتا ہے۔ پس تمام مہمان جو خالصتاً اس مقصد کے لئے آئے ہیں کہ جلسہ سے استفادہ کریں اور دعاؤں کے وارث بنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں، اس بات کا خیال رکھیں کہ بجائے اس کے کہ جماعتی نظام یا ان کے دوست احباب ایسا اظہار کریں جس سے اکرام ضیف پر زد پڑتی ہو تو خود ہی اپنے پروگرام ایسے رکھیں کہ پندرہ دن میں یا جو بھی انہوں نے پہلے آکر اپنے میزبان کو وقت بتایا ہے واپسی ہو جائے۔

پاکستان سے آنے والوں کی بھی اکثریت تو مجھے ملی ہے جو جلدی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور خالصتاً جلسے کی نیت سے آئے ہیں لیکن بعض یہاں رہ کر اپنے کام بھی کرتے رہتے ہیں اور جماعت پر بوجھ بھی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح چند ایک ایسے بھی ہیں جو اسائلم کی نیت سے آتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی اسی طرح کچھ لوگ آئے تھے تو ہمیشہ میں واضح کرتا ہوں، اب بھی واضح کردوں کہ جلسہ پر آنے والے چاہے وہ ہندوستان سے آئے ہیں یا بنگلہ دیش سے آئے ہیں یا پاکستان سے آئے ہیں یا کسی بھی ملک سے آئے ہیں ان کو برٹش ایمبیسی نے ویزا اس لئے دیا ہے کہ انہوں نے جلسہ میں شامل ہونا ہے۔ پس یہ اعتماد جو ایمبیسیز جماعت کے ممبران پر کرتی ہیں، انہیں ٹھیس نہ پہنچائیں اس سے جماعت کی بھی بدنامی ہوتی ہے اور آئندہ سال کے لئے جو لوگ جلسہ پر آنا چاہتے ہیں انہیں بھی اس و جہ سے کہ تمہارے کچھ لوگ جلسہ کے نام پر گئے تھے اور واپس نہیں آئے، ویزا دینے سے انکار ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں ایک اور بات یاد رکھیں کہ چند لوگوں نے یورپ کے دوسرے ممالک میں جا کر اسائلم کیا تھا، اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ پر آنے کی نیت کو نیک رکھیں اور جلسہ کی برکات سے فیضیاب ہونے کے بعد جتنی جلدی واپسی ہوسکتی ہے کریں۔ پھر ایک بات جس کی طرف مہمانوں اور میزبانوں دونوں کو توجہ دلانی چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس میں سے باہر سے آنے والے ملکوں کے مہمان بھی ہیں ان کو توجہ دلانی ہے اور یہاں اس ملک کے رہنے والے جو اس جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں ان کو بھی توجہ دلانی ہے کہ یہ جلسہ جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خالص دینی مقاصد کے حصول کے لئے رکھی ہے اس میں ہر جگہ اور ہر موقع پر اسلامی اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔

ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے اور آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔ پس مجھے آپ ہر چیز کے بارے میں بتادیں، آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ اس پر مَیں نے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے کہ جس پر عمل کرنے لگوں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو، صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں تو پھر سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ (ترمذی ابواب صفۃ القیمۃ حدیث نمبر 2485)

ایک دوسری روایت بھی اسی طرح کی ہے اس میں ہے کہ ’’جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے اسے بھی سلام کرو۔ ‘‘ (صحیح بخاری کتاب الاستیذان باب السلام للمعرفۃ وغیر المعرفۃ حدیث نمبر 6236)

تو یہ ہیں اسلامی اخلاق، کہ سلام کو رواج دو کیونکہ جب سلام پہنچا رہے ہو گے تو امن و سلامتی کا پیغام ایک دوسرے کو دے رہے ہو گے اور دل سے نکلے ہوئے اس پیغام سے دلوں کی نفرتیں اور کدورتیں بھی دور ہو تی ہیں۔ بعض عزیزوں، رشتہ داروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی ختم ہو جاتا ہے۔ سلام کرنا تو دُور کی بات ہے ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اللہ اور اس کا رسولﷺ فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے پر سلامتی بھیجو۔ پس ان دنوں میں اس ماحول سے فائدہ اٹھائیں۔ جن میں آپس میں رنجشیں ہیں وہ اس خود ساختہ دیوار کو گرائیں ان رنجشوں کو ختم کریں اور بڑھ کر ایک دوسرے کو سلام کریں تاکہ جس روحانی ماحول سے فیض اٹھانے کے لئے آئے ہیں اس کی حقیقی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ نئے شامل ہونے والے اور پرانے احمدی ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور اس طرح رشتہ تو دّد و تعارف ترقی پذیر ہوگا۔ اگر پرانے رشتوں اور تعلقات میں ہی دراڑیں پڑرہی ہوں گی تو نئے رشتے بھی پھر مضبوطی والے نہیں ہوں گے۔ ان کا اثر پھر نئے رشتوں پر بھی پڑرہا ہوگا۔ پس ان دنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاں نئے تعارف حاصل کرکے محبت میں بڑھ رہے ہوں وہاں اس روحانی ماحول کی برکت سے اپنے ٹوٹے ہوئے رشتے بھی جوڑیں اور سلامتی پھیلائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ ایک دوسرے کو سلام کرنے کے نظارے اس کے علاوہ بھی عمومی طور پر نظر آنے چاہئیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سلام کو رواج دو، چاہے ایک دوسرے کو جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کریں اور یہی چیز تو دّد و تعارف کا باعث بنے گی، ایک دوسرے سے محبت بڑھے گی۔ اس سلام کرنے میں ڈیوٹی والے بھی شامل ہیں اور دوسرے شاملین کے لئے بھی، ان کو بھی حکم ہے کہ ہر ایک کو سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئے تاکہ یہ سلامتی کی فضا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی بنے۔ کھانا کھلاؤ، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرو۔ یہ بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ پھر فرمایا صلہ رحمی کرو۔ اپنے رشتوں کا احترام کرو اور پھر فرمایا فرض نمازوں کے علاوہ نفلی نمازوں کی طرف بھی توجہ دو۔ ان دنوں تو یہاں اجتماعی انتظام کے تحت رہنے والی اکثریت تونفلوں کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد جو گھروں میں رہتی ہے جو یہاں قیام گاہوں میں نہیں رہ رہی ان تین دنوں میں اپنی فرض نمازوں کا بھی اہتمام کریں اور نفلوں کا بھی اہتمام کریں۔ بجائے اس کے کہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ رات گئے تک باتیں کرتے رہیں اور مجلسیں جماتے رہیں اور وقت پر نہ سوئیں۔ جس سے صبح اٹھنا مشکل ہو جائے۔ وقت پر سوئیں اور نوافل بھی پڑھیں تاکہ اس جلسہ کے روحانی ماحول سے حقیقی رنگ میں فائدہ اٹھاسکیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول اس بات کی ضمانت فرماتے ہیں کہ یہ باتیں پھرتمہیں جنت میں لے جانے والی ہوں گی۔

سلام کو رواج دینے کے سلسلے میں صحابہ کا طریق بھی بتادوں۔ روایت میں ہے کہ ایک دن ایک صحابی اپنے ایک دوسرے صحابی دوست کے گھر گئے سلام کیا اور کہا کہ آؤ بازار چلیں۔ وہ ان کے ساتھ ہو لئے کچھ دیر بازار میں پھر پھرا کر واپس آگئے اور کوئی چیز نہیں خریدی۔ چند دنوں کے بعد پھر یہ پہلے صحابی دوبارہ اپنے دوست کے پاس گئے کہ آؤ بازار چلیں۔ تو پہلے صحابی نے پوچھا کہ چند دن پہلے بھی آپ گئے تھے اور پھر پھرا کر واپس آگئے تھے اور بازار میں کچھ خریدا تو تھا نہیں تو آج بھی اگر اسی طرح کرنا ہے تو آپ کو بازار جانے کی ضرورت کیا ہے۔ کہنے لگے کہ مَیں تو بازار اس لئے جاتا ہوں کہ لوگ ملتے ہیں وہ ہمیں سلام کہتے ہیں ہم انہیں سلام کہتے ہیں اور اس طرح ہم ایک دوسرے کو سلامتی کی دعاؤں سے نوازتے ہیں اور آپس کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (الادب المفرد باب من خرج یسلم و یسلم علیہ حدیث نمبر 1037)

صحابہ تو اس طرح سلام کو رواج دیا کرتے تھے اور مختلف طریقے سوچتے تھے۔ تو یہ ایک دوسرے کو دعائیں دینا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا بھی عبادتوں کی طرف توجہ دلانے کا باعث بنتا ہے جس کے لئے مومن کو توجہ کرنی چاہئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے یہ ماحول آپ کے لئے مہیا فرمایا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

بعض انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلادوں۔ سب جلسہ میں شامل ہونے والوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بارش کی و جہ سے بعض انتظامی دقتیں پیدا ہوسکتی ہیں اور بارش کے حوالے سے سب سے زیادہ کاروں کی پارکنگ کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے جلسہ کی انتظامیہ نے یہ انتظام کیا ہے کہ یہاں سے دو تین میل کے فاصلے پر ایک پکی بہت بڑی پارکنگ کرائے پر لی ہے۔ آپ میں سے اکثر دیکھ کر بھی آرہے ہوں گے۔ تو وہاں سے منی بسز کے ذریعہ سے یہاں لانے اور لے جانے کا انتظام بھی ہے۔ اس لئے اس بارہ میں تمام شامل ہونے والے انتظامیہ سے مکمل اور بھرپور تعاون کریں اور اس بات پر ضد نہ کریں کہ ہم نے حدیقۃ المہدی کی پارکنگ میں ہی کارپارک کرنی ہے۔ سوائے اس کے کہ انتظامیہ خود آپ کو اجازت دے۔ انہوں نے اب کچھ حد تک اجازت دینی شروع کی ہے۔ زمین بارش کی و جہ سے کافی نرم ہے اس لئے انتظامیہ سے مکمل تعاون کریں اور اسی طرح پارکنگ کی جگہ سے منی بسز سے جو لانے لے جانے کا انتظام ہے وہاں بھی صبر اور حوصلے سے اپنی باری کا انتظار کریں۔ ایک ڈسپلن کے ذریعہ سے آئیں اور جائیں۔ گزشتہ سال جماعت کے ڈسپلن سے یہاں کی پولیس اور لوگ بہت متاثر ہوئے تھے۔ اس تأثر کو کسی بھی صورت میں زائل نہ ہونے دیں بلکہ پہلے سے زیادہ پابندی کرتے ہوئے ثابت کریں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں ڈسپلن کا اور تنظیم کا مظاہرہ کرنے والے لوگ ہیں۔ ایک اور اہم بات سیکیورٹی کے حوالے سے ہے۔ سب شامل ہونے والوں سے مَیں کہنا چاہتا ہوں اور تمام شعبہ جات کے کارکنان سے بھی اور جلسہ میں شامل ہونے والوں سے بھی کہ اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں۔ دنیا کے حالات اِس قسم کے ہیں کہ کسی بھی قسم کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ضمن میں، مَیں خواتین سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ چیکنگ سے وہ بُرا مان جاتی ہیں، اس لئے مکمل تعاون کریں۔ اگر آپ کو کوئی چیک کرلے تواس میں کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ بعض شکوہ کرتے ہیں کہ ہم فلاں عہدیدار کی عزیز یا خود عہدیدار ہیں اور اس کے باوجود انہیں چیک کیا گیا۔ ہر عہدیدار یا کسی عزیز کو ہر ڈیوٹی والا تو جانتا نہیں ہے۔ بعض دفعہ عورتوں کو بیگوں کی و جہ سے زیادہ چیک کرنا پڑتا ہے یہ مجبوری ہے۔ مَیں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مردوں کو بھی چیک کیا جائے تو انہیں برا نہیں منانا چاہئے۔

مجھے یاد ہے کہ ربوہ میں مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین پر چیکنگ ہوتی ہے اور کئی دفعہ مجھے بھی چیک کیا گیا، مَیں نے تو کبھی بُرا نہیں منایا بلکہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے امیر مقامی بنایا تو تب بھی ایک دفعہ مجھے چیک کیا گیا۔ تو چیکنگ میں کبھی بُرا نہیں منانا چاہئے۔ آپ کا مکمل تعارف ہر خادم کو نہیں ہوتا جیسا کہ مَیں نے آپ کو کہا۔ تو اس لئے اس نظام سے بھی مکمل طور پر تعاون کریں اور یہ اعتراض پیدا نہ ہو کہ مجھے کیوں چیک کیا گیا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک واقعہ ہے کہ قادیان میں جب احرار کا خطرہ تھا اور خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار یا دوسری قبروں کی وہ لوگ بے حرمتی نہ کریں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بہشتی مقبرہ میں خدام کا پہرہ لگوایا اور کوڈ نمبر دیئے کہ جو بھی ہو اگر کوئی کوڈ نمبر کے بغیر اندر آنے کی کوشش کرے اس کو اندر نہیں آنے دینا تو ایک دفعہ چیک کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خود چھپ کر گئے۔ غالباً رات کا وقت تھا۔ خدام نے روکا۔ آپ نے اپنا نام بتایا۔ خدام نے کہا نہیں اس طرح اجازت نہیں مل سکتی جب تک آپ اپنا کوڈ نمبر نہیں بتائیں گے اور اس بات پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ یہ خدام ہیں جنہوں نے اپنی صحیح ڈیوٹی دی ہے۔ تو یہ جو انتظام ہے یہ ہمارے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی برا منانے والی بات نہیں ہے۔ لیکن ڈیوٹی والی خواتین ہیں یا مرد ہیں ان کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنے رویّوں سے کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں کرنا چاہئے جس سے سختی، کرختگی یا کسی بھی طرح کا یہ احساس ہو کہ آپ دوسرے سے عزت سے پیش نہیں آتے۔ بعض بلاو جہ کی سختی کرتے ہیں، گزشتہ سال بھی شکایات آتی رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ اس جلسے کو بابرکت فرمائے اور ہر ایک کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے اور کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنے اور جیسا کہ مَیں نے کہا عمومی طور پر سب شامل ہونے والوں اور ڈیوٹی والوں کو اپنے ماحول پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ سیکیورٹی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب ہر ایک چوکس ہوگا تو شرارت کرنے والوں کو آسانی سے شرارت کا موقع نہیں ملتا۔ لیکن اس بارے میں ایک بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی مشکوک مرد یا عورت کو دیکھیں تو اس پر نظر رکھیں اور حفاظت کے شعبہ کو اطلاع کریں۔ خود براہ راست اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور سیکیورٹی والوں کے آنے تک اس پر نظر رکھیں۔ ہر ایک خود بھی اس بات کی پابندی کرے کہ اپنے شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں بلکہ سامنے رکھیں اور کارکنان کی طرف سے شناختی کارڈ دکھانے کا جب بھی مطالبہ ہو تو فوراً ان کو دکھا دیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ گزشتہ سال تمام فکروں کے باوجود اس علاقے کے لوگ ہمارے ڈسپلن اور تنظیم سے بہت متاثر ہوئے تھے اس سال بھی خاص طورپر اس کا خیال رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی توفیق دے۔ ان دنوں میں اپنے لئے اور اپنے گھروں میں پیچھے چھوڑے گھر والوں کے لئے بھی دعائیں کریں۔ آنحضرتﷺ سفر پر جاتے ہوئے جو دعائیں کرتے تھے ان میں سے ایک اس طرح سے ہے۔

حضرت عبداللہ بن ساجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تھے تو سفر کی مشقتوں اور غمگین ہو کر واپس لوٹنے، کام سنورنے کے بعد اس کے بگڑنے اور مظلوم کی بد دعا اور اہل و عیال اور اموال میں بُرا منظر دیکھنے سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الحج باب ما یقول اذا رکب الی سفر الحج حدیث نمبر 1342)

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ نہ سفر کی صعوبتیں ان کو نقصان پہنچائیں، نہ موسم کی شدت انہیں کوئی نقصان پہنچائے اور خیریت سے گھروں کو جائیں۔ جلسہ پر شامل ہونے والوں کو دعائیں دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس جلسے پر جس قدر احباب محض للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کوجزائے خیر بخشے اور ان کے ہر قدم کا ثواب ان کو عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’بالآخر مَیں دعا پر ختم کرتا ہوں کہ ہر یک صاحب جو اس للّٰہی جلسے کے لئے سفر اختیار کریں خداتعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجر عظیم بخشے اور ان پر رحم کرے اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم ّ و غم دور فرماوے اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے اور ان کی مرادات کی راہیں ان پر کھول دیوے اور روز آخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پر اس کا فضل و رحم ہے اور تا اختتام سفر ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو۔ اے خدا! اے ذوالمجد والعطاء اے رحیم اور مشکل کشا یہ تمام دعائیں قبول کر اور ہمیں ہمارے مخالفوں پر روشن نشانوں کے ساتھ غلبہ عطا فرما کہ ہر یک قوت و طاقت تجھی کو ہے۔ آمین ثم آمین‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 282 جدید ایڈیشن)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام دعاؤں کا وارث بنائے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 17تا23اگست2007ء ص 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ جولائی 2007ء شہ سرخیاں

    جلسہ سالانہ کے تعلق میں مہمانوں اور میزبانوں کے حقوق و فرائض کی انجام دہی کے سلسلہ میں بیش قیمت نصائح

    فرمودہ مورخہ 27 ؍جولائی 2007ء (27؍ وفا 1386ہجری شمسی) بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور