احمدیت کی مخالفت۔ ابتلاء اور دعائیں

خطبہ جمعہ 8؍ فروری 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ147۔ جدید ایڈیشن)

یہ وہ بنیادی چیز ہے جس کی گہرائی کو ایک حقیقی مومن کو سمجھنا چاہئے اور سمجھتا ہے۔ دعاؤں کے بغیر اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے بغیر تو ایمان لانے کا دعوٰی ہی بے معنی ہے۔ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ: ’’ہمارا خدا تو دعاؤں سے ہی پہچانا جاتا ہے۔‘‘ یہی آج ہر احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے۔ نہ صرف ابتلاؤں میں بلکہ سہولت اور آسائش اور امن کے دنوں میں بھی اپنے رب کے آگے جھکنے والے اور اس کو سب طاقتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہوئے اس کا حقیقی خوف دل میں رکھنے والے ہی حقیقی مومن ہیں اور جب ابتلاؤں کے دور آتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر مومن اُس پر ایمان مضبوط کرتے ہیں اور نہ صرف ایمان مضبوط کرتے ہیں بلکہ چھلانگیں مارتے ہوئے ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں وہ پہلے سے بڑھ کر تیز ہو جاتے ہیں۔ عارضی ابتلاء اور روکیں ان کے قدم ڈگمگانے والی نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان ابتلاؤں اور روکوں کی وجہ سے وہ اور زیادہ عبادت میں بڑھتے ہیں۔ پس یہ انقلاب ہے جو ایک احمدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا کیا ہے اور جب تک ہم مستقل مزاجی کے ساتھ اس حالت پر قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے چلے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعیدالفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّیہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی، ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ707-708۔ جدید ایڈیشن)

جیسا کہ میں نے کہا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس سے ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ایک احمدی کا خاصہ ہے اور ہونا چاہئے جس میں عارضی روکیں اور ابتلاء مزید نکھار پیدا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آجکل دنیا کے بعض ممالک میں لگتاہے احمدیوں کو تنگ کرنے کی ایک مہم شروع ہے۔ جس میں براہ راست یا بالواسطہ تنگ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ حسد کی آگ ہے جس نے ان لوگوں، گروپوں یا حکومتوں کو ایسے قدم اٹھانے پر لگایاہوا ہے اور یہ حسد کی آگ بھی مسیح موعود کے زمانے میں اپنوں کی طرف سے بھی غیروں کی طرف سے بھی، مسلمانوں کی طرف سے بھی اور غیر مسلموں کی طرف سے بھی زیادہ بھڑکنی تھی۔ ۔ غیر مسلموں کی طرف سے اس لئے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اسلام کی ترقی دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اسلام کا غلبہ دنیاپر ہو اور بعض مسلمان لیڈروں اور مُلّاؤں کی طرف سے اس لئے کہ ان کی بادشاہتیں اور ان کے منبر کہیں ان سے چھن نہ جائیں اور اس کو بچانے کے لئے انہیں غیر مسلموں کے سامنے بھی جھکنا پڑا تو انہوں نے اسے عار نہیں سمجھا۔ پھر جو مسلمان ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے اور رحم کرے کہ یہ لوگ خود ایسی حرکتیں کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے بن رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ احمدیت کی مخالفت کرنی ہے، یہ اگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے لڑنے کی کوشش کریں گے توخود فنا ہو جائیں گے۔ پس ہمدردی کے جذبے کے تحت کہ یہ کلمہ گو ہیں، چاہے ظاہری طور پر ہی سہی، ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے ساتھ جو یہ اعلان کیا۔ وہاں یہ اعلان بھی فرمایا کہ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(الجمعۃ:4) یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا ہے کہ اسے بھیجنے والا مَیں ہوں جو عزیز اور حکیم ہے۔ اللہ غالب ہے، عزیز ہے، کوئی نہیں جو اس عزیز خدا کے کام کو روک سکے۔ اور وہ حکیم ہے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی تعلیم کی حکمت کے موتی اس مسیح و مہدی سے منسلک ہو کر ہی اب حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پس جہاں ہم نے یہ پیغام دنیا کو دینا ہے، حاسدوں کے حسد اور ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے کے لئے دعاؤں کی بھی بہت ضرورت ہے۔

ایک تو جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں ہو رہی ہیں وہ اپنے ثبات قدم کے لئے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے در کو اس طرح پکڑھیں اور اس کے آگے اس طرح جھکیں کہ جلد سے جلد تر وہ فتوحات اور قبولیت دعاکے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ اور پھر دنیا میں وہ احمدی جن پر براہ راست سختیاں نہیں اور بظاہر امن میں ہیں وہ اپنے بھائیوں کے لئے دعائیں کریں۔ کیونکہ مومن کی یہی شان بتائی گئی ہے کہ یہ ایک جسم کی طرح ہے۔ جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ پس ہمارے کسی بھی احمدی بھائی کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، بلکہ احمدی کا دل تو اتنا حسّاس ہے اور ہونا چاہئے کہ کسی بھی انسان کی تکلیف پر وہ تکلیف محسوس کرے۔ پس جب ہم ایک درد کے ساتھ ان ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلنے اور ان کے جلد ختم ہونے کے لئے دعا کریں گے تو یقینا وہ مجیب الدعوات خدا ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے ہمارے بھائیوں کی تنگیوں اور پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ مخالفین سمجھتے ہیں کہ یہ روکیں، یہ تکلیفیں جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ اگر کسی انسان کا یہ کام ہوتا تو گزشتہ 100سال سے زائد عرصہ سے جو مخالفتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں، وہ کب کی جماعت کو ختم کر چکی ہوتیں۔ کون احمدی نہیں جانتا کہ پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت نے ہی ہمیں بڑھنے، پھلنے اور پھولنے کے مواقع پہلے سے زیادہ رفتار کے ساتھ مہیا فرمائے ہیں۔ پس ہمیں اس بات کی نہ کبھی پرواہ رہی ہے اور نہ ہے کہ یہ مخالفتیں جماعت کی ترقی میں کبھی سدراہ بن سکتی ہیں۔ آج کل پھر پاکستان میں لگتا ہے احمدیوں کے خلاف اس باسی کڑھی میں اُبال آیا ہوا ہے۔ ویسے تو ہلکی ہلکی مخالفتیں ادھر سے ادھر چلتی رہی ہیں لیکن اب کچھ تھوڑی تیزی پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جہاں بھی موقع ملتا ہے احمدیوں پر جھوٹے مقدمے بنائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک 13سال کے بچے پر پولیس نے مقدمہ درج کر دیا کہ مولوی کہتے ہیں کہ اس لڑکے نے فلاں مولوی کو مارا ہے۔ جبکہ مار کھانے والے کے رشتہ دار اس سے انکاری ہیں۔ صرف مقدمہ بنانا ہے اور شرارت ہے۔ اور مارا بھی اس طرح ہے کہ مار مار کر اس کا برا حال کر دیا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ یعنی ایک ہٹا کٹا جوان آدمی، اس کو 13سال کا ایک بچہ اس طرح ما ر رہا ہے کہ وہ مار کھاتا چلا گیا اور آگے سے کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ ان کامقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل میں اس قدر خوف پیدا کر دو کہ یہ بچے اگر احمدی رہیں بھی تو فعال احمدی نہ رہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے جلسے بندکرکے، ہمارے تربیتی پروگرام بند کرکے جو ربوہ میں ہوا کرتے تھے، انہوں نے ہمیں معذور کر دیا ہے اور نئی نسل شاید اس طرح احمدیت سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اگر مزید تھوڑا سا تنگ کیا جائے اور ان پر سختیاں کی جائیں تو یہ مزید دور ہٹ جائیں گے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے جلائے ہوئے چراغ ان کی پھونکوں سے نہیں بجھ سکتے۔

مجھے پاکستان سے نوجوانوں کے اخلاص و وفا میں ڈوبے ہوئے جتنے خطوط آتے ہیں وہ یقینا اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ نوجوان اپنے اس عہد کو پورا کرتے ہیں کہ ہم خلافت احمدیہ کی خاطر اپنے مال، جان، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر دم تیارہیں۔ قربانی کر رہے ہیں اور ہر وقت کرتے چلے جائیں گے اور دشمن کبھی ہمارے قدموں میں لغزش پیدا نہیں کر سکتا۔ پس جن کا خلافت سے پختہ تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تعلق کی وجہ سے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلق آنحضرتﷺ سے تعلق کی وجہ سے ہے اور آنحضرتﷺ کی ذات خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ پس جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس پہ پختہ ایمان ہو ان کو یہ گیڈر بھبکیاں بھلا خوفزدہ کر سکتی ہیں؟ کبھی نہیں اور کبھی نہیں۔ پس اے نوجوانو! اپنے خدا سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط ترکر تے چلے جاؤ کہ یہی ایک احمدی نوجوان کی شان ہے۔ یہی ایک احمدی مرد کی شان ہے۔ یہی ایک احمدی عورت کی شان ہے اور یہی ایک احمدی بچے کی شان ہے۔

اسی طرح ہندوستان میں جس جگہ مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ملاؤں کی طرف سے احمدیوں کو تنگ کیا جا رہاہے۔ ایسے لوگ اسلام کے نام پر تنگ کر رہے ہیں۔ نام کے مسلمان ہیں۔ نہ کسی کو نماز آتی ہے، نہ کلمہ، نہ قرآن شریف پڑھ سکتے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ احمدی مسلمان نہیں یہ کافر ہیں۔ ہمارے مبلغین اور معلمین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدی کا کام ہے کہ ہم اپنے وہ کام کئے جائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائے ہیں اور ان سختیوں اور ابتلاؤں کا مقابلہ اللہ کے آگے جھکتے ہوئے دعاؤں سے کرتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اور یہ مخالفتیں اس لئے بھی زیادہ ہو رہی ہیں اور مخالفین اس لئے بھی زیادہ مخالفت پر کمر بستہ ہیں کہ ان کی حسد کی آگ ان کو اس بات پر مجبور کر رہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد اب خلافت احمدیہ کو بھی 100سال پورے ہو گئے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم جن کو اپنے زعم میں ختم کرنے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے یہ تو اپنی خلافت کا بھی 100سالہ جشن تشکر منا رہے ہیں۔ پس یہ مخالفتیں تو خود ہمیں یہ ثبوت دے رہی ہیں کہ جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے انڈونیشیا میں بھی مخالفت زوروں پر ہے۔ احمدی گھروں کو لوٹا گیا، توڑا پھوڑا گیا، جلایا گیا، مسجدوں کو جلایا گیا، توڑا گیا۔ حکومت بھی شروع میں مُلاّں کے خوف کی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہی تھی یا بعض صوبوں میں جہاں اور جن علاقوں میں یہ فساد زیادہ ہو رہا تھا شاید حکومتیں بھی مُلاّں پسند ہوں۔ بہرحال اتنے عرصے سے جماعت کے خلاف ان مظالم کو دیکھتے ہوئے اور ہمارے مختلف طریقوں سے حکومت کو توجہ دلانے کی وجہ سے مرکزی حکومت نے اس مسئلے کے حل کا فیصلہ کیا اور ایک معاہدہ لکھا گیا جس کی خبر اخبار نے لگائی۔ بعض الفاظ لے لئے اور بعض چھوڑ دئیے۔ تفصیل شائع نہیں کی گئی جس سے معاہدہ پوری طرح واضح نہیں ہوتا تھا۔ اس بات کا میں گزشتہ کسی خطبہ میں ذکر بھی کر چکا ہوں۔ بہرحال یہ خبراخبار کے حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی آئی۔ شاید میرے گزشتہ خطبہ کے حوالے اور انٹرنیٹ کی خبر کو دیکھ کر بعض احمدیوں نے جن کو صحیح حالات کا علم نہیں، اپنی لاعلمی میں اس بات کا اظہار میرے پاس کیاکہ فتنے کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اگر بعض باتیں ماننی بھی پڑیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ساتھ یہ لکھا کہ مجھے صحیح حالات کا علم نہیں ہے یا ہمیں صحیح حالات کا علم نہیں ہے، یہ بھی ہو سکتاہے۔ اور مثال میں مثلاً ایک جگہ یہ لکھا گیا کہ آنحضرتﷺ نے بھی صلح حدیبیہ میں یہ بات مان لی تھی کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔ توپہلی بات تو یہ کہ مٹایا کس نے تھا؟ آنحضرتﷺ نے مٹایا تھا۔ حضرت علی ؓ نے تو انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ عرض کی تھی کہ میرے آقا میرے سے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس پر جیسا کہ میں نے بتایا کہ آنحضرتﷺ نے اس جگہ جہاں لفظ لکھا ہوا تھا دیکھ کر رسول اللہ کا لفظ خود اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا اور یہ فرمایا جن کفار کے ساتھ معاہدہ ہو رہا ہے یہ تو کیونکہ مجھے اللہ کا رسول نہیں مانتے، اس لئے میں اس کو مٹادیتا ہوں۔ (مسلم کتاب الجہاد و السیر باب صلح الحدیبیہ حدیث نمبر 4521)

لیکن جو آنحضرتﷺ کو اللہ کا رسول مانتے تھے انہوں نے تو یہ حرکت کرنے کی جرأت نہیں کی اور آنحضرتﷺ نے بھی ان کے جذبات کو سمجھتے ہوئے حکم نہیں دیا’کہ نہیں، تم کرو‘۔ پس ہمارا کام نہیں کہ ہم مداہنت کا پہلو اختیار کریں اور کوئی ایسا کام کریں جس سے آنحضرتﷺ کے عاشق ِصادق کے مقام کی سبکی ہوتی ہو۔ ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کومسیح موعود اور مہدی موعود سمجھتے ہیں اور اس سے الگ ہوکر ہم کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ اس سے الگ ہو کر ہماری کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ہماری خوبصورتی جو ہے وہ اسی بات میں ہے کہ ہم مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں مسیح موعود سمجھتے ہوئے، جس نے ظلمت اور نور میں فرق ظاہر کر دیا۔ ہماراتو مؤقف اور دعوٰی یہ ہے کہ اس ظلمت کے زمانے میں اس مسیح و مہدی نے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کی حقیقت کو ہم پر کھول دیا ہے اور ہمارے دلوں کو اس کے حقیقی نور سے منور کیا ہے۔ اس مسیح و مہدی نے ہی توہمیں قرآنی تعلیم کے مطابق خدا سے ملنے کے اسلوب سکھائے ہیں۔ اس مسیح و مہدی اور آنحضرتﷺ کے عاشق ِصادق ہی نے تو ہمیں عشق رسول عربی میں ڈوبنے کے نئے نئے طریق سکھائے ہیں۔ کیا ہم اس مسیح و مہدی کو جس کا نام خود آنحضرتﷺ نے مسیح و مہدی رکھا ہے اور ’ہمارا مہدی ‘کہہ کر پکارا ہے صرف عارضی تکلیفوں کی وجہ سے یا مولوی یا حکومت کو خوش کرنے کی خاطر مسیح و مہدی کہنا چھوڑ دیں۔ جن نشانیوں کو پورا کرتے ہوئے مسیح و مہدی نے آنا تھا وہ نشانیاں بھی پوری ہو گئیں اور دعویٰ بھی موجود ہے اور زمانے نے تمام تقاضے بھی پورے کر دئیے تو کیا یہ سب دیکھ کر دوسروں کے خوف کی وجہ سے یہ کہیں کہ گو آنحضرتﷺ نے اس آنے والے کا نام مسیح و مہدی رکھا تھا لیکن ہم دنیا کو خوش کرنے کے لئے اس کے ماننے والوں میں شامل ہونے کے باوجود اس کا کچھ اور نام رکھ دیتے ہیں اور اس کے بدلے میں تم ہمیں جو عارضی تکلیفیں پہنچا رہے ہو یہ نہ پہنچاؤ۔ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سورج اور چاند گرہن کے نشان کو دیکھ کر مسیح و مہدی کی بجائے کسی اور پر اس کو پورا سمجھنے والے بن جائیں یا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی گواہی کو جھوٹا کرنے والے بن جائیں ؟ کیا ہم قرآنی پیشگوئیوں اور ان کے اس زمانے میں پورا ہونے کو جھوٹا قرار دے دیں۔ کیا ہم ایک طرف تو آپؑ کی بیعت میں شامل ہونے والے ہوں، آپؑ کو اللہ

تعالیٰ کا برگزیدہ سمجھنے والے ہوں اور دوسری طرف آپؑ کے اس الہام کو غلط سمجھیں جس میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بشارت دی ہے کہ اِنَّ الْمَسِیْحَ الْمَوْعُوْدَ الَّذِیْ یَرْقُبُوْنَہٗ وَالْمَھْدِیَ الْمَسْعُوْدَ الَّذِیْ یَنْتَظِرُوْنَہٗ ھُوَ اَنْتَ یعنی یقینا وہ مسیح موعود اور مہدی موعود جس کا انتظار کرتے ہیں وہ تُو ہے۔ اور پھر فرمایا وَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ پس تُو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ (اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد8 صفحہ275)

کیا مصلحت کی خاطر ان باتوں پر عمل کرنے والے بن کر ہم احمدی کہلا سکتے ہیں۔ پس مسیح و مہدی کا انکار تو پھر احمدیت کا انکار ہو گا اور یہ بات کبھی کوئی احمدی برداشت نہیں کر سکتا۔ اخبار نے حکومت اور احمدیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس خبر کی جس طرح اشاعت کی تھی، اس سے پیغامی یا لاہوری یا غیر مبائع جو ہیں ان کو بھی شورمچانے کا موقع مل گیا۔ ان لوگوں میں بھی جوش پیدا ہوا۔ باسی کڑھی کو بھی ابال آیا اور انہوں نے خبر شائع کی کہ احمدیوں نے اپنے نکتہ نظر میں تبدیلی کر لی ہے اور مطلب یہ تھا کہ آخر کو ہماری یعنی پیغامیوں کی فتح ہو گئی ہے اور اب احمدیوں نے بھی نعوذ باللہ تسلیم کر لیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی نہیں ہیں بلکہ مجدد اور مرشد ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری انڈونیشین انتظامیہ کی وہ کمیٹی کو حکومتی افسران سے بات کرنے کے لئے گئی تھی ان کے دل میں اس بات کا شائبہ تک نہیں تھا کہ ہم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح، مہدی اور نبی نہیں مانتے اور نہ ہی کبھی کوئی احمدی یہ سوچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشین جماعت اخلاص و وفا میں بہت بڑھی ہوئی جماعت ہے اور صف اول کی جماعتوں میں سے ہے۔ ان کی جان اور مال کی قربانیاں جو وہ احمدیت کی خاطر دے رہے ہیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ان کے اخلاص و وفا میں کوئی کمی نہیں۔ پس یہ انڈونیشین جماعت پر بھی غلط الزام ہے اور الزام ہو گا اگر ہم یہ کہیں کہ انہوں نے وقتی مفاد کی خاطر کمزوری دکھائی ہے۔ حکومت نے جس بیان پر دستخط لئے تھے اس پر ایسے واضح الفاظ نہیں تھے۔ اس کی بعض شقیں تھیں جن کو ماننے سے کسی احمدی پر یہ حرف نہیں آتا کہ اس نے اپنے ایمان کے خلاف بات کی ہے۔ پس کسی انڈونیشین احمدی پر یہ الزام نہیں آتاکہ اس نے اپنے ایمان میں کمزوری دکھائی ہے اور اس بات کا اظہار بھی انہوں نے میرے سامنے پیغام میں بھی اور خط میں بھی کیاہے۔ لیکن کیونکہ معین طور پر مسیح و مہدی کے الفاظ وہاں نہیں لکھے گئے تھے اس لئے اخبار کو بھی صحافتی ہوشیاری دکھانے کا موقع مل گیا اور ایسی خبر لگا دی جس کا کسی احمدی کے دل میں شائبہ تک نہیں تھا۔

بہرحال پیغامیوں نے پھر اس خبر کو اچک لیا اور خوب اچھالا۔ لیکن جب میں نے بھی گزشتہ ایک خطبہ میں واضح طور پر بیان کر دیا اور اخبار نے بھی ہمارا واضح موقف شائع کر دیا (بہرحال یہ اس اخبار کی شرافت تھی) تو پھر بھی ان پیغامیوں کا اصرار اور شورمچانا اور یہاں ہمارے پریس سیکشن میں بھی فون کرکے یہ کہنا کہ ابھی بھی واضح نہیں ہے، سوائے ان کی ڈھٹائی کے کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ان کی تسلی تو خدا ہی چاہے تو ہو سکتی ہے۔ جو کسی بات پر اڑ جائیں اور ماننے کو تیار نہ ہوں انسان پھر ان کی تسلی کروا سکتا ہے؟ ہم نے تو جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔

بہرحال آج مَیں پھر ایک دفعہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ پیغامیوں یا غیر مبائع لوگوں سے کہوں کہ خدا کا خوف کرو۔ آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کو دیکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر غور کرو اور پھر اپنے جائزے لو۔ کیا جو مؤ قف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں تمہارا ہے اس سے تمہارے قدم کسی ترقی کی طرف آگے بڑھے ہیں ؟ کیا انجمن کو خلافت پر بالا سمجھنے والوں نے دنیا میں اسلام اور احمدیت کا جھنڈا گاڑا ہے یا کسی درد کے ساتھ یہ جھنڈا گاڑنے کی کوشش کی ہے؟ یا پھر یہ بات ان کے حصہ میں آئی ہے جو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مسیح و مہدی اور نبی سمجھتے ہیں اور آپؑ کے بعد خلافت کو برحق سمجھتے ہیں۔ بیعت خلافت میں آنے والوں نے تو دنیا کے 189ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا دیا۔ تم نے کیا کیا ہے؟ کیا خداتعالیٰ کی فعلی شہادتیں نبی ماننے والوں کے ساتھ ہیں یا صرف ایک گرو یا مرشد یا مجدد ماننے والوں کے ساتھ ہیں۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اس ڈھٹائی کو ختم کرو اور دیکھو کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ ان کی کتابیں شائع بھی کرتے ہو۔ چھاپتے بھی ہو۔ پڑھنے کی بھی توفیق ملے اور سمجھنے کی توفیق ملے۔ خود ہی قرآن کھول کردیکھ لو کہ ان لوگوں کے بارے میں خداتعالیٰ کیا کہتا ہے جو کچھ پر تو ایمان لانا چاہتے ہیں اور کچھ کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:’’ …نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے۔ یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعے سے امور غیبیہ کھلتے ہیں۔ پس میں جبکہ اس مدت تک ڈیڑھ سو پیشگوئی کے قریب خدا کی طرف سے پاکر بچشم خود دیکھ چکا ہوں کہ صاف طور پر پوری ہو گئیں تو میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔ اور جبکہ خود خداتعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد ّکروں یا اس کے سوا کسی دوسرے سے ڈروں۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے۔ اور مَیں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی جس کی سچائی اس کے متواتر نشانوں سے مجھ پر کھل گئی ہے۔ اور مَیں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی جومیرے پر نازل ہوتی ہے وہ اسی خدا کا کلام ہے جس نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفیﷺ پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔ میرے لئے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللہ ہوں۔ مگر پیشگوئیوں کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا اس لئے جن کے دلوں پر پردے ہیں وہ قبول نہیں کرتے۔ مَیں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے۔ کوئی نہیں جو میرے مقابل پر ٹھہر سکے۔ کیونکہ خدا کی تائید اُن کے ساتھ نہیں۔ اور جس جس جگہ میں نے نبوّت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ مَیں مستقل طور پر نبی ہوں، مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لئے اُس کا نام پا کر اُس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں، مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا ہے۔ سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ۔ روحانی خزائن جلد18 صفحہ210-211)

پس کیا اس کے بعد بھی کسی قسم کا ابہام رہ جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آپ کو خدا سے حکم پا کر کیا کہتے ہیں۔ واضح اعلان فرما رہے ہیں کہ میں نبی ہوں۔ میں بصد ادب اور عزت اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آؤ اس روحانی انقلاب میں شامل ہو جاؤ جس کے لئے خداتعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی موعود اور ظلی نبی بنا کربھیجا ہے۔ وہ مسیح اور مہدی جس نے آنحضرتﷺ کی غلامی میں اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے اور پہنچایا۔ جس کو خدا نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ ان سب مخالفتوں کے باوجودمَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ آج اس وعدے کو صرف وہی لوگ پورا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں جو آپ کو نبی مانتے ہوئے آپؑ کے بعد خلافت سے منسلک ہیں۔ یہ پیغام آج ہواؤں کے دوش پر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے۔ پس آج انہیں کی جیت ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آپؑ مسیح و مہدی اور نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی کی تائید فرماتے ہوئے پیغام پہنچانے کے معجزات دکھا رہا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس کو روک سکے۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مَیں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا، اس میں ہمارے لئے ایک یہ پیغام بھی ہے کہ راستے کی روکیں بھی آئیں گی۔ مخالفتوں کی آندھیاں بھی چلیں گی۔ دائیں بائیں سے آگ کے شعلے بھی بلند ہوں گے۔ حکومتیں بھی روکیں ڈالنے کی کوشش کریں گی لیکن میں جو عزیز، غالب اور تمام قدرتوں کا مالک خدا ہوں، تمہیں تسلی دیتا ہوں کہ اے مسیح و مہدی! تجھے بھی تسلی دیتا ہوں اور تیرے ماننے والوں کو بھی تسلی دیتا ہوں کہ تو مجھ سے ہے اور میرے پیغام کو پھیلانے کے لئے کوشاں ہے اس لئے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میری تائیدات ہمیشہ تیرے ساتھ رہیں گی اور میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔

ایک جگہ اس تسلی کا اظہار کرتے ہوئے آپؑ کو الہاماً اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لَا تَخَفْ اِنَّنِیْ مَعَکَ وَمَاشٍ مَعَ مَشْیِکَ۔ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃٍ لَا یَعْلَمُ الْخَلْقُ۔ وَجَدْتُکَ مَاوَجَدْتُکَ اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَاِھَانَتَکَ وَاِنَّی مُعِیْنٌمَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔ اَنْتَ مِنِّی وَ سِرُّکَ سِرِّی وَاَنْتَ مُرَادِیْ وَمَعِیْ۔ اَنْتَ وَجِیْہٌ فِیْ حَضْرَتِیْ۔ اِخْتَرْتُکَ لِنَفْسِیْ۔ (آئینہ کمالات ِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد5 صفحہ11)

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ خوف نہ کر میں تیرے ساتھ ہوں اور تیر ے ساتھ ساتھ چلتا ہوں، تو میرے ہاں وہ منزلت رکھتا ہے جسے مخلوق میں سے کوئی نہیں جانتا۔ میں نے تجھے پایا ہے جو میں نے تجھے پایا ہے۔ جو تیری اہانت چاہے گا میں اسے ذلیل و رسوا کر دوں گا اور جو شخص تیری مدد کرنے کا ارادہ کرے گا اس کا میں مددگار ہوں گا۔ توُ میرا ہے اور تیرا راز میرا راز ہے اور توُ میرا مقصود ہے اور میرے ساتھ ہے۔ تو میری درگاہ میں صاحب وجاہت ہے۔ میں نے تجھے اپنے لئے برگزیدہ کر لیا۔

پس جس کو خدا نے ہر خوف سے تسلی دلائی۔ اپنی تائیدات کی یقین دہائی کروائی ہے۔ ان کی بھی مدد کرنے کا اعلان فرمایا جو مدد کریں گے اور اہانت کرنے والوں اور روکیں ڈالنے والوں کو ذلیل و رسوا کرنے کا اعلان فرمایا۔ جس کو خدا نے اپنے خاص برگزیدوں میں شمار کر لیا اس کے ماننے والوں کے لئے بھی کوئی خوف کا مقام نہیں۔ عارضی تکلیفوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اُحد کی جنگ میں باوجود مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے کے اور جانی او رمالی نقصان ہونے کے دشمن فتح یاب نہیں کہلا سکا تھا۔ آخر کو اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَ اَجَل کا نعرہ ہی غالب آیا تھا۔ پس آج بھی جب اس اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَ اَجَل نے تائیدو نصرت کا اعلان اپنے محبوب کے عاشق کے لئے کیا ہے تو پھر ہم جو اس پر ایمان لانے والے ہیں انہیں ان عارضی روکوں اور تکلیفوں پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

گزشتہ دنوں عربوں کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں احمدی بھی ہیں اور ہمارے ہمدرد اور اسلام کا درد رکھنے والے عرب بھی ہیں۔ پریشانی اس طرح ہوئی کہ بعض بڑی بڑی عرب حکومتوں نے مولویوں اور عیسائیوں کے خوف اور احمدیت کی ترقی کو دیکھتے ہوئے، اور اس کی ایک وجہ حسد کی آگ بھی ہے اس میں جلتے ہوئے ہمارے ایم ٹی اے العربیہ کی نشریات کو جو Nile سیٹ پر (یہ سیٹلائٹ جو بعض عرب حکومتوں کی ملکیت ہے) آتی تھیں بند کروا دیااور کیونکہ سب اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر بغیر نوٹس کے یہ چینل بند کر دیا گیا تھا اس لئے اپنے اور عربوں میں سے غیر از جماعت جتنے تھے ان کے مجھے بھی اور انتظامیہ کو بھی پیغام اور خطوط آئے کہ یہ کیا ظلم ہواہے کہ ایک دم بغیر اطلاع کے آپ لوگوں نے چینل بند کر دیا ہے۔ انہیں تو ہم نے یہی کہا تھا کہ صبر کریں انشاء اللہ تعالیٰ جلد شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج میرے اس خطبے سے انہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ وجہ کیا ہوئی تھی۔ ان مداہنت پسند حکومتوں نے لوگوں سے ڈرکر اور کچھ نے حسد کی وجہ سے اس چینل کو بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ عرب ملکوں میں بعض عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی مخالفت ہو رہی تھی جس کا ایم ٹی اے پہ جواب جا رہا تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے بھی زور دیا کہ اس کو بند کیا جائے عیسائیوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ تو بہرحال ان کا معاملہ تو اب خدا کے ساتھ ہے جنہوں نے خدا کے نام پر خدا والوں سے اس زعم میں دشمنی کی ہے کہ ہم سب طاقتوں والے ہیں لیکن وہ عزیز اور سب قدرتوں کا مالک خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ مَکَرُوْا وَمَکَرَاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُالْمَاکِرِیْنَ (آل عمران:55) یعنی انہوں نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیریں کی ہیں اور اللہ تعالیٰ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ پہلے بھی مسیح اول کے خلاف بھی تدبیریں کی گئی تھیں جس پہ یہ اعلان کیا اور اب بھی مسیح محمدی کے خلاف بھی تدبیریں کی جا رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تسلی دلاتاہے۔

پس یہ جو روکیں ہمارے آگے ڈالنے والے ہیں اس کا ہمیں کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مسیح ہے اور وہ ایسے ذریعہ سے پیغام پہنچاتا ہے کہ ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے کیا دیا؟ چند گھنٹے کے لئے یا ایک دن کے لئے شاید بند ہوا ہو گا۔ اس کے بعد ہم نے متبادل عارضی انتظام کر لیا۔ لیکن اس کوشش کے جواب میں جو انہوں نے اس کو بند کرنے کی کی تھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یورپ کی ایک سیٹلائٹ سے رابطہ کروا دیا جو پہلے بھی ہم کر رہے تھے اور بہت کوششیں کی تھیں۔ ان کوششوں کے باوجود وہاں کوئی جگہ نہیں تھی اور یہ نہیں مل رہا تھا۔ لیکن اس روک کے بعد خود ہی اللہ تعالیٰ نے اس کے ملنے کا انتظام کر وا دیا۔ پہلا سیٹلائٹ جو انہوں نے بند کیا اس کی کوریج تھوڑے علاقے میں عرب کے چند ملکوں میں تھی اس سیٹلائٹ کی کوریج اس سے بہت زیادہ ہے۔ مراکو وغیرہ اور ساتھ کے ملکوں وغیرہ سے بھی پیغام آتے تھے کہ ہم ایم ٹی اے العربیہ نہیں دیکھ سکتے اور یہاں ہمیں بھی ضرورت ہے۔ اس کا انتظام کریں تو اب انشاء اللہ تعالیٰ اس نئے سیٹلائٹ کے ملنے سے یہ کمی بھی پوری ہو گئی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ وہ سچے وعدوں والا ہے۔ عارضی روکیں آتی ہیں اور آئیں گی۔ دشمنوں اور حاسدوں کے وارہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی چاہئے۔ ان روکوں کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے بتایامومن مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے۔ پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنی نمازیں سنواریں۔ فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں۔ کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور زبانیں تر رکھنے سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں۔ انشاء اللہ۔

پس یہ بنیادی نکتہ ہے جوہر احمدی کو ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ آجکل خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پرجب احمدی پروگرام بنا رہے ہیں، توحاسد پہلے سے بڑھ کر نقصان پہنچانے اور وار کرنے کی کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں۔ اس حسد میں نقصان پہنچائیں گے کہ ہم سے تو خلافت چھن گئی اور یہ لوگ خلافت کے مزے لے رہے ہیں۔ یہ لوگ وحدانیت پر قائم ہیں۔ مخالفین یعنی دوسرے مسلمان تو کھلم کھلا اب یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم خلافت کے بغیر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور اس موضوع پر ان کے رسائل اور اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی تقریر، مضمون آتا رہتا ہے۔ نمونۃً ایک اقتباس میں لایا تھا۔ آپ کے سامنے پڑھ دیتا ہوں۔ مفتی حبیب الرحمن صاحب درخواستی بیان کرتے ہیں کہ’’ نظام خلافت اسلامیہ علی منہاج النبوت سے بڑھ کر کوئی نظام نہیں۔ یہ عظیم الشان مقصد اہل حق کے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہوئے بغیر کیونکر ممکن ہے۔ اور اس وقت امت مسلمہ جس حال سے دوچار ہے، اس میں ہر طرح امت مسلمہ کو محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تو ایسے حالات میں وہی ہونا چاہئے جس کے لئے امت مسلمہ نے عظیم قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا اور یہ قربانی امت مسلمہ کی اس لئے تھی کہ ہمیں آزاد ملک ملے گا جس میں ہم نظام اسلام قائم کریں گے جو کہ فراڈ اور دھوکہ کی تعبیر میں ظاہر ہوا‘‘۔ ملک تو اس لئے قائم ہوا تھا کہ اسلامی نظام قائم کریں گے لیکن سوائے یہاں پر فراڈ دھوکے کے کچھ نہیں۔ خود تسلیم کر رہے ہیں۔ پھرآگے کہتے ہیں کہ’’ امت مسلمہ کی بقا اور خیر کا راز اتفاق، اتحاد اور نظام خلافت اسلامیہ علیٰ منہاج النبوت میں ہے‘‘۔ یہ ان کا بیان ہے۔ ایک جگہ دوسرے بیان میں یہ بھی تھاکہ امام مہدی آئے گا تو اس کے بعد خلافت قائم ہو گی۔ کاش یہ لوگ اپنی ضد چھوڑ دیں اور دیکھیں کہ جس امام مہدی کا انتظار کر رہے ہیں وہ تو آ گیا ہے اور اس کے ذریعہ سے اب نظام خلافت قائم بھی ہو چکا ہے۔ اب کوئی نیا نظام خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم نہیں ہو سکتاجتنی چاہیں یہ کوششیں کریں۔ پس آج احمدی جہاں اپنے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچاتے ہوئے ہمیں ثابت قدم رکھے۔ ہمیں اس مسیح ومہدی کی جماعت سے وابستہ رکھے جو آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا، وہاں ان حق سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے کہ مسیح و مہدی کے ساتھ جڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 15نمبر 9 مورخہ 29 فروری تا 6 مارچ 2008ء صفحہ 5-6)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ فروری 2008ء شہ سرخیاں

    ابتلاء اور دعائیں،مختلف ممالک، پاکستان، انڈونیشیا اور ہندوستان میں احمدیت کی مخالفت، غیرمبائعین کو نصیحت، بعض عرب حکومتوں کا مولویوں اور عیسائیوں سے خوفزدہ ہوکر ایم ٹی اے کا العربی چینل کی نشریات بندکرنا، عارضی روکیں آتی ہیں اور آئیں گی۔ دشمنوں اور حاسدوں کے وارہوں گے لیکن اس سے کسی احمدی میں مایوسی نہیں آنی چاہئے۔ ان روکوں کو دیکھ کر جیسا کہ میں نے بتایا مومن مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے اور جھکنا چاہئے۔ پس دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنی نمازیں سنواریں۔ فرائض پورے کریں اور پھر نوافل کی طرف توجہ دیں۔ کیونکہ یہ دعائیں اور عبادتیں ہی ہیں جنہوں نے ہمارے مقاصد کے حصول میں ہماری مدد کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبانیں تر رکھیں اور اس سے ہی ہماری فتوحات کے دروازے کھلنے ہیں۔

    فرمودہ مورخہ 8فروری 2008ء بمطابق 8 تبلیغ 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور