اللہ تعالیٰ کی صفت رفیق

خطبہ جمعہ 28؍ مارچ 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کی ایک صفت رفیق ہے۔ حلیم اور رفیق کے ایک معنی مشترک بھی ہیں یعنی نرمی کرنے والا اور مہربانی کرنے والا۔ رفیق کے ایک معنی ساتھی کے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اہل لغت نے اس کے اور بھی کئی معنے لئے ہیں۔ ایک معنی اس کے ہیں کہ نقصان نہ پہنچانے والا۔ نہ صرف نقصان نہ پہنچانے والا بلکہ نفع اور فائدہ پہنچانے والا، ہمدردی کرنے والا، رحم کرنے والا، اپنا کام ہر سقم سے پاک اور اعلیٰ کرنے والا اور ساتھیوں کے ساتھ اعلیٰ سلوک کرنے والا اور وہ جس سے مدد لی جائے۔

اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ادراک بھی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دیا۔ 9ستمبر 1903ء کو آپ نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا کہ سَلَا مٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ یعنی تمہارے لئے سلامتی ہے، خوش رہو۔ پھر کیونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا (اُن دنوں میں طاعون کی وبائی بیماری پھیلی ہوئی تھی) تو اس کا علاج خداتعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ناموں کا وِرد کیا جائے۔ یَاحَفِیْظُ، یَاعَزِیْزُ، یَا رَفِیْقُ یہ تین نام بتائے گئے‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ’’ رفیق خدا کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی رفیق ذات ہے جو اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے، اُن کو ہر نقصان سے بچاتے ہوئے، ان کے فائدے کے راستے دکھاتی ہے اور اس کے کام جو ہیں وہ ہر سقم سے پاک ہیں۔ وہ اپنے بندوں کے لئے ایک بہترین ساتھی ہے جو ہر لمحہ ان کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنی بندوں کی مدد کرتا ہے؟ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اللہ تعالیٰ کا یہاں تک قرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ کہ جو شخص میرے ولی کی عدوات کرتا ہے وہ جنگ کے لئے تیار ہو جاوے۔ اس قدر غیرت خداتعالیٰ کو اپنے بندے کے لئے ہوتی ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شے میں اس قدر تردّد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہے اور اسی لئے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہتا ہے مگر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ99۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس ایک تو عام لوگ ہیں وہ جیسے بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی صفت رفیق کے تحت اس کی نرمی اور مہربانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن ایک اللہ تعالیٰ کے وہ خالص بندے ہیں جو خالص ہو کر اس کی عبادت کرنے والے اور اس کو رفیق ِاعلیٰ سمجھنے والے ہیں جس کا سب سے اعلیٰ نمونہ دنیا میں ہم نے آنحضرتﷺ کی ذات میں دیکھا ہے جنہوں نے اس رفیق اعلیٰ کی صفت کے جتنے بھی معنی بنتے ہیں ان کا فیض پایا ہے۔ لیکن پھر بھی اس رفیق اعلیٰ کے پاس جانے کی تڑپ تھی۔ تبھی وصال کے وقت یہ الفاظ بار بار آپ کے مبارک منہ سے نکلتے تھے کہ فِی الرَّفِیْقِ الْا َعْلٰی۔ اور یہ اُسوہ ہے جو آپؐ نے قائم فرمایا تاکہ ہم بھی دنیا پر نظر رکھنے کی بجائے رفیقِ اعلیٰ پر نظر رکھنے والے ہوں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس صفت کے تحت کیسا اعلیٰ رفیق اور ساتھی بنتا ہے اور مشکلات سے نکالتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی اس صفت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے الہاماً فرمایا تھا۔ لیکن اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں اُس رفیق کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، اس کو جذب کرنے کے لئے، اس کی صفت کو اپنانا ہو گا۔

آج جبکہ اسلام مخالف طاقتیں پھر سے سرگرم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، ایک ہی رفیق ہے جس کے ساتھ رہ کر ہم اپنی بچت کے سامان کر سکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اسلام اور آنحضرتﷺ پرتشدد کی تعلیم کے حوالے سے حملے ہو رہے ہیں اور آج کے دن تو خاص طور پر دشمن اسلام کا بڑا گھٹیا اور ذلیل ارادہ ہے بلکہ یہ اس کا ارادہ تھا۔ تو آج 28؍ مارچ کو ہالینڈ کا جو ایم پی وِلڈر (Wilder) ہے اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ مَیں ایک فلم قرآن اور اسلام کے بارے میں جاری کروں گا لیکن اُس نے یہ فلم کل 27؍مارچ کو ہی جاری کر دی ہے اور ایک چھوٹے ٹی وی چینل نے اس کا کچھ حصہ دیا بھی ہے، پھر انٹرنیٹ پر بھی اس نے دے دی ہے۔ جو بڑے ٹی وی چینل تھے انہوں نے تو اس کو لینے سے انکار کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آئی رہے اور وہ انکار ہی کرتے رہیں لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اس نے انٹرنیٹ پر اس کو جاری کیا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے پچھلے خطبات میں بتایا تھا کہ اس نے کسی کے پوچھنے پر یہ اعتراض کیا تھا کہ سورۃ محمدؐ کی آیت5 کہ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ۔ حَتّٰی اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوْا الْوَثَاقَ(محمد :5) پس جب تم ان لوگوں سے بھڑ جاؤ جنہوں نے کفر کیا تو گردنوں پروار کرو یہاں تک کہ جب تم ان کا بکثرت خون بہا لو تو مضبوطی سے بندھن کسو۔

یہ اعتراض کوئی نیا اعتراض نہیں ہے۔ بہت پرانا اعتراض ہے، مَیں نے پہلے بھی یہ ذکر کیا تھا کہ جنگوں میں یہ لوگ کیا کچھ نہیں کرتے لیکن شرارت ہے اس لئے کہ اس آیت کا جو اگلا حصہ ہے وہ بیان نہیں کر تا کہ جب جنگ ختم ہو جائے تو احسان کرتے ہوئے یا فدیہ لے کر جن کو قیدی بنایا ہے ان کو چھوڑ دو۔ اصل میں تو یہ حکم اس لئے ہے کہ اسلام اس قدر نرمی اور دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیتا ہے کہ تعلیم کا یہ حصہ بتانا بھی ضروری تھا اور یہی کامل تعلیم کا کمال ہے کہ حالات کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔ نہ تو اتنی سختی سے بدلے کا حکم ہے کہ ہر بات کا بدلہ دیا جائے اور انسانوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جائے۔ نہ ہی اتنی نرمی کا حکم ہے کہ اگر ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو۔ جس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ اور اس تعلیم کو ماننے والے سب سے زیادہ بدلے لیتے ہیں۔ یہ ولڈر (Wilder) جو اس تعلیم کا پیرو کار ہے، اس کو اپنے گریبان میں بھی کچھ جھانکنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی تعلیم پر عمل کر رہا ہے۔

بہرحال اس وقت مَیں قرآن کریم کی اس تعلیم کا ذکر کروں گا اور وہ چند آیات سامنے رکھوں گا جس سے اسلام کے رِفق، حِلم اور عفو کی تعلیم کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ احمدی عموماً درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ کئی خط مجھے آتے ہیں جن میں اس کے فیض کا بھی ذکر ہوتا ہے کہ د رود شریف پڑھااور یہ یہ فیض ہم نے پایا۔ خلافت جوبلی کی دعاؤں میں بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی الہامی دعا تسبیح، تحمید اور درودجس میں ہے، وہ بھی شامل ہے یعنی سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اسی طرح مکمل درود شریف جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں وہ بھی دعاؤں میں شامل ہے۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارکِْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اور ایک خاص تعداد میں جوبلی کی دعاؤں میں اس کو بھی پڑھنے کے لئے کہا ہوا ہے اور یہ تعداد صرف عادت ڈالنے کے لئے ہے۔ بہرحال احمدی جیسا کہ مَیں نے کہا درود پڑھتے ہیں اور اس طرف توجہ ہے اور احمدی کو یہ توجہ اس لئے ہے کہ اس زمانے میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی اور اس میں خاص طور پر درود شریف کی اہمیت کا بھی ہمیں بتایا ہے جیسا کہ آپ نے مختلف جگہوں پر جماعت کو اس کی تلقین کی۔

ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے، بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہﷺ کے حسن و احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپؐ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔ قبولیت دعا کے تین ہی ذریعے ہیں، اوّل اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی(آل عمران:32)‘‘۔ (یعنی اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری یعنی رسول اللہﷺ کی پیروی کرو۔) ’’دوم یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)‘‘ (کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم اس نبی پر درود اور سلام بھیجتے رہا کرو)۔ اور ’’ سوم مَوھبَتِ اِلٰہِی‘‘(اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے۔ اس کے ذریعے سے بخشش ہے۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں )۔ (رسالہ ریویو، اردو۔ جلد 3نمبر 1صفحہ15-14)

پس جب تک درود پر توجہ رہے گی تو اس برکت سے جماعت کی ترقی اور خلافت سے تعلق اور اس کی حفاظت کا انتظام رہے گا۔ لیکن اس وقت جو مَیں نے کہا ہے اور خاص طور پر توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اس وقت خاص طور پر اس حوالے سے درود پڑھیں کہ آج دشمن، قرآن اور آنحضرتﷺ کے نام پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی یہ کوشش سوائے اس کے بدانجام کے اس کو کوئی بھی نتیجہ نہیں دلا سکتی۔ لیکن اس کی اس مذموم کوشش کے نتیجہ میں ہم احمدی یہ عہد کریں کہ آنحضرتﷺ پر کروڑوں اور اربوں دفعہ درود بھیجیں۔ جماعت جب من حیث الجماعت درُود بھیجتی ہے یا ایک و قت میں بھیجے گی تو اس کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے گی اور نہ صرف آج بلکہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی توجہ سے ہم آپؐ پر درُود بھیجتے چلے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے اور اس درُود کو قبول فرمائے جس کے پڑھنے کا خود اس نے حکم دیا ہے اور اسلام اور آنحضرتﷺ کے چہرے کی روشنی اور چمک دمک پہلے سے بڑھ کر دنیا پر ظاہر ہو۔

پس آج جب دشمن اپنی دریدہ دہنی اور بدارادوں میں تمام حدیں پھلانگ رہا ہے تو ہم بھی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اسوہ پر عمل کرتے ہوئے کہ ؎

عدُو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں

نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں

اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگیں کہ وہ ہمیں اس درود کا حق ادا کرنے کی توفیق دیتے ہوئے آپﷺ کے نام کو، قرآن کریم کی تعلیم کو روشن تر کرکے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی توفیق دے۔ اپنے آپ کو ہم اس رفیق اعلیٰ میں جذب کرنے والے بن جائیں جو اپنے ساتھیوں کو نہ صرف نقصان سے بچاتا ہے بلکہ ترقیات سے نوازتا ہے۔ پس کیونکہ یہ زمانہ اور آئندہ آنے والا تاقیامت کا زمانہ آنحضرتﷺ کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم یہ دعا کریں کہ اے اللہ! آخری فتح تو یقینا حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ہے لیکن ہماری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اسے ہمارے زمانے میں لے آ۔

ہالینڈ کی جماعت کو اس شخص، ’وِلڈر (Wilder) ایم پی‘ پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ بے شک ہم قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے اور نہ ہی کبھی ہم قانون اپنے ہاتھ میں لے کر تم سے بدلہ لیں گے۔ لیکن ہم اُس خدا کو ماننے والے ہیں جو حد سے بڑھے ہوؤں کو پکڑتا ہے۔ اگر اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئے تو اس کی پکڑ کے نیچے آ سکتے ہو۔ پس خدا کا خوف کرتے ہوئے اپنی حالت کو بدلو۔ بے شک ہم تو خدا کے ماننے والے ہیں، اس خدا کے ماننے والے ہیں جو رفیق ہے اور اس صفت کے تحت و ہ مہربانی کرنے والا بھی ہے، ہمدردی کرنے والا بھی ہے، رحم کرنے والا بھی ہے، نقصان سے بچانے والا بھی ہے اور امن سے رکھنے والا بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ہم تمہاری ہمدردی اور تمہیں بچانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ اپنی حالت بدلو۔ یہ ایک آخری کوشش ہے۔ اس کے بعد اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ کے حکم کے تحت ہم معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں اور وہ اپنے نبی اکے دین کی عزت و توقیر قائم کرنا جانتا ہے اور خوب جانتا ہے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ اس انسان کامل ہمارے نبیﷺ کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خُلق مجسّم ذات نے اس کے مقابلے میں کیا کیا۔ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح و سلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضورﷺ کے مخالف آپؐ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل وخوار ہو کر آپؐ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد دوم صفحہ 592۔ زیر سورۃ الاعراف آیت 200)

آج بھی محمد رسول اللہﷺ کا خدا زندہ خدا ہے۔ اپنی مذموم کوششوں میں دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ انشاء اللہ۔ بلکہ ذلیل و خوار ہو گا۔ لیکن ہمارے سپرد جو کام ہے وہ کرتے چلے جانا ہمارا فراض ہے۔ دنیا کو امن دینے کے لئے اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے، دنیاوی ہمدردی کے لئے نرمی سے اپنا پیغام پہنچاتے چلے جانا ہے اور نرمی کا مظاہرہ کرنے کے لئے خداتعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں کیا حکم دیتا ہے۔ اس بار ے میں اللہ تعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت 41میں فرماتا ہے کہ وَجَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (الشوریٰ:41) اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کر دے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’بدی کی جزاء اسی قدربدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو، کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر ہو، نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خوانخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریر وں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے۔ بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا۔ پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے۔ بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہے اور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اَور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالو بلکہ غور سے دیکھ لیا کرو کہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے۔ آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔ پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔ افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں، پڑدادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگزر کی عادت کو انتہا تک پہنچنے دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراد سے دیّوسی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حِلم اور عفو اور درگزر ان سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیّت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں۔ اور ایسے عفو اور درگزر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔ انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن کریم میں ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خُلق کو منظور نہیں کیا جو بے محل صادر ہو۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 352-351 مطبوعہ لندن)

پس یہ ہے اسلامی تعلیم جس پر مخالفین اسلام کو اعتراض ہوتا ہے۔ جنگوں میں جنگ کی حالت ہے تو جس وقت تک جنگ کی حالت ہے اس وقت تک کیونکہ دشمن حملہ آور ہے اس لئے اس کا سختی سے جواب دو۔ لیکن جب جنگ ختم ہو جائے تو پھر ظلم نہیں کرنا۔ قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔ پھر اس کے علاوہ اگر معاشرتی مسائل ہیں تو ان کی اصلاح کے لئے بھی یہ دیکھو کہ سختی سے اصلاح ہوتی ہے یا نرمی سے۔ اگر کسی مجرم کو معاف کرنے سے، اس سے نرمی سے پیش آنے سے، اس کی ہمدردی کرنے سے یہ یقین ہو کہ اس کی اصلاح ہو جائے گی اور جو جرم اُس نے کیا ہے وہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے، عادی مجرم نہیں ہے تو پھر معاف کرنا بہتر ہوتا ہے کہ اِس سے اصلاح ہوتی ہے۔ لیکن اگر عادی مجرم ہو تو اس کو اگر معاف کرتے چلے جائیں تو پھر معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کا بہترین ساتھی ہے، اپنے ان بندوں کا جو عبادالرحمن ہیں، جو خداتعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں، جو اس کی عبادت میں طاق ہیں، ان کے لئے پھر اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو دوسروں کے شر اور نقصان سے ان کو بچائیں۔ ان کو مشکلات سے نکالتا ہے جیسا کہ بیماری کی تکلیف سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہاماً بھی اس صفت کا اظہار کر دیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بنیادی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا مقصد اصلاح ہو۔ اور اس مقصد سے اگر باہر نکلتے ہو تو پھر مقصد نیک نہیں ہے بلکہ ظلم بن جاتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ کے بندے تو ظلم کا خاتمہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ سورۃ شوریٰ کی جو آیت میں نے پڑھی ہے، اس کی اگلی آیات میں مزید کھول کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا ذکر ہوا ہے۔ فرماتا ہے وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ مَا عَلَیْھِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ (الشوریٰ:42) اور جو کوئی اپنے اوپر ظلم کے بعد بدلہ لیتا ہے تو یہی وہ لوگ ہیں جن پر کوئی الزام نہیں۔ فرمایااِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْا َرْضِ بِغَیْرِالْحَقِّ۔ اُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (الشوریٰ:43) الزام تو صرف ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی سے کام لیتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب مقدر ہے۔ فرماتا ہے۔ وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُ مُوْرِ(الشوریٰ:44) اور جو صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ اولوالعزم باتوں میں سے ہے۔ پہلی بات تو یہاں یہ واضح ہو کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ بدلہ لینے کی اجازت ہے تو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر جس طرح چاہو بدلے لے لو۔ اگر مسلمان بھی یہ سمجھیں تووہ جن کوقرآن کریم کا علم ہے اس کی صحیح حقیقت سمجھتے ہیں لیکن دشمن چونکہ اعتراض کرنے والا ہوتا ہے وہ ان باتوں میں بھی اعتراض نکال لیتا ہے۔ بلکہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اُوْلُوْالْا َمْر کے پاس جاؤ۔ اللہ اور رسول کے بعداُوْلُوْالْا َمْر کا حکم مانو۔ اس لئے فی زمانہ جو بدلہ لینے کی بات ہو رہی ہے تو اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ قانون کے ذریعہ سے جو بھی بدلہ لینا ہے وہ لو۔ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے اس سے تو ظلم کے اور دروازے کھلیں گے۔

پس ظلم کا بدلہ اور دفاع قانونی حدودکے اندر رہتے ہوئے لینے کی اجازت ہے اور اسلام کی تعلیم نہ ہی تصوراتی ہے، نہ ایسی ہے جس پر عمل نہ کیا جا سکے۔ ہاں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن بجائے اس کے سمجھنے کے اور اور رنگ میں اس کی وضاحتیں کرتا ہے۔ پس اسلام ایک عملی شکل پیش کرتا ہے کہ ہر ایک شخص میں معاف کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا، اس لئے تم اپنے پر ظلم ہونے پر اپنا دفاع کر سکتے ہولیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر پکڑتا ہے تو انہیں پکڑتا ہے جو بغیر وجہ کے ظلم کرتے ہیں اور ظلم کرتے ہوئے دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ہر قسم کے اخلاقی، جذباتی، معاشی، معاشرتی، مذہبی وغیرہ حقوق شامل ہیں۔ اور یہ لوگ جو حقوق غصب کرنے والے ہیں یہ معاشرے کا امن برباد کرنے والے ہیں اور دوسروں کو بلاوجہ نقصان پہنچانے والے ہیں بلکہ (ان کا) یہ (عمل) سرکشی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنے ملک کے قانون کی وجہ سے ان ظلموں کے کرنے کے باوجود بچ جاتے ہیں جیسے یہاں آجکل یورپ میں آزادیٔ خیال کے نام پر دوسروں کے جذبات اور مذہبی خیالات یا مذہبی تعلیم سے کھیلنے کی اجازت ہے۔ لیکن ان سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ سب طاقتوں کا مالک ایک خدا ہے جس کے حضور ہر ایک نے حاضر ہونا ہے۔ اس نے سرکشوں کے لئے اگلے جہان میں درد ناک عذاب مقدر کر رکھا ہے۔

پھر دیکھیں قرآنی احکامات میں برداشت کی انتہا۔ جبکہ الزام لگانے والے الزام یہ لگاتے ہیں کہ اس میں صبر کی تعلیم نہیں ہے۔ برداشت کی تعلیم نہیں ہے۔ ان آیات میں جو مَیں نے پڑھی ہیں، آخری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک تم بدلہ لینے اور اپنا نقصان پورا کرنے کا حق رکھتے ہولیکن اعلیٰ ترین اخلاق یہ ہیں کہ تم صبر کرو اور دوسرے کو معاف کرو۔ ان کی بہتری کے لئے کوشش کرو اگر معاف کرنے سے بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔ اور اس کی اعلیٰ ترین مثال آنحضرتﷺ کی ذات میں ہمیں نظر آتی ہے اور تاریخ نے اسے محفوظ کیا ہے۔ مستشرقین بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ جب ایک یہودیہ نے آپؐ کو زہر دینے کی کوشش کی تو آپؐ نے اس کو معاف کیا اور کئی مواقع آئے جب آپؐ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو معاف کرتے چلے گئے۔ جیسا کہ مَیں نے جوابھی اقتباس پڑھا ہے اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ پھر اس کی انتہاء فتح مکّہ کے وقت ہوئی۔ جب اپنے پیارے ساتھیوں پر ظلم کرنے والوں کو، اپنے پر ظلم کرنے والوں کو تمام اختیارات اور طاقت آنے کے باوجود لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ کر معاف کر دیا۔ اب بھی دشمن کہتے ہیں کہ اسلام کے احکامات میں سختی ہے اور کوئی انسانی ہمدردی نہیں اور آنحضرتﷺ نعوذ باللہ رِفق اور حِلم کے نام کی کوئی چیز نہیں جانتے تھے۔ آپؐ تو اپنی جان کو اس بات سے ہی ہلاک کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو شرک کرنے والے ہیں، جو ایک خدا کی عبادت نہ کرنے والے ہیں، اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے نیچے نہ آ جائیں۔ اپنے ان ظلموں کی وجہ سے جویہ لوگ آپؐ پر اور آپؐ کے ماننے والوں پرکر رہے تھے کہیں اللہ تعالیٰ کا درد ناک عذاب ان کو پکڑ نہ لے۔ آپؐ کی اس صفت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ(الشعراء:4) کہ کیا تو اپنی جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوزو گداز سے دعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرتﷺ اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپرواہ ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام) جس قدر توُ عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوزو گداز اور اپنی روح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُرتاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے۔ لیکن شرط قبولیت دعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپرواہ اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو، ورنہ دعا قبول نہیں ہو گی۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد نمبر 21صفحہ 226)

آنحضرتﷺ کا تو لوگوں کی ہمدردی میں یہ اُسوہ تھا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں نعوذ باللہ ظلم اور سختی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ کیا جنگجو فطرت رکھنے والا اپنے آپ کو اس طرح ہلاکت میں ڈالتا ہے؟ کیا اَنا رکھنے والا اور بدلے لینے والا اپنے پر ظلم کرنے والوں کو اس طرح کھلے دل سے معاف کرتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ان عقل کے اندھوں کو آنکھوں کی روشنی عطا فرمائے لیکن ہمارا کام اُسوۂ رسول اللہﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی کے لئے دعا کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو، بدفطرتوں سے علیحدہ کر دے۔ دنیا جس طرح غلاظتوں میں پڑی ہوئی ہے، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہونا ہے۔ لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آقا و مطاعﷺ کے اُسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی بھلائی اور بہتری کے لئے دعا کریں۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ بنا کر بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء:108) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ’’اس وقت آنحضرتﷺ پر صادق آتا ہے کہ جب آپ ہر ایک قسم کے خُلق سے ہدایت کو پیش کرتے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ نے اخلاق، صبر، نرمی اور نیز مار، ہر ایک طرح سے اصلاح کے کام کو پورا کیا اور لوگوں کو خدا کی طرف توجہ دلائی۔ مال دینے میں، نرمی برتنے میں، عقلی دلائل اور معجزات کے پیش کرنے میں آپ ؐ نے کوئی فرق نہیں رکھا۔ اصلاح کا ایک طریق مار بھی ہوتا ہے کہ جیسے ماں ایک و قت بچے کو مار سے ڈراتی ہے وہ بھی آپؐ نے برت لیا تو مار بھی ایک خداتعالیٰ کی رحمت ہے کہ جو آدمی اور کسی طریق سے نہیں سمجھتے خدا اُن کو اس طریق سے سمجھاتا ہے کہ وہ نجات پاویں ‘‘۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ 297)

پس آپ ؐ مجسّم رحم تھے اور آپؐ کا ہر عمل اور ہر نصیحت اس لئے تھی کہ دنیا خداتعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے والی بنے۔ وہ ہستی جس کا ہر فعل اور عمل دنیا کے لئے رحمت اور ہمدردی ہو، اس ذات کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ وہ ظلم کی تعلیم لائے تھے کتنا بڑا ظلم ہے۔

اس وقت میں بعض احادیث پیش کرتا ہوں جس میں آپؐ کی ہمدردی، نرمی اور رفق کے لئے تڑپ کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو اور تم بشارت دینے والے بنو، نہ کہ نفرت پیدا کرنے والے۔ (بخاری کتاب العلم باب ما کان النبیﷺ یتخولہ بالموعظۃ والعلم حدیث نمبر 69)

جب آپؐ یہ نصیحت فرماتے تھے تو خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل فرماتے تھے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے ملازمین سے کہتا کہ اس سے صرف نظر کرو تاکہ اللہ بھی ہم سے صرف نظر کرے۔ (قرض کا زیادہ مطالبہ نہیں کرتا تھا) اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سے صرف نظر کیا۔ (بخاری کتاب البیوع باب من انظر معسرا حدیث نمبر2078)

یہ لوگ وہ لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کی صفات کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں سے پھر خاص سلوک فرماتا ہے۔

حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایسا بندہ لایا جائے گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، تم نے دنیا میں کیا عمل کیا؟ ….وہ جواب دے گا کہ…… اے میرے ربّ! تو نے مجھے اپنا مال دیا میں لوگوں سے خرید و فروخت اور لین دین کرتا تھا اور درگزر کرنا اور نرم سلوک کرنا میری عادت تھی۔ مَیں خوشحال اور صاحب استطاعت سے آسانی اور سہولت کا رویہ اختیار کرتا اور تنگدست کو مہلت دیا کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مجھے اس بات کا زیادہ حق پہنچتا ہے کہ مَیں اپنے بندے سے درگزر سے کام لوں، میرے بندے سے درگزر کرو۔ (مسلم کتاب المساقاۃ باب فضل انظار المعسرحدیث3887)

یہ لوگ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کے بھوکے ہوتے تھے۔ اس لئے لوگوں سے بھی نرمی اور رفق کا سلوک کرتے تھے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :نرمی جس کسی کام میں بھی ہو تو وہ اسے خوبصورت کر دیا کرتی ہے اور جس چیز میں سے نرمی نکال لی جائے تو وہ اسے خراب کر دیتی ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والاداب۔ باب فضل الرفق۔ حدیث:6497)

جیسا کہ ہم نے پہلی حدیث میں بھی دیکھا تھا اس نرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بھی نرمی کرتا ہے، اپنی مخلوق سے بھی نرمی کرتا ہے اور اسی سلوک کی وجہ سے بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے حضرت ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کیا مَیں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے، ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور ان کو سہولت دینے والا ہے۔ (سنن ترمذی۔ صفۃ القیامۃ۔ باب نمبر 110/45۔ حدیث نمبر 2488)

پھر ایک جگہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں جو رفق اور نرمی سے محروم رہا وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم رہا۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب فضل الرفق۔ حدیث نمبر6493)

پھر حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! اللہ تعالیٰ رفیق ہے اور وہ رِفق کو پسند فرماتا ہے اور وہ رِفق پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو وہ سختی پر عطا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے علاوہ وہ کسی اور شے پر عطا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب فضل الرفق۔ حدیث نمبر 6496)

تو آنحضرتﷺ جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے پیار اور محبت کے بھوکے تھے کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنے ماننے والوں کو یہ نصیحت کریں اور خود اس پر عمل نہ کرنے والے ہوں ؟

پھر آپؐ فرماتے ہیں، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں سے رِفق اور نرمی کا سلوک کرے۔ دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے شفقت کا سلوک کرے۔ تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔ (ترمذی۔ صفۃ القیمۃ والرقائق۔ باب 113/48۔ حدیث نمبر 2494)

پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! نرمی اختیا ر کر کیونکہ اللہ جب کسی گھر والوں کو خیر پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے تو ان کی رہنمائی رِفق کے دروازے کی طرف کر دیتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسندعائشۃ۔ جلد نمبر8حدیث نمبر 25241 صفحہ175۔ عالم الکتب للطباعۃ بیروت۔ طبع اول1998 ء)

حضرت مُعَاویَہ بن اَلْحَکَم اَلسُّلَمِیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نماز میں رسول کریمﷺ کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے چھینک ماری تو مَیں نے بلند آواز سے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہہ دیا۔ اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مَیں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو۔ اس پر لوگوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دئیے۔ جب مَیں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو مَیں خاموش ہو گیا۔ جب رسول کریمﷺ نماز سے فارغ ہوئے توکہتے ہیں میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مَیں نے آپؐ سے پہلے اور آپ کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جو اتنے اچھے انداز میں سکھانے والا ہو۔ خدا کی قسم !نہ تو آپؐ نے مجھے تیوری چڑھا کر دیکھا اور نہ سرزنش کی اور نہ ہی ڈانٹا بس اتنا کہاکہ نماز میں لوگوں سے کسی قسم کی بات چیت مناسب نہیں۔ نماز تو صرف تسبیح اور تکبیر اور قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد۔ باب تحریم الکلام فی الصلوٰۃ۔ نمبر 1087)

تو یہ آپؐ کے اپنوں کو سکھانے کے انداز تھے۔

پھر غیروں سے کیا سلوک تھا؟ دشمنوں سے کیا سلوک تھا؟ (اس کی) ایک (مثال) تو ہم فتح مکّہ میں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن جو پہلی جنگ بد ر کی تھی اس کا ایک واقعہ ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی۔ اس پر خباب بن مُنذر نے آپؐ سے دریافت کیا کہ آیا خدائی الہام کے تحت آپ نے یہ جگہ پسند کی ہے یا محض فوجی تدبیر کے طور پر اس کو اختیار کیا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث ہے۔ انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپؐ لوگوں کو لے کر پانی کے چشمہ کے قریب چلیں تاکہ اس پر قبضہ ہو جائے اور وہاں حوض بنا لیں گے اور پانی پی سکیں گے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا تم نے اچھی رائے دی ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ صحابہ سمیت پانی کے قریب چلے گئے اور وہاں جا کے پڑاؤ ڈالا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کے لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ اِن کو پانی پی لینے دو۔ کیونکہ صحابہ کا خیال یہ تھا کہ ان کو پانی سے روکا جائے گا لیکن آنحضرتﷺ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی پی لینے دو۔ (سیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ صفحہ484۔ جنگ بدر۔ مشورۃ الخباب علی رسول اللہ الی اسلام ابن حزام۔ مطبع دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ طبع اول 2001ء)

تو یہ ہے دشمن سے بھی سلوک کہ صحابہ کا خیال تھا کہ پانی سے دشمن کو محروم کرنے کے لئے قبضہ کیا جائے تاکہ وہ تنگ آ جائے۔ یہ بھی جنگی چالوں میں سے چال ہے۔ لیکن آپ نے اس ارادے سے یقینا قبضہ نہیں کیا تھا کہ دشمن کو پانی سے محروم کر دیں گے۔ آپ نے تو اس ارادے سے قبضہ کیا ہو گا کہ مَیں خداتعالیٰ کی صفات کا پرتَوہوں، مَیں تو اس جگہ سے دشمن کو پانی لینے دوں گا لیکن اگر دشمن نے اس جگہ قبضہ کر لیا تو وہ ہمیں اس پانی سے محروم کرے گا جس کی وجہ سے تنگی ہو گی۔ گویا یہ قبضہ اپنوں اور غیروں دونوں کے لئے ہمدردی کے جذبے کے تحت تھا۔ کیا آج کل کے اس زمانے میں بھی، جب دنیا اپنے آپ کو Civilized کہتی ہے، ایسی مثالیں مل سکتی ہیں ؟ پس یہ اعلیٰ اخلاق اور نرمی اور ہمدردی اور رِفق کی نصائح ہیں جو آپ نے اپنی اُمّت کو دیں اور جس کے اعلیٰ ترین نمونے آپ ؐ نے خود قائم فرمائے۔

اللہ تعالیٰ دنیا کوبھی انصاف کی آنکھ سے اس حسین چہرے کو اور اس حسین تعلیم کو دیکھنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے عمل، ہماری دعاؤں، ہمارے درُود کو بھی قبول کرتے ہوئے اس طرح برکت سے نوازے کہ ہم جلد تر حضرت محمد رسول اللہﷺ کا روشن چہرہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دنیا کے ہر خطے، ہر شہر اور ہر گلی میں چمکتا ہوا دیکھیں۔ دنیا جلد تر آپؐ کے جھنڈے تلے آ جائے اور آپ کا ہر دشمن جو انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے آپؐ کی ذات مبارک پر حملے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہے وہ ذلیل و خوار ہو جائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا:

ایک افسوسناک خبر ہے۔ گزشتہ دنوں 19؍مارچ کو ڈاکٹر محمد سرورخان صاحب کو آپ کے گاؤں میں (سنگو ضلع پشاور میں ان کا گاؤں ہے) رات 8بجے شہید کر دیا گیا۔ دروازے پر گھنٹی بجی۔ آپ باہرنکلے، کلینک کرتے تھے، تو چند نامعلوم شرپسند افرادنے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے آپ کو شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی عمر 74سال تھی۔ 1954ء میں بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تھی اور احمدیت کی خاطر بڑی قربانیوں کی توفیق پائی۔

نہایت نڈر، دلیر اور نیک انسان تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے علاقے میں آپ کی شہرت بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی ہوئی تھی۔ کافی اثر و رسوخ تھا۔ اکیلا احمدی خاندان تھا۔ پہلے بھی آپ پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں لیکن ہمیشہ محفوظ رہے تھے۔ حملوں کے باوجود بہادر بہت تھے۔ لوگوں نے کہا بھی کہ گاؤں چھوڑ دیں آپ نے اپنا علاقہ نہیں چھوڑا۔ آپ کی چھ بیٹیاں اور 3بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر دے۔ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اس قربانی کو قبول کرتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ ابھی نماز جمعہ کے بعدمَیں ان کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 16۔ مورخہ 18 اپریل تا 24 اپریل 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 28؍ مارچ 2008ء شہ سرخیاں

    اسلام کے دشمنوں کے مذموم اور گھٹیا ارادے، ہالینڈکا ایم پی Wilder کا ظالمانہ کردار، درودشریف پڑھنے کی عالمی تحریک۔ مخالفین اسلام کی ان ظالمانہ کوششوں کے جواب میں ہراحمدی یہ عہدکرے کہ آنحضرتﷺ پر کروڑوں اربوں دفعہ درود بھیجے گا۔ اوریورپ کے ان ظالموں کوانتباہ کہ ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو حدسے بڑھے ہوؤں کو پکڑتاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور و ہ اپنے نبیﷺ کی عزت وتوقیر قائم کرنا جانتاہے۔ اور خوب جانتاہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا تذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ 28؍مارچ 2008ء بمطابق28؍ امان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور