افتتاح جلسہ سالانہ نائیجیریا

خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2008ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہدو تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نائیجیریا کا 58واں جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں جب دنیا کی اکثریت خداتعالیٰ کو بھول بیٹھی ہے احمدی خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر ملک میں جلسے کرتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ چند دن کے لئے اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنیں۔ یہ انقلاب ہے جس کے برپا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں بھیجا۔ اگرہم اپنے اندر یہ انقلاب لانے والے نہیں، اگر ہم آج اس مقصد کے لئے جمع نہیں ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے تو پھر اس جلسے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپؑ نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا کہ مجھے کوئی شوق نہیں کہ میلے کا ماحول پیدا کروں اور لوگوں کو جمع کرکے دنیا کو اپنی طاقت بتاؤں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ سوچ اور خیال ایسے ہیں جن سے مجھے کراہت آتی ہے۔ پھر آپؑ نے یہ بھی فرمایا یہاں جلسے پر تقریریں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے مقرر تقریریں کرتے ہیں۔ بڑی علمی باتیں ہوتی ہیں۔ لوگ یہ باتیں سن کر مقررین کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ان تقریروں اور مقررین کی ان اعلیٰ علمی باتوں کا کیا فائدہ؟ اگر جماعت کے دلوں پر اس کا اثر نہ ہو۔

پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والے ہیں، اس لئے آج یہاں جمع ہیں کہ جو باتیں ہم سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ اپنی زندگیوں کو اس معیار پر لانے کی کوشش کریں جس معیار پر آنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں اور وہ معیار ہم حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہم پر نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے بھی ایک مجاہدے کی ضرورت ہے، ایک کوشش کی ضرورت ہے۔ ایسی کوشش کہ جب اللہ تعالیٰ اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے اپنے بندے کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ اپنے بندے کی کوشش کو قبول فرماتا ہے۔ اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔ اس سے ایسے کام کرواتا ہے جو اس کی رضا کے کام ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستے کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔

اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :۔ ’’اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات، خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلے سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا ہے اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے۔ اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خداتعالیٰ نے فرمائے ہیں، وہ سب بجا لاؤ‘‘۔ (بدر جلد1 نمبر 34 مورخہ 8 نومبر 1905 صفحہ3-4)

پس یہ کام ہے جو بیعت کرنے کے بعد ایک احمدی مسلمان کو کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ جلسہ بھی ان طریقوں میں سے، ان ذریعوں میں سے جو خداتعالیٰ کا قرب دلانے والے اور پاک تبدیلی پیدا کرنے والے ذریعے ہیں، ایک ذریعہ ہے۔

ہمارا آج یہاں جمع ہونا اور بڑی تعداد میں جمع ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم یقینا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بیعت میں آنے کے بعد مجاہدہ کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پس ان تین دنوں میں اس مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی خاص طور پر کوشش کرے تبھی یہاں جمع ہونے کے مقصد کو پورا کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا سب سے اہم ذریعہ نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فرمایا کہ اپنے نفس کی تبدیلی کے لئے کوشش کرو تو سب سے پہلے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’نماز میں دعائیں مانگو‘‘۔ کیونکہ جب انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیک خواہشات کو قبول فرماتے ہوئے اس میں پاک تبدیلیاں پیدا فرماتا ہے۔ لغو اور غلط کاموں سے انسان بچتا ہے۔ نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت:46) یعنی نماز سب بُری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ نماز بری اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ لیکن کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ماحول میں دیکھتے ہیں کہ بظاہر بڑے نماز پڑھنے والے لوگ، ایسے لوگ جو حج بھی کر آتے ہیں، ان کے جب دوسرے اعمال دیکھو، ان کے جب دوسرے اخلاق دیکھو تو بعض دفعہ ایک لامذہب ان سے زیادہ اخلاق و الانظر آتا ہے۔ یہاں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ نمازنے تو بظاہر کوئی نیکی پیدا نہیں کی پھر نمازیں پڑھنے کا کیافائدہ؟ تو یہاں یہ سمجھنا چاہئے کہ نماز کا قصور نہیں بلکہ ان نمازیوں کا قصور ہے جو نماز کو اس کی شرائط کے ساتھ ادا نہیں کرتے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے تو اس سے پہلے فرمایا کہ اَقِمِ الصَّلٰوۃ کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو۔ جب نماز یں اپنی شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں گی تو پھر بے حیائیوں اور بری باتوں سے روکیں گی۔ نماز کی بہت سی شرائط ہیں۔ وضو کرنا، پاک صاف ہونا، مردوں کے لئے مسجد میں آکر نماز پڑھنا، خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضورکھڑے ہونا۔ آنحضرتؐ نے اس بارہ میں ایک انتہائی اہم بات کی طرف توجہ دلائی اور وہ یہ کہ جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو یہ خیال ہو کہ تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم اتنا ہو کہ یہ خیال رہے کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے۔ وہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے جو میرے دل اور دماغ کے اندرونے حصے تک، گہرائی تک واقف ہے۔ کوئی خیال میرے دل میں نہیں آتا لیکن میرا خدا اس سے پہلے اس خیال کا علم رکھتا ہے۔ ہمارا خدا وہ خداہے جس کو کبھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اس خدا کو پتہ ہے کہ کون سی نماز خالص ہو کر خداتعالیٰ کی خاطر اور اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے لئے پڑھی جا رہی ہے اور کون سی نماز صرف دکھاوے کی خاطر پڑھی جا رہی ہے۔ پس جو نمازیں خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر پڑھی جائیں وہی مقبول نماز یں ہیں۔ وہی ایسی نمازیں ہیں جودلوں کی صفائی کرتی ہیں۔ وہی ایسی نمازیں ہیں جو بے حیائیوں سے روکتی ہیں۔ پس احمدی جب نماز پڑھے تو ایسی نماز کی تلاش کرے۔ ورنہ بظاہر چاہے جتنا بڑا کوئی نیک آدمی نظر آتا ہو اگر اس کا ہر عمل خداتعالیٰ کے خوف کو لئے ہوئے نہیں تو اس کی نمازیں بھی خداتعالیٰ قبول نہیں فرماتا۔ بلکہ اس کے ظاہری عمل اور قول اور اس کے دل کی اندرونی حالت میں اختلاف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسی نمازیں پڑھنے والوں کی نمازیں بجائے اصلاح کے ان کے لئے ہلاکت کا ذریعہ بنا دیتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(الماعون:5) پس ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے۔ کون سے نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے؟ فرمایا الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ(الماعون:5) جو اپنی نمازوں سے غافل ہوتے ہیں۔ بظاہر تو نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں لیکن دل دنیا داری میں لگے ہوتے ہیں۔ بظاہر تو حج بھی کئے ہوتے ہیں لیکن یہ نمازیں اور حج ان میں پاک تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے۔ وہ اپنی عملی زندگی میں بھول جاتے ہیں کہ خداانہیں صرف نمازوں ہی میں نہیں دیکھ رہا بلکہ عام زندگی میں بھی خداتعالیٰ انسان کی زندگی کے ہر قول اور فعل کا علم رکھنے والا ہے۔ پس نمازوں کی مقبولیت کے لئے اپنے ہر فعل کو درست کرنا ضروری ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے دل کی اندرونی حالت اور تمہارے عمل ایک جیسے نہیں تو ان لوگوں میں شامل ہو گے، ان کے زمرے میں آؤ گے جو الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَاءُوْنَ(الماعون:6) یعنی وہ جوصرف دکھاوے سے کام لیتے ہیں اور دکھاوے سے کام لینے والوں کی نمازیں جن کے دل حقیقت سے غافل ہوں ان کی نمازیں برائیوں سے روکنے کی بجائے ان کے لئے ہلاکت کا سامان بن جاتی ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں ہم جو اس زمانے کے امام کو مان کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر ہیں تو صرف یہ دعویٰ کافی نہیں۔ ہمیں اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنا ہو گا۔ وہ نمازیں پڑھنی ہوں گی جو ہر قسم کی برائیوں سے روک رہی ہوں۔ وہ نمازیں پڑھنی ہوں گی جو نیک عمل کرنے کی طرف آگے بڑھانے والی ہوں۔ اگر ہمارا نمازیں پڑھنا ہماری زندگیوں میں انقلاب نہیں لا رہا تو بڑے فکر کی ضرورت ہے۔

پس ایک احمدی مسلمان مومن کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اپنی نمازوں کو اپنے اندر دوسری اخلاقی تبدیلیوں کا پیمانہ بنائیں۔ یا اپنے اعلیٰ اخلاق کو اپنی نمازوں کی قبولیت کا پیمانہ سمجھیں۔ اگر ہمارے اخلاق اعلیٰ نہیں ہو رہے، اگر ہم اس زمانے کی بُرائیوں سے بچنے کی کوشش نہیں کر رہے تو ہم مجاہدہ نہیں کر رہے، ہم اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کر رہے۔ پس ہر احمدی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے جو مجاہدہ کرنا ہے اس میں سب سے پہلے خالص ہو کر خداتعالیٰ کی عبادت اور نمازوں کی ادائیگی ہے۔ دعاؤں اور ذکر الٰہی کی طرف توجہ ہے۔ پھر اپنی توفیق کے مطابق صدقہ و خیرات کرنا ہے۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات بھی بلاؤں کو دور کرتا ہے۔ آج اس زمانے میں دنیاداری، اخلاقی گراوٹ، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا اللہ تعالیٰ کی حقیقی عبادت سے غافل رہنا ان سے بڑی اور کون سی بلا ہو گی جو ہماری زندگیوں کو تباہ کر رہی ہے۔ پس جس کو جتنی توفیق ہے صدقہ و خیرات کرے اور دکھاوے کے لئے نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرے۔ جو کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کیاجائے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پانے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیتوں کے مطابق انسان سے سلوک کرتا ہے اور جو عمل نیک نیت سے ہو وہ یقینا پاک تبدیلیوں میں بڑھاتا ہے۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نفس کی تبدیلی کے لئے ہر قسم کے حیلے اور کوشش کی ضرورت ہے۔ ان تمام قسم کے اخلاق کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کا ذکر فرمایا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے سے نرمی اور حسن اخلاق سے بات کرو اور حسن اخلاق کا سلوک کرو۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی امانتوں کی حفاظت کرو۔ ہر عہدیدار کے پاس کوئی بھی جماعتی کام ایک امانت ہے اسے ایمانداری سے ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو اللہ تعالیٰ کی پسند سے باہر نکل جائے نہ اس کا دین رہتا ہے اور نہ اس کی دنیا رہتی ہے۔ بعض دفعہ انسان عارضی نفسانی خواہشات کی خاطر امانت کا حق ادا نہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آ سکتا ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے انسانوں کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن خداتعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ ایک احمدی کو اپنی امانت کا حق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں۔ پھر عہد کو پوراکرنا ہے۔ ہر احمدی کا ایک عہد ہے اس نے نئے سرے سے یہ عہد کیاہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنی عبادتوں کا بھی حق ادا کرے گا اور دوسرے تمام احکامات جو خداتعالیٰ نے دئیے ہیں ان پر بھی عمل کر ے گا۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو عمل خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہم کرتے ہیں عبادت بن جاتا ہے۔ پس کسی حکم کو بھی چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔

پھر ایک اعلیٰ خُلق اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا کہ سچائی پر قائم ہو جاؤ۔ ایسی سچائی ہو، ایسی بات کرو جو قول سدید ہو، ایسی بات ہو جس میں کوئی پیچ نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ ایسی بات کرو جو واضح نہ ہو۔ صاف ستھری بات کرو۔ ایسی بات نہ ہو جس کی تاویلیں کرنی پڑیں۔ پھر فرمایا ایک حکم یہ ہے کہ حسد کرنے سے بچو۔ کیونکہ حسد بھی ایک انسان کو اندر ہی اندر جلا دیتی ہے۔ پھر حسد کی وجہ سے وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ایک مومن کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ حسد کرے۔ خود بھی حسد سے بچو اور حسدسے بچنے کی دعا بھی کرو۔ فی زمانہ ہمارے کتنے ہی حاسد ہیں جو جماعتی ترقی کو دیکھ نہیں سکتے، بظاہر اوپر سے میٹھے ہیں لیکن اندر سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا گر ہم آپس میں ہی ایک نہیں ہوں گے اور بعض معاملات میں ایک دوسرے سے حسد کرتے رہیں گے تو جو ہم سے حسد کرنے والے ہیں ان کے شر سے کس طرح بچیں گے؟ پس آپس میں پیار اور محبت کا بہترین نمونہ دکھائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ لغویات سے بچو۔ کیونکہ اس زمانے میں بھی بہت سی ایسی لغویات ہیں جو شیطان کی گود میں پھینک دیتی ہیں۔ بہرحال یہ ایک لمبی فہرست ہے اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں بتائی ہے۔ میں جماعتی نظام کو بھی کہتا ہوں اور ذیلی تنظیموں انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی کہ ایسے پروگرام بنائیں جن سے اعلیٰ اخلاق اپنی جماعت کے، اپنی تنظیم کے ہرممبر میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ پرانے احمدیوں کے بھی اخلاق کے معیار بلند کریں اور نومبائعین کے اندر بھی اخلاق پیدا کریں۔ نومبائعین کو سنبھالنے کے لئے ساتھ کے ساتھ تمام ذیلی تنظیمیں انہیں اپنے اندر سموتی چلی جائیں۔ آئندہ انشاء اللہ دو تقریروں میں کچھ بنیادی اخلاق پر مزید روشنی ڈالوں گا کیونکہ اب تو وقت کافی زیادہ ہو گیا ہے۔ آپ جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں ان باتوں کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خلافت جوبلی جو آپ منا رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان میں مضبوط ہوں گے اور نیک اعمال کرنے والے ہوں گے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کو ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا ہے جو نیک اعمال کے ساتھ عبادت کرنے والے ہوں گے۔ پس بہت فکرسے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں۔ نائیجیریا کی جماعت تو خلافت کی برکات کا براہ راست مشاہدہ کر چکی ہے۔ آپ لوگوں کو تو بہت زیادہ اس انعام کی قدر کرنی چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ یہاں مساجد سمیت خلافت سے علیحدہ ہو گئے تھے آج ان کی کیا حیثیت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ لیکن جو لوگ خلافت کے انعام سے چمٹے رہے، جنہوں نے اپنے عہد بیعت کو نبھانے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے شمار انعامات سے نوازا۔ آج ہر شہرمیں آپ جماعت کی ترقی کے نظارے دیکھتے ہیں۔ آج آپ کی یہاں ہزاروں میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ خلافت کے ساتھ ہی برکت ہے۔ پس ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس انعام سے فیضیاب ہوتے رہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد نمبر 15 شمارہ نمبر 21 مورخہ 23 تا 29 مئی 2008ء صفحہ 5 تا صفحہ 6)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا خلاصہ
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 2؍ مئی 2008ء شہ سرخیاں

    جلسوں کی اہمیت، حضرت مسیح موعودؑ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کریں، اپنے اندرایک تبدیلی پیداکریں، نمازوں کی حفاظت ،حسن اخلاق ،خلافت کے انعام کی قدرکریں۔

    فرمودہ مورخہ 2؍مئی 2008ء بمطابق 2؍ہجرت 1387 ہجری شمسی بمقام ’’حدیقہ احمد‘‘ ابوجہ (نائیجیریا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور